ابو تمیم جیشانی سے روایت ہے کہ سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے جمعہ کے دن لوگوں کو خطبہ دیا اور کہا: سیدنا ابو بصرہ رضی اللہ عنہ نے مجھے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یقینا اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایک نماز اور دی ہے اور وہ وتر ہے،تم اس کو نمازِ عشاء اور نمازِ فجر کے درمیانےوقت میں ادا کیا کرو۔ ابو تمیم کہتے ہیں: سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ نے میرا ہاتھ پکڑا اور مسجد میں سیدنا ابو بصرۃ رضی اللہ عنہ کی طرف گئے اور ان سے کہا: جو بات سیدنا عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، کیا آپ نے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنی ہے، انھوں نے کہا: ہاں، میں نے یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنی ہے۔
۔ (دوسری سند)اسی طرح ہی ہے، البتہ کچھ تفصیل اس طرح ہے: تو ہم سیدنا ابو بصرہ رضی اللہ عنہ کی طرف گئے اور ان کو اس دروازے کے پاس پایا جو سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے گھر کے قریب تھا، سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے ابو بصرہ! کیا آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: یقینا اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایک اور نماز دی ہے، تم اس کو نماز عشاء اور نمازِ فجر کے درمیانی وقت میں ادا کیا کرو، وہ وتر ہے، وہ وتر ہے ۔ ؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، اِنہوں نے پھر کہا: کیا آپ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا تھا؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، اِنہوںنے پھر کہا: کیا آپ نے واقعی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا تھا؟ انہوں نے کہا: جی ہاں۔
اشعث بن قیس کہتے ہیں: میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا مہمان بنا، پہلے تو انہوں نے اپنی بیوی کو پکڑ کر مارا اور پھر کہا: اے اشعث! تین چیزیں مجھ سے یاد کرلو، میں نے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یاد کی تھیں، آدمی سے یہ سوال مت کرو کہ اس نے اپنی بیوی کو کیوں مارا ہے، وتر ادا کیے بغیر نہ سوؤ اور تیسری بات میں بھول گیا ہوں۔
سیدناعلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی تو رات کے ابتدائی حصے، کبھی درمیانی حصے میں اور بسا اوقات آخری حصے میں وتر ادا کرتے تھے، پھر بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وتر کے آخری حصہ رات میں ہی ہوتا تھا۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اسی طرح کی ایک اور حدیث بیان کی، ہے جو مسند احمد کی حدیث جیسی اور زوائد عبداللّٰہ میں ہے۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اذان کے وقت وتر پڑھتے اور اقامت کے وقت فجر کی دو سنیں ادا کرتے تھے۔
سیدناابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وتر رات کی نماز ہے۔
سیدناجابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: تم کب وتر پڑھتے ہو؟ انہوں نے کہا: رات کے شروع میں ہی عشاء کی نماز کے بعد، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے عمر! تم کب پڑھتے ہو؟ انہوں نے کہا: رات کے آخر میں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے ابوبکر! تم نے احتیاط کو اور اے عمر! تم نے قوت کواختیار کیاہے۔
جناب نافع سے روایت ہے کہ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ جو رات کو نماز پڑھے وہ آخر میں وتر پڑھا کرے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہی حکم دیا ہے، اور جب فجر ہوگئی تورات کی ساری نماز اور وتر (کا وقت) ختم ہوگیا، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: فجر سے پہلے پہلے وتر پڑھ لیا کرو۔
سیدناابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وتر کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: صبح سے پہلے پہلے وتر پڑھ لیا کرو۔
سیدناابو مسعود عقبہ بن عمرو انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی تو رات کے ابتدائی حصے میں، کبھی درمیانے حصے میں اور بسا اوقات آخری حصے میں نمازِ وتر پڑھتے تھے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رات کے ہر حصے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نمازِ وتر پڑھی ہے، البتہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وتر سحری تک ختم ہو جاتا تھا۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بسا اوقات سونے سے پہلے وتر پڑھا کرتے اور کبھی کبھار سونے کے بعد پڑھ لیتے، اسی طرح بسا اوقات سونے سے پہلے غسل جنابت کر لیا کرتے اور کبھی کبھار اِس غسل سے پہلے سو جاتے۔
ابونہیک سے مروی ہے کہ سیدناابو الدردا رضی اللہ عنہ لوگوں کو خطبہ دیا کرتے تھے، ایک دن انھوں نے کہا کہ جو آدمی صبح کو پا لے، اس کے لیے کوئی وتر نہیں ہے، یہ سن کر کچھ لوگ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس چلے گئے اور ان کو یہ بات بتلائی، لیکن انھوں نے آگے سے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو صبح ہو جانے کے باوجود وتر پڑھ لیتے تھے۔
عبد خیر کہتے ہیں: ہم مسجد میں تھے، سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ہمارے پاس آئے اور پوچھا کہ وتر کے بارے میں سوال کرنے والا کہاں ہے، ہم سے جو ایک رکعت پڑھ چکا تھا، (لیکن اس کی ایک رکعت باقی تھی تو) اس نے وہ رکعت ادا کی،یہاں تک کہ ہم سب ان کے پاس جمع ہو گئے، انہوں نے کہا: پہلے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رات کے شروع میں وتر پڑھتے تھے، پھر اس کے درمیان میں پڑھنے لگے، لیکن بعد میں اس وقت میں نمازِ وترکی ادائیگی کو برقرار رکھا۔ یہ طلوعِ فجر کے قریب کا وقت تھا۔
بنو اسد کے ایک آدمی سے مروی ہے، وہ کہتا ہے: ہمارے پاس سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ تشریف لائے،لوگوں نے ان سے وتر کے بارے میں سوال کیا، انہوں نے کہا:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم اس وقت وتر پڑھیں۔ پھر کہا: ابن تَیّاح! الصلاۃ خیر من نوم کہو یا اذان کہو یا اقامت کہو۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں: سیدنا علی رضی اللہ عنہ اس وقت نکلے، جب مؤذن نے نمازِ فجر کے لیے الصلاۃ خیر من نوم کے الفاظ پر مشتمل اذان کہی۔ پھر باقی حدیث ذکر کی۔
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رات کو دو دو رکعت نماز پڑھتے اور رات کے آخری حصے میں ایک رکعت وتر ادا کرتے، پھر (فجر کی دو سنتیں ادا کرنے کے لیے) کھڑے ہوتے اور (اتنا جلدی ادا کر لیتے) کہ گویا کہ اذان یا اقامت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کان میں ہوتی۔
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وتر کی نماز کو صبح سے پہلے پہلے ادا کر لیاکرو۔
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے یہ بھی مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مغرب کی نماز، دن کی نماز کا وتر ہے، اور تم (نماز وتر ادا کر کے) رات کو نماز کو طاق کر لیا کرو، اور رات کی نماز دو دو رکعت ہے اور رات کے آخر میں وتر ایک رکعت ہے۔
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے یہ بھی مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وتر کو اپنی رات کی آخری نماز بناؤ۔