Surat Younus

Surah: 10

Verse: 107

سورة يونس

وَ اِنۡ یَّمۡسَسۡکَ اللّٰہُ بِضُرٍّ فَلَا کَاشِفَ لَہٗۤ اِلَّا ہُوَ ۚ وَ اِنۡ یُّرِدۡکَ بِخَیۡرٍ فَلَا رَآدَّ لِفَضۡلِہٖ ؕ یُصِیۡبُ بِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِہٖ ؕ وَ ہُوَ الۡغَفُوۡرُ الرَّحِیۡمُ ﴿۱۰۷﴾

And if Allah should touch you with adversity, there is no remover of it except Him; and if He intends for you good, then there is no repeller of His bounty. He causes it to reach whom He wills of His servants. And He is the Forgiving, the Merciful

اور اگر اللہ تم کو کوئی تکلیف پہنچائے تو بجز اس کے اور کوئی اس کو دور کرنے والا نہیں ہے اور اگر وہ تم کو کوئی خیر پہنچانا چاہے تو اس کے فضل کا کوئی ہٹانے والا نہیں وہ اپنا فضل اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے نچھاور کر دے اور وہ بڑی مغفرت بڑی رحمت والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَإِن يَمْسَسْكَ اللّهُ بِضُرٍّ And if Allah touches you with harm, This verse contains the explanation that good, evil, benefit and harm only come from Allah alone and no one shares with His power over these things. Therefore, He is the One Who deserves to be worshipped alone, without ascription of partners. فَلَ كَاشِفَ لَهُ إِلاَّ هُوَ وَإِن يُرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَ رَادَّ لِفَضْلِهِ يُصَيبُ بِهِ مَن يَشَاء مِنْ عِبَادِهِ ... there is none who can lift it but He. And if He intends good for you, then none can repel. His favor which He causes to reach whom He wills among His servants. Concerning His statement, وَهُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ And He is the Pardoning, the Merciful. This means that He is forgiving and merciful towards those who turn to Him in repentance, regardless of what sin the person has committed. Even if the person associated a partner with Allah, verily Allah would forgive him if he repented from it.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

107۔ 1 خیر کو یہاں فضل سے اس لئے تعبیر فرمایا کہ اللہ تعلیٰ اپنے بندوں کے ساتھ جو بھلائی کا معاملہ فرماتا ہے، اعمال کے اعتبار سے اگرچہ بندے اس کے مستحق نہیں۔ لیکن یہ محض اس کا فضل ہے کہ وہ اعمال سے قطع نظر کرتے ہوئے، انسانوں پر پھر بھی رحم و کرم فرماتا ہے

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١٥] عام فہم دلائل سے شرک کی تردید :۔ اس آیت میں حاجت روائی اور مشکل کشائی کی حقیقت یوں واضح کی گئی ہے کہ یہ دونوں باتیں خالصتاً اللہ تعالیٰ ہی کے قبضہ ئقدرت میں ہیں یعنی اگر کوئی تکلیف تمہارے مقدر میں لکھی ہوئی ہے تو کوئی جن یا فرشتہ یا نبی اور بزرگ & پیر فقیر یا کوئی اور آستانہ مافوق الفطرت اسباب کے ذریعہ اس کو دور نہیں کرسکتا۔ ما فوق الفطرت اور فطری اسباب کے نتائج اللہ کے اختیار میں ہیں :۔ اسی طرح اللہ اگر کسی پر کوئی بھلائی کرنا چاہے تو دنیا کی کوئی طاقت مافوق الفطرت اسباب سے اسے روک نہیں سکتی یہاں تک تو معبودان باطل کے تصرف کی تردید کا تعلق ہے اور فطری اسباب کے تحت بھی حاجت روائی اور مشکل کشائی بظاہر نظر آ تو رہی ہوتی ہے مگر اس کی تکمیل اسی صورت میں ہوتی ہے جب کہ اللہ کی طرف سے اذن بھی ہو اس کی مثال یوں سمجھئے کہ ایک مریض ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے جو نہایت احتیاط کے ساتھ اس کا علاج کرتا ہے لیکن اس کے باوجود بھی شفا اسی صورت میں ہوگی جب اللہ کو منظور ہوگا ورنہ نہیں ہوگی۔ اسی طرح اگر ایک کسان پوری احتیاط سے اچھی قسم کا بیج بوتا اور اپنی فصل کی پوری طرح آبیاری اور نگہداشت کرتا ہے مگر پکی ہوئی فصل کا اسے ملنا یا نہ مل سکنا یا تھوڑی ملنا یا زیادہ ملنا یہ سب کچھ اللہ کے اذن پر موقوف ہے توحید کو سمجھنے میں یہ عقیدہ اس قدر ہمہ گیر ہے کہ اس سے ہر قسم کے شرک کی جڑ کٹ جاتی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاِنْ يَّمْسَسْكَ اللّٰهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهٗٓ اِلَّا ھُوَ ۔۔ : عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں، میں ایک دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے (سوار) تھا، آپ نے فرمایا : ( یَا غُلاَمُ ! إِنِّيْ أُعَلِّمُکَ کَلِمَاتٍ احْفَظِ اللّٰہَ یَحْفَظْکَ ، احْفَظِ اللّٰہَ تَجِدْہٗ تُجَاھَکَ ، إِذَا سَأَلْتَ فَاسْأَلِ اللّٰہَ ، وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ باللّٰہِ ، وَاعْلَمْ أَنَّ الْأُمَّۃَ لَوِ اجْتَمَعَتْ عَلَی أَنْ یَنْفَعُوْکَ بِشَيْءٍ لَمْ یَنْفَعُوْکَ إِلاَّ بِشَیْءٍ قَدْ کَتَبَہُ اللّٰہُ لَکَ ، وَ إِنِ اجْتَمَعُوْا عَلٰی أَنْ یَضُرُّوْکَ بِشَيْءٍ لَمْ یَضُرُّوْکَ إِلاَّ بِشَيْءٍ قَدْ کَتَبَہُ اللّٰہُ عَلَیْکَ ، رُفِعَتِ الأَقْلاَمُ وَجَفَّتِ الصُّحُفُ ) [ ترمذی، صفۃ القیامۃ، باب : ٢٥١٦۔ مسند أحمد : ١؍٢٩٣، ح : ٢٦٧٣، و صححہ الأئمۃ ]” اے لڑکے ! میں تمہیں چند باتیں سکھاتا ہوں، تو اللہ کا دھیان رکھ وہ تیرا دھیان رکھے گا، تو اللہ کا دھیان رکھ تو تو اسے اپنے سامنے پائے گا اور جب تو مانگے تو اللہ سے مانگ اور جب مدد مانگے تو اللہ سے مدد مانگ اور جان لے کہ بیشک اگر سارے لوگ جمع ہوجائیں کہ تجھے کسی چیز کا فائدہ پہنچائیں تو اس چیز کے سوا نہیں پہنچا سکیں گے جو اللہ تعالیٰ نے تیرے لیے لکھ دی ہے اور اگر وہ سب جمع ہوجائیں کہ تجھے کسی چیز کا نقصان پہنچائیں تو اس کے سوا تجھے نقصان نہیں پہنچا سکیں گے جو اللہ تعالیٰ نے تم پر لکھ دی ہے، قلم اٹھا لیے گئے اور صحیفے خشک ہوگئے۔ “ بعض اہل علم نے فرمایا کہ قرآن مجید کی تین آیات پر اگر کوئی محکم یقین کرلے تو ان شاء اللہ مخلوق سے مستغنی ہوجائے گا، ایک تو یہ آیت، دوسری : (۝ مَا يَفْتَحِ اللّٰهُ للنَّاسِ مِنْ رَّحْمَةٍ فَلَا مُمْسِكَ لَهَا ۚ وَمَا يُمْسِكْ ۙ فَلَا مُرْسِلَ لَهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖ ۭ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ ) [ فاطر : ٢ ] ” جو کچھ اللہ لوگوں کے لیے کسی بھی رحمت میں سے کھول دے تو اس کے بعد کوئی بند کرنے والا نہیں اور جو اللہ بند کر دے اسے اس کے بعد کوئی کھولنے والا نہیں اور وہی سب پر غالب کمال حکمت والا ہے۔ “ اور تیسری : ( وَمَا مِنْ دَاۗبَّةٍ فِي الْاَرْضِ اِلَّا عَلَي اللّٰهِ رِزْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَــقَرَّهَا وَمُسْـتَوْدَعَهَا) [ ہود : ٦ ] ” اور زمین میں کوئی چلنے والا (جان دار) نہیں، مگر اس کا رزق اللہ ہی پر ہے اور وہی اس کے ٹھہرنے کی جگہ اور اس کے سونپے جانے کی جگہ کو جانتا ہے۔ “ بیہقی نے شعب الایمان میں عامر بن قیس کا قول نقل کیا ہے کہ قرآن کی تین آیتوں نے مجھے سارے جہان سے بےنیاز کردیا، پھر اوپر والی تین آیات ذکر فرمائیں۔ اس اثر کی سند تو کمزور ہے مگر آیات کے مضمون کے لحاظ سے اصل بات بلاشک و شبہ درست ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِنْ يَّمْسَسْكَ اللہُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَہٗٓ اِلَّا ھُوَ۝ ٠ ۚ وَاِنْ يُّرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَاۗدَّ لِفَضْلِہٖ۝ ٠ ۭ يُصِيْبُ بِہٖ مَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِہٖ۝ ٠ ۭ وَھُوَالْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ۝ ١٠٧ مسس المسّ کاللّمس لکن اللّمس قد يقال لطلب الشیء وإن لم يوجد والمسّ يقال في كلّ ما ينال الإنسان من أذى. نحو قوله : وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة/ 80] ، ( م س س ) المس کے معنی چھونا کے ہیں اور لمس کے ہم معنی ہیں لیکن گاہے لمس کیس چیز کی تلاش کرنے کو بھی کہتے ہیں اور اس میں یہ ضروری نہیں کہ وہ چیز مل جل بھی جائے ۔ اور مس کا لفظ ہر اس تکلیف کے لئے بول دیا جاتا ہے جو انسان تو پہنچے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة/ 80] اور کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں ۔۔ چھوہی نہیں سکے گی كشف كَشَفْتُ الثّوب عن الوجه وغیره، ويقال : كَشَفَ غمّه . قال تعالی: وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلا کاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ [ الأنعام/ 17] ( ک ش ف ) الکشف كَشَفْتُ الثّوب عن الوجه وغیره، کا مصدر ہے جس کے معنی چہرہ وغیرہ سے پر دہ اٹھا نا کے ہیں ۔ اور مجازا غم وانداز ہ کے دور کرنے پر بھی بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلا کاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ [ الأنعام/ 17] اور خدا تم کو سختی پہچائے تو اس کے سوا کوئی دور کرنے والا نہیں ہے ۔ رود والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب/ 17] ( ر و د ) الرود الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب/ 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ خير الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه : الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] ، ( خ ی ر ) الخیر ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ اور خیر دو قسم پر ہے ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔ فضل الفَضْلُ : الزّيادة عن الاقتصاد، وذلک ضربان : محمود : کفضل العلم والحلم، و مذموم : کفضل الغضب علی ما يجب أن يكون عليه . والفَضْلُ في المحمود أكثر استعمالا، والفُضُولُ في المذموم، والفَضْلُ إذا استعمل لزیادة أحد الشّيئين علی الآخر فعلی ثلاثة أضرب : فضل من حيث الجنس، کفضل جنس الحیوان علی جنس النّبات . وفضل من حيث النّوع، کفضل الإنسان علی غيره من الحیوان، وعلی هذا النحو قوله : وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء/ 70] ، إلى قوله : تَفْضِيلًا وفضل من حيث الذّات، کفضل رجل علی آخر . فالأوّلان جوهريّان لا سبیل للناقص فيهما أن يزيل نقصه وأن يستفید الفضل، کالفرس والحمار لا يمكنهما أن يکتسبا الفضیلة التي خصّ بها الإنسان، والفضل الثالث قد يكون عرضيّا فيوجد السّبيل علی اکتسابه، ومن هذا النّوع التّفضیل المذکور في قوله : وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل/ 71] ، لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء/ 12] ، يعني : المال وما يکتسب، ( ف ض ل ) الفضل کے منعی کسی چیز کے اقتضا ( متوسط درجہ سے زیادہ ہونا کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے محمود جیسے علم وحلم وغیرہ کی زیادتی مذموم جیسے غصہ کا حد سے بڑھ جانا لیکن عام طور الفضل اچھی باتوں پر بولا جاتا ہے اور الفضول بری باتوں میں اور جب فضل کے منعی ایک چیز کے دوسری پر زیادتی کے ہوتے ہیں تو اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں ( ۔ ) بر تری بلحاظ جنس کے جیسے جنس حیوان کا جنس نباتات سے افضل ہونا ۔ ( 2 ) بر تری بلحاظ نوع کے جیسے نوع انسان کا دوسرے حیوانات سے بر تر ہونا جیسے فرمایا : ۔ وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء/ 70] اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ ( 3 ) فضیلت بلحاظ ذات مثلا ایک شخص کا دوسرے شخص سے بر تر ہونا اول الذکر دونوں قسم کی فضیلت بلحاظ جو ہر ہوتی ہے ۔ جن میں ادنیٰ ترقی کر کے اپنے سے اعلٰی کے درجہ کو حاصل نہیں کرسکتا مثلا گھوڑا اور گدھا کہ یہ دونوں انسان کا درجہ حاصل نہیں کرسکتے ۔ البتہ تیسری قسم کی فضیلت من حیث الذات چونکہ کبھی عارضی ہوتی ہے اس لئے اس کا اکتساب عین ممکن ہے چناچہ آیات کریمہ : ۔ وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل/ 71] اور خدا نے رزق ( دولت ) میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔ لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء/ 12] تاکہ تم اپنے پروردگار کا فضل ( یعنی روزی تلاش کرو ۔ میں یہی تیسری قسم کی فضیلت مراد ہے جسے محنت اور سعی سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ ( صاب) مُصِيبَةُ والمُصِيبَةُ أصلها في الرّمية، ثم اختصّت بالنّائبة نحو : أَوَلَمَّا أَصابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْها[ آل عمران/ 165] ، فَكَيْفَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌالنساء/ 62] ، وَما أَصابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران/ 166] ، وَما أَصابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ [ الشوری/ 30] ، وأصاب : جاء في الخیر والشّرّ. مصیبۃ اصل میں تو اس تیر کو کہتے ہیں جو ٹھیک نشانہ پر جا کر بیٹھ جائے اس کے بعد عرف میں ہر حادثہ اور واقعہ کے ساتھ یہ لفظ مخصوص ہوگیا ہے قرآن پاک میں ہے : ۔ أَوَلَمَّا أَصابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْها[ آل عمران/ 165]( بھلا یہ ) کیا بات ہے کہ ) جب ( احد کے دن کفار کے ہاتھ سے ) تم پر مصیبت واقع ہوئی حالانکہ ( جنگ بدر میں ) اس سے دو چند مصیبت تمہارے ہاتھ سے انہیں پہنچ چکی تھی ۔ فَكَيْفَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ [ النساء/ 62] تو کیسی ( ندامت کی بات ہے کہ جب ان پر کوئی مصیبت واقع ہوتی ہے ۔ وَما أَصابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران/ 166] اور جو مصیبت تم پر دونوں جماعتوں کے مابین مقابلہ کے دن واقع ہوئی ۔ وَما أَصابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ [ الشوری/ 30] اور جو مصیبت تم پر واقع ہوتی ہے سو تمہارے اپنے اعمال سے ۔ اور اصاب ( افعال ) کا لفظ خیرو شر دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ عبد والعَبْدُ يقال علی أربعة أضرب : الأوّل : عَبْدٌ بحکم الشّرع، وهو الإنسان الذي يصحّ بيعه وابتیاعه، نحو : الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة/ 178] ، وعَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل/ 75] . الثاني : عَبْدٌ بالإيجاد، وذلک ليس إلّا لله، وإيّاه قصد بقوله : إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم/ 93] . والثالث : عَبْدٌ بالعِبَادَةِ والخدمة، والناس في هذا ضربان : عبد لله مخلص، وهو المقصود بقوله : وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص/ 41] ، إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء/ 3] ، نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان/ 1] ، عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف/ 1] ، إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر/ 42] ، كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران/ 79] ، إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر/ 40] ، وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم/ 61] ، وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] ، فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان/ 23] ، فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف/ 65] . وعَبْدٌ للدّنيا وأعراضها، وهو المعتکف علی خدمتها ومراعاتها، وإيّاه قصد النّبي عليه الصلاة والسلام بقوله : «تعس عَبْدُ الدّرهمِ ، تعس عَبْدُ الدّينار» وعلی هذا النحو يصحّ أن يقال : ليس كلّ إنسان عَبْداً لله، فإنّ العَبْدَ علی هذا بمعنی العَابِدِ ، لکن العَبْدَ أبلغ من العابِدِ ، والناس کلّهم عِبَادُ اللہ بل الأشياء کلّها كذلك، لکن بعضها بالتّسخیر وبعضها بالاختیار، وجمع العَبْدِ الذي هو مُسترَقٌّ: عَبِيدٌ ، وقیل : عِبِدَّى وجمع العَبْدِ الذي هو العَابِدُ عِبَادٌ ، فالعَبِيدُ إذا أضيف إلى اللہ أعمّ من العِبَادِ. ولهذا قال : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق/ 29] ، فنبّه أنه لا يظلم من يختصّ بِعِبَادَتِهِ ومن انتسب إلى غيره من الّذين تسمّوا بِعَبْدِ الشمس وعَبْدِ اللّات ونحو ذلك . ويقال : طریق مُعَبَّدٌ ، أي : مذلّل بالوطء، وبعیر مُعَبَّدٌ: مذلّل بالقطران، وعَبَّدتُ فلاناً : إذا ذلّلته، وإذا اتّخذته عَبْداً. قال تعالی: أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 22] . العبد بمعنی غلام کا لفظ چار معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ ( 1 ) العبد بمعنی غلام یعنی وہ انسان جس کی خریدنا اور فروخت کرنا شرعا جائز ہو چناچہ آیات کریمہ : ۔ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة/ 178] اور غلام کے بدلے غلام عَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل/ 75] ایک غلام ہے جو بالکل دوسرے کے اختیار میں ہے ۔ میں عبد کا لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے ( 2 ) العبد بالایجاد یعنی وہ بندے جسے اللہ نے پیدا کیا ہے اس معنی میں عبودیۃ اللہ کے ساتھ مختص ہے کسی دوسرے کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم/ 93] تمام شخص جو آسمان اور زمین میں ہیں خدا کے روبرو بندے ہوکر آئیں گے ۔ میں اسی معنی کی طرح اشارہ ہے ۔ ( 3 ) عبد وہ ہے جو عبارت اور خدمت کی بدولت عبودیت کا درجہ حاصل کرلیتا ہے اس لحاظ سے جن پر عبد کا لفظ بولا گیا ہے وہ دوقسم پر ہیں ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے بن جاتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا : ۔ وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص/ 41] اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کرو ۔ إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء/ 3] بیشک نوح (علیہ السلام) ہمارے شکر گزار بندے تھے نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان/ 1] جس نے اپنے بندے پر قرآن پاک میں نازل فرمایا : ۔ عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف/ 1] جس نے اپنی بندے ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) پر یہ کتاب نازل کی ۔ إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر/ 42] جو میرے مخلص بندے ہیں ان پر تیرا کچھ زور نہیں ۔ كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران/ 79] کہ میری بندے ہوجاؤ ۔ إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر/ 40] ہاں ان میں جو تیرے مخلص بندے ہیں ۔ وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم/ 61] جس کا خدا نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان/ 23] ہمارے بندوں کو راتوں رات نکال لے جاؤ ۔ فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف/ 65]( وہاں ) انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ دیکھا ۔ ( 2 ) دوسرے اس کی پر ستش میں لگے رہتے ہیں ۔ اور اسی کی طرف مائل رہتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق ہی آنحضرت نے فرمایا ہے تعس عبد الدرھم تعس عبد الدینا ر ) درہم دینار کا بندہ ہلاک ہو ) عبد کے ان معانی کے پیش نظر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہر انسان اللہ کا بندہ نہیں ہے یعنی بندہ مخلص نہیں ہے لہذا یہاں عبد کے معنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہیں لیکن عبد عابد سے زیادہ بلیغ ہے اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں : ۔ کہ تمام لوگ اللہ کے ہیں یعنی اللہ ہی نے سب کو پیدا کیا ہے بلکہ تمام اشیاء کا یہی حکم ہے ۔ بعض بعض عبد بالتسخیر ہیں اور بعض عبد بالا اختیار اور جب عبد کا لفظ غلام کے معنی میں استعمال ہو تو اس کی جمع عبید یا عبد آتی ہے اور جب عبد بمعنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہو تو اس کی جمع عباد آئے گی لہذا جب عبید کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو یہ عباد سے زیادہ عام ہوگا یہی وجہ ہے کہ آیت : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق/ 29] اور ہم بندوں پر ظلم نہیں کیا کرتے میں عبید سے ظلم کی نفی کر کے تنبیہ کی ہے وہ کسی بندے پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا خواہ وہ خدا کی پرستش کرتا ہو اور خواہ عبدالشمس یا عبد اللات ہونے کا مدعی ہو ۔ ہموار راستہ ہموار راستہ جس پر لوگ آسانی سے چل سکیں ۔ بعیر معبد جس پر تار کول مل کر اسے خوب بد صورت کردیا گیا ہو عبدت فلان میں نے اسے مطیع کرلیا محکوم بنالیا قرآن میں ہے : ۔ أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 22] کہ تم نے بنی اسرائیل کو محکوم بنا رکھا ہے ۔ غفر الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٠٧) اور اگر اللہ تعالیٰ تمہیں کوئی تکلیف یا خلاف مرضی کوئی چیز پہنچا دے تو ماسوا اس کی ذات کے اور کوئی تکلیف کو دور کرنے والا نہیں اور اگر وہ تمہیں کوئی نعمت اور راحت پہنچانا چاہے تو اس کے فضل کو کوئی روکنے والا نہیں۔ وہ اپنے فضل سے اپنے بندوں میں جو اس فضل کا اہل ہو جس کو چاہیں نوازیں اور جو توجہ کرے اس کی مغفرت فرمانے والے ہیں اور جو توبہ کی حالت میں فوت ہوجائے اس پر رحم کرنے والے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٠٧۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو مخاطب ٹھہرا کر بت پرستوں کو یہ سمجھایا ہے کہ اگر تم پر کوئی آفت آجاوے تو خدا کے سوا کوئی اس کو ٹال نہیں سکتا اور اگر خدا تمہارے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرے تو کسی کا مقدور نہیں کہ اسے روک سکے خدا اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے فضل کرتا ہے وہ بڑا غفور الرحیم ہے عبد اللہ بن مسعود (رض) کی حدیث جو اوپر گزر چکی ہے ١ ؎ اس کو اس آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ مکہ کے قحط کے وقت جب تک اللہ کی مدد شامل حال نہ ہوئی ان بت پرستوں کے بتوں سے کچھ نہ ہوگا۔ ١ ؎ یعنی پچھلے صفحہ ٧١ پر۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(10:107) یمسسک۔ مس یمس (باب سمع) مس ومسیس کسی کو ہاتھ سے چھونا کسی کو تکلیف پہنچنا۔ مسب پہنچانا۔ (متعدی) ک ضمیر مفعول واحد مذکر حاضر۔ ان یمسسک اللہ بضر۔ اگر اللہ تجھے کوئی تکلیف پہنچائے۔ لاکاشف۔ اسم فاعل مفرد مذکر۔ کاشفون جمع۔ کوئی تکلیف کو رفع کرنے والا نہیں۔ کشف کھولنا۔ ظاہر کرنا۔ (باب ضرب) باب سمع سے لازم ہے۔ بمعنی شکست کھانا۔ راد۔ رد کرنے والا۔ پھیرنے والا۔ دفع کرنے والا۔ روکنے والا۔ رد سے اسم فاعل واحد مذکر۔ یصیب بہ۔ پہنچاتا ہے۔ عطا کرتا ہے۔ بہ میں ضمیر کا مرجع فضل ہے۔ یعنی جس کو چاہتا ہے فضل عطا کرتا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 ۔ مسند احمد اور ترمذی میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عبد اللہ بن عباس (رض) کو مخاطب کرکے فرمایا : ہر قسم کی مدد اللہ تعالیٰ سے طلب کرو کیونکہ تمام دنیا تم کو ضرر پہنچانا چاہیے یا نفع جب تک اللہ تعالیٰ کی مرضی نہ ہو نہ تمہیں کچھ نفع پہنچا سکتی ہے نہ ضرو۔ (احسن الفوائد) عامر (رض) بن قیس کہتے ہیں کہ قرآن کی تین آیتوں نے مجھے سارے جہان سے بےنیاز کردیا۔ ایک یہ آیت دوسری : ما یفتح اللہ للناس من رحمتہ فلا ممسک لھا وما یعسک فلا مرسل لہ : جو رحمت (رح) اللہ لوگوں کے لئے کھولے اسے کوئی روک رکھنے والا نہیں ہے، اور جسے کوئی روکے اسے کوئی کھولنے والا نہیں ہے۔ اور تیسری آیت : وما من دابۃ فی الارض الی علی اللہ رزقھا۔ کہ زمین میں کوئی جاندار ایسا نہیں جس کا رزق اللہ کے ذمے نہ ہو۔ (فتح القدیر بحوالہ بیہقی) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وان یمسسک اللہ بضر فلا کاشف لہ الا ھو وان یردک بخیر فلا راد لفضلہ اور اگر تجھ کو کوئی دکھ چھوا (بھی) دے تو اس کو دور کرنے والا سوائے اس کے اور کوئی نہیں اور اگر وہ تجھ کو کوئی راحت پہنچانا چاہے تو اس کے فضل کو کوئی لوٹانے والا نہیں۔ مَسٌّ سے مراد ہے پہنچانا۔ ضُرّ بیماری ‘ یا سختی ‘ یا مصیبت۔ فَلاَ کَاشِفَ اس کو دفع کرنے والا کوئی نہیں (کشفکھولنا ‘ مراد دفع کرنا) خیر دنیا اور آخرت کی بھلائی۔ دکھ یا سکھ سب اللہ کے ارادہ سے ہی ہوتا ہے لیکن اس جگہ ضُرّ کے ساتھ لفظ مس اور خیر کے ساتھ ارادہ کا لفظ استعمال کرنے سے غالباً اس طرف اشارہ ہے کہ اللہ کا اصل مقصد خیر پہنچانا ہوتا ہے اور دکھ پہنچانا مقصد اوّل نہیں ہوتا۔ لِفَضْلِہٖ کے لفظ میں بجائے سادہ ضمیر کے لفظ فضل کا اضافہ یہ ظاہر کر رہا ہے کہ اللہ جو خیر عطا فرماتا ہے ‘ وہ اپنی مہربانی سے عطا فرماتا ہے ‘ کسی کا اس پر کوئی حق نہیں ہے۔ یصیب بہ من یشاء من عبادہ وھو الغفور الرحیم۔ وہ دکھ سکھ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے پہنچاتا ہے اور وہی بڑی مغفرت اور بڑی رحمت والا ہے۔ یعنی خیر ہو یا شر ‘ سب کچھ اللہ ہی جس کو چاہتا ہے پہنچاتا ہے ‘ لہٰذا تم پر لازم ہے کہ طاعت کے ساتھ خیر کے طلبگار بنو مگر طاعت پر اعتماد نہ کر بیٹھو اور مغفرت سے ناامید بھی نہ ہو ‘ بلکہ عذاب کا خوف رکھو (اور رحمت کی امید) ابونعیم نے حضرت علی کی روایت سے لکھا ہے کہ رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) نے فرمایا : اللہ نے اسرائیلی انبیاء میں سے ایک نبی کے پاس وحی بھیجی کہ تمہاری امت میں جو طاعت گذار لوگ ہوں ‘ ان سے کہہ دو کہ اپنے اعمال پر بھروسہ نہ کر بیٹھیں۔ قیامت کے دن حساب کیلئے جب میں بندوں کو کھڑا کروں گا تو جس کو عذاب دینا چاہوں گا (اس کی حساب فہمی خوردہ گیری کے ساتھ کروں گا اور) اس کو عذاب دوں گا اور اپنی امت کے گنہگاروں سے کہہ دو کہ خود اپنے کو ہلاکت میں نہ ڈالو (یعنی ناامید نہ ہو) اگر میں چاہوں گا تو بڑے بڑے گناہ معاف کر دوں گا اور مجھے پرواہ بھی نہ ہوگی۔ مذکورۂ بالا آیات نازل فرما کر اللہ نے اپنے سوا دوسروں سے ڈرنے یا امید رکھنے کا راستہ ہی بند کردیا۔ اللہ غفور و رحیم ہے ‘ یعنی اس کی رحمت غضب پر غالب ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (وَاِنْ یَّمْسَسْکَ اللّٰہُ بِضُرٍّ فَلاَ کَاشِفَ لَہٗ اِلَّا ھُوَ ) (اور اگر اللہ تعالیٰ تجھے کوئی ضرر پہنچا دے تو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اسے دور کرنے والا نہیں) (وَاِنْ یُّرِدْکَ بِخَیْرٍفَلَا رَآدَّ لِفَضْلِہٖ ) (اور اگر وہ تجھے کوئی خیر پہنچانے کا ارادہ فرمائے تو اس کے فضل کو کوئی بھی رد کرنے والا نہیں ہے) صاحب روح المعانی فرماتے ہیں کہ اس میں یہ بتایا ہے کہ جسے اللہ کی طرف سے جو بھی کوئی خیر پہنچ جائے وہ محض اللہ کا فضل ہے۔ اللہ پر کسی کا کوئی حق نہیں ہے۔ (یُصِیْبُ بِہٖ مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہٖ ) (وہ اپنافضل اپنے بندوں میں سے جسے چاہے پہنچا دے) فضل کا عموم دنیا وآخرت کی تمام نعمتوں کو شامل ہے۔ پھر فرمایا (وَھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ ) اور وہ بخشنے والا ہے مہربان ہے۔ مغفرت اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل ہے۔ اس سے آخرت کی نجات ہوتی ہے۔ نیز حصول جنت کا ذریعہ ہے۔ جس سے بڑی کوئی نعمت نہیں ‘ اور وہ رحیم بھی ہے۔ رحمت کے عموم میں دنیاوی نعمتوں کا اور ہر دکھ تکلیف سے بچانے کا تذکرہ آگیا۔ اس میں بھی مشرکین پر تعریض ہے کہ ایسے غفور اور رحیم کو چھوڑ کر دوسروں کی عبادت کرتے ہو جن سے کچھ بھی ملنے والا نہیں نہ دنیا میں اور نہ آخرت میں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

115: یہ ماقبل کے لیے بمنزلہ دلیل ہے۔ یعنی نفع اور نقصان تو اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے اگر تو کسی مصیبت اور تکلیف میں گرفتار ہو تو اس کو اللہ کے سوا دور کرنے والا کوئی نہیں اور اگر اللہ تعالیٰ تجھے بہتری اور بھلائی عطا کرنے کا ارادہ فرما لے تو اسے روکنے کی کسی کو مجال نہیں وہ جسے چاہے تکلیف دے اور جس کو چاہے آرام و راحت عطا فرمائے جب نفع و ضرر اس کے اختیار و تصرف میں ہے تو پھر اس کے سوا کسی اور کو مت پکارو “ وَ اِنْ یَّمْسَسْکَ اللّٰهُ بِضُرٍّ ۔ تقریر لا او دفی حیز الصلة من سلب النفع من المعبودات الباطلة و تصویر لاختصاصه به سبحانه الخ ” (روح ج 11 ص 199) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

107 اور اگر اللہ تعالیٰ تم کو کوئی ضرر اور تکلیف پہونچائے تو اس تکلیف کو اس کے سوا کوئی دور کرنے والا اور ہٹانے والا نہیں ہے اور اگر وہ تم کو کوئی نفع اور راحت پہونچائے تو اس کے فضل کو کوئی لوٹانے والا اور واپس کرنے والا نہیں وہ اپنا فضل اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے پہونچاتا ہے اور وہ بڑی مغفرت اور بڑی مہربانی کرنے والا ہے یعنی نفع نقصان کا سوائے اس کے کوئی مالک نہیں پھر اس کو چھوڑ کر دوسروں کی بندگی کرنا جہالت نہیں تو اور کیا ہے وہ صاحب مغفرت و رحمت اور صاحب فضل ہے۔