Surat Younus

Surah: 10

Verse: 108

سورة يونس

قُلۡ یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ قَدۡ جَآءَکُمُ الۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّکُمۡ ۚ فَمَنِ اہۡتَدٰی فَاِنَّمَا یَہۡتَدِیۡ لِنَفۡسِہٖ ۚ وَ مَنۡ ضَلَّ فَاِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیۡہَا ۚ وَ مَاۤ اَنَا عَلَیۡکُمۡ بِوَکِیۡلٍ ﴿۱۰۸﴾ؕ

Say, "O mankind, the truth has come to you from your Lord, so whoever is guided is only guided for [the benefit of] his soul, and whoever goes astray only goes astray [in violation] against it. And I am not over you a manager."

آپ کہہ دیجئے کہ اے لوگو! تمہارے پاس حق تمہارے رب کی طرف سے پہنچ چکا ہے اس لئے جو شخص راہ راست پر آجائے سو وہ اپنے واسطے راہ راست پر آئے گا اور جو شخص بے راہ رہے گا تو اس کا بے راہ ہونا اسی پر پڑے گا اور میں تم پر مسلط نہیں کیا گیا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah says; قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءكُمُ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ فَمَنِ اهْتَدَى فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَن ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا ... Say: "O people! Now the truth has come to you from your Lord. So whoever receives guidance, he does so for the good of himself. And whoever goes astray, he does so at his own loss. Allah, the Exalted, commands His Messenger to inform the people that that which he has brought them from Allah is the truth. It is a message concerning which there is no doubt or suspicion. Therefore, whoever is guided by it and follows it, then he only benefits himself by doing so. Likewise, whoever is misguided away from this message, then he will suffer the consequences against his own self. وَمَا أَنَاْ عَلَيْكُم بِوَكِيلٍ And I am not set over you as a guardian. This means, `I am not a guardian over you in order for you to become believers. I am only a warner to you and guidance belongs to Allah, the Exalted.' Concerning Allah's statement,

نافرمان کا اپنا نقصان ہے اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے حبیب حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ لوگوں کو آپ خبردار کریں کہ جو میں لایا ہوں ، وہ اللہ کی طرف سے ہے ۔ بلا شک و شبہ وہ نرا حق ہے جو اس کی اتباع کرے گا وہ اپنے نفع کو جمع کرے گا ۔ اور جو اس سے بھٹک جائے گا وہ اپنا ہی نقصان کرے گا ۔ میں تم پر وکیل نہیں ہوں کہ تمہیں ایمان پر مجبور کروں ۔ میں تو کہنے سننے والا ہوں ۔ ہادی صرف اللہ تعالیٰ ہے ۔ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو خود بھی میرے احکام اور وحی کا تابعدار رہ اور اسی پر مضبوطی سے جما رہ ۔ لوگوں کی مخالفت کی کوئی پرواہ نہ کر ۔ ان کی ایذاؤں پر صبر و تحمل سے کام لے یہاں تک کہ خود اللہ تجھ میں اور ان میں فیصلہ کر دے ۔ وہ بہترین فیصلے کرنے والا ہے جس کا کوئی فیصلہ عدل سے حکمت سے خالی نہیں ہوتا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

108۔ 1 حق سے مراد قرآن اور دین اسلام ہے، جس میں توحید الٰہی اور رسالت محمدیہ پر ایمان نہایت ضروری ہے۔ 108۔ 2 یعنی اس کا فائدہ اسی کو ہوگا کہ قیامت والے دن اللہ کے عذاب سے بچ جائے گا۔ 108۔ 3 یعنی اس کا نقصان اور وبال اسی پر پڑے گا کہ قیامت کو جہنم کی آگ میں جلے گا۔ گویا کوئی ہدایت کا راستہ اپنائے گا تو، تو اس سے کوئی اللہ کی طاقت میں اضافہ نہیں ہوجائے گا اور اگر کوئی کفر اور ضلالت کو اختیار کرے گا تو اس سے اللہ کی حکومت و طاقت میں کوئی فرق واقع نہیں ہوجائے گا۔ گویا ایمان و ہدایت کی ترغیب اور کفر و ضلالت سے بچنے کی تاکید و ترتیب، دونوں سے مقصد انسانوں ہی کی بھلائی اور خیر خواہی ہے۔ اللہ کی اپنی کوئی غرض نہیں۔ 108۔ 4 یعنی یہ ذمہ داری مجھے نہیں سونپی گئی ہے کہ میں ہر صورت میں تمہیں مسلمان بنا کر چھوڑوں بلکہ میں تو صرف بشیر اور نذیر اور مبلغ اور داعی ہوں۔ میرا کام صرف اہل ایمان کو خوشخبری دینا، نافرمانوں کو اللہ کے عذاب اور اس کے مواخذے سے ڈرانا اور اللہ کے پیغام کی دعوت و تبلیغ ہے۔ کوئی اس دعوت کو مان کر ایمان لاتا ہے تو ٹھیک ہے، کوئی نہیں مانتا تو میں اس بات کا مکلف نہیں ہوں کہ اس سے زبردستی منوا کر چھوڑوں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١٦] ہدایت کے تین اصول & ہدایت قبول کرنے کے فوائد :۔ گویا مندرجہ بالا تین آیات میں مجملاً ہدایت کا مفہوم بیان کردیا گیا ہے جو درج ذیل اصولوں پر مشتمل ہے ہر طرح کے شرک سے مکمل اجتناب، خالصتاً اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ رکھنا اور اسے نفع و نقصان کا مالک سمجھنا اور منزل من اللہ شریعت پر ادھر ادھر دیکھے بغیر پوری یکسوئی کے ساتھ گامزن ہوجانا اور ایسی ہدایت اختیار کرنے والے کو دنیا میں تو یہ فائدہ پہنچتا ہے کہ زندگی کے ہر شعبہ کے لیے اسے مکمل رہنمائی حاصل ہوجاتی ہے اور اسے بیرونی نظریات اور فلسفوں کی ضرورت نہیں رہتی اور زندگی ذمہ دارانہ اور پرسکون طور پر گزرتی ہے اور آخرت میں یقیناً فلاح نصیب ہوگی اور جو شخص ایسی ہدایت کو اختیار نہیں کرتا وہ ساری زندگی ادھر ادھر لڑھکتا ہی رہتا ہے اسے دنیا تو اتنی مل ہی جاتی ہے جتنی اس کے نصیب میں ہوتی ہے مگر سکون نہیں مل سکتا اور آخرت میں اس کی تباہی و بربادی یقینی ہے اور اس تباہی کا ذمہ دار وہ خود ہوتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَمَآ اَنَا عَلَيْكُمْ بِوَكِيْلٍ : یعنی میں تمہارا ذمہ دار نہیں ہوں کہ اگر تم سیدھی راہ پر نہ آؤ تو مجھ سے باز پرس ہو۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر آپ ( یہ بھی) کہہ دیجئے کہ اے لوگو ! تمہارے پاس ( دین) حق تمہارے رب کی طرف سے ( بدلیل) پہنچ چکا ہے سو ( اس کے پہنچ جانے کے بعد) جو شخص راہ راست پر آجاوے گا سو وہ اپنے ( نفع کے) واسطے راہ راست پر آوے گا، اور جو شخص ( اب بھی) بےراہ رہے گا تو اس کا بےراہ ہونا ( یعنی اس کا وبال بھی) اسی پر پڑے گا اور میں تم پر ( کچھ بطور ذمہ داری کے) مسلط نہیں کیا گیا ( کہ تمہاری بےراہی کی باز پرس مجھ سے ہونے لگے تو میرا کیا نفصان ہے) اور آپ اس کا اتباع کرتے رہئے جو کچھ آپ کے پاس وحی بھیجی جاتی ہے ( اس میں سب اعمال کے ساتھ تبلیغ بھی آگئی) اور ( ان کے کفر و ایذاء پر) صبر کیجئے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ ( ان کا) فیصلہ کردیں گے ( خواہ دنیا میں ہلاکت کے ساتھ خواہ آخرت میں عذاب کے ساتھ مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے ذاتی اور منصبی کام میں لگے رہئے، ان کی فکر نہ کیجئے) اور وہ سب فیصلہ کرنے والوں میں اچھا ( فیصلہ کرنے والا) ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ قَدْ جَاۗءَكُمُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكُمْ۝ ٠ ۚ فَمَنِ اہْتَدٰى فَاِنَّمَا يَہْتَدِيْ لِنَفْسِہٖ۝ ٠ ۚ وَمَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْہَا۝ ٠ ۭ وَمَآ اَنَا عَلَيْكُمْ بِوَكِيْلٍ۝ ١٠٨ ۭ نوس النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] ( ن و س ) الناس ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ ( قَدْ ) : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة . نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ . و ( قَدْ ) و ( قط) يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر . ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔ جاء جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] ، ( ج ی ء ) جاء ( ض ) جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔ حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ اهْتِدَاءُ يختصّ بما يتحرّاه الإنسان علی طریق الاختیار، إمّا في الأمور الدّنيويّة، أو الأخرويّة قال تعالی: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِها [ الأنعام/ 97] ، وقال : إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ لا يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلا يَهْتَدُونَ سَبِيلًا[ النساء/ 98] ويقال ذلک لطلب الهداية نحو : وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ وَالْفُرْقانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة/ 53] ، الاھتداء ( ہدایت پانا ) کا لفظ خاص کر اس ہدایت پر بولا جاتا ہے جو دینوی یا اخروی کے متعلق انسان اپنے اختیار سے حاصل کرتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِها [ الأنعام/ 97] اور وہی تو ہے جس نے تمہارے لئے ستارے بنائے تاکہ جنگلوں اور در یاؤ کے اندھیروں میں ان سے رستہ معلوم کرو ضل الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] ويقال الضَّلَالُ لكلّ عدولٍ عن المنهج، عمدا کان أو سهوا، يسيرا کان أو كثيرا، فإنّ الطّريق المستقیم الذي هو المرتضی صعب جدا، قال النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : «استقیموا ولن تُحْصُوا» ( ض ل ل ) الضلال ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔ اور ضلال کا لفظ ہر قسم کی گمراہی پر بولا جاتا ہے یعنی وہ گمراہی قصدا یا سہوا معمول ہو یا زیادہ کیونکہ طریق مستقیم ۔ جو پسندیدہ راہ ہے ۔۔ پر چلنا نہایت دشوار امر ہے ۔ جیسا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(11) استقیموا ولن تحصوا کہ استقامت اختیار کرو اور تم پورے طور پر اس کی نگہداشت نہیں کرسکوگے ۔ وكيل التَّوْكِيلُ : أن تعتمد علی غيرک وتجعله نائبا عنك، والوَكِيلُ فعیلٌ بمعنی المفعول . قال تعالی: وَكَفى بِاللَّهِ وَكِيلًا[ النساء/ 81] أي : اکتف به أن يتولّى أمرك، ( و ک ل) التوکیل کے معنی کسی پر اعتماد کر کے اسے اپنا نائب مقرر کرنے کے ہیں اور وکیل فعیل بمعنی مفعول کے وزن پر ہے ۔ قرآن میں : ۔ وَكَفى بِاللَّهِ وَكِيلًا[ النساء/ 81] اور خدا ہی کافی کار ساز ہے ۔ یعنی اپنے تمام کام اسی کے سپرد کر دیجئے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٠٨) آپ یہ بھی فرمادیجیے کہ اے اہل مکہ کتاب الہی اور رسول تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس پہنچ چکا ہے سو جو کتاب اور رسول کے ذریعے راہ راست پر آجائے گا اس کا ثواب اسی کو ملے گا اور جو شخص کتاب اور رسول کا انکار کرے گا تو اس کی سزا اسی منکر کو ملے گی اور میں تمہارا ذمہ دار مقرر نہیں کیا گیا، یہ آیت، آیت قتال سے منسوخ ہوگئی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٠٨ (قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ قَدْ جَاۗءَكُمُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكُمْ ۚ فَمَنِ اهْتَدٰى فَاِنَّمَا يَهْتَدِيْ لِنَفْسِهٖ ۚ ) اس ہدایت کا فائدہ اسی کو ہوگا عاقبت اسی کی سنورے گی اور اللہ کی رحمت اس کے شامل حال ہوگی۔ (وَمَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا ۭ وَمَآ اَنَا عَلَيْكُمْ بِوَكِيْلٍ ) مجھے تمہارے اوپر کوئی داروغہ مقرر نہیں کیا گیا۔ میں تمہارے بارے میں مسؤل نہیں ہوں۔ اللہ کے ہاں تمہارے بارے میں مجھ سے باز پرس نہیں ہوگی کہ یہ ایمان کیوں نہیں لائے تھے ؟ (وَلاَ تُسْءَلُ عَنْ اَصْحٰبِ الْجَحِیْمِ ) (البقرۃ) اور آپ سے نہیں پوچھا جائے گا جہنمیوں کے بارے میں ! “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

43: یعنی میرا کام دعوت اور تبلیغ ہے، ماننا نہ ماننا تمہارا کام ہے، اور تمہارے کفر اور بداعمالیوں کی مجھ سے پوچھ نہیں ہوگی۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٠٨۔ ١٠٩۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس آیت میں حکم ہوا کہ آپ لوگوں سے کہہ دیں کہ جو دین اور کتاب میں لے کر آیا ہوں وہ بالکل حق ہے اس میں کوئی شک اور شبہ نہیں ہے جو اس سے ہدایت پائے گا وہ اپنی ہی جان کے لئے پائے گا اور اپنا آپ فائدہ اٹھائے گا۔ دوسروں کا اس میں کچھ حصہ نہیں اور جو اس کو نہ مانے گا اور گمراہ کا گمراہ ہی رہے گا اس کا وبال اسی کی گردن پر ہوگا اوروں کو اس سے کوئی علاقہ نہیں اور میں تم لوگوں کا کوئی وکیل و مختار نہیں ہوں کہ سب ہی کو ایماندار بنادوں مجھے تو خدا نے راستہ بتانے کو بھیجا ہے جو خدا کا پیغام ہے وہ تمہیں پہنچا دیتا ہوں اب آگے تم جانو اور خدا جانے۔ اور پھر خاص حضرت کو خدا نے یہ حکم کیا کہ آپ تو وحی کے تابعدار بنے رہیں اور جب تک خدا ان لوگوں کا کوئی فیصلہ نہ کرے آپ صبر کئے رہیں وہ بڑے انصاف کے ساتھ انصاف کرنے والا حاکم ہے۔ امام سیوطی کا قول ہے کہ حضرت صبر کیے رہے پھر خدا کا حکم ہوا کہ ان مشرکوں سے جنگ کرو اگر ایمان لائیں تو خیر ورنہ قتل کر ڈالو۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے مغیرہ بن شعبہ (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ادنیٰ اہل جنت کو اس قدر سامان دیا جاوے گا جو دنیا کی پانچ بادشاہتوں کے برابر ہوگا اور اعلیٰ درجے کے اہل جنت کے سامان کا حال اللہ تعالیٰ کو یہ خوب معلوم ہے نہ کسی نے وہ آنکھوں سے دیکھا نہ کانوں سے سنا نہ اس کا تصور کسی کے دل میں گزر سکتا ہے۔ ١ ؎ یہ حدیث ( فمن اھتدی فانما یھتدی لنفسہ) کی گویا تفسیر ہے صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے عبد اللہ بن مسعود (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ ابو جہل اور اس کے چند ساتھیوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سجدہ کی حالت میں دیکھ کر آپ کی پیٹھ پر نجاست کی بھری ہوئی اوجھڑی ڈال دی۔ ٢ ؎ عبد اللہ بن مسعود (رض) اس روایت میں یہ بھی کہتے ہیں کہ ان اوجھڑی ڈالنے والوں میں سے اکثر لوگ بدر کی لڑائی میں مشرک مارے گئے اور میں نے ان کی لاشوں کو دیکھا یہ حدیث { واصبر حتی یحکم اللّٰہ وھو خیر الحاکمین } کی گویا تفیر ہے۔ معتبر سند سے ترمذی اور مستدرک حاکم میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک روز کہا کہ حضرت آپ تو جلدی بوڑھے ہوگئے آپ نے فرمایا مجھ کو سورة ہود اور سورة واقعہ اور سورة والمرسلات اور سورة عم یتسألون اور سورة اذا لشمس کورت نے بوڑھا کردیا۔ ٣ ؎ حاصل یہ ہے کہ ان سورتوں میں حالات قیامت کا ذکر ہے ان حالات کے سننے سے آپ کے دل پر ایسا اثر خوف کا ہوا جس خوف اور اندیشہ کے اثر نے آپ کو ضعیف کردیا کیوں کہ آدمی ہر وقت کے اندیشہ سے جلدی ضعیف ہوجاتا ہے امت کے ان غافلوں کو اس حدیث کے مضمون پر ذرا غور کرنا چاہیے جو قیامت کے حساب و کتاب سے بالکل غافل ہیں اور سوچنا چاہیے کہ قیامت ایسی ایک اندیشہ کی چیز ہے جس اندیشہ نے باوجود نبی ہونے کے نبی وقت کو بوڑھا کردیا اسی مضمون کی ایک حدیث صحیح سند سے عقبہ بن عامر (رض) کی روایت سے تفسیر ابن مردویہ اور طبرانی میں ہے ٤ ؎ یہ سورة مکی ہے اگرچہ بعضے سلف نے اس میں کچھ آیتیں مدنی قرار دی ہیں لیکن اس تفسیر کے مقدمہ میں یہ گزر چکا ہے کہ جس سورت کی شروع کی آیتیں مکی ہوں وہ ساری سورت مکی کہلاتی ہے۔ ١ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٤٣٥ ج ٢۔ ٢ ؎ مجمع الزوائد ص ٣٧ ج ٧ تفسیر سورة ھود۔ ٣ ؎ الترغیب ص ٣٢٦ ج ٢ فصلی فیما لادنی اھل اجنۃ۔ ٤ ؎ مشکوۃ ص ٥٠٢ باب صفۃ النار واھلہا۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(10:108) وکیل ۔ ذمہ دار۔ ضامن۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 ۔ یعنی تمہارا نگران اور ذمہ دار نہیں ہوں کہ اگر تم سیدھی راہ پر نہ آئو تو مجھ سے باز پرس ہو۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 108 تا 109 اھتدیٰ (جس نے ہدایت حاصل کی) ضل (بھٹک گیا) وکیل (کام بنانے والا) اتبع (اتباع کیجیے ، پیچھے چلئے) یوحی (وحی کی گئی ہے) یحکم (وہ فیصلہ کرے گا) خیر الحکمین (بہترین فیصلہ کرنے والا ) تشریح : آیت نمبر 108 تا 109 سورئہ یونس میں اللہ تعالیٰ نے خیر اور شرق حق اور باطل کی تمام حقیقتوں کو کھول کر بیان کردیا ہے۔ ایک طرف فرعون، اس کے تکبر اور برے انجام کو بیان فرمایا ہے دوسری طرف حضرت نوح ، حضرت موسیٰ اور حضرت یونس کے واقعات کو مختصر انداز میں بیان کر کے اس بات کی وضاحت فرما دی ہے کہ انسان کے لئے نجات کا راستہ صرف ایک ہی ہے کہ ہر انسان اللہ تعالیٰ اس کے رسول اور اس کی بھیجی ہوئی تعلیمات پر پوری طرح عمل کرے، اس راستے کے علاوہ نجات کی کوئی اور شکل نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی اور آخری رسول حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھیج کر ایک مرتبہ پھر حق کی راہ سے بھٹکے ہوئے انسانوں کی ہدایت کے لئے مقرر فرما دیا ہے۔ اب اگر کوئی بھی شخص گمراہی یا گمراہوں کا راستہ اختیار کرے گا تو اس کا انجام فرعون، ہامان اور شداد سے مختلف نہ ہوگا لیکن جس نے نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت و محبت کا حق ادا کر کے ان کے راستے کو منتخب کرلیا تو دنیا اور آخرت میں اس کی کامیابی یقینی ہے۔ جس کے لئے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جاں نثار صحابہ کرام کی زندگیاں بطور مثال پیش کی جاسکتی ہیں جنہوں نے نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہر طریقے اور سنت سے اتنا پیار کیا کہ وہ کائنات کی عظمت کے نشان بن گئے لیکن وہ لوگ جنہوں نے آپ کے طریقہ سے منہ پھیر اور اس بڑی طرح ناکام ہوئے کہ آج ان کا نام لیوا ابھی تک کوئی نہیں ہے ، وہ تاریخ انسانی کے بدنما داغ بن گئے۔ صحابہ کرام کو تو یہ عظمت حاصل ہے کہ اگر کوئی ان کی اولاد ہے تو وہ ان کی نسبت پر بھی فخر کرتی ہے لیکن وہ کتنے بدقسمت ہیں جن کی اولادیں بھی ایسے لوگوں کی طرف اپنی نسبت / توہین سمجھتی ہیں۔ سورئہ یونس کی ان دو آیتوں میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا گیا ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ اس بات کا اعلان فرما دیجیے کہ حق و صداقت کا ہر راستہ واضح ہو کر تمہارے سامنے آچکا ہے۔ جو شخص راہ ہدایت پر چلے گا اس کا فائدہ وہ حاصل کرسکے گا لیکن جو گمراہی کے راستے پر چل پڑا ہے وہ اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہے۔ میں اس کے اعمال کا ذمہ دار نہیں ہوں۔ میں نے ہر سچی بات ہر انسان تک پہنچا دی ہے۔ آخر میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے واسطے سے قیامت تک آنے والے ہر شخص سے فرما دیا گیا ہے کہ ہر شخص اپنے بھلے برے کا خود ذمہ دار ہے۔ فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ یہ دیکھیے بغیر کہ کون وحی کی پیروی کر رہا ہے اور کون نہیں کر رہا ہے آپ وحی الٰہی کی پیروی کیجیے۔ لوگوں کی باتوں پر صبر و تحمل کا مظاہرہ کیجیے یہاں تک کہ اللہ کا فیصلہ اور حکم آجائے ۔ یقینا وہ اللہ ایک دن ان کے درمیان فیصلہ فرما دے گا کیونکہ وہی بہترین فیصلہ کنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے عاجزانہ درخواست ہے کہ اللہ ہم سب کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی لائی ہوئی تعلیمات پر پوری طرح سے عمل کرنے اطاعت و فرماں برداری کرنے کی توفیقف عطا فرمائے اور جس طرح حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام کامیاب و بامراد ہوئے اللہ ہمیں دین و دنیا میں کامیاب فرما کر ہماری نجات فرما دے ۔ آمین ثم آمین الحمد للہ سورة یونس کا ترجمہ و تشریح مکمل ہوئی اللہ ہم سب کو حسن عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین واخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ اوپر دین اسلام کی حقیقت ظاہر کی گئی ہے اب اس اظہار کا موجب اتمام حجت ہونا مذکور ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اس آیت سے چار آیات قبل حکم تھا کہ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کو فرمائیں اگر تمہیں میرے عقیدہ اور دین کے بارے میں شک ہے تو میرے راستے میں رکاوٹ بننے کی بجائے مجھے اپنے طریقہ پر اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت کرنے دیجیے۔ اب ارشاد ہوتا ہے یہی حق ہے جو تمہارے رب کی طرف سے تم تک پہنچ چکا ہے۔ جو حق کی پیروی کرے گا اس کا فائدہ اسے ہی پہنچے گا اور جس نے توحید کا عقیدہ چھوڑ دیا۔ اس کا وبال اسے ہی اٹھانا پڑے گا۔ اور مجھے تم پر وکیل بنا کر نہیں بھیجا گیا وکیل کا معنی ہے دوسرے کے کام کا ذمہ دارہونا۔ نبی کا کام حق پہنچانا ہوتا ہے منوانا نہیں۔ لہٰذا اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ اسی کی اتباع کریں جو آپ کی طرف وحی کیا جاتا ہے اور لوگوں کی مخالفت پر حوصلہ رکھیں اور پوری دلجمعی اور ثابت قدمی کے ساتھ اپنا کام کرتے جائیں۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا حکم آپہنچے اللہ تعالیٰ بہترین حاکم ہے۔ اللہ کے حکم سے مراد ظالموں پر عذاب اور حق والوں کی کامیابی ہے۔ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) قَالَ سَمِعْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ إِنَّ اللَّہَ قَالَ إِذَا ابْتَلَیْتُ عَبْدِی بِحَبِیبَتَیْہِ فَصَبَرَ عَوَّضْتُہُ مِنْہُمَا الْجَنَّۃَ )[ رواہ البخاری : باب فضل من ذھب بصرہ ] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا جس کو اللہ تعالیٰ اس کی دو محبوب (آنکھوں) چیزوں کے ساتھ آزماتا ہے اور وہ اس پر صبر کرتا ہے۔ اللہ اس کے عوض اسے جنت عطا فرمائیں گے۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حق پہنچ چکا ہے۔ ٢۔ حق کا راستہ اپنانے والے کو اس کا فائدہ ہوگا۔ ٣۔ گمراہی اختیار کرنے والے کو اس کا نقصان ہوگا۔ ٤۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی کی ہدایت کے ذمہ دار نہیں تھے۔ ٥۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وحی کی تابعداری کا حکم دیا گیا۔ ٦۔ دین کے راستے میں مشکلات آئیں تو صبر سے کام لینا چاہیے۔ ٧۔ اللہ تعالیٰ سب سے بہتر فیصلہ فرمانے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن سب لوگ اللہ تعالیٰ کے حکم کے پابند ہیں : ١۔ صبر کا دامن نہ چھوڑیں یہاں تک کہ اللہ فیصلہ صادر فرما دے۔ (یونس : ١٠٩) ٢۔ نہیں ہے حکم مگر اللہ کا۔ اس کا حکم ہے کہ عبادت صرف اسی کی کی جائے۔ (یوسف : ٤٠) ٣۔ بیشک اللہ جو چاہتا ہے فیصلہ فرماتا ہے۔ (المائدۃ : ١) ٤۔ اللہ قیامت کے دن لوگوں کے درمیان فیصلہ کرے گا جس میں وہ اختلاف کرتے ہیں۔ (البقرۃ : ١١٣) ٥۔ قیامت کے دن آپ کا پروردگار ان کے درمیان فیصلہ کرے گا۔ (النحل : ١٢٤، النساء : ١٤١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قل یایھا الناس قد جاء کم الحق من ربکم (اے محمد ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) ! ) آپ کہہ دیجئے : لوگو ! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے صحیح واقعہ علم آگیا۔ الحقّ سے مراد ہے صحیح علم ‘ یعنی اللہ کی توحید وصفات اور مبدء و معاد کے احوال قرآن میں اور رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) کی زبانی بتا دئیے ‘ اب کسی کیلئے جہالت کا عذر باقی نہیں رہا۔ یا حق سے مراد ہے وہ (قرآن مجید یا رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) کی رسالت) جس کا اثبات اعجاز کے ذریعہ سے کردیا گیا اور کسی کو کوئی عذر باقی نہیں رہا۔ فمن اھتدی اب جو بھی ہدایت یاب ہو ‘ یعنی اس علم پر ایمان رکھے اور اس کی بتائی ہوئی راہ پر چلے۔ فانما یھتدی لنفسہ خود اپنے فائدہ کیلئے ہدایت یاب ہوگا (یعنی خود اس کا فائدہ ہوگا) ۔ ومن ضل اور جو (راہ حق سے) بھٹک جائے گا ‘ انکار کرے گا۔ فانما یضل علیھا تو گمراہی کا ضرر اسی کے نفس پر پڑے گا۔ فما انا علیکم بوکیل اور میں تمہارا ذمہ دار نہیں ہوں۔ تمہارے امور کی ذمہ داری مجھ پر نہیں ہے کہ تمہاری گمراہی کا مؤاخذہ مجھ سے ہو۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

ہدایت کا نفع اور گمراہی کا نقصان انسان کو ذاتی طور پر خود پہنچتا ہے یہ سورة یونس کی آخری دو آیات ہیں اس سے چار آیات پہلے تمام انسانوں کو خطاب تھا۔ اور اب سورت کے ختم پر آنحضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ آپ تمام انسانوں سے فرما دیں کہ تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس حق آپہنچا ہے اسے قبول کرو ‘ اور میں تم پر مسلط نہیں کیا گیا ہوں کہ تم سے قبول کروا کے چھوڑوں ‘ جو شخص قبول کرے گا ہدایت کی طرف آئے گا اس کا نفع اس کی جان ہی کو ہوگا اور جو شخص گمراہی پر جما رہے اور حق کا ابتاع نہ کرے اس کا وبال اسی کی جان پر ہوگا۔ ہدایت پر آنا اور گمراہی پرجما رہنا یہ ہر شخص کا ذاتی مسئلہ ہے ہدایت کا نفع ہدایت والے ہی کو پہنچے گا۔ وہ آخرت کی نعمتوں کا مستحق ہوگا ‘ اور جو شخص گمراہ ہوگا اس کی گمراہی اسے دوزخ میں پہنچادے گی ‘ لہٰذا اپنا نفع نقصان ہر شخص خودہی سمجھ لے ‘ اس کام کے کرنے پر لوگوں سے تکلیفیں پہنچتی ہیں۔ آپ ان تکلیفوں پر صبر کیجئے اور اللہ تعالیٰ کے فیصلہ کا انتظار کیجئے وہ سب فیصلہ کرنے والوں سے اچھا فیصلہ کرنے والا ہے ‘ جو لوگ حق کو قبول نہیں کرتے اور اللہ تعالیٰ اپنی حکمت وعدل کے مطابق ان کے بارے میں فیصلہ فرمائے گا۔ دنیا میں اور آخرت میں یا صرف آخرت میں مبتلائے عذاب ہوں گے۔ قال صاحب الروح (ص ٤٠٤ ج ١١) ولا یخفی ما فی ھذہ الایات من الموعظۃ الحسنۃ وتسلیۃ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ووعدالمومنین والوعید للکافرین والحمد للہ تعالیٰ رب العلمین والصلوٰۃ والسلام علی سید المرسلین ‘ الذی یؤنس ذکرہ قلوب الموحدین ‘ وعلی الہ وصحبہ اجمعین۔ (صاحب روح المعانی فرماتے ہیں ان آیات میں جو عمدہ نصیحت ہے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے تسلی ہے اور مومنوں کے لیے وعدہ اور کافروں کیلئے وعید ہے وہ واضح ہے)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

116: یہ مسئلہ توحید مان لینے کی ترغیب ہے۔ لوگو ! اللہ کی طرف سے حق تمہارے پاس آچکا ہے اور دلائل سے واضح ہوچکا ہے اس لیے اسے قبول کرلو اس میں تمہارا ہی فائدہ ہے جو شخص توحید اور دین حق کو قبول کرتا ہے وہ اپنے ہی بھلے کا کام کرتا ہے اور جو اس کا انکار کرتا ہے وہ انکار وجحود کا نتیجہ اور اس کا ضرر بھی خود ہی پائے گا۔ “ وَ مَا اَنَا عَلَیْکُمْ بِوَکِیْلٍ ” میرا کام تبلیغ حق ہے۔ میں نے اپنا فریضہ تبلیغ ادا کردیا باقی رہا تم سے منوانا تو وہ میرا کام نہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

108 اے پیغمبر آپ افراد انسانی سے کہہ دیجئے اے لوگو یقینا ًتمہارے پروردگار کی جانب سے تمہارے پاس دین حق پہونچ چکا اور سچی بات آ پہونچی سو اب جو شخص صحیح اور سیدھی راہ اختیار کرتا ہے تو وہ اپنے ہی بھلے اور اپنے ہی نفع کے واسطے اختیار کرتا ہے اور جو شخص اب بھی بےراہ رہتا ہے اور گمراہی اختیار کرتا ہے تو وہ اپنے ہی برے کو بھٹکا پھرے گا وہ اپنے ہی نقصان کو گمراہ اور بےراہ رہے گا اور میں تم پر کوئی مختار کار نہیں مقرر ہوا ہوں یعنی حق بات کو قبول کرنیوالا کا بھلا اور بےراہی میں گمراہوں پر ہی وبال پڑتا ہے مجھے کوئی ذمہ دارانہ تسلط تم پر حاصل نہیں ہے کہ میں تمہیں جبرو اکراہ کے ساتھ غلط راہ سے باز رکھ سکوں۔