Surat ul Qadar

Surah: 97

Verse: 4

سورة القدر

تَنَزَّلُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ وَ الرُّوۡحُ فِیۡہَا بِاِذۡنِ رَبِّہِمۡ ۚ مِنۡ کُلِّ اَمۡرٍ ۙ﴿ۛ۴﴾

The angels and the Spirit descend therein by permission of their Lord for every matter.

اس ( میں ہر کام ) کے سر انجام دینے کو اپنے رب کے حکم سے فرشتے اور روح ( جبرائیل ) اترتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Therein descend the angels and the Ruh by their Lord's permission with every matter. meaning, the angels descend in abundance during the Night of Al-Qadr due to its abundant blessings. The angels descend with the descending of blessings and mercy, just as they descend when the Qur'an is recited, they surround the circles of Dhikr (remembrance of Allah) and they lower their wings with true respect for the student of knowledge. In reference to Ar-Ruh, it is said that here it means the angel Jibril. Therefore, the wording of the Ayah is a method of adding the name of the distinct object (in this case Jibril) separate from the general group (in this case the angels). Concerning Allah's statement, مِّن كُلِّ أَمْرٍ (with every matter), Mujahid said, "Peace concerning every matter." Sa`id bin Mansur said, Isa bin Yunus told us that Al-Amash narrated to them that Mujahid said concerning Allah's statement, سَلَـمٌ هِىَ (There is peace), "It is security in which Shaytan cannot do any evil or any harm." Qatadah and others have said, "The matters are determined during it, and the times of death and provisions are measured out (i.e., decided) during it." Allah says, فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ Therein is decreed every matter of decree. (44:4) Then Allah says, سَلَمٌ هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

4۔ 1 روح سے مراد حضرت جبرائیل ہیں یعنی فرشتے حضرت جبرائیل سمیت، اس رات میں زمین پر اترتے ہیں ان کاموں کو سر انجام دینے کے لیے جن کا فیصلہ اس سال میں اللہ فرماتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣] روح سے مراد جبریل امین ہیں جن کی قدر و منزلت کی وجہ سے ان کا علیحدہ ذکر کیا گیا اور اتنی کثیر تعداد میں فرشتے نازل ہوتے ہیں جن سے ساری زمین بھر جاتی ہے اور ہر && حکم && سے مراد انسانوں کی تقدیریں ہیں جو اس دن طے کی جاتی ہیں۔ جیسا کہ سورة الدخان کی آیت ( فِيْهَا يُفْرَقُ كُلُّ اَمْرٍ حَكِيْمٍ ۝ ۙ ) 44 ۔ الدخان :4) کے تحت اس کی تفصیل گزر چکی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) تنزل المئکۃ والروح فیھا…” الروح “ سے مراد جبریل (علیہ السلام) ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(نزل بہ الروح الامین) (الشعرائ : ١٩٣)” یہ قرآن روح الامین لے کر اترے ہیں۔ “ ملائکہ میں شامل ہونے کے باوجود ان کے شرف کی وجہ سے ان کا الگ ذکر فرمایا، جس طرح سورة بقرہ کی اس آیت میں فرشوتں کے ذکر کے بعد ان کے شرف کی وجہ سے ان کا خاص طور پر الگ ذکر فرمایا :(من کان عدوا للہ و ملائکتہ و رسلہ و جبرئیل و میکسل فان اللہ عدو للکفرین) (البقرۃ : ٩٨) ” جو کوئی اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کے رسلووں اور جبریل اور میکال کا دشمن ہو تو بیشک اللہ سب کافروں کا دشمن ہے۔ “ (٢) یعنی ملائکہ اور جبریل (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہر امر کے متعلق آئندہ سال میں جو کچھ ہونے کا فیصلہ ہوچکا ہوتا ہے وہ لے کر زمین پر اترتے ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Descent of the Angels and the Spirit with Divine Decrees Verse [ 4] نَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّ‌وحُ (The angels and the Spirit descend in it, with the leave of their Lord, along with every command.) &Spirit& here refers to Jibra&il (علیہ السلام) . Sayyidna Anas (رض) narrates that the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وسلم said: |"When the Night of Qadr occurs, Jibra&il (علیہ السلام) descends on the earth with a huge throng of angels and all of them pray for every servant of Allah, man or woman, busy in salah or dhikr, to be blessed by Allah.|" [ Mazhari ]. In the phrase مِّن كُلِّ أَمْرٍ‌ (along with every command), the preposition min is used in the sense of &with& as in [ 13:11] يَحْفَظُونَهُ مِنْ أَمْرِ‌ اللَّـهِ. The verse under comment means the angels bring down, during the Night of Qadr, the decree for everything destined to occur in the coming year. Some of the commentators, like Mujahid and others, say that the phrase مِّن كُلِّ أَمْرٍ‌min kulli amrin is syntactically related to salam, and the word Amr means &everything&. Thus they interpret the statement to mean: &The night is a security from every evil, harm and calamity.& [ Ibn Kathir ].

تنزل الملکة والروح روح سے مراد جبرئیل امین ہیں۔ حضرت انس کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب شب قدر ہوتی ہے تو جبرئیل امین فرشتوں کی بڑی جماعت کے ساتھ زمین پر اترتے ہیں اور جتنے اللہ کے بندے مرد و عورت نماز یا ذکر اللہ میں مشغول ہوتے ہیں سب کے لئے رحمت کی دعا کرتے ہیں۔ (مظہری) من کل امر میں حرف من بمعنے با رہے جیسے یحفظونہ من امر اللہ آلایتہ میں بھی من و بمعنے باء استعمال ہوا ہے۔ معنے یہ ہیں کہ فرشتے لیلتہ القدر میں تمام سال کے اندر پیش آنے والے تقدیری واقعات لے کر زمین پر اترتے ہیں۔ اور بعض حضرات مفسرین مجاہد وغیرہ نے من کل امر کو سلام کے ساتھ متعلق کر کے یہ معنے قرار دیئے ہیں کہ یہر ات سلامتی ہے ہر شر و آفت اور بری چیز سے۔ (ابن کثیر)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

تَنَزَّلُ الْمَلٰۗىِٕكَۃُ وَالرُّوْحُ فِيْہَا بِـاِذْنِ رَبِّہِمْ۝ ٠ ۚ مِنْ كُلِّ اَمْرٍ۝ ٤ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا فرشته الملائكة، ومَلَك أصله : مألك، وقیل : هو مقلوب عن ملأك، والمَأْلَك والمَأْلَكَة والأَلُوك : الرسالة، ومنه : أَلَكَنِي إليه، أي : أبلغه رسالتي، والملائكة تقع علی الواحد والجمع . قال تعالی: اللَّهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلائِكَةِ رُسُلًا [ الحج/ 75] . قال الخلیل : المَأْلُكة : الرسالة، لأنها تؤلک في الفم، من قولهم : فرس يَأْلُكُ اللّجام أي : يعلك . ( ا ل ک ) الملئکۃ ( فرشتے ) اور ملک اصل میں مالک ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ ملاک سے معلوب ہے اور مالک وما لکۃ والوک کے معنی رسالت یعنی پیغام کے ہیں اسی سے لکنی کا محاورہ ہے جس کے معنی ہیں اسے میرا پیغام پہنچادو ، ، ۔ الملائکۃ کا لفظ ( اسم جنس ہے اور ) واحد و جمع دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ { اللهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا } ( سورة الحج 75) خدا فرشتوں میں سے پیغام پہنچانے والے منتخب کرلیتا ہے ۔ خلیل نے کہا ہے کہ مالکۃ کے معنی ہیں پیغام اور اسے ) مالکۃ اس لئے کہتے ہیں کہ وہ بھی منہ میں چبایا جاتا ہے اور یہ فرس یالک اللجام کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں گھوڑے کا منہ میں لگام کو چبانا ۔ روح ( فرشته) وسمّي أشراف الملائكة أَرْوَاحاً ، نحو : يَوْمَ يَقُومُ الرُّوحُ وَالْمَلائِكَةُ صَفًّا[ النبأ/ 38] ، تَعْرُجُ الْمَلائِكَةُ وَالرُّوحُ [ المعارج/ 4] ، نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] ، سمّي به جبریل، وسمّاه بِرُوحِ القدس في قوله : قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ [ النحل/ 102] ، وَأَيَّدْناهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ [ البقرة/ 253] ، وسمّي عيسى عليه السلام روحاً في قوله : وَرُوحٌ مِنْهُ [ النساء/ 171] ، وذلک لما کان له من إحياء الأموات، وسمّي القرآن روحاً في قوله : وَكَذلِكَ أَوْحَيْنا إِلَيْكَ رُوحاً مِنْ أَمْرِنا [ الشوری/ 52] ، وذلک لکون القرآن سببا للحیاة الأخرويّة الموصوفة في قوله : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت/ 64] ، والرَّوْحُ التّنفّس، وقد أَرَاحَ الإنسان إذا تنفّس . وقوله : فَرَوْحٌ وَرَيْحانٌ [ الواقعة/ 89] روح اور قرآن نے ذو شرف ملائکہ کو بھی ارواح سے موسوم کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : يَوْمَ يَقُومُ الرُّوحُ وَالْمَلائِكَةُ صَفًّا[ النبأ/ 38] جس روز کہ روح فرشتہ اور دیگر ملائکہ صفیں باندھ کھڑے ہوں گے ۔ تَعْرُجُ الْمَلائِكَةُ وَالرُّوحُ [ المعارج/ 4] فرشتے اور جبریل اس کی طرف چڑھتے ہیں ۔ اور اٰت کریمہ : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اسے روح امین لے کر اترا ۔ میں روح امین سے مراد جبریل (علیہ السلام) ہیں ۔ اور دوسری آیت میں جبریل (علیہ السلام) کو روح القدس بھی کہا ہے ۔ جیسے فرمایا : قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ [ النحل/ 102] اس قرآن کو روح القدس لے کر آتے ہیں ۔ قرآن نے حضرت عیٰسی (علیہ السلام) کو روح کہہ کر پکارا ہے ۔ چناچہ فرمایا : وَرُوحٌ مِنْهُ [ النساء/ 171] اور وہ ایک روح تھی جو خدا کی طرف سے آئی اور عیٰسی کو روح اس لئے کہا ہے کہ وہ دو مردوں کو زندہ کرتے تھے ۔ اور قرآن کو بھی روح کہا گیا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَكَذلِكَ أَوْحَيْنا إِلَيْكَ رُوحاً مِنْ أَمْرِنا [ الشوری/ 52] اس طرح ہم نے اپنے حکم سے ( دین کی ) جان ( یعنی یہ کتاب) تمہاری طرف وحی کے ذریعہ بھیجی ۔ اس لئے قرآن سے حیات اخردی حاصل ہوتی ہے جس کے متعلق فرمایا : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت/ 64] اور دار آخرت کی زندگی ہی اصل زندگی ہے ۔ اور روح ( بفتح الراء ) کے معنی سانس کے ہیں اور اراح الانسان کے معنی تنفس یعنی سانس لینے کے اور آیت : فَرَوْحٌ وَرَيْحانٌ [ الواقعة/ 89] توراحت اور مذاق ہے ۔ میں ریحان سے خوشبودار چیزیں مراد ہیں اور بعض نے رزق مراد لیا ہے الروح : کے متعلق مختلف اقوال ہیں۔ (1) اس سے مراد ہے ارواح بنی آدم۔ (2) بنی آدم فی انفسہم۔ (3) خد ا کی مخلوق میں سے بنی آدم کی شکل کی ایک مخلوق جو نہ فرشتے ہیں نہ بشر۔ (4) حضرت جبرئیل علیہ السلام۔ (5) القران (6) جمیع مخلوق کے بقدر ایک عظیم فرشتہ وغیرہ۔ ( اضواء البیان) ا۔ ابن جریر نے ان جملہ اقوال میں سے کسی ایک کو ترجیح دینے سے توقف کیا ہے ۔ ب۔ مودودی، پیر کرم شاہ، صاحب تفسیر مدارک، جمہور کے نزدیک حضرت جبریل (علیہ السلام) ہیں۔ ج۔ مولانا اشرف علی تھانوی (رح) کے نزدیک تمام ذی ارواح۔ مولانا عبد الماجد دریا بادی (رح) کے نزدیک اس سیاق میں روح سے مراد ذی روح مخلوق لی گئی ہے۔ وأَذِنَ : استمع، نحو قوله : وَأَذِنَتْ لِرَبِّها وَحُقَّتْ [ الانشقاق/ 2] ، ويستعمل ذلک في العلم الذي يتوصل إليه بالسماع، نحو قوله : فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ البقرة/ 279] . ( اذ ن) الاذن اور اذن ( الیہ ) کے معنی تو جہ سے سننا کے ہیں جیسے فرمایا ۔ { وَأَذِنَتْ لِرَبِّهَا وَحُقَّتْ } ( سورة الِانْشقاق 2 - 5) اور وہ اپنے پروردگار کا فرمان سننے کی اور اسے واجب بھی ہے اور اذن کا لفظ اس علم پر بھی بولا جاتا ہے جو سماع سے حاصل ہو ۔ جیسے فرمایا :۔ { فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللهِ وَرَسُولِهِ } ( سورة البقرة 279) تو خبردار ہوجاؤ کہ ندا اور رسول سے تمہاری چنگ ہے ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ أمر الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته : إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود/ 123] ( ا م ر ) الامر ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔ { وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ } ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤{ تَنَزَّلُ الْمَلٰٓئِکَۃُ وَالرُّوْحُ فِیْہَا بِاِذْنِ رَبِّہِمْ مِّنْ کُلِّ اَمْرٍ ۔ } ” (اس رات میں) اُترتے ہیں فرشتے اور روح اپنے رب کے حکم سے ہر کام کے لیے۔ “ روح سے مراد یہاں روح الامین یعنی حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ہیں۔ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) فرشتوں کے سردار ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ہاں انہیں خصوصی مقام و مرتبہ حاصل ہے ۔ جیسا کہ سورة التکویر میں فرمایا گیا : { ذِیْ قُوَّۃٍ عِنْدَ ذِی الْعَرْشِ مَکِیْنٍ - مُّطَاعٍ ثَمَّ اَمِیْنٍ ۔ } ” وہ (جبرائیل (علیہ السلام) بہت قوت والا ہے ‘ صاحب عرش کے قرب میں اس کا ٹھکانہ ہے۔ اس کی اطاعت کی جاتی ہے اور وہاں وہ امانت دار بھی ہے “۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں جہاں کہیں حضرت جبرائیل (علیہ السلام) اور فرشتوں کا ذکر آتا ہے تو ان (علیہ السلام) (حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کا ذکر عام طور پر علیحدہ کیا جاتا ہے۔ لیلۃ القدر میں حضرت جبرائیل (علیہ السلام) اور فرشتوں کا خصوصی نزول دراصل اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل و تنفیذ کے حوالے سے ہوتا ہے۔ سورة الدخان میں لیلۃ القدر یا لیلۃ مبارکہ کے بارے میں ایک خصوصی بات یہ بتائی گئی ہے : { فِیْہَا یُفْرَقُ کُلُّ اَمْرٍ حَکِیْمٍ ۔ } کہ اس رات میں تمام ُ پر حکمت امور کے فیصلے صادر کیے جاتے ہیں۔ سورة الدخان کے مطالعے کے دوران اس آیت کے تحت اس موضوع پر تفصیلی گفتگو ہوچکی ہے۔ مختصراً یہ کہ لیلۃ القدر اللہ تعالیٰ کی تکوینی سلطنت سے متعلق فیصلوں کے لیے سالانہ بجٹ سیشن کا درجہ رکھتی ہے۔ اس رات میں اگلے سال کے لیے تمام اہم امور کے فیصلے کر کے تعمیل و تنفیذ کی غرض سے فرشتوں کے حوالے کردیے جاتے ہیں۔ چناچہ فرشتے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کی قیادت میں ان احکامات پر عمل درآمد کے لیے پوری زمین میں پھیل جاتے ہیں۔ نظامِ کائنات سے متعلق اللہ تعالیٰ کی اس ” تدبیر ِامر “ کا ذکر سورة السجدۃ کی اس آیت میں بھی آیا ہے : { یُدَبِّرُ الْاَمْرَ مِنَ السَّمَآئِ اِلَی الْاَرْضِ ثُمَّ یَعْرُجُ اِلَیْہِ } (آیت ٥) ” وہ تدبیر کرتا ہے اپنے امر کی آسمان سے زمین کی طرف ‘ پھر وہ (امر) چڑھتا ہے اس کی طرف “ ۔ گویا اللہ تعالیٰ کے احکامات کی تعمیل کے بعد متعلقہ فرشتے تکمیلی رپورٹیں بھی بھیجتے ہیں ۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

3 "The Spirit": Gabriel (peace be on him) , who has been mentioned separately from the angels in view of his unique eminence, honour and merit. 4 That is, they do not descend of their own accord but by leave of their Lord, and "every decree" implies amr hakim (a wise decree) as described in Ad-Dukhan: 5.

سورة القدر حاشیہ نمبر : 3 روح سے مراد جبریل علیہ السلام ہیں جن کے فضل و شرف کی بنا پر ان کا ذکر فرشتوں سے الگ کیا گیا ہے ۔ سورة القدر حاشیہ نمبر : 4 یعنی وہ بطور خود نہیں آتے بلکہ اپنے رب کے اذن سے آتے ہیں ۔ اور ہر حکم سے مراد وہی ہے جسے سورۃ دخان آیت 5 میں امر حکیم ( حکیمانہ کام ) کہا گیا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

3: اس رات میں فرشتوں کے اترنے کے دو مقصد ہوتے ہیں، ایک یہ کہ اس رات جو لوگ عبادت میں مشغول ہوتے ہیں فرشتے اُن کے حق میں رحمت کی دعا کرتے ہیں اور دوسرا مقصدآیت کریمہ میں بتایا گیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ اس رات میں سال بھر کے فیصلے فرشتوں کے حوالے فرمادیتے ہیں، تاکہ وہ اپنے اپنے وقت پر اُن کی تعمیل کرتے رہیں۔ ’’ہر کام اترنے‘‘ کا یہی مطلب مفسرین نے بیان فرمایا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(97:4) تنزل الملئکۃ والروض فیہا باذن ربھم : تنزل اصل میں تتنزل تھا۔ ایک تاء حذف ہوگئی۔ تنزل (تفعل) مصدر سے مضارع کا صیغہ واحد مؤنث غائب (بمعنی جمع) وہ اترتے ہیں۔ والروح کا عطف الملئکۃ پر ہے (خاص کا عطف عام پر) ۔ فیہا میں ضمیر ھا واحد مؤنث غائب کا مرجع لیلۃ القدر ہے۔ اترتے ہیں فرشتے اور روح اس (رات) میں۔ الروح سے کیا مراد ہے ؟ بعض مفسرین کہتے ہیں الروح سے مراد حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ہیں جو گروہ ملائکہ کے سردار ہیں۔ اس لئے ان کا ذکر خاص کیا گیا ورنہ ملائکہ میں یہ بھی شامل تھے۔ بعض کے نزدیک روح ایک اور فرشتے کا نام ہے جس کو روح القدس کہتے ہیں۔ بعض علماء کا قول ہے کہ روح سے ایمان داروں کی روحیں مراد ہیں۔ باذن ربھم : ای بامر ربھم۔ اپنے رب کے حکم سے یہ جملہ تنزل سے متعلق ہے۔ من کل امر۔ ای من اجل کل امر (بیضاوی، کشاف) یعنی ہر اس کام کی غرض سے جو اس رات اگلے سال کے لئے مقدر ہوتا ہے۔ سلام : معانقہ کی وجہ سے اس کی دو صورتیں جائز ہیں :۔ (1) وقف سلام سے قبل من کل امر پر کیا جاوے۔ اس صورت میں اگلے جملہ کے ہی کے ساتھ ملا کر سلام ہی پڑھا جائے گا۔ سلام خبر مقدم اور ہی مبتدا مؤخر ہوگا۔ بیضاوی اور زمخشری نے اسی کو اختیار کیا ہے۔ (2) وقف دلام کے بعد کیا جاوے۔ اور سلام سے قبل ہی محذوف متصور ہو۔ اس صورت میں ہی سلام میں ہی مبتدا محذوف اور سلام اس کی خبر ہوگی۔ اس کو بیان القران اور بیضاوی میں اختیار کیا گیا ہے۔ یعنی یہ رات سلامتی کی ہے شیطانی آفات اور اس کے مکرو زور کے مصائب جو ابن آدم کے لئے تیار رہتے ہیں۔ اس رات نیک ایمانداروں کے لئے ان سے سلامتی اور امن ہوتا ہے۔ مفسرین نے سلام کے اور بھی کئی وجوہات لکھے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 یعنی سال بھر میں جو کام ہوتا ہے اس رات اللہ تعالیٰ اس کا فیصلہ کرتا ہے اور فرشتے اور روح اس کے مطابق عمل درآمد کتے ہیں جیسا کہ سورة دخان میں لیلۃ مبارکہ کے ذکر کے بعد فرمایا فیھا یفرق کل امرحکیم امرا من عندنا اس میں ہمارے حکم کے مطابق ہر حکمت والے کام کا انتظام کیا جاتا ہے۔ “ (آیت 54) ’ دروح “ سے مراد حضرت جبریل ہیں، اگر مفسرین کے اس بارے میں بعض اور اقوال بھی ہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

7۔ چناچہ حدیث بیہقی میں حضرت انس سے مرفوعا مروی ہے کہ لیلة القدر میں جبریل (علیہ السلام) فرشتوں کے ایک گروہ میں آتے ہیں اور جس کسی کو عبادت الہی میں مشغول دیکھتے ہیں اس کے لئے دعائے مغفرت کرتے ہیں، دعائے رحمت اور سلامتی میں تلازم ہے، اسی کو قرآن میں سلام فرمایا ہے اور امر خیر سے مراد یہی ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : لیلۃ القدر ایک ہزار مہینے سے افضل ہے اس میں حضرت جبرئیل امین (علیہ السلام) دوسرے ملائکہ کے ساتھ بنفس نفیس نزول فرماتے ہیں۔ القدر کا معنی تقدیر بھی ہے اس لیے یہ سورت اسم بامسمّیٰ ہے کیونکہ اس میں لوگوں کی تقدیر کا فیصلہ ہوتا ہے اور یہ رات اللہ تعالیٰ کی رحمت سے بھر پورہوتی ہے۔ اس رات میں اپنے رب کے حکم کے مطابق مختلف امور کے لیے جبریل امین اور کثیر تعداد میں فرشتے نازل ہوتے ہیں اور یہ رات صبح طلوع ہونے تک سلامتی سے بھر پور ہوتی ہے۔ کچھ بزرگوں نے ضعیف روایات کی بنیاد پر شعبان کی پندرہویں رات کی یہ فضیلت بیان کی ہے۔ جس بنا پر بیشمار لوگ اس رات کو شب برأت کہتے ہیں حالانکہ شب برأت کا نام کسی حدیث میں نہیں پایا جاتا کیونکہ شب فارسی زبان کا لفظ ہے اور برأت کا عربی زبان کا لفظ ہے۔ لیلۃ القدر سے مراد وہی رات ہے جس میں قرآن مجید نازل کیا گیا ہے اور قرآن مجید رمضان میں نازل ہوا۔ لہٰذا یہ رات پندرہویں شعبان کی بجائے رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے کوئی ایک رات ہے جو لوگ شب برأت کو شب قدر کا درجہ دیتے ہیں۔ وہ امت کو ہر سال خیر کثیر سے محروم رکھتے ہیں۔ ان دلائل کی روشنی میں شب برأت کی بجائے شب قدر کو ہی فیصلوں کی رات ماننا چاہیے۔ کچھ صوفیائے کرام پوری رات کو خیر کی رات قرار دینے کی بجائے کہتے ہیں کہ اس رات میں قبولیت کا ایک لمحہ آتا ہے جس میں کی گئی ہر دعا قبول ہوتی ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس رات کی نشانی یہ ہے کہ اس میں تھوڑی یا زیادہ بارش ضرور ہوتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب اس رات کی نشاندہی کی گئی تو اس رات بارش ہوئی تھی یہ اتفاق کی بات تھی لیلۃ القدر کی مستقل نشانی نہیں ہے۔ کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں اور نہ ہی آپ کے بعد ہر سال اس رات بارش ہوئی اور نہ ہوتی ہے لہٰذا بارش ہونا اس رات کی نشانی نہیں اس کی نشانی یہ ہے کہ اس رات کی صبح کی روشنی اتنی تیز نہیں ہوتی جس قدر دوسرے دنوں کی روشنی تیز ہوتی ہے یہ نشانی بھی وہی شخص پہچان سکتا ہے جو پہلے سے اس بات کا تجربہ اور مشاہدہ رکھتاہو۔ اس رات کے بارے میں عام طور پر دوسوال کیے جاتے ہیں۔ ١۔ جب مکہ میں رات ہوتی ہے تو پوری دنیا میں رات نہیں ہوتی کہیں رات کا کچھ حصہ ہوتا ہے اور کہیں رات کی بجائے دن ہوتا ہے، ایسی صورت میں ان علاقوں میں لیلۃ القدر کو کس طرح تلاش کیا جائے۔ یہ سوال کرنے والوں کو سوچنا چاہیے کہ یہ صورت حال نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں بھی موجود تھی، لیکن نہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی وضاحت فرمائی اور نہ صحابہ کرام (رض) نے یہ سوال کرنے کی ضرورت سمجھی۔ جس رب نے لیل ونہار کا نظام بنایا اور یہ سورت بنائی ہے۔ اسے سب معلوم تھا اور ہے لہٰذا ایسی باتیں بنانے کی بجائے رب رحیم کی رحمت پر یقین رکھنا چاہیے اور لیلۃ القدر اپنے اپنے ملک کی طاق راتوں میں تلاش کرنی چاہیے۔ تلاش کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ ضرور اجر دیتا ہے کیونکہ اس کا فرمان ہے کہ وہ نیکی کرنے والوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔ ٢۔ بعض علماء یہ بیان کرتے ہیں کہ یہ رات ہر رمضان میں بدل بدل کر آتی ہے یہ بات بھی صحیح معلوم نہیں ہوتی کیونکہ قرآن مجید لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر ایک ہی رات اور یکبارگی نازل کیا گیا ہے لہٰذا اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ ایک متعین رات ہے جس میں تبدیلی نہیں ہوتی۔ اس لیے اس کے بدل بدل کر آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور نہ ہی یہ بات حدیث اور کسی صحابی کے قول سے ثابت ہوتی ہے۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ یہ رات رمضان کے آخری عشرے کی پانچ طاق راتوں میں سے کوئی ایک رات ہے۔ اس رات کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے بارے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پوری طرح نہیں جانتے کہ اس میں کیا کیا فیصلے کیے جاتے ہیں ؟ جب نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ بات فرما دی گئی ہے کہ آپ پوری طرح نہیں جانتے تو ہم کون ہوتے ہیں کہ لیلۃ القدر اور اس کی نشانیوں کو دو اور دو چار کی طرح بیان کریں، ہمارا کام اس رات میں عبادت کرنا ہے لہٰذا ہمیں اپنا کام کرنا چاہیے۔ (عَنْ عَآءِشَۃَ قَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تَحَرَّوْا لَےْلَۃَ الْقَدْرِ فِی الْوِتْرِ مِنَ الْعَشْرِ الْاَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ ) (رواہ البخاری : باب تحری لیلۃ القدر فی الوتر من العشر الأواخر) ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا شب قدر کو رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔ “ اس رات کا افضل ترین ذکر : (اَللّٰھُمَّ إِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ ) (مشکوٰۃ : کتاب الصوم) ” اے اللہ تو معاف کرنے والا اور معافی کو پسند کرتا ہے اس لیے مجھے معاف فرما۔ “ اعتکاف : انسان کی جبلّت میں یہ بات موجود ہے کہ جب بھی اسے کوئی پریشانی یا مشکل مسئلہ در پیش ہو تو وہ تنہائی پسند کرتا ہے تاکہ پیش آمدہ مسئلے کا حل سکون کے ساتھ سوچ سکے۔ دنیا کا کوئی مذہب ایسا نہیں جس میں یکسوئی اور خلوت کو خصوصی مقام حاصل نہ ہو۔ ہر زمانے میں تزکیہ نفس اور روحانی بلندیوں کے حصول کے لیے لوگ غاروں اور جنگلوں میں جا کر چلہ کشی کرتے رہے ہیں کچھ لوگ تو ہمیشہ کے لیے وہاں کے ہو کر رہ گئے۔ اسلام نے تارک الدنیا ہو کر رہبانیت اختیار کرنے کی حوصلہ افزائی نہیں کی البتہ اس فطری ضرورت کا لحاظ اور روحانی بلندیوں کے حصول کے لیے اعتکاف کی ترغیب دی ہے۔ جس میں تنہائی بھی ہے اور لوگوں کے ساتھ باجماعت نماز اور جمعہ ادا کرنے کی صورت اجتماعیت بھی پائی جاتی ہے گویا کہ اعتکاف کرنے والا اپنی انفرادی عبادت کے ساتھ اجتماعی عبادت میں بھی شریک ہوتا ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تنہا بیٹھ کر ذکر کرنا بہت پسند تھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غار حرا میں تنہائی میں ذکر ہی کر رہے تھے کہ ” اقرا “ کا پیغام آیا۔ امام بخاری (رض) نے ان الفاظ میں اس کا تذکرہ کیا ہے : (ثُمَّ حُبِّبَ إِلَیْہِ الْخَلَاءُ وَکَانَ ےَخْلُوْ بِغَارِ حِرَاءَ فَےَتَحَنَّثُ فِےْہِ وَھُوَ التَّعَبُّدُ الَّلے الِی ذَوَاتِ الْعَدَدِ قَبْلَ اَنْ ےَنْزِعَ إِلٰی اَھْلِہٖ وَےَتَزَوَّدُ لِذٰلِکَ ثُمَّ ےَرْجِعُ إِلٰی خَدِےْجَۃَ فَےَتَزَوَّدُ لِمِثْلِھَا حَتّٰی جَاءَ ہُ الْحَقُّ وَھُوَ فِیْ غَارِ حِرَاءَ فَجَاءَ ہُ الْمَلَکُ فَقَالَ اِقْرَأ) (رواہ البخاری : کتاب کیف کان بدء الوجی) ” پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خلوت پسند ہوگئے اور آپ غار حرا میں کئی شب وروز سوچ بچار کرتے رہتے اور اس وقت آپ کی یہی عبادت ہوا کرتی تھی جب کھانے پینے کا سامان ختم ہوجاتا تو گھر سے دوبارہ لے جاتے یہاں تک کہ غار حرا میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جبریل امین (علیہ السلام) حق لے کر آئے۔ “ (عَنْ عَاءِشَۃَ قَالَتْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِذَا اَرَادَ اَنْْ یَّعْتَکِفَ صَلَّی الْفَجْرَ ثُمَّ دَخَلَ فِیْ مُعْتَکَفِہٖ ) (رواہ ابوداؤد، ابن ماجۃ، مشکوۃ : باب الاعتکاف) ” حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب اعتکاف بیٹھنے کا ارادہ فرماتے تو فجر کی نماز پڑھ کر جائے اعتکاف میں داخل ہوتے۔ “ ( آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکیسویں رات مسجد میں جاگتے اور اگلی صبح اعتکاف کے خیمے میں تشریف لے جاتے۔ ) (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) قَالَتْ اَلسُّنَّۃُ عَلَی الْمُعْتَکِفِ اَنْ لَّا ےَعُوْدَ مَرِےْضًا وَلَا ےَشْھَدَ جَنَازَۃً وَلَا ےَمَسَّ اِمْرَاۃً وَلَا ےُبَاشِرُھَا وَلَا ےَخْرُجُ لِحَاجَۃٍ إِلَّا لِمَا لَا بُدَّمِنْہُ وَلَا اِعْتِکَافَ إِلَّا بِصَوْمٍ وَلَا اِعْتِکَافَ إِلََّا فِیْ مَسْجِدِ جَامِعٍ ) (مشکوٰۃ : باب الاعتکاف قال البانی حسن صحیح) ” حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں اعتکاف کرنے والے کے لیے سنت یہ ہے کہ وہ بیمارپرسی ‘ جنازے میں شرکت، بیوی سے مباشرت سے اجتناب کرے اور اعتکاف سے ضروری کام (یعنی قضائے حاجت، فرض غسل وغیرہ) کے بغیر نہ نکلے۔ اعتکاف روزے کے ساتھ اور جامع مسجد میں ہوتا ہے۔ “ (عَنْ عَاءِشَۃَ اَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کَانَ ےَعْتَکِفُ الْعَشْرَ الْاَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ حَتّٰی تَوَفَّاہ اللّٰہُ ثُمَّ اعْتَکَفَ اَزْوَاجُہُ مِنْ بَعْدِہٖ ) (رواہ مسلم : کتاب الاعتکاف، باب اعتکاف العشر الاواخر) ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رمضان المبارک کا آخری عشرہ اعتکاف فرمایا کرتے تھے یہاں تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وفات پائی آپ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات (رض) اعتکاف کیا کرتی تھیں۔ “ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) اَنَّ عُمَرَ (رض) سَاَلَ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ کُنْتُ نَذَرْتُ فِی الْجَاھِلِیَّۃِ اَنْ اَعْتَکِفَ لَےْلَۃً فِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ قَالَ اَوْفِ لِنَذْرِکَ ) (رواہ البخاری، مشکوٰۃ : باب الاعتکاف) ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ میں نے زمانہ جاہلیت میں مسجد حرام میں ایک رات اعتکاف کرنے کی نذر مانی تھی اب مجھے کیا کرنا چاہیے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تجھے اپنی نذر پوری کرنی چاہیے۔ “ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) اَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ فِی الْمُعْتَکِفِ ھُوَ لَےَعْکِفُّ الذُّنُوْبَ وَےُجْزِئُ لَہُ مِنَ الْحَسَنَاتِ کَعَامِلِ الْحَسَنَاتِ کُلِّھَا) (رواہ ابن ماجۃ، مشکوۃ : باب الاعتکاف، قال الالبانی ھٰذا حدیث ضعیف) ” حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اعتکاف کرنے والا گناہوں سے رکا رہتا ہے، اعتکاف کی وجہ سے جو نیکی وہ نہیں کرسکتا اللہ تعالیٰ اسے دوسروں کی نیکیوں کے برابر ثواب دے گا۔ “ مسائل ١۔ شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ ٢۔ شب قدر میں ہر کام کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ ٣۔ شب قدر میں اپنے رب کے حکم پر جبریل امین اور ان کی معیت میں ہزاروں فرشتے نازل ہوتے ہیں۔ ٤۔ شب قدر غروب آفتاب سے طلوع فجر تک خیر و برکت سے بھرپور ہوتی ہے۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید کا نزول اور سلامتی کی اہمیت : ١۔ رمضان وہ بابرکت مہینہ ہے جس میں قرآن مجید نازل ہوا۔ (البقرۃ : ١٨٥) ٢۔ ہم نے اس قرآن کو لیلۃ القدر میں نازل کیا۔ (القدر : ١) ٣۔ ہم نے قرآن کو نازل کیا جو مومنوں کے لیے شفاء اور رحمت ہے۔ (بنی اسرائیل : ٨٢) ٤۔ ہم ہی قرآن مجید کو نازل کرنے والے ہیں اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ (الحجر : ٩) ٥۔ جن و انس مل کر اس قرآن جیسا قرآن نہیں لاسکتے۔ (بنی اسرائیل : ٨٨) ٦۔ مومنوں کے لیے سلامتی والا گھر ہے اور اللہ ان کا دوست ہوگا۔ (الانعام : ١٢٧ ) ٧۔ فرشتے کہیں گے کہ تم پر سلامتی ہو اپنے اعمال کے بدلے جنت میں داخل ہوجاؤ۔ (النحل : ٣٢)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

تنزل ............................ کل ام (4:97) فرشتے اور روح ، اس میں اپنے رب کے اذن سے ہر حکم لے کر اترتے ہیں “۔ آج جب ہم صدیوں پیچھے کی طرف نظر دوڑاتے ہیں اور پھر ہماری نگاہ اس بزرگ اور عظیم رات پر پڑتی ہے۔ اور ہم اس جشن پر غور کرتے ہیں جو اس رات دیکھا گیا۔ پھر ہم ان امور کو دیکھتے ہیں جو اس رات میں فیصلہ ہوئے اور مکمل ہوئے اور دیکھتے ہیں کہ انسانی تاریخ نے کیا سفر طے کیا ، کیا واقعات وحادثات رونما ہوئے ، اس رات کے فیصلوں کے نتیجے میں انسانی قلب ونظر میں کیا کیا تبدیلیاں ہوئیں تو ہمیں یقین ہوجاتا ہے کہ یہ ایک عظیم رات تھی اور میں بتایا جانے والا یہ حسن نوبہاراں بھی فی الواقعہ بجا تھا اور آج ہمیں اللہ کا یہ کلام اچھی طرح سمجھ میں آتا ہے۔ وما ادرک .................... القدر (2:97) ” تم کیا جانو کہ شب قدر کیا ہے “۔ اور یہ کہ اس رات تمام حکیمانہ امور طے ہوئے ، اس رات اساس دین ، دینی اقدار اور حسن وقبح کے پیمانے طے ہوئے۔ اس رات افراد کے علاوہ حکومتوں ، ملتوں اور اقوام کی قسمتوں کا فیصلہ ہوا بلکہ اس سے بھی بڑھ کر جس اہم چیز کا فیصلہ ہوا وہ یہ ہے کہ حق کا معیار طے ہوا۔ مستقل قدریں طے ہوئیں۔ طریق زندگی اور نظام شریعت طے ہوا اور روحانی اقدار طے ہوئیں۔ سلم ” وہ رات سراسر سلامتی ہے “ ۔ انسانیت نے اپنی جہالت اور بدبختی کی وجہ سے شب قدر کی قدر و قیمت کو بھلا دیا ہے۔ اور اس عظیم واقعہ کی اہمیت کو دل سے محو کردیا ہے ، حالانکہ انسانی تاریخ کا یہ ایک عظیم واقعہ تھا ، اور جب سے انسانیت نے اس عظیم واقعہ کو بھلایا اور اس عظیم پیغام کے حوالے سے غفلت کا مظاہرہ کیا تو انسانیت اللہ کی عظیم ترین رحمت وسعادت سے محروم ہوگئی۔ وہ کیا تھی ؟ حقیقی امن وسلامتی کی سعادت ، انسانی ضمیر ونفسیات میں امن وسلامتی کی سعادت ، انسانی خاندان میں امن وسلامتی کی سعادت ، وہ ہمہ گیر سعادت تھی جس سے اسلام نے دنیا کو مالا مال کردیا تھا۔ یہ درست ہے کہ انسان نے اس عرصہ میں بےپناہ مادی ترقی کی ، دنیاکو خوب آبادوشاداب کیا۔ لیکن اسلام نے جو امن وسلامتی عطا کی ہے اسے انسان نہ پاسکا۔ باوجود مادی ترقی اور بےپناہ پیداوار کے انسانیت بدبخت ہی رہی۔ وہ خوبصورت نور بجھ گیا جس نے کبھی اس کی روح کو روشن کردیا تھا۔ اور وہ روشن خوشی ختم ہوکر رہ گئی جس نے اسے زمین کے بندھنوں سے آزاد کرکے عالم بالا کے ساتھ معلق کردیا تھا ، اور وہ مجموعی سلامتی ختم ہوگئی۔ جس کے فیوض وبرکات انسانی قلب اور ارواح سے سرشار ہوگئے تھے۔ لیکن یہ سب کچھ کھو چکنے کے بعد انسان نے نہ روحانی خوشی پائی ، نہ آسمانی روحانیت ملی اور نہ انسان کو یہ آزادی ملی کہ وہ زمینی بوجھ سے ذرا اٹھ کر آسمانوں تک پہنچے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿ تَنَزَّلُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ وَ الرُّوْحُ فِيْهَا بِاِذْنِ رَبِّهِمْ ١ۚ مِنْ كُلِّ اَمْرٍۙۛ٠٠٤﴾ (اس رات میں فرشتے اور روح القدس اپنے پروردگار کے حکم سے ہر امر کو لے کر اترتے ہیں) الملائكہ کے ساتھ الروح بھی فرمایا جس سے جمہور علماء کے نزدیک حضرت جبرائیل (علیہ السلام) مراد ہیں۔ اسی لیے ترجمہ میں لفظ القدس اختیار کیا گیا ہے۔ بعض حضرات نے روح کا ترجمہ رحمت بھی کیا ہے۔ من کل امر کی تفسیر کے بارے میں روح المعانی میں چند اقوال لکھے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ یہ فرشتے اللہ کی طرف سے ہر طرح کی خیر و برکت لے کر نازل ہوتے ہیں۔ حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جب لیلۃ القدر ہوتی ہے تو جبرائیل (علیہ السلام) فرشتوں کی ایک جماعت میں نازل ہوتے ہیں اور ہر وہ بندہ جو کھڑے ہوئے یا بیٹھے ہوئے اللہ کا ذکر کر رہا ہو ان سب پر رحمت بھیجتے ہیں پھر جب عید الفطر کا دن ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں کے سامنے بطور فخر ان بندوں کو پیش فرماتے ہیں کہ اے میرے فرشتو ! اس مزدور کی کیا جزاء ہے جس نے اپنا عمل پور اکر دیا ہو، فرشتے عرض کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب اس کی جزاء یہ ہے کہ اس کا اجر پورا دے دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہوتا ہے کہ اے میرے فرشتو ! میرے بندوں اور میری بندیوں نے میرا فریضہ پورا کردیا جو ان پر لازم تھا اور اب گڑگڑانے کے لیے نکلے ہیں، قسم ہے میری عزت و جلال و کرم کی اور میرے علوو ارتفاع کی کہ میں ضرور ان کی دعا قبول کروں گا۔ پھر بندوں کو ارشاد ہوتا ہے کہ میں نے تم کو بخش دیا اور تمہاری برائیوں کو نیکیوں سے بدل دیا لہٰذا اس کے بعد (عید گاہ سے) بخشے بخشائے واپس ہوتے ہیں۔ (بیہقی شعب الایمان)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

4:۔ ” تنزل الملئکۃ “ لیلۃ القدر کی برکات میں سے ایک یہ ہے کہ اس رات میں بےشار فرشتے جن میں حضرت جبرئیل (علیہ السلام) خاص طور سے قابل ذکر ہیں، نازل ہوتے ہی۔ ای بکل امر قدر اللہ وقضاہ فی تلک السنۃ الی قابل (قرطبی) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(4) اس رات میں فرشتے اور وح اپنے رب کے حکم سے ہر کام اور جملہ امور لے کر نازل ہوتے ہیں۔