مسنداحمد

Musnad Ahmad

جہاد کے مسائل

بحری جہاد کرنے والوں کی فضیلت

۔ (۴۸۳۷)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، عَنْ أُمِّ حَرَامٍ أَنَّہَا قَالَتْ: بَیْنَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَائِلًا فِی بَیْتِی إِذِ اسْتَیْقَظَ وَہُوَ یَضْحَکُ، فَقُلْتُ: بِأَبِی وَأُمِّی أَنْتَ مَا یُضْحِکُکَ؟ فَقَالَ: ((عُرِضَ عَلَیَّ نَاسٌ مِنْ أُمَّتِی یَرْکَبُونَ ظَہْرَ ہٰذَا الْبَحْرِ کَالْمُلُوکِ عَلَی الْأَسِرَّۃِ۔)) فَقُلْتُ: اُدْعُ اللّٰہَ أَنْ یَجْعَلَنِی مِنْہُمْ، قَالَ: ((اَللّٰہُمَّ اجْعَلْہَا مِنْہُمْ۔)) ثُمَّ نَامَ أَیْضًا فَاسْتَیْقَظَ وَہُوَ یَضْحَکُ فَقُلْتُ: بِأَبِی وَأُمِّی مَا یُضْحِکُکَ؟ قَالَ: ((عُرِضَ عَلَیَّ نَاسٌ مِنْ أُمَّتِی یَرْکَبُونَ ہٰذَا الْبَحْرَ کَالْمُلُوکِ عَلَی الْأَسِرَّۃِ۔)) فَقُلْتُ: اُدْعُ اللّٰہَ أَنْ یَجْعَلَنِی مِنْہُمْ، قَالَ: ((أَنْتِ مِنَ الْأَوَّلِینَ۔)) فَغَزَتْ مَعَ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ وَکَانَ زَوْجَہَا فَوَقَصَتْہَا بَغْلَۃٌ لَہَا شَہْبَائُ فَوَقَعَتْ فَمَاتَتْ۔ (مسند أحمد: ۲۷۵۷۲)

۔ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سیدہ ام حرام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے گھر میں قیلولہ کر رہے تھے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بیدار ہوئے تو آپ مسکرا رہے تھے، میں نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ کیوں مسکرا رہے ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میری امت کے کچھ لوگ اس سمندر پر سوار ہو رہے ہیں، وہ بادشاہوں کی طرح تختوں پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ میں نے کہا: آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ مجھے ان میں سے بنا دے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے اللہ! تو اس کو ان میں سے بنا دے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پھر سو گئے اور جب بیدار ہوئے تو مسکرا رہے تھے، میں نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ کیوں مسکرا رہے ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرے امت کے کچھ لوگ مجھ پر پیش کیے گئے، وہ اس سمندر پر سوار ہو رہے ہیں اور ایسے لگ رہا ہے کہ وہ تختوں پر بیٹھے ہوئے بادشاہ ہیں۔ میں نے کہا: آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ مجھے بھی ان میں سے بنا دے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم اوّلین لوگوں میں سے ہو۔ پھر سیدہ ام حرام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا اپنے خاوند سیدنا عبادہ بن صامت کے ساتھ اس غزوے کے لیے نکلیں، سیاہی ملی ہوئی سفید رنگ کی خچر نے ان کو اس طرح گرایا کہ ان کی گردن ٹوٹ گئی اور وہ فوت ہو گئیں۔

۔ (۴۸۳۸)۔ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ مَعْمَرٍ الْأَنْصَارِیُّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ یَقُولُ: اِتَّکَأَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عِنْدَ ابْنَۃِ مِلْحَانَ، قَالَ: فَرَفَعَ رَأْسَہُ فَضَحِکَ، فَقَالَتْ: مِمَّ ضَحِکْتَ؟ یَا رَسُولَ اللّٰہِ! فَقَالَ: ((مِنْ أُنَاسٍ مِنْ أُمَّتِی یَرْکَبُونَ ہٰذَا الْبَحْرَ الْأَخْضَرَ غُزَاۃً فِی سَبِیلِ اللّٰہِ، مَثَلُہُمْ کَمَثَلِ الْمُلُوکِ عَلَی الْأَسِرَّۃِ۔)) قَالَتْ: اُدْعُ اللّٰہَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَنْ یَجْعَلَنِی مِنْہُمْ، فَقَالَ: ((اللّٰہُمَّ اجْعَلْہَا مِنْہُمْ۔)) فَنَکَحَتْ عُبَادَۃَ بْنَ الصَّامِتِ قَالَ: فَرَکِبَتْ فِی الْبَحْرِ مَعَ ابْنِہَا قَرَظَۃَ حَتّٰی إِذَا ہِیَ قَفَلَتْ رَکِبَتْ دَابَّۃً لَہَا بِالسَّاحِلِ، فَوَقَصَتْ بِہَا فَسَقَطَتْ فَمَاتَتَْ۔ (مسند أحمد: ۱۳۸۲۶)

۔ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بنت ِ ملحان کے پاس ٹیک لگائی، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مسکراتے ہوئے سر مبارک اٹھایا، سیدہ بنت ِ ملحان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ کیوں مسکرا رہے ہیں؟ انھوں نے کہا: میری امت کے کچھ لوگ ہیں، وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے اس سبز سمندر پر سوار ہو رہے ہیں، ان کی مثال تختوں پر بیٹھے ہوئے بادشاہوں کی سی ہے۔ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ مجھے بھی ان میں سے بنا دے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے اللہ! تو اس کو ان میں سے بنا دے۔ پھر اس خاتون نے سیدہ عبادہ بن صامت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے شادی کر لی اور اپنے بیٹے قرظہ کے ساتھ سمندری سفر شروع کیا، واپسی پر جب وہ ساحل کے پاس اپنی ایک سواری پر سوار ہوئی تو اس نے اس کو یوں گرایا کہ اس کی گردن ٹوٹ گئی، سو وہ گری اور فوت ہو گئی۔

۔ (۴۸۳۹)۔ عَنْ عَطَائِ بْنِ یَسَارٍ، أَنَّ امْرَأَۃً حَدَّثَتْہُ قَالَتْ: نَامَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ثُمَّ اسْتَیْقَظَ وَہُوَ یَضْحَکُ، فَقُلْتُ: تَضْحَکُ مِنِّی یَا رَسُولَ اللّٰہِ؟ قَالَ: ((لَا وَلٰکِنْ مِنْ قَوْمٍ مِنْ أُمَّتِی یَخْرُجُونَ غُزَاۃً فِی الْبَحْرِ، مَثَلُہُمْ مَثَلُ الْمُلُوکِ عَلَی الْأَسِرَّۃِ۔)) قَالَتْ: ثُمَّ نَامَ ثُمَّ اسْتَیْقَظَ أَیْضًا یَضْحَکُ، فَقُلْتُ: تَضْحَکُ یَا رَسُولَ اللّٰہِ مِنِّی؟ قَالَ: ((لَا وَلٰکِنْ مِنْ قَوْمٍ مِنْ أُمَّتِی یَخْرُجُونَ غُزَاۃً فِی الْبَحْرِ، فَیَرْجِعُونَ قَلِیلَۃً غَنَائِمُہُمْ، مَغْفُورًا لَہُمْ۔)) قَالَتْ: ادْعُ اللّٰہَ أَنْ یَجْعَلَنِی مِنْہُمْ، فَدَعَا لَہَا، قَالَ: فَأَخْبَرَنِی عَطَائُ بْنُ یَسَارٍ قَالَ: فَرَأَیْتُہَا فِی غَزَاۃٍ غَزَاہَا الْمُنْذِرُ بْنُ الزُّبَیْرِ إِلٰی أَرْضِ الرُّوْمِ، ہِیَ مَعَنَا فَمَاتَتْ ِأَرْضِ الرُّومِ۔ (مسند أحمد: ۲۸۰۰۱)

۔ عطاء بن یسار کہتے ہیں کہ ایک خاتون نے اس کو بیان کرتے ہوئے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سو گئے، پھر مسکراتے ہوئے بیدار ہوئے، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ مجھ پر ہنس رہے ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں، بلکہ میری مسکراہٹ کی وجہ یہ ہے کہ میری امت میں سے ایک قوم بحری جہاد کر رہی ہے، اس کی مثال تختوں پر بیٹھے بادشاہوں کی سی ہے۔ اس نے کہا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پھر سو گئے اور پھر مسکراتے ہوئے بیدار ہوئے، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ میری وجہ سے مسکرا رہے ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں، بلکہ میری امت کی ایک قوم جہاد کرنے کے لیے سمندری سفر پر روانہ ہو رہی ہے، پھر جب وہ لوٹے گی تو اس کی غنیمت تو تھوڑی ہو گی، لیکن اس کو بخشا جا چکا ہو گا۔ میں نے کہا: تو پھر آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ مجھے ان میں سے بنا دے، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کے لیے دعا کی، راوی کہتے ہیں: عطاء بن یسار نے مجھے بتلایا کہ اس نے اس خاتون کو اس غزوے میں دیکھا، سیدنا منذر بن زبیر نے روم کی سرزمین کی طرف یہ غزوہ کیا تھا، یہ خاتون ہمارے ساتھ تھی اور وہ روم کے علاقے میں فوت ہو گئی تھی۔

۔ (۴۸۴۰)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: بَیْنَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی بَیْتِ بَعْضِ نِسَائِہِ، إِذْ وَضَعَ رَأْسَہُ فَنَامَ فَضَحِکَ فِی مَنَامِہِ، فَلَمَّا اسْتَیْقَظَ، قَالَتْ لَہُ امْرَأَۃٌ مِنْ نِسَائِہِ: لَقَدْ ضَحِکْتَ فِی مَنَامِکَ فَمَا أَضْحَکَکَ؟ قَالَ: ((أَعْجَبُ مِنْ نَاسٍ مِنْ أُمَّتِی یَرْکَبُونَ ہٰذَا الْبَحْرَ ہَوْلَ الْعَدُوِّ یُجَاہِدُونَ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ۔)) فَذَکَرَ لَہُمْ خَیْرًا کَثِیرًا۔ (مسند أحمد: ۲۷۲۲)

۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنی کسی بیوی کے گھر موجود تھے، اچانک آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سر رکھا اور سو گئے اور نیند میں مسکرائے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بیدار ہوئے تو اس ام المؤمنین نے کہا: آپ اپنی نیند میں مسکرائے ہیں، کس چیز نے آپ کو ہنسایا تھا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مجھے اپنی امت کے ان لوگوں پر تعجب ہو رہا ہے، جو دشمن کو دہشت زدہ کرنے کے لیے اس سمندر کا سفر کریں گے، وہ راہِ خدا میں جہاد کر رہے ہوں گے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کے حق میں بڑی بھلائی کا ذکر کیا۔