Surat Younus

Surah: 10

Verse: 104

سورة يونس

قُلۡ یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنۡ کُنۡتُمۡ فِیۡ شَکٍّ مِّنۡ دِیۡنِیۡ فَلَاۤ اَعۡبُدُ الَّذِیۡنَ تَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ وَ لٰکِنۡ اَعۡبُدُ اللّٰہَ الَّذِیۡ یَتَوَفّٰىکُمۡ ۚ ۖ وَ اُمِرۡتُ اَنۡ اَکُوۡنَ مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۱۰۴﴾ۙ

Say, [O Muhammad], "O people, if you are in doubt as to my religion - then I do not worship those which you worship besides Allah ; but I worship Allah , who causes your death. And I have been commanded to be of the believers

آپ کہہ دیجئے کہ اے لوگو! اگر تم میرے دین کی طرف سے شک میں ہو تو میں ان معبودوں کی عبادت نہیں کرتا جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہو لیکن ہاں اس اللہ کی عبادت کرتا ہوں جو تمہاری جان قبض کرتا ہے اور مجھ کو یہ حکم ہوا ہے کہ میں ایمان لانے والوں میں سے ہوں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Command to worship Allah Alone and rely upon Him Allah, the Exalted, says قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِن كُنتُمْ فِي شَكٍّ مِّن دِينِي فَلَ أَعْبُدُ الَّذِينَ تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللّهِ وَلَـكِنْ أَعْبُدُ اللّهَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ ... Say: "O people! If you are in doubt about my religion - I will never worship those whom you worship besides Allah, rather, I will worship Allah, the One Who cause you to die. Allah, the Exalted, says to His Messenger, Muhammad, `Say: O mankind! If you are in doubt about the correctness of that which I have been sent with the Hanif (monotheism) religion - the religion which Allah has revealed to me -- then know that I do not worship those whom you worship besides Allah. Rather, I worship Allah alone, ascribing no partners to Him. He is the One Who causes you to die just as He gives you life. Then, unto Him is your final return. If the gods that you call upon are real, I still refuse to worship them. So call upon them and ask them to harm me, and you will see that they can bring no harm or benefit. The only One Who holds the power of harm and benefit in His Hand is Allah alone, Who has no partners.' وَأُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْمُوْمِنِينَ And I was commanded to be one of the believers. Concerning Allah's statement,

دین حنیف کی وضاحت یکسوئی والا سچا دین جو میں اپنے اللہ کی طرف سے لے کر آیا ہوں اس میں اے لوگوں اگر تمہیں کوئی شک شبہ ہے تو ہو ، یہ تو ناممکن ہے کہ تمہاری طرح میں بھی مشرک ہو جاؤں اور اللہ کے سوا دوسروں کی پرستش کرنے لگوں ۔ میں تو صرف اسی اللہ کا بندہ ہوں اور اسی کی بندگی میں لگا رہوں گا جو تمہاری موت پر بھی ویسا ہی قادر ہے جیسا تمہاری پیدائش پر قادر ہے تم سب اسی کی طرف لوٹنے والے اور اسی کے سامنے جمع ہو نے والے ہو ۔ اچھا اگر تمہارے یہ معبود کچھ طاقت و قدرت رکھتے ہیں تو ان سے کہو کہ جو ان کے بس میں ہو مجھے سزا دیں ۔ حق تو یہ ہے کہ نہ کوئی سزا ان کے قبضے میں نہ جزا ۔ یہ محض بےبس ہیں ، بےنفع و نقصان ہیں ، بھلائی برائی سب میرے اللہ کے قبضے میں ہے ۔ وہ واحد اور لاشریک ہے ، مجھے اس کا حکم ہے کہ میں مومن رہوں ۔ یہ بھی مجھے حکم مل چکا ہے کہ میں صرف اسی کی عبادت کرو ۔ شرک سے یکسو اور بالکل علیحدہ رہوں اور مشرکوں میں ہرگز شمولیت نہ کروں ۔ خیر و شر نفع ضرر ، اللہ ہی کے ہاتھ میں ۔ کسی اور کو کسی امر میں کچھ بھی اختیار نہیں ۔ پس کسی اور کی کسی طرح کی عبادت بھی لائق نہیں ۔ ایک حدیث میں ہے کہ اپنی پوری عمر اللہ تعالیٰ سے بھلائی طلب کرتے رہو ۔ رب کی رحمتوں کے موقع کی تلاش میں رہو ۔ ان کے موقعوں پر اللہ پاک جسے چاہے اپنی بھر پور رحمتیں عطا فرما دیتا ہے ۔ اس سے پہلے عیبوں کی پردہ پوشی اپنے خوف ڈر کا امن طلب کیا کرو ۔ پھر فرماتا ہے کہ جس گناہ سے جو شخص جب بھی توبہ کرے ، اللہ اسے بخشنے والا اور اس پر مہربانی کرنے والا ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

104۔ 1 اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے آخری پیغمبر حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم فرما رہا ہے کہ آپ تمام لوگوں پر واضح کردیں کہ میرا طریقہ اور مشرکین کا طریقہ ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ 104۔ 2 یعنی اگر تم میرے دین کے بارے میں شک کرتے ہو، جس میں صرف ایک اللہ کی عبادت ہے اور یہی دین حق ہے نہ کہ کوئی اور تو یاد رکھو میں ان معبودوں کی کبھی اور کسی حال میں عبادت نہیں کرونگا جن کی تم کرتے ہو۔ 104۔ 3 یعنی موت وحیات اسی کے ہاتھ میں ہے، اسی لئے جب وہ چاہے تمہیں ہلاک کرسکتا ہے کیونکہ انسانوں کی جانیں اسی کے ہاتھ میں ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١٢] موت سے متعلق تین حقائق :۔ موت کے متعلق چند ایسے اٹل حقائق ہیں جن کا کوئی بھی انسان انکار نہیں کرسکتا خواہ وہ مومن ہو یا مشرک ہو یا دہریہ اور نیچری ہو۔ ایک یہ کہ ہر ذی روح کو موت آکے رہے گی کوئی انسان موت کی گرفت سے آج تک نہ بچ سکا ہے اور نہ بچ سکتا ہے دوسری یہ کہ جب موت کا وقت آجائے تو اسے ٹالا نہیں جاسکتا۔ اور تیسری یہ کہ موت ہر ذی روح کے لیے ناگوار ہوتی ہے اور کوئی بھی مرنا پسند نہیں کرتا۔ الا یہ کہ مومنوں کو موت کے وقت آئندہ کے بہتر انجام کی خوشخبری دی جاتی ہے یا انھیں جنت میں ان کا مقام دکھلا دیا جاتا ہے جس کی بنا پر وہ موت کو برضاء ورغبت قبول کرنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں جیسا کہ سیدۃ عائشہ (رض) کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے اور ان تینوں حیثیتوں کو مشرکین مکہ بھی تسلیم کرتے تھے بالخصوص اس حقیقت کو کہ موت کو ان کے معبود ٹال نہیں سکتے نیز یہ کہ موت اور زندگی کا رشتہ سرتا سر خالص اللہ تعالیٰ ہی کے قبضہ قدرت میں ہے۔ معبودان باطلہ کی اقسام اور ان کی بےبسی :۔ دوسری قابل ذکر بات یہ ہے کہ جن چیزوں کو معبود یا حاجت روا اور مشکل کشا سمجھا جاتا رہا ہے۔ ان کی تین ہی قسمیں ہوسکتی ہیں ایک توہماتی ارواح جیسے جن، فرشتے مختلف سیاروں یا بزرگوں کی ارواح، ایسی چیزوں کو معبود یا حاجت روا اور مشکل کشا سمجھنے کی بنیاد محض انتہائی توہمات ہیں۔ دوسرے بےجان معبود جیسے بت مجسمے اور شجر و حجر وغیرہ اور تیسرے پیر و مشائخ وغیرہ۔ ان میں سے بےجان تو محض توہماتی چیزیں ہیں رہے پیرو مشائخ جنہیں حاجت روا اور مشکل کشا سمجھا جاتا ہے۔ ان کے متعلق بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا انہوں نے اپنے آپ کو موت جیسی ناگوار چیز کی گرفت سے بچا لیا تھا یا اس کے وقت کو مؤخر کرنے میں وہ کامیاب ہوگئے تھے ؟ اور اگر وہ اپنی بھی مصیبت دور نہیں کرسکے تو دوسروں کی کیسے دور کرسکتے ہیں ؟ زندگی اور موت پر اللہ کے سوا کسی معبود کا اختیار نہیں چلتا :۔ اسی حوالہ سے مشرکوں کو انتباہ کیا جارہا ہے اور پیغمبر کی زبان سے یہ کہلوایا جارہا ہے کہ آپ انھیں کہیے کہ میں صرف اسی ہستی کی پرستش کرتا ہوں جس کے قبضہ قدرت میں تمہاری جانیں ہیں تمہاری جانوں پر تمہارے تمام معبودوں میں سے کسی کا بھی تصرف نہیں چلتا تو پھر میں آخر اسی اکیلے معبود کی کیوں نہ پرستش کروں جو میری اور تمہاری سب کی جانوں پر پورا پورا تصرف رکھتا ہے ہم سب کی زندگی اور موت کی باگ ڈور خالصتاً اسی کے ہاتھ میں ہے اور کان کھول کر سن لو کہ جن معبودوں کی تم پرستش کرتے ہو میں ایسے بےبس اور لاچار معبودوں کی کبھی پرستش کا خیال تک بھی دل میں نہیں لاسکتا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنْ كُنْتُمْ فِيْ شَكٍّ ۔۔ : شک کا معنی یہ ہے کہ ذہن میں کسی چیز کے حق ہونے یا ناحق ہونے کا برابر امکان ہو، اگر اس کی ذہنی کیفیت کو ترازو میں تولا جائے تو وہ اسے نہ حق کہہ سکے نہ باطل۔ اب دنیا کے تمام لوگوں کو مخاطب کرکے فرمایا ” اِنْ “ اگر تمہیں میرے دین کے بارے میں کوئی بھی شک ہے۔ ” اگر “ کا لفظ بتاتا ہے کہ شک کی گنجائش تو نہیں لیکن فرض کرو کہ تمہیں اس میں کوئی شک ہے تو میرا اعلان سن لو کہ میں ایک اللہ کے سوا تمہارے معبودوں میں سے کسی کی عبادت نہیں کرتا۔ یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ اللہ کی عبادت سے پہلے تمام باطل معبودوں کا انکار کیا گیا ہے، جیسے (قُلْ یَا اَیُّہَا الْکٰفِرٗوْنَ ) میں ہے، پھر صرف ایک اللہ کی عبادت کا اعلان کیا گیا اور ساتھ ہی اس کی دلیل ذکر فرما دی : (الَّذِيْ يَتَوَفّٰىكُمْ ) ” وہ جو تمہاری روح قبض کرتا ہے۔ “ مزید دیکھیے سورة زمر (٤٢) کوئی اور معبود یہ کام کرتا ہو تو سامنے لاؤ۔ ساتھ ہی اس میں دھمکی بھی ہے کہ اگر تم شرک پر قائم رہے تو اس اللہ کو کیا جواب دو گے جو تمہاری روح قبض کرتا ہے اور ہر حال میں تمہیں اسی کے پاس جانا ہے، پھر وہ تم سے نمٹ لے گا اور مجھے تو یہی حکم ہے کہ میں مومن بن کر رہوں اور اپنی پیشانی اس کے سوا کسی کے سامنے نہ جھکاؤں، لہٰذا میری اور تمہاری راہ ایک دوسرے سے سراسر مختلف ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر آپ ( ان سے) کہہ دیجئے کہ اے لوگو ! اگر تم میرے دین کی طرف سے شک ( اور تردد) میں ہو تو ( میں تم کو اس کی حقیقت بتلاتا ہوں وہ یہ ہے کہ) میں ان معبودوں کی عبادت نہیں کرتا جن کی تم خدا کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہو، لیکن ہاں اس معبود کی عبادت کرتا ہوں جو تمہاری جان قبض کرتا ہے اور مجھ کو ( منجانب اللہ) یہ حکم ہوا ہے کہ میں ( ایسے معبود پر) ایمان لانے والوں میں سے ہوں اور ( مجھ کو) یہ ( حکم ہوا ہے) کہ اپنے آپ کو اس دین ( مذکورہ توحید خالص) کی طرف اس طرح متوجہ رکھنا کہ اور سب طریقوں سے علیحدہ ہوجاؤ اور کبھی مشرک مت بننا اور ( یہ حکم ہوا ہے کہ) خدا ( کی توحید) کو چھوڑ کر ایسی چیز کی عبادت مت کرنا جو تجھ کو نہ ( عبادت کرنے کی حالت میں) کوئی نفع پہنچا سکے اور نہ ( ترک عبادت کی حالت میں) کوئی ضرر پہنچا سکے پھر اگر ( با لفرض) ایسا کیا ( یعنی غیر اللہ کی عبادت کی) تو اس حالت میں ( اللہ کا) حق ضائع کرنے والوں میں سے ہوجاؤ گے اور (مجھ سے یہ کہا گیا ہے کہ) اگر تم کو اللہ تعالیٰ کوئی تکلیف پہنچاوے تو بجز اس کے اور کوئی اس کا دور کرنے والا نہیں ہے اور اگر وہ تم کو کوئی راحت پہنچانا چاہے تو اس کے فضل کا کوئی ہٹانے والا نہیں ( بلکہ) وہ اپنا فضل اپنے بندوں میں سے جس پر چاہیں مبذول فرمائیں اور وہ بڑی مغفرت بڑی رحمت والے ہیں ( اور فضل کے تمام افراد مغفرت اور رحمت میں داخل ہیں اور وہ مغفرت اور رحمت عظیمہ کے ساتھ موصوف ہیں پس لامحالہ صاحب فضل بھی ہیں) ۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنْ كُنْتُمْ فِيْ شَكٍّ مِّنْ دِيْنِيْ فَلَآ اَعْبُدُ الَّذِيْنَ تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ وَلٰكِنْ اَعْبُدُ اللہَ الَّذِيْ يَتَوَفّٰىكُمْ۝ ٠ ۚۖ وَاُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ۝ ١٠٤ ۙ نوس النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] ( ن و س ) الناس ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ شكك الشَّكُّ : اعتدال النّقيضين عند الإنسان وتساويهما، والشَّكُّ : ضرب من الجهل، وهو أخصّ منه، لأنّ الجهل قد يكون عدم العلم بالنّقيضين رأسا، فكلّ شَكٍّ جهل، ولیس کلّ جهل شكّا، قال اللہ تعالی: وَإِنَّهُمْ لَفِي شَكٍّ مِنْهُ مُرِيبٍ [هود/ 110] ( ش ک ک ) الشک کے معنی دونقیضوں کے ذہن میں برابر اور مساوی ہونے کے ہیں ۔ الشک : شک جہالت ہی کی ایک قسم ہے لیکن اس سے اخص ہے کیونکہ جہل میں کبھی سرے سے نقیضیں کا علم ہی نہیں ہوتا ۔ پس ہر شک جھل ہے مگر ہر جہل شک نہیں ہے ۔ قرآن میں ہے : وَإِنَّهُمْ لَفِي شَكٍّ مِنْهُ مُرِيبٍ [هود/ 110] وہ تو اس سے قوی شبہ میں پڑے ہوئے ہیں ۔ دين والدِّينُ يقال للطاعة والجزاء، واستعیر للشریعة، والدِّينُ کالملّة، لكنّه يقال اعتبارا بالطاعة والانقیاد للشریعة، قال إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران/ 19] ( د ی ن ) دين الدین کے معنی طاعت اور جزا کے کے آتے ہیں اور دین ملت کی طرح ہے لیکن شریعت کی طاعت اور فرمانبردار ی کے لحاظ سے اسے دین کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران/ 19] دین تو خدا کے نزدیک اسلام ہے ۔ عبادت العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] . والعِبَادَةُ ضربان : عِبَادَةٌ بالتّسخیر، وهو كما ذکرناه في السّجود . وعِبَادَةٌ بالاختیار، وهي لذوي النّطق، وهي المأمور بها في نحو قوله : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة/ 21] ، وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء/ 36] . ( ع ب د ) العبودیۃ کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ عبادۃ دو قسم پر ہے (1) عبادت بالتسخیر جسے ہم سجود کی بحث میں ذکر کرچکے ہیں (2) عبادت بالاختیار اس کا تعلق صرف ذوی العقول کے ساتھ ہے یعنی ذوی العقول کے علاوہ دوسری مخلوق اس کی مکلف نہیں آیت کریمہ : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة/ 21] اپنے پروردگار کی عبادت کرو ۔ وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء/ 36] اور خدا ہی کی عبادت کرو۔ میں اسی دوسری قسم کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔ دون يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم : هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] ، ( د و ن ) الدون جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔ وفی ( موت) وتَوْفِيَةُ الشیءِ : بذله وَافِياً ، وقد عبّر عن الموت والنوم بالتَّوَفِّي، قال تعالی: اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِها[ الزمر/ 42] ، وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] يا عِيسى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرافِعُكَ إِلَيَ [ آل عمران/ 55] ، وقدقیل : تَوَفِّيَ رفعةٍ واختصاص لا تَوَفِّيَ موتٍ. قال ابن عباس : تَوَفِّي موتٍ ، لأنّه أماته ثمّ أحياه اور توفیتہ الشیئ کے معنی بلا کسی قسم کی کمی پورا پورادینے کے ہیں اور کبھی توفی کے معنی موت اور نیند کے بھی آتے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِها[ الزمر/ 42] خدا لوگوں کی مرنے کے وقت ان کی روحیں قبض کرلیتا ہے ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو رات کو ( سونے کی حالت میں ) تمہاری روح قبض کرلیتا ہے ۔ اور آیت : ۔ يا عِيسى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرافِعُكَ إِلَيَ [ آل عمران/ 55] عیسٰی (علیہ السلام) میں تمہاری دنیا میں رہنے کی مدت پوری کرکے تم کو اپنی طرف اٹھا لوں گا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ توفی بمعنی موت نہیں ہے ۔ بلکہ اس سے مدراج کو بلند کرنا مراد ہے ۔ مگر حضرت ابن عباس رضہ نے توفی کے معنی موت کئے ہیں چناچہ ان کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسٰی (علیہ السلام) کو فوت کر کے پھر زندہ کردیا تھا ۔ أمر الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته :إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود/ 123] ( ا م ر ) الامر ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔ { وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ } ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٠٤) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کفار مکہ سے کہہ دیجیے کہ اگر تمہیں دین اسلام کے بارے میں شک ہے تو میں ان معبودوں کی عبادت نہیں کرتا، جن بتوں کی تم اللہ کی بجائے عبادت کرتے ہو لیکن ہاں اس معبود کی عبادت کرتا ہوں جو تمہاری ارواح کو قبض کرتا ہے اور پھر مرنے کے بعد وہ تمہیں دوبارہ زندہ کرے گا اور مجھے یہ حکم ہوا ہے کہ میں مومن لوگوں کے ساتھ ان کے دین پر ہوں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٠٤ (قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنْ كُنْتُمْ فِيْ شَكٍّ مِّنْ دِيْنِيْ ) اب سورة کے آخر میں فیصلہ کن انداز میں خطاب کیا جا رہا ہے کہ اے لوگو ! یہ جو تم مجھ پر دباؤ ڈال رہے ہو ‘ کہ میں اپنے موقف میں کچھ نرمی پیدا کرلوں یا تمہارے ساتھ کسی حد تک مداہنت (compromise) کا رویہ اختیار کروں ‘ تو اس کا مطلب تو یہ ہے کہ تمہیں میرے دین کے بارے میں ابھی تک شک ہے۔ اگر ایسا ہے تو تم لوگ اپنا یہ شک دور کرلو :

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

106. The theme broached at the beginning of (his discourse is now resumed at the point of its conclusion. (Cf. verses 1-10.) 107. The Qur'anic expression _ literally means 'who causes you to die'. This literal rendering, however, does not convey the spirit of the statement made here. For what is being said amounts to the following: God is the One Who has the power over your lives and Who enjoys such absolute control over you that as long as He wishes you to remain alive, you live, and no sooner than He signals you to surrender your lives to Him, you do so. It is Him alone that I worship, and it is to His service and obedience that I am bound. In this context, it should be borne in mind that the Makkan polytheists believed, as do the present-day polytheists, that only God, the Lord of the universe, has the absolute power to cause death, a power that no one else shares with Him. They also believed that even those whom they associated with God in His attributes and authority were all too helpless to avert their own death. It is to be noted that of the numerous divine attributes, this particular attribute of God - viz. that He alone has the power to cause death - is mentioned here alongside the doctrine that men ought to give themselves in total devotion and service to God alone. The reason for it seems to be that in addition to being the statement of an important fact, it also provides a rationale for exclusively serving and worshipping God. In other words, the statement of the Prophet here amounts to saying that he is exclusively devoted to the service of God since the latter alone has all power over life and death. Conversely, why should anyone devote himself to worshipping others who, let alone having power over the life and death of others, do not have power even over their own life and death? The rhetorical force of the verse is also significant, for instead of saying that 'He has power over my death', the verse says: 'He has power over your death'. Thus one simple sentence pithily embraces three things - the thesis, its supporting argument, and the exhortation to accept that thesis. Had it been said that: T only serve Allah Who has power over my death', its logical implication would have been that in view of the fact that He had control over the Prophet's life and death, the latter should have served only Allah. However, it has been said that: 'I only serve Allah Who has power over your death', in this form, the implication of the verse is that not only the Prophet but also others should serve only God and this even though they had succumbed to the error of serving others than God.

سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :106 جس مضمون سے تقریر کی ابتدا کی گئی تھی اسی پر اب تقریر کو ختم کیا جا رہا ہے ۔ تقابل کے لیے پہلے رکوع کے مضمون پر پھر ایک نظر ڈال لی جائے ۔ سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :107 متن میں لفظ يَتَوَفّٰىكُمْ ہے جس کا لفظی ترجمہ ہے جو تمہیں موت دیتا ہے ۔ لیکن اس لفظی ترجمے سے اصل روح ظاہر نہیں ہوتی ۔ اس ارشاد کی روح یہ ہے کہ وہ جس کے قبضے میں تمہاری جان ہے ، جو تم پر ایسا مکمل حاکمانہ اقتدار رکھتا ہے کہ جب تک اس کی مرضی ہو اسی وقت تک تم جی سکتے ہو اور جس وقت اس کا اشارہ ہو جائے اسی آن تمہیں اپنی جان اس جان آفرین کے حوالے کر دینی پڑتی ہے ، میں صرف اسی کی پرستش اور اسی کی بندگی و غلامی اور اسی کی اطاعت و فرمانبرداری کا قائل ہوں ۔ یہاں اتنا اور سمجھ لینا چاہیے کہ مشرکین مکہ یہ مانتے تھے اور آج بھی ہر قسم کے مشرک یہ تسلیم کرتے ہیں کہ موت صرف اللہ رب العالمین کے اختیار میں ہے ، اس پر کسی دوسرے کا قابو نہیں ہے ۔ حتی کہ جن بزرگوں کو یہ مشرکین خدائی صفات و اختیارات میں شریک ٹھیراتے ہیں ان کے متعلق بھی وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ان میں سے کوئی خود اپنی موت کا وقت نہیں ٹال سکا ہے ۔ پس بیان مدعا کے لیے اللہ تعالی کی بے شمار صفات میں سے کسی دوسری صفت کا ذکر کرنے کے بجائے یہ خاص صفت کہ وہ جو تمہیں موت دیتا ہے ، یہاں اس لیے انتخاب کی گئی ہے کہ اپنا مسلک بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے صحیح ہونے کی دلیل بھی دے دی جائے ۔ یعنی سب کو چھوڑ کر میں اس کی بندگی اس لیے کرتا ہوں کہ زندگی و موت پر تنہا اسی کا اقتدار ہے ۔ اور اس کے سوا دوسروں کی بندگی آخر کیوں کروں جب کہ وہ خود اپنی زندگی و موت پر بھی اقتدار نہیں رکھتے کجا کہ کسی اور کی زندگی و موت کے مختار ہوں ۔ پھر کمال بلاغت یہ ہے کہ وہ مجھے موت دینے والا ہے کہنے کے بجائے وہ جو تمہیں موت دیتا ہے ۔ فرمایا ۔ اس طرح ایک ہی لفظ میں بیان مدعا ، دلیل مدعا ، اور دعوت الی المدعی ، تینوں فائدے جمع کر دیے گئے ہیں ۔ اگر یہ فرمایا جاتا کہ میں اس کی بندگی کرتا ہوں جو مجھے موت دینے والا ہے تو اس سے صرف یہی معنی نکلتے کہ مجھے اس کی بندگی کرنی ہی چاہیے ۔ اور تم یہ غلطی کر رہے ہو کہ اس کے سوا دوسروں کی بندگی کیے جاتے ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٠٤۔ ١٠٥۔ ان آیتوں میں یہ حکم ہے کہ اے رسول تم اپنے دین اور ان مشرکوں کے دین میں فرق بتلا دو کہ جو دین میں لے کر آیا ہوں اگر تم اس کو صحیح نہیں جانتے اور اس میں شک کرتے ہو تو سن لو کہ تم خدا کے سوا جن کی عبادت کرتے ہو ہم ان کی ہرگز عبادت نہیں کریں گے ہم تو اس خدا کی عبادت کرتے ہیں جو بالکل اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے اسی کے قبضہ میں تمہاری جان ہے اس نے پیدا کیا ہے اور وہی تمہیں موت کا بھی مزا چکھائے گا اور پھر یہ بات اچھی طرح سمجھ لو کہ تمہاری جان پر جس کا پورا پورا اختیار ہے وہ آسانی سے تم پر عذاب کرسکتا ہے اور یہ تمہارے معبود جن کی تم عبادت کرتے ہو یہ کسی کو کوئی نفع اور نقصان نہیں پہنچا سکتے اور مجھے اللہ نے یہ حکم دیا ہے کہ میں ہمیشہ خالص اللہ کی عبادت کروں اور مشرکوں کے زمرہ سے الگ رہوں صحیح بخاری وغیرہ کے حوالہ سے عبد اللہ بن مسعود کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جب مشرکین مکہ نے بہت سرکشی اختیار کی تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان لوگوں کے حق میں یہ بددعا کی کہ ان پر ایسا قحط پڑے جیسا قحط یوسف (علیہ السلام) کے زمانہ میں پڑا تھا۔ ١ ؎ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بددعا سے مکہ میں اس طرح کا قحط پڑا کہ لوگ ہڈیاں مردار جانوروں کی کھال اور مردار جانور کھا کر زندگی بسر کرتے تھے اس قحط کے زمانہ میں ان مشرکوں نے اپنے بتوں سے مینہ کے برسنے کی بہت کچھ التجا کی مگر کچھ نہ ہوا آخر ابو سفیان نے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے التجا کی اور آپ کی دعا سے اللہ تعالیٰ نے مینہ برسایا اس حدیث کو آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ایسے بڑے بڑے معجزے دیکھنے کے بعد اسلام کے حق ہونے میں مشرکین مکہ کی ایک شک کی حالت تھی اس پر فرمایا اے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہ تم ان لوگوں سے کہہ دو کہ مثلاً قحط کے وقت کے تجربہ کے بعد تم لوگوں کو بت پرستی کے حق ہونے میں یہ شک کرنا چاہیے کہ بتوں سے جب ایک قحط کی تکلیف بھی رفع نہ ہوسکی تو پھر وہ اور کیا کرسکتے ہیں رہا اسلام اس کا حال تو تم کو معلوم ہوچکا کہ اس قحط کے وقت مذہب اسلام کو رسول نے تمہیں کیا فائدہ پہنچایا اس فہمائش کے بعد یہ یہ لوگ نہ مانیں تو اپنی توحید کا اور شرک سے بیزاری کا حال ان کو بتلا دو تاکہ قحط کے وقت کی مدد کی طرح آئندہ ان کو تم سے پھر کسی مدد کی توقع نہ رہے حنیف کے معنے شرک سے بیزار۔ ١ ؎ صحیح بخ اری ص ٢٥٥ ج ٢ باب لیس ملک من الامر شیئا عن ابی ہریرۃ موصولاو ص ٩٤٦ ج ٢ باب الدعاء علے المشرکین ابن مسعود قطیعاً ۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(10:104) یتوفکم۔ مضارع واحد مذکر غائب توفی (تفعل) مصدر۔ (جو ) تمہاری جانیں لے لیتا ہے۔ تمہیں موت دیتا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات ١٠٤ تا ١٠٩ اسرار و معارف آپ عالم انسانیت کو مطلع فرمادیجئے کہ اے لوگو ! اگر تمہیں میرے دین میں کوئی شک ہو تو غور سے سنو کہ اللہ کے علاوہ تم جس قدر معبود مقررکررکھے ہیں میرے دین میں ان کی کوئی حیثیت نہیں اور میں انھیں پرکاہ وقعت نہیں دیتانہ میں ان کی اطاعت کرتا ہوں میراسرنیاز صرف اور صرف اس ذات واحد کے سامنے جھکتا ہے جو تمہارا بھی رب ہے جو تمہیں موت دیتا ہے اور تم بھی اسی کے دربار کی طرف کھنچے چلے جاتے ہو تمہارے مفروضہ معبود تمہیں ہرگز نہیں بچاسکتے اور اسی نے مجھے ایسا ایمان رکھنے کا حکم دیا میرادین میرے رب کا ارشاد کردہ ہے عقل انسانی کی ایجاد نہیں جیسے تمہارے مذاہب ہیں ۔ اس نے اپنے ماننے والوں کو فرمادیا ہے کہ بالکل سیدھے سیدھے چلیں اور اس کی ذات کے ساتھ رائی برابر بھی ٹیڑھاپن نہ رکھیں کہ اسے بھی مانیں اور کسی اور کو بھی کسی بھی امر میں اس کا ہم پلہ جانیں ہرگز ایسے مشرکانہ عقیدہ کے قریب نہ جائیں ۔ یہ بھی فرمادیا ہے کہ اس کی ذات واحد کے علاوہ کسی کونہ پکار جائے بطور مددگار ومعاون کہ سوائے اس کے کوئی بھی دوسرانہ نفع پہنچاسکتا ہے اور نہ ہی کچھ بگاڑ سکتا ہے ۔ اگر کسی نے اللہ کے علاوہ کسی دوسرے سے یہ امیدرکھی یا اس کے خوف سے اس کی اطاعت اللہ کے مقابلہ میں اختیار کی تو اس نے بہت بڑاظلم کیا۔ اس لئے کہ اے مخاطب ! اگر اس کا عذاب تجھے پکڑلے تو کوئی چھڑا نہیں سکتا جب تک وہ خود اس سے نجات نہ دے اور اگر وہ انعام کرنا چا ہے تو کوئی بھی نہیں جو روک سکے اور نہ کوئی اسے کسی کو دینے پہ مجبور کرسکتا ہے کہ وہ اپنی پسند سے اپنے بندوں کو انعامات عطافرماتا ہے وہ بہت بڑامہربان اور بخشنے والا ہے۔ مراقبات ومقامات یہی حال تصوف میں مراقبات ومقامات کا ہے کہ شیخ تو شاید کسی کی ظاہری باتوں سے زیادہ متاثر ہو مگر اللہ ترقی اسے دیتا ہے جس کے دل میں زیادہ خلوص ہو۔ حضرت فرمایا کرتے تھے کہ بعض لوگوں کے لئے میں کوشش کرتا ہوں مگر انھیں وہ مقامات حاصل نہیں ہوتے جبکہ بعض کو بغیر میری خاص توجہ کے نصیب ہوجاتے ہیں ۔ اس لئے کہ یہ اللہ کی جانب سے تقسیم ہوتے ہیں۔ لہٰذافرمادیجئے کہ لوگو ! تمہارے رب کی شان ربوبیت کا تقاضا تھا لہٰذا اس نے حق تمھاپ اس پہنچادیا۔ اب اگر کوئی حق کو قبول کرتا ہے تو یقینا اپنے ذاتی نفع کے لئے کرتا ہے اور جو کوئی گمراہی اختیار کرتا ہے اس کا وبال بھی اس کی ذات پہ ہوگا میرامنصب رسالت ہے اللہ کا حکم پہنچانا ہے میں تم پر داروغہ مقرر نہیں کیا گیا کہ تمہیں زبردستی ہانک کر اسلام میں داخل کروں ۔ اور اے حبیب ! جو اللہ کا ارشاد بذریعہ وحی آتا ہے وہی آپ کالائحئہ عمل ہے اگر اس راہ میں مشکلات و تکالیف بھی ہوں تو صبر کے ساتھ جمارہناہی ضروری ہے تا وقتیکم اللہ کا حکم آجائے ۔ یعنی حق و باطل میں فرق ظاہر ہوجائے یا زندگی اس راہ میں صرف ہوجائے کہ اللہ ہی بہترفیصلہ کرنے والے ہیں ۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 104 تا 107 لا اعبد (میں عبادت نہ کروں گا) یتوفی (وہ موت دیتا ہے) امرث (مجھے حکم دیا گیا ہے ) ان اکون (یہ کہ میں ہوجاؤں) اقم (قائم کیجیے) وجھک (اپنا چہرہ) حنیف (یکسو، سب سے کٹ کر محض اللہ کی عبادت کرنے والا) لاتدع (تونہ پکار) ان یمسک (اگر تجھے پہنچائے) بضر (کوئی نقصان (کاشف کھولنے والا) یردک (تجھے چاہے) بخیر (بھلائی) راد (لوٹانے والا ، ٹالنے والا) یصیب (وہ پہنچاتا ہے) تشریح : آیت نمبر 104 تا 107 اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے کہ اس نے انسانوں کو اتنی نعمتوں سے نوازا ہے کہ اگر وہ ان کو گننا چاہے تو شمار نہیں کرسکتا۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو جسم اور رو ح کی تسکین کے لئے جو نعمتیں عطا فرمائی ہیں ان کا ذکر سورة رحمٰن میں بڑی تفصیل سے کیا گیا ہے جنات اور انسانوں کو خطاب کرتے ہوئے اکتیس مرتبہ اس جملے کو دھرایا گیا ہے کہ تم اے جن و انس اس کی کس کس نعمت کا انکار کرو گے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو سب سے بڑی نعمت قرآن کریم اور پھر حسن بیان عطا فرمایا ہے۔ قرآن کریم میں جگہ جگہ اس بات کو وضاحت سے بیان کیا گیا ہے کہ زمین و آسمان ، چاند ، سورج، ستارے اونچے اونچے پہاڑ، خوبصورت دریا اور ان کے سنگم درخت ان کے پھل ، سمندروں کے موتی یہ سب کچھ جنات اور انسانوں کے لئے پیدا کئے گئے ہیں۔ زمین و آسمان، چاند، سورج اور ستارے اللہ کے حکم سے چل رہے ہیں۔ دنیا کی گھڑیاں غلط ہو سکتی ہیں لیکن اللہ نے چاند، سورج اور ستاروں کی جو رفتار مقرر کردی ہے اس میں ایک لمحہ کا بھی فرق نہیں پیدا ہوتا۔ یہ تمام چیزیں اپنے وجود میں سا قدر بےبس اور مجبور ہیں کہ یہ کسی کا نہ کچھ بگاڑ سکتی ہیں اور نفع پہنچا سکتی ہیں۔ انسان کی کتنی بڑی بھلو ہے کہ وہ ان بےبس اور عاجز مخلوقات کو اپنا معبود بنا کر ان سے توقع رکھتا ہے پتھروں کے بےجان بت جو اپنے وجود میں بھی انسانی ہاتھوں کے محتاج ہیں وہ کسی کو کیا دے سکتے ہیں اور کیا چھین سکتے ہیں۔ اگر کوئی شخص حضرت ابراہیم کی طرح بت خانہ میں گھس کر سارے بتوں کو توڑ پھوڑ کر رکھ دے تو وہ اپنے وجود کو بچا نہیں سکتے۔ ان کو معبود بنانا درحقیقت شرف انسانیت کی سب سے بڑی توہین ہے اور ایک جاہلانہ فعل ہے لیکن جو اپنے خیالات کے پوجنے والے ہوتے ہیں ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ساری دنیا ان کی طرح بےجان بتوں کو اپنا حاجت روا بنا لے۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے صاف اعلان کروا یا ہے کہ ” اے لوگو اگر تمہیں اس دین میں شک و شبہ ہے جو میں لے کر آیا ہوں تو یہ تمہارا اپنا فعل اور خیال ہے مجھ سے یا میرے ماننے والوں سے تم کبھی اس بات کو توقع مت کرنا کہ ہم ان کی عبادت و بندگی کریں گے جن کی کوئی حقیقت اور حیثیت نہیں ہے۔ کیونکہ مجھے تو میرے اس اللہ نے جس کے ہاتھ میں زندگی اور موت کا اختیار ہے یہ حکم دیا ہے کہ میں اللہ کے ان بندوں میں رہوں جو ایک اللہ پر یقین رکھتے ہیں۔ مجھے اللہ نے یہحکم دے رکھا ہے کہ میں اپنی ذات کو ہمیشہ اس دین حنیف کی طرف جھکائے رکھوں جو اللہ نے عطا فرمایا ہے اور کبھی شرک کے قریب بھی نہ جاؤں ۔ کیونکہ وہ جن کے ہاتھ میں میں نہ کسی کو نفع پہنچانے کا اختیار ہے اور نہ وہ کسی کو نقصان پہنچانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ اگر کوئی مصیبت آجائے تو وہ اس کو دور کرنے سے عاجز ہیں ان کے سامنے جھکنے اور ان کی عبادت و بندگی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اللہ تو وہ صاحب اختیار ہستی ہے کہ اگر کسی کو بھلائی عطا فرمانا چاہے تو کوئی بھی اتنی طاقت و قوت نہیں رکھتا کہ اس کو اس بھلائی کے دینے سے روک دے۔ وہ بہت زیادہ مغفرت کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے اور اپنی قدرت سے جو کچھ کرنا چاہے وہ کرتا ہے۔ وہ کسی کے سامنے بےبس اور مجبور نہیں ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ پس اسی طرح اگر ان کفار پر کوئی افتاد پڑی تو مسلمان اس سے محفوظ رہیں گے خواہ دنیا میں خواہ آخرت میں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : ( آپ کھل کر اعلان کردیں کہ) ” اللہ “ کی مدد انبیاء (علیہ السلام) اور مومنوں کے ساتھ ہوتی ہے۔ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھیوں کو نصرت و حمایت کی خوشخبری دینے کے بعد حکم ہوا۔ کہ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ سرعام اعلان فرمائیں کہ اے لوگو ! اگر تمہیں میرے دین کے بارے میں شک ہے اور تم کسی طرح بھی مطمئن ہونے کے لیے تیار نہیں ہو۔ تو یاد رکھو میں اللہ کے سوا تمہارے معبودان باطل کی عبادت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ میں صرف اسی ایک اللہ کی عبادت کرتارہوں گا۔ جو تمہیں اور سب کو فوت کرنے والا ہے۔ کیونکہ میں ماننے والوں میں ہوں اس لیے مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اپنے آپ کو کلی طور پر اس دین کے تابع کروں جو ہر اعتبار سے کامل، اکمل اور ہر قسم کی کمی کمزوری سے مبرا ہے۔ میرا مشرکوں کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں۔ یہاں دین سے مراد توحید خالص اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا ہے۔ مشرکین مکہ نے جب نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگالیا۔ اور وہ ہر اعتبار سے ناکام اور نامراد ٹھہرے تو انہوں نے اپنے رویے میں تبدیلی لاتے ہوئے یہ مطالبہ کیا کہ اے محمد ! کچھ آپ نرم ہوجائیں اور کچھ ہم اپنا موقف چھوڑنے کے لیے تیار ہیں تاکہ ہماری کشمکش ختم ہوجائے۔ ( القلم : ٩) اس کے جواب میں یہ فرمان نازل ہوا کہ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ مشرکین کی پرواہ کیے بغیر صرف ایک اللہ کی عبادت کرتے ہوئے اس کی توحید کی دعوت دیتے رہیں۔ چنانچہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دشمنوں کی دشمنی اور مخالفوں کی مخالفت کی پرواہ کیے بغیر زندگی بھر اس کام کو جاری رکھا تاآنکہ اللہ تعالیٰ نے وہ وقت دکھایا کہ جب آپ اپنی زندگی کا آخری حج ادا کررہے تھے۔ تو ایک لاکھ سے زائد کے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا : ” حضرت واقد بن محمد کہتے ہیں میں نے اپنے باپ سے سنا وہ کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجۃ الوداع کے موقعہ پر فرمایا کیا تم جانتے ہو حرمت کے لحاظ سے عظیم مہینہ کون سا ہے۔ صحابہ نے کہا یہ مہینہ۔ آپ نے فرمایا کیا تم جانتے ہو حرمت کے لحاظ سے عظیم شہر کون سا ہے صحابہ نے عرض کیا ہمارا شہر۔ آپ نے فرمایا کیا تم جانتے ہو حرمت کے لحاظ سے عظیم دن کون سا ہے صحابہ نے عرض کیا آج کا دن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تبارک و تعالیٰ نے تمہارے خون، تمہارے مال اور تمہاری عزت کو حرام قرار دیا ہے مگر حق کے ساتھ جس طرح کہ اس دن کی حرمت ہے تمہارے اس شہر اور مہینے کی کیا میں نے پیغام پہنچا دیا، آپ نے تین بار یہ کلمات دھرائے اور تمام نے کہا کیوں نہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا افسوس ہو تم پر یا ویل ہو میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹتے پھرو۔ “ (رواہ البخاری : کتاب الحدود، باب ظھر المو من حمی الا فی حداو حق) مسائل ١۔ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی ہی عبادت کرنی چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی کی موت پر اختیار رکھتا ہے۔ ٣۔ اپنے آپ کو دین کے لیے خالص کرلینا چاہیے۔ ٤۔ مشرکین کا ساتھی نہیں بننا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن صرف ایک اللہ کی ہی عبادت کرنی چاہیے : ١۔ آپ کو حکم ہے کہ آپ فرما دیں کہ میں تو صرف ایک اللہ کی عبادت کرتا ہوں۔ (یونس : ١٠٤) ٢۔ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ۔ (الرعد : ٣٦) ٣۔ اللہ کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرو۔ (ہود : ٢) ٤۔ اے لوگو اپنے پروردگار کی عبادت کرو۔ (البقرۃ : ٢١) ٥۔ اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ (یوسف : ٤٠) ٦۔ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے شریک نہ بناؤ (النساء : ٣٦) ٧۔ نوح، ہود، صالح، اور شعیب نے اپنی قوم کو ایک اللہ کی عبادت کا حکم دیا۔ (ہود : ٥٠۔ ٦١۔ ٨٤) ٨۔ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ (بنی اسرائیل : ٢٣)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قل یایھا الناس ان کنتم فی شک من دینی آپ کہہ دیجئے : اے لوگو ! (یعنی اے اہل مکہ) اگر تم میرے دین (کی صحت) میں شک کرتے ہو۔ اہل مکہ کی نظر میں نبوت بہت ہی بعید از فہم چیز تھی لیکن آیات کو دیکھ کر ماننے پر مجبور تھے مگر پیدائشی بدبختی کی وجہ سے شک و تردد میں پڑے ہوئے تھے (گویا آیات کو دیکھ کر ماننے پر مجبور تھے اور فطری شقاوت ان کے دلوں میں اطمینان پیدا نہیں ہونے دیتی تھی) ۔ فلا اعبد الذین تعبدون من دون اللہ پس میں ان (پتھروں کے بتوں) کی پوجا نہیں کرتاجن کی پوجا تم لوگ اللہ کے سوا کرتے ہو۔ ولکن اعبد اللہ الذی یتوفٰکم بلکہ اس اللہ کی پوجا کرتا ہوں جو تمہاری جانیں قبض کرتا ہے۔ یعنی جو تم کو زندگی عطا کرتا ہے ‘ پھر موت دیتا ہے اور جو کچھ چاہتا ہے اور جس طرح چاہتا ہے ‘ پیدا کرتا ہے (اگرچہ تخلیق موت وحیات دونوں مراد ہیں لیکن) صرف وفات کا ذکر تہدید پیدا کرنے کیلئے فرمایا : فَلاَ اَعْبُدُ ۔ اِنْ کُنْتُمْ کی جزاء نہیں ہے بلکہ جزاء کے قائم مقام ہے۔ سبب کو مسبب کی جگہ قائم کیا ہے۔ کلام کا مغز یہ ہے کہ اگر تم کو میرے دین کی صحت میں شک ہے تو میرے دین پر غور و فکر کر کے اس شک کو دور کر دو ۔ دیکھو ! میں ان پتھروں کو نہیں پوجتا جن کے قبضہ میں نہ نفع ہے نہ ضرر بلکہ اس خدا کو پوجتا ہوں جو خالق ‘ قدرت والا اور نفع و ضرر کا مختار ہے۔ وامرت ان اکون من المؤمنین۔ اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ ایمان والوں میں سے ہوں (ایماندار رہوں) یعنی عقلی دلائل اور آسمانی کتابوں کا حکم ہے کہ میں ایماندار بنوں اور مؤمن رہوں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ تعالیٰ ہی لائق عبادت ہے وہی خیر اور ضرر کا مالک ہے اس کے فضل کو کوئی رد نہیں کرسکتا ان آیات میں اول تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ آپ تمام انسانوں کو مخاطب کر کے فرما دیں کہ تمہیں میرے دین کے بارے میں کوئی شک ہے تو یہ تمہاری جہالت اور گمراہی ہے ‘ حق میں شک کرتے ہو اور شرک سے چپکے ہوئے ہو ‘ تمہارے اس شک کا مجھ پر کوئی اثر کبھی بھی ہونے والا نہیں ہے۔ اللہ کو چھوڑ کر تم جن کی عبادت کرتے ہو میں کبھی بھی ان کی عبادت نہیں کرسکتا۔ اگر تم اس بھول میں ہو کہ میں کبھی العیاذ باللہ تمہارا دین قبول کرلوں گا تو یہ تمہاری گمراہی اور خام خیالی ہے ‘ میں تو اس ذات پاک کی عبادت کرتا ہوں اور کرتا رہوں گا جو تمہیں موت دیتا ہے۔ تم اپنی جان کو عذاب سے بچانے کے لئے فکر کرو اگر تم نے دین توحید کو قبول نہ کیا اور دین شرک اور کفر پر تمہاری موت آگئی تو تمہارا موت کے بعد کیا بنے گا ؟ اس پر غور کرلو اور اس بارے میں بھی غور کرلو کہ خالق اور مالک کی عبادت چھوڑ کر مخلوق کو معبود بنانا بےسمجھی اور ناعقلی کی بات ہے۔ (یَتَوَفّٰکُمْ ) فرمایا اور یَتَوَ فَّانِیْ نہیں فرمایا کیونکہ جو لوگ مخاطب تھے انہیں احساس دلانا تھا کہ تمہیں ہمیشہ زندہ رہنا نہیں ہے مرنا بھی ہے۔ ان کو بتانا یہ مقصود تھا کہ تم مرو گے اور موت کے بعد زندہ کئے جاؤ گے اور کفر کی سزا پاؤ گے۔ اس کے بعد فرمایا (وَاُمِرْتُ اَنْ اَکُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ ) یعنی مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم کیا گیا ہے کہ میں اللہ کے ان بندوں میں شامل رہوں جو اہل ایمان ہیں۔ لہٰذا میں ایمان کو کبھی نہیں چھوڑ سکتا۔ تم کفر کو چھوڑ دو ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

113: یہ دعوائے سورت کا علی سبیل التفصیل بیان ہے۔ کہ جب سب کچھ کرنے والا، اور ساری کائنات کا مالک و مختار اللہ تعالیٰ ہی ہے اور وہی ہر بات سنتا اور ہر چیز کو جانتا ہے اور اس کے سامنے کوئی شفیع غالب نہیں تو پھر حاجات و مشکلات میں مافوق الاسباب غائبانہ صرف اسی کو پکارو اور کسی کو نہ پکارو۔ “ فَلَا اَعْبُدُ الخ ” معبودانِ باطلہ کے استحقاق عبادت اور ان کی الوہیت کی نفی ہے۔ یعنی کلمہ توحید کے جزء اول “ لَا اِلٰهَ ” کا مضمون اس میں بیان کیا گیا ہے۔ “ وَ لٰکِنْ اَعْبُدُ الخ ” یہ “ اِلَّا اللّٰهُ ” کا مضمون ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی الوہیت کا اثبات۔ جب تک تمام معبودانِ باطلہ کی نفی اور ایک اللہ کی الوہیت کا اثبات نہ کیا جائے اس وقت تک توحید کامل نہیں ہوسکتی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

104 آپ اے پیغمبر ان سے کہہ دیجئے کہ اگر تم میرے دین کی طرف سے کچھ شک و سبہ میں ہو تو سن لو ! میرا دین یہ ہے کہ میں ان معبودوں میں سے کسی کی بھی عبادت نہیں کرتا جن کی تم خدا کے سوا بندگی کرتے ہو اور خدا کو چھوڑ کر جن کی تم عبادت کرتے ہو بلکہ میں تو اس اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہوں جو تمہاری جانوں کو مرتے وقت کھینچ لیتا ہے اور قبض کرتا ہے اور مجھ کو منجانب اللہ پر حکم دیا گیا ہے کہ میں اس پر ایمان لانے والوں میں سے ہوں یعنی ان کے سامنے اپنے دین کی تفصیل بیان کردو تاکہ آپ کی طرف سے کوئی شبہ باقی نہ رہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کھینچ لیتا ہے یعنی موت دیتا ہے یہ صفت سب لوگ اللہ کی سمجھتے ہیں اس واسطے یہ بتادیا 12