Surat Younus

Surah: 10

Verse: 31

سورة يونس

قُلۡ مَنۡ یَّرۡزُقُکُمۡ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الۡاَرۡضِ اَمَّنۡ یَّمۡلِکُ السَّمۡعَ وَ الۡاَبۡصَارَ وَ مَنۡ یُّخۡرِجُ الۡحَیَّ مِنَ الۡمَیِّتِ وَ یُخۡرِجُ الۡمَیِّتَ مِنَ الۡحَیِّ وَ مَنۡ یُّدَبِّرُ الۡاَمۡرَ ؕ فَسَیَقُوۡلُوۡنَ اللّٰہُ ۚ فَقُلۡ اَفَلَا تَتَّقُوۡنَ ﴿۳۱﴾

Say, "Who provides for you from the heaven and the earth? Or who controls hearing and sight and who brings the living out of the dead and brings the dead out of the living and who arranges [every] matter?" They will say, " Allah ," so say, "Then will you not fear Him?"

آپ کہئے کہ وہ کون ہے جو تم کو آسمان اور زمین سے رزق پہنچاتا ہے یا وہ کون ہے جو کانوں اور آنکھوں پر پورا اختیار رکھتا ہے اور وہ کون ہے جو زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے اور وہ کون ہے جو تمام کاموں کی تدبیر کرتا ہے؟ ضرور وہ یہی کہیں گے کہ ’’ اللہ ‘‘ تو ان سے کہیئے کہ پھر کیوں نہیں ڈرتے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Idolators recognize Allah's Tawhid in Lordship and the Evidence is established against Them through this Recognition Allah argues that the idolators' recognition of Allah's Oneness in Lordship is an evidence against them, for which they should admit and recognize the Oneness in divinity and worship. So Allah said: قُلْ مَن يَرْزُقُكُم مِّنَ السَّمَاء وَالاَرْضِ ... Say: "Who provides for you from the sky and the earth!" meaning, who is He Who sends down water from the sky and splits the earth with His power and will and allows things to grow from it, أَءِلـهٌ مَّعَ اللهِ Is there a god, besides Allah (Who provides)! (27:62) فَأَنبَتْنَا فِيهَا حَبّاً وَعِنَباً وَقَضْباً وَزَيْتُوناً وَنَخْلً وَحَدَايِقَ غُلْباً وَفَـكِهَةً وَأَبّاً Grains. And grapes and clover plants. And olives and date palms. And gardens dense with many trees. And fruits and herbage." (80:27-31) فَسَيَقُولُونَ اللّه They will say: "Allah." أَمَّنْ هَـذَا الَّذِى يَرْزُقُكُمْ إِنْ أَمْسَكَ رِزْقَهُ "Who is he that can provide for you if He should withhold His provision! (67:21) Allah's statement, ... أَمَّن يَمْلِكُ السَّمْعَ والاَبْصَارَ ... Or who owns hearing and sight, means that Allah is the One who granted you the power of sight and hearing. If He willed otherwise, He would remove these gifts and deprive you of them. Similarly, Allah said: قُلْ هُوَ الَّذِى أَنشَأَكُمْ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالاٌّبْصَـرَ Say it is He Who has created you, and endowed you with hearing and seeing. (67:23) Allah also said: قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَخَذَ اللَّهُ سَمْعَكُمْ وَأَبْصَـرَكُمْ Say: "Tell me, if Allah took away your hearing and your sight. (6:46) Then Allah said: ... وَمَن يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيَّتَ مِنَ الْحَيِّ ... And who brings out the living from the dead and brings out the dead from the living! by His great power and grace. ... وَمَن يُدَبِّرُ الاَمْرَ ... And who disposes of the affairs! In Whose Hand is the dominion of everything Who protects all, while against Whom there is no protector! Who is the One who judges with none reversing His judgement! Who is the One that is not questioned about what He does while they will be questioned يَسْأَلُهُ مَن فِى السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضِ كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِى شَأْنٍ Whosoever is in the heavens and on earth begs of Him. Every day He is (engaged) in some affair! (55:29) The upper and lower kingdoms and what is in them both, including the angels, humans, and Jinn are in desperate need of Him. They are His servants and are under His control. ... فَسَيَقُولُونَ اللّهُ ... They will say: "Allah." they say this knowingly and they admit it. ... فَقُلْ أَفَلَ تَتَّقُونَ Say: `Will you not then be afraid (of Allah's punishment)!" meaning, don't you fear Him when you worship others because of your ignorance and false opinions! Allah then said:

اللہ کی الوہیت کے منکر اللہ کی ربوبیت کو مانتے ہوئے اس کی الوہیت کا انکار کرنے والے قریشیوں پر اللہ کی حجت پوری ہو رہی ہے کہ ان سے پوچھو گے کہ آسمانوں سے بارش کون برساتا ہے؟ پھر اپنی قدرت سے زمین کو پھاڑ کر کھیتی و باغ کون اُگاتا ہے؟ دانے اور پھل کون پیدا کرتا ہے؟ اس کے جواب میں یہ سب کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ ہی ۔ اس کے ہاتھ میں ہے چاہے روزی دے چاہے روک لے ۔ کان آنکھیں بھی اس کے قبضے میں ہیں ۔ دیکھنے کی سننے کی حالت بھی اسی کی دی ہوئی ہے اگر وہ چاہے اندھا بہرا بنا دے ۔ پیدا کرنے والا وہی ، اعضا کا دینے والا وہی ہے ۔ وہ اسی قوت کو چھین لے تو کوئی نہیں دے سکتا ۔ اس کی قدرت و عظمت کو دیکھو کہ مردے سے زندے کو پیدا کر دے ، زندے سے مردے کو نکالے ۔ وہی تمام کاموں کی تدبیر کرتا ہے ۔ ہر چیز کی بادشاہت اسی کے ہاتھ ہے ۔ سب کو وہی پناہ دیتا ہے اس کے مجرم کو کوئی پناہ نہیں دے سکتا ۔ وہی متصرف و حاکم ہے کوئی اس سے باز پرس نہیں کر سکتا وہ سب پر حاکم ہے آسمان و زمین اس کے قبضے میں ہر تر و خشک کا مالک وہی ہے عالم بالا اور سفلی اسی کا ہے ۔ کل انس و جن فرشتے اور مخلوق اس کے سامنے عاجز و بےکس ہیں ۔ ہر ایک پست و لاچار ہے ۔ ان سب باتوں کا ان مشرکین کو بھی اقرار ہے ۔ پھر کیا بات ہے جو یہ تقویٰ اور پرہیزگاری اختیار نہیں کرتے ۔ جہالت وغبادت سے دوسروں کی عبادت کرتے ہیں ۔ فاعل خود مختار اللہ کو جانتے ہوئے رب و مالک مانتے ہوئے معبود سمجھتے ہوئے پھر بھی دوسروں کی پوجا کرتے ہیں ۔ وہی ہے تم سب کا سچا معبود اللہ تعالیٰ وکیل ہے اس کے سوا تمام معبود باطل ہیں وہ اکیلا ہے بے شریک ہے ۔ مستحق عبادت صرف وہی ہے ۔ حق ایک ہی ہے ۔ اس کے سوا سب کچھ باطل ہے ۔ پس تمہیں اس کی عبادت سے ہٹ کر اوروں کی عبادت کی طرف نہ جانا چاہیے یاد رکھو وہی رب العلمین ہے وہی ہر چیز میں متصرف ہے ۔ کافروں پر اللہ کی بات ثابت ہو چکی ہے ، ان کی عقل ماری گئی ہے ۔ خالق رازق متصرف مالک صرف اللہ کو مانتے ہوئے اس کے رسولوں کا خلاف کر کے اس کی توحید کو نہیں مانتے ۔ اپنی بدبختی سے جہنم کی طرف بڑھتے جا رہے ہیں ۔ انہیں ایمان نصیب نہیں ہوگا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

31۔ 1 اس آیت سے بھی واضح ہے کہ مشرکین اللہ تعالیٰ کی مالکیت، خالقیت، ربویت اور اس کے مدبر الامور ہونے کو تسلیم کرتے تھے۔ لیکن اس کے باوجود چونکہ وہ اس کی الوہیت میں دوسروں کو شریک ٹھہراتے تھے، اس لئے اللہ تعالیٰ انہیں جہنم کا ایندھن قرار دیا۔ آج کل کے مدعیان ایمان بھی اسی توحید الوہیت کے منکر ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٥] مشرکین مکہ ان سب باتوں کے قائل تھے جو اس آیت میں بیان کی گئی ہیں اور جن سے اللہ تعالیٰ کی ربوبیت عامہ ثابت ہوتی ہے اور اس کے ہمہ گیر اختیار و اقتدار کا پتہ چلتا ہے چناچہ ان کے اسی عقیدہ کو بنیاد بنا کر ان سے پوچھا جا رہا ہے کہ جب تم یہ سب باتیں مانتے ہو کہ خالق کائنات، مالک الملک، رب مطلق اور علی الاطلاق متصرف صرف اللہ تعالیٰ ہے تو پھر ڈرنا بھی اس سے چاہیے اور عبادت بھی اسی کی کرنی چاہیے گویا توحید فی الربوبیت کی بنیاد پر شرک فی الالوہیت کی تردید پر دلیل پیش کی جارہی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قُلْ مَنْ يَّرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ ۔۔ : بت پرستوں کی حماقتوں اور ان کا انجام بیان کرنے کے بعد اب یہاں سے بت پرستی کی تردید میں دلائل کا بیان شروع ہوا ہے۔ خلاصہ یہ کہ یہاں چار چیزیں شرک کی تردید اور توحید الٰہی کی دلیل کے طور پر پیش فرمائی ہیں، اول یہ کہ آسمان و زمین سے رزق کون دیتا ہے ؟ آسمان سے بارش برسانے والا اور زمین سے تمہارے کھانے اور ضرورت کی ہر چیز پیدا کرکے تمہیں روزی دینے والا کون ہے ؟ دوم انسان کے حواس جن میں سب سے زیادہ باشرف سمع و بصر ہیں، جو انسان کے علم کا ذریعہ بنتے ہیں، یہ دونوں کس کے قبضہ میں ہیں کہ اگر چاہے تو چھین کر اندھا اور بہرا کر دے ؟ سوم موت و حیات کا اختیار کس کے پاس ہے، کون ہے جو زندہ کو مردہ سے اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے ؟ مثلاً نطفہ اور جان دار، انڈا اور پرندے، بیج اور لہلہاتے کھیت اور درخت، مومن اور کافر میں سے ایک کو دوسرے سے کون نکالتا ہے۔ چہارم پوری کائنات کے ہر معاملہ کی تدبیر کون کرتا ہے کہ اس میں نہ کوئی خرابی ہے نہ حادثہ ؟ تدبیر میں پہلی تمام چیزیں بھی آجاتی ہیں، جو باقی رہ گئی تھیں تدبیر کی صراحت کے بعد وہ سب بھی شامل ہوگئیں۔ یہ خاص کے بعد عام کا ذکر ہے۔ فَسَيَقُوْلُوْنَ اللّٰهُ ۔۔ : یہ ” سین “ تاکید کے لیے ہے، قرآن مجید اور کلام عرب میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں، یعنی یہ مشرک بھی ضرور کہیں گے کہ وہ تو اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ فرمایا تم ان سے کہو کہ پھر کیا تم ڈرتے نہیں ؟ اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وقت کے کافر بھی اس بات کے قائل تھے کہ کوئی اللہ کے برابر نہیں اور کوئی اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا، مگر بتوں یا بزرگوں کو اس کی جناب میں اپنا وکیل اور وسیلہ سمجھ کر مانتے تھے، اس سے کافر ہوگئے۔ سو اب بھی جو کوئی کسی مخلوق کے لیے عالم میں تصرف ثابت کرے اور اپنا وکیل ہی سمجھ کر اس کو مانے اس پر شرک ثابت ہوجاتا ہے، گو اللہ کے برابر نہ سمجھے اور اس کے مقابلہ کی طاقت اس کو ثابت نہ کرے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In the seventh and the eighth verses (31, 32), the Holy Qur&an has, in its typically wise and patronizing manner, beamed a few questions at the Mushriks to help them regain their sanity. Addressing the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، it was said that he should ask these people: Who gives you sustenance from the heavens and the earth? Who is the mas¬ter-controller of your ears and eyes in that you hear and see as He wills and you do not if He wills otherwise? Who brings forth the living from the dead, such as vegetation and trees from the soil? Or, who brings forth humans and animals from the sperm, or a bird from an egg? And who brings forth the dead from the living, such as a lifeless sperm from humans and animals? And who is it that plans and manages the affairs of the whole universe? After that, it was said when these questions will be addressed to them, all of them would say that all these things were created by One Allah! Then, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was to ask them: Why then, would you not fear Allah? When you know that it is Allah alone who creates, sustains and manages everything, why do you have to take someone else other than Him as deserving of your devotion and obedience?

ساتویں اور آٹھویں آیت میں قرآن حکیم نے اپنے حکیمانہ اور مربیانہ طریق پر مشرکین کی آنکھیں کھولنے کے لئے ان سے کچھ سوالات قائم کئے ہیں، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرکے فرمایا کہ ان لوگوں سے کہئے کہ آسمان اور زمین میں سے تمہیں رزق کون دیتا ہے ؟ یا کان اور آنکھوں کا کون مالک ہے کہ جب چاہے ان میں شنوائی اور بینائی پیدا کردے اور جب چاہے سلب کرلے، اور کون ہے جو مردہ چیز میں سے زندہ کو پیدا کردیتا ہے جیسے مٹی سے گھاس اور درخت، یا نطفہ سے انسان اور جانور یا بیضہ سے زندہ، اور زندہ میں سے مردہ کو پیدا کردیتا ہے، جیسے انسان اور جانور سے نطفہ بےجان اور کون ہے جو تمام کائنات کے کاموں کی تدبیر کرتا ہے ؟ پھر فرمایا کہ جب آپ ان لوگوں سے یہ سوال کریں گے تو سب کے سب یہی کہیں گے کہ ان چیزوں کو پیدا کرنے والا ایک اللہ ہے ! تو آپ ان سے فرماویں کہ پھر تم کیوں خدا سے نہیں ڈرتے ؟ جب ان تمام چیزوں کا پیدا کرنے والا اور باقی رکھنے والا اور ان سب کے کام میں لگانے کا انتظام کرنے والا صرف ایک اللہ ہی ہے تو پھر عبادت و اطاعت کا حق دار اس کے سوا کسی کو کیوں بناتے ہو۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلْ مَنْ يَّرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ اَمَّنْ يَّمْلِكُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَمَنْ يُّخْرِجُ الْـحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْـحَيِّ وَمَنْ يُّدَبِّرُ الْاَمْرَ۝ ٠ ۭ فَسَيَقُوْلُوْنَ اللہُ۝ ٠ ۚ فَقُلْ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ۝ ٣١ رزق الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون/ 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، ( ر ز ق) الرزق وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون/ 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو سما سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] ، ( س م و ) سماء ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ أرض الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . ( ا رض ) الارض ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ سمع السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا . ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] ، ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔ بصر البَصَر يقال للجارحة الناظرة، نحو قوله تعالی: كَلَمْحِ الْبَصَرِ [ النحل/ 77] ، ووَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب/ 10] ( ب ص ر) البصر کے معنی آنکھ کے ہیں جیسے فرمایا ؛کلمح البصر (54 ۔ 50) آنکھ کے جھپکنے کی طرح ۔ وَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب/ 10] اور جب آنگھیں پھر گئیں ۔ نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق/ 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔ خرج خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] ، ( خ رج ) خرج ۔ ( ن) خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ حيى الحیاة تستعمل علی أوجه : الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] ، الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا، قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] ، الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی: أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة، وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري، فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ. ( ح ی ی ) الحیاۃ ) زندگی ، جینا یہ اصل میں حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔ ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔ ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات/ 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔ موت أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة : فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات . نحو قوله تعالی: يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] . الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا [ مریم/ 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] . الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة . نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] . الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة، وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ بِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] . الخامس : المنامُ ، فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] ( م و ت ) الموت یہ حیات کی ضد ہے لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں ۔ اول قوت نامیہ ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔ دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم/ 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔ چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی مینٍ مراد ہیں ۔ پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے دبر والتدبیرُ : التفکّر في دبر الأمور، قال تعالی: فَالْمُدَبِّراتِ أَمْراً [ النازعات/ 5] ، يعني : ملائكة موكّلة بتدبیر أمور، ( د ب ر ) دبر ۔ التدبیر ( تفعیل ) کسی معاملہ کے انجام پر نظر رکھتے ہوئے اس میں غور و فکر کرنا قرآن میں ہے :۔ فَالْمُدَبِّراتِ أَمْراً [ النازعات/ 5] پھر دنیا کے ) کاموں کا انتظام کرتے ہیں ۔ یعنی وہ فرشتے جو امور دینوی کے انتظام کیلئے مقرر ہیں ۔ تقوي والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣١) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کفار مکہ سے فرما دیجیے کہ وہ کون ہے جو آسمان سے بارش برساتا ہے اور زمین سے نباتات اور پھل اگاتا ہے یا یہ بتلاؤ کہ وہ کون ہے جسے کان اور آنکھیں پیدا کرنے پر پوری قدرت حاصل ہے اور وہ کون ہے جسے جاندار چیز کو بےجان چیز سے نکالنے پر قدرت حاصل ہے یعنی بچوں اور جانوروں کو نطفہ سے پیدا کرتا ہے یا یہ کہ پرندوں کو انڈوں سے نکالتا ہے یا یہ کہ گندم کی بالیوں کو دانوں سے اگاتا ہے۔ اور وہ کون ہے جو بندوں کے تمام کاموں کی تدبیر کرتا اور ان کے معاملات میں نظر فرماتا ہے اور فرشتوں کے ذریعے وحی تنزیل اور مصیبت بھیجتا ہے۔ اور ضرور جواب میں یہی کہیں گے کہ اس سب کچھ کا کرنے والا اللہ ہے تو اسے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان سے فرمائیے کہ پھر تم اللہ تعالیٰ کی کیوں اطاعت نہیں کرتے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(فَسَیَقُوْلُوْنَ اللّٰہُ ) مشرکین مکہ اللہ کو ان تمام صفات کے ساتھ مانتے تھے اور اس بارے میں ان کے ذہنوں میں کوئی ابہام نہیں تھا۔ وہ اس حقیقت کو تسلیم کرتے تھے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نہ صرف اس کائنات کا خالق ہے بلکہ اس کا نظام بھی وہی چلا رہا ہے۔ (فَقُلْ اَفَلاَ تَتَّقُوْنَ ) جب تم لوگ اللہ تعالیٰ کو اپنا خالق ‘ مالک اور رازق مانتے ہو ‘ جب تم مانتے ہو کہ کائنات کا یہ سارا نظام اللہ ہی اپنے حسن تدبیر سے چلا رہا ہے تو پھر اس کے بعد تمہارے ان مشرکانہ نظریات اور دیوی دیوتاؤں کی اس پوجا پاٹ کا کیا جواز ہے ؟ کیا تمہیں کچھ بھی خوف خدا نہیں ہے ؟

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

18: عرب کے مشرکین یہ مانتے تھے کہ ساری کائنات کا خالق اللہ تعالیٰ ہے، لیکن ان کا عقیدہ یہ تھا کہ اس نے بیشتر اختیارات مختلف دیوتاؤں کو سونپ دئیے ہیں جو خدائی میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ہیں، اور اب ان کو راضی رکھنے کے لیے ان کی عبادت کرنی چاہئے۔ اس لیے یہ آیت کریمہ ان پر یہ حقیقت واضح کر رہی ہے کہ جب تم خود مانتے ہو کہ یہ سارے کام اللہ تعالیٰ کرتا ہے تو پھر کسی اور کی عبادت کرنا کیسی بے عقلی کی بات ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٣١۔ اگرچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عرب و عجم سب کی عام ہدایت کے لئے اللہ کی طرف سے نبی ہو کر آئے تھے لیکن اس عام ہدایت میں اہل عرب کی خاص ہدایت اللہ تعالیٰ کو مقصود تھی تاکہ ملت ابراہیمی میں عمرو بن لحی کے زمانہ سے بت پرستی جانوروں اور کھیتی اور باغات کی پیداوار میں سے بتوں کا حصہ ٹھہرانا اور طرح طرح کی خرابیاں جو رواج پکڑ گئی تھیں ان کی پوری اصلاح ہوجاوے اس لئے اہل عرب میں جو خرابیاں تھیں ان کا رد قرآن شریف میں بہت جگہ ہے چناچہ ان آیتوں میں بھی اللہ تعالیٰ نے حکیمانہ طریقہ سے توحید رسالت رد شرک کی بحث کی ہے حاصل اس بحث کا یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد ہوا ہے کہ عالم کے چند کارخانے مثلاً دنیا کا پیدا کرنا خلق کو رزق کا پہنچانا آدمی میں آنکھ کان کا پیدا کرنا، آدمی سے نطفہ اور اس نطفہ سے پھر آدمی کا پیدا کرنا ان بت پرستوں سے پوچھا جاوے کہ آخر یہ کارخانے کس کے قبضہ وقدرت میں ہیں ان بتوں نے کبھی کچھ کیا ہوگا تو یہ بت پرست اس کی سند نہ لاسکیں گے ورنہ مجبوری سے یہی جواب ان کو بن پڑے گا کہ ان سب کارخانوں کا مالک اللہ ہے۔ اس جواب کے بعد ان بت پرستوں کو دھمکایا جاوے کہ پھر بلا کسی طرح کے استحقاق کے اس صاحب قدرت کی عبادت میں ان بتوں کو تم کیوں شریک کرتے ہو اس اللہ سے نہیں ڈرتے جس کے ہاتھ میں تمہارا ہر طرح کا بھلا برا ہے یہ تقریر تو توحید اور رد شرک کی ہوئی ثبوت رسالت کی تقریر یہ ہے کہ یہ لوگ جو کہتے ہیں کہ قرآن کلام الٰہی نہیں ہے بلکہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی طرف سے بنا لیا ہے تو ان سے کہا جاوے کہ تم بھی تو بڑا فصیح وبلیغ عربی کا اپنے آپ کو گنتے ہو کچھ تھوڑا سا تم بھی اس طرح کا کلام جس میں پہلی آسمانی کتابوں میں جو تحریف ہوگئی اس کی اصلاح ہو آیندہ کی غیب کی باتیں ہوں اور غیب کی باتیں بھی تمہارے نجومیوں کی سی نہیں کہ ہزار میں کبھی ایک سچی ہو تو ہو بلکہ جو کہا سو ہوا فصاحت بلاغت اسی درجہ کی ہو جس طرح اس کلام میں ہے جس کے سننے سے تمہارے ہوش جاتے ہیں اگر تم سب مل کر تھوڑا سا ان اوصاف کا کلام بنا سکتے ہو یا تمہاری عقل اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ کوئی ان پڑھ آدمی اس طرح کے اوصاف کا کلام بنا سکتا ہے تو اس کو سچا کر کے دکھاؤ ورنہ قائل ہوجاؤ کہ یہ کلام الٰہی ہے اور جس پر کلام الٰہی بطور پیغام کے اترے اس کے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہونے میں پھر شک کرنا کس عقل سے ممکن ہے۔ غرض جو بات کرو کسی سند اور دلیل سے کرو بلا سند اپنی وہمی اور ظنی باتوں کے بندے جو تم بن رہے ہو یہ طریقہ سچ ہے یا جو یقینی طریقہ تم کو بتلایا جاتا ہے وہ سچ ہے۔ صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے ابو موسیٰ اشعری (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن کی نصیحت کی مثال مینہ کی اور اچھے برے لوگوں کی مثال اچھی بری زمین کی فرمائی ہے۔ ١ ؎ اس حدیث کو آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اگرچہ قرآن کی نصیحت سب کے کانوں میں یکساں پہنچتی ہے لیکن علم الٰہی جو لوگ نیک قرار پاچکے ہیں ان کے دل پر اس نصیحت کا اسی طرح اثر ہوتا ہے جس طرح اچھی زمین میں مینہ کے پانی کا اثر ہوتا ہے اور جو لوگ علم الٰہی میں بد قرار پا چکے ہیں ان کے حق میں قرآن کی نصیحت کا اثر ایسا ہی رائیگاں ہے جس طرح بری زمین میں مینہ کے پانی کا اثر رائیگاں جاتا ہے۔ ١ ؎ صحیح بخ اری ص ١٨ ج ١ باب فضل بن علم و علم۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(10:31) امن۔ ام من۔ یاکون۔ بھلا کون۔ السمع والبصار۔ سمع سے مراد قوت سماعت بھی ہے اور کان بھی اسی طرح ابصار سے مراد بینائی بھی ہے اور آنکھیں بھی۔ ابصار بصر کی جمع ہے۔ یدبر الامر۔ کارخانہ ہستی کے جملہ امور کا انتظام و انصرام کرتا ہے۔ دبر یدبر تدبیر (تفعیل) تدبیر کرنا۔ چلانے کا انتظام کرنا افلا تتقون۔ الھمزہ للانکار الواقع۔ ہمزہ انکار واقع کے لئے ہے۔ ف حرف عطف ہے اور عبارت محذوف پر دلالت کرتا ہے ۔ یعنی اذا اعترفتم بربوبیتہ جب تم اس کو ربوبیت کا اعتراف کرتے ہو تو کیوں نہیں تقویٰ اختیار کرتے۔ تقویٰ کے معنی ڈرنا یا بچنا کے ہیں۔ پہلی صورت میں اس کا مطلب ہوگا۔ افلا تتقون عذابہ پھر اس کے عذاب سے کیوں نہیں ڈرتے۔ دوسری صورت میں اس کا مطلب ہوگا : افلا تتقون الشرک فی العبودیۃ۔ تو پھر اس کی عبادت میں شرک کرنے سے کیوں نہیں بچتے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 ۔ بت پرستوں کے فضائح بیان کرنے کے بعد اب یہاں سے بت پرستی کی تردید میں دلائل کا بیان شروع ہوا ہے۔ (کبیر) الغرض یہاں تین چیزوں کو بطور دلیل پیش کیا ہے۔ اول یہ کہ رزق اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے کیونکہ رزق کا اصل سبب بارش اور زمین کی نباتات ہے اور یہ دونوں اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہیں جس سے ثابت ہوا کہ رزق اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ 5 ۔ دوم حواس جن میں سب سے اشرف سمع اور بصر ہیں جو انسان کے علم کا ذریعہ بنتے ہیں اور یہ دونوں اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہیں اگر چاہے تو تمہیں اندھا بہرا کردے۔ (کبیر) ۔ 6 ۔ سوم۔ موت و حیاۃ۔ جیسے جاندار سے نطفہ یا سرسبز لہلہاتی کھیتی سے خشک دانہ وغیرہ۔ 7 ۔ اللہ تعالیٰ ہی ان تمام چیزوں کا مالک ہے اسی کا سب اختیار ہے اور اسی نے سب کو پیدا کیا ہے۔ الغرض دنیا و آخرت کی تمام خیرات اللہ کی رحمت اور اس کے احسان سے ہی حاصل ہوتی ہے۔ (کبیر) ۔ 8 ۔ یا اس سے کیوں نہیں ڈرتے ؟ اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وقت کے کافر بھی اس بات کے قائل تھے کہ کوئی اللہ کے برابر نہیں اور کوئی اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا مگر بتوں (یا بزرگوں) کو اس کی جناب میں اپنا وکیل اور وسیلہ سمجھ کر مانتے تھے اس سے کافر ہوگئے۔ سو اب بھی جو کوئی کسی مخلوق کے لئے عالم میں تصرف ثابت کرے اور اپنا وکیل ہی سمجھ کر اس کو مانے اس پر شرک ثابت ہوجاتا ہے گو اللہ کے برابر نہ سمجھے اور اس کے مقابلہ کی طاقت اس کو نہ ثابت کرے۔ (سلفیہ) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات ٣١ تا ٤٠ اسرار و معارف اگر انھیں اب بھی اس بات کی سمجھ نہ آئی ہو تو آپ ان سے پوچھتے کہ ذرایہ بتاؤ ! آسمانوں سے پانی برسا کر کھیتیاں اور پھل کون اگاتا ہے اور ارض وسما کی نعمتوں کو کون پیدا کرتا ہے اور تمہاری خدمت پہ لگا دیتا ہے ۔ یہ ہوا ، یہ فضا ، یہ طرح طرح کے پھل چشمے جانور دورھ گھی اور گوشت یہ تمہاری زندگی کے سامان کون پیدا کرتا ہے ؟ ارے یہ تو خارجی چیزیں ہیں خود تمہارے وجود کے اندر جو نعمتیں رکھی ہیں مثلا حواس ہی کو لے لوتویہ آنکھ کان وغیرہ تمہارے وجود کا حصہ ہونے کے باوجود کس کے قبضہ قدرت میں ہیں کہ جب چاہتا ہے میں روشن کردیتا ہے اور جب چاہتا ہے یہ کام چھوڑ بیٹھتے ہیں بلکہ اس سے بڑھ کر بےجان قطرے سے تمہیں زندہ انسان کس نے بنادیا اور کون ہے جو زندوں کو اس نعمت سے محروم کرکے موت کی اتھا ہ گہرائیوں میں جانے پہ مجبور کردیتا ہے اور یہ سب کچھ محض اچانک نہیں ایک مسلسل پروگرام کے تحت ہورہا ہے۔ زندگی اور موت کا یہ تسلسل انسانی شمار سے باہر ہے ۔ کوئی نہیں جانتا ایک لمحے میں کتنے انسان حیوان پرندے درخت گھاس کے تنکے جڑی بوٹیاں چشمے دریا بادل اور ذرات ریگز ار موت کی آغوش میں چلے گئے صفحہ ہستی سے نابودہوگئے ۔ اور اسی لمحے میں کس قدرنئے تخلیق ہوگئے ۔ توکون ہے جو اس تمام نظام کی تدبیر کرتا ہے چونکہ یہ سب کچھ نہ تو کسی بت سے ہوسکتا ہے کہ وہ تو اپنے حال سے بھی بیخبر ہے اور نہ کسی انسان فرشتے یا جن وغیرہ کے بس کی بات ہے تولا محالہ یہی جواب ہوگا کہ یہ سب تو اللہ ہی کرتا ہے تو فرمائیے تمہیں اس سے حیا نہیں آتی کہ عاجر مخلوق کو اس کے برابر درجہ دیتے ہو اور خالق کو چھوڑ کر مخلوق کی پوجا کرتے ہو۔ ہاں ! یہی تمہارا پروردگار ہے یعنی پیدا کرنے والا بھی پالنے والا بھی ہر وقت ہر ضرورت پوری کرنے والا بھی اور پھر اپنی نعمتوں کا حساب لینے والا بھی اطاعت پہ انعام اور نافرمانی پہ سزادینے والا بھی کہ یہ امورربیت کا خاصہ ہیں اور یہی حق ہے اور یادرکھو حق کے علاوہ جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ باطل ہوتا ہے اور ناحق یعنی گمراہی کا سامان ہوتا ہے ۔ ایسا کوئی درجہ نہیں کہ آدمی اسلام پہ عمل نہ کرے مگر وہ گمراہی کی طرف بھی نہ جائے اور درمیان میں لٹکتا رہے بلکہ ہر کام اور ہر بات یا تو حق ہوگی اور یا پھر ناحق اور گمراہی ۔ تو اے لوگو ! تم حق کو چھوڑکرکیوں پریشانی کے صحرا میں تباہی کو آوازیں دے رہے ہو۔ لیکن اللہ کے ارشادات کس قدرکھرے اور ثابت ہیں کہ گناہ کا اثر کس قدرشدید ہوتا ہے کہ اتنی واضح اور صاف بات کے باوجود بدکاروں کو ہدایت نصیب نہیں ہوتی ۔ جیسا کہ اللہ کریم نے بتا دیا تھا کہ گناہوں کی بھی ایک حد ہے جو اس سے گزرجائے اس کا دل تباہ اور سیاہ ہوکرہدایت کی استعداد ہی کھو بیٹھتا ہے لہٰذا ایسے لوگ ایمان سے مشرف نہ ہوں گے۔ ذرا ان سے پوچھئے ! جن ہستیوں کو تم اللہ کے برابر پکار تے ہو یا اپنی ضرورتیں پورا کرنے والا جانتے ہو کیا ان میں سے کسی نے عدم سے کوئی وجود پیدا کیا یا ان میں یہ قوت ہے کہ فناکے بعد مخلوق کو دوبارہ زندہ کریں ؟ ہرگز نہیں ! کہ وہ تو خود کسی کے پیدا کردہ اور موت کا شکار ہیں اور پھر اٹھ کر اس کی بارگاہ میں جواب دہی کے لئے حاضر ہونے والے ہیں ہاں ! یہ سن لو کہ اللہ نے مخلوق کو عدم سے پیدا بھی فرمایا ہے انھیں موت بھی دیتا ہے اور سب کو پھر سے زندہ بھی کرے گا تم بھلا کہاں خاک چھانتے پھر تے ہو۔ کیا تمہارے باطل خیال کے مطابق جو مفروضہ الٰہ ہیں وہ کسی کی صحیح رہنمائی کرسکتے ہیں کہ راہ حیات میں اس کی دستگیری فرما کر اسے بہتر انجام پر پہنچنے کی راہ تباسکیں ۔ ہرگز نہیں بلکہ یہ صرف اللہ کی ذات ہے جو آنے والے امور غبیہ پر بھی انسانوں کو آگاہ فرما کر مصیبت سے بچنے اور راحت کو پانے کا طریقہ بتاتا ہے اور صحیح صحیح راہنمائی فرماتا ہے تو ذرا غورکرو ! کیا اس کی اطاعت کی جائے گی جو رہنمائی فرماتا ہے یا ان بتوں کے پیچھے چلنا چاہیئے جو راہنمائی تو کیا کریں گے خودانھیں بھی اٹھا کرلے جانا پڑے ؟ یوں تو بڑے دانا بنتے ہویہاں تمہاری عقلیں کیا ہو میں اور تم کیسے عجیب فیصلے کرتے ہو کہ اللہ کو چھوڑکرتبوں کی پر ستش میں لگے ہو۔ حق یہ ہے کہ مشرکین محض اوہام کی زنجیر میں بندھے ہوئے ہیں اور محض گمان کے پیچھے چلتے ہیں ۔ لیکن وہم اور گمان انسان کو حق سے بےنیاز تو نہیں کرسکتے وہ نتائج تو پیدا نہیں کرتے جو حق سے پیدا ہوتے ہیں ۔ اور اللہ کریم تو ان کے سب اعمال سے ذاتی طور پر واقف ہیں اور سب جانتے ہیں ۔ اعجاز القرآن یہ کتاب ایسی کتاب نہیں کہ اللہ کے علاوہ کسی اور نے تصنیف کردی ہو اور اللہ کے نام پر لگادی ہو۔ یہ عقلا محال ہے ، اس لئے کہ اس نے تاریخ کے اس دور کو بھی موضوع بحث بنایا ہے جس کے حالات کا آج کے انسان تک صحیح حالت میں پہنچنا ممکن ہی نہ تھا نہ کوئی ایسا تحریری تسلسل موجود تھا اور صرف یہ ہی نہیں بلکہ اللہ کی ذات اس کی صفات اور آخرت حساب وکتاب نیز فرشتوں کے وجود اور اس طرح کے تمام امور غیبیہ میں جو عقائدو نظریات پہلے انبیاء اور پہلی کتابوں میں بیان ہوئے ۔ سرموان سے انحراف نہیں کرتا بلکہ ان تمام حقائق کی تصدیق کرتا ہے حالا ن کہ ماننے والے لوگ اٹھ چکے اور کتابیں مرور زمانہ کی نذرہوکر تبدیل ہوچکیں ۔ حقائق انسانوں کی دسترس دورچلے گئے مگر قرآن حکیم نے بھی ان تمام امور میں اسی ناقابل تبدیل حقیقت کی طرف دعوت دے کر پہلی کتب کی تصدیق بھی کردی ۔ پھر اس نے بہت سے عقلی مضامین پر بحث فرمائی ہے اور کھل کر فرمائی ہے مثلا انسانی تخلیق اور تعمیربدن کے امرحل کو کس خوش اسلوبی سے بیان کیا ۔ اگر عقل سے کام لیا جائے تو اس دور میں یہ سب کچھ بتاناانسان کے بس میں کب تھا ۔ بارشوں کے نظام کی بات کرلوپھلوں کے پکنے کی بحث ہو یا سبزے کے اگنے کی معاشرتی اقدار ہوں یا اخلاقی حدود تعلقات کا پہلوذاتی خاندانی اور گھریلوہویا قومی اور ملکی ہر بات کو کھل کر بیان فرمایا۔ حتٰے کہ بندے اور اس کے خالق کے تعلقات کیسے بنیں گے اور ان میں بگاڑکب اور کہاں شروع ہوتا ہے کیوں شروع ہوتا ہے ؟ اگر ان سب امور کو غوروفکر سے جانچاجائے تو ایسی ناقابل تردید حقیقتیں جن میں کبھی ترمیم واصلاح کی ضرورت بھی پیش نہ آئی ہو۔ یہ صرف اسی ہستی کی شان ہے کہ وہ بیان فرمائے جو تمام جہانوں کے بنانے اور چلانے والی ہے ۔ عقلا بھی ثابت ہے کہ اس میں رائی برابر شبہ کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ” صدق اللہ العظیم “۔ اور اگر تمہیں ابھی تک شبہ ہو تو ذرا ایک ہی بات اتنی یقینی اتنی کھری اور اتنی خوبصورت کہہ دو ۔ نہ صرف اکیلے بلکہ اللہ کے سوا جس قدرمعبودان باطل تم نے اپنا رکھے ہیں سب کو ساتھ ملاتم پوری کتاب نہ سہی کسی موضوع پہ ایسی بات کہہ دوجوحسن ادب اور معیارصداقت میں کتاب اللہ کے ہم پلہ ہو تو پتہ چل سکے گا کہ یہ بات انسان کے بس میں ہے لہٰذا ہوسکتا ہے کہ یہ کتاب بھی انسانی کوشش ہو۔ لیکن ایسا ہرگز ممکن نہیں جو پھر ایک بہت بڑی عقلی دلیل ہے کہ یہ اللہ کی کتاب ہے۔ مگر ان کا مسئلہ یہ ہے کہ ان میں اتنی عقل بھی نہیں اللہ نے تو استعداد بخشی تھی مگر انھوں نے گناہ کرکے اس کو ضائع کردیا یا کمزور کردیا ۔ اب بات ان کی سمجھ سے بالا تر ہے بات تو صحیح بھی ہے اور صحیح مقام پر بھی ہے مگر یہ خود پستیوں میں گرچکے ہیں ۔ لہٰذا انکار کر بیٹھے ہیں یا تو اپنی کمزوری کا اقرار کرتے تو بہ کرتے اور واپس اپنے مقام پر آتے مگر یہ دوسرے راستے پر چل پڑے کہ ہم تو درست ہیں معاذ اللہ یہ کتاب درست نہیں ہے۔ اور یہ بہت خطرناک راستہ ہے کہ اے مخاطب ! ذرا آنکھ اٹھا کر پردئہ تاریخ میں دیکھ کہ ان سے پہلے جن اقوام نے اسی طرح کا انکار کیا اور اس ظلم کے مرتکب ہوئے وہ کس قدربھیانک انجام سے دوچار ہوئے لہٰذا یہ بھی اگر باز نہ آئے تو اسی انجام سے دوچار ہوں گے۔ اللہ کریم جانتا ہے کہ بعض خوش نصیب جو غورکریں گے یقینا نور ایمان سے مشرف ہوں گے اور بعض بدبخت کفر پر ہی قائم رہیں گے اور ایسے فسادی جو کفر پہ رہتے ہیں وہ اللہ کی گرفت سے بچ نہ سکیں گے کہ ان کے حال سے اچھی طرح واقف ہے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 31 تا 33 امن (کون ہے وہ ؟ ) یملک (مالک ہے) یدبر (تدبیر کرتا ہے، کام چلاتا ہے) ذلکم (اسی میں) انی (کہاں ؟ ) تصرفون (تم پلٹ رہے ہو) حقت (ثابت ہوگی، سچ ثابت ہوئی) فسقوا (جنہوں نے نافرمانی کی) تشریح : آیت نمبر 31 تا 33 انسان کی عقل اگر دنیاوی مفادات اور باپ دادا کی اندھی تقلید کے اثرات سے دھندلا نہ گئی ہو اور وہ خلوص سے اس کائنات کے نظام پر غور و فکر کرے گا تو اس کا دل و دماغ اور فکر چلا اٹھیں گے کہ اس کائنات کی ہر چیز کا بنانے والا، اس کا انتظام کرنے والا صرف ایک اللہ ہے جس کا نہ کوئی شریک ہے، نہ ساتھی ہے وہ کسی کام میں کسی کا محتاج نہیں ہے بلکہ کائنات کا ذرہ ذرہ بےکار پیدا نہیں کیا بلکہ ہر چیز ایک حکمت اور سلیقے سے بنائی گئی ہے۔ وہ خلاق ومالک ہے اور وہی ہر طرح کی اطاعت و فرماں داری کا مستحق ہے۔ انسان جتنا بھی غور کرتا جائے گا اس کا دل و دماغ ، عقل، قابلیت اور تفکر و تدبر کا ہر انداز اس کائنات کے پیدا کرنے والے اللہ کی ذات تک پہنچ جائے گا۔ دل و دماغ کی اس سچی آواز کے باوجود وہ پھر بھی اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے معبودوں اور پتھر کی مورتیوں کے سامنے اس غلط تصور کے ساتھ جھک جاتے ہیں ان سے مرادیں مانگتے ہیں کہ پیدا کرنے والا تو اللہ ہے مگر یہ سب ہمارے سفارشی ہیں اگر یہ اللہ کے ہاں ہماری سفارش نہیں کریں گے تو نہ ہماری دعائیں قبول ہونگی نہ ہماری خواہش اور آرزوئیں پوری ہوں گی۔ قرآن کریم میں بار بار اس سچائی کو دھرایا گیا ہے کہ اس کائنات کا خالق ومالک اللہ ہے اس کو پکارنے کے لئے کسی کی سفارش یا واسطوں کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس کو جہاں اور جس جگہ زور سے یا آہستہ سے پکارا جائے گا وہ ان کی پکار کو سن لے گا اور اس کو اس کا جواب بھی عطا فرمائے گا لہٰذا ایسے مہربان پروردگار سے جو کچھ مانگنا ہے براہ راست مانگا جائے۔ کفار مکہ اس بات کو اچھی طرح جانتے اور پہچانتے تھے کہ ہر چیز کا پیدا کرنے والا اللہ ہی ہے مگر ان کا گمان یہ تھا کہ ہم تو گناہ گار ہیں ہم اگر اللہ کی بارگاہ میں عرض کریں گے تو وہ ہماری نہیں سنے گا۔ ہماری مرادیں پوری نہ ہوں گی لیکن اگر یہ بت ہماری سفارش کردیں گے تو اللہ بھی ان کی بات ماننے پر مجبور ہوگا۔ یہ وہ غلط عقیدہ تھا جس نے اولاد ابراہیم کو بت شکن کے بجائے بت پرست بنا دیا تھا۔ اس بات کو اللہ تعالیٰ نے سوالیہ انداز سے فرما کر اس کا جواب بھی دیدیا ۔ اللہ تعالیٰ نے پوچھا ہے کہ یہ بتائو کہ آسمان اور زمین سے رزق کون عطا کرتا ہے ؟ اس کی سننے اور دیکھنے کی طاقت کا مالک کون ہے ؟ کون ہے جو ایک بےجان سے جان دار اور جان دار سے بےجان کو پیدا کرتا ہے ؟ کون اس کائنات کے نظام کو چلا رہا ہے فرمایا کہ تم اور تمہارا دل چلا اٹھے گا کہ ان تمام چیزوں کو پیدا کرنے والی ذات صرف ایک ہی ہے اور وہ ہے اللہ کی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اگر تمہارے دلوں میں سچائی ہے اور اس سچائی کو تم زبان سے بھی کہتے ہو تو پھر اپنی عقلوں سے کام کیوں نہیں لیتے۔ یہی ایک سچائی ہے کہ اس کائنات کا خلاق ومالک اور رازق صرف اللہ ہے۔ اس سچائی کے بعد تو صرف گمراہی اور جہالت ہی ہو سکتی ہے۔ فرمایا ہے کہ تم اس پر غور کیوں نہیں کرتے کہ ان حقائق اور سچائیوں کے باوجود آخر وہ کون لوگ ہیں جو تمہیں اپنی انگلیوں پر نچا رہے ہیں اور تمہاری حیثیت کٹھ پتلی سے زیاد نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے صاف صاف ارشاد فرما دیا کہ اللہ کے خلاق ومالک ہنے پر صرف دل ہی گواہ نہیں ہے بلکہ کائنات کا ذرہ ذرہ گواہی دے رہا ہے لیکن جو اللہ کے نافرمان ہیں اور جنہوں نے اپنی عقل و فکر کو دوسروں کے حوالے کردیا ہے وہ نہ تو ایمان لائیں گے اور نہ برے انجام سے بچ سکیں گے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ یعنی آسمان سے بارش کرتا ہے اور زمین سے نباتات پیدا کرتا ہے جس سے تمہارا رزق تیار ہوتا ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قل من یرزقکم من السماء والارض آپ پوچھئے کہ آسمان سے (پانی برسا کر اور زمین سے سبزہ پیدا کر کے) تم کو کون رزق دیتا ہے۔ یا یہ مطلب کہ آسمان اور زمین والوں میں کون تم کو رزق دیتا ہے۔ امن یملک السمع والابصار یا وہ کون ہے جو تمہارے کانوں اور آنکھوں پر پورا اختیار رکھتا ہے ‘ یعنی کون تم کو سنا اور دکھا سکتا ہے۔ کس کی قدرت ہے کہ جو بات سنانی اور جو چیز دکھانی چاہے وہ تم کو سنا اور دکھا سکے۔ یا یہ مطلب ہے کہ کس نے تم کو سننے اور دیکھنے کی طاقت دی اور کس نے شنوائی اور بینائی کی تخلیق کی اور ان کو ٹھیک رکھا۔ یا یہ معنی ہے کہ باوجود کثرت حوادث و امراض کے کون تمہاری شنوائی اور بینائی کو محفوظ رکھتا ہے اور کون ان کو متاثر ہونے سے بچاتا ہے۔ ومن یخرج الحی من المیت ویخرج المیت من الحی اور کون زندہ جاندار کو مردہ نطفہ اور انڈے سے اور نطفہ اور انڈے کو زندہ جاندار سے پیدا کرتا ہے۔ ومن یدبر الامر اور کون تمام امور کا انتظام کرتا ہے اور سب کاموں کے انجام و نتائج کو جانتا ہے۔ فسیقولون اللہ سو وہ (جواب میں) کہیں گے کہ (ایسا کرنے والا) اللہ ہے۔ یعنی ان امور کی نسبت وہ خودساختہ شریکوں کی طرف نہیں کرسکیں گے۔ فقل افلا تتقون تو ان سے کہئے : پھر شرک سے کیوں نہیں پرہیز کرتے۔ یعنی بےطاقت ‘ عاجز مخلوق کو اللہ قادر کے ساتھ معبودیت میں شریک کرتے تم کیوں نہیں ڈرتے ‘ اللہ کے عذاب کا خوف کیا تم کو نہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مشرکین سے سوال کہ تمہیں کون رزق دیتا ہے اور تمہارے کانوں اور آنکھوں کا کون مالک ہے اور تمام کاموں کی تدبیر کون کرتا ہے ؟ دنیا میں جو لوگ غیر اللہ کی عبادت کرتے ہیں اور مخلوق کو اللہ تعالیٰ کا شریک بنا رکھا ہے اس کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ ان سے دریافت فرمائیے کہ آسمان سے اور زمین سے تمہیں کون رزق دیتا ہے اور تمہارے سننے کی قوت اور دیکھنے کی قوت کا کون مالک ہے یعنی تمہارے کانوں اور آنکھوں پر کسے پورا اختیار ہے کون ہے جس نے یہ چیزیں تمہیں دی ہیں اور جو ان کی حفاظت فرماتا ہے۔ وہ چاہتا ہے تو ان کو سلب کرلیتا ہے ‘ اور یہ بھی بتاؤ کہ مردہ سے زندہ کو کون نکالتا ہے اور زندہ سے مردہ کو کون نکالتا ہے۔ اور یہ بھی بتاؤ کہ عالم میں جو تصرفات ہیں ان کی تدبیر کون فرماتا ہے جب ان لوگوں سے یہ سوالات کرو گے تو ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی جواب نہ ہوگا کہ ان افعال کا مالک و مختار اور ان صفات سے متصف صرف اللہ ہی ہے۔ جب وہ یہ جواب دیں تو آپ فرما دیجئے کہ پھر تم اس رازق ‘ خالق اور مالک سے کیوں نہیں ڈرتے ؟ اس کو چھوڑ کر جو دوسروں کی عبادت کرتے ہو وہ تمہارے نزدیک بھی بےاختیار ہیں۔ ان کی عبادت کیوں کرتے ہو ؟ وہ ذات پاک جس کی یہ صفات ہیں جو اوپر ذکر کی گئیں وہی واقعی اور حقیقی رب ہے۔ اس کے مالک اور رب حقیقی ہونے کا اقرار بھی کرتے ہو اور پھر دوسروں کی عبادت کرتے ہو۔ یہ تو سراپا گمراہی ہے اور حق کے بعد گمراہی کے سوارہ ہی کیا گیا ؟ جانتے بوجھتے گمراہی میں پڑنا سب سے بڑی حماقت ہے۔ حق کو چھوڑ کر کہاں پھرے جا رہے ہو (باطل کو چھوڑو اور حق کی طرف واپس آؤ) حق اور ضلال یعنی حق اور گمراہی کے درمیان کوئی اور چیز نہیں ہے جو حق نہ ہو وہ گمراہی ہے۔ دونوں میں تضاد ہے۔ حق اور گمراہی دونوں جمع نہیں ہوسکتے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

46: یہ توحید پر پانچویں عقلی دلیل ہے لیکن علی سبیل الاعتراف من الخصم یعنی ایسے عقلی امور کو بطور دلیل پیش کیا گیا ہے جو فریق مخالف یعنی مشکرین کے نزدیک مسلم ہیں اور فریق مخالف ان کو مانتا ہے۔ یہ دلیل ایسے چھ امور پر مشتمل ہے جن کو مشرکین تسلیم کرتے تھے یہ دلیل سابقہ دلیلوں سے بطور ترقی ہے یعنی یہ ایسے امور ہیں کہ مخالف بھی ان کا اقرار کرتے ہیں “ کما قیل اصح الشھادات ما یشھد به الاعداء ” جب کافر ان باتوں کو مانے اور اللہ تعالیٰ کی مذکورہ صفات کا اقرار کرتے ہیں تو پھر انہیں اللہ تعالیٰ کی دیگر صفات کارسازی کو بھی مان لینا چاہئے کہ وہی مالک و مختار اور متصرف و کارساز ہے۔ اول زمین و آسمان سے تمام بنی آدم بلکہ تمام جاندار مخلوق کی روزی کا انتظام اللہ تعالیٰ ہی کرتا ہے۔ دوم سننے کی قوت بھی اللہ ہی نے سب کو عطا کی ہے۔ سوم اسی طرح دیکھنے کی طاقت بھی اللہ تعالیٰ ہی کا عطیہ ہے اور وہ ان دونوں قوتوں کو سلب کرلینے کی بھی قدرت رکھتا ہے۔ چہارم : بےجان انڈے اور نطفہ سے جاندار بچہ پیدا کرنا اور۔ پنجم : جاندار یعنی انسان اور پرندے سے بےجان نطفہ اور انڈا پیدا کرنا اسی کا کام ہے۔ یا میت سے مراد کافر ہے کیونکہ وہ ایمان سے محروم ہونے کی وجہ سے مردہ ہے اور حَیٌّ سے مراد مؤمن جو دولت ایمان کی برکت سے زندہ جاوید ہے یا حی سے مراد کھیتی اور میت سے مراد زمین ہے۔ “ اي النبات من الارض والانسان من النطفة والسنبلة من الحبة والطیر من البیضة والمؤمن من الکافر ” (قرطبی ج 8 ص 335) ۔ حق بات یہ ہے کہ یہ جملہ اپنی جامعیت کے اعتبار سے ان تمام اشیاء کو شامل ہے۔ ششم : زمین و آسمان کا سارا کاروبار اور نظام عالم اسی کی تدبیر سے چل رہا ہے تدبیر عالم میں وہ یکتا ویگانہ ہے اور اس میں کوئی اس کا شریک نہیں۔ “ فَقُلْ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ ” یعنی جب تم یہ ساری باتیں جانتے اور مانتے ہو اور اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا اعتراف کرتے ہو تو پھر شرک سے کیوں نہیں بچتے اور صرف اللہ تعالیٰ ہی کو کارساز اور متصرف علی الاطلاق کیوں نہیں مانتے ہو۔ “ افلا تتقون الشرک فی العبودیة اذا اعترفتم بالربوبیة ” (مدارک ج 2 ص 124) ۔ مشرکین مکہ کا عقیدہ تو یہ تھا کہ مذکورہ بالا امور صرف اللہ تعالیٰ ہی کی قدرت میں ہیں اور ان کے مزعومہ معبودوں میں ان کاموں کی طاقت نہیں یعنی انھم یعترفون ان فاعل ھذہ الاشیاء ھو اللہ تعالیٰ (خازن ج 3 ص 188) یعنی لا یقدرون علی اسناد ھذه الامور الی ما یدعونه اٰلھة لظھور بطلانه (مظہری ج 5 ص 25) ۔ مگر آج کل کے مشرک ان سے بھی بازی لے گئے۔ مشرکین مکہ نے اعتراف کیا تھا کہ اللہ کے سوا کوئی مدبر عالم نہیں مگر چودہویں صدی کے ایک مدعی اسلام نے حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمة اللہ علیہ کو برملا مدبر عالم کا خطاب دیا ہے۔ ذی تصرف بھی ہے ماذون بھی ہے مختار بھی ہے کار عالم کا مدبر بھی ہے عبدالقادر (حدائق بخشش حصہ اول) 47: بھلا بتلاؤ تو سہی کہ رازق کون ہے اور مالک سمع و بصر کون ہے وہ جواب دیں گے کہ اللہ تو پھر اسی کو پکارو اوروں کو کیوں پکارتے ہو۔ “ اَمَّنْ ” میں ام منقطعہ ہے (رضی) اور اس کا مطلب یہ نہیں کہ پہلی بات غلط ہے اور اس سے اعراض کیا گیا ہے بلکہ ایک امر سے دوسرے امر کی طرف انتقال مراد ہے یعنی بتاؤ تمہیں روزی کون دیتا ہے اچھا اسے رہنے دو ایک اور بات بتاؤ کہ مالک سمع وبصر کون ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

31 اے پیغمبر ! آپ ان سے دریافت کیجئے کہ تم کو آسمان سے اور زمین سے کون رزق دیتا ہے یا وہ کون ہے جو تمہارے کان اور آنکھوں پر پورا اختیار رکھتا ہے اور کانوں اور آنکھوں کا مالک ہے اور وہ کون ہے جو جاندار کو بےجان سے نکالتا ہے اور بےجان کو جاندار سے نکالتا ہے اور وہ کون ہے جو تمام کاموں کی تدبیر کرتا ہے سو وہ ضرور یہی کہیں گے کہ وہ اللہ ہے تو آپ ان سے فرما دیجئے کہ تم پھر اس کے ساتھ شرک کرنے سے کیوں نہیں ڈرتے ۔ آسمان سے پانی برساتا ہے اس کی وجہ سے زمین اگاتی ہے کان اور آنکھیں جس کی چاہتا ہے لے لیتا ہے کوئی بہرا ہے کوئی اندھا جاندار کو مردے سے جیسے انڈا جاندار سے نکالتا ہے اور باوجود مردہ ہونے کے پھر اس سے جاندار نکالتا ہے۔ دنیا کے تمام امور کی تدبیر اسی کے ہاتھ ہے چونکہ کفار کو بھی اس کا اقرار تھا اس لئے وہ سب اللہ تعالیٰ ہی کا نام لیں گے آپ ان سے کہہ سکتے ہیں کہ جب سب کچھ وہی کرتا ہے تو تم اس کی عبادت میں دوسروں کو شریک کرنے سے ڈرتے کیوں نہیں ؟