۔ سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا ، جو کہ سیدنا ضحاک بن قیس رضی اللہ عنہ کی بہن تھی، سے مروی ہے ، وہ کہتی ہیں: میں سیدنا ابو عمر و بن حفص بن مغیرہ کی زوجیت میں تھی، وہ مجھے دو طلاقیں دے چکے تھے، پھر سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یمن کی جانب بھیجا تو میرے شوہر بھی انکے ساتھ یمن چلے گئے، وہاں سے تیسری طلاق بھیج دی، مدینہ میں ان کے وکیل عیاش بن ابی ربیعہ تھے، میں نے ان سے اپنے خرچہ اور رہائش کامطالبہ کیا، انہوں نے مجھ سے کہا: ہمارے ذمہ تیرے لیے کوئی خرچہ یا رہائش نہیں ہے، ہاں ہم احسان کرتے ہوئے اپنی طرف سے کچھ دے دیتے ہیں، بہرحال ہم پابند نہیں ہیں۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے کہا: اگر تمہارے ذمے کچھ نہیں ہے تو پھر مجھے تمہارا احسان سر لینے کی کوئی ضرورت نہیں، میں سیدھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس گئی اور اپنا معاملہ بتایا اور جو عیاش نے بات کہی تھی، وہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتائی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: عیاش نے درست کہا ہے، تیرے لیے ان کے ذمہ نہ تو نان و نفقہ ہے اور نہ رہائش اور نہ ہی تو ان کی جانب لوٹ سکتی ہے، کیونکہ تین طلاقیں مکمل ہو چکی ہیں اب تیرے اوپر عدت لازم ہے، لہٰذا تو اپنی چچازاد ام شریک کے گھر منتقل ہو جا اور عدت کے اختتام تک وہی رہنا۔ پھرآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہیں نہیں، وہاں نہیں جانا، ان کی نیکی روی کی وجہ سے وہاں مسلمان بھائیوں کا کثرت سے آنا جانا ہے، تو اپنے چچا کے بیٹے ابن ام مکتوم کے پاس منتقل ہو جا، ان کی نظر نہیں ہے، اس لیے وہاں کوئی دقت نہیں ہو گی، وہاں عدت گزار لے اور مجھے بتائے بغیر کوئی قدم نہ اٹھانا۔ سیدہ فاطمہ کہتی ہیں: اللہ کی قسم! میں نے اس سے یہی سمجھا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود میرے ساتھ شادی کا ارادہ رکھتے ہیں، شاید اس لیے یہ فرمایا ہے، بہرحال جب میں عدت سے فارغ ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میری منگنی سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ سے کرکے ان سے میری شادی کر دی۔ابو سلمہ راوی کہتے ہیں: سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے یہ حدیث خود مجھے لکھوائی اور میں نے اسے خود اپنے ہاتھ سے تحریر کیا ہے۔
۔ (دوسری سند)اسی طرح کی حدیث مروی ہے، البتہ اس میں ہے: سیدہ فاطمہ کہتی ہیں: جب میں عدت سے فارغ ہوئی تو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابو جہم بن حذیفہ رضی اللہ عنہ نے مجھے منگنی کا پیغام بھیجا، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان افراد کے بارے میں فرمایا: معاویہ رضی اللہ عنہ تو فقیر ہے، اس کے پاس مال نہیں ہے، اورابو جہم رضی اللہ عنہ تو ہر وقت اپنے کندھے پر لاٹھی ہی اٹھائے رکھتا ہے، تم لوگ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے شادی کیوں نہیں کر لیتے۔ سیدہ فاطمہ کے گھروالوں نے یہ پسند نہ کیا، لیکن سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں تو صرف اسی سے شادی کروں گی، جس سے شادی کرنے کی تجویز نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دی ہے، پس میں نے سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ سے نکاح کر لیا۔
۔ (تیسری سند)سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ کہتی ہیں: ابو عمرو بن حفص نے مجھے طلاق بائنہ دے دی اور وہ خود یہاں موجود نہ تھے، پھر اوپر والی حدیث کے ہم معنی حدیث ذکر کی، اورپھر کہا: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم اسامہ سے نکاح کر لو۔ میں نے اسے ناپسند کیا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر فرمایا: بس تم اسامہ بن زید سے نکاح کر لو۔ تو میں نے آپ کے حکم پر ان سے نکاح کر لیا اوراس میں اللہ تعالیٰ نے بہت خیر پیدا فرمائی۔
۔ ابوبکر بن ابوجہم کہتے ہیں: میں اور ابو سلمہ دونوں سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کے پاس حاضر ہوئے، انہوں نے کہا: میرے شوہر نے مجھے طلاق دی اور رہائش اور نان و نفقہ نہ دیا، بس صرف دس صاع دیئے، پانچ جو کے تھے اور پانچ کھجور کے، اپنے چچا کے بیٹے کے ہاتھ مجھے بھیج دیے، میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئی اور ساری تفصیل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتلائی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس نے درست کیا ہے۔ تیرے لیے وہ رہائش اور نان و نفقہ کا ذمہ دار نہیں ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں فلاں یعنی ابن ام مکتوم کے گھر عدت گزاروں، راوی کہتے ہیں اسے اس کے خاوند نے طلاق بائنہ دے دی تھی۔
۔ سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ان کے خاوند نے انہیں تین طلاقیں دے دی تھیں، سو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حاضر ہوئیں اور خاوند کی شکایت کرنے لگیں کہ اس نے مجھے نہ تو رہائش دی اور نہ ہی نان و نفقہ دیا۔ لیکن سیدہ فاطمہ کے جواب میں سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم اللہ تعالی کی کتاب اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کو ایک عورت کے کہنے پر نہیں چھوڑیں گے،ممکن ہے کہ وہ بھول گئی ہو۔ عامر شبعی کہتے ہیں: سیدہ فاطمہ نے مجھ سے بیان کیا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے ابن ام مکتوم کے گھر عدت گزارنے کا حکم دیا تھا۔
۔ سعید بن زید کی بیٹی، سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہ اس کی خالہ تھیں اور یہ سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عثمان رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں، انہوں نے اسے مختلف اوقات میں تین طلاقیں دے دیں، بنت سعید کے پاس اس خالہ فاطمہ بنت قیس نے پیغام بھیجا ،اس کو اپنے گھر منتقل کر لیا اور مدینہ پر اس وقت مروان بن حکم گورنر تھے۔قبیصہ کہتے ہیں: مروان نے مجھے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیجا کہ میں ان سے دریافت کروں کہ ایک عورت یعنی عدت ختم ہونے سے پہلے ہی اپنے گھر سے باہر منتقل ہو گئی ہے، اس کا سبب کیا ہے،سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اپنا واقعہ بیان کیا اور کہا: میں تم سے اللہ تعالیٰ کی کتاب کے ذریعہ مقدمہ لڑوں گی، اللہ تعالی کا فرمان ہے: {اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَائَ فَطَلِّقُوْھُنَّ لِعِتَّدِہِنَّ وَاَحْصُو الْعِدَّۃَ وَاتَّقُوْا اللّٰہَ رَبَّکُمْ لَا تُخْرِجُوْھُنَّ مِنْ بُیُوْتِہِنَّ وَلَا یَخْرُجْنَ اِلَّا اَنْ یَاْتِیْنَ بِفَاحِشَۃٍ مُبَیِّنَۃٍ} اِلٰی: {لَعَلَّ اللّٰہَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذَالِکَ اَمْرًا}… جب تم عورتوں کو طلاق دو تو انہیں عدت کے آغاز میں طلاق دو اور عدت شمار کرو، اللہ تعالیٰ سے ڈرو جو تمہارا رب ہے، انہیںان کے گھروں سے نہ نکالو اور نہ وہ نکلیں، الا یہ کہ ظاہر بے حیائی کو آئیں… شاید اللہ تعالیٰ اس کے بعد کوئی نیا معاملہ پیدا کریں۔ پھر اللہ تعالی نے فرمایا: … {فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَہُنَّ فَاَمْسِکُوْھُنَّ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ فَارِقُوْھُنَّ بِمَعْرُوْفٍ} جب یہ اپنی عدت کو پہنچ جائیں تو انہیں اچھے طریقہ سے روکو یا اچھے طریقہ سے جدا کر دو۔ اللہ کی قسم! تیسری طلاق کے بعد روکنے کا ذکر نہیں کیا اور اس کے ساتھ یہ بھی ہوا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے عدت گزارنے کا حکم بھی دیا ہے۔راوی کہتے ہیں: میں مروان کے پاس لوٹا اور جو کچھ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے بتایا تھا، میں نے اس کو اس سے آگاہ کیا ہے، مروان نے کہا: ایک عورت کی بات ہے، پھرمروان نے اس عورت کو حکم دیا کہ وہ اپنے گھر لوٹ جائے اس وقت تک گھر میں رہے جب تک اس کی عدت ختم نہیں ہو جاتی۔
۔ عبید اللہ بن عبد اللہ سے مروی ہے کہ سیدنا ابو عمرو بن حفص بن مغیرہ رضی اللہ عنہ ،سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ یمن کی جانب گئے، انہوںنے سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کو وہ طلاق بھی بھیج دی جو باقی رہتی تھی اور سیدنا ابو عمرو رضی اللہ عنہ نے سیدنا حارث بن ہشام رضی اللہ عنہ اور سیدنا عیاش بن ابی ربیعہ رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ فاطمہ کو کچھ خرچہ دے دیں، لیکن سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے وہ لینے سے انکار کر دیا اور کہا: مجھے باقاعدہ خرچہ دو، یہ میرا حق ہے، ابو عمرو نے کہا: اللہ کی قسم! تیرے لیے میرے ذمہ کوئی خرچ نہیں، ہاں اگر تو حاملہ ہوتی تو پھر وضع حمل تک خرچہ کی مستحق تھی۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئیں اور اس کا ذکر کیا کہ ابو عمرو میراخرچہ نہیں دے رہے اور کہتے ہیں کہ اگر تو حاملہ ہوتی تو پھر خرچہ تھا اب نہیں،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وہ درست کہتا ہے۔ کسی مجبوری کے تحت اس نے عدت کے لیے وہاں سے منتقل ہونے کی اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اجازت دے دی، اس نے کہا:اے اللہ کے رسول! آپ کی کیا رائے ہے میں کہاں عدت گزاروں؟ آپ نے فرمایا: ابن ام مکتوم کے گھر گزارو۔ وہ نابینا آدمی تھے، پردہ اتر بھی جائے تو چنداں نقصان دہ نہیں، کیونکہ وہ دیکھ نہیں سکتے، جب عدت پوری ہوئی تو ان کا نکاح نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے کر دیا۔مروان نے قبیصہ بن ذویب کو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس یہ حدیث دریافت کرنے کے لیے بھیجا، جب انھوں نے واپس آ کر بیان کیا تو مروان کہنے لگا: یہ حدیث ایک عورت سے ہم نے سنی ہے، ہم وہ محفوظ طریقہ اپناتے ہیں، جس پر ہم نے لوگوں کو پایا ہے، مروان کی بات جب سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا تک پہنچی تو انہوں نے کہا: میرے اور تمہارے درمیان قرآن پاک ہی فیصلہ کرے گا: اللہ تعالی نے فرمایا {اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَائَ فَطَلِّقُوْھُنَّ لِعِتَّدِہِنَّ وَاَحْصُو الْعِدَّۃَ وَاتَّقُوْا اللّٰہَ رَبَّکُمْ لَا تُخْرِجُوْھُنَّ مِنْ بُیُوْتِہِنَّ وَلَا یَخْرُجْنَ اِلَّا اَنْ یَاْتِیْنَ بِفَاحِشَۃٍ مُبَیِّنَۃٍ} اِلٰی: {لَعَلَّ اللّٰہَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذَالِکَ اَمْرًا}… جب تم عورتوں کو طلاق دو تو انہیں عدت کے آغاز میں طلاق دو اور عدت شمار کرو، اللہ تعالیٰ سے ڈرو جو تمہارا رب ہے، انہیںان کے گھروں سے نہ نکالو اور نہ وہ نکلیں، الا یہ کہ ظاہر بے حیائی کو آئیں… شاید اللہ تعالیٰ اس کے بعد کوئی نیا معاملہ پیدا کریں۔ فاطمہ نے کہا یہ گھروں سے نہ نکالنے کا حکم اس کے لیے ہے، جس کے لیے رجوع کا حق باقی ہے کہ اسے خرچہ دیا جائے، اب جبکہ تین طلاقیں ہو چکی ہیں، اس کے بعد نیا معاملہ کیا پیدا ہو گا؟
۔ سیدنا ابوسلمہ بن عبد الرحمن رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہ نے انہیں بتایا کہ وہ سیدنا ابو عمرو بن حفص رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں، انہوں نے انہیں آخری اور تیسری طلاق دے دی اور کہا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس گئی اور اپنے گھر سے باہر آنے کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فتویٰ طلب کیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں سیدنا ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ ، جو نابینا صحابی تھے، کے گھر منتقل ہونے کا حکم دیا، مروان نے فاطمہ کی اس بات کو مورد الزام ٹھہرایا کہ طلاق والی اپنے گھر سے نکل سکتی ہے۔ عروہ کا خیال ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ نے بھی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی اس بات کا انکار کیا تھا۔
۔ سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، وہ کہتے ہیں: میری خالہ کو طلاق ہو گئی، وہ ابھی تک عدت میں تھیں، لیکن انہوں نے چاہا کہ وہ کھجوروں کا پھل اتار لائیں، ایک آدمی نے ان کو ایسا کرنے سے منع کر دیااور کہا کہ وہ باہر نہ جائیں، پس وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیوں نہیں، تم اپنی کھجوروں کا پھل اتار سکتی ہو، ممکن ہے کہ تم اس سے صدقہ کرو یا نیکی کا کوئی کام سر انجام دو۔