Surat Younus

Surah: 10

Verse: 24

سورة يونس

اِنَّمَا مَثَلُ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا کَمَآءٍ اَنۡزَلۡنٰہُ مِنَ السَّمَآءِ فَاخۡتَلَطَ بِہٖ نَبَاتُ الۡاَرۡضِ مِمَّا یَاۡکُلُ النَّاسُ وَ الۡاَنۡعَامُ ؕ حَتّٰۤی اِذَاۤ اَخَذَتِ الۡاَرۡضُ زُخۡرُفَہَا وَ ازَّیَّنَتۡ وَ ظَنَّ اَہۡلُہَاۤ اَنَّہُمۡ قٰدِرُوۡنَ عَلَیۡہَاۤ ۙ اَتٰہَاۤ اَمۡرُنَا لَیۡلًا اَوۡ نَہَارًا فَجَعَلۡنٰہَا حَصِیۡدًا کَاَنۡ لَّمۡ تَغۡنَ بِالۡاَمۡسِ ؕ کَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الۡاٰیٰتِ لِقَوۡمٍ یَّتَفَکَّرُوۡنَ ﴿۲۴﴾

The example of [this] worldly life is but like rain which We have sent down from the sky that the plants of the earth absorb - [those] from which men and livestock eat - until, when the earth has taken on its adornment and is beautified and its people suppose that they have capability over it, there comes to it Our command by night or by day, and We make it as a harvest, as if it had not flourished yesterday. Thus do We explain in detail the signs for a people who give thought.

پس دنیاوی زندگی کی حالت تو ایسی ہے جیسے ہم نے آسمان سے پانی برسایا پھر اس سے زمین کی نباتات ، جن کو آدمی اور چوپائے کھاتے ہیں ۔ خوب گنجان ہو کر نکلی یہاں تک کہ جب وہ زمین اپنی رونق کا پورا حصہ لے چکی اور اس کی خوب زیبائش ہوگئی اور اس کے مالکوں نے سمجھ لیا کہ اب ہم اس پر بالکل قابض ہوچکے ہیں تو دن میں یا رات میں اس پر ہماری طرف سے کوئی حکم ( عذاب ) آپڑا سو ہم نے اس کو ایسا صاف کر دیا کہ گویا کل وہ موجود ہی نہ تھی ۔ ہم اسی طرح آیات کو صاف صاف بیان کرتے ہیں ایسے لوگوں کے لئے جو سوچتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Parable of this Life Allah says; إِنَّمَا مَثَلُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا كَمَاء أَنزَلْنَاهُ مِنَ السَّمَاء فَاخْتَلَطَ بِهِ نَبَاتُ الاَرْضِ مِمَّا يَأْكُلُ النَّاسُ وَالاَنْعَامُ ... Verily, the parable of the life of the world is as the water which We send down from the sky; so by it arises the intermingled produce of the earth of which men and cattle eat: Allah the Almighty has set an example of the similitude of the life of this world, its glitter and the swiftness of its passage, likening it to the plant and vegetation that Allah brings out from the earth. This plant grows from the water that comes down from the sky. These plants are food for people, such as fruits and other different types and kinds of foods. Some other kinds are food for cattle such as clover plants (i.e. green fodder for the cattle) and herbage etc. ... حَتَّىَ إِذَا أَخَذَتِ الاَرْضُ زُخْرُفَهَا ... until when the earth is clad in its adornments, ... وَازَّيَّنَتْ ... and is beautified, meaning, it became good by what grows on its hills such as blooming flowers of different shapes and colors. ... وَظَنَّ أَهْلُهَا ... and its people think... those who planted it and put it in the ground, ... أَنَّهُمْ قَادِرُونَ عَلَيْهَأ ... that they have all the powers of disposal over it, to cultivate it and harvest it. But while they were in that frame of mind, a thunderbolt or a severe, cold storm came to it. It dried its leaves and spoiled its fruits. Allah said: ... أَتَاهَا أَمْرُنَا لَيْلً أَوْ نَهَارًا فَجَعَلْنَاهَا حَصِيدًا ... Our command reaches it by night or by day and We make it like a clean-mown harvest, it became dry after it was green and flourishing. ... كَأَن لَّمْ تَغْنَ بِالاَمْسِ ... as if it had not flourished yesterday! as if nothing existed there before. Qatadah said: "As if it had not flourished; as if it was never blessed." Such are things after they perish, they are as if they had never existed. Similarly, the Hadith, يُوْتَى بِأَنْعَمِ أَهْلِ الدُّنْيَا فَيُغْمَسُ فِي النَّارِ غَمْسَةً فَيُقَالُ لَهُ هَلْ رَأَيْتَ خَيْرًا قَطُّ هَلْ مَرَّ بِكَ نَعِيمٌ قَطُّ فَيَقُولُ لاَ وَيُوْتَى بِأَشَدِّ النَّاسِ عَذَابًا فِي الدُّنْيَا فَيُغْمَسُ فِي النَّعِيمِ غَمْسَةً ثُمَّ يُقَالُ لَهُ هَلْ رَأَيْتَ بُوْسًا قَطُّ فَيَقُولُ لاَ A person who led the most prosperous life in this world will be brought up and dipped once in the Fire. He will then be asked: `Have you ever found any good or comfort!' He will reply: `No.' And a person who had experienced extreme adversity in this world will be brought up and dipped once in the bliss (of Paradise). Then he will be asked: 'Did you ever face any hardship or misery!' He will reply: `No.' Allah said about those who were destroyed: فَأَصْبَحُواْ فِى دِيَارِهِمْ جَـثِمِينَكَأَن لَّمْ يَغْنَوْاْ فِيهَأ So they lay (dead), prostrate in their homes; as if they had never lived there. (11:67-68) ... كَذَلِكَ نُفَصِّلُ الايَاتِ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ Thus do We explain the Ayat in detail for the people who reflect. Allah then said: وَاللّهُ يَدْعُو إِلَى دَارِ السَّلَمِ وَيَهْدِي مَن يَشَاء إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ

دنیا اور اس کی حقیقت ۔ دنیا کی ٹیپ ٹاپ اور اس کی دو گھڑی کی سہانی رونق پھر اس کی بربادی اور بےرونقی کی مثال زمین کے سبزے سے دی جا رہی ہے کہ بادل سے پانی برسا زمین لہلہا اُٹھی ۔ طرح طرح کی سبزیاں ، چارے ، پھل پھول ، کھیت باغات ، پیدا ہوگئے ۔ انسانوں کے کھانے کی چیزں ، جانوروں کے چرنے چگنے کی چیزیں ، چاروں طرف پھیل پڑیں ، زمین سر سبز ہو گئی ، ہر چہار طرف ہریالی ہی ہریالی نظر آنے لگی ، کھیتی والے خوش ہوگئے ، باغات والے پھولے نہیں سماتے کہ اب کے پھل اور انجاج بکثرت ہے ۔ ناگہاں آندھیوں کے جھکڑ چلنے لگلے ، برف باری ہوئی ، اولے گرے ، پالہ پڑا ، پھل چھوڑ پتے بھی جل گئے ۔ درخت جڑوں سے اکھڑ گئے ، تازگی خشکی سے بدل گئی ، پھل ٹھٹھر گئے ۔ ، جل گئے ، کھیت و باغات ایسے ہوگئے گویا تھے ہی نہیں اور جو چیز کل تھی بھی آج نہیں تو گویا کل بھی نہ تھی ۔ حدیث میں ہے بڑے دنیادار کروڑ پتی کو جو ہمیشہ ناز و نعمت میں ہی رہا تھا ، لاکر جہنم میں ایک غوطہ دے کر پھر اس سے پوچھا جائے گا کہ کہو تمہاری زندگی کیسی گزری؟ وہ جواب دے گا کہ میں نے تو کبھی کوئی راحت نہیں دیکھی ۔ کبھی آرام کا نام بھی نہیں سنا ۔ اسی طرح دنیا کی زندگی میں ایک گھڑی بھی جس پر آرام کی نہیں گزری تھی اسے لا یا جائے گا ۔ جنت میں ایک غوطہ کھلا کر پوچھا جائے گا کہ کہو دنیا میں کیسے رہے؟ جواب دے گا کہ پوری عمر کبھی رنج و غم کا نام بھی نہیں سنا کبھی تکلیف اور دکھ دیکھا بھی نہیں ۔ اللہ تعالیٰ اسی طرح عقلمندوں کے لیے واقعات واضح کرتا ہے تاکہ وہ عبرت حاصل کرلیں ۔ ایسا نہ ہو اس فانی چند روزہ دنیا کے ظاہری چکر میں پھنس جائیں اور اس ڈھل جانے والے سائے کو اصلی اور پائیدار سمجھ لیں ۔ اس کی رونق دو روزہ ہے ۔ یہ وہ چیز ہے جو اپنے چاہنے والوں سے بھاگتی ہے ۔ اور نفرت کرنے والوں سے لپٹتی ہے ۔ دنیا کی زندگی کی مثال اسی طرح ہے اور بھی بہت سی آیتوں میں بیان ہوئی ہے ۔ مثلاً سورہ کہف کی ( وَاضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا كَمَاۗءٍ اَنْزَلْنٰهُ مِنَ السَّمَاۗءِ فَاخْتَلَطَ بِهٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ فَاَصْبَحَ هَشِيْمًا تَذْرُوْهُ الرِّيٰحُ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ مُّقْتَدِرًا 45؀ ) 18- الكهف:45 ) میں اور سورۃ زمر اور سورۃ حدید میں ۔ خلیفہ مروان بن حکم نے منبر پر ( وَظَنَّ اَهْلُهَآ اَنَّھُمْ قٰدِرُوْنَ ) 24؀ ) 10- یونس:24 ) پڑھ کر فرمایا میں نے تو اسی طرح پڑھی ہے لیکن قرآن میں یہ لکھی ہوئی نہیں حضرت ابن عباس کے صاحبزادے نے فرمایا میرے والد بھی اسی طرح پڑھتے تھے ۔ ابن عباس کے پاس جب آدمی بھیجا گیا تو آپ نے فرمایا ابی بن کعب کی قرآت بھی یونہی ہے ۔ لیکن یہ قرآت غریبہ ہے ۔ اور گویا یہ جملہ تفسیر یہ ہے واللہ اعلم ۔ اللہ تعالیٰ سلامتی کے گھر کی طرف اپنے بندوں کو بلاتا ہے جو دنیا کی طرف فانی نہیں بلکہ باقی ہے دنیا کی طرف دو دن کے لیے زینت دار نہیں بلکہ ہمیشہ کی نعمتوں اور ابدی راحتوں والی ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مجھ سے کہا گیا تیری آنکھیں سو جائیں ، تیرا دل جاگتا رہے اور تیرے کان سنتے رہیں چنانچہ ایسا ہی ہوا ۔ پھر فرمایا گیا ایک سردار نے ایک گھر بنایا ۔ وہاں دعوت کا انتظام کیا ۔ ایک بلانے والے کو بھیجا ۔ پس جس نے اس کی دعوت قبول کی ۔ گھر میں داخل ہوا اور دسترخوان سے کھانا کھایا جس نے نہ قبول کی نہ اسے اپنے گھر میں آٹا ملا نہ دعوت کا کھانا میسر ہوا نہ سردار اس سے خوش ہوا ۔ پس اللہ سردار ہے اور گھر اسلام ہے اور دستر خوان جنت ہے اور بلانے والے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں یہ روایت مرسل ہے ۔ دوسری متصل بھی ہے ۔ اس میں ہے کہ ایک دن ہمارے مجمع میں آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خواب میں میرے پاس جبرائیل و میکائیل آئے جبرائیل سرہانے اور میکائیل پیروں کی طرف کھڑے ہوگئے ۔ ایک نے دوسرے سے کہا اس کی مثال بیان کرو ۔ پھر یہ مثال بیان کی ۔ پس جس نے تیری دعوت قبول کی وہ اسلام میں داخل ہوا اور جو اسلام لایا وہ جنت میں پہنچا اور و وہاں کھایا پیا ۔ ایک حدیث میں ہے ہر دن سورج کے طلوع ہونے کے وقت اس کے دونوں جانب دو فرشتے ہوتے ہیں جو باآواز بلند انسانوں اور جنوں کے سوا سب کو سنا کر کہتے ہیں کہ لوگو ! اپنے رب کی طرف آؤ ۔ جو کم ہو یا کافی ہو وہ بہتر ہے اس سے جو زیادہ ہو اور غافل کردے ۔ قرآن فرماتا ہے لوگو! اللہ تعالیٰ تمہیں دارالسلام کی طرف بلاتا ہے ( ابن ابی حاتم اور ابن جریر ) ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

24۔ 1 حصیدا فعیل بمعنی مفعول یعنی محصود دنیا کی زندگی اس طرح کھیتی سے تشبیہ دے کر اس کے عارضی پن اور ناپائیداری کو واضح کیا گیا ہے کہ کھیتی بھی بارش کے پانی سے نشمونما پاتی اور سرسبز و شداب ہوتی ہے لیکن اس کے بعد اسے کاٹ کر فنا کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٥] (فَاخْتَلَطَ بِهٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ مِمَّا يَاْكُلُ النَّاسُ وَالْاَنْعَامُ 24؀) 10 ۔ یونس :24) کے دو مفہوم ہیں ایک یہ کہ بارش کے پانی سے پیداوار اس کثرت سے پیدا ہوئی کہ آپس میں ایک دوسرے سے گتھ گئی ایک پودے کی شاخیں دوسرے میں جاگھسیں اور دوسرے کی پہلے میں۔ اور دوسرا مفہوم یہ ہے کہ پانی سے جو پیداوار یا نباتات حاصل ہوئی وہ انسانوں اور چوپایوں کے لئے ملی جلی یا مشترکہ تھی جیسے گندم کے دانے تو انسان کی خوراک ہیں اور بھوسہ چوپایوں کی۔ اور نباتات کی اکثر اقسام میں یہی صورت حال ہوتی ہے۔ [٣٦] دنیا کی زندگی کی کھیتی سے مثال :۔ اس آیت میں دنیا کی بےثباتی کی مثال بیان کی گئی ہے جس طرح نباتات پر جوبن آتا ہے پھلوں اور پھولوں کے مختلف رنگ ہوتے ہیں جو زمین کے اس قطعہ کو خوب زینت بخشتے ہیں اسی طرح انسانوں پر بھی جوانی آتی ہے جب اسے دنیا کی ہر چیز حسین نظر آنے لگتی ہے اور وہ دنیا کی رعنائیوں میں پوری طرح اپنا دل لگا لیتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ اب کچھ دن مزے اور عیش و آرام سے گزاریں گے اور زندگی کا لطف اٹھائیں گے کہ اتنے میں اسے اللہ کا حکم یعنی موت اچانک آلیتی ہے اور جس طرح کھیتی پر کوئی ناگہانی آفت آنے یا اس کے کٹ جانے کے بعد چند دنوں تک اس کا وجود ہی ختم ہوجاتا ہے اسی طرح مرجانے والا انسان بھی تھوڑی مدت بعد لوگوں کے دلوں سے محو ہوجاتا ہے اور ایک وقت ایسا آتا ہے جب اس کا نام ونشان تک دنیا سے مٹ جاتا ہے اور اس دنیا میں آباد ہو کر رخصت ہونے والے ننانوے فی صد لوگوں کا یہی حال ہوتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنَّمَا مَثَلُ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا۔۔ : پچھلی آیت میں ذکر تھا کہ تم یہاں جتنی بھی سرکشی کرلو یا لذتوں میں مست ہو کر ہماری آیات کو جھٹلا لو، یہ دنیا کی زندگی کا تھوڑا سا سامان ہے اور بہت جلد فنا ہوجانے والا ہے۔ اس آیت میں اس کی مثال بیان فرمائی کہ آسمان سے پانی برسنے سے زمین میں سے لوگوں کے اور ان کے چوپاؤں کے کھانے اور لذت حاصل کرنے کے لیے مختلف فصلیں، کھیتیاں، چارا اور پھل پیدا ہوئے، پھر خوب پھلے پھولے، زمین سج گئی، مالک سمجھنے لگے کہ ہمیں اس سے فائدہ اٹھانے کی اور اس سے غلہ، میوے اور سبزیاں حاصل کرنے کی پوری قدرت حاصل ہے۔ اَتٰىھَآ اَمْرُنَا لَيْلًا اَوْ نَهَارًا۔۔ : ” اَمْرُنَا “ سے مراد اس کے فنا کا حکم ہے، خواہ وہ پک کر زرد ہوگئی ہو اور کاٹ لی گئی ہو، یا پھر کسی دشمن نے کچی ہی برباد کردی ہو، یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی آفت سیلاب، پالے، آگ یا طوفان کی شکل میں آ پڑی کہ پکنے سے پہلے کچی ہی اس طرح کٹ کرنا پید ہوگئی گویا کبھی یہاں رہی ہی نہیں۔” حصید “ بمعنی ” مَحْصُوْدٌ“ یعنی کٹی ہوئی۔ كَاَنْ لَّمْ تَغْنَ بالْاَمْسِ : ” لَمْ تَغْنَ “ ” غَنِیَ یَغْنٰی “ (ع) کسی جگہ رہنا۔ یہی حال انسانی زندگی کا ہے، روح پانی کی طرح آسمان سے اترتی ہے اور بدن اس سے مل کر خوب پھلتا پھولتا ہے، جب جوانی پر آتا ہے تو علم و ہنر سیکھتا ہے اور امید ہوجاتی ہے کہ چند روز جی کر مزے اڑائیں گے، گھر والوں کو یقین ہوتا ہے کہ اب کما کر لائے گا کہ یکایک موت آجاتی ہے اور تمام امیدوں کو خاک میں ملا دیتی ہے اور ایسے معلوم ہوتا ہے ” كَاَنْ لَّمْ تَغْنَ بالْاَمْسِ “ (جیسے وہ کل تھا ہی نہیں) ، کچھ مدت بعد وہ ذہنوں سے بھی محو ہوجاتا ہے اور اگر وہ اپنی عمر پوری بھی کرلے تو جس طرح پکی ہوئی کھیتی کاٹ لی جاتی ہے یا خود بخود ہی چورا بن کر بکھر جاتی ہے، اسی طرح بڑھاپے کے بعد یہ بھی فنا کی نذر ہوجاتا ہے۔ سورة حدید (٢٠) اور قلم (١٧ تا ٣٣) میں بھی دنیا کی بےثباتی کا نقشہ اسی طرح بیان فرمایا ہے۔ اسی لیے ایک لمبی حدیث میں آیا ہے : ( یُؤْتٰی بِأَنْعَمِ أَھْلِ الدُّنْیَا مِنْ أَھْلِ النَّارِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَیُصْبَغُ فِی النَّارِ صَبْغَۃً ثُمَّ یُقَالُ ھَلْ رَأَیْتَ خَیْرًا قَطُّ ؟ ھَلْ مَرَّ بِکَ نَعِیْمٌ قَطُّ ؟ فَیَقُوْلُ لاَ وَاللّٰہِ ! یَا رَبِّ ! وَیُؤْتٰی بِأَشَدِّ النَّاسِ بُؤْسَا فِی الدُّنْیَا مِنْ أَھْلِ الْجَنَّۃِ فَیُقَالُ لَہٗ یَا ابْنَ آدَمَ ! ھَلْ رَأَیْتَ بُؤْسًا قَطُّ ؟ ھَلْ مَرَّ بِکَ شِدَّۃٌ قَطُّ ؟ فَیَقُوْلُ لاَ وَاللّٰہِ ! یَا رَبِّ ! مَا مَرَّ بِیْ بُؤْسٌ قَطُّ وَلاَ رَأَیْتُ شِدَّۃً قَطُّ ) [ مسلم، صفات المنافقین، باب صبغ أنعم أہل الدنیا فی النار : ٢٨٠٧، عن أنس (رض) ] ” قیامت کے دن اس شخص کو جو اہل جہنم میں سے دنیا میں سب سے زیادہ خوش حال تھا، لایا جائے گا، اسے آگ میں ایک غوطہ دے کر نکالا جائے گا، پھر اس سے پوچھا جائے گا : ” کیا تم نے کبھی کوئی خوشحالی دیکھی، کیا تیرے پاس آسودگی آئی ؟ “ وہ جواب دے گا : ” نہیں اللہ کی قسم ! اے میرے رب ! “ پھر اہل جنت میں سے اس شخص کو لایا جائے گا جو دنیا میں سب سے زیادہ بدحال تھا، اسے جنت میں ایک غوطہ دے کر نکالا جائے گا، پھر اس سے پوچھا جائے گا : ” کیا تم نے دنیا میں کوئی بدحالی دیکھی، یا کوئی سختی پہنچی ؟ “ وہ جواب دے گا :” نہیں اللہ کی قسم ! اے میرے رب ! مجھے کوئی سختی نہیں پہنچی اور میں نے کوئی بدحالی نہیں دیکھی۔ “ یَتَفَکَّرُوْن : تاکہ ان پر غور کریں اور ان سے سبق حاصل کریں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّمَا مَثَلُ الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا كَمَاۗءٍ اَنْزَلْنٰہُ مِنَ السَّمَاۗءِ فَاخْتَلَطَ بِہٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ مِمَّا يَاْكُلُ النَّاسُ وَالْاَنْعَامُ۝ ٠ ۭ حَتّٰٓي اِذَآ اَخَذَتِ الْاَرْضُ زُخْرُفَہَا وَازَّيَّنَتْ وَظَنَّ اَہْلُہَآ اَنَّھُمْ قٰدِرُوْنَ عَلَيْہَآ۝ ٠ ۙ اَتٰىھَآ اَمْرُنَا لَيْلًا اَوْ نَہَارًا فَجَعَلْنٰھَا حَصِيْدًا كَاَنْ لَّمْ تَغْنَ بِالْاَمْسِ۝ ٠ ۭ كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ۝ ٢٤ مثل والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] . ( م ث ل ) مثل ( ک ) المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔ ماء قال تعالی: وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء/ 30] ، وقال : وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان/ 48] ، ويقال مَاهُ بني فلان، وأصل ماء مَوَهٌ ، بدلالة قولهم في جمعه : أَمْوَاهٌ ، ومِيَاهٌ. في تصغیره مُوَيْهٌ ، فحذف الهاء وقلب الواو، ( م ی ہ ) الماء کے معنی پانی کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء/ 30] اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں ۔ وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان/ 48] پاک ( اور نتھرا ہوا پانی اور محاورہ ہے : ۔ ماء بنی فلان فلاں قبیلے کا پانی یعنی ان کی آبادی ماء اصل میں موہ ہے کیونکہ اس کی جمع امراۃ اور میاہ آتی ہے ۔ اور تصغیر مویۃ پھر ہا کو حزف کر کے واؤ کو الف سے تبدیل کرلیا گیا ہے نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا سما سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] ، ( س م و ) سماء ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ خلط الخَلْطُ : هو الجمع بين أجزاء الشيئين فصاعدا، سواء کانا مائعين، أو جامدین، أو أحدهما مائعا والآخر جامدا، وهو أعمّ من المزج، ويقال اختلط الشیء، قال تعالی: فَاخْتَلَطَ بِهِ نَباتُ الْأَرْضِ [يونس/ 24] ، ويقال للصّديق والمجاور والشّريك : خَلِيطٌ ، والخلیطان في الفقه من ذلك، قال تعالی: وَإِنَّ كَثِيراً مِنَ الْخُلَطاءِ لَيَبْغِي بَعْضُهُمْ عَلى بَعْضٍ [ ص/ 24] ، ( خ ل ط ) الخلط ( ن ) کے معنی دو یا دو سے زیادہ چیزوں کے اجزا کو جمع کرنے اور ملا دینے کے ہیں عام اس سے کہ وہ چیزیں سیال ہون یا جامد یا ایک مائع ہو اور دوسری جامد اور یہ مزج سے اعم ہے کہا جاتا ہے اختلط الشئی ( کسی چیز کا دوسری کے ساتھ مل جانا ) قرآن میں ہے :۔ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَباتُ الْأَرْضِ [يونس/ 24] پھر اس کے ساتھ سبزہ ۔۔ مل کر نکلا ۔ خلیط کے معنی دوست پڑوسی یا کاروبار میں شریک کے ہیں ۔ اسی سے کتب فقہ میں خلیطان کا لفظ استعمال ہوا ہے جس سے وہ لوگ مراد ہیں جن کا مال اکٹھا ہو ۔ قرآن میں ہے :۔ نَّ كَثِيراً مِنَ الْخُلَطاءِ لَيَبْغِي بَعْضُهُمْ عَلى بَعْضٍ [ ص/ 24] اور اکثر شرکاء ایک دوسرے پر زیادتی کرتے ہیں ۔ اور خلیط کا لفظ واحد اور جمع دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ نبت النَّبْتُ والنَّبَاتُ : ما يخرج من الأرض من النَّامِيات، سواء کان له ساق کا لشجر، أو لم يكن له ساق کالنَّجْم، لکن اختَصَّ في التَّعارُف بما لا ساق له، بل قد اختصَّ عند العامَّة بما يأكله الحیوان، وعلی هذا قوله تعالی: لِنُخْرِجَ بِهِ حَبًّا وَنَباتاً [ النبأ/ 15] ومتی اعتبرت الحقائق فإنّه يستعمل في كلّ نام، نباتا کان، أو حيوانا، أو إنسانا، والإِنْبَاتُ يستعمل في كلّ ذلك . قال تعالی: فَأَنْبَتْنا فِيها حَبًّا وَعِنَباً وَقَضْباً وَزَيْتُوناً وَنَخْلًا وَحَدائِقَ غُلْباً وَفاكِهَةً وَأَبًّا[ عبس/ 27- 31] ( ن ب ت ) النبت والنبات ۔ ہر وہ چیز جو زمین سے اگتی ہے ۔ اسے نبت یا نبات کہا جاتا ہے ۔ خواہ وہ تنہ دار ہو جیسے درخت ۔ یا بےتنہ جیسے جڑی بوٹیاں لیکن عرف میں خاص کر نبات اسے کہتے ہیں ہیں جس کے تنہ نہ ہو ۔ بلکہ عوام تو جانوروں کے چاراہ پر ہی نبات کا لفظ بولتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ لِنُخْرِجَ بِهِ حَبًّا وَنَباتاً [ النبأ/ 15] تاکہ اس سے اناج اور سبزہ پیدا کریں ۔ میں نبات سے مراد چارہ ہی ہے ۔ لیکن یہ اپانے حقیقی معنی کے اعتبار سے ہر پڑھنے والی چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور بناتات حیوانات اور انسان سب پر بولاجاتا ہے ۔ اور انبات ( افعال ) کا لفظ سب چیزوں کے متعلق اسستعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَأَنْبَتْنا فِيها حَبًّا وَعِنَباً وَقَضْباً وَزَيْتُوناً وَنَخْلًا وَحَدائِقَ غُلْباً وَفاكِهَةً وَأَبًّا[ عبس/ 27- 31] پھر ہم ہی نے اس میں اناج اگایا ور انگور اور ترکاری اور زیتون اور کھجوریں اور گھنے گھے باغ ور میوے ور چارہ ۔ أكل الأَكْل : تناول المطعم، وعلی طریق التشبيه قيل : أكلت النار الحطب، والأُكْل لما يؤكل، بضم الکاف وسکونه، قال تعالی: أُكُلُها دائِمٌ [ الرعد/ 35] ( ا ک ل ) الاکل کے معنی کھانا تناول کرنے کے ہیں اور مجازا اکلت النار الحطب کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی آگ نے ایندھن کو جلا ڈالا۔ اور جو چیز بھی کھائی جائے اسے اکل بضم کاف و سکونا ) کہا جاتا ہے ارشاد ہے { أُكُلُهَا دَائِمٌ } ( سورة الرعد 35) اسکے پھل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں ۔ نعم ( جانور) [ والنَّعَمُ مختصٌّ بالإبل ] ، وجمْعُه : أَنْعَامٌ ، [ وتسمیتُهُ بذلک لکون الإبل عندهم أَعْظَمَ نِعْمةٍ ، لكِنِ الأَنْعَامُ تقال للإبل والبقر والغنم، ولا يقال لها أَنْعَامٌ حتی يكون في جملتها الإبل ] «1» . قال : وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعامِ ما تَرْكَبُونَ [ الزخرف/ 12] ، وَمِنَ الْأَنْعامِ حَمُولَةً وَفَرْشاً [ الأنعام/ 142] ، وقوله : فَاخْتَلَطَ بِهِ نَباتُ الْأَرْضِ مِمَّا يَأْكُلُ النَّاسُ وَالْأَنْعامُ [يونس/ 24] فَالْأَنْعَامُ هاهنا عامٌّ في الإبل وغیرها . ( ن ع م ) نعام النعم کا لفظ خاص کر اونٹوں پر بولا جاتا ہے اور اونٹوں کو نعم اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ عرب کے لئے سب سے بڑی نعمت تھے اس کی جمع انعام آتی ہے لیکن انعام کا لفظ بھیڑ بکری اونٹ اور گائے سب پر بولا جاتا ہے مگر ان جانوروں پر انعام کا لفظ اس وقت بولا جاتا ہے ۔ جب اونٹ بھی ان میں شامل ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعامِ ما تَرْكَبُونَ [ الزخرف/ 12] اور تمہارے لئے کشتیاں اور چار پائے بنائے ۔ وَمِنَ الْأَنْعامِ حَمُولَةً وَفَرْشاً [ الأنعام/ 142] اور چار پایوں میں بوجھ اٹھا نے والے ( یعنی بڑے بڑے بھی ) پیدا کئے اور زمین سے لگے ہوئے ( یعنی چھوٹے چھوٹے بھی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَباتُ الْأَرْضِ مِمَّا يَأْكُلُ النَّاسُ وَالْأَنْعامُ [يونس/ 24] پھر اس کے ساتھ سبزہ جسے آدمی اور جانور کھاتے ہیں ۔ مل کر نکلا ۔ میں انعام کا لفظ عام ہے جو تمام جانوروں کو شامل ہے ۔ أخذ الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف/ 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة/ 255] ( اخ ذ) الاخذ ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ { مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ } ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ { لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ } ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔ زخرف الزُّخْرُفُ : الزّينة المزوّقة، ومنه قيل للذّهب : زُخْرُفٌ ، وقال : أَخَذَتِ الْأَرْضُ زُخْرُفَها [يونس/ 24] ، وقال : بَيْتٌ مِنْ زُخْرُفٍ [ الإسراء/ 93] ، أي : ذهب مزوّق، وقال : وَزُخْرُفاً [ الزخرف/ 35] ، وقال : زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوراً [ الأنعام/ 112] ، أي : المزوّقات من الکلام . ( زخ رف ) الزخرف اصل میں اس زینت کو کہتے ہیں جو ملمع سے حاصل ہو اسی سے سونے کو بھی زخرف کہا جاتا ہے ( کیونکہ یہ زیبائش کے کام آتا ہے ) ۔ قرآن میں ہے :۔ أَخَذَتِ الْأَرْضُ زُخْرُفَها [يونس/ 24] ، یہاں تک کہ زمین سبزے سے خوشنما اور آراستہ ہوگئی ۔ بَيْتٌ مِنْ زُخْرُفٍ [ الإسراء/ 93] طلائی گھر ۔ وَزُخْرُفاً [ الزخرف/ 35] اور سونے کے ( دروازے ) اور زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوراً [ الأنعام/ 112] کے معنی ہیں |" ملمع کی ہوئی باتیں |" زين الزِّينَةُ الحقیقيّة : ما لا يشين الإنسان في شيء من أحواله لا في الدنیا، ولا في الآخرة، فأمّا ما يزينه في حالة دون حالة فهو من وجه شين، ( زی ن ) الزینہ زینت حقیقی ہوتی ہے جو انسان کے لئے کسی حالت میں بھی معیوب نہ ہو یعنی نہ دنیا میں اور نہ ہی عقبی ٰ میں اور وہ چیز جو ایک حیثیت سی موجب زینت ہو لیکن دوسری حیثیت سے موجب زینت نہ ہو وہ زینت حقیقی نہیں ہوتی بلکہ اسے صرف ایک پہلو کے اعتبار سے زینت کہہ سکتے ہیں ظن والظَّنُّ في كثير من الأمور مذموم، ولذلک قال تعالی: وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس/ 36] ، وَإِنَّ الظَّنَ [ النجم/ 28] ، وَأَنَّهُمْ ظَنُّوا كَما ظَنَنْتُمْ [ الجن/ 7] ، ( ظ ن ن ) الظن اور ظن چونکہ عام طور پر برا ہوتا ہے اس لئے اس کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا : وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس/ 36] اور ان میں کے اکثر صرف ظن کی پیروی کرتے ہیں ۔ قادر الْقُدْرَةُ إذا وصف بها الإنسان فاسم لهيئة له بها يتمكّن من فعل شيء ما، وإذا وصف اللہ تعالیٰ بها فهي نفي العجز عنه، ومحال أن يوصف غير اللہ بالقدرة المطلقة معنی وإن أطلق عليه لفظا، بل حقّه أن يقال : قَادِرٌ علی كذا، ومتی قيل : هو قادر، فعلی سبیل معنی التّقييد، ولهذا لا أحد غير اللہ يوصف بالقدرة من وجه إلّا ويصحّ أن يوصف بالعجز من وجه، والله تعالیٰ هو الذي ينتفي عنه العجز من کلّ وجه . ( ق د ر ) القدرۃ ( قدرت) اگر یہ انسان کی صنعت ہو تو اس سے مراد وہ قوت ہوتی ہے جس سے انسان کوئی کام کرسکتا ہو اور اللہ تعالیٰ کے قادرہونے کے معنی یہ ہیں کہ وہ عاجز نہیں ہے اور اللہ کے سوا کوئی دوسری ہستی معنوی طور پر قدرت کا ملہ کے ساتھ متصف نہیں ہوسکتی اگرچہ لفظی طور پر ان کیطرف نسبت ہوسکتی ہے اس لئے انسان کو مطلقا ھو قادر کہنا صحیح نہیں ہے بلکہ تقیید کے ساتھ ھوقادر علی کذا کہاجائیگا لہذا اللہ کے سوا ہر چیز قدرت اور عجز دونوں کے ساتھ متصف ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ایسی ہے جو ہر لحاظ سے عجز سے پاک ہے أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام/ 40] ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی |" آنا |" ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : {إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ } [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو۔ ليل يقال : لَيْلٌ ولَيْلَةٌ ، وجمعها : لَيَالٍ ولَيَائِلُ ولَيْلَاتٌ ، وقیل : لَيْلٌ أَلْيَلُ ، ولیلة لَيْلَاءُ. وقیل : أصل ليلة لَيْلَاةٌ بدلیل تصغیرها علی لُيَيْلَةٍ ، وجمعها علی ليال . قال اللہ تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم/ 33] ( ل ی ل ) لیل ولیلۃ کے معنی رات کے ہیں اس کی جمع لیال ولیا ئل ولیلات آتی ہے اور نہایت تاریک رات کو لیل الیل ولیلہ لیلاء کہا جاتا ہے بعض نے کہا ہے کہ لیلۃ اصل میں لیلاۃ ہے کیونکہ اس کی تصغیر لیلۃ اور جمع لیال آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر/ 1] ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل ( کرنا شروع ) وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم/ 33] اور رات اور دن کو تمہاری خاطر کام میں لگا دیا ۔ نهار والنهارُ : الوقت الذي ينتشر فيه الضّوء، وهو في الشرع : ما بين طلوع الفجر إلى وقت غروب الشمس، وفي الأصل ما بين طلوع الشمس إلى غروبها . قال تعالی: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان/ 62] ( ن ھ ر ) النھر النھار ( ن ) شرعا طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب کے وقت گو نھار کہاجاتا ہے ۔ لیکن لغوی لحاظ سے اس کی حد طلوع شمس سے لیکر غروب آفتاب تک ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان/ 62] اور وہی تو ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے والا بیانا ۔ حصد أصل الحَصْد قطع الزرع، وزمن الحَصَاد والحِصَاد، کقولک : زمن الجداد والجداد، وقال تعالی: وَآتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصادِهِ [ الأنعام/ 141] ، ( ح ص د ) الحصد والحصاد کے معنی کھیتی کاٹنے کے ہیں اور زمن الحصاد والحصاد یہ زمن من الجداد والجداد کی طرح ( بکسرہ حا وفتحہا ) دونوں طرح آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ آتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصادِهِ [ الأنعام/ 141] اور جس دن ( پھل توڑ و اور کھیتی ) کا نو تو خدا کا حق بھی اس میں سے ادا کرو ۔ میں وہ کھیتی مراد ہے جو اس کی صحیح وقت میں کاٹی گئی ہو ۔ غنی وغَنَى في مکان کذا : إذا طال مقامه فيه مستغنیا به عن غيره بغنی، قال : كَأَنْ لَمْ يَغْنَوْا فِيهَا[ الأعراف/ 92] ( غ ن ی ) الغنیٰ غنی فی مکان کذا ۔ کسی جگہ مدت دراز تک اقامت کرنا گویا وہ دوسری جگہوں سے بےنیاز ہے ۔ قرآن میں ہے : كَأَنْ لَمْ يَغْنَوْا فِيهَا[ الأعراف/ 92] گویا وہ ان میں کبھی آبادہی نہیں ہوئے تھے ۔ تفصیل : ما فيه قطع الحکم، وحکم فَيْصَلٌ ، ولسان مِفْصَلٌ. قال : وَكُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْناهُ تَفْصِيلًا[ الإسراء/ 12] ، الر كِتابٌ أُحْكِمَتْ آياتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ [هود/ 1] ( ف ص ل ) الفصل التفصیل واضح کردینا کھولکر بیان کردینا چناچہ فرمایا : وَكُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْناهُ تَفْصِيلًا[ الإسراء/ 12] اور ہم نے ہر چیز بخوبی تفصیل کردی ہے ۔ اور آیت کریمہ : الر كِتابٌ أُحْكِمَتْ آياتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ [هود/ 1] یہ وہ کتاب ہے جس کی آیتیں مستحکم ہیں اور خدائے حکیم و خیبر کی طرف سے بہ تفصیل بیان کردی گئی ہیں ۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] فكر الْفِكْرَةُ : قوّة مطرقة للعلم إلى المعلوم، والتَّفَكُّرُ : جولان تلک القوّة بحسب نظر العقل، وذلک للإنسان دون الحیوان، قال تعالی: أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا فِي أَنْفُسِهِمْ ما خَلَقَ اللَّهُ السَّماواتِ [ الروم/ 8] ، أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا ما بصاحبِهِمْ مِنْ جِنَّةٍ [ الأعراف/ 184] ، إِنَّ فِي ذلِكَ لَآياتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ [ الرعد/ 3] ( ف ک ر ) الفکرۃ اس قوت کو کہتے ہیں جو علم کو معلوم کی طرف لے جاتی ہے اور تفکر کے معنی نظر عقل کے مطابق اس قوت کی جو لانی دینے کے ہیں ۔ اور غور فکر کی استعداد صرف انسان کو دی گئی ہے دوسرے حیوانات اس سے محروم ہیں اور تفکرفیہ کا لفظ صرف اسی چیز کے متعلق بولا جاتا ہے جس کا تصور دل ( ذہن میں حاصل ہوسکتا ہے ۔ قرآن میں ہے : أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا فِي أَنْفُسِهِمْ ما خَلَقَ اللَّهُ السَّماواتِ [ الروم/ 8] کیا انہوں نے اپنے دل میں غو ر نہیں کیا کہ خدا نے آسمانوں کو پیدا کیا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٤) دنیاوی زندگی کی بقا اور فنا کی حالت تو اسی طرح ہے جس طرح کہ ہم نے بارش برسائی جس سے زمین پر پھل اور دانے اور گھاس پھوس خوب گنجان ہو کر نکلے، یہاں تک جب وہ زمین اپنی رونق کا پورا حصہ لے چکی اور وہ نباتات سبز، سرخ اور پیلے ہوگئے اور کاشتکاروں نے سمجھ لیا کہ اب نباتات ان کے قبضہ میں آگئی تو ایسی حالت میں ہماری طرف سے عذاب آگیا جس طرح بکریاں اپنے پیروں سے روند کر کاشتکاروں کی کھیتوں کو تباہ وبرباد کردیتی ہیں تو ہم نے ایسا صاف کردیا جیسا کہ وہ کل یہاں موجود ہی نہ تھی، جیسا کہ گرمیوں میں کھیتی کٹ جاتی ہے۔ ہم اسی طرح قرآن میں دنیا کے فانی ہونے کو واضح طور بیان کرتے ہیں، ایسے لوگوں کے لیے جو امور دنیا و آخرت میں سوچتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٤ (اِنَّمَا مَثَلُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا کَمَآءٍ اَنْزَلْنٰہُ مِنَ السَّمَآءِ فَاخْتَلَطَ بِہٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ مِمَّا یَأْکُلُ النَّاسُ وَالْاَنْعَامُ ط) پانی کے بغیر زمین بنجر اور مردہ ہوتی ہے ‘ اس میں گھاس ‘ ہریالی وغیرہ کچھ بھی نہیں ہوتا۔ جونہی بارش ہوتی ہے اس میں سے طرح طرح کا سبزہ نکل آتا ہے ‘ فصلیں لہلہانے لگتی ہیں ‘ باغات ہرے بھرے ہوجاتے ہیں۔ (حتّٰیٓ اِذَآ اَخَذَتِ الْاَرْضُ زُخْرُفَہَا وَازَّیَّنَتْ ) یہاں پر بہت خوبصورت الفاظ میں زمین کی شادابی کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ چھوٹے بڑے نباتات کی نمائش ‘ سبز پوش خوبصورتی کی بہار اور رنگا رنگ پھولوں کی زیبائش کے ساتھ جب زمین پوری طرح اپنابناؤ سنگھار کرلیتی ہے ‘ فصلیں اپنے جوبن پر آجاتی ہیں اور باغات پھلوں سے لد جاتے ہیں : (وَظَنَّ اَہْلُہَآ اَ نَّہُمْ قٰدِرُوْنَ عَلَیْہَآلا) زمین والے لہلہاتی فصلوں کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ بس اب چند دن کی بات ہے ‘ ہم اپنی فصلوں کی کٹائی کریں گے ‘ پھلوں کو پیڑوں سے اتاریں گے اور ہماری زمین کی یہ پیدوار ہماری خوشحالی کا ذریعہ بنے گی۔ مگر ہوتا کیا ہے : (اَتٰٹہَآ اَمْرُنَا لَیْلاً اَوْ نَہَارًا فَجَعَلْنٰہَا حَصِیْدًا کَاَنْ لَّمْ تَغْنَ بالْاَمْسِ ط) اللہ کے حکم سے ایسی آفت آئی کہ دیکھتے ہی دیکھتے ساری فصل تباہ ہوگئی ‘ باغ اجڑ گیا ‘ ساری محنت اکارت گئی ‘ تمام سرمایہ ڈوب گیا۔ دنیا کی بےثباتی کی اس مثال سے واضح کیا گیا ہے کہ یہی معاملہ انسان کا ہے۔ انسان اس دنیا میں دن رات محنت و مشقت اور بھاگ دوڑ کرتا ہے۔ اگر انسان کی یہ ساری محنت اور تگ و دو اللہ کی مرضی کے دائرے میں نہیں ہے ‘ اس سے شریعت کے تقاضے پورے نہیں ہو رہے ہیں تو یہ سب کچھ اسی دنیا کی حد تک ہی ہے ‘ آخرت میں ان میں سے کچھ بھی اس کے ہاتھ نہیں آئے گا۔ موت کے بعد جب اس کی آنکھ کھلے گی تو وہ دیکھے گا کہ اس کی زندگی بھر کی ساری محنت اکارت چلی گئی : ع ” جب آنکھ کھلی گل کی تو موسم تھا خزاں کا ! “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

12: دُنیا کی حالت بھی ایسی ہی ہے کہ اس وقت وہ بڑی خوبصورت اور سجی معلوم ہوتی ہے، لیکن اوّل تو کبھی قیامت سے پہلے ہی اﷲ تعالیٰ کے کسی عذاب کی وجہ سے اُس کی ساری خوبصورتی ملیامیٹ ہوجاتی ہے، دوسرے جب اِنسان کی موت کا وقت آتا ہے، تب بھی اُس کے لئے یہ دُنیا اندھیری ہوجاتی ہے، اور اگر ایمان اور عمل صالح کی پونجی پاس نہ ہو تو پتہ چلتا ہے کہ یہ ساری خوبصورتی درحقیقت ایک عذاب تھی۔ اور جب قیامت آئے گی تب تو یہ ظاہری زیب وزینت بھی پوری دُنیا سے ختم ہوجائے گی۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢٤۔ ٢٥۔ اوپر کی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے سرکش اور نافرمان لوگوں کا ذکر فرمایا تھا اس آیت میں انسان کی زندگی کی مثال اس لئے فرمائی کہ سرکش لوگوں کو عبرت ہو کہ جس زندگی کے بھروسہ پر وہ سرکشی اور نافرمانی کرتے ہیں وہ زندگی ہی خود ایک ناپائیدار چیز ہے جس طرح جنگل کی کھیتی ہے کہ کاشتکاری کی موسم میں کچھ سر سبز نظر آتی ہے پھر خاک اڑتی دکھائی دیتی ہے اسی طرح انسان کی زیست کا ایک موسم شادابی کا جوانی میں آن کر ساتھ ہی اس کے گھٹاؤ کے آثار شروع ہوجاتے ہیں دانت ادھر جواب دیتے ہیں آنکھیں کمزوری جتانے لگتی ہیں ہاتھ پاؤں کو دیکھ تو نہ وہ بل باقی ہے نہ وہ زور ہے تھوڑے دنوں میں گویا درخت تھا کہ سوکھتے سوکھتے جڑ سے اکھڑ گیا کھیتی کی مثال اللہ تعالیٰ نے بہت سی آیتوں میں دنیا کی زندگی کی بیان فرمائی ہے کس لئے کہ کھیتی اور انسان کی حالت کو خاص طرح کی ایک مشابہت ہے۔ پہلے پہل جس طرح کاشتکار زمین میں بیج ڈال کر بےاختیار ہوجاتا ہے کہ خدا کی قدرت سے وہ بیج پیڑ ہو کر زمین سے نکلے یا اندر ہی اندر جل جاوے اسی طرح رحم میں نطفہ کا حال ہے پھر ہر پیڑ کے لئے پودے اور انسان کے بچہ کے نشوونما اور کمزوری کی ایک سی کیفیت ہے پھر کھیتی کا چند روز لہلہاتا اور انسان کی جوانی دونوں ایک ہیں اسی طرح کھیتی کا پکاؤ انسان کا بڑھاپا پھر پکاؤ کے بعد اس کا کٹنا اس کا مرنا یہ بھی دونوں یکساں ہیں اور اس مثال میں اللہ تعالیٰ نے حشر کا حال بھی جتلایا ہے اور منکرین حشر کو قائل کیا ہے کہ وہ قادر جس کی قدرت سے ہر سال چٹیل میدان کا سر سبز کردینا باہر نہیں ہے وہ اسی طرح دنیا کی ویرانی کے بعد ایک دفعہ پھر دنیا کو پیدا کرنے والا ہے اور پہلی دفعہ کا پیدا ہونا آنکھوں سے دیکھ کر پھر کسی عقل کو اس قدرت کے نہ ماننے کی گنجائش باقی نہیں ہے۔ صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ریڑھ کی ہڈی کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا مردہ کے جسم میں ایسا ہے جس کو مٹی نہیں کھاوے گی پھر دوسرے صور سے پہلے آسمان سے ایک مینہ برسے گا جس سے اس ریڑھ کی ہڈی کے ٹکڑے سے سب مرے ہوئے لوگوں کے جسم بن کر تیار ہوجاویں گے۔ آیت میں کھیتی کی مثال دے کر اس آگے کی آیت میں حشر کا جو حال جتلایا گیا ہے اس کا مطلب حدیث سے اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے کہ حشر کے دن وہ ریڑھ کی ہڈی کا ٹکڑا بیج کا کام دیوے گا اور اس دن کے مینہ کی تاثیر سے اس ہڈی کے ٹکڑے سے جسم اسی طرح بن جاوے گا جس طرح اب سب کی آنکھوں کے سامنے ہر طرح کے بیج سے درخت بن کر تیار ہوجاتے ہیں اس صحیح حدیث سے ان فلسفیوں کا قول ضعیف قرار پاتا ہے جو جسمانی حشر کے قائل نہیں ہیں۔ صحیح بخاری میں جابر (رض) سے روایت ہے جس میں فرشتوں نے مثال کے طور پر سمجھایا ہے کہ اللہ کا گھر جنت ہے۔ اور لوگوں کو بلا بلا کر اس گھر تک پہنچانے والے اللہ کے رسول ہیں۔ اس حدیث کو آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ دنیا ایک ناپائیدار چیز ہے اس لئے اللہ تعالیٰ لوگوں کو اپنے رسول کی معرفت جنت کی طرف بلاتا ہے کہ وہاں کی ہر طرح کی راحت پائدار ہے۔ دنیا کی راحت کی طرح ناپائدار نہیں ہے لیکن علم الٰہی میں جو لوگ جنت کے قابل ٹھہر چکے ہیں وہی اللہ کے رسول کی نصیحت کو سن کر راہ راست پر آتے ہیں اور جنت میں داخل ہونے کے کام کرتے ہیں اور اللہ بھی راہ راست پر آنے کی انہیں توفیق دیتا ہے اور جو لوگ علم الٰہی میں جنت کے قابل نہیں ہیں ان کو مجبور کر کے راہ راست پر لانا انتظام الٰہی کے برخلاف ہے اس واسط اللہ تعالیٰ نے انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا ہے۔ سلام اللہ تعالیٰ کا نام ہے اور دار کے معنے گھر کے ہیں اس لئے دارالسلام سے مطلب جنت ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(10:24) اختلط۔ اختلاط سے (باب افتعال) وہ مل گیا۔ ماضی واحد مذکر غائب۔ بہ ای بالماء (بارش کے) پانی کے ساتھ۔ نبات الارض۔ زمین کا سبزہ۔ اگنے والی ہر چیز۔ نبت ینبت (نصر) اگنا۔ اگانا۔ فاختلط بہ نبات الارض مما یا کل الناس والانعام۔ زمین سے اگنے والا سبزہ جس میں سے بعض کو انسان اور چوپائے کھاتے ہیں بارش کے پانی سے مل گیا۔ (اور بکثرت اگ آیا) ۔ زخرف۔ ملمع۔ سنہری۔ سونا۔ آراستہ۔ زینت۔ کسی شے کے کمال حسن کو زخرف کہتے ہیں ۔ لیکن جب اس کا استعمال قول کے لئے ہو تو جھوٹ سے آراستہ اور ملمع سازی کی باتیں کرنے کے معنی ہوں گے۔ جیسے قرآن میں آیا ہے۔ زخرف القول غرورا (6:112) ملمع کی باتیں ۔ فریب کی باتیں۔ اخذت الارض زخرفھا۔ وازینت زمین اپنے ہرے بھرے زیوروں سے آراستہ ہوئی۔ ازینت۔ اصل میں باب تفعل سے تزینت تھا۔ تاکوزائیں مدغم کیا۔ راء ساکن ہوگئی اس نے قبل ہمزہ وصل لایا گیا۔ ماضی کا صیغہ واحد مؤنث غائب۔ تزین زینت پانا۔ آراستہ ہونا۔ ازینت وہ (زمین انواع و اقسام کی بناتات سے) آراستہ و پیراستہ ہوگئی۔ مزین ہوگئی۔ اہلہا۔ اہل زمین ۔ زمین کے باسی۔ انھم قادرون علیہا۔ کہ وہ اس پر قادر ہیں۔ قدرت و قبضہ رکھتے ہیں۔ ھا ضمیر واحد مؤنث غائب الارض کی طرف راجع ہے۔ مراد اس سے وہ نباتات جو اس پر اگی ہوئی ہے ۔ یعنی اہل زمین خیال کرنے لگے کہ یہ زمین اور اس پر ہمہ نوع نباتات ان کے قبضہ قدرت میں ہے۔ اتاھا امرنا۔ اذا کا جواب ہے۔ یعنی جب زمین اپنے جوبن پر آگئی۔ اور اہل زمین اس پر اپنا مکمل قبضہ خیال کرکے اترانے لگے تو اچانک ہمارا حکم آپہنچا عذاب کی صورت میں ۔ لیلا او نھارا۔ رات کے وقت یا دن کے وقت۔ اس میں اس کی طرف بھی اشارہ ہے کہ ہمارے حکم کو وقوع پذیر ہونے میں کوئی امر مانع نہیں ہوسکتا۔ خواہ دن ہو یا رات اور وہ سب جاگ رہے ہوں یا سب سو رہے ہوں۔ فجعلناھا۔ میں ھا ضمیر الارض کی طرف راجع ہے لیکن اس سے مراد زمین پر کی بناتات ہے جو اس کی آرائش و زیبائش کا باعث تھی۔ جعلناھا۔ بنا ڈالا ہم نے اس کو۔ حصیدا۔ حصد یحصد ویحصد (باب ضرب و نصر) حصار وحصاد فصل کا ٹنا حصید بروزن فعیل۔ مفعول ۔ صفت مشبہ کا صیغہ ہے۔ جڑ سے کٹی ہوئی کھیتی۔ لم تغن۔ تغن اصل میں تغی تھا۔ لم کی وجہ سے آخر سے حرف علت ساقط ہوگیا۔ مضارع نفی بلم صیغہ واحد مؤنث غائب مضارع منفی بمعنی ماضی منفی۔ غنی یغنی (باب سمع) غنی بالمکان۔ کسی جگہ ٹھہرنا ۔ بسنا۔ رہنا۔ کان لم تغن بالامس۔ گویا وہ کل یہاں تھی ہی نہیں۔ امس کل گزشتہ۔ کان۔ جیسے کہ۔ گویا کہ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10۔ یعنی یہ دنیا جس کی لذتوں میں بدمست ہو کر تم ہماری آیتوں کو جھٹلا رہے ہو، غیر ثابت اور جلد فنا ہوجانے میں اس کی مثال ایسی ہے… 1۔ یعنی اس سے فائدہ اٹھانے اور اس سے غلے، میوے اور سبزیاں اگانے کو ہمیں پوری قدرت حاصل ہے۔ 2۔ یعنی پک کر زرد ہوگئی پھر کٹی یا کوئی فوج آپڑی کہ کچی کاٹ ڈالی یعنی موت ناگہانی آتی ہے۔ (از موضح) ۔ 3۔ یہی وہ انسانی زندگی کا ہے۔ روح پانی کی طرح آسمان سے اترتی ہے بدن اس سے مل کر خوب پھلتا پھولتا ہے جب جوانی پر آتا ہے، علم وہ ہنر سیکھتا ہے اور امید ہوجاتی ہے کہ چند روز جی کر مزے اڑائیں گے تو یکایک موت آتی ہے اور تمام امیدوں کو خاک میں ملا دیتی ہے اور ایسے معلوم ہوتے ہیں کانھالم تکن اسی لئے حدیث میں آیا ہے کہ قیامت کے روز اس شخص کو جو دنیا میں سب سے زیادہ خوشحال تھا آگ میں ایک غوطہ دے کر نکالا جائے گا پھر اس سے پوچھا جائے گا ” کیا تم نے کبھی خوشحالی دیکھی ؟ “ وہ جواب دے گا ” نہیں “ پھر اس شخص کو جو دنیا میں سب سے بدحال تھا، نعمت (جنت) میں غوطہ دے کر نکالا جائے گا پھر اس سے پوچھا جائے گا کیا تم نے کبھی بدحالی دیکھی ؟ وہ جواب دے گا ” نہیں “۔ (ابن کثیر) ۔ 4۔ تاکہ ان پر غور کریں اور ان سے سبق لیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ یعنی سبزہ سے خوش نما معلوم ہونے لگی۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : پہلے بیان ہوا ہے کہ انسان جتنا چاہے باغی اور سرکش بن جائے بالآخر اسے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش ہو کر اپنے اعمال کا جواب دینا ہے یہ بات مزید واضح کرنے کے لیے ارشاد ہوتا ہے کہ جس دنیا پر تم اتراتے ہو یہ بالکل عارضی اور ناپائیدار ہے۔ قرآن مجید انسان کو دنیا کی حقیقت سے آگاہ کرتے ہوئے یہ باور کراتا ہے۔ کہ اے انسان دنیا کی ہر چیز اور خود تیرا وجود اور قیام عارضی ہے۔ جس دنیا کی خاطر تو اپنے رب کو بھلاتا اور آخرت کا انکار کرتا ہے۔ اس دنیا کی مثال تو اس طرح ہے جس طرح موسم برسات کے بعد ہر جگہ ہریالی آجاتی ہے۔ اس سے انسان اور حیوان فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ہر سو سبزہ ہونے کی وجہ سے دیکھنے والے کو یہ منظر بڑا سہانا اور دلربا لگتا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہمیں اس سے فائدہ پہنچے گا اور ہم خوشحال ہوجائیں گے اچانک اللہ تعالیٰ کی آئی ہوئی موسم کی سختی اسے تباہ کردیتی ہے۔ گویا کہ یہاں کبھی ہریالی اور شادابی نہ تھی۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے سامنے یہ حقائق اس لیے بیان کرتا ہے تاکہ لوگ غوروفکر کریں۔ یہی انسان کی زندگی کا حال ہے بچپن کی بھول بھلیاں، جوانی کی بہاریں، ادھیڑ پن کے مسائل اور بڑھاپے کی خزاؤں سے انسان کی زندگی عبارت ہے بالآخر انسان سپرد خاک ہوجاتا ہے۔ یہ مثال دے کر دنیا دار کو سمجھایا گیا ہے کہ جس دنیا پر تو فریفتہ ہو رہا ہے۔ اس کی حیثیت اس کے سوا کچھ نہیں ہے۔ جن اعمال اور اشغال کو خوش ہو کر کیے جا رہا ہے یہ تیری بربادی کا سامان ہے۔ خوش قسمت ہے وہ انسان جس نے اس حقیقت پر غور کیا اور اپنے آپ کو دنیا کی رعنائی اور دل فریبیوں سے بچائے رکھا۔ یہی سلامتی کا راستہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اسی سلامتی کی طرف دعوت دیتا ہے۔ جب بندہ اپنی عاقبت کی فکر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے ہدایت کے راستے پر گامزن کردیتا ہے۔ ایسے خوش نصیب کے لیے دنیا میں سلامتی اور آخرت میں جنت ہوگی۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کا ارشاد ہے کہ دارالسلام جنت کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔ مسائل ١۔ دنیا کی زندگی کی مثال بارش سے اگنے والی انگوری کی طرح ہے۔ ٢۔ جس طرح گھاس، پھونس اور کھیتی باڑی کی ایک مدت ہے اسی طرح دنیا کی زندگی کی مدت ہے۔ ٣۔ کھیتی پر کسی کو اختیار نہیں اسی طرح زندگی پر کسی کو اختیار نہیں۔ ٤۔ غوروفکر کرنے والوں کے لیے ان مثالوں میں عبرت کی نشانیاں ہیں۔ تفسیر بالقرآن یہ دنیا اور اس کی ہر چیز عارضی ہے : ١۔ جب اللہ کا حکم کسی چیز پر آجاتا ہے تو اس کا نام و نشان مٹ جاتا ہے۔ (یونس : ٢٤) ٢۔ ہر چیز فنا ہونے والی ہے۔ (الرحمن : ٢٦) ٣۔ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہر چیز ہلاک ہونے والی ہے۔ (القصص : ٨٨) ٤۔ ہر نفس نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ (الانبیاء : ٣٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

انما مثل الحیوۃ الدنیا دنیوی زندگی کی عجیب حالت ‘ یعنی دنیوی زندگی بہت جلد زوال پذیر ہے۔ اس کے باوجود لوگ اس پر شیفتہ ہیں ‘ یہ عجیب بات ہے۔ کما انزلنہ من السماء ایسی ہے جیسے ہم آسمان سے پانی برساتے ہیں۔ فاختلط بہ نبات الارض مما یا کل الناس والانعام پھر اس پانی سے زمین کے نباتات جن کو آدمی اور چوپائے کھاتے ہیں ‘ خوب گنجان ہو کر نکلے۔ اخْتَلَطَ گتھ جاتا ہے ‘ گھنا ہوجاتا ہے۔ مَا یَأکُلُ النَّاس یعنی انسان کی خوراک غلہ ‘ پھل ‘ سبزیاں۔ وَالْاََنْعَامُط اور چوپایوں کی خوراک یعنی گھاس ‘ چارہ۔ حتی اذا اخذت الارض زخرفھا وازینت یہاں تک کہ وہ زمین اپنی رونق کا پورا حصہ لے چکی اور اس کی خوب زیبائش ہوگئی۔ زُخْرُف حسن ‘ رونق ‘ رنگا رنگ پھولوں اور سبزیوں سے پیدا ہونے والا جمال ارضی۔ وظن اھلھًا انھم قدرون علیھا اور اس زمین کے مالکوں نے خیال کرلیا کہ اب ہم اس پر بالکل قابض ہوچکے۔ یعنی زمین کے مالک کو یہ خیال ہوجاتا ہے کہ اب زمین کی پیداوار میرے قبضہ میں آگئی ‘ میں کھیتی کاٹ کر غلہ حاصل کرسکتا ہوں اور پھل توڑ کر فائدہ اٹھا سکتا ہوں۔ اتھا امرنا لیلاً او نھارًا فجعلنھا حصیدًا (اچانک بعض حوادث کی وجہ سے کھیتی کو تباہ کرنے کیلئے) رات کو یا دن کو ہمارا حکم آ پہنچتا ہے اور ہم اس کو کٹے ہوئے کھیت کی طرح کردیتے ہیں۔ یعنی کھڑی کھیتی کو ہم ایسا کردیتے ہیں جیسے کھیت کو کسی نے جڑ سے کاٹ لیا ہو۔ کان لم تغن بالامس ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہاں کل کھیتی تھی ہی نہیں۔ لَِمْ تَغْنَ ۔ غَنِیَ بالمکان سے ماخوذ ہے۔ غَنِیَ بالمکان اس جگہ ٹھہرا ‘ قیام کیا ‘ رہا۔ بِالْاَمْسِ یعنی اس وقت سے تھوڑے پہلے ‘ مراد ہے ماضی قریب۔ یہ تشیبہ مرکب بمرکب ہے۔ اگرچہ عبادت میں مشبہ بہ پانی کو قرار دیا گیا ہے لیکن واقعہ کے پورے مضمون کے ساتھ تشبیہ دینی مقصود ہے۔ پورے کلام کا مضمون یہ ہے کہ کھیتی سرسبز اور باغ کے پھل تر و تازہ ہوتے ہیں ‘ زمین شاداب اور پررونق ہوتی ہے۔ مالکوں کو خیال ہوجاتا ہے کہ اب یہ پیداوار اور کھیتی ہر حادثہ سے نکل گئی ‘ اب اس پر کوئی مصیبت نہیں آئے گی کہ یکدم اللہ کا حکم آ پہنچتا ہے (مختلف ارضی و سماوی حوادث کی وجہ سے) اللہ بھرے پرے باغوں اور سرسبز لہلہاتی کھیتیوں کو تباہ کر کے ‘ ریزہ ریزہ اور بھوسہ بنا دیتا ہے ‘ یہی حالت دنیوی زندگی کی ہے۔ قتادہ نے کہا : دنیا پر بھروسہ رکھنے والے اور سامان دنیا میں ڈوبے ہوئے شخص پر یکدم اللہ کا حکم اور اس کا عذاب انتہائی غفلت کی حالت میں آ پہنچتا ہے (گویا اس تشبیہ کی وجہ شبہ ‘ بےفکری اور غفلت کی حالت میں عذاب خداوندی کا آ پہنچنا ہے) ۔ کذلک نفصل الایت لقوم یتفکرون۔ ہم اسی طرح آیات کو صاف صاف بیان کرتے ہیں ‘ ایسے لوگوں کیلئے جو سوچتے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

دنیا کی بےثباتی کی ایک مثال اس آیت میں دنیا کی حالت بیان فرمائی ہے۔ دنیا کی ظاہری زیب وزینت اور ٹیپ ٹاپ پر جو لوگ ریجھے جاتے ہیں اور آخرت سے غافل رہتے ہیں ان لوگوں کو تنبیہ فرمائی ہے کہ اس تھوڑی سی حقیر دنیا کی وجہ سے آخرت سے غافل نہ ہوں ‘ ارشاد فرمایا کہ دنیا کی ایسی مثال ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے آسمان سے پانی برسایا اس پانی کی وجہ سے طرح طرح کے پودے اگے ‘ سبزیاں نکلیں ‘ گھاس برآمدہوئی ‘ اور ان چیزوں کی وجہ سے زمین ہری بھری اور دیکھنے میں خوب خوشنما ہوگئی ‘ سبزہ لہلہانے لگا ‘ نظروں کو بھانے لگے ‘ جن لوگوں کی زمینیں تھیں وہ بڑے خوش ہوئے اور انہوں نے خیال کیا کہ بس اب تو یہ سب کچھ ہمارے قبضہ میں ہے اس سے طرح طرح کے منافع حاصل کریں گے اسی سوچ وبچار میں تھے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رات میں یا دن میں کوئی مصیبت آگئی اور اس نے اسے ڈھیر کردیا۔ اب جب دیکھنے والے نظر ڈالتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا یہاں کل کچھ بھی نہ تھا اس دنیا میں جوہری بھری گھاس اور کھیتی کی حالت ہے کہ ابھی توہری بھری تھی اور ابھی کچھ بھی نہیں یہ ہی مثال پوری دنیا کی ہے ‘ افراد کی بھی یہ ہی مثال ہے اور قوموں کی بھی ‘ حکومتوں کی بھی اور مال وجائداد کی بھی ‘ کچھ دن لوگ منتفع ہوتے ہیں اور اپنے خیال میں اچھی زندگی گزارتے ہیں پھر افراد کو موت آجاتی ہے جماعتیں ختم ہوجاتی ہیں۔ حکومتیں مٹ جاتی ہیں۔ تجارتیں تباہ ہوجاتی ہیں ‘ باغ اجڑ جاتے ہیں اور اس سب کے بعد قیامت کے دن حاضر ہونا ہے اور وہاں ابدالآباد کے فیصلے ہونے ہیں ‘ وہاں کی ابدی زندگی کے سامنے جتنی بھی بڑی زندگی ہو ہیچ ہے ‘ اور جنت کی نعمتوں کے سامنے یہ معمولی سی نعمتیں کچھ بھی نہیں ‘ اگر کوئی شخص دوزخ میں چلا گیا (العیاذ باللہ) تو دنیا کے سارے مال اور زینت اور سجاوٹ (جو تھوڑے دن کی تھی) کچھ بھی فائدہ مند نہیں ہوسکتی۔ آخرت کے میدان میں پہنچیں گے تو (کَاَنْ لَّمْ تَغْنَ بالْاَمْسِ ) کا مظاہرہ ہوگا اور سمجھ میں آجائے گا کہ دنیا میں جو کچھ تھا وہ کچھ بھی نہ تھا۔ آخر میں فرمایا (کَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ ) (ہم اسی طرح آیات کو کھول کر بیان کرتے ہیں ان لوگوں کے لئے جو فکر کرتے ہیں) جو فکر کرتے ہیں وہی منتفع اور مستفید ہوتے ہیں جو فکر نہیں کرتے وہ اپنی مستیوں ہی میں لگے رہتے ہیں ‘ اور اپنی آخرت کو برباد کرتے ہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

24 دنیوی زندگی کی حالت تو بس ایسی ہے جیسے ہم نے آسمان کی جانب سے پانی اتارا پھر اس پانی سے زمین کی نبانات جس کو آدمی اور چوپائے کھاتے ہیں خوب گنجان ہوکر بڑھی یہاں تک کہ جب زمین نے اس سبزی اور نبانات سے خوب اپنی رونق حاصل کرلی اور اپنی رونق کا پورا حصہ لے لیا اور خوب سنگار پر آئی اور آراستہ ہوگئی اور اس زمین کے مالکوں نے یہ سمجھ لیا کہ وہ اس کھیتی پر پوری طرح دسترس رکھتے ہیں اور ہم اس پر بالکل قابض ہوگئے تو اسی حال میں رات کو یاد دن کو اس کھیتی کو ناگہاں ہمارا فرمان عذاب پہونچ گیا پھر ہم نے اس کو کاٹ کر ایسا کردیا گویا کل وہاں ان کے لئے کچھ موجود ہی نہ تھا اور کچھ آگاہی نہ تھا ہم اسی طرح اپنی نشانیاں ان لوگوں کے لئے تفصیل کے ساتھ بیان کیا کرتے ہیں جو لوگ غور و فکر سے کام لیتے ہیں۔ پانی کے اثر سے خوب گنجان ہوکر یا پانی کے بل جانے سے خوب بڑھی یا انسانوں اور چوپایوں کی خوراک سے رلی ملی کھیتی باڑی گیہوں انسانوں کے لئے بھوسہ چوپایوں کے لئے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی روح آسمان سے بدن میں آئی۔ بدن میں مل کر قوت پکڑی پھر کام کئے انسانی اور حیوانی۔ جب ہر ہنر میں پورا ہوا اور اس کے متعلقوں کو اس پر بھروسہ ہوا ناگہاں موت آپہنچی۔ فائدہ ! ہمارا حکم پہونچا یعنی پک کر زرد ہوئی پھر کٹی یا کوئی فوج آپڑی یا کچی کاٹ لی یعنی موت ناگہاں آتی 12 خلاصہ یہ ہے کہ جس طرح سرسبز اور لہلاتی کھیتی آفت ارضی یا سماوی سے تباہ ہوجاتی ہے اسی طرح بہار پر آتی ہوئی زندگی کو موت ہمیشہ کے لئے ختم کردیتی ہے دہلی میں کہا کرتے ہیں فلاں شخص کی زندگی اب تو بہار پر آئی تھی اسی وقت موت نے آکر ساری بہارو خاک میں ملادی۔