Surat ul Bayyina

The Evidence

Surah: 98

Verses: 8

Ruku: 1

Listen to Surah Recitation
Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

تعارف : یہ سورت مدینہ منورہ میں نازل ہوئی ۔ مکہ مکرمہ میں تو اکثریت ان لوگوں کی تھی جنہوں نے اللہ کی ذات اور صفات میں غیر اللہ کو اپنا مشکل کشا مان رکھا تھا۔ وہ پتھروں کے بےجان بتوں کی عبادت و بندگی کرتے تھے کیونکہ ان کے عقیدے کے مطابق ان کے کام بنانے اور بگاڑنے کا اختیار رکھتے تھے۔ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ منورہ ہجرت فرمائی تو یہاں ان لوگوں کی اکثریت تھی جن کی ہدایت کے لئے اللہ نے اپنے رسولون کے ذریعہ اپنی کتابیں بھیجی تھیں۔ یہ اہل کتاب کہلاتے تھے۔ انہیں اپنے اہل کتاب ہونے پر بڑا گھمنڈ بھی تھا وہ اپنے عالوہ سب کو جاہل، ان پڑھ اور اجڈ سمجھتے تھے۔ حالانکہ انہوں نے محض دنیا کے لالچ میں اللہ کی بھیجی ہوئی کتابوں میں اس قدر جھوٹ ملا لیا تھا کہ اللہ کی بھیجی ہوئی تعلیمات اور ان میں من گھڑت باتوں کو پہچاننا مشکل تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو لوگ مشرک کی گندگیوں میں مبتلا ہیں ان کی کمزوری تو یہ ہے کہ ان کے پاس سوائے رسموں اور من گھڑت بتوں کے نہ کوئی کتاب ہے نہ کسی طرح کی ہدایت کی روشنی مگر اہل کتاب کو کیا ہوگیا، جنہیں اللہ نے اپنی کتابوں سے نواز اتھا مگر وہ قرآن کریم جیسی علم سے بھرپور کتاب آنے کے باوجود اختلاف پیدا کررہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اب اس نے اہل کتاب اور مشرکین کی ہدایت و رہنمائی کیلئے ایک ایسے رسول کو بھیجا ہے جن کی زندگی ہر ایک کے لئے اسوہ حسنہ ہے۔ جن کے اخلاق کریمانہ عظیم ہیں۔ وہ حق وصداقت، دیانت وامانت ، حلم و تحمل کا پیکر اور ایک کھلی ہوئی روشن دلیل ہیں۔ ان کے ساتھ ایک ایسی کتاب ہدایت کو نازل کیا گیا ہے جس کی تعلیمات پر عمل کرنے میں دنیا اور آخرت کی کامیابیاں ہیں۔ لہٰذا اللہ ، اس کے رسول اور قرآن کریم کو مان کر اس کے رسول کی مکمل اطاعت کی جائے۔ نماز کی قائم کیا جائے، زکوٰۃ ادا کی جائے۔ فرمایا کہ اہل کتاب اور مشرکین نے اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کو چھوڑ کر اگر ایمان اور عمل صالح کا راستہ اختیار کیا تو نہ صرف وہ بہترین مخلوق کہلائیں گے بلکہ ان کو جنت کی وہ راحتیں عطا کی جائیں گی جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ لیکن اگر انہوں نے نافرمانی کے راستے کو اپنایا تو نہ صرف ان کا شمار بدترین مخلوق میں ہوگا بلکہ ان کو ایسی جہنم میں داخل کیا جائے گا جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ سورۃ البینہ میں ان ہی باتوں کو بیان فرمایا گیا ہے جن کا خلاصہ یہ ہے۔ جن اہل کتاب اور مشرکین نے کفر کا طریقہ اختیار کر رکھا تھا وہ ہرگز باز آنے والے نہ تھے جب تک ان کے پاس کوئی واضح اور کھلی ہوئی دلیل نہ آتی یعنی اللہ کا رسول جو ان کو پاک صحیفے پڑھ کر سناتا جن میں بالکل درست اور صحیح مضامین لکھیں ہوں۔ اب اس واضح دلیل یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آنے کے بعد بھی وہ اختلاف کررہے حالانکہ ان کو ان کی کتابوں میں قرآن کی طرح یہی حکم دیا گیا تھا کہ وہ یکسو ہو کر خالص اللہ ہی کی عبادت کریں، نماز قائم کریں اور زکوٰۃ اد اکریں اور یہی طریقہ بالکل درست طریقہ تھا۔ فرمایا کہ اہل کتاب میں سے جن لوگوں نے کفرو انکار کا طریقہ اپنا رکھا ہے وہ نہ صرف ہمیشہ کی جہنم میں داخل کئے جائیں گے بلکہ وہ بدترین مخلوق میں سے ہوں گے اور جو لوگ ایمان لا کر عمل صالح اختیار کریں گے وہ اللہ کی بہترین مخلوق میں شمار ہوں گے بلکہ ان کا صلہ اور بدلہ ان کے رب کی طرف سے ہمیشہ رہنے کی ایسی جنتیں ہوں گی جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ اللہ سے ڈرنے والے ان لوگوں کا بہترین بدلہ یہ ہوگا کہ اللہ ان سے خوش رہے گا اور وہ اللہ سے خوش رہیں گے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

سورة البیّنہ کا تعارف اس سورت کا نام اس کی پہلی آیت کے آخر میں بیان ہوا ہے۔ یہ ایک رکوع پر مشتمل ہے جس کی آٹھ آیات ہیں اس کے مکی اور مدنی ہونے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ تاہم اکثر مفسرین کا خیال ہے کہ یہ سورت مدینہ طیبہ میں نازل ہوئی کیونکہ اس میں مشرکین کے ساتھ اہل کتاب کو بھی خطاب کیا گیا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ مکہ میں عیسائی اور یہودی نا ہونے کے برابر تھے اس لیے غالب گمان ہے کہ یہ سورت مدنی ہے اس سے پہلی سورت میں قرآن مجید کے نزول اور اس کی عظمت کا ذکر کیا گیا۔ اس میں صاحب قرآن کی عظمت اور ضرورت کا تذکرہ ہوا ہے جس میں یہ وضاحت ہے کہ جس طرح قرآن مجید کی اہمیت اور ضرورت تھی اسی طرح ہی ایک رسول کا آنا بھی ضروری تھا۔ القرآن اور الرّسول کی آمد کا مقصد یہ ہے کہ نبی آخر الزمان مشرکین بالخصوص اہل کتاب کو قرآن کا یہ پیغام دیں کہ وہ صرف ایک رب کی عبادت کرنے کے ساتھ نماز قائم کریں اور زکوٰۃ کی ادائیگی کا اہتمام کریں۔ یہی وہ الدّین ہے جو ہمیشہ سے چلا آرہا ہے اور ہمیشہ رہے گا۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

سورة البینة ایک نظر میں قرآن کریم کے اکثر نسخوں اور اکثر روایات کے اعتبار سے اور اسلوب بیان کے اعتبار اس کے مدنی ہونے کو زیادہ ترجیح ملتی ہے۔ جبکہ اس کا مکی ہونا ممکن نہیں ہے۔ صرف اس وجہ سے کہ اس میں زکوٰة کا ذکر ہے یا اہل کتاب کا ذکر ہے۔ یہ اس کے مکی ہونے کے مانع نہیں ہے ، کیونکہ بعض دوسری سورتیں جو یقینا مکی ہیں ان میں بھی اہل کتاب کا ذکر ہے۔ مکہ میں اہل کتاب موجود تھے ، جن میں سے بعض ایمان بھی لائے تھے اور بعض ایمان نہ لائے تھے۔ نیز نجران کے عیسائی بھی ایک وفد کی صورت میں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مکہ میں آکر ملے تھے اور ایمان بھی لائے تھے اسی طرح زکوٰة کا تذکرہ بھی مکی سورتوں میں پایا جاتا ہے۔ یہ سورت کی تاریخی اور ایمانی حقائق ہمارے سامنے رکھتی ہے۔ لیکن اس کا اسلوب ایک قرار داد کے اسلوب میں ہے ، اور یہ اسلوب ہی اس رائے کو ترجیح دیتا ہے کہ یہ مدنی ہے جہاں بات فیصلہ کن اور معاملات و امور طے کرنے کے انداز میں ہوتی تھی۔ اس سورت میں پہلی حقیقت یہ بیان کی جاتی ہے کہ حضرت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت اس لئے ضروری ہوگئی تھی کہ ان کو واپس لاکر صراط مستقیم پر قائم کیا جائے اور ان کے اندر جو تفرقے اور اختلافات پیدا ہوگئے تھے وہ اس رسالت کے بغیر درست نہ ہوسکتے تھے : لم یکن .................................... قیمة (1:98 تا 3) ” اہل کتاب اور مشرکین میں سے جو لوگ کافر تھے ، (وہ اپنے کفر سے) باز آنے والے نہ تھے جب تک کہ ان میں پاس دلیل روشن نہ آجائے (یعنی) اللہ کی طرف سے ایک رسول جو پاک صحیفے پڑھ کر سنائے جن میں بالکل راست اور درست تحریریں لکھی ہوئی ہیں “۔ دوسری حقیقت یہ بیان ہوتی ہے کہ اہل کتاب نے اپنے دین میں اختلاف اس وجہ سے نہیں کیا کہ ان کے دین میں کچھ مشکلات تھیں ، بلکہ صحیح علم ان کے پاس آگیا تھا اور ہر مسئلے پر صحیح دلائل بھی ان کے ہاں موجود تھے۔ وما تفرق ............................ البینة (4:98) ” پہلے جن لوگوں کو کتاب دی گئی تھی ، ان میں تفرقہ برپا نہیں ہوا مگر اس کے بعد کہ ان کے پاس واضح بیان آچکا تھا “۔ تیسری حقیقت یہ ہے کہ تمام ادیان اپنے اصل کے اعتبار سے ایک ہیں ، ان کے بنیادی قواعد اور اصول ایک ہیں اور سادہ اور قابل فہم ہیں ، ان میں کوئی ایسی بات نہیں ہوا کرتی جس سے اختلاف پیدا ہوں کیونکہ دین کی بنادیں سادہ اور قابل فہم ہوتی ہیں۔ وما امروا ............................ القیمة (5:98) ” اور ان کو اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا تھا کہ اللہ کی بندگی کریں ، اپنے دن کو اس کے لئے خالص کرکے ، بالکل یک سو ہوکر ، اور نماز قائم کریں اور زکوٰة دیں۔ یہی نہایت صحیح و درست دین ہے “۔ اور چوتھی حقیقت یہ ہے کہ دلائل آجانے کے بعد جو لوگ کفر کریں گے وہ تمام لوگوں میں سے بدترین ہیں اور جو لوگ اس آخری رسالت کو تسلیم کریں گے وہ بہترین لوگ ہیں۔ اس لئے دونوں قسم کے لوگوں کا انجام بھی مختلف ہے۔ ان الذین ................................ خشی ربہ (6:98 تا 8) ” اہل کتاب اور مشرکین میں سے جن لوگوں نے کفر کیا ہے وہ یقینا جہنم کی آگ میں جائیں گے اور ہمیشہ اس میں رہیں گے ، یہ لوگ بدترین خلائق ہیں۔ جو لوگ ایمان لے آئے اور جنہوں نے نیک عمل کیے ، وہ یقینا بہترین خلائق ہیں۔ ان کی جزا ان کے رب کے ہاں دائمی قیام کی جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے ۔ یہ کچھ ہے اس شخص کے لئے جس نے اپنے رب کا خوف کیا ہو “۔ یہ ہیں وہ چار بنیادی حقائق جو اسلامی تصور حیات اور اسلامی نظام عقائد اور آخری رسالت میں اور اسلامی نظام ایمانیات وعمل میں بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi