Surat Younus

Surah: 10

Verse: 35

سورة يونس

قُلۡ ہَلۡ مِنۡ شُرَکَآئِکُمۡ مَّنۡ یَّہۡدِیۡۤ اِلَی الۡحَقِّ ؕ قُلِ اللّٰہُ یَہۡدِیۡ لِلۡحَقِّ ؕ اَفَمَنۡ یَّہۡدِیۡۤ اِلَی الۡحَقِّ اَحَقُّ اَنۡ یُّتَّبَعَ اَمَّنۡ لَّا یَہِدِّیۡۤ اِلَّاۤ اَنۡ یُّہۡدٰی ۚ فَمَا لَکُمۡ ۟ کَیۡفَ تَحۡکُمُوۡنَ ﴿۳۵﴾

Say, "Are there of your 'partners' any who guides to the truth?" Say, " Allah guides to the truth. So is He who guides to the truth more worthy to be followed or he who guides not unless he is guided? Then what is [wrong] with you - how do you judge?"

آپ کہئے کہ تمہارے شرکاء میں کوئی ایسا ہے کہ حق کا راستہ بتا تا ہو؟ آپ کہہ دیجئے کہ اللہ ہی حق کا راستہ بتاتا ہے تو پھر آیا جو شخص حق کا راستہ بتاتا ہو وہ زیادہ اتباع کے لائق ہے یا وہ شخص جس کو بغیر بتائے خود ہی راستہ نہ سوجھے پس تم کو کیا ہوگیا ہے کہ تم کیسے فیصلے کرتے ہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قُلْ هَلْ مِن شُرَكَأيِكُم مَّن يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ قُلِ اللّهُ يَهْدِي لِلْحَقِّ ... Say: "Is there of your partners one that guides to the truth!" Say: "It is Allah who guides to the truth..." You know that your deities are incapable of guiding those who are astray. It is Allah alone Who guides the misled and confused ones and turns the hearts from the wrong path to the right path....  It is Allah, none has the right to be worshipped but He. ... أَفَمَن يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ أَحَقُّ أَن يُتَّبَعَ أَمَّن لاَّ يَهِدِّيَ إِلاَّ أَن يُهْدَى ... Is then He Who guides to the truth more worthy to be followed, or he who finds not guidance (himself) unless he is guided! Will the servant then follow the one who guides to the truth so that he may see after he was blind, or follow one who doesn't guide to anything except towards blindness and muteness Allah said that Ibrahim said: يأَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لاأَ يَسْمَعُ وَلاأَ يَبْصِرُ وَلاأَ يُغْنِى عَنكَ شَيْياً O my father! Why do you worship that which hears not, sees not and cannot avail you in anything! (19:42) And said to his people قَالَ أَتَعْبُدُونَ مَا تَنْحِتُونَ وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ Worship you that which you (yourselves) carve While Allah has created you and what you make! (37: 95-96) Also, there are many Ayat in this regard. Allah then said: ... فَمَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ Then, what is the matter with you! How judge you! What is the matter with you! What has happened to your mind! How did you make Allah's creatures equal to Him! What kind of judgement did you make to turn away from Allah and worship this or that! Why did you not worship the Lord -- Glorified be He, the True King, the Judge and the One Who guides to the truth! Why didn't you call upon Him alone and turn towards Him! Allah says;   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

35۔ 1 یعنی بھٹکے ہوئے مسافرین راہ کو راستہ بتانے والا اور دلوں کو گمراہی سے ہدایت کی طرف پھیرنے والا بھی اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ ان کے شرکاء میں کوئی ایسا نہیں جو یہ کام کرسکے۔ 35۔ 2 یعنی پیروی کے لائق کون ہے ؟ وہ شخص جو دیکھتا سنتا اور لوگوں کی حق کی طرف رہنمائی کرتا ہے ؟ یا وہ جو اندھے اور بہرے ہونے کی...  وجہ سے خود راستے پر چل بھی نہیں سکتا، جب تک دوسرے لوگ اسے راستے پر نہ ڈال دیں یا ہاتھ پکڑ کرلے نہ جائیں ؟ 35۔ 3 یعنی تمہاری عقلوں کو کیا ہوگیا ہے ؟ تم کس طرح اللہ کو اور اس کی مخلوق کو برابر ٹھہرائے جا رہے ہو ؟ اللہ کے ساتھ تم دوسروں کو بھی شریک عبادت بنا رہے ہو ؟ جب کہ ان دلائل کا تقاضا یہ ہے کہ صرف اسی ایک اللہ کو معبود مانا جائے اور عبادت کی تمام قسمیں صرف اسی کے لئے خاص مانی جائیں۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٠] ہدایت انسان کی اہم ضرورت ہے اور وہ صرف اللہ ہی دے سکتا ہے :۔ ہدایت حق سے مراد زندگی گزارنے کا وہ صحیح راستہ ہے جس سے انسان کو ہر شعبہ حیات مثلاً تہذیب، اخلاق، تمدن و معاشرت، حکومت و سیاست، معرفت و روحانیت، معیشت و کسب حلال وغیرہ کے متعلق ایسے اصول بتلا دیئے جائیں جن میں فرد اور معاشرہ میں سے ہ... ر ایک کے حقوق کی پوری پوری نگہداشت ملحوظ رکھی گئی ہو اور ظاہر ہے کہ ایسی ہدایت، بےجان اور بےسمجھ معبود تو کجا سمجھ دار معبود بھی نہیں دے سکتے۔ ایسی جامع ہدایات کے لیے جس قدر وسیع علم و حکمت کی ضرورت ہے وہ اللہ کے علاوہ کسی کے پاس موجود نہیں اور اگر کوئی انسان یا سربراہ مملکت یا کوئی ادارہ ایسی ہدایات دینا بھی چاہے تو اس پر اس کی اپنی قوم اور اپنے ماحول کے تاثرات و تعصبات کی چھاپ ضرور موجود ہوگی بس اللہ ہی کی ایک ایسی ذات ہے جس کی نظروں میں سب مخلوق اور سارے انسان یکساں ہیں لہذا وہی ایسی ہدایات اور احکام دینے کا حقدار ہے۔ رہے معبودان باطل اور اللہ کے سوا جتنے بھی معبود ہیں وہ سب باطل ہی ہوتے ہیں تو ان کے متعلق مشرکین کو بھی یہ اعتراف ہے کہ وہ ایسی ہدایت نہیں دے سکتے۔ اور کسی کو ہدایت دینا تو درکنار ان معبودوں میں سے ذوی العقول بھی خود ہدایت کے محتاج ہیں پھر کیا ایسے اللہ کی اتباع کرنا چاہیے جو فی الواقع ہدایت حق دینے کا حق دار ہے یا ان کی جو خود بھی اپنے لیے ہدایت کی راہ نہیں پاسکتے ؟ مندرجہ بالا سوالات سے یہ معلوم ہوا کہ انسان کی ضروریات دو طرح کی ہیں۔ ایک یہ کہ اس کا معبود ایسا ہونا چاہیے جو اس کا ملجا و ماویٰ ہو، دعاؤں کو سننے والا، انہیں قبول کرنے والا، حاجات کو پورا کرنے والا، مشکلات سے نجات دینے والا ہو اور اس پر پوری طرح بھروسہ کیا جاسکے اوپر کے سوالات نے یہ فیصلہ کردیا کہ اللہ کے سوا ایسی کوئی ذات نہیں ہے۔ انسان کی دوسری اہم ضرورت یہ ہے کہ اس کا کوئی ایسا رہنما ہونا چاہیے جو دنیا میں زندگی بسر کرنے کے صحیح اصول بتائے تاکہ انسانیت تجربوں اور ناکامیوں سے ہی دو چار نہ ہوتی رہے۔ اس آیت میں یہ بتلایا گیا ہے کہ ایسی ذات بھی اللہ کے سوا دوسری کوئی نہیں ہوسکتی لہذا اللہ کے سوا کوئی بھی معبود نہ اس قابل ہے کہ اس کی پرستش کی جائے اور نہ اس قابل ہے کہ اس کی اتباع کی جائے ان حقائق کی وضاحت کے بعد صرف ضد اور ہٹ دھرمی ہی رہ جاتی ہے جس کی بنا پر انسان مشرکانہ مذاہب اور لادینی اصول تمدن و اخلاق و سیاست سے چمٹا رہے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قُلْ هَلْ مِنْ شُرَكَاۗىِٕكُمْ مَّنْ يَّهْدِيْٓ اِلَى الْحَقِّ ۔۔ : ” يَّهْدِيْٓ“ ہدایت دیتا ہے۔ ” لَّا يَهِدِّيْٓ“ اصل میں ” لاَ یَھْتَدِیْ “ تھا، تاء کو دال سے بدل کر دال میں ادغام کردیا، جس کا معنی ہے ہدایت نہیں پاتا، یعنی آپ ان سے پوچھیں کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کرکے ان کی حق کی طرف راہنم... ائی کا انتظام بھی فرمایا، رسول بھیجے، کتابیں اتاریں، شریعت مقرر فرمائی، کائنات کا نہایت دقیق و مستحکم نظام مقرر کیا کہ اس کے مقرر کردہ راستے سے کوئی چیز ایک ذرہ ادھر ادھر نہیں ہوتی۔ انسان کو پیدا ہوتے ہی پستان چوسنا سکھایا، فرمایا : (ۙوَهَدَيْنٰهُ النَّجْدَيْنِ ) [ البلد : ١٦ ] ” اور ہم نے اسے دو واضح راستے دکھا دیے۔ “ بطخ کو تیرنا، پرندوں کو اڑنا، درندوں کو شکار کرنا، چرندوں کو چرنا، بلبل کو پھول کی طرف رغبت، پروانے کو جلنا، ماں کو محبت کی طرف، موذی اشیاء کو دشمنی کی طرف راہ نمائی کون کر رہا ہے ؟ اسی طرح زمین، آسمان، سورج، چاند، سیاروں، کہکشاؤں، سمندروں اور بادلوں کا راستہ کہاں سے متعین ہو رہا ہے ؟ غرض ہر چیز محض اللہ کی ہدایت کے مطابق چل رہی ہے، کسی داتا یا دستگیر کا اس میں کوئی دخل ہے تو پیش کرو۔ بتاؤ تمہارا وہ شریک کون سا ہے جس نے حق کی طرف ہدایت کا کام کیا ہو، یا کائنات کے راہ راست پر چلنے کے نظام میں اس کا کوئی دخل ہو۔ اب خود ہی بتاؤ کہ وہ ذات پاک جو حق کی طرف ہدایت دیتی ہے، شرعی طور پر بھی اور کونی طور پر بھی، اس کا اتباع کیا جانا چاہیے، یا وہ شرکاء جو اللہ تعالیٰ کی ” کونی “ ہدایت کے بغیر خود اپنا راستہ معلوم نہیں کرسکتے، جنھیں کھانا، پینا، چلنا، دیکھنا سب کچھ اللہ تعالیٰ نے سکھایا، وہ خود کچھ بھی نہیں کرسکتے تھے۔ رازی نے فرمایا، اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اکثر اپنی توحید کے اثبات کے لیے خلق کے ساتھ ہدایت کو بھی ذکر فرمایا ہے، چناچہ ابراہیم (علیہ السلام) کا قول : (ۙالَّذِيْ خَلَقَنِيْ فَهُوَ يَهْدِيْنِ ) [ الشعراء : ٧٨ ] ” وہ جس نے مجھے پیدا کیا، پھر وہ مجھے راستہ دکھاتا ہے۔ “ اور موسیٰ (علیہ السلام) کا قول : (قَالَ رَبُّنَا الَّذِيْٓ اَعْطٰي كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهٗ ثُمَّ هَدٰى) [ طٰہٰ : ٥٠ ]” ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی شکل و صورت بخشی، پھر راستہ دکھایا۔ “ اور ہمارے نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی اسی کا حکم دیا، چناچہ فرمایا : (سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَى ۝ ۙالَّذِيْ خَلَقَ فَسَوّٰى ۝۽وَالَّذِيْ قَدَّرَ فَهَدٰى ) [ الأعلٰی : ١ تا ٣ ]” اپنے رب کے نام کی تسبیح کر جو سب سے بلند ہے۔ وہ جس نے پیدا کیا، پھر درست بنایا۔ اور وہ جس نے اندازہ ٹھہرایا، پھر راستہ دکھایا۔ “ فَمَا لَكُمْ ۣ كَيْفَ تَحْكُمُوْنَ : یہ دو جملے ہیں ڈانٹنے کے لیے اور حق کی طرف توجہ دلانے کے لیے، دو طرح سے سوال کیا، ایک یہ کہ تمہیں کیا ہوگیا ؟ دوسرا یہ کہ تم کیسے فیصلہ کرتے ہو ؟  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلْ ہَلْ مِنْ شُرَكَاۗىِٕكُمْ مَّنْ يَّہْدِيْٓ اِلَى الْحَقِّ۝ ٠ ۭ قُلِ اللہُ يَہْدِيْ لِلْحَقِّ۝ ٠ ۭ اَفَمَنْ يَّہْدِيْٓ اِلَى الْحَقِّ اَحَقُّ اَنْ يُّتَّبَعَ اَمَّنْ لَّا يَہِدِّيْٓ اِلَّآ اَنْ يُّہْدٰى۝ ٠ ۚ فَمَا لَكُمْ۝ ٠ ۣ كَيْفَ تَحْكُمُوْنَ۝ ٣٥ شرك وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان : أحدهما ... : الشِّرْكُ العظیم، وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] ، والثاني : الشِّرْكُ الصّغير، وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] ، ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ دین میں شریک دو قسم پر ہے ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ دوم شرک صغیر کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔ هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ تبع يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلک قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے كيف كَيْفَ : لفظ يسأل به عمّا يصحّ أن يقال فيه : شبيه وغیر شبيه، كالأبيض والأسود، والصحیح والسّقيم، ولهذا لا يصحّ أن يقال في اللہ عزّ وجلّ : كيف، وقد يعبّر بِكَيْفَ عن المسئول عنه كالأسود والأبيض، فإنّا نسمّيه كيف، وكلّ ما أخبر اللہ تعالیٰ بلفظة كَيْفَ عن نفسه فهو استخبار علی طریق التنبيه للمخاطب، أو توبیخا نحو : كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة/ 28] ، كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران/ 86] ، كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة/ 7] ، انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء/ 48] ، فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت/ 20] ، أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت/ 19] . ( ک ی ف ) کیف ( اسم استفہام ) اس چیز کی حالت در یافت کرنے کے لئے آتا ہے جس پر کہ شیبہ اور غیر شیبہ کا لفظ بولا جاسکتا ہو جیسے ابیض ( سفید اسود ( سیاہی ) صحیح ( تندرست ) سقیم ( بیمار ) وغیرہ ۔ لہذا اللہ تعالیٰ کے متعلق اس کا استعمال جائز نہیں ہے اور کبھی اس چیز پر بھی کیف کا اطلاق کردیتے ہیں جس کے متعلق سوال کر نا ہو مثلا کہا جاتا ہے کہ اسود اور ابیض مقولہ کیف سے ہیں اور جہاں کہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق کیف کا لفظ استعمال کیا ہے تو وہ تنبیہ یا قو بیخ کے طور پر مخاطب سے استخبار کے لئے لایا گیا ہے جیسے فرمایا : ۔ كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة/ 28] کافرو تم خدا سے کیونکر منکر ہوسکتے ہو ۔ كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران/ 86] خدا ایسے لوگوں کو کیونکر ہدایت دے ۔ كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة/ 7] بھلا مشرکوں کے لئے کیونکر قائم رہ سکتا ہے ۔ انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء/ 48] دیکھو انہوں نے کس کس طرح کی تمہارے بارے میں باتیں بنائیں ۔ فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت/ 20] اور دیکھو کہ اس نے کس طرح خلقت کو پہلی مر تبہ پیدا کیا ۔ أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت/ 19] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ خدا کسی طرح خلقت کو پہلی بار پیدا کرتا پھر کس طرح اس کو بار بار پیدا کرتا رہتا ہے ۔ حكم والحُكْم بالشیء : أن تقضي بأنّه كذا، أو ليس بکذا، سواء ألزمت ذلک غيره أو لم تلزمه، قال تعالی: وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء/ 58] ( ح ک م ) حکم الحکم کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کا نام حکم ہے یعنی وہ اس طرح ہے یا اس طرح نہیں ہے خواہ وہ فیصلہ دوسرے پر لازم کردیا جائے یا لازم نہ کیا جائے ۔ قرآں میں ہے :۔ وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء/ 58] اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٥) یا یہ کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ دیکھیے تو یہ کہاں کی جھوٹ باتیں ملاتے ہیں۔ اور آپ ان سے یوں بھی فرمائیے کہ کیا تمہارے معبودوں میں کوئی ایسا بھی ہے جو امر حق اور ہدایت کا راستہ بتائے اگر وہ اس کا کچھ جواب دے سکیں تو خیر ! ورنہ ان سے فرما دیجیے کہ اللہ ہی امر حق اور ہدایت کا بھی را... ستہ بتلاتا ہے۔ تو پھر جو شخص امر حق اور ہدایت کا راستہ بتلاتا ہو تو وہ زیادہ اتباع اور اطاعت کے لائق ہے یا وہ شخص جس کو امر حق اور ہدایت کا بغیر بتلائے ہوئے اور اس پر چلائے بغیرراستہ نہ سوجھے، تمہیں کیا ہوا کہ اپنے لیے بدترین تجویزیں کرتے ہو۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(اَفَمَنْ یَّہْدِیْٓ اِلَی الْحَقِّ اَحَقُّ اَنْ یُّتَّبَعَ اَمَّنْ لاَّ یَہِدِّیْٓ الآَّ اَنْ یُّہْدٰی) تمام مخلوق کو ہدایت دینے والا اللہ ہے۔ چناچہ ہدایت و راہنمائی کے لیے سب اسی کے سامنے دست سوال دراز کرتے ہیں۔ خود نبی مکرم بھی اللہ ہی سے یہ دعا مانگتے تھے : (اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم... َ ) تو بھلا وہ جو ہدایت دیتا ہے اس کی بات مانی جانی چاہیے یا ان کی جو خود ہدایت کے محتاج ہوں ؟   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

43. This verse raises an important issue which should be grasped well. Man's necessities in his worldly life are not confined to subsistence, to the provision of shelter and clothing, to protection from calamities, hardships and losses. Man also needs something else, and this is his direst need. This is the need to know how to live in the world; how he should relate with himself and the powers and...  potentialities with which he has been endowed; how he should relate with the resources of the world which have been placed under his control, with the innumerable human beings with whom he comes into contact, and with the order of the universe as a whole within which, willy-nilly, he has to operate. Man needs to know all this so as to ensure the achievement of overall success in his life and to see to it that his energies and efforts do not count for naught. To ensure that his energies and efforts are not misdirected or employed in a manner that would lead to his destruction. This right way - the way that provides guidance concerning all the above questions -constitutes 'the truth', and the guidance which directs man to this truth is 'the true guidance'. Now. the Qur'an asks the unbelievers, who had rejected the Prophet's Message, whether any of their deities whom they worshipped besides God, could direct them to 'the truth".1 The answer to this question is obviously in the negative. In order to understand this it must be remembered that the deities they worshipped besides God can be divided into two broad categories; 1. The first category consists of the gods and goddesses, and those living or dead persons, whom people worship. People turn to them believing that they are capable of satisfying their needs in a supernatural way and of protecting them from calamities. But as far as guiding people to the right way is concerned, it is quite obvious that false gods had never provided any such guidance. Even the worshippers of those gods had never sought such guidance from them, nor did the polytheists ever claim that those gods taught them anything relating to morality, social conduct, culture, economy, polity, law and justice. 2. The second category consists of those outstanding people who lay down the principles and laws which others follow. Such persons are doubtlessly leaders of others. But are they really those who lead people to the truth? Does the knowledge of any of those leaders encompass all that needs to be known in order to lay down sound principles for the guidance of mankind? Do any of them possess the breadth of vision that takes into account the whole gamut of issues relating to human life? Can any one of them claim to be free of those biases, those personal or national pre-occupations, those interests and desires, inclinations and predilections which prevent people from laying down perfectly just laws for human society? As it is, since the answer to these questions is in the negative - and .since the answer of any sensible person to these questions could never be in the positive - how can any of those human beings be considered to be dependable sources of guidance to the truth? It is for this reason that the Qur'an asks people whether any of their gods could lead them to the truth? This question, combined with the previous ones, helps man to arrive at a definitive conclusion concerning the whole question of religion. If one were to face the question with a clear mind, it is evident that man stands in dire need of One to Whom he could look up to as his Lord; One in Whom he could seek refuge and Whose protection he could solicit; One Who might answer his prayer and grant his supplication; One to Whom. notwithstanding the undependable nature of the worldly means of support, he could turn to for effective help and support. The questions posed above inevitably lead to the conclusion that this need can be met by none other than God. In addition, man also stands in need of a guide who might teach him the principles of righteous conduct, who might teach him the laws that he might follow with full confidence. Even here it is quite clear that God alone can meet this need of man. Once these matters become clear, there remains no justification to adhere either to polytheistic religions or to secular principles of morality. culture and polity.  Show more

سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :43 یہ ایک نہایت اہم سوال ہے کہ جس کو ذرا تفصیل کے ساتھ سمجھ لینا چاہیے ۔ دنیا میں انسان کی ضرورتوں کا دائرہ صرف اسی حد تک محدود نہیں ہے کہ اس کو کھانے پینے پہننے اور زندگی بسر کرنے کا سامان بہم پہنچے اور آفات ، مصائب اور نقصانات سے وہ محفوظ رہے ۔ بلکہ اس کی ایک ضرورت ... ( اور درحقیقت سب سے بڑی ضرورت ) یہ بھی ہے کہ اسے دنیا میں زندگی بسر کرنے کا صحیح طریقہ معلوم ہو اور وہ جانے کہ اپنی ذات کے ساتھ ، اپنی قوتوں اور قابلیتوں کے ساتھ ، اس سروسامان کے ساتھ جو روئے زمین پر اس کے تصرف میں ہے ، ان بے شمار انسانوں کے ساتھ جن سے مختلف ، حیثیتوں میں اس کو سابقہ پیش آتا ہے ، اور مجموعی طور پر اس نظام کائنات کے ساتھ جس کے ماتحت رہ کر ہی بہرحال اس کو کام کرنا ہے ، وہ کیا اور کس طرح معاملہ کرے جس سے اس کی زندگی بحیثیت مجموعی کامیاب ہو اور اس کی کوششیں اور محنتیں غلط راہوں میں صرف ہو کر تباہی و بربادی پر منتج نہ ہوں ۔ اسی صحیح طریقہ کا نام ” حق “ ہے اور جو رہنمائی اس طریقہ کی طرف انسان کو لے جائے وہی ” ہدایت حق “ ہے ۔ اب قرآن تمام مشرکین سے اور ان سب لوگوں سے جو پیغمبر کی تعلیم کو ماننے سے انکار کرتے ہیں ، یہ پوچھتا ہے کہ تم خدا کے سوا جن جن کی بندگی کرتے ہو ان میں کوئی ہے جو تمہارے لیے ” ہدایت حق “حاصل کرنے کا ذریعہ بنتا ہو یا بن سکتا ہو؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ظاہر ہے کہ اس کا جواب نفی کے سوا اور کچھ نہیں ہے ۔ اس لیے کہ انسان خدا کے سوا جن کی بندگی کرتا ہے وہ دو بڑی اقسام پر منقسم ہیں: ایک وہ دیویاں ، دیوتا اور زندہ یا مردہ انسان جن کی پرستش کی جاتی ہے ۔ سو ان کی طرف تو انسان کا رجوع صرف اس غرض کے لیے ہوتا ہے کہ فوق الفطری طریقے سے وہ اس کی حاجتیں پوری کریں اور اس کو آفات سے بچائیں ۔ رہی ہدایت حق ، تو وہ نہ کبھی ان کی طرف سے آئی ، نہ کبھی کسی مشرک نے اس کے لیے ان کی طرف رجوع کیا ، اور نہ کوئی مشرک یہ کہتا ہے کہ اس کے یہ معبود اسے اخلاق ، معاشرت ، تمدن ، معیشت ، سیاست ، قانون ، عدالت وغیرہ کے اصول سکھاتے ہیں ۔ دوسرے وہ انسان جن کے بنائے ہوئے اصولوں اور قوانین کی پیروی و اطاعت کی جاتی ہے ۔ سو وہ رہنما تو ضرور ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا فی الواقع وہ ” رہنمائے حق “ بھی ہیں یا ہو سکتے ہیں؟ کیا ان میں سے کسی کا علم بھی ان تمام حقائق پر حاوی ہے جن کو جاننا انسانی زندگی کے صحیح اصول وضع کرنے کے لیے ضروری ہے؟ کیا ان میں سے کسی کی نظر بھی پورے دائرے پر پھیلتی ہے جس میں انسانی زندگی سے تعلق رکھنے والے مسائل پھیلے ہوئے ہیں؟ کیا ان میں سے کوئی بھی ان کمزوریوں سے ، ان تعصبات سے ، ان شخصی یا گروہی دلچسپیوں سے ، ان اغراض و خواہشات سے ، ان رجحانات و میلانات سے بالاتر ہے جو انسانی معاشرے کے لیے منصفانہ قوانین بنانے میں مانع ہو تے ہیں؟ اگر جواب نفی میں ہے ، اور ظاہر ہے کہ کوئی صحیح الدماغ آدمی ان سوالات کا جواب اثبات میں نہیں دے سکتا ، تو آخر یہ لوگ” ہدایت حق “ کا سرچشمہ کیسے ہو سکتے ہیں؟ اسی بنا پر قرآن یہ سوال کرتا ہے کہ لوگو ، تمہارے ان مذہبی معبودوں اور تمدنی خداؤں میں کوئی ایسا بھی ہے جو راہ راست کی طرف تمہاری رہنمائی کرنے والا ہو؟ اوپر کے سوالات کے ساتھ مل کر یہ آخری سوال دین و مذہب کے پورے مسئلے کا فیصلہ کر دیتا ہے ۔ انسان کی ساری ضرورتیں دو ہی نوعیت کی ہیں ۔ ایک نوعیت کی ضروریات یہ ہیں کہ کوئی اس کا پروردگار ہو ، کوئی ملجا و ماویٰ ہو ، کوئی دعاؤں کا سننے والا اور حاجتوں کا پورا کرنے والا ہو جس کا مستقل سہارا اس عالم اسباب کے بے ثبات سہاروں کے درمیان رہتے ہوئے وہ تھام سکے ۔ سو اوپر کے سوالات نے فیصلہ کر دیا کہ اس ضرورت کو پورا کرنے والا خدا کے سوا کوئی نہیں ہے ۔ دوسری نوعیت کی ضروریات یہ ہیں کہ کوئی ایسا رہنما ہو جو دنیا میں زندگی بسر کرنے کے صحیح اصول بتائے اور جس کے دیے ہوئے قوانین حیات کی پیروی پورے اعتماد و اطمینان کے ساتھ کی جا سکے ۔ سو اس آخری سوال نے اس کا فیصلہ بھی کر دیا کہ وہ بھی صرف خدا ہی ہے ۔ اس کے بعد ضد اور ہٹ دھرمی کے سوا کوئی چیز باقی نہیں رہ جاتی جس کی بنا پر انسان مشرکانہ مذاہب اور لادینی ( Secular ) اصول تمدن و اخلاق و سیاست سے چمٹا رہے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(10:35) لایھدی۔ مضارع منفی واحد مذکر غائب اصل میں یھتدی تھا ۔ بمعنی وہ ہدایت نہیں پاتا ہے۔ وہ راہ نہیں پاتا ہے۔ یھدی۔ مضارع مجہول واحد مذکر غائب اس کو ہدایت کی جائے ۔ اس کی رہنمائی کی جائے۔ لایھدی الا ان یھدی۔ جو ازخود راہ نہ پائے مگر یہ کہ اس کی رہنمائی کی جائے۔ امام رازی فرماتے ہیں کہ الھدی سے یہا... ں مراد نقل و حرکت ہے چناچہ جب کسی عورت کی ڈولی اپنے خاوند کے گھر جاتی ہے تو کہتے ہیں اھدیت المرأۃ الی زوجھا ھدی۔ اسی طرح قربانی کو جو حرم کی طرف لے جائی جاتی ہے الھدی کہتے ہیں۔ اور تحفہ کو ہدیہ اسی لئے کہتے ہیں کہ وہ ایک آدمی سے دوسرے آدمی کے پاس منتقل ہوتا ہے۔ اسی طرح جو آدمی دوسرے دو آدمیوں کے درمیان ان کے سہارے چلتا ہو۔ اس کے متعلق کہتے ہیں۔ فلان یھادی بین اثنین۔ پس جب ثابت ہوگیا کہ الھدی کے معنی نقل و حرکت کے ہیں۔ تو اس آیۃ کے معنی یہ ہوئے کہ جو خود بخود ایک جگہ سے دوسری جگہ نہیں جاسکتا ۔ سوائے اس کے کہ اسے اٹھا کر وہاں لیجایا جائے۔ فما لکم۔ تمہیں کیا ہوگیا ہے۔ کیف تحکمون۔ کیسے فیصلے کرتے ہو۔ مضارع جمع مذکر حاضر۔ حکم۔ تم حکم کرتے ہو۔ تم فیصلہ کرتے ہو۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 13 ۔ یعنی جو خود ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل نہیں ہوسکتا۔ اس سے مراد بت ہیں۔ 1 ۔ کیسے فیصلے کرتے ہو ؟ ان کے باطل مذہب غلط مسلک پر تعجب کا اظہار ہے۔ (کبیر) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

7۔ چناچہ اس نے عقل دی انبیاء بھیجے بخلاف شیاطین کے کہ اولا وہ ان افعال پر قادر نہیں اور محض تعلیم جس کی قدرت ان کو دی گئی ہے وہ اس کا اضلال واغوا میں صرف کرتے ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

کرتا ہے اور اس پر چلنے کی توفیق دیتا ہے۔ اب بتاؤ جو ہدایت کی طرف رہنمائی کرے اس کی اتباع اور حکم ماننا چاہیے یا جو کسی کی رہنمائی کرنے کی بجائے خود رہنمائی کا محتاج ہو۔ اس کی اتباع کرنی چاہیے۔ ذرا سوچو کہ تم کیسے فیصلے کرتے ہو ؟ ظاہر ہے۔ پیروی تو اس کی کرنی چاہیے جو ہدایت کی راہنمائی کرتا ہے اور خود...  ہدایت والا ہے۔ درحقیقت تم محض فرسودہ خیالات، صرف سنی سنائی باتوں اور اپنے وہم و گمان کے پیچھے لگے ہوئے ہو۔ لیکن یاد رکھو کہ اللہ جانتا ہے جو کچھ تم کررہے ہو۔ ظن کا معنی وہم و گمان، اٹکل پچو اور شک کے ہیں۔ البتہ عربی میں کبھی ظن، یقین کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ لیکن یہاں اس کا معنی اٹکل پچو اور وہم و گمان ہے۔ ( عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لِعَمِّہِ عِنْدَ الْمَوْتِ قُلْ لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللّٰہُ أَشْہَدُ لَکَ بِہَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَأَبَی فَأَنْزَلَ اللّٰہُ ”إِنَّکَ لاَ تَہْدِی مَنْ أَحْبَبْتَ ۔۔ الآیَۃَ )[ رواہ مسلم : کتاب الایمان ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے چچا ابو طالب کو موت کے وقت کہا لا الہ الا للہ کہہ دو ! میں قیامت کے دن اس بات کی گواہی دوں گا۔ لیکن اس نے انکار کردیا اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : آپ اسے ہدایت نہیں دے سکتے جس کے لیے آپ ہدایت پسند کریں۔ “ مسائل ١۔ معبودان باطل میں سے کوئی بھی مخلوق کو پہلی بار پیدا کرنے اور دوبارہ لوٹانے پر قادر نہیں ہے۔ ٢۔ اللہ ہی نے مخلوق کو پیدا کیا وہی اس کو دوبارہ وجود بخشے گا۔ ٣۔ مشرکین کے شریکوں میں کوئی ایسا نہیں جو حق کی طرف رہنمائی کرسکے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ حق کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ ٥۔ حق کی طرف رہنمائی کرنے والا ہی پیروی کا حقدار ہوتا ہے۔ ٦۔ جس کو خود راستے کا علم نہیں وہ دوسرے کو کیا راستہ دکھلائے گا۔ ٧۔ شرک کا عقیدہ عدل و انصاف کے اصولوں کے خلاف ہے۔ ٨۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے افعال کو جاننے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ کی تخلیق میں کوئی شریک نہیں : ١۔ کیا تمہارے شرکاء میں سے کوئی ایسا ہے جس نے مخلوق کو پیدا کیا ہے۔ (یونس : ٣٤) ٢۔ یہ اللہ کی پیدا کردہ مخلوق ہے جو تمہارے معبودوں نے پیدا کیا ہے۔ وہ دکھلاؤ۔ (لقمان : ١١) ٣۔ کیا تم ان کو اللہ کا شریک بناتے ہو جنہوں نے کسی چیز کو پیدا نہیں کیا۔ (الاعراف : ١٩١) ٤۔ جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو انہوں نے کوئی چیز پیدا نہیں کی وہ خود پیدا کیے گئے ہیں۔ (النحل : ٢٠) ٥۔ جن کو تم نے اللہ کے سوا معبود بنالیا ہے انہوں نے کوئی چیز پیدا نہیں کی بلکہ انہیں پیدا کیا گیا ہے۔ (الفرقان : ٣) ٦۔ کہہ دیجیے جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو مجھے دکھاؤ انہوں نے کون سی چیز پیدا کی ہے۔ (الاحقاف : ٤) ٧۔ کیا یہ لوگ بغیر کسی کے پیدا ہوگئے یا خود اپنے خالق ہیں۔ (الطور : ٣٥) ٨۔ کیا تم ان کے پیدا کرنے والے ہو یا اللہ تعالیٰ پیدا کرنے والا ہے۔ (الواقعۃ : ٥٩)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قل ھل من شرکائکم من یھدی الی الحق آپ پوچھئے کہ کیا تمہارے (مفروضہ) شریکوں میں کوئی ایسا ہے جو (دلائل قائم کر کے اور پیغمبروں کو بھیج کر اور صحیح غور وفکر کی توفیق عطا فرما کر اور ہدایت کے طریقے پیدا کر کے) حق کا راستہ بتاتا ہے۔ قل اللہ یھدی الحق آپ (خود ہی) کہہ دیجئے کہ اللہ ہی حق کی ہدایت کرتا ہے ... ‘ کسی اور میں اس کی طاقت نہیں۔ افن یھدی الی الحق احق ان یتبع امن لا یھدی الا ان یھدی تو پھر کیا وہ زیادہ اتباع کے لائق ہے جو امر حق کا راستہ بتاتا ہو یا وہ جس کو بغیر بتائے ہوئے خود ہی راستہ نہ سوجھے۔ یعنی جس وقت اللہ اس کو ہدایت کر دے تو وہ خود بھی ہدایت پا سکتا ہے اور دوسروں کو بھی ہدایت کرسکتا ہے۔ اللہ کی ہدایت کے بغیر وہ کچھ نہیں کرسکتا۔ مشرکوں کے بڑے بڑے (مفروضہ) شرکاء کا یہی حال ہے۔ مسیح اور عزیر اور ملائکہ (جن کو مشرک اللہ کی عبادت میں شریک قرار دیتے ہیں) خود ہدایت یابی اور ہدایت دہی کیلئے اللہ کے محتاج ہیں۔ بعض اہل تفسیر نے لکھا ہے کہ ہدایت کا معنی ہے ایک جگہ سے دوسری جگہ کی طرف منتقل ہونا۔ اس آیت میں بتوں کی بےبسی ظاہر کی گئی ہے کہ وہ خود منتقل نہیں ہو سکتے ‘ دوسرے لوگ اٹھا کر ان کو منتقل کرتے ہیں ‘ پھر معبود ہونے کے کیسے مستحق ہو سکتے ہیں۔ فمالکم کیف تحکمون پس (اے کافرو ! ) تم کو کیا ہوگیا ‘ تم کس طرح ایسا فیصلہ کر رہے ہو جس کا باطل ہونا بالکل ظاہر ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

50: اب تم ہی بتاؤ جو اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے اور ہدایت و ضلالت جس کے اختیار میں ہے اس کی پیروی اور عبادت بہتر ہے یا ان کی جو کسی کو ہدایت دینا تو درکنار خود بھی ہدایت نہیں پاسکتے۔ “ فَمَا لَکُمْ کَیْفَ تَحْکُمُوْنَ ” ان عاجز معبودوں کی عبادت و پکار سے تمہیں کیا ملتا ہے اور تم اپنے لیے کیسا باطل فیص... لہ کرتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کر رہے ہو۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

35 اے پیغمبر آپ ان سے دریافت کیجئے کیا تمہارے بنائے ہوئے اور تجویز کردہ شرکاء میں سے کوئی ایسا ہے جو امر حق اور دین حق کا راستہ دکھا سکے آپ کہہ دیجئے کہ اللہ تعالیٰ ہی امرحق کی جانب رہنمائی کرتا ہے بھلا وہ جو امر حق کی جانب رہنمائی کرتا ہے وہ پیروی اور اتباع کا زیادہ حقدار ہے یا وہ ہے جو بدون کسی دو... سرے کے راستہ بتائے خود بھی راستہ نہ پا سکے تو اے مشرکو ! تم کو کیا ہوگیا تم کیسافیصلہ کرتے ہو۔ یعنی تمہارے شرکاء میں سے کوئی ایسا بھی ہے جو راہ راست بتاسکتا ہو اللہ تعالیٰ کی یہ شان ہے کہ وہ راہ راست بتاتا ہے جیسا کہ پیغمبروں کو بھیجتا ہے کتابیں نازل کرتا ہے تو وہی اس بات کا مستحق ہے کہ اس کے کہنے پر چلا جائے نہ کہ وہ جو خود ہی راستہ دکھانے اور بتانے کے محتاج ہیں کسی اور کو تو کیا راستہ دکھائیں گے مراد اس سے جن اور شیاطین ہیں ورنہ بت تو نہ راستہ بتانے کے اہل ہیں نہ راستہ دکھانے کے اور اگر مراد عام ہو تو مطلب یہ ہوگا کہ راستہ بتانے کے اہل تو کیا ہوں گے ان میں تو یہ صلاحیت بھی نہیں کہ ایک جگہ سے بغیر اٹھائے اور ہٹائے کسی دوسری جگہ جا بھی سکیں جو محتاج ہو اسکی عبادت کرنا اس سے مانگنا بیکار ہے۔  Show more