۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا: اے ابن آدم! میں نے تجھے گھوڑے اور اونٹ پر سوار کیا اور عورتوں سے تیری شادی کروائی، پھر تجھے ایسا بنا دیا کہ تو خوشحال ہوا اور بلند رتبے والا بنا، پس اب ان چیزوں کا شکر کہاں ہے؟
۔ سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس قدر طویل قیام کرتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاؤں سوج جاتے تھے، کسی نے کہا: اے اللہ کے رسول! تحقیق اللہ تعالیٰ نے تو آپ کے پچھلے گناہ معاف کر دیئے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا میں بہت زیادہ شکر گزار بندہ نہ بنوں۔
۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ اس چیز کو پسند کرتا ہے کہ وہ اپنے بندے پر اپنی نعمت کا اثر دیکھے۔
۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کھانے والا اور شکر ادا کرنے والے صبر کرنے والے روزے دار کی طرح ہے۔
۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے لوگوں کا شکر ادا نہیں کیا، اس نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہیں کیا۔
۔ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بھی اسی طرح کی حدیث ِ نبوی بیان کرتے ہیں۔
۔ سیدنا اشعث بن قیس رضی اللہ عنہ نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اسی طرح کی حدیث بیان کی ہے۔
۔ سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان لکڑیوں پر یا اس منبر پر فرمایا تھا کہ جس نے تھوڑی چیز کا شکر ادا نہ کیا، وہ کثیر مقدار والی چیز کا بھی شکریہ ادا نہیں کرے گا اور جس نے لوگوں کا شکریہ ادا نہ کیا، وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہیں کرے گا، اللہ تعالیٰ کی نعمت کو بیان کرنا بھی شکر ہے اور بیان نہ کرنا ناشکری ہے۔ اور جماعت رحمت ہے اور افتراق و انتشار عذاب ہے۔ سیدنا ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ نے کہا: تم بڑے لشکر کو لازم پکڑو، ایک آدمی نے کہا: بڑا لشکر کون سا ہے؟ سیدنا ابو امامہ نے کہا: سورۂ نور کییہ آیت ہے: پھر بھی اگر تم نے روگردانی کی تو رسول کے ذمے تو صرف وہی ہے جو اس پر لازم کر دیا گیا ہے اور تم پر اس کی جوابدہی ہے جو تم پر رکھا گیا ہے۔ (سورۂ نور: ۵۴)
۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس کے ساتھ کوئی احسان کیا جائے تو وہ اس کا بدلہ دے، اگر بدلے کی قدرت نہ ہو تو اس کا ذکر کر دے، پس جس نے اس کا ذکر کر دیا، اس نے اس کا شکر ادا کر دیا اور جس نے ایسی نعمت کا اظہار کیا، جو اس کے پاس نہیں ہے تو وہ اس شخص کی طرح ہے، جس نے جھوٹ کے دو کپڑے پہن رکھے ہوں۔
۔ سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سخت گرمی میں چل رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جوتے کا تسمہ ٹوٹ گیا، پس ایک آدمی تسمہ لے کر آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جوتے میں ڈال دیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر تو اس چیز کو جانتا ہوتا، جس پر تو نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اٹھایا ہے تو تواس چیز کو کم نہ سمجھتا، جس پر تو نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سوار کیا ہے۔