مسنداحمد

Musnad Ahmad

پتھروں سے استنجا کرنے اور اس کے آداب کا بیان

ان چیزوں کا بیان جن سے استنجا کرنا جائز ہے اور جن سے ناجائز ہے

۔ (۵۲۶)۔ عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍؓ قَالَ: خَرَجَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِحَاجَتِہِ فَقَالَ: ((الْتَمِسْ لِیْ ثَـلَاثَۃَ أَحْجَارٍ۔)) قَالَ: فَأَتَیْتُہُ بِحَجَرَیْنِ وَرَوْثَۃٍ، قَالَ: فَأَخَذَ الْحَجَرَیْنِ وَأَلْقَی الرَّوْثَۃَ وَقَالَ: ((اِنَّہَا رِکْسٌ۔)) (مسند أحمد: ۳۹۶۶)

سیدنا عبد اللہ بن مسعود ؓ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ قضائے حاجت کے لیے نکلے اور فرمایا: میرے لیے تین پتھر تلاش کر کے لاؤ۔ پس میں دو پتھر اور ایک لید لے کر آیا، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے دو پتھر لے لیے اور لید پھینک دی اور فرمایا: یہ گندی ہے۔

۔ (۵۲۷)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ)۔ فَقَالَ: ((اِئْتِنِیْ بِشَیْئٍ أَسْتَنْجِیْ بِہِ وَلَا تُقْرِبْنِیْ حَائِلًا وَلَا رَجِیْعًا)) (مسند أحمد: ۴۰۵۳)

۔ (دوسری سند) رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: میرے لیے کوئی ایسی چیز لے آؤ، جس سے میں استنجا کروں اور کسی بوسیدہ ہڈی اور لید کو میرے قریب نہ کرو۔

۔ (۵۲۸)۔ وَعَنْہُ أَیْضًا، اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَتَاہُ لَیْلَۃَ الْجِنِّ وَمَعَہُ عَظْمٌ حَائِلٌ وَبَعْرَۃٌ وَفَحْمَۃٌ فَقَالَ: ((لَاتَسْتَنْجِیَنَّ بِشَیْئٍ مِنْ ہٰذَا، اِذَا خَرَجْتَ اِلَی الْخَلَائِ۔)) (مسند أحمد: ۴۳۷۵)

سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ سے یہ بھی روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ جنوں والی رات کو ان کے پاس آئے، جبکہ ان کے پاس بوسیدہ ہو جانے والی ہڈی، اونٹ کی مینگنی اور کوئلے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: جب تو قضائے حاجت کے لیے جائے تو ان میں سے کسی چیز سے استنجا نہیں کرنا۔

۔ (۵۲۹)۔عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِؓ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نَہٰی أَنْ یَسْتَنْجِیَ بِبَعْرَۃٍ أَوْ بِعَظْمٍ۔ (مسند أحمد: ۱۴۶۶۸)

سیدنا جابر بن عبداللہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے اس سے منع فرمایا ہے کہ آدمی اونٹ کی مینگنی یا ہڈی کے ساتھ استنجا کرے۔

۔ (۵۳۰)۔حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ حَدَّثَنِیْ أَبِیْ ثَنَا اِسْمَاعِیْلُ اَنَا دَاوُدُ وَابْنُ أَبِیْ زَائِدَۃَ الْمَعْنٰی، قَالَا: ثَنَا دَاوُدُ عَنِ الشَّعْبِیِّ عَنْ عَلْقَمَۃَ قَالَ: قُلْتُ لِاِبْنِ مَسْعُوْدٍ(ؓ): ھَلْ صَحِبَ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَیْلَۃَ الْجِنِّ مِنْکُمْ أَحَدٌ؟ فَقَالَ: مَا صَحِبَہُ مِنَّا أَحَدٌ وَلَکِنَّا قَدْ فَقَدْنَاہُ ذَاتَ لَیْلَۃٍ، فَقُلْنَا: اُغْتِیْلَ؟ اُسْتُطِیْرَ؟ مَا فَعَلَ؟ قَالَ: فَبِتْنَا بِشَرِّ لَیْلَۃٍ بَاتَ بِہَا قَوْمٌ، فَلَمَّا کَانَ فِیْ وَجْہِ الصُّبْحِِ أَوْ قَالَ: فِی السَّحَرِ اِذَا نَحْنُ بِہِ یَجِیْئُ مِنْ قِبَلِ حِرَائَ، فَقُلْنَا: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! فَذَکَرُوْا الَّذِیْ کَانُوْافِیْہِ فَقَالَ: ((اِنَّہُ أَتَانِیْ دَاعِیْ الْجِنِّ فَأَتَیْتُہُمْ فَقَرَأْتُ عَلَیْہِمْ۔)) قَالَ: فَانْطَلَقَ بِنَا فَأَرَانِیْ آثَارَہُمْ وَآثَارَ نِیْرَانِہِمْ، قَالَ: وقَالَ الشَّعْبِیُّ: سَأَلُوْہُ الزَّادَ، قَالَ ابْنُ أَبِی الزَّائِدَۃَ: قَالَ عَامِرٌ: فَسَأَلُوْہُ لَیْلَتَئِذٍالزَّادَ وَکَانُوْا مِنْ جِنِّ الْجَزِیْرَۃِ فَقَالَ: ((کُلُّ عَظْمٍ ذُکِرَ اسْمُ اللّٰہِ عَلَیْہِ یَقَعُ فِیْ أَیْدِیْکُمْ أَوْفَرَمَا کَانَ عَلَیْہِ لَحْمًا، وَکُلُّ بَعْرَۃٍ أَوْ رَوْثَۃٍ عَلَفٌ لِدَوَابِّکُمْ، فَلَا تَسْتَنْجُوْا بِہِمَا فَاِنَّہَا زَادُ اِخْوَانِکُمْ مِنَ الْجِنِّ)) (مسند أحمد: ۴۱۴۹)

علقمہ کہتے ہیں: میں نے سیدنا عبد اللہ بن مسعود ؓ سے کہا: کیا جنّوں والی رات کو تم میں سے کوئی آدمی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے ساتھ تھا؟ انھوں نے کہا: ہم میں سے کوئی بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے ساتھ نہیں تھا، ہوا یوں کہ ہم نے ایک رات رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کو گم پایا، ہم نے کہا: کیا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کو مخفی انداز میں قتل کر دیا گیا ہے؟ کیاآپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کو کہیں لے جایا گیا ہے؟ آخر ہوا کیا ہے؟ ہم نے انتہائی بدترین رات گزاری، جب صبح سے پہلے کا یا سحری کا وقت تھا تو ہم نے اچانک آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کو غارِ حراء کی طرف سے آتے ہوئے دیکھا، ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول!، پھر ہم نے ساری بات بتلائی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: جنّوں کا داعی میرے پاس آیا، اس لیے میں ان کے پاس چلا گیا اور ان پرقرآن مجید کی تلاوت کی۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ ہمیں لے کر گئے اور ان کے اور ان کی آگ کے نشانات دکھائے۔ وہ جزیرۂ عرب کے جنّوں میں سے تھے اور انھوں نے اس رات کو اپنے زاد کے بارے میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ سے سوال کیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: ہر ہڈی جس پر اللہ تعالی کا نام لیا گیا ہو، تمہارے ہاتھ ایسی حالت میں لگے گی کہ اس پر بہت زیادہ گوشت ہو گا، (وہ تمہارا زاد ہے) اور ہر مینگنی اور لید تمہارے چوپائیوں کا چارہ ہے، پس تم لوگ ان دو چیزوں سے استنجا نہ کیا کرو، کیونکہ یہ چیزیں تمہارے جن بھائیوں کا زاد ہیں۔

۔ (۵۳۱)۔ عَنْ أَبِیْ قَتَادَۃَؓ أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نَہٰی أَنْ یَتَنَفَّسَ فِی الْاِنَائِ أَوْ یَمَسَّ ذَکَرَہُ بِیَمِیْنِہِ أَوْ یَسْتَطِیْبَ بِیَمِیْنِہِ)) (مسند أحمد:۲۲۸۸۹)

سیدنا ابو قتادہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌نے اس سے منع فرمایا کہ آدمی برتن میں سانس لے یا دائیں ہاتھ سے عضو ِ تناسل کو چھوئے یا دائیں ہاتھ سے استنجا کرے۔

۔ (۵۳۲)۔عَنْ عَائِشَۃَؓ قَالَتْ: کَانَ یَدُ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْیُسْرٰی لِخَلَائِہِ وَمَا کَانَ مِنْ أَذًی وَکَانَتِ الْیُمْنٰی لِوُضُوْئِہِ وَلِمَطْعَمِہِ۔ (مسند أحمد: ۲۶۸۱۵)

سیدہ عائشہؓ سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کا بایاں ہاتھ استنجا اور دوسری مکروہ چیزوں کے لیے تھا اور دایاں ہاتھ وضو کے لیے اور کھانا کھانے کے لیے تھا۔

۔ (۵۳۳)۔عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍؓ قَالَ: مَا مَسَسْتُ فَرْجِیْ بِیَمِیْنِیْ مُنْذُ بَایَعْتُ بِہَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم۔ (مسند أحمد: ۲۰۱۸۵)

سیدنا عمران بن حصینؓ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے جب سے دائیں ہاتھ سے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کی بیعت کی، اس وقت سے اس کو اپنی شرم گاہ پر نہیں لگایا۔

۔ (۵۳۴)۔عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍؓ قَالَ: کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَدْخُلُ الْخَلَائَ فَأَحْمِلُ أَنَا وَغُلَامٌ نَحْوِیْ اِدَاوَۃً مِنْ مَائٍ وَعَنَزَۃً فَیَسْتَنْجِیْ بِالْمَائِ۔ (مسند أحمد: ۱۲۷۸۴)

سیدنا انس بن مالک ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ جب بیت الخلاء میں داخل ہوتے تو میں اور میری طرح کا ایک لڑکا پانی کا برتن اور برچھی اٹھاتے، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ پانی سے استنجا کرتے تھے۔

۔ (۵۳۵)۔وَعَنْہُ أَیْضًا قَالَ: کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اِذَا تَبَرَّزَ لِحَاجَتِہِ أَتَیْتُہُ بِمَائٍ فَیَغْسِلُ بِہٖ۔ (مسند أحمد: ۱۲۱۲۴)

سیدنا انسؓ سے یہ بھی روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ جب قضائے حاجت کے لیے جاتے تھے تو میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے پاس پانی لاتا تھا، اس کے ذریعے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ استنجا کرتے تھے۔

۔ (۵۳۶)۔وَعَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃؓ قَالَ: دَخَلَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْخَلَائَ فَاَتَیْتُہٗ بِتَوْرٍ فِیْہِ مَائٌ فَاسْتَنْجٰی، ثُمَّ مَسَحَ بِیَدِہٖ فِیْ الْاَرْضِ ثُمَّ غَسَلَھَا، ثُمَّ أَتَیْتُہُ بِتَوْرٍ آخَرَ فَتَوَضَّأَ بِہِ۔ (مسند أحمد: ۸۰۹۰)

سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ بیت الخلاء میں میں داخل ہوئے تو میں ایک برتن لایا، اس میں پانی تھا، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے اس سے استنجا کیا، اس کے بعد اپنے ہاتھ کو زمین پر رگڑا اور پھر دھو دیا، پھر میں ایک اور برتن لے کر آیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے اس سے وضو کیا۔

۔ (۵۳۷)۔ وَعَنْہُ أَیْضًا قَالَ: کَانَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اِذَا دَخَلَ الْخَلَائَ دَعَا بِمَائٍ فَاسْتَنْجَی ثُمَّ مَسَحَ بِیَدِہِ عَلَی الْاََرْضِ ثُمَّ تَوَضَّأَ۔ (مسند أحمد: ۹۸۶۱)

سیدنا ابو ہریرہؓ سے یہ بھی مروی ہے کہ نبی کریم جب بیت الخلاء میں داخل ہوتے تو پانی طلب کرتے اور اس کے ساتھ استنجا کرتے، پھر اپنے ہاتھ کو زمین پر رگڑتے اور پھر وضو کرتے تھے۔

۔ (۵۳۸)۔عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ سَلَامٍؓ قَالَ: لَمَّا قَدِمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلَیْنَا یَعْنِیْ قُبَائَ، قَالَ: ((اِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ قَدْ أَثْنٰی عَلَیْکُمْ فِی الطُّہُوْرِ خَیْرًا، أَفَلَا تُخْبِرُوْنِیْ؟ قَالَ: یَعْنِیْ قَوْلَہُ: {فِیْہِ رِجَالٌ یُّحِبُّوْنَ أَنْ یَّتَطَہَّرُوْا وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُطَّہِّرِیْنَ} قَالَ: فَقَالُوْا: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! اِنَّا نَجِدُہُ مَکْتُوْبًا عَلَیْنَا فِی التَّوْرَاۃِ الْاِسْتِنْجَائَ بِالْمَائِ۔ (مسند أحمد: ۲۴۳۳۴)

سیدنا محمد بن عبد اللہ بن سلام ؓ کہتے ہیں: جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ ہم اہل قبا کے پاس تشریف لائے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ نے طہارت کے معاملے میں تم لوگوں کی تعریف کی ہے، کیا تم مجھے بتلاؤ گے نہیں (کہ تم کون سا عمل کرتے ہو)؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کی مراد اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان تھا: اس میں ایسے لوگ ہیں، جو پاکیزگی کو پسند کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ پاکیزہ رہنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم تورات میں پانی کے ساتھ استنجا کرنے کا ذکر پاتے ہیں (اور پھر اسی طرح عمل کرتے ہیں)۔

۔ (۵۳۹)۔عَنْ عُوَیْمِ بْنِ سَاعِدَۃَ الْأَنْصَارِیِّؓ أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَتَاہُمْ فِیْ مَسْجِدِ قُبَائَ، فَقَالَ: ((اِنَّ اللّٰہَ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی قَدْ أَحْسَنَ عَلَیْکُمُ الثَّنَائَ فِی الطُّہُوْرِ فِیْ قِصَّۃِ مَسْجِدِکُمْ، فَمَا ھٰذَا الطُّہُوْرُ الَّذِیْ تَطَہَّرُوْنَ بِہِ؟)) قَالُوْا: وَاللّٰہِ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! مَا نَعْلَمُ شَیْئًا اِلَّا أَنَّہُ کَانَ لَنَا جِیْرَانٌ مِنَ الْیَہُوْدِ فَکَانُوْا یَغْسِلُوْنَ أَدْبَارَہُمْ مِنَ الْغَائِطِ فَغَسَلْنَا کَمَا غَسَلُوْا۔ (مسند أحمد: ۱۵۵۶۶)

سیدنا عویم بن ساعدہ انصاری ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ اُن لوگوںکے پاس مسجد ِ قباء میں تشریف لے گئے اور فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ نے تمہاری مسجد کا ذکر کر کے طہارت کے معاملے میں تمہاری اچھی تعریف کی ہے، تو یہ کون سی پاکیزگی ہے، جو تم اختیار کرتے ہو؟ انھوں نے کہا: اللہ کی قسم! اے اللہ کے رسول! اس معاملے میں کوئی چیز ہمارے علم میں تو نہیں ہے، البتہ یہ بات ضرور ہے کہ یہودی لوگ ہمارے پڑوسی تھے اور وہ پائخانہ کر کے اپنی پچھلی طرف کو دھوتے تھے، پس ہم نے بھی ان کی طرح اس حصے کو دھونا شروع کر دیا۔

۔ (۵۴۰)۔ عَنِ الْأَوْزَاعِیِّ قَالَ: حَدَّثَنِیْ شَدَّادٌ أَبُوْعَمَّارٍ عَنْ عَائِشَۃَؓ، أَنَّ نِسْوَۃً مِنْ أَھْلِ الْبَصْرَۃِ دَخَلْنَ عَلَیْہَا فَأَمَرَتْہُنَّ أَنْ یَسْتَنْجِیْنَ بِالْمَائِ وَ قَالَتْ: مُرْنَ أَزْوَاجَکُنَّ بِذٰلِکَ، فَاِنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَ یَفْعَلُہُ، وَھُوَ شِفَائٌ مِنَ الْبَاسُوْرِ، تَقُوْلُہُ عَائِشَۃُ أَوْ أَبُوْعَمَّارٍ۔ (مسند أحمد: ۲۵۱۳۰)

سیدنا عائشہؓ سے مروی ہے کہ اہل بصرہ کی کچھ خواتین ان کے پاس آئیں، سیدہ نے ان کو حکم دیا کہ وہ خود بھی پانی کے ساتھ استنجا کیا کریں اور اپنے خاوندوں کو بھی ایسا کرنے کا حکم دیں، کیونکہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ اس طرح استنجا کرتے تھے اور یہ بواسیر سے شفا بھی ہے۔ یہ آخری جملہ سیدہ عائشہ ؓ نے از خود کہا یا ابو عمار نے۔

۔ (۵۴۲)۔ وعَنْہَا أَیْضًا أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غَسَلَ مَقْعَدَتَہُ ثَلَاثًا۔ (مسند أحمد: ۲۶۲۸۱)

سیدہ عائشہؓ سے یہ بھی مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے اپنی مقعد کو تین دفعہ دھویا۔