Surat ul Fateha

Surah: 1

Verse: 3

سورة الفاتحة

مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۳﴾

Sovereign of the Day of Recompense.

بدلے کے دن ( یعنی قیامت ) کا مالک ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Owner of the Day of Recompense. Allah mentioned His sovereignty of the Day of Resurrection, but this does not negate His sovereignty over all other things. For Allah mentioned that He is the Lord of existence, including this earthly life and the Hereafter. Allah only mentioned the Day of Recompense here because on that Day, no one except Him will be able to claim ownership of anything whatso... ever. On that Day, no one will be allowed to speak without His permission. Similarly, Allah said, يَوْمَ يَقُومُ الرُّوحُ وَالْمَلَـيِكَةُ صَفّاً لاَّ يَتَكَلَّمُونَ إِلاَّ مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمَـنُ وَقَالَ صَوَاباً The Day that Ar-Ruh (Jibril (Gabriel) or another angel) and the angels will stand forth in rows, they will not speak except him whom the Most Gracious (Allah) allows, and he will speak what is right. (78:38) and, وَخَشَعَتِ الاَصْوَاتُ لِلرَّحْمَـنِ فَلَ تَسْمَعُ إِلاَّ هَمْساً And all voices will be humbled for the Most Gracious (Allah), and nothing shall you hear but the low voice of their footsteps. (20:108) and, يَوْمَ يَأْتِ لاَ تَكَلَّمُ نَفْسٌ إِلاَّ بِإِذْنِهِ فَمِنْهُمْ شَقِىٌّ وَسَعِيدٌ On the Day when it comes, no person shall speak except by His (Allah's) leave. Some among them will be wretched and (others) blessed. (11:105) Ad-Dahhak said that Ibn Abbas commented, "Allah says, `On that Day, no one owns anything that they used to own in the world."' The Meaning of Yawm Ad-Din Ibn Abbas said, "Yawm Ad-Din is the Day of Recompense for the creatures, meaning the Day of Judgment. On that Day, Allah will reckon the creation for their deeds, evil for evil, good for good, except for those whom He pardons." In addition, several other Companions, Tabi`in and scholars of the Salaf, said similarly, for this meaning is apparent and clear from the Ayah. Allah is Al-Malik (King or Owner) Allah is the True Owner (Malik) (of everything and everyone). Allah said, هُوَ اللَّهُ الَّذِى لاَ إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلَـمُ He is Allah, beside Whom La ilaha illa Huwa, the King, the Holy, the One free from all defects. (59:23) Also, the Two Sahihs recorded Abu Hurayrah saying that the Prophet said, أَخْنَعُ اسْمٍ عِنْدَ اللهِ رَجُلٌ تَسَمَّى بِمَلِكِ الاَْمْلَكِ وَلاَ مَالِكَ إِلاَّ اللهُ The most despicable name to Allah is a person who calls himself the king of kings, while there are no owners except Allah. Also the Two Sahihs recorded that the Messenger of Allah said, يَقْبِضُ اللهُ الاَْرْضَ وَيَطْوِي السَّمَاءَ بِيَمِينِهِ ثُمَّ يَقُولُ أَنَا الْمَلِكُ أَيْنَ مُلُوكُ الاَْرْضِ أَيْنَ الْجَبَّارُونَ أَيْنَ الْمُتَكَبِّرُونَ On the Day of Judgement Allah will grasp the earth and fold up the heavens with His Right Hand and proclaim, 'I Am the King! Where are the kings of the earth? Where are the tyrants? Where are the arrogant'? Also, in the Glorious Qur'an; لِّمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ لِلَّهِ الْوَحِدِ الْقَهَّارِ Whose is the kingdom this Day? (It will be) Allah's, the One, the Irresistible. (40:16) As for calling someone other than Allah a king in this life, then it is done as a figure of speech. For instance, Allah said, إِنَّ اللَّهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوتَ مَلِكًا Indeed Allah appointed Talut (Saul) as a king over you. (2:247) and, وَكَانَ وَرَاءَهُم مَّلِكٌ As there was a king behind them, (18:79) and, إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِيَأءَ وَجَعَلَكُمْ مُّلُوكاً When He made Prophets among you, and made you kings. (5:20) Also, the Two Sahihs recorded, مِثْلُ الْمُلُوكِ عَلَى الاَْسِرَّةِ Just like kings reclining on their thrones. The Meaning of Ad-Din Ad-Din means the reckoning, the reward or punishment. Similarly, Allah said, يَوْمَيِذٍ يُوَفِّيهِمُ اللَّهُ دِينَهُمُ الْحَقَّ On that Day Allah will pay them the (Dinahum) recompense (of their deeds) in full. (24:25) and, أَءِنَّا لَمَدِينُونَ Shall we indeed (be raised up) to receive reward or punishment (according to our deeds). (37:53) A Hadith stated, الْكَيِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَهُ وَعَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوتِ The wise person is he who reckons himself and works for (his life) after death. meaning, he holds himself accountable. Also, Umar said, - "Hold yourself accountable before you are held accountable, - weigh yourselves before you are weighed, and -be prepared for the biggest gathering before He Whose knowledge encompasses your deeds, يَوْمَيِذٍ تُعْرَضُونَ لاَ تَخْفَى مِنكُمْ خَافِيَةٌ That Day shall you be brought to Judgement, not a secret of yours will be hidden. (69:18)" The Linguistic and Religious Meaning of `Ibadah إِيَّاكَ نَعْبُدُ وإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (  Show more

حقیقی وارث مالک کون ہے؟ بعض قاریوں نے ملک پڑھا ہے اور باقی سب نے مالک اور دونوں قرأت یں صحیح اور متواتر ہیں اور سات قرأت وں میں سے ہیں اور مالک نے لام کے زیر اور اس کے سکون کے ساتھ ۔ اور ملیک اور ملکی بھی پڑھا گیا ہے پہلے کی دونوں قرأت یں معانی کی رو ترجیح ہیں اور دونوں صحیح ہیں اور اچھی بھی ۔ ... زمخشری نے ملک کو ترجیح دی ہے اس لئے کہ حرمین والوں کی یہ قرأت ہے ۔ اور قرآن میں بھی آیت ( لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ) 40 ۔ غافر:16 ) اور ( قَوْلُهُ الْحَقُّ ۭوَلَهُ الْمُلْكُ ) 6 ۔ الانعام:73 ) ہے ۔ امام ابو حنیفہ سے بھی حکایت بیان کی گئی ہے کہ انہوں نے ملک پڑھا اس بنا پر کہ فعل اور فاعل اور مفعول آتا ہے لیکن یہ شاذ اور بیحد غریب ہے ۔ ابو بکر بن داؤد نے اس بارے میں ایک غریب روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے تینوں خلفاء اور حضرت معاویہ اور ان کے لڑکے مالک پڑھتے تھے ۔ ابن شہاب کہتے ہیں کہ سب سے پہلے مروان نے ملک پڑھا ۔ میں کہتا ہوں مروان کو اپنی اس قرأت کی صحت کا علم تھا ۔ راوی حدیث ابن شہاب کو علم نہ تھا واللہ اعلم ۔ ابن مردویہ نے کئی سندوں سے بیان کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مالک پڑھتے تھے ۔ مالک کا لفظ ملک سے ماخوذ ہے جیسے کہ قرآن میں ہے آیت ( اِنَّا نَحْنُ نَرِثُ الْاَرْضَ وَمَنْ عَلَيْهَا وَاِلَيْنَا يُرْجَعُوْنَ ) 19 ۔ مریم:40 ) یعنی زمین اور اس کے اوپر کی تمام مخلوق کے مالک ہم ہی ہیں اور ہماری ہی طرف سب لوٹا کر لائے جائیں گے ۔ اور فرمایا آیت ( قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ Ǻ۝ۙ مَلِكِ النَّاسِ Ą۝ۙ ) 114 ۔ الناس:2-1 ) یعنی کہہ کہ میں پناہ پکڑتا ہوں لوگوں کے رب اور لوگوں کے مالک کی ۔ اور ملک کا لفظ ملک سے ماخوذ ہے جیسے فرمایا آیت ( لمن الملک الیوم ) الخ یعنی آج ملک کس کا ہے صرف اللہ واحد غلبہ والے کا ۔ اور فرمایا آیت ( قَوْلُهُ الْحَقُّ ۭوَلَهُ الْمُلْكُ يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّوْرِ ۭ عٰلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ ۭوَهُوَ الْحَكِيْمُ الْخَبِيْرُ ) 6 ۔ الانعام:73 ) اسی کا فرمان ہے اور اسی کا سب ملک ہے ۔ اور فرمایا آج ملک رحمن ہی کا ہے اور آج کا دن کافروں پر بہت سخت ہے ۔ اس فرمان میں قیامت کے دن ساتھ ملکیت کی تخصیص کرنے سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے ، اس لئے کہ پہلے اپنا وصف رب العالمین ہونا بیان کر چکا ہے دنیا اور آخرت دونوں شامل ہیں ۔ قیامت کے دن کے ساتھ اس کی تخصیص کی وجہ یہ ہے کہ اس دن تو کوئی ملکیت کا دعویدار بھی نہ ہو گا ۔ بلکہ بغیر اس حقیقی مالک کی اجازت کے زبان تک نہ ہلا سکے گا ۔ جیسے فرمایا جس دن روح القدس اور فرشتے صف بستہ کھڑے ہوں گے اور کوئی کلام نہ کر سکے گا ۔ یہاں تک کہ رحمن اسے اجازت دے اور وہ ٹھیک بات کہے گا ۔ دوسری جگہ ارشاد ہے سب آوازیں رحمن کے سامنے پست ہوں گی اور گنگناہٹ کے سوا کچھ نہ سنائی دے گا اور فرمایا جب قیامت آئے گی اس دن بغیر اللہ تبارک و تعالیٰ کی اجازت کے کوئی شخص نہ بول سکے گا ۔ بعض ان میں سے بدبخت ہوں گے اور بعض سعادت مند ۔ ابن عباس فرماتے ہیں اس دن اس کی بادشاہت میں اس کے سوا کوئی بادشاہ نہ ہوگا جیسے کہ دنیا میں مجازاً تھے ۔ آیت ( یوم الدین سے مراد مخلوق کے حساب کا یعنی قیامت کا دن ہے جس دن تمام بھلے برے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا ہاں اگر رب کسی برائی سے درگزر کر لے یا اس کا اختیاری امر ہے ۔ صحابہ تابعین اور سلف صالحین سے بھی یہی مروی ہے ۔ بعض سعادت مند ۔ ابن عباس فرماتے ہیں اس دن اس کی بادشاہت میں اس کے سوا کوئی بادشاہ نہ ہوگا جیسے کہ دنیا میں مجازاً تھے ۔ آیت ( یوم الدین ) سے مراد مخلوق کے حساب کا یعنی قیامت کا ہے جس دن تمام بھلے برے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا ہاں اگر رب کسی برائی سے درگزر کر لے یہ اس کا اختیاری امر ہے ۔ صحابہ ، تابعین اور سلف صالحین سے بھی یہی مروی ہے ۔ بعض سے یہ بھی منقول ہے کہ مراد اس سے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت قائم کرنے پر قادر ہے ۔ ابن جریر نے اس قول کو ضعیف قرار دیا ہے لیکن بظاہر ان دونوں اقوال میں کوئی تضاد نہیں ، ہر ایک قول کا قائل دوسرے کے قول کی تصدیق کرتا ہے ہاں پہلا قول مطلب پر زیادہ دلالت کرتا ہے ۔ جیسے کہ فرمان ہے آیت ( الملک یومئذ الخ اور دوسرا قول اس آیت کے مشابہ ہے جیسا کہ فرمایا آیت ( ویوم یقول کن فیکون ) یعنی جس دن کہے گا ہو جا بس اسی وقت ہو جائے گا واللہ اعلم ۔ حقیقی بادشاہ اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ جیسے فرمایا آیت ( ھواللہ الذی لا الہ الا ھو الملک الخ صحیحین میں حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بدترین نام اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس شخص کا ہے جو شہنشاہ کہلائے حقیقی بادشاہ اللہ کے سوا کوئی نہیں ۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ زمین کو قبضہ میں لے لے گا اور آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے پھر فرمائے گا میں بادشاہ ہوں کہاں گئے زمین کے بادشاہ کہاں ہیں تکبر والے ۔ قرآن عظیم میں ہے کس کی ہے آج بادشاہی؟ فقط اللہ اکیلے غلبہ والے کی اور کسی کو ملک کہہ دینا یہ صرف مجازاً ہے جیسے کہ قرآن میں طالتون کو ملک کہا گیا اور آیت ( وکان ورائھم ملک ) کا لفظ آیا ۔ اور بخاری مسلم میں ملوک کا لفظ آیا ہے اور قرآن کی آیت میں آیت ( اذ جعل فیکم انبیاء وجعلکم ملوکا ) یعنی تم میں انبیاء کئے اور تمہیں بادشاہ بنایا ، آیا ہے ۔ دین کے معنی بدلے جزا اور حساب کے ہیں ۔ جیسے قرآن پاک میں ہے اس دن اللہ تعالیٰ انہیں پورا پورا بدلہ دے گا اور وہ جان لیں گے اور جگہ ہے آیت ( ائنا لمدینون ) کیا ہم کو بدلہ دیا جائے گا ؟ حدیث میں ہے دانا وہ ہے جو اپنے نفس سے خود حساب لے اور موت کے بعد کام آنے والے اعمال کرے ۔ جیسے کہ حضرت عمر فاروق اعظم کا قول ہے کہ تم خود اپنی جانوں سے حساب لو اس سے پہلے کہ تمہارا حساب لیا جائے اور اپنے اعمال کو خود وزن کر لو اس سے پہلے کہ وہ ترازو میں رکھے جائیں اور اس بڑی پیشی کے لئے تیار ہو جاؤ جب تم اس اللہ کے سامنے پیش کئے جاؤ گے جس سے تمہارا کوئی عمل پوشیدہ نہیں جیسے خود رب عالم نے فرما دیا جس دن تم پیش کئے جاؤ گے کوئی چھپی ڈھکی بات چھپے گی نہیں ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

ف 1 دنیا میں بھی اگرچہ کیئے کی سزا کا سلسلہ ایک حد تک جاری رہتا ہے تاہم اس کا مکمل ظہور آخرت میں ہوگا اور اللہ تعالیٰ ہر شخص کو اس کے اچھے یا برے اعمال کے مطابق مکمل جزا یا سزا دے گا۔ اور صرف اللہ تعالیٰ ہی ہوگا اللہ تعالیٰ اس روز فرمائے گا آج کس کی بادشاہی ہے ؟ پھر وہی جواب دے گا صرف ایک اللہ غالب...  کے لیے اس دن کوئی ہستی کسی کے لئے اختیار نہیں رکھے گی سارا معاملہ اللہ کے ہاتھ میں ہوگا، یہ ہوگا جزا کا دن۔   Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨] دین کے مختلف معانی :۔ دین کا لفظ قرآن میں مندرجہ ذیل چار معنوں میں استعمال ہوا ہے : (١) اللہ تعالیٰ کی مکمل حاکمیت اور اسی کا دوسرا پہلو یا لازمی نتیجہ ہے۔ (٢) انسان کی مکمل عبودیت جیسے ارشاد باری ہے : (فَاعْبُدِ اللّٰهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّيْنَ ۝ۭ ) 39 ۔ الزمر :2) & لہٰذا خالصتاً اسی کی ع... بادت کرو۔ سن لو مکمل حاکمیت خالصتہ اللہ ہی کے لئے ہے & ان دونوں آیات میں دین کا لفظ مذکورہ بالا دونوں معنی دے رہا ہے۔ (٣) قانون سزا و جزاء یا تعزیرات جیسے ارشاد باری ہے : (مَا كَانَ لِيَاْخُذَ اَخَاهُ فِيْ دِيْنِ الْمَلِكِ 76؀) 12 ۔ یوسف :76) & اس (سیدنا یوسف علیہ السلام) کی شان کے لائق نہ تھا۔ ممکن نہ تھا کہ وہ بادشاہ کے قانون کے مطابق اپنے بھائی کو رکھ سکتا & (٤) قانون سزا و جزاء کو نافذ کرنے کی قوت، جیسے ارشاد باری ہے : ( فَلَوْلَآ اِنْ كُنْتُمْ غَيْرَ مَدِيْنِيْنَ 86 ۝ ۙ ) 56 ۔ الواقعة :86) & پھر اگر تم سچے ہو اور قانون کی گرفت سے آزاد ہو تو (جب جان لبوں پر آجاتی ہے) اسے لوٹا کیوں نہیں لیتے ؟ & اور اس آیت میں دین کا لفظ مندرجہ بالا چاروں معنی دے رہا ہے۔ [٩] پہلی آیات میں اللہ کی معرفت کا ذکر تھا۔ اس پانچویں آیت میں روز آخرت پر ایمان اور روز آخرت میں اللہ تعالیٰ کے عملی اقتدار و اختیار کا ذکر کیا گیا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ ہر انسان کو اس کے اچھے اعمال کا اچھا اور برے اعمال کا برا بدلہ دے گا۔ وہ ایسا بدلہ دینے کی اور اپنے اس فیصلہ کو نافذ کرنے کی پوری قدرت رکھتا ہے۔ اعمال کے بدلہ کے سلسلہ میں بھی اللہ تعالیٰ کے بہت سے ضابطے اور قوانین ہیں۔ جن کا ذکر قرآن کریم میں بہت سے مقامات پر مذکور ہے۔ مثلاً یہ کہ نیکیوں کا بدلہ اللہ جسے چاہے گا بہت زیادہ بھی دے سکتا ہے۔ مگر برائی کا بدلہ اتنا ہی دے گا جتنی اس نے برائی کی ہوگی۔ یا یہ کہ ایک کے جرم کی سزا دوسرے کو نہیں دی جائے گی۔ یا یہ کہ کوئی مجرم کسی صورت میں سزا سے بچ نہیں سکے گا۔ وغیرہ وغیرہ اور ان سب چیزوں کا ذکر قرآن میں بہت سے مقامات پر آیا ہے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ ” الدِّيْنِ “ ” دَانَ یَدِیْنُ “ کا مصدر ہے، بدلہ دینا، جزا دینا۔ رحمن و رحیم کے بعد جزا کے دن کا مالک ہونے کی صفت بیان فرمائی۔ ایک قراءت (مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ ) ہے یعنی روز جزا کا مالک اور دوسری ” مَلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ “ ہے، یعنی روز جزا کا بادشاہ۔ قرآن مجید کے رسم الخط...  میں ” مٰلِكِ “ لکھا ہے، اسے ” مَالِکِ “ اور ” مَلِکِ “ دونوں طرح پڑھا جاسکتا ہے اور دونوں قراءتیں متواتر طور پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت ہیں۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کا مالک بھی ہے اور بادشاہ بھی۔ ” الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ “ کے ساتھ قیامت کے دن کے مالک اور بادشاہ ہونے کی مناسبت یہ ہے کہ بعض اوقات کوئی بہت رحم کرنے والا ہوتا ہے مگر اس کی ملکیت میں کچھ نہیں ہوتا، اس لیے وہ چاہتے ہوئے بھی رحم نہیں کرسکتا، پھر کوئی شخص بہت سی ملکیت کا مالک ہوتا ہے مگر اس کا بادشاہ کوئی اور ہوتا ہے، وہ مالک ہوتے ہوئے بھی پورا اختیار نہیں رکھتا۔ ” يَوْمِ الدِّيْنِ “ کے معنی یوم جزا کے ہیں۔ اس دنیا میں بھی مکافات یعنی اعمال کی جزا کا سلسلہ جاری رہتا ہے، مگر اس جزا کا مکمل ظہور چونکہ قیامت کے دن ہوگا اس لیے قیامت کے دن کو خاص طور پر ” يَوْمِ الدِّيْنِ “ (بدلے کا دن) کہا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے اس دن کے ” مَالِک “ اور ” مَلِک “ (بادشاہ) ہونے کے یہ معنی ہیں کہ اس روز ظاہری طور پر بھی مالکیت اور ملوکیت کا یہ سلسلہ ختم ہوجائے گا، فرمایا : (يَوْمَ لَا تَمْلِكُ نَفْسٌ لِّنَفْسٍ شَـيْــــًٔا ۭ وَالْاَمْرُ يَوْمَىِٕذٍ لِّلّٰهِ ) [ الانفطار : ١٩ ] ” جس دن کوئی جان کسی جان کے لیے کسی چیز کی مالک نہیں ہوگی اور اس دن حکم صرف اللہ کا ہوگا۔ “ اور فرمایا : (لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ۭ لِلّٰهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ ) [ المؤمن : ١٦ ] ” آج بادشاہی کس کی ہے ؟ اللہ ہی کی جو ایک ہے، دبدبے والا ہے۔ “ اس دن مالک بھی اللہ تعالیٰ ہوگا، بادشاہ بھی وہی ہوگا، صرف اسی کا حکم چلے گا۔ صفت رحمت اور بدلے کے دن کی ملکیت میں مناسبت اس حدیث سے واضح ہوتی ہے جس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ کے پاس سو رحمتیں ہیں، جن میں سے اس نے ایک رحمت جن و انس، جانوروں اور کیڑے مکوڑوں کے درمیان نازل فرمائی ہے، اسی کے ساتھ وہ ایک دوسرے پر شفقت کرتے ہیں اور اسی کے ساتھ وہ ایک دوسرے پر رحم کرتے ہیں اور اسی کے ساتھ وحشی جانور اپنے بچوں پر شفقت کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ننانویں رحمتیں مؤخر کر رکھی ہیں، جن کے ساتھ وہ قیامت کے دن اپنے بندوں پر رحم فرمائے گا۔ “ [ مسلم، التوبۃ، باب فی سعۃ رحمۃ اللہ تعالٰی۔۔ : ١٩؍٢٧٥٢۔ بخاری : ٦٠٠٠، عن أبی ہریرہ (رض) ] 3 تقسیم صلاۃ والی حدیث قدسی کے مطابق بندہ جب (مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ ) کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ( مَجَّدَنِیْ عَبْدِیْ ) ” میرے بندے نے میری تمجید (بزرگی بیان) کی۔ “ ایک روایت کے مطابق فرماتا ہے : ( فَوَّضَ اِلَیَّ عَبْدِیْ )” میرے بندے نے اپنا سب کچھ میرے سپرد کردیا۔ “ [ مسلم، الصلوۃ، باب وجوب قراءۃ الفاتحۃ ۔۔ : ٣٩٥ ] قرآن مجید میں تمجید الٰہی اور تفویض و توکل پر مشتمل تمام آیات ” مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ “ کی تفصیل ہیں۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The third verse pays homage to Allah as 'the Master of the Day of Judgment or Requital'. The word Malik has been derived from the root, 'milk' (ملک) which signifies possessing a thing in such a manner that one has the right and power to dispose of it as one likes (See Qamus). The word Din signifies 'Requital'. So, the phrase 'Master of the Day of Requital' implies total mastery on the Day of Requi... tal. But there is no mention of the thing or things to which this mastery or possession would apply. According to the commentary, 'al-Kashshaf, the phrase makes a general reference to cover everything. That is to say, on the Day of Requital the mastery over everything that exists will belong to Allah alone. The Day of Requital is real and rational: Before we proceed, let us consider two important questions: Firstly, what is this Day of Requital? Secondly, Allah being the Master, of everything even today as much as on the Day of Requital, why does this verse specifically mentions the Day of Requital? The Day of Requital or the Day of Judgment is the Day appointed by Allah to recompense good or evil deeds. The world is only the fieid of action, the place where one is required to perform one's duty, and not the place for receiving one's reward. The mere fact that man happens to be healthy and wealthy or powerful does not necessarily argue that he has won the pleasure and favour of Allah. Similarly, the mere fact that a man happens to be ill or poor or weak or miserable does not by itself indicates that he is the object of Allah's wrath. Even in the case of worldly life, would it not be a platitude to remark that a man sweating in a factory or an office does not consider it a misfortune? In fact, try to deprive him of this opportunity to sweat, and you would have earned his deepest displeasure; for beyond all this toil he can glimpse the reward he is going to get after thirty days in the shape of his wages. It proceeds from this principle that the greatest sufferings in this world are the lot of the Prophets (علیھم السلام) and, after them, of the men of Allah, and yet we see them quite content and even happy. In short, physical well-being or worldly glory or luxury is no sure indication of one's virtue and truthfulness, nor is sorrow and suffering that of one's misdeeds and falsity. It may, however, happen that a man receives some punishment or reward for his deeds in this world. This never is the full recompense, but only a faint model which has been manifested to serve as an intimation or warning. The Holy Quran has spoken very clearly on this point: “And We shall surely let them taste a nearer punishment (in this world) before the greater punishment (in the other world), so that they may return (to the right path).” (32:21) “Such is the punishment; and the punishment of the other world is certainly greater, only if they knew.” (68 : 33) The sufferings of this world, as even its joys, are sometimes a trial, and sometimes a punishment, but never a full recompense, for the world is itself transitory. What really counts is the joy or suffering that will endure for ever, and which one will come to know in the other world beyond this world. Given the fact that good or evil deeds are not fully recompensed in this world, and the rational and just principle that good and evil not being equal in value, every deed should be rewarded or punished according to its nature, it readily follows that beyond this world there should be another world where every deed, big or small, good or evil, is to be judged, and then justly rewarded or punished. This the Holy Qur'an calls Al-Akhirah: (The world-to-come), or Al-Qiyamah: (Doomsday or the Day of Judgment), or Yawm al-din, (Day of Requital). The whole idea has been explained by the Holy Qur'an itself: “The blind are not equal with the seeing, nor the wrong-doers with those who believe and do good deeds. Yet you seldom reflect. The hour of retribution is sure to come, no doubt about it, yet most people do not believe.” (40 : 58-59) Who is the Master? Now, we come to the second question. It should be obvious, on a little reflection, to everyone that the real master of every particle of dust in the universe can only be He who has created and nurtured it, Whose mastery over everything is complete, having neither a beginning nor an end, covering the living and the dead, the apparent and the hidden, the seen and the unseen. On the contrary, the mastery of man is delimited by a beginning and an end; it has a 'before' when it did not exist, and an 'after' when it will exist no more. Man's mastery and control extends to the living, not to the dead, to the seen, not to the unseen, to the external aspect of things, not to the internal. All this would show to those who can see that the real Master of the whole universe, not only on the Day of Requital but even in this world, is no other than Allah. Then why should this verse specify the Day of Requital? The verses of the Surah al-Mumin/Ghafir (Chapter 40) serve as a commentary on the phrase under discussion, and provide a clear account of the Day of Requital. The real and complete mastery over everything, no doubt, belongs to Allah alone even in this world. Yet Allah Himself, in His beneficence and wisdom, has granted a kind of imperfect, temporary and apparent mastery to man as well; and the Shariah, in laying down laws for worldly affairs, has given due consideration to man's limited right to ownership. But today, in possessing lands or money or power, which has been given to him by way of trial, man has always been prone to get drunk with pride and vanity. The phrase 'Master of the Day of Judgment' is a warning to man reeling in his forgetfulness and self-conceit, and an intimation that all his possessions, all his relationships with things and men are only short-lived, and that there shall come a Day when masters will no more be masters and slaves no more slaves, when no one will own anything even in appearance, and the ownership and mastery, apparent as well as real, of the whole universe will be seen to belong to none but Allah, the Exalted. The Holy Quran says: “The day they will present themselves (before Allah), and nothing of theirs will remain hidden from Allah (even apparently). 'Whose is the kingdom today?' Of Allah alone, the One, the Mighty. Today everyone will be recompensed for what he has done. Today no one will be wronged. Allah's reckoning is surely swift.” (40:17)   Show more

(آیت) مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ لفظ مالک ملک سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں کسی چیز پر ایسا قبضہ کہ وہ اس میں تصرف کرنے کی جائز قدرت رکھتا ہو (قاموس) لفظ دین کے معنی جزاء دینا۔ ملک یوم الدین کا لفظی ترجمہ ہوا مالک روز جزاء کا یعنی روز جزاء میں ملکیت رکھنے والا وہ ملکیت کس چیز پر ہوگی ؟ اس کا ذکر نہیں کیا ... گیا تفسیر کشاف میں ہے کہ اس میں اشارہ عموم کی طرف ہے یعنی روز جزاء میں تمام کائنات اور تمام امور کی ملکیت صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ہوگی (کشاف) روز جزاء کی حقیقت اور عقلاً اس کی ضرورت : اب یہاں چند با تیں قابل غور ہیں : اول یہ کہ روز جزا کس دن کا نام ہے، اور اس کی کیا حقیقت ہے ؟ دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ کی ملکیت تمام کائنات پر جس طرح روز جزا میں ہوگی ایسے ہی آج بھی ہے، پھر روز جزا کی کیا خصو صیت ہے ؟ پہلی بات کا جواب یہ ہے کہ روز جزاء اس دن کا نام ہے جس کو اللہ نے نیک وبد اعمال کا بدلہ دینے کے لیے مقرر فرمایا ہے، لفظ روز جزا سے ایک عظیم الشان فائدہ یہ حاصل ہوا کہ دنیا نیک وبد اعمال کی جزاء وسزا کی جگہ نہیں بلکہ دارالعمل فرض ادا کرنے کا دفتر ہے تنخواہ یاصلہ وصول کرنے کی جگہ نہیں اس سے معلوم ہوگیا کہ دنیا میں کسی کو عیش و عشرت دولت و راحت سے مالامال دیکھ کر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ اللہ کے نزدیک مقبول و محبوب ہے یا کسی کو رنج و مصیبت میں مبتلا پا کر یہ نہیں قرار دیا جاسکتا کہ وہ اللہ کے نزدیک معتوب ومبغوض ہے جس طرح دنیا کے دفتروں اور کارخانوں میں کسی کو اپنا فرض ادا کرنے میں مصروف محنت دیکھا جائے تو کوئی عقلمند اس کو مصیبت زدہ نہیں کہتا اور نہ وہ خود اپنی مشقت کے باوجود اپنے آپ کو گرفتار مصیبت سمجھتا ہے بلکہ وہ اس محنت ومشقت کو اپنی سب سے بڑی کامیابی تصور کرتا ہے اور کوئی مہربان اس کو اس مشقت سے سبکدوش کرنا چاہے تو وہ اس کو اپنا بدترین دشمن خیال کرتا ہے کیونکہ وہ اس تیس روزہ محنت کے پس پردہ اس راحت کو دیکھ رہا ہے جو اس کو تنخواہ کی شکل میں ملنے والی ہے،   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ۝ ٣ ۭ ملك ( مالک) فالمُلْك ضبط الشیء المتصرّف فيه بالحکم، والمِلْكُ کالجنس للمُلْكِ ، فكلّ مُلْك مِلْك، ولیس کلّ مِلْك مُلْكا . قال : قُلِ اللَّهُمَّ مالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشاءُ [ آل عمران/ 26] ، وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً وَلا يَمْل... ِكُونَ مَوْتاً وَلا حَياةً وَلا نُشُوراً [ الفرقان/ 3] ، وقال : أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [يونس/ 31] ، قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا[ الأعراف/ 188] وفي غيرها من الآیات ملک کے معنی زیر تصرف چیز پر بذیعہ حکم کنٹرول کرنے کے ہیں اور ملک بمنزلہ جنس کے ہیں لہذا ہر ملک کو ملک تو کہہ سکتے ہیں لیکن ہر ملک ملک نہیں کہہ سکتے قرآن میں ہے : ۔ وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً وَلا يَمْلِكُونَ مَوْتاً وَلا حَياةً وَلا نُشُوراً [ الفرقان/ 3] اور نہ نقصان اور نفع کا کچھ اختیار رکھتے ہیں اور نہ مرنا ان کے اختیار میں ہے اور نہ جینا اور نہ مر کر اٹھ کھڑے ہونا ۔ اور فرمایا : ۔ أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [يونس/ 31] یا تمہارے کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہے قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا[ الأعراف/ 188] کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ اختیار نہیں رکھتا علی بذلقیاس بہت سی آیات ہیں يوم اليَوْمُ يعبّر به عن وقت طلوع الشمس إلى غروبها . وقد يعبّر به عن مدّة من الزمان أيّ مدّة کانت، قال تعالی: إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران/ 155] ، ( ی و م ) الیوم ( ن ) ی طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک کی مدت اور وقت پر بولا جاتا ہے اور عربی زبان میں مطلقا وقت اور زمانہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ خواہ وہ زمانہ ( ایک دن کا ہو یا ایک سال اور صدی کا یا ہزار سال کا ہو ) کتنا ہی دراز کیوں نہ ہو ۔ قرآن میں ہے :إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران/ 155] جو لوگ تم سے ( احد کے دن ) جب کہہ دوجماعتیں ایک دوسرے سے گتھ ہوگئیں ( جنگ سے بھاگ گئے ۔ يَوْمِ الدِّيْنِ علامہ پانی پتی (رح) رقمطراز ہیں : يَوْمِ الدِّيْنِ : قیامت کا دن ہے دین۔ جزاء اور بدلے کو کہتے ہیں اور کَمَا تُدِینُ تُدَانُ دین ہی سے مشتق ہے ( یعنی جیسے تو فعل کرے گا ویسا ہی بدلہ لے گا۔۔ یا لفظ دین سے اسلام اور اطاعت مراد ہے کیونکہ وہ ایسا دن ہے کہ جس میں اسلام اور اطاعت کے سوا کوئی چیز نفع نہیں دیگی۔ مجاہد کہتے ہیں کہ يَوْمِ الدِّيْنِ بمعنی يَوْمُ الحِسَاب ہے چناچہ قرآن مجید میں آیا ہے ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ یعنی یہ سید ھا حساب ہے۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣) یوم الدین بدلہ کا وہ فیصلہ کرنے والا ہے اور وہ قیامت کا دن ہے جس میں مخلوق کے درمیان فیصلہ ہوگا ان کے اعمال کا بدلہ ملے گا، اس دن اللہ کے علاوہ کسی کا فیصلہ نہیں ہوگا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ) ” وہ جزا اور سزا کے دن کا مالک ہے “۔ وہ مختار مطلق ہے۔ قیامت کے دن انسانوں کے اعمال کے مطابق جزا اور سزا کے فیصلے ہوں گے۔ کسی کی وہاں کوئی سفارش نہیں چلے گی ‘ کسی کا وہاں زور نہیں چلے گا ‘ کوئی دے دلا کر چھوٹ نہیں سکے گا ‘ کسی کو کہیں سے مطلقاً کوئی مدد نہیں ملے گی۔ اس رو... ز کہا جائے گا : (لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ ) ” آج کس کے ہاتھ میں اختیار اور بادشاہی ہے ؟ “ (لِلّٰہِ الْوَاحِدِ الْقَھَّارِ ) ” اس اللہ کے ہاتھ میں ہے جو اکیلا ہے اور پوری کائنات پر چھایا ہوا ہے۔ “ اب دیکھئے گر امر کی رو سے یہ ایک جملہ مکمل ہوا : (اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ۔ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ۔ ) ” کل حمد و ثنا اور شکر اس اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار اور مالک ہے ‘ جو رحمن ہے ‘ رحیم ہے ‘ اور جو جزا و سزا کے دن کا مالک اور مختار مطلق ہے۔ “ جزو ثانی : سورة الفاتحہ کا دوسرا حصہ صرف ایک آیت پر مشتمل ہے ‘ جو ہر اعتبار سے اس سورة کی مرکزی آیت ہے :  Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

5. God will be the Lord of the Day when all generations of mankind gather together on order to render an account of their conduct, and when each person will be finally rewarded or punished for his deeds. The description of God as Lord of the Day of Judgement following the mention of his benevolence and compassion indicates that we ought to remember another aspect of God as well-namely, that He wil... l judge us all, that He is so absolutely powerful, that on the Day of Judgement no one will have the power either to resist the enforcement of punishments that He decrees or to prevent anyone from receiving the rewards that He decides to confer. Hence, we ought not only to love Him for nourishing and sustaining us and for His compassion and mercy towards us, but should also hold Him in awe because of His justice, and should not forget that our ultimate happiness or misery rests completely with Him.  Show more

سورة الْفَاتِحَة حاشیہ نمبر :5 یعنی اس دن کا مالک جبکہ تمام اگلی پچھلی نسلوں کو جمع کرکے ان کے کارنامہٴ زندگی کا حساب لیا جائیگا اور ہر انسان کو اس کے عمل کا پورا صِلہ مل جائےگا ۔ اللہ کی تعریف میں رحمان اور رحیم کہنے کے بعد مالک روزِجزا کہنے سے یہ بات نکلتی ہے کہ وہ نِرا مہربان ہی نہیں ہے بلکہ من... صف بھی ہے ، اور منصف بھی ایسا بااختیار منصف کہ آخری فیصلے کے روز وہی پورے اقتدار کا مالک ہوگا ، نہ اس کی سزا میں کوئی مزاحم ہوسکے گا اور نہ جزا میں مانع ۔ لہٰذا ہم اس کی ربوبیت اور رحمت کی بناء پر اس سے محبت ہی نہیں کرتے بلکہ اس کے انصاف کی بنا پر اس سے ڈرتے بھی ہیں اور یہ احساس بھی رکھتے ہیں کہ ہمارے انجام کی بھلائی اوربُرائی بالکُلّیہ اسی کے اختیار میں ہے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

(٣) روز جزا کا مطلب ہے وہ دن جب تمام بندوں کو ان کے دنیا میں کیے ہوئے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا، یوں تو روز جزا سے پہلے بھی کائنات کی ہر چیز کا اصلی مالک اللہ تعالیٰ ہے ؛ لیکن یہاں خاص طور پر روز جزا کے مالک ہونے کا ذکر اس لیے کیا گیا کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ نے ہی انسانوں کو بہت سی چیزوں کا مالک بنا... یا ہوا ہے، یہ ملکیت اگرچہ ناقص اور عارضی ہے تاہم ظاہری صورت کے لحاظ سے ملکیت ہی ہے، لیکن قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ جزا وسزا کا مرحلہ آئے گا تو یہ ناقص اور عارضی ملکیتیں بھی ختم ہوجائیں گی، اس وقت ظاہری ملکیت بھی اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی نہ ہوگی۔  Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:3) مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ ۔ مٰلِكِ مضاف يَوْمِ الدِّيْنِ مضاف مضاف الیہ مل کر مضاف الیہ، لہذا مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ صفت چہارم ہے اللہ کی۔ بعض کے نزدیک یہ اللہ کا بدل ہے صفت نہیں کیونکہ اللہ معرفہ ہے۔ اور یہ نکرہ۔ اس کے نکرہ ہونے کی وجہ سے یہ ہے کہ اسم فاعل جب حال یا مستقبل کے معنی میں مستعمل ہ... وتا ہے تو مضاف الی المعرفہ بھی معرفہ نہیں بنتا۔ املائ، جزا و حساب کے دن کا مالک۔ يَوْمِ الدِّيْنِ کی قرآن مجید میں یوں وضاحت کی گئی ہے۔ وَمَآ اَدْرٰىكَ مَا يَوْمُ الدِّيْنِ 17 ۝ ۙثُمَّ مَآ اَدْرٰىكَ مَا يَوْمُ الدِّيْنِ 18۝ۭيَوْمَ لَا تَمْلِكُ نَفْسٌ لِّنَفْسٍ شَـيْــــًٔا ۭ وَالْاَمْرُ يَوْمَىِٕذٍ لِّلّٰهِ 19۝ۧ (82:1719) جس دن کوئی کسی کے کچھ بھی کام نہ آسکے گا اور حکم تمام تر اس روز صرف اللہ ہی کا ہوگا۔ علامہ پانی پتی (رح) رقمطراز ہیں : يَوْمِ الدِّيْنِ : قیامت کا دن ہے دین۔ جزاء اور بدلے کو کہتے ہیں اور کَمَا تُدِینُ تُدَانُ دین ہی سے مشتق ہے (یعنی جیسے تو فعل کرے گا ویسا ہی بدلہ لے گا۔۔ یا لفظ دین سے اسلام اور اطاعت مراد ہے کیونکہ وہ ایسا دن ہے کہ جس میں اسلام اور اطاعت کے سوا کوئی چیز نفع نہ دیگی۔ مجاہد کہتے ہیں کہ يَوْمِ الدِّيْنِ بمعنی يَوْمُ الحِسَاب ہے چناچہ قرآن مجید میں آیا ہے ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ یعنی یہ سید ھا حساب ہے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

(6) یوم الدین کے معنی یوم جزاء کے ہیں اس دنیا میں بھی مکافات یعنی جزائے اعمال کا سلسلہ جاری رہتا ہے مگر اس جزا کا مکمل ظہور چونکہ قیامت کے دن ہوگا اس لیے قیامت کے دن کو خا ص طور پر یوم الدین کہا گیا ہے ( رازی) اور اللہ تعالیٰ کے اس دن کا مالک ہونے کے یہ معنی ہیں کہ اس روز ظاہری طور پر بھی مالکیت اور...  ملوکیت کا یہ سلسلہ ختم ہوجائے گا اور مخلوقات سے جملا اختیارات ظاہری بھی سلب کرلیے جائیں گے ( قرطبی )  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

(یوم الدین ): جزا اور سزا کا دن، بدلہ کا دن، حسان کا دن، اس کے ایک دوسرے معنی بھی کئے گئے ہیں کہ دین سے مراد ” اسلام اور اطاعت کے ہیں “ یعنی قیامت کا دن وہ ہوگا جس میں اسلام اور اطاعت کے سوا کوئی چیز نفع نہ دے گی۔ درحقیقت ” یوم الدین “ کہہ کر سارے معانی کو ان دو لفظوں میں سمیٹ دیا ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن اس سورة مبارکہ میں اللہ تعالیٰ کی چوتھی صفت جو بیان ہورہی ہے وہ قرآن مجید کا تیسرا مرکزی مضمون ہے۔ اللہ جزاء وسزا کے دن کا مالک ہے۔ قیامت کے دن پر ایمان لانا اسلام کے بنیادی عقائد اور اس کی ابتدائی تعلیم میں شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت یعنی اس کی ان گنت نعمتوں اور بےپایاں رحمتوں کے تذ... کرے کے بعد ” مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ “ کا ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ کہیں انسان اس کی رحمت و شفقت دیکھ کر اس غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوجائے کہ مجھے میرے کیے دھرے پر پوچھا ہی نہیں جائے گا اور انسان کو دنیا میں ہمیشہ رہنا ہے۔ اس فرمان میں یہ بتلایا گیا ہے کہ اے انسان ! ناصرف تجھے موت آنی ہے بلکہ موت کے بعد تو اٹھایا اور اللہ کے حضور پیش کیا جائے گا پھر تجھے اپنی ایک ایک حرکت اور عمل کا پورا پورا حساب دینا ہے اور جزا یا سزا سے تیرا واسطہ پڑنا ہے۔ قرآن مجید کے عظیم مفسر اور نکتہ دان حضرت امام فخر الدین رازی (رح) لکھتے ہیں کہ سورة الفاتحہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے اسم اعظم کے ساتھ چار صفات کا ذکر فرمایا ہے۔ جس میں یہ واضح کیا ہے کہ اے انسان ! میں ہی وہ اللہ ہوں جس نے تجھے پیدا کیا اور میں ہی اپنی آغوش نعمت میں تیری پرورش کرتا ہوں۔ تجھ سے کوئی خطا ہوجائے تو بےپایاں رحمت کے ساتھ تیری پردہ پوشی کرتا ہوں۔ جب تو میری بارگاہ میں معذرت پیش کرتا ہے تو میں ہی تیری خطاؤں کو معاف کرنے والا ہوں۔” مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ “ کی صفت میں یہ اشارہ دیا ہے کہ نیک اعمال کے بدلے قیامت کے دن تجھے پوری پوری جزائے خیر سے نوازا جائے گا۔ مالک کا لفظ استعمال فرما کر یہ واضح کردیا گیا کہ اس دن کا برپا ہونا بدیہی امر ہے۔ اس دن نیک وبد کو سزا دلوانے یا معاف کروانے کا کسی کو اختیار نہیں ہوگا۔ بڑے بڑے سرکش اور نافرمان خمیدہ کمر اور سر جھکائے رب کبریا کی عدالت میں ذلت و رسوائی کی حالت میں پیش کئے جائیں گے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا دوسرا عکس ہے کیونکہ اس کے بغیر نیکوں کو پوری پوری جزا اور نافرمانوں کو ٹھیک ٹھیک سزا نہیں مل سکتی۔ اس لیے عقیدۂ آخرت ایمان کا اہم جزقرار پایا ہے۔ اس دن انبیائے کرام (علیہ السلام) بھی نفسا نفسی کے عالم میں ہوں گے اور رب ذوالجلال دنیا کے سفّاک، ظالم اور متکبر حکمرانوں اور انسانوں کو اس طرح خطاب کرے گا۔ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ زمینوں اور آسمانوں کو یکجا کرکے اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے فرمائیں گے کہ میں ہی بادشاہ ہوں۔ ظالم وسفّاک اور نخوت و غرور رکھنے والے آج کہاں ہیں ؟ (یَقُوْلُ اَنَا الْمَلِکُ اَیْنَ الْجَبَّارُوْنَ أَیْنَ الْمُتَکَبِّرُوْنَ.) (رواہ مسلم : کتاب صفۃ القیامۃ والجنۃ والنار ) دین کے معانی : اطاعت و بندگی۔ (الزمر : ١١) شریعت : (یونس : ١٠٤) قانون : (یوسف : ٧٦) حکمرانی : (المومن : ٥٦) جزاء وسزا (بدلہ): (الذاریات : ٦) مسائل ١۔ قیامت کے برپا ہونے میں کوئی شک نہیں اس دن نیکوں کو جزا اور بروں کو سزا ملے گی۔ ٢۔ قیامت کے دن پر ایمان لانا فرض ہے۔ تفسیر بالقرآن قیامت برپا ہو کر رہے گی : ١۔ قیامت قریب ہے۔ (الحج : ١) ٢۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سوال کرے گا کہ آج کس کی بادشاہی ہے ؟۔ (المومن : ١٦) ٣۔ قیامت کے دن کوئی کسی کو فائدہ نہیں دے سکے گا۔ (الانفطار : ١٩) ٤۔ قیامت کے دن ” اللہ “ ہی کی بادشاہی ہوگی۔ (الفرقان : ٢٦) ٥۔ قیامت کے دن ” اللہ “ ہی فیصلے صادر فرمائے گا۔ (الحج : ٥٦) مختلف مراحل کے حوالے سے قیامت کے اہم ترین نام : ١۔ اَلسَّاعَۃُ (الاعراف : ١٨٧) گھڑی ( مقرر وقت) ٢۔ یَوْمُ الْقِیَامَۃِ (البقرۃ : ١١٣) کھڑے ہونے کا دن (مُردوں کے کھڑے ہونے کا دن) ٣۔ اَلْیَوْمُ الْحَقُّ (النباء : ٣٩) سچا دن (جس کے آنے میں نہ کوئی شک ہے اور نہ اس دن کسی فیصلہ میں کوئی غلطی ہوگی) ٤۔ یَوْمٌ مَّعْلُوْمٌ (الشعراء : ٣٨) جانا ہوا دن یا مقررہ دن) ٥۔ اَلْوَقْتُ الْمَعْلُوْمُ (الحجر : ٣٨) جانا ہوا وقت یا مقررہ وقت) ٦۔ اَلْیَوْمُ الْمَوْعُوْدُ (البروج : ٢) وعدے کا دن) ٧۔ اَلْیَوْمُ الْاٰخِرُ (النساء : ٣٨) پچھلا دن) ٨۔ یَوْمُ الْاٰزِفَۃِ (المومن : ١٨) قریب آنے والی مصیبت کا دن) ٩۔ یَوْمٌ عَسِیْرٌ (المدثر : ٩) سخت دن) ١٠۔ یَوْمٌ عَظِیْمٌ (الانعام : ١٥) بڑا دن) ١١۔ یَوْمٌ عَصِیْبٌ (ہود : ٧٧) سخت دن) ١٢۔ یَوْمُ الْبَعْثِ (الروم : ٥٦) جی اٹھنے کا دن) ١٣۔ یَوْمُ التَّلَاقِ (المومن : ١٥) ( افسوس کا دن) ١٤۔ یَوْمُ التَّلَاقِ (المومن : ١٥) باہم ملنے کا دن) ١٥۔ یَوْمُ التَّنَادِ (المومن : ٣٢) پکار کا دن) ١٦۔ یَوْمُ الْجَمْعِ (الشوری : ٧) اکٹھا ہونے کا دن) ١٧۔ یَوْمُ الْحِسَابِ (ص : ١٦) حساب کا دن ١٨۔ یَوْمُ الْحَسْرَۃِ (مریم : ٣٩) حسرت کا دن ( ١٩۔ یَوْمُ الْخُرُوْجِ (ق : ٤٢) قبروں سے) نکلنے کا دن ) ٢٠۔ یَوْمُ الْفَصْلِ (الدخان : ٤) فیصلے کا دن) ٢١۔ اَلْقَارِعَۃُ (القارعۃ : ١) کھڑکھڑانے والی) ٢٢۔ اَلْغَاشِیَۃُ (الغاشیۃ : ١) چھا جانے والی) ٢٣۔ اَلطَّآمَّۃُ الْکُبْریٰ (النازعات : ٣٤) بڑی مصیبت) ٢٤۔ اَلنَّبَأُ الْعَظِیْمُ (النباء : ٢) بڑی خبر) ٢٥۔ اَلْحَآقَّۃُ (الحاقۃ : ١) ضرور آنے والی گھڑی) ٢٦۔ اَلْوَعْدُ (الانبیاء : ٣٨) وعدہ) ٢٧۔ اَلْوَاقِعَۃُ (الواقعۃ : ١) وقوع پذیرہونے والا) ٢٨۔ اَمْرُ اللّٰہِ (الحدید : ١٤) اللہ کا حکم) ٢٩۔ اَلصَّآخَّۃُ (عبس : ٣٤) بہرہ کرنے والی گھڑی) ٣٠۔ یَوْمُ الدِّیْنِ (الفاتحۃ : ٣) بدلے کا دن) ٣١۔ یَوْمٌ کَبِیْرٌ (ہود : ٣) بڑا دن) ٣٢۔ یَوْمٌ اَلِیْمٌ (ہود : ٢٦) دردناک دن) ٣٣۔ یَوْمٌ مُّحِیْطٌ (ہود : ٨٤) گھیرنے والا دن) ٣٤۔ یَوْمٌ مَّشْہُوْدٌ (ہود : ١٠٣) حاضری کا دن)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

مٰلِکِ یَومِ الدِّینِ ” روز جزاء کا مالک ہے۔ “ اس آیت میں اسلام کا وہ اصولی اور بنیادی عقیدہ بیان کیا گیا ہے ‘ جس کے اثرات پوری انسانی زندگی پر نہایت گہرے ہوتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے روزجزاء کے بارے میں ملکیت کا لفظ استعمال کیا ہے ۔ جو قبضہ واستیلاء اور تصرف واختیار کے نہایت اعلیٰ درجے کو ظاہر کررہا ہ... ے ۔ یوم الدین سے مراد قیامت کا روز جزاء ہے ۔ یاد رہے کہ نزول قرآن کے وقت بعض ایسے لوگ بھی تھے جو اللہ تعالیٰ کو الٰہ مانتے تھے ۔ اور اللہ کی صفت تخلیق پر بھی یقین رکھتے تھے ۔ اور کہتے تھے کہ اللہ ہی اس دنیا کو عدم سے وجود میں لایا ‘ اس کے باوجود وہ یوم جزاء اور حساب کتاب کے قائل نہ تھے ۔ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں قرآن مجید کہتا ہے : وَلَئِن سَاَلتَھُم مَن خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالاَرضِ لَیَقُولُنَّ اللّٰہ ” اگر آپ نے ان سے پوچھیں کہ آسمان اور زمین کو کس نے پیدا کیا تو کہیں گے اللہ نے ۔ “ اور دوسری جگہ میں ہے : بَل عَجِبُوآ اَن جَآئَہُم مُّنذِرٌ مِّنہُم فَقَالَ الکٰفِرُونَ ھٰذَا شَیئٌ عَجِیبٌ، أَ اِذَا مِتنَا وَ کُنَّا تُرَابًا ذٰلِکَ رَجعٌ م بَعِیدٌ(ق : ٣۔ ٢) ” انہیں یہ بات عجیب لگی کہ ان کے پاس خود ان میں سے ڈرانے ولا آیا ۔ کافروں نے کہا یہ اچھنبے کی بات ہے ۔ کیا جب ہم مرجائیں گے اور مٹی ہوجائیں گے تو پھر آنا عقل سے بعید کی بات ہے ۔ “ یوم آخرت پر ایمان اسلام کے اساسی عقائد میں سے ایک اہم عقیدہ ہے اور لوگوں کے دل اور دماغ میں ‘ اس جہاں سے آگے ‘ دارآخرت میں اللہ کے سامنے جوابدہی کا احساس پیدا کرنے میں اس کی اہمیت حددرجہ مسلمہ ہے ۔ اس عقیدے پہ ایمان لانے والے اس دنیائے دنی کی ضروریات کے حصول ہی میں منہمک نہیں ہوجاتے بلکہ اس عقیدے پر ایمان لانے کے بعد وہ دنیاوی حوائج و ضروریات سے بلند ہوکر سوچتے ہیں ۔ انہیں اس بات کی کوئی فکر نہیں ہوتی کہ اس محدود مختصر عمر اور دنیا کے اس تنگ دائرہ مکافات میں انہیں اپنے اعمال حسنہ کی پوری جزاء ملتی ہے یا نہیں ۔ بلکہ ان کی تمام نیکی اور اللہ کی راہ میں تمام جدوجہد سے مقصود صرف اللہ کی رضاجوئی ہوتی ہے ۔ وہ اعمال کا بدلہ صرف اللہ تعالیٰ ہی سے مانگتے ہیں ۔ خواہ وہ اس دنیا میں ملے یا آخرت میں ملے ۔ وہ مطمئن رہتے ہیں ۔ انہیں حق وصداقت پر بھروسہ ہوتا ہے ۔ وہ حق پر جم جاتے ہیں اور وہ دولت یقین ‘ وسعت قلب ونظر اور حسن خلق کے مالک ہوجاتے ہیں .... غرض یہ اصولی عقیدہ اس بات کے لئے معیاروکسوٹی ہے کہ کوئی انسان محض اپنی خواہشات ومرغوبات کا بندہ و غلام ہے یا اسے انسان کی انسانیت کے لائق آزادی وحریت بھی حاصل ہے ۔ اس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ اس جہاں میں دنیاوی اقدار ‘ مادی تصورات اور جاہلیت کو برتری حاصل ہے یا ربانی اقدار ‘ روحانی تصورات اور اسلامی نظریہ حیات کو جاہلیت کی منطق پہ غلبہ حاصل ہے ۔ نیز اس اصولی عقیدے کے ذریعے وہ بلند مقام نکھر کر سامنے آتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے پسند فرمایا ہے اور ناقص ‘ ناخالص اور منحرف تصورات حیات اور انسانیت کے اس بلند مقام کے درمیان فرق و امتیاز بھی واضح ہوجاتا ہے۔ جب تک انسانوں کے دل و دماغ میں یہ اصولی عقیدہ جاگزیں نہیں ہوجاتا ‘ اور لوگوں کے دلوں میں یہ اطمینان پیدا نہیں ہوجاتا کہ دنیاوی فوائد اور مادی مرغوبات انسان کا پورا مقدر نہیں ہے اور جب تک محدود عمر رکھنے والا یہ انسان ‘ یہ یقین نہیں کرلیتا کہ ایک آنے والی زندگی بھی ہے اور اس کا یہ فرض ہے کہ وہ اگلے جہاں اور اس زندگی کے لئے بھی محنت کرے ‘ اس کے لئے قربانی دے ‘ حق کی نصرت کرے ‘ بھلائی میں تعاون کرے اور یہ کہ ان سب باتوں کا اجر اسے آخرت میں ملے گا ‘ اس وقت تک انسانی زندگی اسلامی نظام حیات کے مطابق استوار نہیں ہوسکتی ۔ عقیدہ آخرت پر یقین رکھنے والا اور اس کا انکار کرنے والا اخلاق و شعور اور فکر وعمل میں ہرگز برابر نہیں ہوسکتے ۔ لہٰذا یہ دونوں گروہ اللہ کی مخلوقات کے علیحدہ علیحدہ انواع ہیں ۔ یہ دونوں مختلف طبائع رکھتے ہیں اور اس دنیا میں ان دونوں کا طرز عمل ہرگز ایک نہیں ہوسکتا اور نہ آخرت میں یہ دونوں ایک ہی طرح کے جزاء کے مستحق ٹھہر سکتے ہیں ۔ لہٰذا یہ عقیدہ ان دونوں کے درمیان ایک واضح فرق و امتیاز کا باعث بن جاتا ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ دین جزا اور بدلہ کو کہتے ہیں یَوْمِ الدِّیْنِ بدلہ کا دن۔ اس سے قیامت کا روز مراد ہے۔ اس روز خیر وشر کے بدلوں کا فیصلہ ہوگا ہر شخص اپنے اپنے عمل کا نتیجہ پائے گا۔ اللہ پاک کے رحم و کرم کے سوا کوئی راستہ جان چھوٹنے کا نہ ہوگا اگر کوئی سفارش کرنا چاہے گا تو بغیر اجازت مالک یوم ... الدین جل مجدہ، سفارش نہیں کرسکے گا۔ اس روز کسی کی مجازی حکومت و حاکمیت بھی نہ ہوگی۔ قال اللّٰہ تعالیٰ شانہٗ (اَلْمُلْکُ یَوْمَءِذِ ط نِ الْحَقُّ للرَّحْمٰنِ ۔ و قال جل جلالہ لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ لِلّٰہِ الْوَاحِدِ الْقَھَّارِ ۔ وقال عزاسمہ یَوْمَ لَا تَمْلِکُ نَفْسٌ لِّنَفْسٍ شَیْءًا وَّ الْاَمْرُ یَوْمَءِذٍ لِّلّٰہِ ) اللہ تعالیٰ شانہ صرف قاضی یوم الدین ہی نہیں بلکہ (مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ) بھی ہے بعض مرتبہ دنیا میں ایسا ہوتا ہے کہ قاضی (جج) فیصلہ تو کرتا ہے مگر ملک اور قانون کا مالک نہیں ہوتا۔ بادشاہ ملک یا مجلس قانون ساز کے مرتب کردہ دستور کا پابند ہوتا ہے اور اسی کے دائرہ قانون میں فیصلہ کرتا ہے۔ اللہ جل شانہٗمٰلِکَ الْمُلْکِ ہے قاضی روز جزا ہے اور ملک روز جزا بھی۔ اس پر کسی کا کوئی قانون اور کوئی حکم لاگو نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ رد نہیں ہوسکتا، اس کے خلاف اپیل نہیں ہوسکتی ...... وہاں دنیا کے حاکموں اور فیصلے کرنے والوں کے فیصلے بھی ہوں گے اور جانوروں تک نے جو ایک دوسرے پر ظلم و زیادتی کی تھی۔ اس کا بھی فیصلہ ہوگا۔ دنیا کے بادشاہ اور بڑے بڑے تسلط اور دبدبہ والے مجرموں کی صف میں کھڑے ہوں گے اور اپنے اپنے عمل اور کردار کا فیصلہ سنیں گے اور اس فیصلے کے مطابق عمل ہوگا۔ (لَا مُعَقِّبَ لِحُکْمِہٖ وَ ھُوَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ ) ۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

6: مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ ۔ لفظ دین قرآن مجید میں کئی معنون میں استعمال ہوا ہے۔ چناچہ بعض مقامات میں پوری شریعت کو دین کہا گیا ہے۔ مثلاً ارشاد ہے وَمَنْ يَّبْتَـغِ غَيْرَ الْاِسْلَامِ دِيْنًا فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْهُ (آل عمران 85) (یعنی جس نے اسلام کے سوا کسی اور دین کو پسند کرلیا وہ اس سے ہرگز قبول...  نہیں کیا جائے گا۔ اکثر جگہوں میں الدین اللہ کی توحید، اس کی خالص عبادت اور پکار کے معنوں میں استعمال کیا گیا ہے۔ سورة یوسف (علیہ السلام) نے قیدیوں کو وعظ کرتے ہوئے فرمایا۔ۭ اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلّٰهِ ۭ اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاهُ ۭ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ ۔ نہیں حکم مگر اللہ کے لیے اس نے حکم دیا ہے کہ مت عبادت کرو اس کے سوا کسی کی یہی ہے دین محکم سورة زمر رکوع 1 میں فرمایا۔ۭاَلَا لِلّٰهِ الدِّيْنُ الْخَالِصُخبردار اللہ ہی کے لیے خالص عبادت اور پکار۔ اور سورة حم مومن رکوع 2 میں فرمایا فَادْعُوا اللّٰهَ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ وَلَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ (سو اللہ کو پکارو خالص کر کے اس کے لیے عبادت کو گو کافروں کے لیے ناگوار ہی کیوں نہ ہو۔ مگر جہاں لفظ الدین یوم کا مضاف ہو وہاں اس کے معنی جزاء کے ہوتے ہیں جیسا کہ مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ میں ہے۔ یعنی روز جزاء کا مالک اور اس دن میں تمام تصرفات اور اختیارات کا واحد مختار اور اعمال کی جزا وسزا مقرر کرنے والا اور اعمال پر نیک وبد نتائج مرتب کرنے والا اور اختیار رکھنے والا یہ مذکورہ دعویٰ یعنی اَلْحَمْدُ لِلّٰهِکی تیسری دلیل ہے۔ روز جزا کی اہمیت : اللہ تعالیٰ نے ساری کائنات کو پیدا کیا اور نظام ربوبیت کے تحت ہر چیز کو انسان کی خدمت پر لگا دیا جدھر دیکھو خشکی اور تری پر اس کی رحمت اور نعمت کی چادریں پھیلی ہوئی نظر آتی ہیں۔ مادی ترقی کے ساتھ ساتھ اس نے روح کی نشوو نما کا انتظام بھی فرمایا اور راہ ہدایت اور صراط مستقیم بتانے کے لیے کتابیں اور رسول بھیجے اور آخر میں اپنے آخری پیگمبر حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اپنی آخری کتاب قرآن مجید نازل فرما کر نعمت اسلام کی تکمیل فرمادی۔ اس سارے نظام ربوبیت کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ ایک ایسا دن ضرور ہونا چاہئے۔ جس میں اس امر کا فیصلہ ہوسکے کہ کس نے اللہ کی ان تمام نعمتوں کا شکر ادا کیا اور کس نے ناشکری کی۔ کس نے اللہ کی بھیجی ہوئی ہدایت پر عمل کیا۔ اور اس کے احکام کی تعمیل کی اور کس نے اس کی ہدایت کو اور اس کے احکام کو ٹھکرایا۔ ایسا دن تو دنیا میں ہو نہیں سکتا کیوں کہ یہ دار العمل ہے اس لیے لا محالہ ایسا دن دنیا کے اختتام پر ہی ہوسکتا ہے اسی دن کا نام یوم الدین ہے اور اسی کو یوم آخر یا روز جزا وغیرہ کہتے ہیں۔ کیونکہ یہ دن دنیا کے ختم ہونے پر آئے گا۔ اور اس میں نیک وبد اعمال کا بدلہ دیا جائے گا۔ اس دن میں ہر قسم کے تمام اختیارات صرف اللہ کے قبضہ میں ہوں گے۔ وہاں مجازی طور پر بھی کسی کو کوئی اختیار باقتدار حاصل نہیں ہوگا۔ اہل کتاب کا تصور آخرت : اہل کتاب کے علماء سوء ان کے احبارو رہبان اور ان کے پیروں اور پادریوں کو چونکہ حق چھپانے، غلط بیانی کرنے اور تورات اور انجیل کی آیتوں میں لفظی اور معنوی تحریفیں اور تبدیلیاں کرنے کی عادت پڑچکی تھی اس لیے انہوں نے اپنے عوام میں بہت سے غلط عقائد پھیلا رکھے تھے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے جا بجا ان کے کرتوتوں کو ظاہر فرمایا ہے۔ تاکہ امت محمدیہ اس سے عبرت حاصل کرے چناچہ ارشاد ہے۔ ثُمَّ يُحَرِّفُوْنَهٗ مِنْۢ بَعْدِ مَا عَقَلُوْهُ وَھُمْ يَعْلَمُوْن (ال عمران 75) (پھر وہ اسے سمجھ لینے کے بعد بدل ڈالتے ہیں حالانکہ وہ جانتے ہیں) ایک جگہ فرمایا يُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِهٖ (پھیر دیتے ہیں وہ کلام کو اس کے مواقع سے) اہل کتاب کے علماء اور گدی نشینوں کو حق پوشی سے منع فرماتے ہوئے فرمایا۔ يٰٓاَھْلَ الْكِتٰبِ لِمَ تَلْبِسُوْنَ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُوْنَ الْحَقَّ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْن (اٰل عمران) کیوں مخلوط کرتے ہو حق کو باطل کے ساتھ اور کیوں چھپاتے ہو حق کو حالانکہ تم جانتے ہو۔ یہود اور نصاریٰ کے احبار اور رہبان سوء، غیر اللہ کی نذر ونیاز اور کئی دوسرے ذرائع سے حرام مال بھی کھاتے تھے۔ سَمّٰعُوْنَ لِلْكَذِبِ اَكّٰلُوْنَ لِلسُّحْتِ ۭ۔ یہ لوگ غلط باتیں سننے کے عادی ہیں۔ بڑے حرام خور ہیں۔ اہل کتاب کے پادریوں اور صوفیوں نے آخرت کے بارے میں ایک نہایت ہی غلط تصور عوام کے ذہن نشین کر رکھا تھا۔ اپنے متعلق تو انہوں نے عوامی ذہن میں یہ بات بٹھا رکھی تھی کہ ہم اللہ کے محبوب اور چہیتے ہیں اور اللہ کے بیٹے ہیں یعنی جس طرح باپ کی صفات بیٹوں میں ہوتی ہیں اسی طرح اللہ کی صفات ہم میں موجود ہیں۔ اس لیے آخرت میں ہمیں تو کسی قسم کا عذاب ہوگا ہی نہیں۔ وَقَالَتِ الْيَھُوْدُ وَالنَّصٰرٰى نَحْنُ اَبْنٰۗؤُا اللّٰهِ وَاَحِبَّاۗؤُهٗ (المائدہ : 18) یہود اور نصاری نے کہ اہم تو اللہ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں۔ اور عوام کو انہوں نے یہ یقین دلا رکھا تھا کہ جنت ان کے لیے ریزرو ہے ان کے سوا اور کوئی جنت میں داخل نہیں ہوسکے گا۔ وَقَالُوْا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ اِلَّآ اَيَّامًا مَّعْدُوْدَةً (البقرہ :80) (انہوں نے کہا کہ ہمیں تو صرف چند دن عذاب آئے گا۔ اہل کتاب کا یہ بھی عقیدہ تھا کہ حضرت عزیر اور حضرت عیسیٰ (علیہما السلام) اور ان کے پیر اور پادری حاجت روا، مشکل کشا اور شفیع غالب ہیں اور قیامت کے دن ان کو عذاب سے بچا لیں گے۔ اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَالْمَسِيْحَ ابْنَ مَرْيَمَ (التوبہ :31) انہوں نے اپنے پادریوں اور پیروں کو اور مسیح بن مریم کو خدا کے سوا رب بنا لیا تھا۔ سورة فاتحہ میں جس طرح دوسرے باطل عقیدوں کی تردید کی گئی ہے اسی طرح مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِسے اہل کتاب کے غلط تصور آخرت کی تردید فرمائی کہ قیامت کے دن کا مالک صرف اللہ ہی ہے اور سب کے نیک وبد اعمال کو جاننے والا بھی وہی ہے۔ اس لیے وہی لوگوں کے اعمال کی جزا وسزا کا مالک ہے اور وہ جس طرح چاہے اور جو چاہے کرسکتا ہے۔ اس کے سوا کسی میں قدرت نہیں کہ اعمال کا حساب لے اور ہر ایک کے حسب حال اور حسب نیت نیک وبد اعمال کی جزا اور سزا دے۔ یہود ونصاری کے اس غلط وتصور آخرت کا قرآن مجید میں تفصیلاً بھی رد کیا گیا ہے چناچہ اہل کتاب کے اس باطل عقیدے کی رد میں کہ ہم اللہ کے پیارے ہیں اور ہمیں عذاب نہیں ہوگا اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا۔ لَيْسَ بِاَمَانِيِّكُمْ وَلَآ اَمَانِيِّ اَھْلِ الْكِتٰبِ ۭ مَنْ يَّعْمَلْ سُوْۗءًا يُّجْزَ بِهٖ ۙ وَلَا يَجِدْ لَهٗ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَلِيًّا وَّلَا نَصِيْرًا (النساء : 123) یعنی نجات نہ تو تمہاری خواہشات پر موقوف ہے اور نہ اہل کتاب کی آرزون پر (بلکہ مالک الملک کا قانون یہ ہے کہ) جو کوئی بھی برائی کرے گا اسے ضرور اس کا بدلہ ملے گا اور پھر وہاں اللہ کے سوا کوئی کارساز اور مددگار نہیں پائے گا۔ اور ایک جگہ فرمایا۔ بَلٰى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً وَّاَحَاطَتْ بِهٖ خَطِيْۗــــَٔــتُهٗ فَاُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ ۚ ھُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ 81۝ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ ۚ ھُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ (البقرہ : 81، 82) جس نے برائی کمائی اور اسے اس کے گناہوں نے گھیر لیا۔ یہ لوگ جہنمی ہیں اور وہ جہنم میں ہمیشہ رہیں گے اور جو لوگ ایمان لائے اور اچھے عمل کیے یہ لوگ جنتی ہیں اور جنت میں ہمیشہ رہیں گے اس آیت میں لفظ کسب سے اس طرف اشارہ ہے کہ نجات اور عذاب اور ثواب و عقاب کا تعلق عمل سے ہے۔ یہ نہیں ہوگا کہ اعمال تو برے ہوں اور شرک سے ملوث ہوں۔ لیکن کسی پیغمبر، ولی یا بزرگ کی مدد اور سفارش سے نجات مل جائے بلکہ وہاں تو اس اصول پر عمل ہوگا۔ جیسا کروگے ویسا پاؤ گے مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ میں لفظ مالک سے اس طرف اشارہ ہے کہ اگرچہ اللہ تعالیٰ کا فعل اور اعمال کی جزاء وسزا عدل و انصاف کے عین مطابق ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ پھر بھی مجبور نہیں بلکہ وہ مالک ہے اور اپنے ملک میں جس طرح چاہے تصرف کرے اس کے سامنے کسی کو چوں چرا کرنے کی جراءت نہیں۔ دنیا وآخرت کا مالک ومختار : دنیا اور آخرت میں مالک ومختار صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ لَا يُسْــَٔـلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْــَٔــلُوْن (الانبیاء :23) جو کچھ وہ کرتا ہے اس سے کوئی باز پرس نہیں کرسکتا اور اوروں سے باز پرس کی جاسکتی ہے۔ دنیا میں اگرچہ اللہ کے سوا کئی مالک ومختار ہونے کے مدعی بن گئے اور مشرکین نے بھی اپنے معبودوں کو مالک ومختار سمجھے رکھا۔ مگر آخرت میں مشرکین کو معلوم ہوجائے گا۔ کہ وہ غلطی پر تھے۔ حقیقت میں اللہ کے سوا کوئی مالک ومختار نہیں تھا۔ فرعون اور نمرود جیسے سرکش حکمرانوں کو بھی قیامت کے دن معلوم ہوجائے گا۔ کہ ان کے سب دعوے غلط تھے اور آج وہ بالکل بےبس اور بےیارو مددگار ہیں۔ ان کے اختیار میں کچھ نہیں اور تمام معاملات صرف اللہ کے قبضۂ قدرت میں ہیں۔ يَوْمَ لَا تَمْلِكُ نَفْسٌ لِّنَفْسٍ شَـيْــــًٔا ۭ وَالْاَمْرُ يَوْمَىِٕذٍ لِّلّٰهِ (الانفطار :19) اس دن کوئی جان کسی جان کے لیے کوئی اختیار نہیں رکھے گی اور حکم صرف اللہ ہی کا ہوگا اسی طرح قرآن مجید میں اور بھی بہت سی آیتیں ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ دنیا اور آخرت میں مالک ومختار صرف اللہ ہی ہے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 2۔ سب تعریفیں اور حمد وثناء اس ہی اللہ تعالیٰ کو سزا دار اور لائق ہے جو ہر ایک کا مربی اور تربیت کرنے والا ہے وہ اللہ تعالیٰ بےحد مہربان اور بےانتہا مہربانی کرنے والا ہے وہ جزاء و سزا کے دن کا مالک ہے۔ ( تیسیر) حاصل یہ ہے کہ جو تعریفیں اب تک ہو چکیں یا آئندہ ہوں گی ان سب کا حقیقی مستحق اللہ تعالیٰ...  ہی ہے ، کیونکہ مخلوق میں سے جس چیز کی بھی تعریف کی جائے وہ درحقیقت خدا ہی کی تعریف ہے اس لئے کہ مخلوق کی تمام خوبیاں بھی حضرت حق ہی کی مرہون منت ہیں وہی ہر ایک عالم کا خواہ وہ عالم ملائکہ یا عالم جنات و انسان ہو یا عالم نباتات و جمادات ہو سب کا وہی خالق اور وہی پرورش کنندہ ہے ۔ رب کے بہت سے معنی ہیں ہم نے یہاں کی مناسبت سے خالق اور مربی کردیا ہے ۔ جزاء و سزا کا دن قیامت کا دن ہے کیونکہ اس دن ہر برے اور بھلے کو اس کے کیے کا بدلہ ملنے والا ہے اگرچہ ہر چیز کے حضرت حق تعالیٰ ہی مالک ہیں لیکن چونکہ وہ دن نہایت ہی اہم اور خوف ناک ہوگا اور اس دن ہر قسم کی حکومتیں اور بادشاہتیں فنا ہوچکی ہونگی ۔ اس لئے اس دن کی مالکیت اور خود مختاری کا ذکر فرمایا کہ اس دن کوئی ظاہری اور مجازی مالک بھی نہ ہوگا صرف اللہ تعالیٰ ہی کا سب پر مالکانہ تصرف ہوگا ۔ ( تسہیل)  Show more