۔ (۱۳۲۴۰)۔ وَعَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رضی اللہ عنہ عَنِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَالَ: ((اِنَّ آخِرَ مَنْ یَدُخُلُ الْجَنَّۃَ رَجُلٌ یَمْشِیْ عَلٰی الصِّرَاطِ فَیَنْکِبُ مَرَّۃً وَیَمْشِیْ مَرَّۃً وَتَسْفَعُہُ النَّارُ مَرَّۃً فَاِذَا جَاوَزَ الصِّرَاطَ اِلْتَفَتَ اِلَیْہَا فَقَالَ: تَبَارَکَ الَّذِیْ نَجَّانِیْ مِنْکَ لَقَدْ اَعْطَانِی اللّٰہُ مَالَمْ یُعْطِ اَحَدًا مِنَ الْاَوَّلِیْنَ وَالْآخِرِیْنَ قَالَ: فَتُرْفَعُ لَہُ شَجَرَۃٌ فَیَنْظُرُ اِلَیْہَا، فَیَقُوْلُ: یَارَبِّ اَدْنِنِیْ مِنْ ہٰذِہِ الشَّجَرَۃِ فَاَسْتَظِلَّ بِظِلِّہَا وَاَشْرَبَ مِنْ مَائِہَا، فَیَقُوْلُ: اَیْ عَبْدِیْ! فَلَعَلِّیْ اِنْ اَدْنَیْتُکَ مِنْہُمَا سَاَلْتَنِیْ غَیْرَھَا؟ فَیَقُوْلُ: لَا، یَارَبِّ وَیُعَاھِدُ اللّٰہَ اَنْ لَّا یَسْاَلَہُ غَیْرَھَا وَالرَّبُّ عَزَّوَجَلَّ یَعْلَمُ اَنَّہُ سَیَسْاَلُہُ لِاَنَّہُ یَرٰی مَالَاصَبَرْ لَہُ یَعْنِیْ عَلَیْہِ فَیُدْنِیْہِ مِنْہَا، ثُمَّ تُرْفَعُ لَہُ شَجَرَۃٌ وَھِیَ اَحْسَنُ مِنْہَا فَیَقُوْلُ: یَا رَبِّ! اَدْنِنِیْ مِنْ ہٰذِہِ الشَّجَرَۃِ فَاَسْتَظِلَّ بِظِلِّہَا وَاَشْرَبَ مِنْ مَائِھَا، فَیَقُوْلُ: اَیْ عَبْدِیْ! اَلَمْ تُعَاھِدْنِیْیَعْنِیْ اَنَّکَ لَا تَسْاَلُنِیْ غَیْرَھَا فَیَقُوْلُ: یَا رَبِّ! ہٰذِہِ، لَا اَسْاَلُکَ غَیْْرَھَا وَیُعَاہِدُہُ وَالرَّبُّ یَعْلَمُ اَنَّہُ سَیَسْاَلُہُ غَیْرَھَا فَیُدْنِیْہِ مِنْہَا، فَتُرْفَعُ لَہُ شَجَرَۃٌ عِنْدَ بَابِ الْجَنَّۃِ ھِیَ اَحْسَنُ مِنْہَا، فَیَقُوْلُ: رَبِّ اَدْنِنِیْ مِنْ ہٰذِہِ الشَّجَرَۃِ اَسْتَظِلُّ بِظِلِّہَا وَاَشْرَبُ مِنْ مَائِہَا، فَیَقُوْلُ: اَیْ عَبْدِیْ اَلَمْ تُعَاھِدْنِیْ اَنَّکَ لَا تَسْاَلُ غَیْرَھَا، فَیَقُوْلُ: یَارَبِّ! ہٰذِہِ الشَّجَرَۃُ، لَااَسْاَلُکَ غَیْرَھَا وَیُعَاھِدُہُ وَالرَّبُّ یَعْلَمُ اَنَّہُ سَیَسْاَلُہُ غَیْرَھَا لِاَنَّہُ یَرٰی مَالَا صَبَرْلَہُ عَلَیْہَا فَیُدْنِیْہِ مِنْہَا، فَیَسْمَعُ اَصْوَاتَ اَھْلِ الْجَنَّۃِ فَیَقُوْلُ: یَارَبِّ! الْجَنَّۃَ اَلْجَنَّۃَ، فَیَقُوْلُ: عَبْدِیْ اَلَمْ تُعَاھِدْنِیْ اَنَّکَ لاَ تَسْاَلُنِیْ غَیْرَھَا؟ فَیَقُوْلُ: یَارَبِّ اَدْخِلْنِیَ الْجَنَّۃَ، قَالَ: فَیَقُوْلُ عَزَّوَجَلَّ: مَا یَصْرِیْنِیْ مِنْکَ اَیْ عَبْدِیْ، اَیُرْضِیْکَ اَنْ اُعْطِیَکَ مِنَ الْجَنَّۃِ الدُّنْیَا وَمِثْلَہَا مَعَہَا، قَالَ: فَیَقُوْلُ: اَتَہْزَأُ بِیْ وَاَنْتَ رَبُّ الْعِزَّۃِ۔)) قَالَ: فَضِحَک عَبْدُاللّٰہِ حَتّٰی بَدَتْ نَوَاجِذُہُ، ثُمَّ قَالَ: اَلَا تَسْاَلُوْنِیْ لِمَ ضَحِکْتُ؟ قَالُوْا لَہُ: لِمَ ضَحِکْتَ؟ قَالَ: لِضِحْکِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ثُمَّ قَالَ لَنَا: ((اَلَا تَسْاَلُوْنِیْ لِمَ ضَحِکْتَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! قَالَ: ((لِضِحْکِ الرَّبِّ حِیْنَ قَالَ: اَتَہْزَاُ بِیْ وَاَنْتَ رَبُّ الْعِزَّۃِ۔)) (مسند احمد: ۳۷۱۴)
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: سب سے آخر میں جنت میں جانے والا پل صراط کے اوپر سے گزرے گا، وہ کبھی گرے گا اور کبھی چلے گا اور کبھی آگ اسے جھلسائے گی، بالآخر جب وہ پل صراط کو پار کر جائے گا تو جہنم کی طرف دیکھ کر کہے گا: وہ اللہ تعالیٰ برکتوں والا ہے، جس نے مجھے تجھ سے نجات دلائی، اللہ تعالیٰ نے مجھ پر ایسا کرم کیا ہے کہ اس نے اگلوں پچھلوں میں سے کسی پر بھی ایسا کرم نہیں کیا، پھر اسے ایک درخت دکھائی دے گا، چنانچہ وہ اسے دیکھ کر عرض کرے گا: اے میرے ربّ! مجھے اس درخت کے قریب کر دے، تاکہ میں اس کے سایہ میں بیٹھ سکوں اور اس کا پانی پی سکوں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اے بندے! اگر میں تجھے اس کے قریب کر دوں تو کیا تو مجھ سے اور تو کچھ نہیں مانگے گا؟ وہ کہے گا: اے میرے ربّ! ! میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں تجھ سے اس کے علاوہ مزید کوئی چیز نہیں مانگوں گا، حالانکہ اللہ تعالیٰ کو علم ہو گا کہ وہ ہر صورت میں اس سے مزید سوال کرے گا، کیونکہ وہ وہاں پہنچنے کے بعد ایسی چیزیں دیکھے گا کہ وہ صبر نہیں کر سکے گا۔ بہرحال اللہ تعالیٰ اسے اس درخت کے قریب جانے کی اجازت دے دے گا، اس کے بعد اسے ایک اور درخت دکھائی دے گا، جو پہلے درخت سے زیادہ خوبصورت ہوگا، وہ کہے گا: اے میرے ربّ! مجھے اس درخت کے قریب جانے کی اجازت دے دے، تاکہ میں اس کا سایہ حاصل کر سکوں اور وہاں کا پانی پی سکوں، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اے میرے بندے ! کیا تو نے مجھ سے وعدہ نہیں کیا تھا کہ تو مجھ سے مزید کوئی چیز طلب نہیں کرے گا، وہ کہے گا: اے میرے رب! بس میری یہی گزارش ہے، اسے پورا کر دے، میں اس کے علاوہ تجھ سے کچھ نہیں مانگوں گا، پھر وہ اللہ تعالیٰ سے اس بات کا پختہ عہد کرے گا، حالانکہ اللہ تعالیٰ کو علم ہو گا کہ وہ عنقریب مزید سوال کرے گا۔ بہرحال اللہ تعالیٰ اسے اس درخت کے قریب جانے کی اجازت دے دے گا، اس کے بعد اسے جنت کے دروازے کے قریب پہلے درختوںسے زیادہ حسین درخت دکھائی دے گا، وہ کہے گا: اے میرے ربّ! مجھے اس درخت کے قریب جانے کی اجازت دے دے، تاکہ میں اس کے سائے میں آرام کر سکوں اور اس کا پانی پی سکوں، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اے میرے بندے! کیا تو نے مجھے سے یہ وعدہ نہیں کیا تھا کہ تو مجھ سے مزید سوال نہیں کرے گا؟ وہ کہے گا: اے میرے ربّ! مجھے اس درخت تک جانے کی اجازت دے دے، میں پختہ وعدہ کرتا ہوں کہ میں اس کے بعد تجھ سے مزید کچھ نہیں مانگوں گا، حالانکہ اللہ تعالیٰ کو تو علم ہے کہ وہ عنقریب مزید سوال کرے گا، کیونکہ وہ ایسی چیزیں دیکھے گا کہ اس سے صبر نہیں ہو سکے گا، بہرحال اللہ تعالیٰ اسے اس درخت کے قریب جانے کی اجازت دے دے گا، جب وہ وہاں پہنچ کر اہل ِ جنت کی آوازیں سنے گا تو عرض کرے گا: اے میرے ربّ!مجھے جنت میں داخل کر دے، جنت میں داخل کر دے، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: میرے بندے! کیا تو نے مجھ سے وعدہ نہیں کیا تھا کہ تو مجھ سے مزید کوئی چیز نہیں مانگے گا؟ وہ کہے گا: اے میرے رب! بس تو مجھے جنت میں داخل کر دے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا: میرے بندے ! کون سی چیز مجھے تجھ سے روک سکتی ہے،کیا تو اس بات پر راضی ہے کہ میں تجھے جنت میں پوری دنیا، بلکہ اس کی مثل ایک اور دنیا بھی دے دوں؟ وہ کہے گا: اے اللہ!تو تو ربّ العزت ہے، میرے ساتھ مذاق کیوں کرتا ہے؟ یہ بات بیان کر کے سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اس قدر زور سے ہنسے کہ ان کی داڑھیں نظر آنے لگیں، پھر انھوں نے پوچھا: تم مجھ سے میرے اس قدر زور سے ہنسنے کی وجہ کیوں نہیں پوچھتے؟ ان کے شاگردوں نے کہا: جی بتلائیں کہ آپ کیوں ہنسے ہیں؟ انھوں نے کہا: بات یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ حدیث بیان کر کے ہنسے تھے اور پھر ہم سے فرمایا تھا: تم مجھ سے میرے ہنسنے کی وجہ کیوں نہیں پوچھتے؟ ہم نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول! آپ کیوں ہنسے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس بندے نے جب کہا کہ اے اللہ ! تو تو ربّ العزت ہے، تو میرے ساتھ مذاق کیوں کرتا ہے؟ تو اس کی بات سن کر اللہ تعالیٰ مسکرا دیئے۔