۔ (۴۸۳۹)۔ عَنْ عَطَائِ بْنِ یَسَارٍ، أَنَّ امْرَأَۃً حَدَّثَتْہُ قَالَتْ: نَامَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ثُمَّ اسْتَیْقَظَ وَہُوَ یَضْحَکُ، فَقُلْتُ: تَضْحَکُ مِنِّی یَا رَسُولَ اللّٰہِ؟ قَالَ: ((لَا وَلٰکِنْ مِنْ قَوْمٍ مِنْ أُمَّتِی یَخْرُجُونَ غُزَاۃً فِی الْبَحْرِ، مَثَلُہُمْ مَثَلُ الْمُلُوکِ عَلَی الْأَسِرَّۃِ۔)) قَالَتْ: ثُمَّ نَامَ ثُمَّ اسْتَیْقَظَ أَیْضًا یَضْحَکُ، فَقُلْتُ: تَضْحَکُ یَا رَسُولَ اللّٰہِ مِنِّی؟ قَالَ: ((لَا وَلٰکِنْ مِنْ قَوْمٍ مِنْ أُمَّتِی یَخْرُجُونَ غُزَاۃً فِی الْبَحْرِ، فَیَرْجِعُونَ قَلِیلَۃً غَنَائِمُہُمْ، مَغْفُورًا لَہُمْ۔)) قَالَتْ: ادْعُ اللّٰہَ أَنْ یَجْعَلَنِی مِنْہُمْ، فَدَعَا لَہَا، قَالَ: فَأَخْبَرَنِی عَطَائُ بْنُ یَسَارٍ قَالَ: فَرَأَیْتُہَا فِی غَزَاۃٍ غَزَاہَا الْمُنْذِرُ بْنُ الزُّبَیْرِ إِلٰی أَرْضِ الرُّوْمِ، ہِیَ مَعَنَا فَمَاتَتْ ِأَرْضِ الرُّومِ۔ (مسند أحمد: ۲۸۰۰۱)
۔ عطاء بن یسار کہتے ہیں کہ ایک خاتون نے اس کو بیان کرتے ہوئے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سو گئے، پھر مسکراتے ہوئے بیدار ہوئے، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ مجھ پر ہنس رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہیں، بلکہ میری مسکراہٹ کی وجہ یہ ہے کہ میری امت میں سے ایک قوم بحری جہاد کر رہی ہے، اس کی مثال تختوں پر بیٹھے بادشاہوں کی سی ہے۔ اس نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پھر سو گئے اور پھر مسکراتے ہوئے بیدار ہوئے، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ میری وجہ سے مسکرا رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہیں، بلکہ میری امت کی ایک قوم جہاد کرنے کے لیے سمندری سفر پر روانہ ہو رہی ہے، پھر جب وہ لوٹے گی تو اس کی غنیمت تو تھوڑی ہو گی، لیکن اس کو بخشا جا چکا ہو گا۔ میں نے کہا: تو پھر آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ مجھے ان میں سے بنا دے، پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے لیے دعا کی، راوی کہتے ہیں: عطاء بن یسار نے مجھے بتلایا کہ اس نے اس خاتون کو اس غزوے میں دیکھا، سیدنا منذر بن زبیر نے روم کی سرزمین کی طرف یہ غزوہ کیا تھا، یہ خاتون ہمارے ساتھ تھی اور وہ روم کے علاقے میں فوت ہو گئی تھی۔