مسنداحمد

Musnad Ahmad

فرائض کے ابواب

کلالہ کا بیان


۔ (۶۳۸۳)۔ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: سَاَلْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَنِ الْکَلَالَۃِ، فَقَالَ: ((تَکْفِیْکَ آیَۃُ الصَّیْفِ۔)) فَقَالَ: لَأَنْ اَکُوْنَ سَاَلْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَنْہَا أَحَبُّ اِلَیَّ مِنْ أَنْ یَکُوْنَ لِیْ حُمْرُ النَّعْمِ۔ (مسند احمد: ۲۶۲)

۔ سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کلالہ کے بارے میں دریافت کیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس بارے میں موسم گرما میں نازل ہونے والی آیت تجھے کفایت کرتی ہے۔ پھر سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: یہیقینی بات ہے کہ میں نے اس کے بارے میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے دریافت کر لیا ہوتا تو یہ چیز مجھے سرخ اونٹوں سے بھی زیادہ پسند ہوتی۔

Status: Sahih
حکمِ حدیث: صحیح
Conclusion
تخریج
(۶۳۸۳) تخریج: صحیح لغیرہ (انظر: ۲۶۲)
Explanation
شرح و تفصیل
فوائد:… کلالہ سے مراد وہ میت ہے، جس کے والدین ہوں نہ اولاد۔ یہ اکلیل سے مشتق ہے، اکلیل ایسی چیز کو کہتے ہیں جو کہ سر کو اس کے اطراف یعنی کناروں سے گھیر لے، کلالہ کو بھی کلالہ اس لیے کہتے ہیں کہ اصول و فروع کے اعتبار سے تو اس کا وارث نہ بنے، لیکن اطراف و جوانب سے وارث قرار پا جائے، جیسے بہن بھائی وغیرہ۔ سورۂ نساء میں دو مقامات پر کلالہ کا ذکر ہے، آیت نمبر (۱۲) اور آیت نمبر (۱۷۶) میں، اول الذکر آیت موسم سرما میں اور آخر الذکر موسم گرما میں نازل ہوئی تھی۔