مسنداحمد

Musnad Ahmad

مجالس اور ان کے آداب کا بیان

مجلس میں موجود لوگوں کے ساتھ خاص آداب

۔ (۹۵۰۳)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِذَا کُنْتُمْ ثَلَاثَۃً فَـلَا یَتَنَاجَ اثْنَانِ دَوْنَ صَاحِبِھِمَا، فَاِنَّ ذٰلِکَ یُحْزِنُہُ (وَفِیْ لَفْظٍ) لَا یَتَسَارَّ اثْنَانِ دُوْنَ الثَّالِثِ اِذَا لَمْ یَکُنْ مَعَھُمْ غَیْرُھُمْ۔)) (مسند احمد: ۳۵۶۰)

۔ سیدنا عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب تم تین افراد ہو تو دو آدمی اپنے تیسرے ساتھی کو چھوڑ کر سرگوشی نہ کریں، کیونکہیہ چیز اس کو پریشان کرے گی۔ ایک روایت میں ہے: دو آدمی تیسرے کو چھوڑ کر راز دارانہ بات نہ کریں، جب ان کے ساتھ کوئی اور نہ ہو۔

۔ (۹۵۰۴)۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: نَھٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَنْ یَتَنَاجَی اثْنَانِ دُوْنَ الثَّالِثِ اِذَا لَمْ یَکُنْ مَعَھُمْ غَیْرُھُمْ۔ قَالَ: وَنَھٰی النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَنْ یُخَالِفَ الرَّجُلُ الرَّجُلَ فِیْ مَجْلِسِہِ۔ وَقَالَ: ((اِذَا رَجَعَ فھُوَ اَحَقُّ بِہٖ۔)) (مسنداحمد: ۴۸۷۴)

۔ سیدنا عبدا للہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے کہ تیسرے کو چھوڑ کر دو آدمی سرگوشی کرنے لگ جائیں، جب ان کے ساتھ اور کوئی نہ ہو، نیز آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے بھی منع فرمایا ہے کہ اس آدمی کی جگہ میں بیٹھا جائے جو (عارضی طور پر) مجلس سے اٹھ کر جائے، اس کے بارے میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب ایسا آدمی لوٹے تو وہی اس جگہ کا زیادہ حقدار ہو گا۔

۔ (۹۵۰۵)۔ وعَنْہُ اَیْضًا، عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اِذَا کُنْتُمْ ثَلَاثَۃً فَـلَا یَنْتَجِیْ اثْنَانِ دُوْنَ صَاحِبِھِمَا۔)) قَالَ: قُلْنَا: فَاِنْ کَانُوْا اَرْبَعًا؟ قَالَ: فَـلَا یَضُرُّ۔ (مسند احمد: ۴۶۸۵)

۔ سیدنا عبدا للہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب تم تین افراد ہو تو تیسرے کو چھوڑ کر دو آدمی آپس میں سرگوشی نہ کیا کریں۔ ابو صالح راوی نے کہا: اگر چار افراد ہوں تو؟ انھوں نے کہا: تو پھر یہ چیز نقصان نہیں دے گی (یعنی پھر کوئی حرج نہیں ہو گا)۔

۔ (۹۵۰۶)۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، اَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((مَنْ حَدَّثَ فِیْ مَجْلِسٍ بِحَدِیْثٍ ثُمَّ الْتَفَتَ فَھِیَ اَمَانَۃٌ۔)) (مسند احمد: ۱۴۵۲۸)

۔ سیدنا عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس بندے نے مجلس میں کوئی بات کی اور پھر وہ اِدھر اُدھر متوجہ ہوا تو وہ بات امانت ہو گی۔

۔ (۹۵۰۷)۔ عَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِِذَا قَامَ اَحَدُکُمْ مِنْ مَجْلِسِہِ ثُمَّ رَجَعَ اِلَیْہِ فَھُوَ اَحَقُّ بِہٖ۔)) (مسنداحمد: ۱۰۸۳۵)

۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب کوئی آدمی اپنی مجلس سے چلا جائے اور پھر واپس آ جائے تو وہی اس جگہ کا زیادہ حقدار ہو گا۔

۔ (۹۵۰۸)۔ عَنْ وَھْبِ بْنِ حُذَیْفَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ، عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اِذَا قَامَ اَحَدُکُمْ مِنْ مَجْلِسِہِ فَرَجَعَ اِلَیْہِ فَھُوَ اَحَقُّ بِہٖ،وَاِنْکَانَتْلَہُحَاجَۃٌ فَقَامَ اِلَیْھَا ثُمَّ رَجَعَ فَھُوَ اَحَقُّ بِہٖ۔)) (مسنداحمد: ۱۵۵۶۵)

۔ سیدنا وہب بن حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب کوئی آدمی اپنی مجلس سے چلا جائے اور پھر واپس لوٹ آئے تو وہی اس کا زیادہ حقدار ہو گا، اگر ایسا آدمی کسی ضرورت کی وجہ سے مجلس سے چلا جاتا ہے اور پھر واپس آجاتا ہے تو وہی اس مقام پر بیٹھنے کا زیادہ حقدار ہو گا۔

۔ (۹۵۰۹)۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَنَّہُ خَرَجَ عَلٰی اَصْحَابِہٖ (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: دَخَلَ الْمَسْجِدَ وَھُمْ حِلَقٌ) فَقَالَ: ((مَالِیْ اَرَاکُمْ عِزِیْنَ؟)) وَھُمْ قُعُوْدٌ۔ (مسند احمد: ۲۱۱۶۶)

۔ سیدنا جابر بن سمرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے صحابہ کے پاس گئے، ایک روایت میں ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مسجد میں داخل ہوئے اور وہ حلقوں کی صورت میں بیٹھے ہوئے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا: کیا وجہ ہے کہ تم مجھے مختلف گروہوں کی صورت میں نظر آ رہے ہو۔ جبکہ وہ بیٹھے ہوئے تھے۔

۔ (۹۵۱۰)۔ عَنْ اَبِیْ مِجْلَزٍ، عَنْ حُذَیْفَۃَ، فِی الَّذِیْیَقْعُدُ فِیْ وَسْطِ الْحَلْقَۃِ قَالَ: مَلْعُوْنٌ عَلٰی لِسَانِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَوْلِسَانِ مُحَمَّدٍ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند احمد: ۲۳۶۵۲)

۔ سیدنا حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ حلقے کے وسط میں بیٹھنے والے آدمی کے بارے میں کہتے ہیں: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی زبان کے مطابق ایسے شخص پر لعنت کی گئی ہے۔

۔ (۹۵۱۱)۔ عَنْ حَرْمَلَۃَ الْعَنْبَرِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: اَتَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! اَوْصِنِیْ؟ قَالَ: ((اِتَّقِ اللّٰہَ، وَاِذَا کُنْتَ فِیْ مَجْلِسٍ فَقُمْتَ مِنْہُ فَسَمِعْتَھُمْ یَقُوْلُوْنَ مَا یُعْجِبُکَ فَاْتِہِ، وَاِذَا سَمِعْتَھُمْیَقُوْلُوْنَ مَاتَکْرَہُ فَاتْرُکْہُ۔)) (مسند احمد: ۱۸۹۲۷)

۔ سیدنا حرملہ عنبری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! آپ مجھے وصیت فرمائیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ سے ڈر اور جب تو کسی مجلس میں بیٹھا ہوا ہو اور پھر ا س سے اٹھنے لگے، لیکن جب تو سنے کہ وہ ایسی باتیں کر رہے ہیں جو تجھے پسند ہیں تو ان کے ساتھ بیٹھا رہ، اور جب تو ان کو ایسی باتیں کرتے ہوئے سنے، جو تجھے ناپسند ہوں تو اس مجلس کو چھوڑ دے۔

۔ (۹۵۱۲)۔ عَنِ الشَّرِیْدِ بْنِ سُوَیْدٍ، قَالَ: مَرَّ بِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَاَنَا جَاِلسٌ ھٰکَذَا وَقَدْ وَضَعْتُ یَدِیْ الْیُسْرٰی خَلْفَ ظَھْرِیْ وَاتَّکَاْتُ عَلٰی اَلْیَۃِیَدِیْ، فَقَالَ: ((اَتَقْعُدُ قِعْدَۃَ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ۔)) (مسند احمد: ۱۹۶۸۳)

۔ سیدنا شرید بن سوید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے پاس سے گزرے، جبکہ میں اس طرح بیٹھا ہوا تھا کہ میں نے اپنا بایاں ہاتھ اپنے پیٹھ کے پیچھے رکھا ہوا تھا اور میں نے اپنے ہاتھ کے نرم حصے پر ٹیک لگائی ہوئی تھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے فرمایا: کیا تو ان لوگوں کی طرح بیٹھک بیٹھتا ہے، جن پر غضب کیا گیا۔

۔ (۹۵۱۳)۔ عَنْ جَابِرٍ بْنِ سَمُرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: دَخَلَتُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیْ بَیْتِہِ، فَرَاَیْتُہُ مُتَّکِئًا عَلٰی وِسَادَۃٍ۔ (مسند احمد: ۲۱۲۸۵)

۔ سیدنا جابر بن سمرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے گھر گیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو تکیے پر ٹیک لگائے ہوئے دیکھا۔

۔ (۹۵۱۴)۔ عَنْ جَابِرٍ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اِذَا جَلَسَ (أَوْ اِذَا اسْتَلَقٰی) اَحَدُکُمْ فَـلَا یَضَعْ رِجْلَیْہِ اِحْدَاھُمَا عَلَی الْاُخْرٰی۔)) (مسند احمد: ۱۴۲۴۷)

۔ سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب کوئی آدمی چت لیٹے تو وہ ایک ٹانگ کو دوسری ٹانگ پر نہ رکھے۔

۔ (۹۵۱۵)۔ عَنْ سَمُرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: اَمَرَنَارَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَنْ نَعْتَدِلَ فِی الْجُلُوْسِ، وَاَنْ لَّانَسْتَوْفِزَ۔ (مسند احمد: ۲۰۳۷۲)

۔ سیدنا سمرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم اعتدال سے بیٹھیں اور جلدی نہ کریں۔

۔ (۹۵۱۶)۔ (عَنْ اَبِی النَّضْرِ) اَنَّ اَبَا سَعِیْدٍ کَانَیَشْتَکِیْ رِجْلَیْہِ، فَدَخَلَ عَلَیْہِ اَخُوْہُ وَقَدْ جَعَلَ اِحْدٰی رِجْلَیْہِ عَلَی الْاُخْرَی وَھُوَ مُضْطَجِعٌ، فَضَرَبَہُ بِیَدِہِ عَلٰی رِجْلِہِ الْوَجِیْعَۃِ فَاَوْجَعَہُ، فَقَالَ: اَوْجَعْتَنِیْ، اَوَ لَمْ تَعْلَمْ اَنَّ رِجْلِیْ وَجِعَۃٌ؟ قَالَ: بَلٰی، قَالَ: فَمَا حَمَلَکَ عَلٰی ذٰلِکَ؟ قَالَ: اَوَلَمْ تَسْمَعْ اَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَدْ نَھٰی عَنْ ھٰذِہِ (مسند احمد: ۱۱۳۹۵)

۔ ابو نضر کہتے ہیں: سیدنا ابو سعید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی ایک ٹانگ میں کوئی تکلیف تھی، انھوں نے لیٹ کر ایک ٹانگ کو دوسری ٹانگ پر رکھا ہوا تھا، اتنے میں ان کا بھائی ان کے پاس آیا اور ان کی تکلیف زدہ ٹانگ پر ان کو مارا، جس سے ان کو تکلیف ہوئی، پس انھوں نے کہا: تو نے مجھے تکلیف دی ہے، کیا تو نہیں جانتا کہ میری ٹانگ میں تکلیف ہے؟ اس نے کہا: جی کیوں نہیں، انھوں نے کہا: اچھا تو ایسے کیا کیوں ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تو نے سنا نہیں ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس طرح ٹانگ پر ٹانگ رکھنے سے منع کیا ہے۔