Surat Younus

Surah: 10

Verse: 19

سورة يونس

وَ مَا کَانَ النَّاسُ اِلَّاۤ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً فَاخۡتَلَفُوۡا ؕ وَ لَوۡ لَا کَلِمَۃٌ سَبَقَتۡ مِنۡ رَّبِّکَ لَقُضِیَ بَیۡنَہُمۡ فِیۡمَا فِیۡہِ یَخۡتَلِفُوۡنَ ﴿۱۹﴾

And mankind was not but one community [united in religion], but [then] they differed. And if not for a word that preceded from your Lord, it would have been judged between them [immediately] concerning that over which they differ.

اور تمام لوگ ایک ہی امت کے تھے پھر انہوں نے اختلاف پیدا کر لیا اور اگر ایک بات نہ ہوتی جو آپ کے رب کی طرف سے پہلے ٹھہر چکی ہے تو جس چیز میں یہ لوگ اختلاف کر رہے ہیں ان کا قطعی فیصلہ ہو چکا ہوتا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Mankind were but one community, then they differed (later); and had not it been for a Word that went forth before from your Lord, it would have been settled between them regarding what they differed. Allah then tells us that Shirk was new among mankind. It was not in existence in the beginning. He tells us that people were believers in one religion and that religion was Islam. Ibn Abbas said: "There were ten centuries between Adam and Nuh. They were all on Islam. Then differences among people took place. They worshipped idols and rivals. So Allah sent extensive evidence and irrefutable proof with His Messengers." لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَن بَيِّنَةٍ وَيَحْيَى مَنْ حَىَّ عَن بَيِّنَةٍ So that those who were to be destroyed (for rejecting the faith) might be destroyed after a clear evidence, and those who were to live might live after a clear evidence. (8:42) Allah's statement: ... وَلَوْلاَ كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِن رَّبِّكَ ... And had not it been for a Word that went forth before from your Lord... means that if Allah had not decreed He would not punish anyone until the evidence is established against them. And also that if He had not given creatures a respite until a defined term had passed, He would have judged among them in what they disputed. Then He would have caused the believers to be happy and delighted and the disbelievers to be miserable and wretched.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

19۔ 1 یعنی یہ شرک، لوگوں کی اپنی ایجاد ہے ورنہ پہلے پہل اس کا کوئی وجود نہ تھا۔ تمام لوگ ایک ہی دین اور ایک ہی طریقہ پر تھے اور وہ اسلام ہے جس میں توحید کی بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) تک لوگ اسی توحید پر قائم رہے پھر ان میں اختلاف ہوگیا اور کچھ لوگوں نے اللہ کے ساتھ دوسروں کو بھی معبود، حاجت روا اور مشکل کشا سمجھنا شروع کردیا۔ 19۔ 2 یعنی اگر اللہ کا فیصلہ نہ ہوتا کہ، تمام حجت سے پہلے کسی کو عذاب نہیں دیتا، اس طرح اس نے مخلوق کے لئے ایک وقت کا تعین نہ کیا ہوتا تو یقینا وہ ان کے مابین اختلافات کا فیصلہ اور مومنوں کو سعادت مند اور کافروں کو عذاب میں مبتلا کرچکا ہوتا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٠] یعنی سیدنا آدم (علیہ السلام) کے بعد کافی مدت لوگ ایک ہی دین پر رہے پھر اختلاف کرکے فرقے بن گئے ان میں سے کچھ لوگ تو سیاروں کے انسانی زندگی پر اثرات تسلیم کرنے کے بعد ان کے پجاری بن گئے اور کچھ لوگوں نے اپنے بزرگوں کے مجسمے بنائے اور ان کی عبادت کرنے لگے اور توحید کی سیدھی راہ کو چھوڑ کر شرک کی راہوں پر جا پڑے۔ [٣١] پہلے سے طے شدہ کلمہ کیا ہے ؟ وہ طے شدہ بات یہ تھی کہ چونکہ یہ دنیا دارالعمل اور دارالامتحان ہے اس لیے کسی کو بھی اس کے جرم کی پاداش میں فوری طور پر سزا نہیں دی جائے گی اگر یہ بات پہلے سے مشیت الٰہی میں نہ ہوتی تو جب کچھ لوگ کوئی نیا فرقہ بناتے تو اللہ کا عذاب انہیں فوراً تباہ و برباد کردیتا اور اس طرح یہ دنیا کب کی ختم ہوچکی ہوتی اور اگر کچھ لوگ بچ جاتے اور وہ ایمان لے بھی آتے تو ایسے جبری ایمان کا کچھ فائدہ بھی نہ تھا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَمَا كَان النَّاسُ اِلَّآ اُمَّةً وَّاحِدَةً فَاخْتَلَفُوْا : اس زمانے کے ملحد فلسفیوں اور تاریخ سازوں کے برعکس قرآن بار بار یہ اعلان کرتا ہے کہ انسانیت کی ابتدا کفر یا شرک سے نہیں بلکہ خالص توحید سے ہوئی۔ ابتدا میں تمام انسان ایک ہی دین، یعنی اسلام رکھتے تھے اور ایک ہی ان کی ملت تھی، لیکن آہستہ آہستہ انھوں نے اس دین سے انحراف کیا اور اپنی خواہشات کے پیچھے لگ کر آپس میں اختلاف کرکے اپنی اپنی مرضی کے دین اور قانون گھڑ لیے۔ دیکھیے سورة بقرہ (٢١٣) ۔ وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ ۔۔ : یعنی اگر اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی یہ فیصلہ نہ کرلیا ہوتا کہ دنیا میں لوگوں کو مہلت دی جائے گی، تاکہ وہ اپنی عقل و فہم سے کام لے کر جس راستے کو چاہیں اختیار کریں اور جس راستے کو چاہیں چھوڑ دیں اور قیامت ہی کے دن انھیں ان کے اچھے یا برے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا تو کبھی کا اللہ تعالیٰ حقیقت کو بےنقاب کرکے ان لوگوں کو پکڑ چکا ہوتا جو ایمان کا راستہ چھوڑ کر کفر و شرک کے راستے پر چل رہے ہیں۔ (ابن کثیر، قرطبی)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Disbelievers and Believers are two separate nationalities: Nationality based on race and country is absurd The statement: كَانَ النَّاسُ إِلَّا أُمَّةً وَاحِدَةً (And people were but one community) in verse 19 means that the progeny of Sayyidna Adam (علیہ السلام) was essentially a single community of monotheists in the earlier stages of man&s presence in the world. Shirk and Kufr were unknown as such. Then came up difference in the principle of pure monotheism that divided human beings in different nations and groups of people. How long this period of a single community of believers last? Original sources of Islamic Tradition tell us that this situation prevailed up to the time of Sayyidna Nuh (علیہ السلام) (Noah). It was during his time that Shirk and Kufr showed up and he was the one who had to confront it first. (Tafsir Mazhari) Then, it is also obvious that there is a long period of time between Sayyidna Adam and Sayyidna Nuh may peace be on them both. Human race had multiplied and population had spread out in the world. The presence of differences in color, ethnicity and social life styles was natural. That people had spread themselves out in different regions would have certainly generated differences on the basis of country and homeland. Then, it is also possible that spoken languages may have become somewhat different. But, the Holy Qur&an did not allow these natural genealogical or tribal differences or those of color and country to become impediments to the grand design of one community. In fact, it did not declare the progeny of Sayyidna Adam (علیہ السلام) to be different nations and communities because of these differ¬ences. Instead, it gave them the status of one community. Of course, when Kufr and Shirk spread out and posed a threat to &Iman or true belief, Kafirs and Mushriks were declared to be a separate community of people as indicated in: فَاخْتَلَفُوا (later, they differed). Another verse of the Holy Qur&an: هُوَ الَّذِي خَلَقَكُمْ فَمِنكُمْ كَافِرٌ‌ وَمِنكُم مُّؤْمِنٌ is He who created you; yet there is among you a disbeliever and there is among you a believer - At-taghabun, 64:2) makes it more explicit. It tells that the thing that separates the progeny of Sayyidna Adam (علیہ السلام) created by Allah into different peoples is the deviation from &Iman and Islam. Bonds of lineage or country do not make people separate. Bracketing human beings into different groups on the basis of lan¬guage, homeland, color or race is ignorance dished out in the garb of enlightenment. It is new. But everything new is not necessarily true and wise. In fact, it might as well be the exact opposite of what is wise. Today, there are many educated people who have also fallen into the trap of this narrow concept of nationalism based on the factors enu¬merated above. Unfortunately, this approach towards ordering the so¬cial life of human beings is fraught with seeds of countless unseen dis¬asters. May Allah keep Muslims safe from its evil effects.

معارف و مسائل کافر و مسلم دو قومیں الگ الگ ہیں نسلی اور وطنی قومیت لغو ہے : (آیت) كَان النَّاسُ اُمَّةً وَّاحِدَةً ، یعنی تمام اولاد آدم شروع میں ایک ہی امت ایک ہی قوم موحدین کی تھی، شرک و کفر کا نام نہیں تھا، پھر توحید میں اختلاف پیدا کرکے مختلف قومیں مختلف گروہ بن گئے۔ یہ زمانہ امت واحدہ اور سب کے مسلمان ہونے کا کتنا تھا اور کب تک رہا ؟ روایات حدیث و سیر سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کے زمانے تک یہی صورت تھی، نوح (علیہ السلام) کے زمانے میں شرک و کفر ظاہر ہوا، حضرت نوح (علیہ السلام) کو اس کا مقابلہ کرنا پڑا ( تفسیر مظہری ) ۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) سے نوح (علیہ السلام) تک ایک طویل زمانہ ہے دنیا میں انسانوں کی نسلیں اور آبادی کافی پھیل چکی تھی، ان تمام انسانوں میں رنگ و روپ اور طرز معاشرت کا اختلاف ہونا بھی ایک طبعی امر ہے اور مختلف خطوں میں پھیل جانے کے بعد وطن کا اختلاف بھی یقینی ہے اور ممکن ہے کہ بول چال میں زبانیں بھی کچھ مختلف ہوگئی ہوں، مگر قرآن کریم نے اس نسبی قبائلی، لونی، وطنی اختلاف کو جو امور فطریہ ہیں، وحدت امت میں خلل انداز قرار نہیں دیا، اور ان اختلافات کی وجہ سے اولاد آدم کو مختلف قومیں مختلف امتیں نہیں بلکہ امت واحدہ قرار دیا۔ ہاں جب ایمان کے خلاف کفر و شرک پھیلا تو کافر و مشرک کو الگ قوم الگ ملت قرار دے کر فاخْتَلَفُوْا ارشاد فرمایا، قرآن کریم کی آیت هُوَ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ فَمِنْكُمْ كَافِرٌ وَّمِنْكُمْ مُّؤ ْمِنٌ، نے اس مضمون کو اور بھی زیادہ واضح کردیا کہ اللہ کی مخلوق اولاد آدم کو مختلف قوموں میں بانٹنے والی چیز صرف ایمان و اسلام سے انحراف ہے، نسبی وطنی رشتوں سے قومیں الگ الگ نہیں ہوتیں، زبان اور وطن یا رنگ و نسل کی بناء پر انسانوں کو مختلف گروہ قرار دینے کی جہالت یہ نئی حماقت ہے جو نئی روشنی نے پیدا کی ہے اور آج کے بہت سے لکھے پڑھے اس نیشنلزم کے پیچھے لگ گئے جو ہزاروں فتنے اور فساد اپنے دامن میں رکھتا ہے اعاذ اللہ المسلمین منہ۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَا كَانَ النَّاسُ اِلَّآ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً فَاخْتَلَفُوْا۝ ٠ ۭ وَلَوْلَا كَلِمَۃٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ لَقُضِيَ بَيْنَھُمْ فِيْمَا فِيْہِ يَخْتَلِفُوْنَ۝ ١٩ نوس النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] ( ن و س ) الناس ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ الأُمّة : كل جماعة يجمعهم أمر ما إمّا دين واحد، أو زمان واحد، أو مکان واحد سواء کان ذلک الأمر الجامع تسخیرا أو اختیارا، وجمعها : أمم، وقوله تعالی: وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثالُكُمْ [ الأنعام/ 38] أي : كل نوع منها علی طریقة قد سخرها اللہ عليها بالطبع، فهي من بين ناسجة کالعنکبوت، وبانية کالسّرفة «4» ، ومدّخرة کالنمل ومعتمدة علی قوت وقته کالعصفور والحمام، إلى غير ذلک من الطبائع التي تخصص بها كل نوع . وقوله تعالی: كانَ النَّاسُ أُمَّةً واحِدَةً [ البقرة/ 213] أي : صنفا واحدا وعلی طریقة واحدة في الضلال والکفر، وقوله : وَلَوْ شاءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّةً واحِدَةً [هود/ 118] أي : في الإيمان، وقوله : وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ [ آل عمران/ 104] أي : جماعة يتخيّرون العلم والعمل الصالح يکونون أسوة لغیرهم، وقوله : إِنَّا وَجَدْنا آباءَنا عَلى أُمَّةٍ [ الزخرف/ 22] أي : علی دين مجتمع . قال : وهل يأثمن ذو أمّة وهو طائع وقوله تعالی: وَادَّكَرَ بَعْدَ أُمَّةٍ [يوسف/ 45] أي : حين، وقرئ ( بعد أمه) أي : بعد نسیان . وحقیقة ذلك : بعد انقضاء أهل عصر أو أهل دين . وقوله : إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً قانِتاً لِلَّهِ [ النحل/ 120] أي : قائما مقام جماعة في عبادة الله، نحو قولهم : فلان في نفسه قبیلة . وروي :«أنه يحشر زيد بن عمرو بن نفیل أمّة وحده» وقوله تعالی: لَيْسُوا سَواءً مِنْ أَهْلِ الْكِتابِ أُمَّةٌ قائِمَةٌ [ آل عمران/ 113] أي : جماعة، وجعلها الزجاج هاهنا للاستقامة، وقال : تقدیره : ذو طریقة واحدة فترک الإضمار أولی. الامۃ ہر وہ جماعت جن کے مابین رشتہ دینی ہو یا وہ جغرافیائی اور عصری وحدت میں منسلک ہوں پھر وہ رشتہ اور تعلق اختیاری اس کی جمع امم آتی ہے اور آیت کریمہ :۔ { وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُمْ } ( سورة الأَنعام 38) اور زمین پر جو چلنے پھر نے والے ( حیوان ) دو پروں سے اڑنے والے پرند ہیں وہ بھی تمہاری طرح جماعتیں ہیں ۔ میں امم سے ہر وہ نوع حیوان مراد ہے جو فطری اور ت سخیری طور پر خاص قسم کی زندگی بسر کر رہی ہو ۔ مثلا مکڑی جالا بنتی ہے اور سرفۃ ( مور سپید تنکوں سے ) اپنا گھر بناتی ہے اور چیونٹی ذخیرہ اندوزی میں لگی رہتی ہے اور چڑیا کبوتر وغیرہ وقتی غذا پر بھروسہ کرتے ہیں الغرض ہر نوع حیوان اپنی طبیعت اور فطرت کے مطابق ایک خاص قسم کی زندگی بسر کر رہی ہے اور آیت کریمہ :۔ { كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً } ( سورة البقرة 213) ( پہلے تو سب ) لوگ ایک امت تھے ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تما لوگ صنف واحد اور ضلالت و کفر کے ہی کے مسلک گامزن تھے اور آیت کریمہ :۔ { وَلَوْ شَاءَ اللهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً } ( سورة المائدة 48) اور اگر خدا چاہتا تو تم سب کو ہی شریعت پر کردیتا ۔ میں امۃ واحدۃ سے وحدۃ بحاظ ایمان مراد ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ { وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ } ( سورة آل عمران 104) کے معنی یہ ہیں کہ تم میں سے ایک جماعت ایسی بھی ہونی چاہیے جو علم اور عمل صالح کا راستہ اختیار کرے اور دوسروں کے لئے اسوۃ بنے اور آیت کریمہ ؛۔ { إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءَنَا عَلَى أُمَّةٍ } ( سورة الزخرف 22 - 23) ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک متفقہ دین پر پایا ہے ۔ میں امۃ کے معنی دین کے ہیں ۔ چناچہ شاعر نے کہا ہی ع (25) وھل یاثمن ذوامۃ وھوطائع ( طویل ) بھلا کوئی متدین آدمی رضا اور رغبت سے گناہ کرسکتا ہے اور آیت کریمہ :۔ { وَادَّكَرَ بَعْدَ أُمَّةٍ } ( سورة يوسف 45) میں امۃ کے معنی حین یعنی عرصہ دارز کے ہیں اور ایک قرات میں بعد امہ ( ربالھاء ) ہے یعنی نسیان کے بعد جب اسے یاد آیا ۔ اصل میں بعد امۃ کے معنی ہیں ایک دور یا کسی ایک مذہب کے متبعین کا دورگزر جانے کے بعد اور آیت کریمہ :۔ { إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً قَانِتًا } ( سورة النحل 120) کے معنی یہ ہیں کہ حضرت ابراہیم عبادت الہی میں ایک جماعت اور قوم بمنزلہ تھے ۔ جس طرح کہ محاورہ ہے ۔ فلان فی نفسہ قبیلۃ کہ فلاں بذات خود ایک قبیلہ ہے یعنی ایک قبیلہ کے قائم مقام ہے (13) وروی انہ یحشر زیدبن عمرابن نفیل امۃ وحدہ اورا یک روایت میں ہے کہ حشر کے دن زید بن عمر و بن نفیل اکیلا ہی امت ہوگا ۔ اور آیت کریمہ :۔ { لَيْسُوا سَوَاءً مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ أُمَّةٌ قَائِمَةٌ } ( سورة آل عمران 113) وہ سب ایک جیسے نہیں ہیں ان اہل کتاب میں کچھ لوگ ( حکم خدا پر ) قائم بھی ہیں ۔ میں امۃ بمعنی جماعت ہے زجاج کے نزدیک یہاں قائمۃ بمعنی استقامت ہے یعنی ذو و طریقہ واحدۃ تو یہاں مضمر متردک ہے الاختلافُ والمخالفة والاختلافُ والمخالفة : أن يأخذ کلّ واحد طریقا غير طریق الآخر في حاله أو قوله، والخِلَاف أعمّ من الضّدّ ، لأنّ كلّ ضدّين مختلفان، ولیس کلّ مختلفین ضدّين، ولمّا کان الاختلاف بين النّاس في القول قد يقتضي التّنازع استعیر ذلک للمنازعة والمجادلة، قال : فَاخْتَلَفَ الْأَحْزابُ [ مریم/ 37] ( خ ل ف ) الاختلاف والمخالفۃ الاختلاف والمخالفۃ کے معنی کسی حالت یا قول میں ایک دوسرے کے خلاف کا لفظ ان دونوں سے اعم ہے کیونکہ ضدین کا مختلف ہونا تو ضروری ہوتا ہے مگر مختلفین کا ضدین ہونا ضروری نہیں ہوتا ۔ پھر لوگوں کا باہم کسی بات میں اختلاف کرنا عموما نزاع کا سبب بنتا ہے ۔ اس لئے استعارۃ اختلاف کا لفظ نزاع اور جدال کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَاخْتَلَفَ الْأَحْزابُ [ مریم/ 37] پھر کتنے فرقے پھٹ گئے ۔ «لَوْلَا» يجيء علی وجهين : أحدهما : بمعنی امتناع الشیء لوقوع غيره، ويلزم خبره الحذف، ويستغنی بجوابه عن الخبر . نحو : لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ/ 31] . والثاني : بمعنی هلّا، ويتعقّبه الفعل نحو : لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه/ 134] أي : هلّا . وأمثلتهما تکثر في القرآن . ( لولا ) لو لا ( حرف ) اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے ایک شے کے پائے جانے سے دوسری شے کا ممتنع ہونا اس کی خبر ہمیشہ محذوف رہتی ہے ۔ اور لولا کا جواب قائم مقام خبر کے ہوتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ/ 31] اگر تم نہ ہوتے تو ہمضرور مومن ہوجاتے ۔ دو م بمعنی ھلا کے آتا ہے ۔ اور اس کے بعد متصلا فعل کا آنا ضروری ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه/ 134] تو نے ہماری طرف کوئی پیغمبر کیوں نہیں بھیجا ۔ وغیرہ ذالک من الا مثلۃ سبق أصل السَّبْقِ : التّقدّم في السّير، نحو : فَالسَّابِقاتِ سَبْقاً [ النازعات/ 4] ، والِاسْتِبَاقُ : التَّسَابُقُ. قال : إِنَّا ذَهَبْنا نَسْتَبِقُ [يوسف/ 17] ، وَاسْتَبَقَا الْبابَ [يوسف/ 25] ، ثم يتجوّز به في غيره من التّقدّم، قال : ما سَبَقُونا إِلَيْهِ [ الأحقاف/ 11][ أَنْ يَسْبِقُونَا } يَفُوتُونَا فَلَا نَنْتَقِم مِنْهُمْ ( س ب ق) السبق اس کے اصل معنی چلنے میں آگے بڑھ جانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَالسَّابِقاتِ سَبْقاً [ النازعات/ 4] پھر وہ ( حکم الہی کو سننے کے لئے لپکتے ہیں ۔ الاستباق کے معنی تسابق یعنی ایک دوسرے سے سبقت کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :َ إِنَّا ذَهَبْنا نَسْتَبِقُ [يوسف/ 17] ہم ایک دوسرے سے دوڑ میں مقابلہ کرنے لگ گئے ۔ وَاسْتَبَقَا الْبابَ [يوسف/ 25] اور دونوں دوڑتے ہوئے دروز سے پر پہنچنے ۔ مجازا ہر شے میں آگے بڑ اجانے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ ما سَبَقُونا إِلَيْهِ [ الأحقاف/ 11] تو یہ ہم سے اس کیطرف سبقت نہ کرجاتے ۔ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم سے بچ کر نکل جائیں گے یعنی چھوٹ جائیں گے ، تو ہم ان سے انتقام نہ لے سکیں گے۔ قضی الْقَضَاءُ : فصل الأمر قولا کان ذلک أو فعلا، وكلّ واحد منهما علی وجهين : إلهيّ ، وبشريّ. فمن القول الإلهيّ قوله تعالی: وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] أي : أمر بذلک، ( ق ض ی ) القضاء کے معنی قولا یا عملا کیس کام کا فیصلہ کردینے کے ہیں اور قضاء قولی وعملی میں سے ہر ایک کی دو قسمیں ہیں قضا الہیٰ اور قضاء بشری چناچہ قضاء الہیٰ کے متعلق فرمایا : ۔ وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٩) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) یا حضرت نوح (علیہ السلام) کے زمانہ میں سب لوگ ایک ہی ملت پر تھے (یعنی سب موحد تھے) یا یہ کہ ملت کفر پر تھے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام کو بھیجا جو کہ بشارت دینے والے اور ڈرانے والے ہیں تو اپنے کجرا ہی سے بعض مومن ہوگئے اور بعض مشرک اور اگر اس امت سے تاخیر عذاب نہ ہوتا جو کہ پہلے سے ٹھہر چکا ہے تو جس چیز میں یہ لوگ اختلاف کررہے ہیں یہ ہلاک اور برباد ہوچکے ہوتے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٩ (وَمَا کَان النَّاس الآَّ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً فَاخْتَلَفُوْا ط) ” اور نہیں تھے لوگ مگر ایک ہی امت ‘ پھر (بعد میں) انہوں نے اختلاف کیا۔ “ یہ مضمون سورة البقرۃ میں بھی گزر چکا ہے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) سے انسانوں کی نسل چلی ہے ‘ چناچہ جس طرح تمام انسان نسلاً ایک تھے اسی طرح نظریاتی طور پر بھی وہ سب ایک ہی امت تھے۔ بنی نوع انسان کے مابین تمام نظریاتی اختلافات بعد کی پیداوار ہیں۔ (وَلَوْلاَ کَلِمَۃٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّکَ ) ” اور اگر ایک بات تیرے رب کی طرف سے پہلے سے طے نہ پا چکی ہوتی “ اللہ تعالیٰ نے ہر فرد اور ہر قوم کے لیے ایک اجل مقرر فر ما دی ہے۔ اسی طرح پوری کائنات کی اجل بھی طے شدہ ہے۔ اگر یہ سب کچھ طے نہ ہوچکا ہوتا : (لَقُضِیَ بَیْنَہُمْ فِیْمَا فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَ ) ” تو فیصلہ کردیا جاتا ان کے مابین ان تمام چیزوں میں جن میں یہ اختلاف کر رہے ہیں۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

25. For further elaboration see Towards Understanding the Qur'an, vol. I, al-Baqarah 2, n. 230, pp. 165-6, and ibid., vol. II, al-An 'am 6, n. 24, pp. 228-9 -Ed. 26. The fact is that God has wilfully kept reality beyond the ken of man's sense-perception. This was done so as to test whether man, by making proper use of his reason, conscience and intuition, is able to find the right way. As a logical corollary of this, God allows those who decide to follow any other way rather than the right one to do so. Had this not been the case, the reality could have been instantly unmasked and that would have put an end to all disagreements relating to the issue. This statement has been made in order to remove a major misconception. Many people feel disconcerted today, as they felt disconcerted at the time when the Qur'an was revealed, by the fact that there are found different religions in the world and that the followers of each of these are convinced that their religion alone is the true one. People have been puzzled as to how to determine which religion is the right one and which is not. In this regard, the Qur'anic view which is being articulated here is that multiplicity of religions does not constitute the original state of things, that it is a relatively later development in human history. Initially, all mankind professed a single religion, and that religion was the true one. Later on, people began to disagree regarding the truth and this gave rise to different religions and creeds. Now it is not likely that God would dramatically appear before them and reveal the reality to them directly during the present phase of their worldly existence. For, the very purpose of the present life is to test people. And this test consists of finding out who discovers the reality - even though it is beyond the reach of the senses - with the help of his reason and common sense.

سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :25 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ ، حاشیہ نمبر ۲۳۰ ، الانعام ، حاشیہ نمرب ۲٤ ۔ سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :26 یعنی اگر اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی یہ فیصلہ نہ کر لیا ہوتا کہ حقیقت کو انسانوں کے حواس سے پوشیدہ رکھ کر ان کی عقل و فہم اور ضمیر و وجدان کو آزمائش میں ڈالا جائے گا ، اور جو اس آزمائش میں ناکام ہو کر غلط راہ پر جانا چاہیں گے انہیں اس راہ پر جانے اور چلنے کا موقع دیا جائے گا ، تو حقیقت کو آج ہی بے نقاب کر کے سارے اختلافات کا فیصلہ کیا جا سکتا تھا ۔ یہاں یہ بات ایک بڑی غلط فہمی کو رفع کرنے کے لیے بیان کی گئی ہے ۔ عام طور پر آج بھی لوگ اس الجھن میں ہیں اور نزول قرآن کے وقت بھی تھے کہ دنیا میں بہت سے مذہب پائے جاتے ہیں اور ہر مذہب والا اپنے ہی مذہب کو حق سمجھتا ہے ۔ ایسی حالت میں آخر اس فیصلے کی صورت کیا ہے کہ کون حق پر ہے اور کون نہیں ۔ اس کے متعلق فرمایا جا رہا ہے کہ یہ اختلاف مذاہب دراصل بعد کی پیداوار ہے ۔ ابتداء میں تمام نوع انسانی کا مذہب ایک تھا اور وہی مذہب حق تھا ۔ پھر اس حق میں اختلاف کر کے لوگ مختلف عقیدے اور مذہب بناتے چلے گئے ۔ اب اگر اس ہنگامہ مذاہب کا فیصلہ تمہارے نزدیک عقل و شعور کے صحیح استعمال کے بجائے صرف اسی طرح ہوسکتا ہے کہ خدا خود حق کو بے نقاب کر کے سامنے لے آئے تو یہ موجودہ دنیوی زندگی میں نہیں ہوگا ۔ دنیا کی یہ زندگی تو ہے ہی امتحان کے لیے ، اور یہاں سارا امتحان اسی بات کا ہے کہ تم حق کو دیکھے بغیر عقل و شعور سے پہچانتے ہو یا نہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

8: مطلب یہ ہے کہ جب پہلے پہل حضرت آدم (علیہ السلام) دنیا میں تشریف لائے تو تمام انسان توحید ہی کے دین برحق پر چلتے تھے۔ بعد میں کچھ لوگوں نے الگ الگ مذہب ایجاد کرلیے۔ اللہ تعالیٰ یہیں دنیا میں ان کے اختلافات کا فیصلہ کرسکتا تھا، لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کی تخلیق سے پہلے ہی یہ طے فرمایا ہوا تھا کہ دنیا انسانوں کے امتحان کے لیے پیدا کی جائے گی، اور ہر شخص کو یہ موقع دیا جائے گا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیغمبر بھیجے جائیں گے جو لوگوں کو دنیا میں آنے کا مقصد بتائی، اور دین برحق کو واضح دلائل سے بیان کردیں، پھر وہ اپنی آزاد مرضی سے جو راستہ چاہیں اختیار کریں، اور آخرت میں فیصلہ کیا جائے کہ کس کا راستہ صحیح اور انعام کے قابل تھا، اور کس کا غلط اور قابل سزا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے دنیا میں اس فیصلے کا مشاہدہ نہیں کروایا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(10:19) فاختلفوا۔ بعد میں انہوں نے مختلف عقیدے اور مسلک بنالئے۔ بعد میں مختلف عقیدوں میں بٹ گئے۔ کلمۃ ۔ ای القضاء والتقدیر۔ ایک بات پہلے سے طے شدہ ۔ ازلی حکم۔ سبقت (جو) پہلے سے (طے) ہوچکا ہے۔ واحد مؤنث غائب۔ باب ضرب سے۔ اسی سے مسابقہ اور استباق آتے ہیں۔ اس کے اصل معنی چلنے میں آگے ہونے کے ہیں۔ ولولا کلمۃ سبقت من ربک لقضی بینھم فیما فیہ یختلفون ۔ اگر تیرے رب کا فیصلہ پہلے سے صادر نہ ہوچکا ہوتا تو ان کا آپس میں جھگڑا کبھی کا چکا دیا گیا ہوتا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9۔ اس زمانے کے ملحد فلسفیوں اور تاریخ دانوں کے برعکس قرآن یہ بار بار اعلان کرتا ہے کہ انسانیت کی ابتداء کفر یا شرک سے نہیں بلکہ خالص توحید سے ہوئی۔ ابتدا میں تمام انسان ایک ہی دین۔ اسلام۔ رکھتے تھے اور ایک ہی ان کی ملت تھی لیکن آہستہ آہستہ انہوں نے اس دین سے انحراف کیا اور آپس میں اختلاف کرکے اپنی مرضی کے ادیان اور قوانین گھڑ لئے۔ (نیز دیکھئے بقرہ آیت 312) 1۔ یعنی اگر اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی یہ فیصلہ نہ کرلیا ہوتا کہ دنیا میں لوگوں کو مہلت دی جائے گی تاکہ اپنی عقل و فہم سے کام لے کر جس راستہ کو چاہیں اختیار کریں اور جس راستہ کو چاہیں چھوڑ دیں اور قیامت ہی کی دن انہیں ان کے اچھے یا برے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا تو کبھی کا اللہ تعالیٰ حقیقت کو بےنقاب کرکے ان لوگوں کو پکڑ چکا ہوتا جو ایمان کا راستہ چھوڑ کر کفرو شرک کے راستہ پر چل رہے ہیں۔ (از ابن کثیر۔ قرطبی) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 19 تا 20 امۃ (جماعت، گروہ) سبقت (گزر گئی، طے کردی گئی) قضی (فیصلہ کردیا گیا ہے) آیۃ (نشانی، معجزہ) الغیب (بن دیکھی حقیقتیں ) انتظروا (تم انتظار کرو) تشریح : آیت نمبر 19 تا 20 ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے تین باتیں ارشاد فرمائی ہیں :- 1) ابتداء میں سارے انسان ایک ہی امت تھے۔ یعنی ان میں نہ تو فرمانی اور شرک و کفر کے جذبات تھے اور نہ وہ زبان رنگ و نسل، قوم اور قبیلہ میں تقسیم تھے بلکہ ان کے دل ایک ساتھ دھڑکتے تھے۔ بعد میں شیاطن کے بہکانے سے ان میں عقیدہ اور فکر و ذہن کے اختلاف پیدا ہوگئے اور وہ مختلف قومیتوں میں تقسیم ہوگئے۔ اس طرح ایک امت کا وہ تصور دھندلاتا چلا گیا جس کے لئے انبیاء کرام تشریف لاتے رہے۔ ان کو ان کی نافرمانیوں سے روکنے کی کوشش کرتے رہے۔ سعادت مند لوگوں نے ان کی لائی ہوئی سچائی کو اپنایا لیکن بہت سوں نے نافرمانی کا طریقہ اختیار کیا۔ اگر اللہ چاہتا تو ان کو ان کی نافرمانیوں کی پوری پوری سزا اسی وقت دے سکتا تھا مگر اس حلیم و غفور نے یہ فیصلہ فرما رکھا ہے کہ نافرمانوں کو پوری سزا اس دنیا میں نہیں بلکہ آخرت میں دی جائے گی۔ امت انسانی جماعت کو کہتے ہیں جو اعتقادات میں یکساں ذہن و فکر رکھتی ہو جو رنگ و نسل ، زبان اور علاقہ پرستی سے آزاد ایک دین کی سچائی کو ماننے والی ہو۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ماننے والوں کو ایکا مت فرمایا ہے بلکہ امت وسط اور خیر امت کے القاب عطا فرمائے ہیں۔ امت وسط یعنی ایسی جماعت جس کے مزاج میں اعتدال اور تو ازن ہے۔ ” خیرامت “ یعنی دنیا کی تمام جماعتوں میں بہترین امت جو کسی خاص علاقے ملک یا نسل والوں کے لئے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لئے خیر اور بھلائی کی حامل بنائی گئی ہے۔ اس امت کا بنیادی کام یہ ہے کہ وہ ساری انساینت کی بھلائی کے لئے ہر گناہ کی بات کو جڑ و بنیاد سے اکھاڑنے اور نیکی کو قائم کرنے کی جدوجہد کرتی ہے تاکہ تمام لوگ اللہ پر ایمان لانے والے بن جائیں۔ 2) ان آیتوں میں دوسری بات یہ فرمائی گئی ہے کہ ” وہ کفار اس بات کا مطالبہ کرتے تھے کہ جس طرح اور انبیاء کرام پر معجزات نازل کئے گئے ہیں نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کیوں نازل نہیں ہوئے تاکہ ہم ان کو دیکھ کر ایمان لے آتے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب متعدد موقعوں پر ارشاد فرمایا ہے کہ اگر معجزات دکھانے پر ہی ایمان لانے کا دار و مدار ہے تو اس سے پہلے انبیاء کرام پر جب معجزات کو نازل کیا گیا تو ان کی قوموں نے ان کے معجزات کو دیکھ کر کیا ایمان قبول کرلیا تھا ؟ درحقیقت یہ ایک ایسا عذر ہے ” اگر ہم معجزہ دیکھ لیں تو ایمان لے آئیں گے ” کہ جس کی کوئی اصل اور بنیاد نہیں ہے۔ جس کو ایمان لانا ہوتا ہے اس کو معجزات کے مطالبہ کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ وہ دل کی گہرائیوں سے ایمان قبول کرتا ہے اور وہی پائدلار ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی معجزات کا مطالبہ کیا گیا اور بلاشک و شبہ آپ سے بہت سے معجزات صادر ہوئے جن سے احادیث کی کتابیں بھری پڑی ہیں لیکن حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا سب سے بڑا معجزہ تو یہ قرآن کریم ہے جس کے سامنے عرب کے وہ بڑے سے بڑے شاعر بھی عاجز ہو کر رہ گئے تھے جو زبان پر قدرت رکھنے کی وجہ سے اپنے علاوہ ساری دنیا کو ” عجم “ کو گونگا کہتے تھے لیکن یہ قرآن کریم کا کتنا بڑا معجزہ ہے کہ دنیا کو گونگا کہنے والے قرآن کریم کے چیلنج کے باوجود قرآن کریم کے سامنے گونگے ہو کر رہ گئے تھے۔ 3) تیسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے کہلوا دیا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ ان سے کہہ دیجیے کہ غیب کا سارا علمت واللہ ہی کو ہے تمہارے مطالبہ میں انتظار تو کرسکتا ہوں اور کروں گا تم بھی منتظر ہو کر تمہارے مطالبہ کا جواب کیا آتا ہے لیکن پھر وہ غیب سے کیا آنے والا ہے اسکا مجھے علم نہیں ہے ۔ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ ” عالم الغیب ‘ صرف اللہ کی ذات ہوتی ہے۔ اللہ کے سوا کوئی عالم الغیب نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے انبیاء کرام میں سے جس کو چاہتا ہے غیب کی خبریں دیتا ہے۔ ہمارا اس بات پر ایمان ہے کہ غیب کی خبریں جتنی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا فرمائی گی ہیں اتنی کسی کو عطا نہیں کی گئیں۔ مگر اس سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ” عالم الغیب “ کہنا قرآن کی آیات کا صریح انکار ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ یعنی سب موحد تھے کیونکہ آدم (علیہ السلام) موحد تھے بہت روز تک ان کی اولاد ان ہی کے طریقہ پر رہی پس سب موحد رہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : لوگوں کی وحدت بیان فرما کر ثابت کیا گیا ہے کہ شرک سے پہلے لوگ توحید پر قائم تھے اور توحید ہی لوگوں کے درمیان اتحاد کے ذریعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو فطرتاً توحید پر پیدا فرمایا ہے۔ یہ فطرت کی آواز اور اس کا تقاضا تھا کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو پیدا فرما کر اس کی پشت سے اس کی تمام اولاد کو پیدا کیا اور ان سے۔ ( اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ ) فرمایا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ تمام بنی آدم نے توحید کا اقرار اور اس کا اظہار کرتے ہوئے عرض کی کہ کیوں نہیں، آپ ہی ہمارے رب ہیں فرمایا اس پر گواہ رہنا۔ قیامت کو یہ نہ کہنے پاؤ کہ ہمیں تو اس عہد کا علم ہی نہیں ہم تو اس لیے شرک کرتے رہے کہ ہمارے آباؤ اجداد شرک کرتے تھے۔ (الاعراف : ٧٣۔ ٧٤) اسی عہد کی ترجمانی کرتے ہوئے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ہر بچہ فطرت اسلام یعنی عقیدہ توحید پر پیدا ہوتا ہے۔ پھر اسے جیسا ماحول ملتا ہے ویسا ہوجاتا ہے۔ یہی ارشاد اس آیت مبارکہ میں پایا جارہا ہے کہ لوگ پہلے ایک ہی امت تھے۔ انھوں نے بعد میں توحید کے بارے میں اختلاف کیا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ نہ ہوتا کہ لوگوں کو کفرو شرک، توحید اور ایمان میں سے کسی ایک کو اختیار کا حق دیا جاتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰکفر و شرک، سرکشی اور بغاوت کرنے والوں کو موقع پر ہی تہس نہس کردیتا۔ فوری طور پر نہ پکڑنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دنیا دارالعمل ہے، دارالجزاء نہیں اس اصول کے پیش نظر لوگوں کو مہلت دی جاتی ہے شاید وہ توبہ کرلیں۔ حالانکہ خدا کے باغی انبیاء سے پر زور مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ اگر آپ سچے ہیں تو ہم پر عذاب نازل کیا جائے۔ اسی روش کے تحت مشرکین مکہ بھی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مطالبہ کرتے تھے کہ ہم پر عذاب نازل کرو۔ یہاں تک کہ انہوں نے کعبہ کا غلاف پکڑ کر کہا کہ الٰہی ! اگر تیرا نبی سچا ہے تو ہم پر پتھر برسایا ہمیں اذّیت ناک عذاب میں مبتلا کردے۔ جس کا جواب یہ دیا گیا کہ تم اسی لائق ہو مگر اللہ تعالیٰ تمہیں اس لیے عذاب نہیں کر رہا کہ اس کا رسول اور مسلمان تم میں موجود ہیں جو توبہ استغفار کرتے رہتے ہیں۔ (الانفال : ٣٢۔ ٣٣) اس کے جواب میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فقط اتنا ہی حکم ہوا کہ آپ فرمائیں یہ اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ عذاب کب آئے گا۔ پس تم انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کررہا ہوں۔ (عَنْ اَبِیْ ہُرَےْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَا مِنْ مَّوْلُوْدٍ اِلَّا ےُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ فَاَبَوَاہُ ےُھَوِّدَانِہٖ اَوْ ےُنَصِّرَانِہٖ اَوْ ےُمَجِّسَانِہٖ کَمَا تُنْتَجُ الْبَھِےْمَۃُ بَھِےْمَۃً جَمْعَآءَ ھَلْ تُحِسُّوْنَ فِےْھَا مِنْ جَدْعَآءَ ثُمَّ ےَقُوْلُ ” فِطْرَۃَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَےْھَا لَا تَبْدِےْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِ ذَالِکَ الدِّےْنُ الْقَےِّمُ “ ) [ رواہ البخاری : کتاب التفسیر، باب لاتبدیل لخلق اللّٰہ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے۔ اس کے والدین اس کو یہودی ‘ عیسائی یا مجوسی بنا دیتے ہیں جس طرح چارپائے اپنے بچے کو تام الخلقت پیدا کرتے ہیں کیا تم ان میں سے کسی بچے کو کان کٹا پاتے ہو ؟ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آیت تلاوت کی۔” اللہ کا طریقہ ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو پیدا کیا ہے اللہ کی تخلیق میں تبدیلی نہیں ہے یہ بالکل سیدھا اور صحیح دین ہے۔ “ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ أَخَذَ اللَّہُ الْمِیثَاقَ مِنْ ظَہْرِ آدَمَ بِنَعْمَانَ یَعْنِی عَرَفَۃَ فَأَخْرَجَ مِنْ صُلْبِہِ کُلَّ ذُرِّیَّۃٍ ذَرَأَہَا فَنَثَرَہُمْ بَیْنَ یَدَیْہِ کَالذَّرِّ ثُمَّ کَلَّمَہُمْ قِبَلاً قَالَ (أَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُوا بَلَی شَہِدْنَا أَنْ تَقُولُوا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ إِنَّا کُنَّا عَنْ ہَذَا غَافِلِینَ أَوْ تَقُولُوا إِنَّمَا أَشْرَکَ اٰبَاؤُنَا مِنْ قَبْلُ وَکُنَّا ذُرِّیَّۃً مِنْ بَعْدِہِمْ أَفَتُہْلِکُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُوْنَ ]) [ رواہ أحمد ] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کی اولاد سے نعمان یعنی عرفہ کے مقام پر عہدلیا اس کی صلب سے اس کی اولاد کو نکالا اور اسے اس کے سامنے پھیلا دیا، پھر ان کے سامنے کلام فرمایا، کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ بنی آدم نے کہا کیوں نہیں ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ ہی ہمارے رب ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن یہ نہ کہنا کہ ہمیں اس کی خبر نہ تھی یا شرک ہمارے آباؤ اجداد نے کیا ہم تو ان کی اولاد تھے کیا تو ہمیں باطل پرستوں کے شرک کی وجہ سے ہلاک کرتا ہے۔ “ عقیدہ توحید وحدت کی علامت ہے : (یَا أَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِی خَلَقَکُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَۃٍ وَخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالًا کَثِیْرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوْا اللّٰہَ الَّذِی تَسَاءَ لُونَ بِہِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیْبًا)[ النساء : ١] ” اے لوگو ! ڈرو اپنے رب سے جس نے پیدا فرمایا تمہیں ایک جان سے اور اس سے اس کا جوڑا پیدا فرمایا اور پھیلائے اس سے مرد کثیر تعداد میں اور عورتیں اور ڈرو اللہ تعالیٰ سے وہ اللہ، مانگتے ہو جس کے واسطے سے اور قطع رحمی سے ڈرو یقیناً اللہ تعالیٰ تم پر نگران ہے۔ “ (عَنْ أَبِی نَضْرَۃَ حَدَّثَنِی مَنْ سَمِعَ خُطْبَۃَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فِی وَسَطِ أَیَّام التَّشْرِیقِ فَقَالَ یَا أَیُّہَا النَّاسُ أَلاَ إِنَّ رَبَّکُمْ وَاحِدٌ وَإِنَّ أَبَاکُمْ وَاحِدٌ أَلاَ لاَ فَضْلَ لِعَرَبِیٍّ عَلٰی أَعْجَمِیٍّ وَلاَ لِعَجَمِیٍّ عَلٰی عَرَبِیٍّ........)[ رواہ احمد ] ” حضرت ابو نضرۃ بیان کرتے ہیں کہ مجھے اس شخص نے خبر دی جس نے ایام تشریق میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خطبہ سنا آپ نے فرمایا اے لوگو ! تمہارا رب اور تمہارا باپ ایک ہے۔ کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر برتری حاصل نہیں ....“ مسائل ١۔ ابتداءً تمام لوگ عقیدہ توحید اور ایک ہی طریقہ پر تھے۔ ٢۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کفار معجزے کا مطالبہ کرتے تھے۔ ٣۔ غیب کی خبر اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ ٤۔ نبی بھی اللہ کے فیصلے کا منتظر ہوتا تھا۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں اگر لوگوں کا معاملہ مقرر شدہ نہ ہو تو ان کا فیصلہ جلد چکادیا جائے۔ تفسیر بالقرآن کفار کا بار بار معجزات کا مطالبہ کرنا : ١۔ کافر کہتے ہیں کہ نبی پر اس کے پروردگار کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہیں نازل ہوتی۔ (یونس : ٢٠) ٢۔ کفار کہتے ہیں کہ نبی پر اس کے رب کی طرف سے معجزات کیوں نازل نہیں ہوتے۔ (العنکبوت : ٥٠) ٣۔ کفار کہتے ہیں کہ نبی پر اس کے پروردگار کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہیں نازل کی گئی۔ (الانعام : ٣٧) ٤۔ کافر قسمیں اٹھاتے ہیں کہ اگر ان کے پاس کوئی معجزہ آیا تو وہ اس پر ضرور ایمان لائیں گے۔ (الانعام : ١٠٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وما کان الناس الا امۃ واحدۃ اور نہیں تھے لوگ مگر ایک گروہ۔ یعنی سب موحد تھے ‘ فطرت پر تھے یا اسلام پر تھے مطلب یہ کہ حضرت آدم کے زمانہ سے حضرت نوح کی بعثت سے کچھ پہلے تک یا طوفان کے بعد یا حضرت ابراہیم کے عہد سے عمرو بن لحی کے زمانہ تک سب لوگ توحید پر تھے۔ یا ایک امت سے مراد ہے گمراہی پر سب کا اتفاق۔ مطلب یہ کہ زمانۂ فترۃ (انقطاع رسالت) میں سب لوگ گمراہ تھے۔ فاختلفوا پس ان میں (نفس پرستی اور خواہشات کی پیروی کی وجہ سے) اختلاف ہوگیا (ان کے فرقے بن گئے) یا پیغمبروں کی بعثت کی وجہ سے گمراہ جماعت میں پھوٹ پڑگئی۔ ایک گروہ پیغمبر وں کا متبع اور دوسرا گروہ پیغمبروں کی تکذیب کرنے والا۔ ولولا کلمۃ سبقت من ربک لقضی بینھم فیما فیہ یختلفون۔ اور اگر ایک بات نہ ہوتی جو آپ کے رب کی طرف سے پہلے ٹھہر چکی ہے تو جس چیز میں یہ اختلاف کر رہے ہیں ‘ اس کا قطعی فیصلہ (دنیا میں ہی) ہوچکا ہوتا۔ کلمۂ سابقہ سے مراد ہے اللہ کا وہ ازلی فیصلہ کہ ہر امت کی ایک میعاد زندگی مقرر ہے۔ کلبی نے کہا : کلمۂ سابقہ سے یہ مراد ہے کہ اللہ نے اس امت کو ڈھیل دینے اور دنیوی عذاب سے ہلاک نہ کرنے کا وعدہ فرما لیا ہے۔ لَقُضِیَ بَیْنَھُمْ یعنی دنیا میں عذاب نازل کردیا جاتا اور تکذیب کرنے والوں کو فوراً ہلاک کردیا جاتا ‘ یہی ان کے اختلاف کا فیصلہ ہوجاتا۔ حسن نے کہا : اللہ کا ازلی فیصلہ ہوچکا تھا کہ قیامت سے پہلے دنیا میں عذاب وثواب کی شکل میں ان کے اختلاف کا فیصلہ نہیں کیا جائے گا کہ دنیا میں ہی جنت یا دوزخ میں داخل کردیا جائے بلکہ اللہ کی طرف سے جنت و دوزخ میں داخلہ کا وقت روز قیامت کو مقرر کردیا گیا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (وَمَا کَان النَّاسُ اِلَّا اُمَّۃً وَّاحِدَۃً فَاخْتَلَفُوْا) یعنی سب لوگ ایک ہی جماعت تھے سو انہوں نے اختلاف کرلیا یعنی بنی آدم کا ایک ہی دین تھا سب موحد تھے اور دین اسلام پر تھے پھر لوگوں میں اختلاف ہوگیا اور بہت سے لوگ ایمان کو چھوڑ کر کافر ہوگئے اور بہت سے لوگ کافر ہی نہیں مشرک بھی ہوگئے۔ حضرت قتادہ سے تفسیر در منثور (ص ٢٤٣ ج ١) میں نقل کیا ہے کہ حضرت آدم اور حضرت نوح (علیہ السلام) کے درمیان جو قرنیں تھیں یہ سب ہدایت پر حق شریعت پر تھیں ‘ پھر لوگوں نے اختلاف کی راہیں نکالیں۔ بہت سے لوگوں نے دین حق کو چھوڑ دیا اور مؤمن و کافر دو جماعتیں ہوگئیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو بھیجا وہ جن لوگوں کی طرف مبعوث ہوئے ان کی بت پرستی اور بتوں کے ناموں کا تذکرہ سورة مذکور ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے تشریف لانے سے کچھ عرصہ پہلے لوگ مشرک ہوگئے تھے مشرک عذاب کے مستحق ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقررہ اجل سے پہلے مشرکین پر عذاب نہیں بھیجا جاتا ‘ اس کے بارے میں فرمایا (وَلَوْ لَا کَلِمَۃٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّکَ لَقُضِیَ بَیْنَھُمْ فِیْمَا فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَ ) (اور اگر آپ کے رب کی طرف سے پہلے سے یہ بات طے نہ ہوچکی ہوتی تو ان کے درمیان اس چیز میں فیصلہ ہوچکا ہوتا جس میں وہ اختلاف کرتے ہیں) اور وہ کون سی بات ہے جو پہلے سے طے ہوچکی ہے اس کے بارے میں متعدد اقوال ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر امت کے لئے جو ایک اجل مقرر فرما دی ہے اس اجل سے پہلے ہلاک نہیں فرمائے گا اور مطلب یہ ہے کہ اگر اجل مقرر نہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ فیصلہ فرما دیتا اور مکذبین (جھٹلانے والوں) پر عذاب بھیج دیتا اور یہیں حق اور باطل کا فیصلہ ہوتا یعنی اہل کفر ہلاک ہوجاتے اور اہل ایمان باقی رہ جاتے اور حضرت حسن نے آیت کا مطلب بتاتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا کہ چونکہ اللہ تعالیٰ نے پہلے سے یہ بات طے فرما دی ہے کہ قیامت کے دن سے پہلے ثواب اور عقاب کا فیصلہ نہیں ہوگا بلکہ یہ فیصلہ قیامت کے دن ہوگا اس لئے دنیا میں ایسا فیصلہ نہیں کیا جاتا کہ ثواب والوں کو یہیں بدلہ مل جائے اور مستحقین عذاب پر یہیں عذاب آجائے ‘ تیسرا قول مفسر کلبی سے نقل کیا گیا ہے جو دل کو نہیں لگا لہٰذا ہم نے اس کا ذکر چھوڑ دیا۔ یہ مضمون سورة بقرہ کی آیت کان النَّاسُ اِلَّا اُمَّۃً وَّاحِدَۃً کے ذیل میں بھی گزر چکا ہے مراجعت کرلی جائے۔ (دیکھو انوار البیان جلد اول)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

34:“ فَاخْتَلَفُوْا ” کے بعد کا مضمون مقدر ہے۔ “ اي بعث اللہ النبیین الخ ” بقرینہ سورة بقرہ “ کَانَ النَّاسُ اُمَّةً وَّاحِدَ ةً فَبَعَثَ اللّٰهُ النَّبِیِّیْنَ الخ ” اور سورة بقرہ میں “ فَبَعثَ ” سے پہلے “ فَاخْتَلَفُوْا ” مقدر ہے بقرینہ آیت زیر تفسیر جیسا کہ سورة بقرہ کی تفسیر میں گذر چکا ہے (ص 101، حاشیہ نمبر 405) لوگوں کے امت واحدہ ہونے اور پھر مختلف گروہوں میں بٹ جانے کا مضمون قرآن مجید میں کئی جگہوں میں مذکور ہے۔ دنیا میں سب سے پہلے توحید تھی اور تمام لوگ توحید پر متفق تھے کیونکہ توحید دین فطرت ہے۔ اس کے بعد بد عمل اور بےدین لوگوں نے توحید میں اختلاف کیا اور محض ضد کی وجہ سے مسئلہ توحید کی حقانیت کو جانتے ہوئے اس کا انکار کیا۔ اس اختلاف کو مٹانے اور مسئلہ توحید کو واضح کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے انبیاء (علیہم السلام) کو بھیجا۔ قرآن مجید کی اس موضوع پر متعدد آیتوں کو یکجا کرنے سے حسب ذیل امور واضح طور سے معلوم ہوتے ہیں (1) اختلاف کن لوگوں نے کیا ؟ غلط کار اور باغی عالموں نے۔ (2) اختلاف کب کیا گیا ؟ جب آیات بینات سے توحید کو واضح کردیا گیا اور اختلاف کرنیوالوں کو مسئلہ توحید کی سچائی کا پورا پورا علم ہوگیا۔ یعنی علماء سوء نے جان بوجھ کر عمداً اور قصداً توحید میں اختلاف ڈالا۔ (3) اختلاف کیوں پیدا کیا گیا ؟ علماء سوء نے محض ضد وعناد اور دنیوی ریاست کی وجہ سے مسئلہ توحید کے مقابلے میں شرک کا محاذ کھولا اور توحید سے اختلاف کیا۔ پہلی بات سورة بقرہ میں مذکور ہے۔ “ وَ مَا اخْتَلَفَ فِیْه اِلَّا الَّذِیْنَ اُوْتُوْہُ مِنْ بَعْدِ مَاجَاءَتْھُمُ الْبَیِّنٰتُ بَغْیَاً بَیْنَھُمْ ” (بقرہ رکوع 26) ۔ یہاں اختلاف کو اہل علم کی جماعت میں منحصر کیا گیا۔ دوسری بات کو سورة آل عمران اور شوریٰ میں ذکر کیا گیا۔ “ وَ مَا خْتَلَفَ الَّذِیْنَ اُوْتُوْا الکِتٰبَ اِلَّا مِنْ بَعْدِ مَاجَاءَھُمُ الْعِلْمُ بَغْیًا بَیْنَھُمْ ” (اٰل عمران رکوع 2) “ وَ مَا تَفَرَّقُوْا اِلَّا مِنْ بَعْدِ مَاجَاءَ ھُمُ الْعِلْمُ بَغْیًا بَیْنَھُمْ ”(شوری رکوع 2) ان دونوں آیتوں میں اہل کتاب کے اختلاف و تفرق کو مسئلہ توحید کا علم ہوجانے کے بعد کی حالت میں منحصر کر کے واضح کیا گیا ہے کہ اختلاف جہالت و نادانی کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ دیدہ و دانستہ محض ضد وعناد اور راہ حق سے بغاوت کی بناء پر تھا۔ تیسری بات ان تینوں آیتوں میں لفظ “ بَغْیًا ”“ اِخْتَلَفَ ” اور “ تَفَرَّقُوْا ” کا مفعول لہٗ ہے جو ان کے اختلاف و تفرق کی علت بیان کر رہا ہے۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفسیر سورة آل عمران ص 147 حاشیہ 28 ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

19 اور تمام انسان پہلے ایک ہی طریقہ پر تھے پھر وہ اپنی غلط رائے کی وجہ سے جدا جدا ہوگئے اور انہوں نے اختلاف پیدا کرلیا اور اگر آپ کے رب کی پہلے سے ایک طے شدہ بات نہ ہوتی تو یہ لوگ جس چیز میں اختلاف کر رہے ہیں ان کے درمیان کبھی کاف یصلہ ہوچکا ہوتا۔ یعنی یہ کہ آخری فیصلہ اور آخری عذاب قیامت میں ہوگا یہ بات لوح محفوظ میں لکھی جا چکی ہے اگر یہ فیصلہ نہ ہوتا تو دنیاہی میں آخری عذاب بھیج کر فیصلہ کردیاجاتا۔