The Parable of this Life
Allah says;
إِنَّمَا مَثَلُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا كَمَاء أَنزَلْنَاهُ مِنَ السَّمَاء فَاخْتَلَطَ بِهِ نَبَاتُ الاَرْضِ مِمَّا يَأْكُلُ النَّاسُ وَالاَنْعَامُ
...
Verily, the parable of the life of the world is as the water which We send down from the sky; so by it arises the intermingled produce of the earth of which men and cattle eat:
Allah the Almighty has set an example of the similitude of the life of this world, its glitter and the swiftness of its passage, likening it to the plant and vegetation that Allah brings out from the earth. This plant grows from the water that comes down from the sky. These plants are food for people, such as fruits and other different types and kinds of foods. Some other kinds are food for cattle such as clover plants (i.e. green fodder for the cattle) and herbage etc.
...
حَتَّىَ إِذَا أَخَذَتِ الاَرْضُ زُخْرُفَهَا
...
until when the earth is clad in its adornments,
...
وَازَّيَّنَتْ
...
and is beautified,
meaning, it became good by what grows on its hills such as blooming flowers of different shapes and colors.
...
وَظَنَّ أَهْلُهَا
...
and its people think...
those who planted it and put it in the ground,
...
أَنَّهُمْ قَادِرُونَ عَلَيْهَأ
...
that they have all the powers of disposal over it,
to cultivate it and harvest it. But while they were in that frame of mind, a thunderbolt or a severe, cold storm came to it. It dried its leaves and spoiled its fruits.
Allah said:
...
أَتَاهَا أَمْرُنَا لَيْلً أَوْ نَهَارًا فَجَعَلْنَاهَا حَصِيدًا
...
Our command reaches it by night or by day and We make it like a clean-mown harvest,
it became dry after it was green and flourishing.
...
كَأَن لَّمْ تَغْنَ بِالاَمْسِ
...
as if it had not flourished yesterday!
as if nothing existed there before.
Qatadah said:
"As if it had not flourished; as if it was never blessed."
Such are things after they perish, they are as if they had never existed.
Similarly, the Hadith,
يُوْتَى بِأَنْعَمِ أَهْلِ الدُّنْيَا فَيُغْمَسُ فِي النَّارِ غَمْسَةً فَيُقَالُ لَهُ هَلْ رَأَيْتَ خَيْرًا قَطُّ
هَلْ مَرَّ بِكَ نَعِيمٌ قَطُّ
فَيَقُولُ لاَ
وَيُوْتَى بِأَشَدِّ النَّاسِ عَذَابًا فِي الدُّنْيَا فَيُغْمَسُ فِي النَّعِيمِ غَمْسَةً ثُمَّ يُقَالُ لَهُ هَلْ رَأَيْتَ بُوْسًا قَطُّ
فَيَقُولُ لاَ
A person who led the most prosperous life in this world will be brought up and dipped once in the Fire. He will then be asked: `Have you ever found any good or comfort!'
He will reply: `No.'
And a person who had experienced extreme adversity in this world will be brought up and dipped once in the bliss (of Paradise). Then he will be asked: 'Did you ever face any hardship or misery!'
He will reply: `No.'
Allah said about those who were destroyed:
فَأَصْبَحُواْ فِى دِيَارِهِمْ جَـثِمِينَكَأَن لَّمْ يَغْنَوْاْ فِيهَأ
So they lay (dead), prostrate in their homes; as if they had never lived there. (11:67-68)
...
كَذَلِكَ نُفَصِّلُ الايَاتِ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ
Thus do We explain the Ayat in detail for the people who reflect.
Allah then said:
وَاللّهُ يَدْعُو إِلَى دَارِ السَّلَمِ وَيَهْدِي مَن يَشَاء إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ
دنیا اور اس کی حقیقت ۔
دنیا کی ٹیپ ٹاپ اور اس کی دو گھڑی کی سہانی رونق پھر اس کی بربادی اور بےرونقی کی مثال زمین کے سبزے سے دی جا رہی ہے کہ بادل سے پانی برسا زمین لہلہا اُٹھی ۔ طرح طرح کی سبزیاں ، چارے ، پھل پھول ، کھیت باغات ، پیدا ہوگئے ۔ انسانوں کے کھانے کی چیزں ، جانوروں کے چرنے چگنے کی چیزیں ، چاروں طرف پھیل پڑیں ، زمین سر سبز ہو گئی ، ہر چہار طرف ہریالی ہی ہریالی نظر آنے لگی ، کھیتی والے خوش ہوگئے ، باغات والے پھولے نہیں سماتے کہ اب کے پھل اور انجاج بکثرت ہے ۔ ناگہاں آندھیوں کے جھکڑ چلنے لگلے ، برف باری ہوئی ، اولے گرے ، پالہ پڑا ، پھل چھوڑ پتے بھی جل گئے ۔ درخت جڑوں سے اکھڑ گئے ، تازگی خشکی سے بدل گئی ، پھل ٹھٹھر گئے ۔ ، جل گئے ، کھیت و باغات ایسے ہوگئے گویا تھے ہی نہیں اور جو چیز کل تھی بھی آج نہیں تو گویا کل بھی نہ تھی ۔ حدیث میں ہے بڑے دنیادار کروڑ پتی کو جو ہمیشہ ناز و نعمت میں ہی رہا تھا ، لاکر جہنم میں ایک غوطہ دے کر پھر اس سے پوچھا جائے گا کہ کہو تمہاری زندگی کیسی گزری؟ وہ جواب دے گا کہ میں نے تو کبھی کوئی راحت نہیں دیکھی ۔ کبھی آرام کا نام بھی نہیں سنا ۔ اسی طرح دنیا کی زندگی میں ایک گھڑی بھی جس پر آرام کی نہیں گزری تھی اسے لا یا جائے گا ۔ جنت میں ایک غوطہ کھلا کر پوچھا جائے گا کہ کہو دنیا میں کیسے رہے؟ جواب دے گا کہ پوری عمر کبھی رنج و غم کا نام بھی نہیں سنا کبھی تکلیف اور دکھ دیکھا بھی نہیں ۔ اللہ تعالیٰ اسی طرح عقلمندوں کے لیے واقعات واضح کرتا ہے تاکہ وہ عبرت حاصل کرلیں ۔ ایسا نہ ہو اس فانی چند روزہ دنیا کے ظاہری چکر میں پھنس جائیں اور اس ڈھل جانے والے سائے کو اصلی اور پائیدار سمجھ لیں ۔ اس کی رونق دو روزہ ہے ۔ یہ وہ چیز ہے جو اپنے چاہنے والوں سے بھاگتی ہے ۔ اور نفرت کرنے والوں سے لپٹتی ہے ۔ دنیا کی زندگی کی مثال اسی طرح ہے اور بھی بہت سی آیتوں میں بیان ہوئی ہے ۔ مثلاً سورہ کہف کی ( وَاضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا كَمَاۗءٍ اَنْزَلْنٰهُ مِنَ السَّمَاۗءِ فَاخْتَلَطَ بِهٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ فَاَصْبَحَ هَشِيْمًا تَذْرُوْهُ الرِّيٰحُ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ مُّقْتَدِرًا 45 ) 18- الكهف:45 ) میں اور سورۃ زمر اور سورۃ حدید میں ۔ خلیفہ مروان بن حکم نے منبر پر ( وَظَنَّ اَهْلُهَآ اَنَّھُمْ قٰدِرُوْنَ ) 24 ) 10- یونس:24 ) پڑھ کر فرمایا میں نے تو اسی طرح پڑھی ہے لیکن قرآن میں یہ لکھی ہوئی نہیں حضرت ابن عباس کے صاحبزادے نے فرمایا میرے والد بھی اسی طرح پڑھتے تھے ۔ ابن عباس کے پاس جب آدمی بھیجا گیا تو آپ نے فرمایا ابی بن کعب کی قرآت بھی یونہی ہے ۔ لیکن یہ قرآت غریبہ ہے ۔ اور گویا یہ جملہ تفسیر یہ ہے واللہ اعلم ۔
اللہ تعالیٰ سلامتی کے گھر کی طرف اپنے بندوں کو بلاتا ہے جو دنیا کی طرف فانی نہیں بلکہ باقی ہے دنیا کی طرف دو دن کے لیے زینت دار نہیں بلکہ ہمیشہ کی نعمتوں اور ابدی راحتوں والی ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مجھ سے کہا گیا تیری آنکھیں سو جائیں ، تیرا دل جاگتا رہے اور تیرے کان سنتے رہیں چنانچہ ایسا ہی ہوا ۔ پھر فرمایا گیا ایک سردار نے ایک گھر بنایا ۔ وہاں دعوت کا انتظام کیا ۔ ایک بلانے والے کو بھیجا ۔ پس جس نے اس کی دعوت قبول کی ۔ گھر میں داخل ہوا اور دسترخوان سے کھانا کھایا جس نے نہ قبول کی نہ اسے اپنے گھر میں آٹا ملا نہ دعوت کا کھانا میسر ہوا نہ سردار اس سے خوش ہوا ۔ پس اللہ سردار ہے اور گھر اسلام ہے اور دستر خوان جنت ہے اور بلانے والے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں یہ روایت مرسل ہے ۔ دوسری متصل بھی ہے ۔ اس میں ہے کہ ایک دن ہمارے مجمع میں آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خواب میں میرے پاس جبرائیل و میکائیل آئے جبرائیل سرہانے اور میکائیل پیروں کی طرف کھڑے ہوگئے ۔ ایک نے دوسرے سے کہا اس کی مثال بیان کرو ۔ پھر یہ مثال بیان کی ۔ پس جس نے تیری دعوت قبول کی وہ اسلام میں داخل ہوا اور جو اسلام لایا وہ جنت میں پہنچا اور و وہاں کھایا پیا ۔ ایک حدیث میں ہے ہر دن سورج کے طلوع ہونے کے وقت اس کے دونوں جانب دو فرشتے ہوتے ہیں جو باآواز بلند انسانوں اور جنوں کے سوا سب کو سنا کر کہتے ہیں کہ لوگو ! اپنے رب کی طرف آؤ ۔ جو کم ہو یا کافی ہو وہ بہتر ہے اس سے جو زیادہ ہو اور غافل کردے ۔ قرآن فرماتا ہے لوگو! اللہ تعالیٰ تمہیں دارالسلام کی طرف بلاتا ہے ( ابن ابی حاتم اور ابن جریر ) ۔