سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وفات سے قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمومی وصیتیہ تھی کہ نماز کی پابندی کرنا اور غلاموں کے ساتھ حسن سلوک کرنا، تاآنکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سینہ میں کھڑکھڑانے لگیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان سے یہ الفاظ صاف طور پر ادا نہیں ہو رہے تھے۔
سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے سیدنا عبدالرحمن بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے کہا: آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کوئی وصیت بھی کی تھی؟ انہوں نے کہا: نہیں کی۔ میں نے کہا: تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہلِ ایمان کو وصیت کرنے کا حکم کیوں دیا ہے، جبکہ خود تو وصیت نہیں کی؟ انھوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ کی کتاب کے بارے میں وصیت کی تھی (یعنی اس کو مضبوطی سے تھامے رکھیں)۔
اسود سے مروی ہے کہ لوگوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے سامنے ذکر کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے حق میں وصیت کی ہے (کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد خلیفہ ہوں گے)، انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے حق میں کس وقت وصیت کی؟ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے سینے سے ٹیک دئیے ہوئے تھی،یایوں کہا کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی گودمیں لیا ہوا تھا، آپ نے پانی کا برتن طلب فرمایا اور میری گود ہی میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روح پرواز کر گئی اور مجھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کا بھی پتہ نہیں چلا، اب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے حق میں وصیت کب کر دی؟
ارقم بن شرحبیل سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کی معیت میں مدینہ منورہ سے شام تک کا سفر کیا، میں نے ان سے دریافت کیا کہ آیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کوئی وصیت کی تھی؟ انہوں نے کہا:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابھی تک نماز بھی ادا نہیں کی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شدید بیمار پڑ گئے،پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دو آدمیوں کے سہارے چلا کر لے جایا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاؤں زمین پر گھسٹ رہے تھے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وفات پا گئے اور ایسی کوئی وصیت نہیں کی۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دنیا سے تشریف لے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی کو خلیفہ مقرر نہیں کیا، اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی کو خلیفہ بنانا ہوتا تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بناتےیا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ کسی نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کس کو امیر بنایا جائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر تم ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امیر بنا لو تو اسے امانت دار پاؤ گے، جو دنیا سے بے رغبت اور آخرت میں رغبت رکھنے والا ہو گا اور اگر تم عمر رضی اللہ عنہ کو امیر بناؤ گے تو تم اسے طاقت ور، دیانت دار پاؤ گے، جو اللہ کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروانہ کرے گا، اور اگر تم نے علی رضی اللہ عنہ کو امیر بنایا جب کہ میں نہیں سمجھتا کہ تم اسے امیر بناؤ گے، تو تم اسے ایسا راہ دکھانے والا اور ہدایتیافتہ پاؤ گے جو تمہیں صراطِ مستقیم پر لے چلے گا۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آخری بات یہ ارشاد فرمائی تھی: جزیرۂ عرب میں دو دین نہ رہنے دئیے جائیں۔