Surat Younus

Surah: 10

Verse: 103

سورة يونس

ثُمَّ نُنَجِّیۡ رُسُلَنَا وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کَذٰلِکَ ۚ حَقًّا عَلَیۡنَا نُنۡجِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۱۰۳﴾٪  15

Then We will save our messengers and those who have believed. Thus, it is an obligation upon Us that We save the believers

پھر ہم اپنے پیغمبروں کو اور ایمان والوں کو بچا لیتے تھے ، اسی طرح ہمارے ذمہ ہے کہ ہم ایمان والوں کو نجات دیا کرتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قُلْ فَانتَظِرُواْ إِنِّي مَعَكُم مِّنَ الْمُنتَظِرِينَ ثُمَّ نُنَجِّي رُسُلَنَا وَالَّذِينَ امَنُواْ Say: "Wait then, I am waiting with you among those who wait." Then We save Our Messengers and those who believe! This means, `Verily, We destroy those who reject the Messengers.' كَذَلِكَ حَقًّا عَلَيْنَا نُنجِ الْمُوْمِنِينَ Thus it is incumbent upon Us to save the believers. This means that this is a right that Allah, the Exalted, has obligated upon His Noble Self. This is similar to His statement, كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ Your Lord has written (prescribed) mercy for Himself. (6:54)

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١١] رسول پر ایمان لانے والوں کو عذاب سے بچانا اللہ کی ذمہ داری ہے :۔ اللہ تعالیٰ کا ہمیشہ سے یہ دستور رہا ہے کہ جب کسی مجرم قوم پر اپنے رسول کی تکذیب کی وجہ سے عذاب نازل کرتا ہے تو وہ وحی کے ذریعہ اس عذاب کی آمد سے رسول کو مطلع کردیتا ہے اور اس عذاب سے بچاؤ کی صورت بھی سمجھا دیتا ہے۔ اس طرح رسول اور اس پر ایمان لانے والے تو اس عذاب سے بچ جاتے ہیں اور مجرمین اس عذاب سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔ اس آیت میں دراصل اہل مکہ کو انتباہ ہے جو اسلام اور پیغمبر اسلام کی مخالفت میں، اسلام کی راہ روکنے اور مسلمانوں کو اذیتیں پہنچانے میں اپنا ایڑی چوٹی کا زور صرف کر رہے تھے اور انھیں بتلانا یہ مقصود تھا کہ تمہارا بھی وہی حشر ہونے والا ہے جو سابقہ مجرموں کا ہوچکا ہے اور ان کمزور اور ستم رسیدہ مسلمانوں کو تمہاری چیرہ دستیوں سے بچانا اور انھیں تم پر غالب کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ثُمَّ نُنَجِّيْ رُسُلَنَا وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كَذٰلِكَ۝ ٠ ۚ حَقًّا عَلَيْنَا نُنْجِ الْمُؤْمِنِيْنَ۝ ١٠٣ ۧ نجو أصل النَّجَاء : الانفصالُ من الشیء، ومنه : نَجَا فلان من فلان وأَنْجَيْتُهُ ونَجَّيْتُهُ. قال تعالی: وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل/ 53] ( ن ج و ) اصل میں نجاء کے معنی کسی چیز سے الگ ہونے کے ہیں ۔ اسی سے نجا فلان من فلان کا محاورہ ہے جس کے معنی نجات پانے کے ہیں اور انجیتہ ونجیتہ کے معنی نجات دینے کے چناچہ فرمایا : ۔ وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل/ 53] اور جو لوگ ایمان لائے ان کو ہم نے نجات دی ۔ رسل أصل الرِّسْلِ : الانبعاث علی التّؤدة وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ومن الأنبیاء قوله : وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران/ 144] ( ر س ل ) الرسل الرسل ۔ اصل میں اس کے معنی آہستہ اور نرمی کے ساتھ چل پڑنے کے ہیں۔ اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ اور کبھی اس سے مراد انبیا (علیہ السلام) ہوتے ہیں جیسے فرماٰیا وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران/ 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے بڑھ کر اور کیا کہ ایک رسول ہے اور بس حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٠٣) پھر ہم ان قوموں کو ہلاک کرنے کے بعد اپنے رسولوں کو اور ان لوگوں کو جو ہمارے رسولوں پر ایمان لائے بچالیتے ہیں ہم اسی طرح رسولوں کے ساتھ سب ایمان والوں کو نجات دیا کرتے ہیں وہ ہمارے ذمہ ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٠٣ (ثُمَّ نُنَجِّيْ رُسُلَنَا وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كَذٰلِكَ ۚ حَقًّا عَلَيْنَا نُنْجِ الْمُؤْمِنِيْنَ ) جیسے حضرت نوح ‘ حضرت ہود اور حضرت صالح کی قوموں میں سے جو لوگ ایمان لے آئے انہیں بچالیا گیا۔ عامورہ اور سدوم کی بستیوں میں سے کوئی ایک خوش قسمت بھی نہ نکلا کہ اسے بچایا جاتا۔ حضرت لوط صرف اپنی دو بیٹیوں کو لے کر وہاں سے نکلے تھے ‘ جبکہ ان کی اپنی بیوی بھی پیچھے رہ جانے والوں کے ساتھ رہ گئی اور عذاب کا نشانہ بنی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(10:103) ثم۔ پھر (اس وقت) ننجی۔ مضارع جمع متکلم (باب تفعیل) تنجیۃ۔ مصدر ۔ ہم بچا لیتے ہیں۔ کذلک۔ بیشک ایسا ہی ہوتا ہے۔ یہی اللہ کا دستور ہے۔ ننج۔ مضارع جمع متکلم۔ انجائ۔ مصدر (باب افعال) اصل میں ننجی تھا۔ حقا علینا ننجی المؤمنین۔ ہم پر یہ حق ہے کہ ہم مؤمنوں کو بچا لیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ثم ننجی رسلنا والذین امنوا پھر ہم (کافروں اور منکروں کو ہلاک کردیتے ہیں اور) اپنے پیغمبروں اور ان کے ماننے والوں کو بچا لیتے ہیں۔ یہ حال گزشتہ کا بیان ہے (یعنی گزشتہ زمانہ میں ہم نے ایسا کیا تھا اور یہی ہمارا دستور تھا) ۔ کذلک حقا علینا ننج المؤمنین۔ اسی طرح (یعنی گزشتہ پیغمبروں کی طرح) ہم بچا لیں گے مؤمنوں کو۔ ہمارا یہ وجوبی وعدہ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جیسے گزشتہ پیغمبروں اور مؤمنوں کو ہم نے بچایا ‘ اسی طرح نزول عذاب کے وقت ہم محمد ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) کو اور ان پر ایمان لانے والوں کو بچا لیں گے اور یہ بچا لینا (حسب وعدہ) ہم پر واجب ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

آخر میں فرمایا (ثُمَّ نُنَجِّیْ رُسُلَنَا وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کَذٰلِکَ ) جب ہمارا عذاب آتا ہے تو ہم مکذبین کو ہلاک کردیتے ہیں پھر اپنے رسولوں کو نجات دے دیتے ہیں اور اہل ایمان کو بھی اسی طرح نجات دیتے ہیں (حَقًّا عَلَیْنَا نُنْجِ الْمُؤْمِنِیْنَ ) (ہمارے ذمہ ہے کہ ہم اہل ایمان کو نجات دیتے ہیں) اس میں اہل ایمان کو خوشخبری ہے اور مواقع عذاب سے نجات پانے کی بشارت ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

112:“ ثُمَّ ” تراخی کے لیے نہیں بلکہ تعقیب ذکری کیلئے ہے اور یہ ماننے والوں کے لیے بشارت اخروی ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

103 پھر ہم اس عذاب سے اپنے پیغمبروں کو اور ایمان والوں کو بچا لیتے تھے ہم اسی طرح سب ایمان والوں کو نجات دیدیا کرتے ہیں اور بچا لیا کرتے ہیں یہ باس حسب وعدہ ہمارے ذمہ پر ہے یعنی جس طرح پہلوں کے وقت میں رسول اور مسلمان بچ جایا کرتے تھے اسی طرح ہم مسلمانوں کو نجات دیدیا کرتے ہیں یہ ایمان والوں کو نجات دینا ہمارے ذمہ پر ہے۔