۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایک حلقہ میں بیٹھا ہوا تھا، ایک آدمی آیا اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دوسرے لوگوں کو سلام کہتے ہوئے کہا: اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یوں اس کا جواب دیا: وَعَلَیْکُمُ السَّلَامُ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہُ۔ جب وہ آدمی بیٹھ گیا تو اس نے کہا: اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ حَمْدًا کَثِیرًا طَیِّبًا مُبَارَکًا فِیہِ کَمَا یُحِبُّ رَبُّنَا أَنْ یُحْمَدَ وَیَنْبَغِی لَہُ (ساری تعریف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے، بہت زیادہ، پاکیزہ اور برکت کی ہوئی تعریف، جیسا ہمارا ربّ چاہتا ہے کہ اس کی تعریف کی جائے اور جیسے اس کے لائق ہے)۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تو نے کیسے کہا؟ اس نے دوہرا کر وہ کلمات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتائے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، دس فرشتے ان کلمات کی طرف لپک رہے تھے، ہر ایک اس بات کا حریص تھا کہ وہ ان کو لکھے، لیکن پھر ان کو یہ سمجھ نہ آ سکی کہ وہ ان کو لکھیں کیسے، پھر وہ یہ کلمات ایسے ہی لے کر عزت والے ربّ کے پاس پہنچ گئے، اور اللہ تعالیٰ نے کہا: تم اسی طرح لکھ دو،جیسے میرے بندے نے کہا ہے۔
۔ سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیااور میں نماز پڑھ رہا تھا کہ ایک آدمی کو یہ کلمات ادا کرتے ہوئے سنا: اَللّٰہُمَّ لَکَ الْحَمْدُ کُلُّہُ، وَلَکَ الْمُلْکُ کُلُّہُ، بِیَدِکَ الْخَیْرُ کُلُّہُ، إِلَیْکَ یُرْجَعُ الْأَمْرُ کُلُّہُ عَلَانِیَتُہُ وَسِرُّہُ، فَأَہْلٌ أَنْ تُحْمَدَ، إِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ، اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِی جَمِیعَ مَا مَضَی مِنْ ذَنْبِی، وَاعْصِمْنِی فِیمَا بَقِیَ مِنْ عُمْرِی، وَارْزُقْنِی عَمَلًا زَاکِیًا تَرْضَی بِہِ عَنِّی۔ (اے اللہ! ساری تعریف تیرے لیے ہے، ساری بادشاہت تیرے لیے ہے، ساری خیر و بھلائی تیرے لیے ہے، سارا معاملہ تیرے طرف لوٹے گا، وہ اعلانیہ ہو یا مخفی، تو اس لائق ہے کہ تیری تعریف کی جائے، بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے، اے اللہ! میرے وہ گناہ بخش دے، جو گزر چکے ہیں اور بقیہ عمر میں میری حفاظت فرما اور مجھے زیادہ ثواب والا ایسا عمل عطا کر کہ جس کے ذریعے تو راضی ہو جائے)۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ تو فرشتہ تھا جو تیرے پاس آیا اور اس نے تجھے اپنے ربّ کی تحمید کی تعلیم دی۔
۔ سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے یہ دعا پڑھی: ساری تعریف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے، اس کی مخلوق کی تعداد کے برابر، ساری تعریف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے، اس کی مخلوق کے بھرنے کے بقدر، ساری تعریف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے، آسمانوں اور زمین میں موجود مخلوق کی تعداد کے برابر، ساری تعریف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے، اس چیزوں کے بھراؤ کے بقدر جو آسمانوں اور زمین میں ہیں، ساری تعریف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے، ان چیزوں کی تعداد کے برابر جن کو اس کی کتاب نے شمار کیا،ساری تعریف اللہ تعالیٰ کی ہے، ان چیزوں کے بھراؤ کے بقدر، جن کو اللہ تعالیٰ کی کتاب نے شمار کیا، ساری تعریف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے، ہر چیز کی تعداد کے برابر اور ساری تعریف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے، ہر چیز کے بھراؤ کے بقدر، پھر اسی طرح سُبْحَانَ اللّٰہِ کہے، تو اس کو بڑا اجر ملے گا۔
۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک آدمی کو ملتے اور اس سے پوچھتے: اے فلاں! تم کیسے ہو؟وہ کہتا: خیریت ہے اور میں اللہ تعالیٰ کی تعریف بیان کرتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کو جواب دیتے: اللہ تعالیٰ تجھے خیریت کے ساتھ ہی رکھے۔ پھر ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کو ملے اور اس سے پوچھا: کیسے ہو؟ اس نے کہا: اگر میں شکر ادا کروں تو خیریت ہی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جواباً خاموش رہے، اس نے کہا: اے اللہ کے نبی! پہلے جب بھی آپ مجھ سے سوال کرتے تو آپ مجھے یہ دعا دیتے کہ اللہ تعالیٰ تجھے خیر کے ساتھ ہی رکھے، لیکن آج آپ خاموش رہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: پہلے جب میں تجھ سے سوال کرتا تھا تو تو کہتا تھا کہ خیریت ہے اور میں اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرتا ہوں اور میں جواباً کہتا کہ اللہ تعالیٰ تجھے خیریت سے ہی رکھے، لیکن آج تو نے کہا ہے کہ اگر میں شکر ادا کروں تو خیریت سے ہوں، تو تو نے شک کا اظہار کیا، سو میں خاموش رہا۔