فوائد:… بعد میں آنے والے وڈیروںیا خیر و بھلائی کی رغبت رکھنے والے صوفی مزاج لوگوں کییہ عادت ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کی گردنیں پھلانگتے ہوئے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام کی بابرکت مجالس میں ایسا نہیں ہوتا تھا، وہاں جس کو جہاں جگہ ملتی تھی، وہ وہیں بیٹھ جاتا تھا۔ شیخ البانی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں: اس حدیث میں عہد ِ نبوی کے ایک ادب ِ مجلس کا ذکر کیا گیا ہے۔ عصر حاضر میں اہل علم سمیت اکثر لوگ اس کو ترک کر چکے ہیں۔ وہ ادب یہ ہے کہ جب کوئی آدمی کسی مجلس میں پہنچے تو جہاں مجلس ختم ہو رہی ہے، وہیں بیٹھ جائے، اگرچہ اسے دروازے کی دہلیز پر بیٹھنا پڑے، وہ اس چیز کا انتظار نہ کرے کہ لوگ اس کے لیے کھڑے ہوںتاکہ وہ آگے جا سکے، جیسا کہ متکبر سرداروں اور بڑائی خور لوگوں کا وطیرہ ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسا کرنے سے صراحت کے ساتھ منع کیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (( لایُقِیْمُ الرَّجُلُ الرَّجُلَ مِنْ مَقْعَدِہٖ ثُمَّ یَجْلِسُ فِیْہِ، وَلٰکِنْ تَفَسَّحُوْا وَتَوَسَّعُوْا )) … کوئی آدمی دوسرے آدمی کو اس کی مجلس سے کھڑا مت کرے اور پھروہاں خود بیٹھ جائے، (البتہ تم کو چاہئے کہ) کھلے ہو جاؤ اور وسعت پیدا کرو۔ (مسلم) اور صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے: جب کوئی آدمی سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے لیے اپنی مجلس سے کھڑا ہوتا تو وہ وہاں نہیں بیٹھتے تھے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے منع فرما دیا کہ مجلس میں بیٹھا ہوا آدمی کسی کی خاطر کھڑا ہو۔ دیکھیں صحیحہ: ۲۲۸۔(صحیحہ: ۳۳۰)