Surat Younus

Surah: 10

Verse: 23

سورة يونس

فَلَمَّاۤ اَنۡجٰہُمۡ اِذَا ہُمۡ یَبۡغُوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ بِغَیۡرِ الۡحَقِّ ؕ یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّمَا بَغۡیُکُمۡ عَلٰۤی اَنۡفُسِکُمۡ ۙ مَّتَاعَ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۫ ثُمَّ اِلَیۡنَا مَرۡجِعُکُمۡ فَنُنَبِّئُکُمۡ بِمَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۲۳﴾

But when He saves them, at once they commit injustice upon the earth without right. O mankind, your injustice is only against yourselves, [being merely] the enjoyment of worldly life. Then to Us is your return, and We will inform you of what you used to do.

پھر جب اللہ تعالٰی ان کو بچا لیتا ہے تو فوراً ہی وہ زمین میں ناحق سرکشی کرنے لگتے ہیں اے لوگو! یہ تمہاری سرکشی تمہارے لئے وبال ہونے والی ہے دنیاوی زندگی کے ( چند ) فائدے ہیں پھر ہمارے پاس تم کو آنا ہے پھر ہم سب تمہارا کیا ہوا تم کو بتلا دیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَلَمَّا أَنجَاهُمْ ... But when He delivers them, from that distress, ... إِذَا هُمْ يَبْغُونَ فِي الاَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ ... behold! They rebel (disobey Allah) in the earth wrongfully... meaning: they returned as if they had never experienced any difficulties and had never promised Him anything. So Allah said: كَأَن لَّمْ يَدْعُنَأ إِلَى ضُرٍّ مَّسَّهُ He passes on as if he had never invoked Us for a harm that touched him! (10:12) Allah then said: ... يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّمَا بَغْيُكُمْ عَلَى أَنفُسِكُم ... O mankind! Your rebellion (disobedience to Allah) is only against yourselves, it is you yourselves that will taste the evil consequence of this transgression. You will not harm anyone else with it, as comes in the Hadith, مَا مِنْ ذَنْبٍ أَجْدَرَ أَنْ يُعَجِّلَ اللهُ عُقُوبَتَهُ فِي الدُّنْيَا مَعَ مَا يَدَّخِرُ اللهُ لِصَاحِبِهِ فِي الاْاخِرَةِ مِنَ الْبَغْيِ وَقَطِيعَةِ الرَّحِم There is no sin that is more worthy that Allah hasten punishment for in this world -- on top of the punishment that Allah has in store for it in the Hereafter -- than oppression and cutting the ties of the womb. Allah's statement: ... مَّتَاعَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ... a brief enjoyment of this worldly life... means that you only have a short enjoyment in this low and abased worldly life. ... ثُمَّ إِلَينَا مَرْجِعُكُمْ ... then (in the end) unto Us is your return... meaning your goal and final destination. ... فَنُنَبِّيُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ and We shall inform you of that which you used to do. and We shall inform you of all your deeds. Then we shall recompense you for them. So let him who finds good (in his record) praise Allah, and let him who finds other than that blame no one but himself.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

23۔ 1 یہ انسان کی ناشکری کی عادت کا ذکر ہے جس کا تذکرہ ابھی آیت 12 میں بھی گزرا، اور قرآن میں اور بھی متعدد مقامات پر اللہ نے اس کا ذکر فرمایا ہے۔ 23۔ 2 اللہ تعالیٰ نے فرمایا، تم یہ ناشکری اور سرکشی کرلو، چار روزہ متاع زندگی سے فائدہ اٹھا کر بالآخر تمہیں ہمارے ہی پاس آنا ہے، پھر تمہیں، جو کچھ تم کرتے رہے ہو گے، بتلائیں گے یعنی ان پر سزا دیں گے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَلَمَّآ اَنْجٰىھُمْ اِذَا ھُمْ يَبْغُوْنَ ۔۔ : یعنی طوفان سے بچ نکلنے پر پھر وہی ناحق سرکشی اور ظلم شروع کردیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے کئی جگہ مشرکین کے اس رویے کا ذکر فرمایا ہے۔ دیکھیے سورة عنکبوت ( ٦٥، ٦٦) اور لقمان ( ٣٢) ہاں، کوئی سعادت مند ہو تو اپنے عہد پر قائم رہتا ہے مگر وہ اتنے کم ہیں کہ نہ ہونے کے برابر ہیں، جیسا کہ سعد (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح مکہ کے دن چار مردوں اور دو عورتوں کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ وہ جہاں پائے جائیں قتل کردیے جائیں۔ ان میں سے ایک عکرمہ بن ابوجہل بھی تھے۔ عکرمہ نے یہ سنا تو سمندر کے راستے راہ فرار اختیار کی، لیکن جب سفر شروع ہوا تو کشتی والوں کو تند و تیز ہوا نے آلیا۔ (لوگ اپنے اپنے خداؤں کو پکارنے لگے) کشتی والوں نے کہا : ( أَخْلِصُوْا فَإِنَّ آلِھَتَکُمْ لاَ تُغْنِیْ عَنْکُمْ شَیْءًا ھٰھُنَا، فَقَالَ عِکْرِمَۃُ وَاللّٰہِ ! لَءِنْ لَمْ یُنَجِّنِیْ مِنَ الْبَحْرِ إِلاَّ الإِْخْلَاصُ لَا یُنَجِّیْنِیْ فِی الْبَرِّ غَیْرُہٗ ، اَللّٰھُمَّ إِنَّ لَکَ عَلَیَّ عَھْدًا إِنْ أَنْتَ عَافَیْتَنِیْ مِمَّا أَنَا فِیْہِ أَنْ آتِیَ مُحَمَّدًا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَتّٰی أَضَعَ یَدِيْ فِيْ فَلَأَجِدَنَّہُ عَفُوًّا کَرِیْمًا فَجَاءَ فَأَسْلَمَ ) [ نسائی، تحریم الدم، باب الحکم فی المرتد : ٤٠٧٢، وصححہ الألباني ] ” خالص اللہ کو پکارو، کیونکہ اس وقت یہاں تمہارے (خود ساختہ) معبود تمہارے کچھ کام نہیں آئیں گے۔ “ عکرمہ نے (دل میں) کہا : ” اللہ کی قسم ! اگر سمندر میں نجات صرف اللہ تعالیٰ کی ذات دے سکتی ہے تو پھر خشکی میں بھی اس کے سوا کوئی نجات نہیں دے سکتا، اے اللہ ! اگر تو نے مجھے اس طوفان سے نجات دے دی تو میں تجھ سے عہد کرتا ہوں کہ میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جا کر اپنا ہاتھ ان کے ہاتھ میں دے دوں گا، کیونکہ میں انھیں بہت درگزر کرنے والا، مہربان پاتا ہوں۔ “ چناچہ وہ آئے اور مسلمان ہوگئے۔ “ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنَّمَا بَغْيُكُمْ عَلٰٓي اَنْفُسِكُمْ ۔۔ : یعنی اس سرکشی کا وبال تمہاری اپنی ہی جانوں پر ہے، اس سے تم کسی اور کو نقصان نہیں پہنچا سکو گے، دنیوی زندگی کا تھوڑا سا فائدہ اٹھا لو، آخر تمہیں ہمارے پاس ہی آنا ہے، پھر ہم تمہیں بتلائیں گے کہ تم کیا کرتے رہے ہو، یعنی پھر ہم تمہیں ایسی سزا دیں گے جس سے تمہیں پتا چل جائے گا کہ تم کتنا بھاری ظلم کرتے رہے ہو۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَا مِنْ ذَنْبٍ أَجْدَرُ أَنْ یُّعَجِّلَ اللّٰہُ تَعَالٰی لِصَاحِبِہٖ الْعُقُوْبَۃَ فِی الدُّنْیَا مَعَ مَا یَدَّخِرُ لَہٗ فِی الْآخِرَۃِ مِثْلُ الْبَغْيِ وَقَطِیْعَۃِ الرَّحِمِ ) [ أبوداوٗد، الأدب، باب فی النہي عن البغی : ٤٩٠٢، عن أبي بکرۃ (رض) ]” کوئی گناہ اس لائق نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کی سزا دنیا میں بھی جلدی دے اور اس کے ساتھ ساتھ آخرت میں بھی اس کی سزا باقی رکھے سوائے ظلم و زیادتی اور قطع رحمی کے۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The warning given in verse 23: إِنَّمَا بَغْيُكُمْ عَلَىٰ أَنفُسِكُم (your rebellion is, in fact, against your own-selves) tells us that the curse of injustice is cer¬tain and, much before matters are settled in the Hereafter, one who is guilty of doing injustice must suffer from its evil consequences in this world as well. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has said: ` Allah Ta` ala hastens to repay mercy shown to relatives and favour done to people (whereby its blessings start becoming visible in this world, much before the Hereafter). And He also hastens to repay injustices done and relationships severed (in that its consequences have to be faced within the life of this world).& (Reported by Tirmidhi and Ibn Majah with a hasan chain of narrators) In another Hadith narrated by Sayyidah ` A&ishah (رض) ، the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said, ` there are three sins the curse whereof falls on the sinner himself: Injustice, breach of trust and deception.& (Reported by Abu ash-Shaykh and Ibn Marduwayh in Tafsir) (See Mazhari)

(آیت) اِنَّمَا بَغْيُكُمْ عَلٰٓي اَنْفُسِكُمْ ، یعنی تمہارے ظلم کا وبال تمہارے ہی اوپر پڑ رہا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ ظلم کا وبال یقینی ہے اور آخرت سے پہلے دنیا میں بھی بھگتنا پڑتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ صلہ رحمی اور لوگوں پر احسان کرنے کا بدلہ بھی جلد دیتا ہے ( کہ آخرت سے پہلے دنیا میں اس کی برکات نظر آنے لگتی ہیں اور ظلم اور قطع رحمی کا بدلہ بھی جلد دیتا ہے ( کہ دنیا میں بھگتنا پڑتا ہے) ( رواہ الترمذی و ابن ماجہ بسند حسن) اور ایک حدیث میں بروایت حضرت عائشہ مذکور ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تین گناہ ایسے ہیں کہ ان کا وبال اپنے کرنے والے ہی پر پڑتا ہے ظلم، بد عہدی اور دھوکہ فریب ( رواہ ابو الشیخ و ابن مردویہ فی التفسیر) ( مظہری ) ۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَلَمَّآ اَنْجٰىھُمْ اِذَا ھُمْ يَبْغُوْنَ فِي الْاَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ۝ ٠ ۭ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنَّمَا بَغْيُكُمْ عَلٰٓي اَنْفُسِكُمْ۝ ٠ ۙ مَّتَاعَ الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا۝ ٠ ۡثُمَّ اِلَيْنَا مَرْجِعُكُمْ فَنُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۝ ٢٣ لَمَّا يستعمل علی وجهين : أحدهما : لنفي الماضي وتقریب الفعل . نحو : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران/ 142] . والثاني : عَلَماً للظّرف نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف/ 96] أي : في وقت مجيئه، وأمثلتها تکثر . ( لما ( حرف ) یہ دوطرح پر استعمال ہوتا ہے زمانہ ماضی میں کسی فعل کی نفی اور اس کے قریب الوقوع ہونے کے لئے جیسے فرمایا : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران/ 142] حالانکہ ابھی خدا نے تم میں سے جہاد کرنے والوں کو اچھی طرح معلوم کیا ہی نہیں ۔ اور کبھی یہ اسم ظرف ک طورپر استعمال ہوتا ہے ۔ اور یہ قرآن میں بکژت آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف/ 96] جب خوشخبری دینے والا آپہنچا۔ بغي البَغْي : طلب تجاوز الاقتصاد فيما يتحرّى، والبَغْيُ علی ضربین : - أحدهما محمود، وهو تجاوز العدل إلى الإحسان، والفرض إلى التطوع . - والثاني مذموم، وهو تجاوز الحق إلى الباطل، أو تجاوزه إلى الشّبه، تعالی: إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ [ الشوری/ 42] ( ب غ ی ) البغی کے معنی کسی چیز کی طلب میں درمیانہ روی کی حد سے تجاوز کی خواہش کرنا کے ہیں ۔ بغی دو قسم پر ہے ۔ ( ١) محمود یعنی حد عدل و انصاف سے تجاوز کرکے مرتبہ احسان حاصل کرنا اور فرض سے تجاوز کرکے تطوع بجا لانا ۔ ( 2 ) مذموم ۔ یعنی حق سے تجاوز کرکے باطل یا شہاے ت میں واقع ہونا چونکہ بغی محمود بھی ہوتی ہے اور مذموم بھی اس لئے آیت کریمہ : ۔ { السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ } ( سورة الشوری 42) الزام تو ان لوگوں پر ہے ۔ جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور ملک میں ناحق فساد پھیلاتے ہیں ۔ غير أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] ، ( غ ی ر ) غیر اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ متع ( سامان) وكلّ ما ينتفع به علی وجه ما فهو مَتَاعٌ ومُتْعَةٌ ، وعلی هذا قوله : وَلَمَّا فَتَحُوا مَتاعَهُمْ [يوسف/ 65] أي : طعامهم، فسمّاه مَتَاعاً ، وقیل : وعاء هم، وکلاهما متاع، وهما متلازمان، فإنّ الطّعام کان في الوعاء . ( م ت ع ) المتوع ہر وہ چیز جس سے کسی قسم کا نفع حاصل کیا جائے اسے متاع ومتعۃ کہا جاتا ہے اس معنی کے لحاظ آیت کریمہ : وَلَمَّا فَتَحُوا مَتاعَهُمْ [يوسف/ 65] جب انہوں نے اپنا اسباب کھولا ۔ میں غلہ کو متاع کہا ہے اور بعض نے غلہ کے تھیلے بابور یاں مراد لئے ہیں اور یہ دونوں متاع میں داخل اور باہم متلا زم ہیں کیونکہ غلہ ہمیشہ تھیلوں ہی میں ڈالا جاتا ہے رجع الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، ( ر ج ع ) الرجوع اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے نبأ خبر ذو فائدة عظیمة يحصل به علم أو غَلَبَة ظنّ ، ولا يقال للخبر في الأصل نَبَأٌ حتی يتضمّن هذه الأشياء الثّلاثة، وحقّ الخبر الذي يقال فيه نَبَأٌ أن يتعرّى عن الکذب، کالتّواتر، وخبر اللہ تعالی، وخبر النبيّ عليه الصلاة والسلام، ولتضمُّن النَّبَإِ معنی الخبر قال اللہ تعالی: قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] ، ( ن ب ء ) النبا ء کے معنی خیر مفید کے ہیں جو علم یا غلبہ ظن کا فائدہ دے اور حقیقی منعی کے لحاظ سے کسی خبر تک اس میں تین چیزیں موجود نہ ہوں ۔ یعنی نہایت مفید ہونا اور اس سے علم یا غلبہ ظن کا حاصل ہونا اور نبا صرف اس خبر کو کہا جاتا ہے جس میں کذب کا احتمال نہ ہو ۔ جیسے خبر متواتر خبر الہیٰ اور خبر نبوی جیسے فرمایا : ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] کہہ دو کہ یہ ایک بڑی ( ہولناک چیز کی ) خبر ہے جس کو تم دھیان میں نہیں لاتے عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٣) پھر جب اللہ تعالیٰ ان کو اس ہوا اور غرق ہونے سے بچا لیتا ہے تو وہ فورا ہی حق سے سرکشی کرنے لگتے ہیں اے مکہ والو یہ تمہاری سرکشی اور ایک دوسرے پر ظلم وستم تمہارے لیے وبال بن جان بن جانے والا ہے اور دنیاوی منافع عارضی ہیں، ان کو بقا نہیں اور مرنے کے بعد ہمارے پاس تمہیں آنا ہے پھر جو کچھ تم نیکیاں اور برائیاں کرتے تھے، ہم سب تمہیں بتلا دیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(10:23) انجھم۔ اس نے ان کو نجات دلائی۔ اس نے ان کو بچا لیا۔ ماضی واحد مذکر غائب ۔ اذا۔ یہاں اور آیہ (21) اذا لہم مکر۔ میں بطور حرف مفاجاۃ استعمال ہوا ہے۔ تو ۔ لو۔ اچانک (اچانک اپنا رویہ بدل کر دوسرا رخ اختیار کرلیتے ہیں) اس کو اذا الفجائیہ بھی کہتے ہیں خرجت فاذا اسد بالباب۔ میں نکلا تو اچانک دروازہ پر شیر تھا۔ یبغون۔ بغی یبغی بغی (باب ضرب) زیادتی کرنے لگتے ہیں۔ سرکشی کرنے لگتے ہیں بغاوت پر اتر آتے ہیں۔ مضارع کا صیغہ جمع مذکر غائب۔ اصل میں یبغیون تھا۔ ی کی حرکت ماقبل کو دی۔ ی اجتماع ساکنین سے گرگیا۔ اسی باب سے چاہنا اور طلب کرنے کے معنی بھی آتے ہیں۔ بغی کا تعلق فعل محمود اور فعل مذموم دونوں سے ہے۔ محمود اس طرح کہ عدل سے بڑھ کر احسان کرنا۔ مثلاً مزدور کو زیادہ مزدوری دینا۔ اور مذموم اس طرح کہ حق سے تجاوز کرکے باطل کو اختیار کرنا۔ قرآن میں پانچ معانی میں استعمال ہوا ہے۔ ظلم۔ گناہ۔ حسد۔ زنا۔ طلب و تلاش۔ انما بغیکم علی انفسکم۔ تحقیق تمہاری سرکشی کا (وبال) تمہیں پر پڑے گا۔ تمہاری سرکشی تمہارے اپنے ہی خلاف جائے گی ننبئکم۔ مضارع جمع متکلم۔ کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر۔ ہم آگاہ کریں گے۔ ہم تم کو جتلا دیں گے یعنی جتلانے کے بعد سزا دیں گے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9۔ حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ” مکرو فریب “ عہد شکنی اور بغی (فساد و شرارت) ایسے کام ہیں جن کا وبال ان کے کرنیوالوں پر ہی پڑتا ہے۔ اس کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ (درمنشورِ ) نیز حدیث میں ہے کہ یہ گناہ ایسے ہیں کہ دنیا میں بھی ان کی سزا ملے گی اور آخرت میں بھی (ابن کثیر) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 24 تا 25 مثل (مثال) اختلط (رل مل گیا) نبات الارض (زمین کا سبزہ، پیداوار) الانعام (مویشی، چو پائے) اخذت (پکڑ لیا) زخرف (رونق) ازینت (آراستہ ہوگئی، سنور گئی) ظن (گمان کرلیا) اھل (مالک، (کاشتکار) امرنا (ہمارا حکم (فیصلہ) حصید (کٹا ہوا ڈھیر، کٹی ہوئی کھیتی ) لم تغن (آیا نہ رہی تھی، لم تغن جو اصل میں لم تغنا تھا آخر کا الف گر گیا تغن کا معنی ہیں آباد ہونا، رہنا سہنا۔ امس (جو کل گذر گئی اس کو امس کہتے ہیں) ۔ نفصل (ہم تفصیل (صاف صاف) بیان کرتے ہیں یدعوا (وہ بلاتا ہے، پکارتا ہے، دعوت دیتا ہے ۔ دار السلام (سلامتی کا گھر، (جنت ، آخرت) صراط مستقیم (وہ راستہ جو بالکل سیدھا (منزل تک پہنچانے والا ) ہو ۔ تشریح : آیت نمبر 24 تا 25 اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جا بجا ایسی روزمرہ کی مثالیں بیان کر کے حقائق سے پردہ اٹھایا ہے جس کو ہر شخص بہت آسانی اور سہولت سے سمجھ سکتا ہے ۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ ہر شخص یہ دیکھتا ہے کہ زمین کا ایک ایسا خطہ ہے جہاں بارش نہ ہونے سے بےرونقی محسوس ہوتی ہے کہ اچانک بلندی سے زور دار بارش ہوتی ہے جس سے زمین میں ایک نئی زندگی پیدا ہوجاتی ہے ہر طرح سر سبزی و شادابی بکھر جاتی ہے، درختوں پر ایک خاص نکھار اور پھبن آجاتی ہے کھیت لہلہا اٹھتے ہیں اور کھیتوں میں جان پڑجاتی ہے۔ اب آدمی بڑا خوش ہوتا ہے اور اس تصور کے ساتھ پروگرام بناتا ہے کہ میری کھیتی تیار ہوگئی، باغ کے پھل ائٓیں گے، میوہ اور اناج کے ڈھیر ہوں گے، اس پر کبھی کبھی ایسا ناز اور غرور چھا جاتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو دنیا کا خوش نصیب ترین آدمی سمجھنے لگتا ہے لیکن اچانک ایک دن یا رات میں اللہ کا فیصلہ آجاتا ہے اور اس کی راہ کھیتی نہ صرف برباد ہو کر رہ جاتی ہے بلکہ اس کے تصورات اور تمنائیں بھی بکھر کر رہ جاتی ہیں اس کے کھیت اجڑ جاتے ہیں کہ جیسے کل یہاں کچھ بھی نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس مثال کے ذریعہ یہ سمجھایا ہے کہ دنیا کی زندگی میں ایسا اکثر ہوتا ہے کہ ایک شخص نے دن رات خوب محنت کر کے بہت سی دولت کمائی، دنیا کے ڈھیر لگا لئے اس کے پاس دنیا کی دولت کی اس طرح ریل پیل ہوگئی کہ وہ سمجھنے لگا کہ مجھے زندگی میں جو کچھ حاصل ہوا ہے وہ ہمیشہ میرے ساتھ رہے گا لیکن ایک دن اچانک زمین یا آسمانی حادثہ پیش آجاتا ہے اور وہ سب کچھ جس کو وہ اپنا سجھ رہا تھا اس کے ہاتھوں سے نکل جاتا ہے یا موت کا ایک پنجہ اس سے سب کچھ چھین لیتا ہے اور وہ کچھ بھی نہیں کرسکتا۔ فرمایا کہ انسان جس چیز کو جس دنیا کو اور اس کے سامان کو یہ سمجھتا ہے کہ یہ اس کا ہے وہ بہت بڑی بھول میں ہوتا ہے۔ ان اسباب اور چیزوں میں کوئی عافیت، سلامتی اور پائیدار نہیں ہے بلکہ ایک حد یا جا کر یہ چیزیں اس سے چھین لی جاتی ہے۔ سلامتی اور عافیت کا راستہ صرف وہ ہے جس طرف اللہ اپنے بندوں کو بلاتا ہے اس میں پائیداری ہے اور وہی صراط مستقیم ہے۔ دنیا کی تاریخ کا مطالعہ کر لیجیے آپ کو ایک ہی بات ملے گی کہ کوئی بادشاہ یا دنیا کا طاقت ور ترین انسان ہو وہ موت کے سامنے بےبس ہے۔ جس دنیا نے اس کو فرعون، ہامان ، شد اد اور قارون بنا دیا، آج وہ اس دنیا میں نہیں ہیں ان کی سلطنتیں، درباری اور دولت کے ڈھیر بھی نہیں ہے اور وہ خاک کا پیوند بن چکے ہیں۔ اگر حکومت و اقتدار، مال و دولت بڑی بڑی بلڈنگوں میں سلامتی کا کوئی پہلو ہوتا تو وہ برقرار رہتیں لیکن آج ان کا غرور اور کرو فرسب خاک میں مل چاک ہے۔ وہ لوگ جنہوں نے سلامتی اور اسلام کا راستہ اختیار کرلیا وہ اگرچہ اپنے زمانہ میں انتہائی غریب و مفلس تھے لیکن اسی سلامتی کے راستے کو اختیار کرنے سے، صراط مستقیم پر چلنے سے وہ اس مقام کے لوگ ہوگئے ہیں کہ جن کی طرف نسبت کرنے کو لوگ لائق فخر سمجھتے ہیں۔ پوری دنیا میں دیکھی لیجیے تاریخ کے صفحات کا مطالعہ کر لیجیے آج تک دنیا میں کوئی شخص اپنی نسبت فرعون، ہامان، شداداد اور قارون کی طرف نہیں کرتا۔ کوئی اس بات پر فخر نہیں کرتا کہ میں ابوجہل یا ابولہب کی اولاد ہوں۔ یہاں تک کہ اگر ان کی اولاد ہوتی تو وہ بھی اپنے آبا و اجداد پر فخر نہ کرتی ان کی طرف اپنے آپ کو منسوب نہ کرتی لن کی جن لوگوں نے دامن مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تھام لیا آج ان کی طرف نسبت کرنے کو قابل فخر سمجھا جاتا ہے ۔ صدیقی ، فاروقی، عثمانی اور علوی لکھنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ سلامتی اور عافیت کا راستہ اور صراط مستقیم صرف وہی ہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ اور آپ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بلا رہے ہیں۔ اس راستے کے علاوہ ہر راستہ وہ ہے جو انسان کو اس دنیا میں اور آخرت میں عزت کا حقیقی مقام نہیں دلاتا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صراط مستقیم پر سلامتی کے ساتھ چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ یعنی وہی شرک و معصیت۔ 2۔ اوپر یا ایھا الناس انما بغیکم میں فرمایا تھا کہ یہ تمہاری کامرانی کفرومعاصی سے دنیا میں چند روزہ ہے پھر آخرت میں اس کی سزا بھگتنا ہے آگے دنیا کا فانی ہونا اور آخرت کی جزا وسزا کا باقی ہونا مع تفصیل جزا وسزا اور اس کے مستحقین کے مذکور ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فلما انجھم اذاھم یبغون فی الارض بغیر الحق پھر جب اللہ ان کو اس مہلکہ سے بچا لیتا ہے تو فوراً ہی وہ اطراف زمین میں ناحق سرکشی کرنے لگتے ہیں۔ یعنی اللہ جب ان کی دعا قبول کرلیتا ہے اور طوفان سے رہائی دے دیتا ہے تو یکدم وہ حدود فساد میں داخل ہوجاتے ہیں۔ اِذَامفاجات کیلئے ہے اور بغی سے مراد ہے اباحت کی حدود سے نکل کر فساد کی طرف بڑھنا۔ بغیر الحق کے لفظ سے یبغون کے مفہوم کی تاکید ہو رہی ہے کیونکہ فساد تو ہوتا ہی ناحق ہے۔ شبہ ہو سکتا تھا کہ مسلمان بھی کافروں کی بستیوں کو تباہ کرتے ‘ ان کی کھیتیوں کو اجاڑتے اور باغوں کو ویران کرتے۔ یہ بھی تو فساد ہے۔ اس شبہ کو دور کرنے کیلئے فرمایا کہ یہ (فساد نما) حرکات جو مسلمان سے سرزد ہوتی ہیں ‘ تخریب کیلئے نہیں ہیں بلکہ ان کی غرض تعمیر اور اصلاح ہوتی ہے۔ ایسا اللہ کے حکم سے کیا جاتا ہے ‘ حدود اباحت سے تجاوز نہیں کیا جاتا۔ یایھا الناس انما بغیکم علی انفسکم اے لوگو ! (سن لو) یہ تمہاری سرکشی تمہارے لئے وبال (جان) ہونے والی ہے۔ ظلم کا برا نتیجہ تمہاری ہی طرف لوٹتا ہے۔ ترمذی و ابن ماجہ نے حسن سند کے ساتھ حضرت عائشہ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) نے فرمایا : حسن سلوک اور اقربا پروری کا اچھا نتیجہ ہر بھلائی سے جلد مل جاتا ہے اور ظلم و قطع رحم کا برا نتیجہ ہر برائی کے نتیجے سے پہلے آجاتا ہے۔ ابو الشیخ ‘ خطیب اور ابن مردویہ نے تفسیر میں حضرت انس کی روایت سے بیان کہ رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) نے فرمایا : یہ تین چیزیں اپنے کرنے والے پر ہی لوٹ پڑتی ہیں : ظلم ‘ فریب ‘ دغا۔ ابن لالی نے حضرت ابوہریرہ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) نے فرمایا : اگر پہاڑ ‘ پہاڑ پر ظلم کرے تو ظلم کرنے والا (پہاڑ) پھٹ کر ٹکڑے ہوجائے گا۔ متاع الحیوۃ الدنیا زندگی میں چندے اس سے حظ اٹھا رہے ہو ‘ یعنی عارضی اور فنا پذیر ہے۔ متاع الحیٰوۃ فعل محذوف کا مفعول ہے یا بغیکا۔ ثم الینا مرجعکم پھر (مرنے کے بعد یا قیامت کے دن) تمہاری واپسی ہماری ہی طرف ہوگی۔ فننبئکم بما کنتم تعملون۔ پھر تمہارے اعمال کا بدلہ دے کر ہم تم کو آگاہ کردیں گے (کہ یہ بدلہ فلاں عمل کا ہے) ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اسی کو فرمایا (فَلَمَّا اَنْجٰھُمْ اِذَا ھُمْ یَبْغُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ ) (سو جب اللہ نے انہیں نجات دے دی تو اچانک زمین میں ناحق بغاوت کرنے لگتے ہیں) ۔ پھر فرمایا (یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنَّمَا بَغْیُکُمْ عَلٰی اَنْفُسِکُمْ ) (اے لوگو تمہاری بغاوت اپنی ہی جانوں پر ہے ‘ کیونکہ اس کا وبال تمہارے ہی اوپر پڑنے والا ہے) (مَّتَاعَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا) (تم دنیا والی زندگی میں نفع حاصل کر رہے ہو) یہ تھوڑا سا نفع ہے اور تھوڑے دن کا نفع ہے۔ کما قال تعالیٰ فی سورة النساء (قُلْ مَتَاع الدُّنْیَا قَلِیْلٌ) پھر فرمایا (ثُمَّ اِلَیْنَا مَرْجِعُکُمْ فَنُنَبِّءُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ) پھر ہماری طرف تمہارا لوٹنا ہوگا تو ہم تمہیں بتادیں گے جو کام تم کیا کرتے تھے (تمہارے اعمال تمہارے سامنے آئیں گے ‘ محاسبہ اور مواخذہ ہوگا۔ لہٰذا اسی دنیا میں اپنے اعمال درست کرلو) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

39: یہ تنبیہ ہے اور اس سے دنیا کی تحقیر اور بےوقعتی کا بیان مقصود ہے “ مَتَاعَ الْحَیٰوةِ ” منصوب بنزع خافض ہے “ اي فی متاع الحیوة الخ ” جس دنیا پر تم مغرور ہو کر حق کو نہیں مانے ہو وہ بہت حقیر اور بالکل ناپائیدار ہے۔ اس چند روزہ دنیا میں تم اللہ کی نافرمانی کر کے اپنی جانوں پر ظلم و زیادتی کرلو آخر قیامت کے دن میرے سامنے آؤ گے جہاں اپنے کیے کی سزا پاؤ گے۔ 40: یہ دنیا کی حقارت اور اس کی ناپائیداری کی تمثیل ہے۔ “ اِخْتَلَطَ ” زیادہ اور گنجان ہوگئی۔ “ زُخْرُفَھَا ” زیور یعنی سرسبز و شاداب کھیتوں اور بوقلموں پھولوں کی وجہ سے زمین مانند عروس خوبصورت ہوگئی۔ “ وَازَّیَّنَتْ ” یہ ماقبل کی تفسیر ہے “ کَاَنْ لَّمْ تَغْنَ بِالْاَمْسِ ” گویا کہ کل گذشتہ اس کا نام و نشان تک نہ تھا۔ جس طرح بارش برسنے کے بعد زمین سرسبز و شاداب اور رنگا رنگ پھولوں سے مزین اور بارونق ہوجاتی ہے لیکن جونہی کوئی بیماری آفت آئی بس لہلہاتے کھیتوں اور باغوں کا ستیا ناس ہوگیا اور ایسے تباہ ہوئے کہ ان کا نام و نشان تک نہ رہا گویا کہ وہاں کچھ تھا ہی نہیں بالکل یہی حال اس کارگاہ عالم کا ہے اس کی چہل پہل، زینت و آرائش اور رونق وزیبائش بالکل ناپائیدار اور چند روزہ ہے۔ اس لیے دنیا کی عیش و عشرت میں منہمک ہو کر اللہ کی توحید اور آخرت سے غافل نہیں ہونا چاہئے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

23 پھر جب اللہ تعالیٰ ان کو اس طوفان اور آفت سے نجات دے دیتا ہے تو وہ خشکی پر پہونچتے ہی روئے زمین پر بےجا سرکشی اور شرارت کرنے لگتے ہیں۔ اے بنی نوع انسان ! یاد رکھو کہ یہ تمہاری سرکشی شرارت اور بغاوت تمہارے ہی لئے وبال جان ہوگی اور تمہاری سرکشی کا وبال بس تم پر ہی پڑنے والا ہے تم دنیوی زندگی کے سازو سامان سے فائدہ اٹھالو پھر تم کو ہماری ہی طرف واپس آنا ہے پھر ہم تم کو ان سب کاموں کی حقیقت سے آگاہ کردیں گے جو تم کیا کرتے تھے ۔ یعنی خشکی پر پہونچنے کے بعد پھر زمین پر اسی کفرو شرک کی حرکات کا ارتکاب کرنے لگتے ہیں جو پہلے سے کرتے رہے ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے کہ ان حرکات کا اثر تم ہی پر پڑنے والا ہے دنیوی زندگی سے چندے فائدہ اٹھاتے رہو پھر تم کو ہماری ہی پاس لوٹ کر آنا ہے ہم تم کو تمہارے اعمال بتادیں گے اور جتا دیں گے اور تمہارے اعمال کے موافق تم کو سزا دی جائے گی۔