Surat Younus

Surah: 10

Verse: 105

سورة يونس

وَ اَنۡ اَقِمۡ وَجۡہَکَ لِلدِّیۡنِ حَنِیۡفًا ۚ وَ لَا تَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ ﴿۱۰۵﴾

And [commanded], 'Direct your face toward the religion, inclining to truth, and never be of those who associate others with Allah ;

اور یہ کہ اپنا رخ یکسو ہو کر ( اس ) دین کی طرف کر لینا اور کبھی مشرکوں میں سے نہ ہونا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَأَنْ أَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا ... And that you direct your face towards the Hanif religion, This means to make one's intention in worship solely for Allah alone, being a Hanif. Hanif means one who turns away from associating partners with Allah. For this reason Allah says, وَلاَ تَكُونَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِينَ and not be one of the idolators. This statement is directly connected with the previous statement, وَأُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْمُوْمِنِينَ (And I was commanded to be one of the believers).

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

105۔ 1 حَنِیْف کے معنی ہیں۔ یک سو، یعنی ہر دین کو چھوڑ کر صرف دین اسلام کو اپنانا اور ہر طرف سے منہ موڑ کر صرف ایک اللہ کی طرف یکسوئی سے متوجہ ہونا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١٣] ہدایت کے حصول کے لئے تین ہدایات :۔ اس آیت اور اس سے اگلی دو آیات میں بھی خطاب بظاہر رسول اللہ کو ہے جبکہ یہ ارشادات عام لوگوں اور بالخصوص مسلمانوں کے لیے ہیں اس لیے کہ نبی کی دعوت کا تو آغاز ہی شرک کی تردید سے ہوتا ہے اور اس کی نبوت سے پہلے کی زندگی بھی شرک سے مبرا ہوتی ہے اور قرآن کریم میں یہ انداز تاکید مزید کے لیے اختیار کیا گیا ہے اور ارشاد یہ ہو رہا ہے کہ دین اسلام کا جو راستہ اللہ تعالیٰ نے بتلایا اور دکھلایا ہے بالکل ناک کی سیدھ اسی پر چلتے جائیے دائیں بائیں یا آگے پیچھے مڑ کر دیکھنے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ اللہ کی سیدھی راہ کے علاوہ ادھر ادھر جتنے راستے ہیں سب شیطانی راہیں ہیں۔ دوسری ہدایت یہ ہے کہ اس راہ پر ہر قسم کے قبائلی تعصبات جاہلانہ اور مشرکانہ رسم و رواج، مذہبی تعصبات اور خارجی یا سابقہ نظریات کو بالکل چھوڑ چھاڑ کر اور یکسو ہو کر چلنا ہوگا اور تیسری ہدایت یہ ہے کہ بالخصوص مشرکانہ عقائد اور رسم و رواج، ان کے عادات و خصائل اور کردار سب سے پاک صاف رہ کر اللہ کی راہ کو اختیار کرنا ہوگا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاَنْ اَقِمْ وَجْهَكَ للدِّيْنِ حَنِيْفًا۔۔ : ” حَنِیْفاً “ ” یکسو، ایک طرف ہوجانے والا “ یعنی تمام باطل معبودوں کو چھوڑ کر ایک اللہ ہی کا ہوجانے والا۔ حنیف بن کر مشرکین میں سے ہرگز نہ ہونے کی تاکید کا مطلب یہ ہے کہ عرب کے مشرک دین ابراہیم کے پیروکار ہونے کا دعویٰ رکھنے کی وجہ سے اپنے آپ کو حنیف کہتے، پھر شرک بھی کیے جاتے، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا، حنیف بن مگر مشرکین میں سے ہرگز نہ ہو اور ایک معنی یہ ہے کہ کسی طرح بھی مشرکین کے ساتھ شامل نہ ہو، نہ شرک جلی میں اور نہ شرک خفی میں۔ ریا کو شرک خفی کہا جاتا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاَنْ اَقِمْ وَجْہَكَ لِلدِّيْنِ حَنِيْفًا۝ ٠ ۚ وَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ۝ ١٠٥ اقامت والْإِقَامَةُ في المکان : الثبات . وإِقَامَةُ الشیء : توفية حقّه، وقال : قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة/ 68] أي : توفّون حقوقهما بالعلم والعمل، وکذلک قوله : وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة/ 66] ولم يأمر تعالیٰ بالصلاة حيثما أمر، ولا مدح بها حيثما مدح إلّا بلفظ الإقامة، تنبيها أنّ المقصود منها توفية شرائطها لا الإتيان بهيئاتها، نحو : أَقِيمُوا الصَّلاةَ [ البقرة/ 43] الاقامتہ ( افعال ) فی المکان کے معنی کسی جگہ پر ٹھہرنے اور قیام کرنے کے ہیں اوراقامتہ الشیی ( کسی چیز کی اقامت ) کے معنی اس کا پورا پورا حق ادا کرنے کے ہوتے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة/ 68] کہو کہ اے اہل کتاب جب تک تم توراۃ اور انجیل ۔۔۔۔۔ کو قائم نہ رکھو گے کچھ بھی راہ پر نہیں ہوسکتے یعنی جب تک کہ علم وعمل سے ان کے پورے حقوق ادا نہ کرو ۔ اسی طرح فرمایا : ۔ وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة/ 66] اور اگر وہ توراۃ اور انجیل کو ۔۔۔۔۔ قائم کہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک میں جہاں کہیں نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے یا نماز یوں کی تعریف کی گئی ہے ۔ وہاں اقامتہ کا صیغۃ استعمال کیا گیا ہے ۔ جس میں اس بات پر تنبیہ کرنا ہے کہ نماز سے مقصود محض اس کی ظاہری ہیبت کا ادا کرنا ہی نہیں ہے بلکہ اسے جملہ شرائط کے ساتھ ادا کرنا ہے وجه أصل الوجه الجارحة . قال تعالی: فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة/ 6] ( و ج ہ ) الوجہ کے اصل معیج چہرہ کے ہیں ۔ جمع وجوہ جیسے فرمایا : ۔ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة/ 6] تو اپنے منہ اور ہاتھ دھو لیا کرو ۔ حنف الحَنَفُ : هو ميل عن الضّلال إلى الاستقامة، والجنف : ميل عن الاستقامة إلى الضّلال، والحَنِيف هو المائل إلى ذلك، قال عزّ وجلّ : قانِتاً لِلَّهِ حَنِيفاً [ النحل/ 120] ( ح ن ف ) الحنف کے معنی گمراہی سے استقامت کی طرف مائل ہونے کے ہیں ۔ اس کے بالمقابل حنف ہے جس کے معنی ہیں استقامت سے گمراہی کی طرف مائل ہونا ۔ الحنیف ( بروزن فعیل) جو باطل کو چھوڑ کر استقامت پر آجائے قرآن میں ہے :۔ قانِتاً لِلَّهِ حَنِيفاً [ النحل/ 120] اور خدا کے فرمانبردار تھے جو ایک کے ہور ہے تھے ۔ شرك وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان : أحدهما : الشِّرْكُ العظیم، وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] ، والثاني : الشِّرْكُ الصّغير، وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] ، ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ دین میں شریک دو قسم پر ہے ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ دوم شرک صغیر کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٠٥) اور مجھے اس چیز کا حکم ہوا ہے کہ مسلمان ہونے کی حالت میں اپنے دین اور ملت کو خالص اللہ تعالیٰ ہی کے لیے کروں اور یہ حکم صادر ہوا ہے کہ کبھی مشرکین کے ساتھ انکے دین کو اختیار نہ کروں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٠٥ (وَاَنْ اَقِمْ وَجْہَکَ للدِّیْنِ حَنِیْفًا) پورے حنیف یعنی یکسو ہو کر دین کی طرف متوجہ ہوں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

108. The emphatic form in which people have been urged to adhere to true faith is noteworthy. Here people are not simply being asked to 'embrace the faith', or to 'follow the faith', or to 'become adherents of the faith'. Apparently such expressions were too weak and feeble to convey the idea of a total, firm, and steady adherence to faith as required of man. The actual words of the verse, suggest that one should focus one's attention on the true faith, that one ought not to waver and let one's attention wander, that one ought to refrain from, occasionally moving a step forward and another step backward, or turning alternately left and right. What one is rather required to do is to keep moving straight ahead on the path to which one has been directed. This is clear and forceful enough in itself. However, the Qur'an does not stop at that. It adds the condition that the attention should be , that is, one characterized by exclusive and sincere devotion. What is thus being demanded is that one should adhere to this religion, this way of serving God, this way of life comprising worship, service, servitude, and obedience and in such a way that man's devotion and service to God are total. Once the true faith has been adopted, there should remain no trace of any liking for the false ways which have been forsaken. 109. The Prophet (peace be on him) is asked not to be one of those who associate others with God in His being, His attributes, His claims against His creatures, and His authority over those who set up others than God as partners to God. These others could be either one's own self, or some other person, or a group of persons; a spirit, a jinn, an angel, or any tangible or imagined being. Thus, the demand is not just a positive one to follow the path of serving the One True God with total devotion and steadfastness - there is also a negative aspect of the demand - that one ought to detach oneself from those who associate others with God in His divinity in whatever form. Moreover, one is required to be exclusively devoted to God not only in the realm of belief but also in the realm of conduct; not only in the individual but also in the collective sphere of life; not only when one is in a mosque, but also when one is in an educational institution, or in a court of law, or a legislative body, or in stately palaces where political decisions are made, or in market places bristling with trade and commerce. In short, one should adhere wherever one might be, to the doctrine of exclusive devotion to God. This is a way that should be quite distinct from the way of those who have developed in their lives a hodgepodge of two opposites: devotion to God and devotion to others than God. In short, one who believes in worshipping the One True God alone can never go hand-in-hand with those who believe in polytheism. For how could a Muslim conceivably be satisfied to go step-by-step with, let alone follow the way of those who associate others with God in His divinity? For in the latter eventuality the believer will be unable to fulfil the basic requisite of his faith, viz. the doctrine of monotheism. Moreover, the Qur'an asks the believer not only to shun overt but also covert and subtle forms of polytheism. One should be especially cautious about the latter since the consequences of any kind of polytheism are dreadful. Some people, out of their naivety, however, are inclined to take a light view of covert polytheism, considering it to be of less consequence than the open variety. One should be wary of such complaisance for covert polytheism may, in fact, be even more serious than the open variety. For an enemy out in the open can be more effectively countered than the one who is hidden from sight, or one who masquerades as a friend. One may well ask: which disease is more fatal, the one with the obvious symptoms, or the insidious one which develops within, eating at the vital organs, and yet which shows no external symptoms? This analogy holds true for the subtle form of polytheism. For the danger of open polytheism, of one that can be easily identified, is obvious to all and sundry. However, it is the subtle form of polytheism whose diagnosis calls for unusual insight and a mature grasp of the requisites of monotheism. For polytheism in its subtle form goes about striking its roots imperceptibly. The result is that in the course of time the roots of the true faith are eaten away even before anyone is alerted to such a dangerous development.

سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :108 اس مطالبے کی شدت قابل غور ہے ۔ بات ان الفاظ میں بھی ادا ہوسکتی تھی کہ تو اس دین کو اختیار کر لے یا اس دین پر چل یا اس دین کا پیرو بن جا ۔ مگر اللہ تعالی کو بیان کے یہ سب پیرایے ڈھیلے ڈھالے نظر آئے ۔ اس دین کی جیسی سخت اور ٹھیک اور کسی ہوئی پیروی مطلوب ہے اس کا اظہار ان کمزور الفاظ سے نہ ہوسکتا تھا ۔ لہذا اپنا مطالبہ ان الفاظ میں پیش فرمایا کہ اَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّيْنِ حَنِيْفًا اقم وجہک کے لفظی معنی ہیں اپنا چہرہ جما دے ۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ تیرا رخ ایک ہی طرف قائم ہو ۔ ڈگمگاتا اور ہلتا ڈلتا نہ ہو ۔ کبھی پیچھے اور کبھی آگے اور کبھی دائیں اور کبھی بائیں نہ مڑتا رہے ۔ بالکل ناک کی سیدھ اسی راستے پر نظر جمائے ہوئے چل جو تجھے دکھا دیا گیا ہے ۔ یہ بندش بجائے خود بہت چست تھی ، مگر اس پر بھی اکتفا نہ کیا گیا ۔ اس پر ایک اور قید حنیفا کی بڑھائی گئی ۔ حنیف اس کو کہتے ہیں جو سب طرف سے مڑ کر ایک طرف کا ہو رہا ہو ۔ پس مطالبہ یہ ہے کہ اس دین کو ، اس بندگی خدا کے طریقے کو ، اس طرز زندگی کو کہ پرستش ، بندگی ، غلامی ، اطاعت ، فرمانبرداری سب کچھ صرف اللہ رب العالمین ہی کی کی جائے ، ایسی یکسوئی کے ساتھ اختیار کر کہ کسی دوسرے طریقے کی طرف ذرہ برابر میلان و رجحان بھی نہ ہو ، اس راہ پر آکر ان غلط راہوں سے کچھ بھی لگاؤ باقی نہ رہے جنہیں تو چھوڑ کر آیا ہے اور ان ٹیڑھے راستوں پر ایک غلط انداز نگاہ بھی نہ پڑے جن پر دنیا چلی جا رہی ہے ۔ سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :109 یعنی ان لوگوں میں ہرگز شامل نہ ہو جو اللہ کی ذات میں ، اس کے حقوق میں اور اس کے اختیارات میں کسی طور پر غیر اللہ کو شریک کرتے ہیں ۔ خواہ وہ غیر اللہ ان کا اپنا نفس ہو ، یا کوئی دوسرا انسان ہو ، یا انسانوں کا کوئی مجموعہ ہو ، یا کوئی روح ہو ، جن ہو ، فرشتہ ہو ، یا کوئی مادی یا خیالی یا وہمی وجود ہو ۔ پس مطالبہ صرف اس ایجابی صورت ہی میں نہیں ہے کہ توحید خالص کا راستہ پوری استقامت کے ساتھ اختیار کر ۔ بلکہ اس سلبی صورت میں بھی ہے کہ ان لوگوں سے الگ ہو جا جو کسی شکل اور ڈھنگ کا شرک کرتے ہوں ۔ عقیدے ہی میں نہیں عمل میں بھی ، انفرادی طرز زندگی ہی میں نہیں اجتماعی نظام حیات میں بھی ، ایوانوں میں بھی ، معیشت کے بازاروں میں بھی ، غرض ہر جگہ ان لوگوں کے طریقے سے اپنا طریقہ الگ کر لے جنہوں نے اپنے افکار و اعمال کا پورا نظام خدا پرستی اور ناخدا پرستی کی آمیزش پر قائم کر رکھا ہے ۔ توحید کا پیرو زندگی کے کسی پہلو اور کسی شعبے میں بھی شرک کی راہ چلنے والوں کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر نہیں چل سکتا ، کجا کہ آگے وہ ہوں اور پیچھے یہ اور پھر بھی اس کی توحید پرستی کے تقاضے اطمینان سے پورے ہوتے رہیں! پھر مطالبہ شرک جلی ہی سے پرہیز کا نہیں ہے بلکہ شرک خفی سے بھی کامل اور سخت اجتناب کا ہے ۔ بلکہ شرک خفی زیادہ خوفناک ہے اور اس سے ہوشیار رہنے کی اور بھی زیادہ ضرورت ہے ۔ بعض نادان لوگ شرک خفی کو شرک خفیف سمجھتے ہیں اور ان کا گمان یہ ہے کہ اس کا معاملہ اتنا اہم نہیں ہے جتنا شرک جلی کا ہے ۔ حالانکہ خفی کے معنی خفیف نہیں ہیں ، پوشیدہ و مستور کے ہیں ۔ اب یہ سوچنے کی بات بات ہے کہ جو دشمن منہ کھول کر دن دہاڑے سامنے آجائے وہ زیادہ خطرناک ہے یا وہ جو آستین میں چھپا ہوا ہو یا دوست کے لباس میں معانقہ کر رہا ہو؟ بیماری وہ زیادہ مہلک ہے جس کی علامات بالکل نمایاں ہوں یا وہ جو مدتوں تک تندرستی کے دھوکے میں رکھ کر اندر ہی اندر صحت کی جڑ کھوکھلی کرتی رہے؟ جس شرک کو ہر شخص بیک نظر دیکھ کر کہہ دے کہ یہ شرک ہے وہ اپنی غیر مرئی جڑیں دین کے نظام میں اس طرح پھیلاتا ہے کہ عام اہل توحید کو ان کی خبر تک نہیں ہوتی اور رفتہ رفتہ ایسے غیر محسوس طریقے سے دین کے مغز کو کھا جاتا ہے کہ کہیں خطرے کا الارم بجنے کی نوبت ہی نہیں آتی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(10:105) حنیفا بروزن فعیل۔ صفت مشبہ کا صیغہ ہے۔ جو کوئی ایک راہ پکڑے اور سب باطل راہیں چھوڑ دے۔ حنیف کہلاتا ہے۔ حنیفا۔ الذین۔ کا حال بھی ہوسکتا ہے اور الوجہ کا بھی۔ پہلی صورت میں بمعنی۔ دوسرے ادیان سے بچ کر اس دین کو اختیار کروں۔ دوسری صورت میں بمعنی تمام ادیان باطلہ سے منہ موڑ کر پوری استقامت کے ساتھ دین اختیار کروں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 ۔ حنیف نام ہے (دین ابرہاہیم ( علیہ السلام) والوں کا۔ اور عرب شرک کرتے اور اپنے آپ کو حنیف کہے جاتے۔ (احسن الفوائد) ” اور ہرگز مشرکوں میں مت شامل) ہو “۔ یعنی ماسوی اللہ کی طرف التفات بھی شرک ہے۔ جسے اہل دل شرک خفی کہتے ہیں۔ (کبیر) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وان اقم وجھک للذین حنیفا ولا تکونن من المشرکین۔ اور یہ بھی حکم ہوا ہے کہ اس دین (توحید خالص) کی طرف اپنا رخ رکھنا ہر دین سے کٹ کر اور ہرگز مشرکوں میں سے نہ ہوجانا۔ یعنی مجھے ایمان پر رہنے ‘ دینی استقامت رکھنے اور تن دہی کے ساتھ فرائض ادا کرنے اور برائیوں سے باز رہنے کا بھی حکم دیا گیا ہے (گویا اقامت لِلَّذِیْنَ سے مراد ہے تمام فرائض کی ادائیگی اور ممنوعات سے پرہیز) یا اقامت وجہ سے مراد ہے نماز کو قبلہ رخ ہو کر ادا کرنا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(وَاَنْ اَقِمْ وَجْھَکَ للدِّیْنَ حَنِیْفًا) اور یہ بھی حکم ہوا ہے کہ اپنی ذات کو اس دین (یعنی دین توحید) کی طرف اس طرح متوجہ رکھوں کہ دوسرے سب طریقوں سے علیحدہ رہوں۔ لہٰذا میں تمہاری طرف نہ مائل ہوسکتا ہوں اور نہ تم سے کوئی اونچ نیچ کر کے مصالحت اور مسامحت ہوسکتی ہے۔ (وَلَا تَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ) (اور میرے رب نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ہرگز مشرکین میں سے مت ہوجانا) لہٰذا میں تو ہمیشہ موحد ہی رہوں گا۔ وھذا کما فی سورة الانعام (قُلْ اِنِّیْ نُھِیْتُ اَنْ اَعْبُدَ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ قُلْ لَّا اَتَّبِعُ اَھْوَآءَکُمْ قَدْ ضَلَلْتُ اِذًا وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُھْتَدِیْنَ ) (آپ فرما دیجئے کہ مجھے اس سے منع کیا گیا ہے کہ میں ان کی عبادت کروں جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہو آپ فرما دیجئے کہ میں تمہاری خواہشوں کا اتباع نہیں کرتا کیونکہ اس حال میں تو میں بےراہ ہوجاؤں گا اور ہدایت پر نہ رہوں گا)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

114: یہ “ اَنْ اَکُوْنَ ” پر معطوف ہے۔ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ خالصۃً دین حنیف یعنی وہ دین جو ہر قسم کے شرک سے پاک ہے اس کی طرف اپنا رخ سیدھا رکھوں اور شرک کی جانب ادنیٰ میلان بھی نہ کروں۔ “ وَ لَا تَدْعُ الخ ”۔ پہلے “ فَلَا اَعْبُدُ ” میں عبادت غیر اللہ کی نفی کی گئی۔ عبادت کا جزو اعظم چونکہ دعاء اور پکار ہے اس لیے یہاں بالاستقلال غیر اللہ کی پکار سے ممانعت فرمائی۔ یعنی تیرا نفع اور نقصان جن کے قبضہ و اختیار میں نہیں۔ انہیں حاجات میں ہرگز نہ پکار، پکار کے لائق صرف اللہ اللہ تعالیٰ ہی ہے ہر چیز جس کے اختیار و تصرف میں ہے۔ “ فلا حکم الا لله ولا رجوع فی الدارین اِلَّا اللّٰه ” (کبیر ج 17 ص 173) ۔ یہ خطاب بھی ہر انسان سے ہے اگرچہ بظاہر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی مخاطب ہیں کیونکہ آپ کی ذات سے تو غیر اللہ کو پکارنے کا ادنی امکان بھی نہیں۔ “ والمعنی ولا تدع ایھا الانسان من دون اللہ ما لا ینفعک الخ ” ّ (خازن ج 3 ص 215) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

105 اور نیز مجھ کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ سب طریقوں سے یکسو ہوکر اپنے آپ کو اس دین اسلام پر مضبوطی سے قائم رکھو اور اپنے آپ کو اس دین کی طرف اس طرح متوجہ رکھو کہ اور سب طریقوں سے علیحدہ ہوجائو اور مجھ کو یہ حکم ہوا ہے کہ تم مشرکوں میں سے ہرگز نہ ہونا یعنی شرک کبھی نہ کرنا حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں حنیف نام ہے ابراہیم (علیہ السلام) کے دین والوں کا اور عرب شرک کرتے اور آپ کو حنیف کہتے جاتے 12