مسنداحمد

Musnad Ahmad

مہر کے ابواب

مہر کی قلیل اور کثیر مقدار پر شادی کرنے کے جواز اور معتدل چیز کے مستحب ہونے کا بیان

۔ (۶۹۱۹)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ: کَانَ صَدَاقُنَا إِذَ کَانَ فیِنْاَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَشَرَۃَ اَوَاقٍ وَطَبَّقَ بِیَدَیْہِ وَذَالِکَ أَرْبَعُمِائَۃٍ۔ (مسند احمد: ۸۷۹۳)

۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمارے اندر موجود تھے تو ہمارا حق مہر دس اوقیہ ہوتا تھا،پھر انہوں نے اپنی انگلیوں میں تطبیق دی اور کہا: یہ کل چار سو درہم بن جاتے ہیں۔

۔ (۶۹۲۰)۔ عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ اَنَّ عَبْدَ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَوْفٍ تَزَوَّجَ عَلٰی وَزْنِ نَوَاۃٍ مِنْ ذَھَبٍ، قَالَ: فَکَانَ الْحَکَمُ یَأْخُذُ بِہِ۔ (مسند احمد: ۱۴۰۰۷)

۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا عبد الرحمن بن عوف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ایک نواۃ کے وزن کے برابر سونے پر شادی کی،حکم اسی کو لیتے تھے۔

۔ (۶۹۲۱)۔ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ اَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رَأٰی عَلٰی عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَوْفٍ أَثَرَ صُفْرَۃٍ، فَقَالَ: ((مَا ھٰذَا؟)) قَالَ: اِنِّیْ تَزَوَّجْتُ امْرَأَۃً عَلٰی وَزْنِ نَوَاۃٍ مِنْ ذَھَبٍ، فَقَالَ: ((بَارَکَ اللّٰہُ لَکَ أَوْلِمْ وَلَوْ بِشَاۃٍ۔)) (مسند احمد: ۱۳۴۰۳)

۔ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا عبد الرحمن بن عوف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ پر زردی کا نشان دیکھا اور پوچھا: یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا: میں نے ایک عورت سے نواۃ کے وزن کے برابر سونے پر شادی کی ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ تجھ پر برکت نازل کرے، ولیمہ کر، اگرچہ ایک بکری کا ہی ہو۔

۔ (۶۹۲۲)۔ عَنْ اَبِیْ حَدْرَدٍ الْاَسْلَمِیِّ أَنَّہ، أَتَّی النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَسْتَفْتِیْہِ فِی امْرَأَۃٍ، فَقَالَ: ((کَمْ أَمْہَرْتَہا؟)) قَالَ: مائْتَیْ دِرْھَمٍ، فَقَالَ: ((لَوْ کُنْتُمْ تَغْرِفُوْنَ مِنْ بَطَحَانَ مَازِدْتُمْ۔)) (مسند احمد: ۱۵۷۹۷)

۔ سیدنا ابو حدرد اسلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے اور ایک عورت کے بارے میںپوچھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو نے اس کا کتنا حق مہر مقرر کیا ہے؟ انھوں نے کہا : دو سو درہم، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر تم مدینہ کی بطحان وادی سے چلوؤں سے چاندی بھرو تو پھر بھی اس مقدار سے زیادہ نہ کرو۔

۔ (۶۹۲۳)۔ عَنْ اَبِی الْعَجْفَائِ السُّلَمِیِّ قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ یَقُوْلُ: أَلَا لَا تُغْلُوْا صُدُقَ النِّسَائِ، فَاِنَّہَا لَوْ کَانَتْ مَکْرُمَۃً فِی الدُّنْیَا أَوْ تَقْوٰی فِی الْآخِرَۃِ لَکَانَ أَوْلَاکُمْ بِہَا النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، مَا أَنْکَحَ شَیْئًا مِنْ بَنَاتِہِ وَلَا نِسَائِہِ فَوْقَ اثْنَتَیْ عَشَرَۃَ أُوْقِیَّۃً، وَأُخْرٰی تَقُوْلُوْنَہَا فِیْ مَغَازِیْکُمْ: قُتِلَ فُلَانٌ شَہِیْدًا، مَاتَ فُلَانٌ شَہِیْدًا، وَلَعَلَّہُ أَنْ یَکُوْنَ قَدْ أَوْقَرَ عَجُزَ دَابَّتِہِ أَوْ دَفَّ رَاحِلَتَہُ ذَھَبًا وَفِضَّۃًیَبْتَغِی التِّجَارَۃَ فَـلَا تَقُوْلُوْا ذَاکُمْ، وَلٰکِنْ قُوْلُوْا کَمَا قَالَ مُحَمَّدٌ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَنْ قُتِلَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَہُوَ فِی الْجَنَّۃِ۔)) (مسند احمد: ۲۸۵)

۔ ابو العجفاء سلمی کہتے ہیں:سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: عورتوں کے مہر میں غلوّ نہ کرو، کیونکہ اگر یہ چیز دنیا میں کوئی عزت اور آخرت میں تقویٰ کا باعث ہوتی تو تم میں اس کے سب سے زیادہ مستحق نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہوتے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تو اپنی بیٹیوں اور بیویوں کا نکاح بارہ اوقیوں سے زیادہ میں نہیں کیا، ایک اور بات بھی ہے، تم اپنے غزووں کے بارے میں کہتے ہو کہ فلاںشہید ہو گیا ہے، فلاں نے شہادت پائی ہے، اس میں بھی احتیاط برتو، ہو سکتا ہے اس نے اپنے جانور کی پشت یا اس کے پالان کا کنارہ سونے اور چاندی کی طلب میں اور تجارت میں بوجھل کیا ہو، اس لئے اس طرح نہ کہا کرو کہ فلاں شہید ہو گیا، بلکہ اس طرح کہا کرو جس طرح محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فرماتے تھے کہ جو اللہ کے راستے میں شہید ہو گیا، وہ جنتی ہے۔

۔ (۶۹۲۴)۔ عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عَامِرِ بْنِ رَبِیْعَۃَ عَنْ اَبِیْہِ اَنَّ رَجُلًا مِنْ بَنِیْ فَزَارَۃَ تَزَوَّجَ امْرَأَۃً عَلٰی نَعْلَیْنِ فَأَجَازَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نِکَاحَہ۔ (مسند احمد: ۱۵۷۶۴)

۔ سیدنا عامر بن ربیعہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ بنو فزارہ کے ایک آدمی نے ایک عورت سے شادی کی اور جوتوں کا ایک جوڑا مہر میں دیا، اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کے نکاح کو جائز قرار دیا۔

۔ (۶۹۲۵)۔ عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((مِنْ یُمْنِ الْمَرْأَۃِ تَیْسِیْرُ خِطْبَتِہَا وَتَیْسِیْرُ صَدَاقِہَا وَتَیْسِیْرُ رَحِمِہَا۔)) (مسند احمد: ۲۴۹۸۳)

۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عورت کی ِ برکت میں سے یہ (بھی) ہے کہ اس کی منگنی آسان ہو، اس کا مہر آسان ہو اور اس کا رحم آسانی والا ہو۔

۔ (۶۹۲۶)۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((لَوْ اَنَّ رَجُلًا أَعْطٰی امْرَأَۃً صَدَاقًا مِلئَ یَدَیْہِ طَعَامًا کَانَتْ لَہُ حَلَالًا۔)) (مسند احمد: ۱۴۸۸۴)

۔ سیدنا جابر بن عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر کوئی آدمی خاتون کو لپ بھر اناج بطور حق مہر ادا کردے، تو وہ اس کے لئے حلال ہو جائے گی۔

۔ (۶۹۲۷)۔ عَنْ اَبِیْ سَلَمَۃَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمٰنِ قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَۃَ کَمْ کَانَ صَدَاقُ رَسُوْلِ اللّٰہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ؟ قَالَتْ: کَانَ صَدَاقُہُ لِأَزْوَاجِہِ اثْنَتَیْ عَشَرَۃَ أُوْقِیَّۃً وِنَشًّا، قَالَتْ: اَ تَدْرِیْ مَا النَّشُّ؟ قُلْتُ: لَا، قَالَتْ: نِصْفُ أُوْقِیَّۃٍ، فِتِلْکَ خَمْسُ مِائِۃِ دِرْھَمٍ، فَہٰذَا صَدَاقُ رَسُوْلِ اللّٰہِ A۔ (مسند احمد: ۲۵۱۳۳)

۔ ابو سلمہ بن عبد الرحمن کہتے ہیں: میں نے سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے سوال کیا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کتنامہر دیتے تھے، انھوں نے کہا:آپ کی بیویوں کا مہر ساڑھے بارہ اوقیے تھا۔پھر انھوں نے کہا: تجھے نَشّ کا پتہ ہے؟ میں نے کہا: نہیں، انھوں نے کہا: اس سے مراد نصف اوقیہ ہے، یہ ساڑھے بارہ اوقیے کل پانچ سو درہم بنتے ہیں،یہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیویوں کا حق مہر تھا۔

۔ (۶۹۲۸)۔ عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ عَنْ أُمِّ حَبِیْبَۃَ أَنَّہَا کَانَتْ تَحْتَ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ جَحْشٍ وَکَانَ أَتَی النَّجَاشِیَّ فَمَاتَ وَأَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تَزَوَّجَ أُمَّ حَبِیْبَۃَ وَإِنَّہَا بِأَرْضِ الْحَبَشَۃِ، زَوَجَّہَا إِیَّاہُ النَّجَاشِیُّ وَأَمْہَرَھَا أَرْبَعَۃَ آلَافٍ، ثُمَّ جَہَّزَھَا مِنْ عِنْدِہِ وَبَعَثَ بِہَا إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَعَ شُرَحْبِیْلَ بْنِ حَسَنَۃَ، وَجِہَازُھَا کُلُّہُ مِنْ عِنْدِ النَّجَاشِیِّ وَلَمْ یُرْسِلَ إِلَیْہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِشَیْئٍ، وَکَانَ مُہُوْرُ اَزْوَاجِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَرْبَعَ مِائَۃِ دِرْھَمٍ۔ (مسند احمد: ۲۷۹۵۳)

۔ سیدنا عروہ بن زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا ام حبیبہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ، عبیداللہ بن حجش کے عقد میں تھیں،جب وہ نجاشی کے پاس آیا تو وہاں فوت ہو گیا،بعد میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدہ ام حبیبہ سے شادی کرلی، جبکہ وہ ابھی تک حبشہ کی سرزمین میں تھیں، نجاشی نے وکیل بن کر ان کی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے شادیکی اور ان کا حق مہر چار ہزار درہم ادا کیا، پھر اس نے اپنے پا س سے سیدہ کو تیارکیا اور ان کو سیدنا شرحبیل بن حسنہ کے ہمراہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس بھیج دیا، ان کی ساری تیاری نجاشی کی طرف سے تھی، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کی طرف کوئی چیز نہیں بھیجی تھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی دیگر بیویوں کا مہر چار سو درہم تھا۔