مسلمانوں پر ہتھیار اٹھانے والے کی وعید کا بیان
۔ (۶۴۵۸)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) أَنَّ ابْنَ عُمَرَ رَأَی رَأْسًا فَقَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ((مَا یَمْنَعُ أَحَدَکُمْ إِذَا جَائَ ہُ مَنْ یُرِیْدُ قَتْلَہُ أَنْ یَکُوْنَ مِثْلَ ابْنِ آدَمَ، الْقَاتِلُ فِیْ النَّارِ وَالْمَقْتُوْلُ فِیْالْجَنَّۃِ)) (مسند احمد: ۵۷۵۴)
۔ (دوسری سند) سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے ایک سر دیکھا اورکہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب کوئی آدمی تم میں سے کسی کو قتل کرنے کا ارادہ کر لے تو کون سی چیز اس کے لیے اس سے مانع ہو گی کہ وہ آدم کے بیٹے کی طرح ہو جائے، کیونکہ قاتل دوزخ میں ہو گا اورمقتول جنت میں۔
(۶۴۵۸) تخریج: انظر الحدیث بالطریق الاول
فوائد:… حدیث کا آخری جملہ ’’مقتول جنت میں ہو گا اور قاتل دوزخ میں‘‘ شواہد کی بنا پر صحیح ہے۔
ایسی احادیث کا تعلق فتنوں کے زمانے سے ہے، جن میں ظلم و ستم سہہ جانے میں عافیت ہو گی اور انتقامی کاروائی کرنے سے بڑا فساد پھیل جائے گا۔
ہماری شریعت کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان کو حکیم، دانا اور عاقبت اندیش ہونا چاہیے اور ہر اقدام سے پہلے اس کے انجام پر بار بار غور کرنا چاہیے، غیرت صرف اس چیز کا نام نہیں ہے کہ ایک وقت میں غیظ و غضب کے تمام تقاضے پورے کر دیئے جائیں اور پھر نسلیں اس کا انجام بد بھگتتی رہیں۔ یہ اسلامی تعلیمات ہی ہیں کہ مال و جان کے تحفظ کے لیے لڑنا درست ہے اور ایسے میں کام آ جانے والا شہید ہے، لیکن پر فتن دور میں صبر کر لینا بھی اسلامی احکام کا تقاضا ہی ہے، کئی افراد کو دیکھا گیا ہے کہ انھوں نے ایک گالی اور طعن پر صبر نہ کر سکنے کی وجہ سے خاندانوں کو اجاڑ دیا اور اپنی عزتوں کو اپنے ہاتھوں لٹا دیا۔