۔ (۹۴۸۴)۔ عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ رضی اللہ عنہ ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ((اِیَّاکُمْ وَالْجُلُوْسَ فِی الطُّرُقَاتِ۔)) قَالُوْا: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! مَالَنَا مِنْ مَجَالِسِنَا بُدٌّ نَتَحَدَّثُ فِیْھَا، قَالَ: ((فَاَمَّا اِذَا اَبَیْتُمْ فَاَعْطُوْا الطَّرِیْقَ حَقَّہُ۔)) قَالُوْا: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! فَمَا حَقُّ الطَّرِیْقِ؟ قَالَ: ((غَضُّ الْبَصَرِ، وَکَفُّ الْاَذٰی، وَرَدُّ السَّلَامِ، وَالْاَمْرُ بِالْمَعْرُوْفِ، وَالنَّھْیُ عَنِ الْمُنْکَرِ۔)) (مسند احمد: ۱۱۳۲۹)
۔ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: راستوں میں بیٹھنے سے بچو۔ صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہماری مجلسوں کے لیے اس سے کوئی چارۂ کار نہیں ہے، ہم نے راستوں پر باتیں کرنا ہوتی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر تم نے انکار ہی کرنا ہے تو پھر راستے کو اس کا حق دیا کرو۔ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! راستے کا حق کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نگاہ جھکا کر رکھنا، تکلیف نہ دینا، سلام کا جواب دینا، نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا۔