Surat Younus

Surah: 10

Verse: 34

سورة يونس

قُلۡ ہَلۡ مِنۡ شُرَکَآئِکُمۡ مَّنۡ یَّبۡدَؤُا الۡخَلۡقَ ثُمَّ یُعِیۡدُہٗ ؕ قُلِ اللّٰہُ یَبۡدَؤُا الۡخَلۡقَ ثُمَّ یُعِیۡدُہٗ فَاَنّٰی تُؤۡفَکُوۡنَ ﴿۳۴﴾

Say, "Are there of your 'partners' any who begins creation and then repeats it?" Say, " Allah begins creation and then repeats it, so how are you deluded?"

آپ یوں کہیے کہ تمہارے شرکاء میں کوئی ایسا ہے جو پہلی بار بھی پیدا کرے ، پھر دوبارہ بھی پیدا کرے؟ آپ کہہ دیجئے کہ اللہ ہی پہلی بار پیدا کرتا ہے پھر وہی دوبارہ بھی پیدا کرے گا ۔ پھر تم کہاں پھرے جاتے ہو؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

This invalidates and falsifies their claims for committing Shirk with Allah and worshipping different idols and rivals Allah says: قُلْ هَلْ مِن شُرَكَأيِكُم مَّن يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ ... Say: "Is there of your partners one that originates the creation and then repeats it!" meaning, who is the one who started the creation of these heavens and earth and created a... ll the creatures in them! Who can place the planets and the stars in their positions! Who can then repeat the process of the creation ... قُلِ اللّهُ ... Say: "Allah." It is He Who does this. He does it by Himself, alone without partners. ... قُلِ اللّهُ يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ ... Say: "Allah originates the creation and then He repeats it. ... فَأَنَّى تُوْفَكُونَ "Then how are you deluded away (from the truth)!" How is it that you are so misled from the right path to falsehood!   Show more

مصنوعی معبودوں کی حقیقت مشرکوں کے شرک کی تردید ہو رہی ہے کہ بتلاؤ تمہارے معبودوں میں سے ایک بھی ایسا ہے جو آسمانوں و زمین کو اور مخلوق کو پیدا کر سکے یا بگاڑ کر بنا سکے نہ ابتدا پر کوئی قادر نہ اعادہ پر کوئی قادر ۔ بلکہ اللہ ہی ابتدا کرے وہی اعادہ کرے ۔ وہ اپنے تمام کاموں میں یکتا ہے ۔ پس تم ط... ریق حق سے گھوم کر راہ ضلالت کی طرف کیوں جا رہے ہو؟ کہو تو تمہارے معبود کسی بھٹکے ہوئے کی رہبری کر سکتے ہیں؟ یہ بھی ان کے بس کی بات نہیں بلکہ یہ بھی اللہ کے ہاتھ ہے ۔ ہادی برحق وہی ہے ، وہی گمراہوں کو راہ راست دکھاتا ہے ، اس کے سوا کوئی ساتھی نہیں ۔ پس جو رہبری تو کیا کرے خود ہی اندھا بہرا ہو اس کی تابعداری ٹھیک یا اس کی اطاعت اچھی جو سچا ہادی مالک کل قادر کل ہو؟ یہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ نے اپنے باپ سے کہا تھا کہ ان کی پوجا کیوں کرتا ہے؟ جو نہ سنیں نہ دیکھیں نہ کوئی فائدہ دے سکیں ۔ اپنی قوم سے فرماتے ہیں کہ تم ان کی پوجا کرتے ہو جنہیں خود اپنے ہاتھوں بناتے ہو ۔ حالانکہ تمہارا اور تمہارے کام کی تمام چیزوں کا پیدا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ یہاں فرماتا ہے تمہاری عقلیں کیا اوندھی ہوگئیں کہ خالق مخلوق کو ایک کر دیا نیکی سے ہٹ کر بدی میں جا گرے توحید کو چھوڑ کر شرک میں پھنس گئے ۔ اس کو اور اس کو پوجنے لگے ۔ رب جل جلالہ مالک و حاکم و ہادی و رب سے بھٹک گئے ۔ اس کی طرف خلوص دلی توجہ چھوڑ دی ۔ دلیل و برہان سے ہٹ گئے مغالطوں اور تقلید میں پھنس گئے ۔ گمان اور اٹکل کے پیچھے پڑ گئے ۔ وہم و خیال کے بھنور میں آگئے ، حالانکہ ظن و گمان فضول چیز ہے ۔ حق کے سامنے وہ محض بیکار ہے تمہیں اس سے کوئی فائدہ پہنچ نہیں سکتا ۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے اعمال سے باخبر ہے وہ انہیں پوری سزا دے گا ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

34۔ 1 مشرکین کے شرک کے کھوکھلے پن کو واضح کرنے کے لئے ان سے پوچھا جا رہا ہے کہ بتلاؤ جنہیں تم اللہ کا شریک گردانتے ہو، کیا انہوں نے اس کائنات کو پہلی مرتبہ پیدا کیا ہے ؟ یا دوبارہ اسے پیدا کرنے پر قادر ہیں ؟ نہیں یقیناً نہیں پہلی مرتبہ بھی پیدا کرنے والا اللہ ہی ہے اور روز قیامت دوبارہ وہی سب کو زند... ہ کرے گا۔ تو پھر ہدایت کا راستہ چھوڑ کر، کہاں پھرے جا رہے ہو ؟  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٩] مشرکین مکہ یہ تو تسلیم کرتے تھے کہ اللہ ہی نے انہیں اور ساری کائنات کو پیدا کیا ہے اور اس کام میں ان کے شریکوں کا کوئی حصہ نہیں لیکن وہ معاد یا اخروی زندگی کے قائل نہیں تھے اس آیت میں دو باتوں پر ان مشرکوں کو مطلع کیا گیا ہے۔ ایک یہ کہ جو ہستی پہلی بار پیدا کرسکتی ہے وہ دوسری بار بھی پیدا کرسک... تی ہے بلکہ دوبارہ پیدا کرنا اس کے لیے سہل تر ہے اور دوسری یہ کہ جب پہلی بار کی تخلیق میں تمہارے معبودوں کا کچھ حصہ نہیں تو دوسری تخلیق میں بھی وہ حصہ دار نہیں ہوسکتے۔ اب تخلیق اول کے متعلق سوال کا جواب قریش مکہ کی زبان سے بیان فرمایا گیا کیونکہ وہ اس بات کے قائل تھے اور تخلیق ثانی یا معاد کے وہ چونکہ قائل نہیں تھے لہذا اس کا جواب نبی اکرم کی زبان سے دلوایا گیا۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قُلْ هَلْ مِنْ شُرَكَاۗىِٕكُمْ مَّنْ يَّبْدَؤُا الْخَلْقَ ۔۔۔۔ تُؤْفَكُوْنَ ” اِفْکٌ“ کا معنی ہے کسی کو کسی چیز سے پھیر دینا، ہٹا دینا۔ اس لیے جھوٹ اور بہتان کو بھی ” اِفْکٌ“ کہتے ہیں، کیونکہ اس میں بھی سننے والے کو اصل بات سے پھیر دیا جاتا ہے۔ یعنی آپ ان سے پوچھیں کیا تمہارا کوئی شریک ایسا ہے جو خل... ق کی ابتدا کرتا ہو، پھر اسے دوبارہ بنائے ؟ جیسا کہ اللہ نے انسان کو مٹی سے، پھر نطفہ، پھر علقہ، غرض تمام منازل سے گزار کر پیدا کیا، اسی طرح ساری مخلوق کی ابتدا اس نے کی اور دوبارہ بھی وہی بنائے گا۔ وہ جواب میں خاموشی اختیار کریں گے، اگر کوئی ایسا شریک ہے تو اس کا نام لو۔ اب نہ وہ ایسے شریک کا نام لے سکتے ہیں، کیونکہ خود مان چکے ہیں کہ خالق اللہ تعالیٰ ہی ہے اور نہ وہ یہ کہنے کے لیے تیار ہیں کہ ہمارے شرکاء میں سے کوئی ایسا نہیں، کیونکہ اس سے ان کے شرکاء کی حقیقت کھلتی اور ان کی بےبسی ظاہر ہوتی ہے، اس لیے وہ جواب ہی نہیں دیں گے۔ سو اگر وہ جواب نہ دیں تو آپ خود فرمائیں کہ وہ صرف اللہ تعالیٰ ہے جو پہلے پیدا کرتا ہے دوبارہ بھی وہی اٹھائے گا۔ پھر اس کے باوجود تم کیسے گوارا کرتے ہو کہ سیدھے راستے، یعنی توحید کو چھوڑ کر صاف گمراہی، یعنی شرک کی طرف پھیر دیے جاؤ جو سراسر افک (جھوٹ) ہے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلْ ہَلْ مِنْ شُرَكَاۗىِٕكُمْ مَّنْ يَّبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُہٗ۝ ٠ ۭ قُلِ اللہُ يَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُہٗ فَاَنّٰى تُؤْفَكُوْنَ۝ ٣٤ هَلْ : حرف استخبار، إما علی سبیل الاستفهام، وذلک لا يكون من اللہ عزّ وجلّ : قال تعالی: قُلْ هَلْ عِنْدَكُمْ مِنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوهُ لَنا[ الأ... نعام/ 148] وإمّا علی التّقریر تنبيها، أو تبكيتا، أو نفیا . نحو : هَلْ تُحِسُّ مِنْهُمْ مِنْ أَحَدٍ أَوْ تَسْمَعُ لَهُمْ رِكْزاً [ مریم/ 98] . وقوله : هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا[ مریم/ 65] ، فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرى مِنْ فُطُورٍ [ الملک/ 3] كلّ ذلک تنبيه علی النّفي . وقوله تعالی: هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِنَ الْغَمامِ وَالْمَلائِكَةُ [ البقرة/ 210] ، لْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ تَأْتِيَهُمُ الْمَلائِكَةُ [ النحل/ 33] ، هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا السَّاعَةَ [ الزخرف/ 66] ، هَلْ يُجْزَوْنَ إِلَّا ما کانوا يَعْمَلُونَ [ سبأ/ 33] ، هَلْ هذا إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ [ الأنبیاء/ 3] قيل : ذلک تنبيه علی قدرة الله، و تخویف من سطوته . ( ھل ) ھل یہ حرف استخبار اور کبھی استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جیسے قرآن پاک میں ہے : هَلْ عِنْدَكُمْ مِنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوهُ لَنا[ الأنعام/ 148] کہدو کہ تمہارے پاس کوئی سند ہے اگر ہے تو اسے ہمارے سامنے نکالو ۔ اور کبھی تنبیہ تبکیت یا نفی کے لئے چناچہ آیات : ۔ هَلْ تُحِسُّ مِنْهُمْ مِنْ أَحَدٍ أَوْ تَسْمَعُ لَهُمْ رِكْزاً [ مریم/ 98] بھلا تم ان میں سے کسی کو دیکھتے ہو یار کہیں ان کی بھنکسنتے ہو ۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا[ مریم/ 65] بھلا ئم اس کا کوئی ہم نام جانتے ہو ۔ فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرى مِنْ فُطُورٍ [ الملک/ 3] ذرا آنکھ اٹھا کر دیکھو کیا تجھے ( آسمان میں ) کوئی شگاف نظر آتا ہے ۔ میں نفی کے معنی پائے جاتے ہیں ۔ اور آیات : ۔ هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِنَ الْغَمامِ وَالْمَلائِكَةُ [ البقرة/ 210] کیا یہ لوگ اسی بات کے منتظر ہیں کہ ان پر خدا کا عذاب ) بادل کے سائبانوں میں نازل ہو اور فرشتے بھی اتر آئیں ۔ ھلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ تَأْتِيَهُمُ الْمَلائِكَةُ [ النحل/ 33] یہ اس کے سوا اور کسی بات کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں ۔ هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا السَّاعَةَ [ الزخرف/ 66] یہ صرف اس بات کے منتظر ہیں کہ قیامت هَلْ يُجْزَوْنَ إِلَّا ما کانوا يَعْمَلُونَ [ سبأ/ 33] یہ جیسے عمل کرتے ہیں ویسا ہی ان کو بدلہ ملے گا ۔ هَلْ هذا إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ [ الأنبیاء/ 3] یہ شخص کچھ بھی ) نہیں ہے مگر تمہارے جیسا آدمی ہے ۔ میں اللہ تعالیٰ کی قدرت پر تنبیہ اور اس کی سطوت سے تخو یف کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے : ۔ شرك وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان : أحدهما : الشِّرْكُ العظیم، وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] ، والثاني : الشِّرْكُ الصّغير، وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] ، ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ دین میں شریک دو قسم پر ہے ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ دوم شرک صغیر کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔ بدأ يقال : بَدَأْتُ بکذا وأَبْدَأْتُ وابْتَدَأْتُ ، أي : قدّمت، والبَدْءُ والابتداء : تقدیم الشیء علی غيره ضربا من التقدیم . قال تعالی: وَبَدَأَ خَلْقَ الْإِنْسانِ مِنْ طِينٍ [ السجدة/ 7] ( ب د ء ) بدء ات بکذا وابتدءات میں نے اسے مقدم کیا ۔ اس کے ساتھ ابتدا کی ۔ البداء والابتداء ۔ ایک چیز کو دوسری پر کسی طور مقدم کرنا قرآن میں ہے { وَبَدَأَ خَلْقَ الْإِنْسَانِ مِنْ طِينٍ } ( سورة السجدة 7) اور انسان کی پیدائش کو مٹی سے شروع کیا ۔ عود الْعَوْدُ : الرّجوع إلى الشیء بعد الانصراف عنه إمّا انصرافا بالذات، أو بالقول والعزیمة . قال تعالی: رَبَّنا أَخْرِجْنا مِنْها فَإِنْ عُدْنا فَإِنَّا ظالِمُونَ [ المؤمنون/ 107] ( ع و د ) العود ( ن) کسی کام کو ابتداء کرنے کے بعد دوبارہ اس کی طرف پلٹنے کو عود کہاجاتا ہی خواہ وہ پلٹا ھذایۃ ہو ۔ یا قول وعزم سے ہو ۔ قرآن میں ہے : رَبَّنا أَخْرِجْنا مِنْها فَإِنْ عُدْنا فَإِنَّا ظالِمُونَ [ المؤمنون/ 107] اے پروردگار ہم کو اس میں سے نکال دے اگر ہم پھر ( ایسے کام ) کریں تو ظالم ہوں گے ۔ أنى أَنَّى للبحث عن الحال والمکان، ولذلک قيل : هو بمعنی كيف وأين ، لتضمنه معناهما، قال اللہ عزّ وجل : أَنَّى لَكِ هذا [ آل عمران/ 37] ، أي : من أين، وكيف . ( انیٰ ) انی۔ یہ حالت اور جگہ دونوں کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اس لئے بعض نے کہا ہے کہ یہ بمعنیٰ این اور کیف ۔ کے آتا ہے پس آیت کریمہ ؛۔ { أَنَّى لَكِ هَذَا } ( سورة آل عمران 37) کے معنی یہ ہیں کہ کھانا تجھے کہاں سے ملتا ہے ۔ انی اسم ظرف ہے۔ (1) جب ظرف زمان ہو تو بمعنی متی۔ جب ۔ جس وقت۔ (2) اگر ظرف مکان ہو تو بمعنی این۔ جہاں۔ کہاں۔ ہوتا ہے۔ (3) اگر استفہامیہ ہو تو بمعنی کیف۔ کیسے۔ کیونکر۔ ہوتا ہے۔ أفك الإفك : كل مصروف عن وجهه الذي يحق أن يكون عليه، ومنه قيل للریاح العادلة عن المهابّ : مُؤْتَفِكَة . قال تعالی: وَالْمُؤْتَفِكاتُ بِالْخاطِئَةِ [ الحاقة/ 9] ، وقال تعالی: وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوى [ النجم/ 53] ، وقوله تعالی: قاتَلَهُمُ اللَّهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ [ التوبة/ 30] أي : يصرفون عن الحق في الاعتقاد إلى الباطل، ومن الصدق في المقال إلى الکذب، ومن الجمیل في الفعل إلى القبیح، ومنه قوله تعالی: يُؤْفَكُ عَنْهُ مَنْ أُفِكَ [ الذاریات/ 9] ، فَأَنَّى تُؤْفَكُونَ [ الأنعام/ 95] ، وقوله تعالی: أَجِئْتَنا لِتَأْفِكَنا عَنْ آلِهَتِنا [ الأحقاف/ 22] ، فاستعملوا الإفک في ذلک لمّا اعتقدوا أنّ ذلک صرف من الحق إلى الباطل، فاستعمل ذلک في الکذب لما قلنا، وقال تعالی: إِنَّ الَّذِينَ جاؤُ بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِنْكُمْ [ النور/ 11] ( ا ف ک ) الافک ۔ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو اپنے صحیح رخ سے پھیردی گئی ہو ۔ اسی بناء پر ان ہواؤں کو جو اپنا اصلی رخ چھوڑ دیں مؤلفکۃ کہا جاتا ہے اور آیات کریمہ : ۔ { وَالْمُؤْتَفِكَاتُ بِالْخَاطِئَةِ } ( سورة الحاقة 9) اور وہ الٹنے والی بستیوں نے گناہ کے کام کئے تھے ۔ { وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوَى } ( سورة النجم 53) اور الٹی ہوئی بستیوں کو دے پٹکا ۔ ( میں موتفکات سے مراد وہ بستیاں جن کو اللہ تعالیٰ نے مع ان کے بسنے والوں کے الٹ دیا تھا ) { قَاتَلَهُمُ اللهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ } ( سورة التوبة 30) خدا ان کو ہلاک کرے ۔ یہ کہاں بہکے پھرتے ہیں ۔ یعنی اعتقاد و حق باطل کی طرف اور سچائی سے جھوٹ کی طرف اور اچھے کاموں سے برے افعال کی طرف پھر رہے ہیں ۔ اسی معنی میں فرمایا ؛ ۔ { يُؤْفَكُ عَنْهُ مَنْ أُفِكَ } ( سورة الذاریات 9) اس سے وہی پھرتا ہے جو ( خدا کی طرف سے ) پھیرا جائے ۔ { فَأَنَّى تُؤْفَكُونَ } ( سورة الأَنعام 95) پھر تم کہاں بہکے پھرتے ہو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ { أَجِئْتَنَا لِتَأْفِكَنَا عَنْ آلِهَتِنَا } ( سورة الأَحقاف 22) کیا تم ہمارے پاس اسلئے آئے ہو کہ ہمارے معبودوں سے پھیردو ۔ میں افک کا استعمال ان کے اعتقاد کے مطابق ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ اپنے اعتقاد میں الہتہ کی عبادت ترک کرنے کو حق سے برعمشتگی سمجھتے تھے ۔ جھوٹ بھی چونکہ اصلیت اور حقیقت سے پھرا ہوتا ہے اس لئے اس پر بھی افک کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : { إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ } ( سورة النور 11) جن لوگوں نے بہتان باندھا ہے تمہیں لوگوں میں سے ایک جماعت ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٤) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان سے یوں بھی کہیے کہ کیا تمہارے معبودوں میں کوئی ایسا بھی ہے کہ جو پہلی بار مخلوق کو نطفہ سے پیدا کرکے اس میں جان ڈالے، پھر مرنے کے بعد قیامت کے دن دوبارہ بھی زندہ کرے اگر وہ اس کا جواب دے سکیں تو ٹھیک ہے ورنہ ان سے فرما دیجیے کہ اللہ ہی پہلی بار نطفہ سے پی... دا کرتا ہے، پھر وہی دوبارہ بھی قیامت کے دن اٹھائے گا پھر تم کہاں کا جھوٹ باندھتے پھرتے ہو۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(قُلِ اللّٰہُ یَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُہٗ فَاَنّٰی تُؤْفَکُوْنَ ) پھر تم یہ کس الٹی راہ پر چلائے جا رہے ہو ؟ تم کہاں اوندھے ہوئے جاتے ہو ؟

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

41. The unbelievers did acknowledge that God alone had brought everything into existence in the first instance, that none of those who had been associated with God in His divinity had any part in it. As for resurrection, which simply amounts to repeating the initial act of creation, it is quite evident that He Who has the power to create, also has the power to repeat; anything else would be inconc... eivable. All this is so reasonable and clear that in their heart of hearts even rank polytheists were convinced of its truth. Yet they were hesitant to affirm it for if they did so, it would make it difficult for them to deny the existence of the Hereafter. It is for this reason that in response to the earlier question (see verse 31 above) it has been mentioned that the unbelievers acknowledge that God alone brought about the creation. But with regard to the question of repeating that creation, it is the Prophet (peace be on him) who has been asked here to proclaim that it is God alone Who brought about the original creation and it is He Who will create again. 42.The unbelievers are being asked to see reason. For on the one hand they themselves recognize that it is Allah alone Who causes their birth and death, and on the other, they are being misdirected by their so-called religious leaders into believing that they ought to worship and adore others than Allah.  Show more

سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :41 تخلیق کی ابتدا کے متعلق تو مشرکین مانتے ہی تھے کہ یہ صرف اللہ کا کام ہے ، ان کے شریکوں میں سے کسی کا اس کام میں کوئی حصہ نہیں ۔ رہا تخلیق کا اعادہ تو ظاہر ہے کہ جو ابتداء پیدا کرنے والا ہے وہی اس عمل پیدائش کا اعادہ بھی کر سکتا ہے ، مگر جو ابتداء ہی پیدا کرنے پر قا... در نہ ہو وہ کس طرح اعادہ پیدائش پر قادر ہو سکتا ہے ۔ یہ بات اگرچہ صریحا ایک معقول بات ہے ، اور خود مشرکین کے دل بھی اندر سے اس کی گواہی دیتے تھے کہ بات بالکل ٹھکانے کی ہے ، لیکن انہیں اس کا اقرار کرنے میں اس بنا پر تامل تھا کہ اسے مان لینے کے بعد انکار آخرت مشکل ہو جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اوپر کے سوالات پر تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ خود کہیں گے کہ یہ کام اللہ کے ہیں ، مگر یہاں اس کے بجائے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ارشاد ہوتا ہے کہ تم ڈنکے کی چوٹ پر کہو کہ یہ ابتدائے خلق اور اعادہ خلق کا کام بھی اللہ ہی کا ہے ۔ سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :42 یعنی جب تمہاری ابتدا کا سرا بھی اللہ کے ہاتھ میں ہے اور انتہا کا سرا بھی اسی کے ہاتھ میں ، تو خود اپنے خیر خواہ بن کر ذرا سوچو کہ آخر تمہیں یہ کیا باور کرایا جا رہا ہے کہ ان دونوں سروں کے بیچ میں اللہ کے سوا کسی اور کو تمہاری بندگیوں اور نیاز مندیوں کا حق پہنچ گیا ہے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٣٤۔ ٣٦۔ ان آیتوں میں اللہ جل شانہ نے مشرکوں کے جھوٹے دعوے کو یوں بےبنیاد ٹھہرا کر مشرکوں کو خطاب کیا اور فرمایا کہ تم جنہیں معبود سمجھ کر ان کی عبادت کرتے ہو کیا ان میں یہ قدرت ہے کہ طرح طرح کی مخلوق پیدا کریں جن چیزوں کا وجود نہیں نہ کانوں نے سنا نہ آنکھوں نے دیکھا کیا یہ چیزیں وہ بنا سکتے ہیں ان م... یں کسی شے کی ایجاد کی طاقت ہے اور پھر مخلوق کے فنا ہونے کے بعد دوبارہ ویسے کا ویسا بنا سکتے ہیں پھر فرمایا کہ یہ کام اللہ ہی کا ہے تم نے جن کو اپنے گمان میں معبود سمجھ رکھا ہے وہ ہرگز ایسا نہیں کرسکتے کیونکہ جس نے پہلے سب کچھ پیدا کیا وہ دوبارہ بھی سب کچھ کرسکتا ہے۔ اس کا انکار کسی عقلمند کا کام نہیں ہے پھر فرمایا کیا تمہارے ان معبودوں میں یہ درست ہے کہ وہ راہ حق کی ہدایت کرسکیں گے نہیں ہرگز نہیں یہ بھی خدا ہی کا کام ہے کہ سب کی آنکھوں کے سامنے اس نے انسان کو پیدا کیا ان مشرکوں کے جھوٹے معبودوں میں سے کوئی اس کام میں اس کا شریک نہیں تو جو طریقہ انسان کی بھلائی کا ہے اس کو بھی وہی خوب جانتا ہے یہ پتھر کی مورتیں جو بغیر دوسرے کی مدد کے جگہ سے نہیں ہل سکتیں۔ کسی کے بھلائی کے طریقہ کو یہ کیا جان سکتے ہیں یہ فقط شیطان کا بہکاوا ہے جو یہ مشرک لوگ اپنے بنانے والے کو چھوڑ کر ان کے روبرو آوے گا۔ صحیح بخاری کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی حدیث قدسی ایک جگہ گزرچکی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں نے اپنے کلام پاک میں انسان کے دوبارہ پیدا کرنے کی خبر دی اور انسان نے اس کو جھٹلایا ١ ؎ حالانکہ جو کام ایک دفعہ کیا جا چکے انسان کے عقلی تجربہ کے موافق بھی پھر دوبارہ اس کا کیا جانا آسان ہوجاتا ہے اسی طرح صحیح بخاری کے حوالہ سے مغیرہ بن شعبہ (رض) کی حدیث بھی گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لوگوں کا انجانی کا عذر رفع ہوجانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے آسمانی کتابیں دے کر رسولوں کو بھیجا تاکہ لوگوں کو عقبی کی سزا و جزا کا حال اچھی طرح معلوم ہوجاوے۔ ٢ ؎ ان حدیثوں کو آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اپنی اور اپنی اولاد اور عزیزوں قریبوں کی پیدائش آنکھوں کے سامنے دیکھ کر جو لوگ حشر کے دن کی دوبارہ پیدائش کے بےسند منکر ہیں یہ ان لوگوں کی بڑی نادانی ہے جس نادانی کے سبب سے یہ لوگ اس تیاری اور آمادگی سے بالکل غافل ہیں جو عقبیٰ کی سزا و جزا کی بابت آسمانی کتابوں اور رسولوں کے ذریعہ سے ان کو سمجھائی جاتی ہے۔ لیکن ان کے حشر کے انکار سے اللہ تعالیٰ کا حشر کا وعدہ نہیں ٹل سکتا اس لئے ناگہانی طور پر ایک دن اس وعدہ کا ظہور ضرور ہوگا اور اس وقت یہ لوگ اپنے کئے کی ایسی سزا پاویں گے جو انسان کی برداشت سے باہر ہے۔ ١ ؎ صحیح بخاری ص ٤٥٣ ج ١ کتاب بدء الخلق۔ ٢ ؎ تفسیر ہذا جلد دوم ص ٢٣١ وجلد ہذا ص ١٢۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(10:34) ہل من شرکائکم ہے کوئی تمہارے خود ساختہ معبودوں میں سے ؟ من یبدؤ الخلق جو ابتدائی تخلیق کرے۔ ثم یعیدہ۔ پھر (فنا کے بعد) اس کا اعادہ کرے۔ یعنی دوبارہ پیدا کر دے۔ یہ سوال استفہام انکاری ہے۔ مطلب یہ ہے کہ معبود ن باطل میں سے کوئی بھی ایسا نہیں کرسکتا۔ تؤفکون مجارع مجہول جمع مذکر حاضر۔ افک یافک...  (ضرب) افک یافک (سمع) جھوٹبولنا۔ افکم عن رابہ۔ کسی کو اپنی رائے سے پھیر دینا۔ افک کے اصلی معنی کسی شے کا اس کی اصلی جانب سے منہ پھیرنا ہے۔ پس جو بات اپنی اصلی صورت سے پھر گئی اس کو افک کہیں گے۔ جھوٹ اور بہتان میں چونکہ یہ صفت بدرجہ اتم موجود ہے اس لئے ان کو افک کہا گیا ہے۔ تؤفکون۔ تم کدھر پھیرے جا رہے ہو۔ یہاں اعتقاد میں حق سے باطل کی طرف ۔ قول میں راستی سے دورغ گوئی کی طرف۔ اور فعل میں نکوکاری کی طرف پھیرا جانا مراد ہے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 12 ۔ یعنی اس کے باوجود تم کیسے گوارا کرتے ہو کہ توحید کو چھور کر شرک کی الٹی راہ اختیار کرو جو سراسر ” افک “ یعنی جھوٹ ہے۔ (کبیر) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 34 تا 36 یبدا (وہ ابتدا کرتا ہے) یعید (وہ لوٹاتا ہے، دوبارہ کرتا ہے) الخلق (مخلوق ، پیدا کرنا) احق (زیادہ حق دار ہے) ان یتبع (یہ کہ اس کی پیروی کی جائے، کہا مانا جائے) امن (یا وہ شخص) لایھدی (راستہ نہیں دکھاتا) تحکمون (تم فیصلہ کرتے ہو) الظن (گمان، خیال، بےبنیاد بات) لایغنی (بےن... یاز نہیں کرتا، کام نہیں کرتا) تشریح : آیت نمبر 34 تا 36 آج کے انسان کو ان ترقیات پر بڑا ناز ہے جو اس نے ایجاد کی ہیں۔ فضاؤں پر ہواؤں پر زمین و آسمان کی گہرائیوں پر اس کا کنٹرول ہے علمی اور تحقیقی انداز سے ان کی یہ کامیابیاں قابل قدر ہیں جو اس نے حاصل کی ہیں دین اسلام بھی ان ترقیات کا مخالف نہیں ہے لیکن ان چیزوں کی ایجادات سے انسان، اس کی تہذیب اور اخلاق کو جو نقصان پہنچ رہا ہے یا آئندہ پہنچنے کا امکان ہے اسلام ان کی شدید مخالفت کرتا ہے کیونکہ انسان نے کائنات کی چیزوں کو ترتیب دے کر بہت سی نئی اختراعات کی ہیں۔ لیکن جن چیزوں سے یہ سب کچھ بنایا گیا ہے ان میں سے ایک چیز بھی انسان نے نہیں بنائی مثلاً اس کائنات میں مادہ اور قوت و طاقت یہ دو بنیادی چیزیں ہیں۔ ان دونوں میں سے کسی چیز کو بھی انسان نے پیدا نہیں کیا۔ اگر اللہ تعالیٰ مادہ اور قوت کو فنا کر دے تو انسان کچھ بھی نہیں کرسکتا۔ آج کے انسان نے آوازوں ، صورتوں اور شکلوں کو لہروں میں تبدیل کر کے لاکھوں کروڑوں میل بیٹھے ہوئے آدمی تک پہنچا دیا ہے۔ لیکن وہ خود ان لہروں کا خلاق نہیں ہے۔ وہ شہروں کو ترتیب دے سکتا ہے لیکن اگر اللہ کا حکم آجائے تو وہ شہروں اور ملکوں کو تہس نہس کر کے رکھ سکتا ہے مثلاً ایک پورا علاقہ ہے نہایت سرسبز و شاداب ، بلند وبالا عمارتیں ہیں، انسانوں کی حفاظت کے سارے سامان ہیں لیکن اچانک زلزلہ آجائے یا پورا علاقہ زمین میں دھنس جائے یا اس پر سمندر کا پانی چڑھ آئے تو ساری قوتوں اور طاقتوں کے باوجود انسان کچھ بھی نہیں کرسکتا مجھے تو کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ لوگوں کی بد اعمالیوں کی وجہ سے ایسا نہ ہو کہ آدھی دنیا سمندر کے نیچے آجائے اور انسانی تہذیب و ترقیات فنا ہوجائیں اور پوری قوت و طاقت کے دعوؤں کے باوجود انسان بےبس ہو کر رہ جائے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان ایٓات میں ارشاد فرمایا ہے کہ کائنات کی ہر قوت و طاقت کو اللہ نے پیدا کیا ہے۔ وہی اس کو فنا کر کے دوبارہ پیدا کرے گا اس کے لئے نہ اول مرتبہ پیدا کرنا دشوار تھا اور نہ دوسری دفعہ یہ انسان کی بھول ہے کہ وہ اللہ کے خلاق ومالک ہونے کا اعتراف بھی کرتا ہے لیکن اپنی مرادیں پتھر کے ان بےجان بتوں یا مجبور انسانوں سے مانگتا ہے جو اللہ کے محتاج ہیں۔ فرمایا کہ کائنتا کی تخلیق میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ یہ انسان کی الٹی چال ہے کہ وہ اپنے حقیقی معبود کو چھوڑ کر غیر اللہ کے در سے آرزؤں کے پورا ہونے کی امید رکھتا ہے ہدایت کی امید ان سے رکھتا ہے جن کو خود اس راستہ کا علم نہیں ع ہے۔ اس طرح احبار، رھبان، مہنت، برہمن، گرو، یہ سب تو راستہ اور ہدایت کے لئے اللہ کے محتاج ہیں وہ کسی کو کیا راستہ دکھائیں گے۔ ان کے پیچھے چلنے کا انجام سوائے بھٹکنے کے اور کچھ بھی نہیں ہے۔ دوسری ایک خاص بات کی طرف اللہ تعالیٰ نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ آج جن سے ہدایت و رہنمائی کی امیدیں لئے ہوئے بہت سے لوگ ان گمراہوں کے پیچھے چل رہے ہیں یہ خود یقین پر قائم نہیں ہیں بلکہ ان کے قائم کئے ہوئے تصوراتی خاکے ہیں جن کو انسان اپنے ہاتھوں سے بناتا ہے اور ان کے سامنے جھک جاتا ہے اور اس طرح وہ خود اپنے قائم کئے ہوئے خیالات کی پرستش کر رہا ہے۔ لیکن سچائی یہ ہے کہ انسان جب تک ظن و گمان کے اس دائرے سے نکل کر اس اللہ کی طرف نہیں آتا جس نے ان تمام چیزوں کو پیدا کیا اور وہ ان میں سے ہر چیز کی حکمت و مصلحت سے اچھی طرح واقف ہے۔ اس وقت تک انسان بھٹکتا ہی رہے گا۔  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ توحید کے دلائل اور مشرکین سے سوالات جاری ہیں۔ اب باطل معبودوں کے بارے میں براہ راست پوچھا جارہا ہے کہ تمہارے معبودان باطل میں سے کون ہے جس نے ابتدا میں اس کائنات کو پیدا کیا اور پھر اسے دوبارہ وجود بخشے گا ؟ ظاہر ہے اس کا جواب نفی میں تھا اور ہمیشہ اس کا جواب ن... فی میں ہی رہے گا۔ لہٰذا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم ہوا کہ آپ بےدھڑک فرمائیں کہ اللہ ہی نے انھیں پہلی مرتبہ بغیر نمونے کے پیدا فرمایا اور وہی دوبارہ انھیں پیدا کرے گا۔ جب اللہ تعالیٰ کو ان کا خالق اور دوبارہ پیدا کرنے والا مانتے ہو تو پھر کہاں بھٹکے پھرتے ہو ؟ جب پیدا کرنے والا اور تمہیں اپنے ہاں لوٹانے والا بھی ایک اللہ ہی ہے۔ پھر تمہارے معبودان باطل کہاں سے آٹپکے اور ان کا کیا اختیار ہے۔ جس بنا پر تم انہیں حاجت روا، مشکل کشا اور داتا و دستگیر کہتے ہو۔ مزید برآں سوال یہ ہے کہ تمہارے معبودوں میں کوئی ہے جو تمہاری حق کی طرف راہنمائی کرسکے۔ یہ بات بھی بالکل واضح ہے کہ پتھر، مٹی اور لکڑی کے بت ہدایت کی راہنمائی نہیں کرسکتے۔ نہ فرشتے اور جنات اور نہ ہی سورج، چاند، ستارے ہدایت کا راستہ دکھا سکتے ہیں۔ جہاں تک انبیاء اور اولیاء کا تعلق ہے۔ صراط مستقیم کی طرف رہنمائی تو کرسکتے ہیں مگر کسی کو ہدایت پر گامزن نہیں کرسکتے۔ جب وہ فوت ہوگئے تو ان کا تعلق دنیا سے ٹوٹ گیا۔ اب وہ بھی کسی کی رہنمائی اور مدد نہیں کرسکتے۔ لہٰذا صرف اللہ ہی ہے جو ہدایت کی رہنمائی  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قل ھل من شرکائکم من یبدوا الخلق ثم یعیدہ آپ پوچھئے کہ تمہارے (مفروضہ) شریکوں میں سے کوئی ایسا ہے جو پہلی بار بھی مخلوق کو پیدا کر کے پھر دوبارہ بھی پیدا کرے۔ یعنی آغاز آفرینش وہی کرتا ہے ‘ پھر اس کو معدوم کر کے دوبارہ وہی پیدا کرتا ہے ‘ ایسا اس کے سوا کون کرسکتا ہے۔ قل اللہ یبدؤا الخلق ثم یعیدہ کہہ...  دیجئے کہ اللہ ہی پہلی بار پیدا کرتا ہے ‘ پھر وہی اس کو دوبارہ پیدا کرے گا (فنا کے بعد جیسا کہ پہلے تھا) ۔ فانی تؤفکون۔ پھر (حق سے باطل کی طرف) کہاں پھرے جا رہے ہو۔ یعنی اللہ کی عبادت سے دوسروں کی عبادت کی طرف کس طرح مڑتے ہو۔ دلیل کا تقاضا تو وحدت معبودیت اور نفی شرک ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

49: اس سورت میں زجروں کے بیان پر خاص طور سے زور دیا گیا ہے یہاں سے خصوصی زجروں کا آغاز ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے بارے میں تو شمرکین نے صفات مذکورہ کا اعتراف کرلیا اب فرمایا ان سے پوچھو بھلا تمہارے مزعومہ معبودوں میں کوئی ایسا ہے جو مخلوق کو پیدا کرسکے اور پھر موت کے بعد انہیں دوبارہ زندہ کرسکے۔ “ قُلْ...  ھَلْ مِنْ شُرَکَاءِکُمْ مَّنْ یَّھْدِيْ اِلَی الْحَقِّ الخ ” یا کوئی ایسا ہے کہ ہدایت الی الحق اس کے اختیار میں ہو “ ھل من شرکاء کم الذین جعلتم اندادا لِلّٰه احد یھدي الی الحق مثل ھدایة اللہ تعالیٰ ” (مدارک ج 2 ص 125) ۔ فرمایا ضد وعناد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے اگر وہ جواب نہ دیں تو آپ خود ہی اعلان کردیں کہ اللہ تعالیٰ ہی نے سب کو پیدا کیا اور وہی دوبارہ زندہ کرے گا اور ہدایت صرف اللہ تعالیٰ ہی کے قبضہ و اختیار میں ہے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

34 آپ ان سے دریافت کیجئے کیا تمہارے تجویزکردہ اور خود ساختہ شرکاء میں سے کوئی ایسا ہے جو مخلوق کو پہلی بار بھی پیدا کرے اور پھر اسکو قیامت میں دوبارہ بھی پیدا کرے اور دوسری مرتبہ بھی زندہ کردے آپ فرما دیجئے کہ اللہ تعالیٰ ہی مخلوق کو پہلی بار پیدا کرتا ہے اور وہ ہی اس مخلوق کو دوبارہ بھی پیدا کرے گا...  سو تم کہاں دین حق سے پھرے جاتے ہو یعنی جن کو تم نے خدا کا شریک ٹھہرا رکھا ہے خواہ وہ اصنام اور پتھر کے بت ہوں یا جن اور ملائکہ وغیرہ ہوں کیا ان میں سے کوئی ابتداء زندگی بخشنے اور مرنے کے بعد دوبارہ زندگی کا اختیار رکھتا ہے اور اگر یہ کام سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی دوسرے کے اختیار میں نہیں ہے تو تم اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر کدھر جارہے ہو۔  Show more