۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تحقیق وہ کامیاب ہو گیا، جس نے اسلام قبول کیا اور پھر اس کو بقدر ضرورت رزق دیا گیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کو جو کچھ دیا، اس کو اس پر قناعت کرنے والا بنا دیا۔
۔ سیدنا فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ نے بھی اسی قسم کی حدیث ِ نبوی بیان کی ہے۔
۔ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: گھر، موٹی اور خشک روٹی اور شرمگاہ کو چھپانے والا کپڑا، جو چیز ان کے علاوہ ہے، وہ زائد ہے اور ابن آدم کا اس میں کوئی حق نہیں ہے۔
۔ سیدنا عتبہ بن عبد سلمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لباس طلب کیا، پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے دو موٹے سے کپڑے پہنا دیے، لیکن جب میں نے ان کو زیب ِ تین کیا تو دیکھا کہ اپنے ساتھیوں میں زیادہ لباس والا میں ہی تھا۔
۔ سیدنا عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ ، جو کہ بدری صحابی تھے، سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: اے میرے پیارے بیٹے عبد اللہ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں لشکر میں بھیجتے تھے، ہمارا زادِ راہ صرف چمڑے کے تھیلوں میں ہوتا تھا، وہ اس طرح تقسیم کیا جاتا کہ ہر ایک کو ایک ایک لپ آتی تھی، پھر ایک ایک کھجور تک نوبت جا پہنچی۔ بیٹے نے کہا: اے ابا جان! وہ ایک کھجور تم سے کیا کفایت کرتی ہو گی؟ انھوں نے کہا: بچو! یہ بات نہ کرو، جب وہ بھی نہیں ملتی تھی تو ہمیں اس کی بھی ضرورت محسوس ہوتی تھی۔
۔ عبد اللہ بن شقیق کہتے ہیں: میں نے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ مدینہ منورہ میں ایک سال تک سکونت اختیار کی، ایک دن انھوں نے مجھے کہا، جبکہ ہم سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے کے پاس تھے: میں نے دیکھا کہ ہمارے پاس پھٹ جانے والی پرانی چادریں ہوتی تھیں اور ایسے دن بھی آ جاتے تھے کہ ہم کھانے کی کوئی ایسی چیز نہیں پاتے تھے، جس کے ذریعے اپنے کمر کو کھڑا کر لیتے،یہاں تک کہ اس چیز کی نوبت آ جاتی کہ لوگ اپنی کمر کو سیدھا رکھنے کے لیے پتھر اٹھا کر اپنے بھوکے پیٹ پر رکھ کر اس کو کپڑے سے کس دیتے تھے، ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمارے مابین کھجوریں تقسیم کیں، ہر انسان کو سات سات کھجوریں ملیں، ان میں خشک اور ردّی کھجوریں بھی تھیں، اور مجھے یہ بات خوش نہیں لگتی تھی کہ اس ردّی کھجور کی بجائے مجھے عمدہ کھجور ملتی، میں نے کہا: وہ کیوں؟ انھوں نے کہا: اس کو سختی سے چبانا پڑتا تھا۔
۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اس حالت میں دیکھا تھا کہ بھوک کی وجہ سے اپنے پیٹ پر پتھر باندھتا تھا، لیکن آج میرے مال کی زکوۃ کی مقدار چالیس ہزار ہے۔
۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہمارا کھانا دو سیاہ چیزیں کھجور اور پانی ہوتی تھیں، اللہ کی قسم! ہم نے نہ تو تمہاری اس گندم کو دیکھا تھا اور نہ جانتے تھے کہ یہ کیا ہوتی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہمارا لباس بدوؤں والی چھوٹیچھوٹی چادریں ہوا کرتی تھیں۔
۔ سیدنا ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، ایک آدمی ان کے پاس گیا اور ان کو روتا ہوا پایا، اس نے کہا: اے ابو عبیدہ! تم کیوں رو رہے ہو؟ انھوں نے کہا: میرے رونے کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دن ان چیزوں کا ذکر کیا، جو اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو فتوحات اور غنیمتوں کی صورت میں عطا کرے گا، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شام کا ذکر بھی کیا اور مزید فرمایا: ابو عبیدہ! اگر تیری زندگی لمبی ہو جائے تو تین خادم تجھے کفایت کرنے چاہئیں، ایک خادم تیری خدمت کے لیے، ایک تیرے ساتھ سفر کرے کے لیے اور ایک خادم تیرے اہل خانہ کی خدمت کرنے کے لیے، جو ان کے پاس آتا جاتا رہے، اور تجھے تین سواریاں کافی ہو جانی چاہئیں، ایک تیری سواری کے لیے، ایک تیرے سامان کے لیے اور ایک سواری تیرے غلام کے لیے۔ اب توجہ کر، میں اپنے گھر کی طرف دیکھ رہا ہوں، وہ غلاموں سے بھرا ہوا ہے اور اصطبل جانوروں اور گھوڑوں سے بھرا ہوا، ان چیزوں کے ہوتے ہوئے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کس منہ سے ملوں گا، جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں وصیت کرتے ہوئے فرمایا تھا: تم میں مجھے سب سے زیادہ محبوب اور سب سے زیادہ میرے قریب وہ ہے، جو مجھے اسی حالت میں ملے، جس پر میں اس کو چھوڑ کر جا رہا ہوں۔
۔ شقیق کہتے ہیں: سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اپنے ماموں سیدنا ابو ہاشم بن عتبہ رضی اللہ عنہ کی تیماری داری کرنے کے لیے ان کے پاس گئے، وہ رونے لگ گئے، سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ماموں جان! کیوں رو رہے ہو، کوئی تکلیف پریشان کر رہی ہے یا دنیوی حرص رونے کا سبب بن رہی ہے؟ انھوں نے کہا: ان میںسے کوئی وجہ بھی نہیں ہے، بات یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں یہ وصیت کرتے ہوئے فرمایا تھا: اے ابو ہاشم! ممکن ہے کہ تم ایسے اموال پا لو، جو لوگوںکے مابین تقسیم ہونا ہوں گے، بس صرف تیرے لیے مال میں سے ایک خادم اور اللہ تعالیٰ کے راستے کے لیے ایک سواری کافی ہو گی۔ لیکن اب میں اپنے آپ کو دیکھتا ہوں کہ میں نے مال جمع کیا ہے۔
۔ (دوسری سند) سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ ، سیدنا ابو ہاشم بن عتبہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے، جبکہ وہ بیمار تھے اور رو رہے تھے۔
۔ حارثہ بن مضرب کہتے ہیں: میں سیدنا خباب رضی اللہ عنہ کے پاس گیا، جبکہ ان کو جسم کے سات مقامات پر داغا گیا تھا، انھوں نے کہا: میرے علم کے مطابق جو تکلیف مجھے ہے، وہ کسی اور کو نہیں ہے، اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے نہ سنا ہوتا کہ کوئی آدمی موت کی تمنا نہ کرے میں موت کی تمنا کرتا۔ جب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھا، تو میرے پاس ایک درہم بھی نہیں تھا اور اب تو میرے گھر کے ایک کونے چالیس ہزار درہم پڑے ہوئے ہیں، پھر ان کا کفن لایا گیا اور انھوں نے اس کو دیکھ کر رونا شروع کر دیا اور کہا: لیکن سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کے لیے کفن نہیں تھا، ما سوائے سفید و سیاہ رنگ کی ایک چادر کے، جب وہ ان کے سر پر رکھی جاتی تو پاؤں سے سکڑ جاتی اور جب پاؤں پر رکھی جاتی تو سر سے ہٹ جاتی، پھر اس کو ان کے سر پر ڈالا گیا اور پاؤں پر اذخر گھاس رکھ دی گئی۔
۔ سیدنا خباب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہجرت کی، ہم میں بعض ایسے افراد تھے کہ وہ دنیا میں اپنے اجر کی کوئی چیز کھائے بغیر فوت ہو گئے، ان میں سے ایک سیدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ تھے کہ جنھوں نے صرف اپنے ترکہ میں ایک دھاری دارچادر چھوڑی تھی، جب لوگ اس سے ان کے سر کو ڈھانپتے تو ان کی ٹانگیں ننگی ہو جاتیں اور جب ٹانگوں پر ڈالتے تو سر ننگا ہو جاتا تھا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں فرمایا: اس کے سر کو ڈھانپ دو۔ اور ہم نے ان پاؤں پر اذخر گھاس ڈال دی تھی، لیکن بعض ایسے لوگ بھی تھے کہ ان کا پھل پکا اور وہ اسے چن رہا ہے۔
۔ خالد بن عمیر کہتے ہیں: سیدنا عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ نے خطاب کیا، اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کی اور پھر کہا: اَمَّا بَعْدُ! پس دنیا نے اپنے ختم ہونے کی خبر دے دی ہے اور یہ جلدی پھرنے والی ہے، اب یہ اتنی ہی باقی رہ گئی، جتنا کہ برتن میںتھوڑا سا پانی باقی رہ جاتا ہے، جس کو اس کا مالک پی لیتا ہے، اور تم لوگ ختم نہ ہونے والے گھر کی طرف منتقل ہونے والے ہو، پس اپنے پاس موجود بھلائی کے ساتھ منتقل ہو جاؤ، ہمیں یہ بات بتلائی گئی کہ ایک پتھر کو جہنم کے کنارے سے اس میں پھینکا جاتا ہے اور وہ ستر سال گرتے رہنے کے باوجود اس کی تہہ تک نہیں پہنچ پاتا، اللہ کی قسم! اتنی وسیع جہنم کو بھر دیا جائے گا، کیا تم لوگوں کو تعجب ہو رہا ہے؟ اللہ کی قسم! ہمیں بتلایا گیا کہ جنت کے ایک دروازے کے دو پٹوں کے درمیان چالیس سال کی مسافت کا فاصلہ ہے، لیکن اس پر بھی ایک ایسا دن آئے گا کہ یہ ہجوم سے بھرا ہوا ہو گا، میں نے خود دیکھا کہ ہم سات افراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے، ہمارا کھانا صرف درخت کے پتے تھے،جس کہ وجہ سے گوشۂ دہن پر زخم ظاہر ہونے لگتے تھے اور میں نے ایک چادر اٹھائی اور اس کو اپنے اور سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے مابین دو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا، نصف سے انھوں نے ازار باندھ لیا، لیکن اب ہم میں سے ہر کوئی ایک ایک شہر کا امیر بن بیٹھا ہے، میں اس چیز سے پناہ مانگتا ہوں کہ میں اپنے آپ کو اپنے نفس میں تو عظیم سمجھوں، لیکن اللہ تعالیٰ کے ہاں کم قدرا ہوں، نبوت جب بھی ختم ہوتی تھی تو اس کا انجام بادشاہت کی صورت میں نکلتا تھا، اور ہمارے بعد عنقریب تم بھی بادشاہوں کا تجربہ کرو گے۔
۔ (دوسری سند) سیدنا عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ نے ہمیں منبر پر چڑھ کر خطبہ دیا اور کہا: میں نے اپنے آپ کو دیکھا کہ ہم سات افراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے اور ہمارا کھانا صرف اور صرف لوبیے جیسی ترکاری کے پتے تھے، اس سے ہمارے گوشۂ دہن زخمی ہونے لگتے تھے۔
۔ موسیٰ کے باپ علی بن رباح سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں اسکندریہ میں سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے پاس تھا، لوگوں نے اپنی خوشحالی کا ذکر کیا، اس موقع پر ایک صحابی نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس حال میں فوت ہوئے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل و عیال نے جَو اور سَلْت کی مکس روٹی نہیں کھائی۔
۔ سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ ، جو کہ اصحاب ِ رسول میں سے ہیں، سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں مدینہ منورہ آیا، جبکہ میری کسی سے معرفت نہیں تھی، میں صفہ میں ایک آدمی کے ساتھ ٹھہرا، مجھے اور اس کو روزانہ ایک مُدّ کھجوروں کا ملتا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دن نماز پڑھائی، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو اصحاب ِ صفہ میں سے ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! کھجور نے ہمارے پیٹ جلا دیئے ہیں اور گھٹیا روئی کے سخت کپڑے ہمارے جسم کو کھا گئے ہیں،یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر تشریف لائے اور فرمایا: اللہ کی قسم! اگر میرے پاس روٹییا گوشت ہوتا تو میں تم کو ضرور کھلاتا، خبردار! قریب ہے کہ تم ان نعمتوں کو پا لو، تم میں سے جس نے اس چیز کو پا لیا کہ تم پر بڑی بڑی دیگیں لائی جائیں، (تو پھر تو اس کو کفایت کرے گا) اور تم کعبہ کے پردوں کی طرح کپڑے پہنو گے۔ پھر اٹھارہ دنوں تک میرے اور میرے ساتھی کا کھانا پیلو کے درخت کا کالا پھل رہا، پھر ہم اپنے انصاری بھائیوں کے پاس گئے، پس انھوں نے ہمارے ساتھ اچھا سلوک کیا، بہرحال ہم کو وہاں سے بھی کھجور ہی ملی، البتہ وہ بہترین قسم کی تھی۔
۔ سیدنا عتبہ بن عمر اور سیدنا ابو مسعود بدری رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صدقے کا حکم دیتے تھے، پس ہم میں سے ایک آدمی جاتا اور بوجھ اٹھانے کا کام کر کے ایک مد لے کر آتا، جبکہ آج بعض کے پاس ایک ایک لاکھ درہم موجود ہے۔ شقیق کہتے ہیں: میرا خیال ہے وہ ایک لاکھ والے سے اپنے آپ کو مراد لیتے تھے۔
۔ حسن بصری کہتے ہیں: جب سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ کی وفات کاوقت قریب ہوا تو وہ رونے لگ گئے اور انھوں نے کہا: بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں ایک نصیحت کی تھی، لیکن ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وصیت کو چھوڑ دیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نصیحتیہ تھی کہ سوار کے زادِ راہ کی طرح ہماری روزی بقدر ضرورت ہونی چاہیے۔ پھر سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ جو ترکہ چھوڑ کر فوت ہوئے، جب ہم نے اس کو دیکھا تو وہ پچیس چھبیسیا پینتیس چھتیس درہموں کی قیمت کا تھا۔
۔ سیدنا بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم کو دنیا سے ایک خادم اور ایک سواری کافی ہونی چاہیے۔