Surat Younus

Surah: 10

Verse: 38

سورة يونس

اَمۡ یَقُوۡلُوۡنَ افۡتَرٰىہُ ؕ قُلۡ فَاۡتُوۡا بِسُوۡرَۃٍ مِّثۡلِہٖ وَ ادۡعُوۡا مَنِ اسۡتَطَعۡتُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ﴿۳۸﴾

Or do they say [about the Prophet], "He invented it?" Say, "Then bring forth a surah like it and call upon [for assistance] whomever you can besides Allah , if you should be truthful."

کیا یہ لوگ یوں کہتے ہیں کہ آپ نے اس کو گھڑ لیا ہے؟ آپ کہہ دیجئے کہ تو پھر تم اس کے مثل ایک ہی سورت لاؤ اور جن جن غیر اللہ کو بلا سکو ، بلا لو اگر تم سچے ہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ قُلْ فَأْتُواْ بِسُورَةٍ مِّثْلِهِ وَادْعُواْ مَنِ اسْتَطَعْتُم مِّن دُونِ اللّهِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ Or do they say: "He has forged it!" Say: "Bring then a Surah like unto it, and call upon whomsoever you can besides Allah, if you are truthful!" If you argue, claim and doubt whether this is from Allah then you uttered a lie and blasphemy, and you say it is from Muhammad -- Muhammad, however is a man like you, and since he came as you claim with this Qur'an -- then you produce a Surah like one of its Surahs. Produce something of the same nature and seek help and support with all the power you have from humans and Jinns. This is the third stage, Allah challenged them and called them to produce a counterpart of the Qur'an if they were truthful in their claim that it was simply from Muhammad. Allah even suggested that they seek help from anyone they chose. But He told them that they would not be able to do it. They would have no way of doing so. Allah said: قُل لَّيِنِ اجْتَمَعَتِ الاِنسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَن يَأْتُواْ بِمِثْلِ هَـذَا الْقُرْءَانِ لاَ يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا Say: "If the mankind and the Jinn were together to produce the like of this Qur'an, they could not produce the like thereof, even if they helped one another." (17:88) Then He reduced the number for them to ten Surahs similar to it, in the beginning of Surah Hud, Allah said: أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ قُلْ فَأْتُواْ بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِهِ مُفْتَرَيَاتٍ وَادْعُواْ مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّن دُونِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ صَـدِقِينَ Or they say, "He forged it." Say: "Bring you then ten forged Surah like unto it, and call whomsoever you can, other than Allah, if you speak the truth!" (11:13) In this Surah He went even further to challenge them to produce only one Surah like unto the Qur'an. So He said: أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ قُلْ فَأْتُواْ بِسُورَةٍ مِّثْلِهِ وَادْعُواْ مَنِ اسْتَطَعْتُم مِّن دُونِ اللّهِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ Or do they say: "He has forged it" Say: "Bring then a Surah like unto it, and call upon whomsoever you can besides Allah, if you are truthful!" (10:38) He also challenged them in Surah Al-Baqarah, a Madni Surah, to produce one Surah similar to it. He stated in that Surah that they would never be capable of doing so, saying: فَإِن لَّمْ تَفْعَلُواْ وَلَن تَفْعَلُواْ فَاتَّقُواْ النَّارَ But if you do it not, and you can never do it, then fear the Fire (Hell). (2:24) It should be noted here that eloquence was a part of the nature and character of the Arabs. Arabic poetry including Al-Mu`allaqat -- the oldest complete collection of the most eloquent ancient Arabic poems -- was considered to be the best in the literary arts. However Allah sent down to them something whose style none were familiar with, and no one is equal in stature to imitate. So those who believed among them, believed because of what they knew and felt in the Book, including its beauty, elegance, benefit, and fluency. They became the most knowledgeable of the Qur'an and its best in adhering to it. The same thing happened to the magicians during Fir`awn's time. They were knowledgeable of the arts of sorcery, however, when Musa performed his miracles, they knew that it must have come through someone that was supported and guided by Allah. They knew that no human could perform such acts without the permission of Allah. Similarly, `Isa was sent at the time of scholarly medicine and during the advancement in the treatment of patients. He healed the blind, lepers and raised the dead to life by Allah's leave. What `Isa was able to do was such that no form of treatment or medicine could reproduce. As a result, those who believed in him knew that he was Allah's servant and His Messenger. Similarly, in the Sahih, Allah's Messenger said, مَا مِنْ نَبِيَ مِنَ الاْاَنْبِيَاءِ إِلاَّ وَقَدْ أُوتِيَ مِنَ الاْايَاتِ مَا امَنَ عَلَى مِثْلِهِ الْبَشَرُ وَإِنَّمَا كَانَ الَّذِي أُوتِيتُهُ وَحْيًا أَوْحَاهُ اللهُ إِلَيَّ فَأَرْجُو أَنْ أَكُونَ أَكْثَرَهُمْ تَابِعًا There was never a Prophet but he was given signs by which the people would recognize him, and that which I was given is revelation that Allah revealed, so I hope that I will have the most followers among them. Allah then said:

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

38۔ 1 ان تمام حقائق اور دلائل کے بعد بھی، اگر تمہارا دعویٰ یہ ہے کہ یہ قرآن محمد کا گھڑا ہوا ہے تو بھی تمہاری طرح ایک انسان ہے، تمہاری زبان بھی اسی طرح عربی ہے وہ تو ایک ہے، تم اگر اپنے دعوے میں سچے ہو تو تم دنیا بھر کے ادیبوں، فصحاوں کو اور اہل علم و اہل قلم کو جمع کرلو اور اس قرآن کی ایک چھوٹی سے چھوٹی سورت کے مثل بنا کر پیش کردو۔ قرآن مجید کا یہ چیلنج آج تک باقی ہے، اس کا جواب نہیں ملا۔ جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ یہ قرآن۔ کسی انسانی کاوش کا نتیجہ نہیں، بلکہ فی الواقع کلام الٰہی ہے اور حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اترا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٤] مشرکین مکہ کے اس اعتراض کے جواب میں قرآن نے متعدد مقامات پر چیلنج کیا ہے کہ اگر تمہارے خیال کے مطابق قرآن محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود ہی بنا لیا ہے تو تم بھی ہمت آزمائی کر دیکھو اور اس سلسلے میں اپنے مددگاروں کو بھی اپنے ساتھ ملا لو لیکن اپنی بھرپور کوششوں کے باوجود جب وہ ایسا کلام پیش کرنے سے قاصر رہے تو انہیں دوزخ کی وعید سنا دی گئی۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کی اس اعجازی حیثیت سے تین باتیں از خود ثابت ہوجاتی ہیں (١) اللہ تعالیٰ کی ہستی کا ثبوت، (٢) قرآن کے منزل من اللہ ہونے کا ثبوت اور (٣) آپ کی نبوت کا ثبوت۔ اب جو شخص پھر بھی ایمان نہ لائے اور اپنی ضد، ہٹ دھرمی یا تعصب میں پڑا رہے اس کی سزا جہنم کے سوا کیا ہوسکتی ہے ؟ (تفصیل سورة بقرہ کی آیت نمبر ٢٣ حاشیہ نمبر ٢٧ میں ملاحظہ فرما لیجئے)

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَمْ يَــقُوْلُوْنَ افْتَرٰىہُ۝ ٠ ۭ قُلْ فَاْتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّثْلِہٖ وَادْعُوْا مَنِ اسْتَــطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ۝ ٣٨ أَمْ»حرف إذا قوبل به ألف الاستفهام فمعناه : أي نحو : أزيد أم عمرو، أي : أيّهما، وإذا جرّد عن ذلک يقتضي معنی ألف الاستفهام مع بل، نحو : أَمْ زاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصارُ [ ص/ 63] أي : بل زاغت . ( ا م حرف ) ام ۔ جب یہ ہمزہ استفہام کے بالمقابل استعمال ہو تو بمعنی اور ہوتا ہے جیسے ازید فی الدار ام عمرو ۔ یعنی ان دونوں میں سے کون ہے ؟ اور اگر ہمزہ استفہام کے بعد نہ آئے تو بمعنیٰ بل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ { أَمْ زَاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصَارُ } ( سورة ص 63) ( یا) ہماری آنکھیں ان ( کی طرف ) سے پھر گئی ہیں ۔ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ فری الفَرْيُ : قطع الجلد للخرز والإصلاح، والْإِفْرَاءُ للإفساد، والِافْتِرَاءُ فيهما، وفي الإفساد أكثر، وکذلک استعمل في القرآن في الکذب والشّرک والظّلم . نحو : وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء/ 48] ، ( ف ری ) الفری ( ن ) کے معنی چمڑے کو سینے اور درست کرنے کے لئے اسے کاٹنے کے ہیں اور افراء افعال ) کے معنی اسے خراب کرنے کے لئے کاٹنے کے ۔ افتراء ( افتعال کا لفظ صلاح اور فساد دونوں کے لئے آتا ہے اس کا زیادہ تر استعمال افسادی ہی کے معنوں میں ہوتا ہے اسی لئے قرآن پاک میں جھوٹ شرک اور ظلم کے موقعوں پر استعمال کیا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء/ 48] جس نے خدا کا شریک مقرر کیا اس نے بڑا بہتان باندھا ۔ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام/ 40] ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی |" آنا |" ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : {إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ } [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو۔ سُّورَةُ المنزلة الرفیعة، وسُورُ المدینة : حائطها المشتمل عليها، وسُورَةُ القرآن تشبيها بها لکونه محاطا بها إحاطة السّور بالمدینة، أو لکونها منزلة کمنازل القمر، ومن قال : سؤرة فمن أسأرت، أي : أبقیت منها بقيّة، كأنها قطعة مفردة من جملة القرآن وقوله : سُورَةٌ أَنْزَلْناها [ النور/ 1] ، السورۃ کے معنی بلند مرتبہ کے ہیں ۔ اور سورة المدینۃ کے معنی شہر پناہ کے ہیں اور سورة القرآن ( قرآن کی سورت ) یا تو سور المدینۃ سے ماخوذ ہے کیونکہ سورة بھی شہر پناہ کی طرح قرآن کا احاطہ کئے ہوئے ہیں اس لئے انہیں سورة القرآن کہا جاتا ہے اور یا سورة بمعنی مرتبہ سے مشتق ہے ، اور سورة بھی مناز ل قمر کی طرح ایک منزلۃ ہے اس لئے اسے سورة کہا جاتا ہے اور یہ دونوں اشتقاق اس وقت ہوسکتے ہیں جب اس میں واؤ کو اصلی مانا جائے لیکن اگر اسے اصل میں سورة مہموز مانا جائے تو یہ اسارت سے مشتق ہوگا جس کے معنی کچھ باقی چھوڑ دینے کے ہیں اور سورة بھی چونکہ قرآن ن کا ایک ٹکڑا اور حصہ ہوتی ہے ۔ اس لئے اسے سورة کہا جاتا ہے اور آیت : ۔ سُورَةٌ أَنْزَلْناها[ النور/ 1] یہ ایک ) سورة ہے جسے ہم نے نازل کیا میں سورة سے مراد احکام وحکم ہیں۔ الاستطاعۃ . وَالاسْتِطَاعَةُ : استفالة من الطَّوْعِ ، وذلک وجود ما يصير به الفعل متأتّيا، الاسْتِطَاعَةُ أخصّ من القدرة . قال تعالی: لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء/ 43] ( ط و ع ) الطوع الاستطاعۃ ( استفعال ) یہ طوع سے استفعال کے وزن پر ہے اور اس کے معنی ہیں کسی کام کو سر انجام دینے کے لئے جن اسباب کی ضرورت ہوتی ہے ان سب کا موجہ ہونا ۔ اور استطاعت قدرت سے اخص ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء/ 43] وہ نہ تو آپ اپنی مدد کرسکتے ہیں ۔ صدق والصِّدْقُ : مطابقة القول الضّمير والمخبر عنه معا، ومتی انخرم شرط من ذلک لم يكن صِدْقاً تامّا، بل إمّا أن لا يوصف بالصّدق، وإمّا أن يوصف تارة بالصّدق، وتارة بالکذب علی نظرین مختلفین، کقول کافر إذا قال من غير اعتقاد : محمّد رسول الله، فإنّ هذا يصحّ أن يقال : صِدْقٌ ، لکون المخبر عنه كذلك، ويصحّ أن يقال : كذب، لمخالفة قوله ضمیره، وبالوجه الثاني إکذاب اللہ تعالیٰ المنافقین حيث قالوا : نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ ... الآية [ المنافقون/ 1] ( ص دق) الصدق ۔ الصدق کے معنی ہیں دل زبان کی ہم آہنگی اور بات کو نفس واقعہ کے مطابق ہونا ۔ اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک شرط نہ پائی جائے تو کامل صدق باقی نہیں رہتا ایسی صورت میں باتو وہ کلام صدق کے ساتھ متصف ہی نہیں ہوگی اور یا وہ مختلف حیثیتوں سے کبھی صدق اور کبھی کذب کے ساتھ متصف ہوگی مثلا ایک کا فر جب اپنے ضمیر کے خلاف محمد رسول اللہ کہتا ہے تو اسے نفس واقعہ کے مطابق ہونے کی حیثیت سے صدق ( سچ) بھی کہہ سکتے ہیں اور اس کے دل زبان کے ہم آہنگ نہ ہونے کی وجہ سے کذب ( جھوٹ) بھی کہہ سکتے ہیں چناچہ اس دوسری حیثیت سے اللہ نے منافقین کو ان کے اس اقرار میں کہ : نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ ... الآية [ المنافقون/ 1] ہم اقرار کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے پیغمبر ہیں ۔ جھوٹا قرار دیا ہے کیونکہ وہ اپنے ضمیر کے خلاف یہ بات کہد رہے تھے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٨) باوجود اس کے مکہ کے کافر یوں کہتے ہیں کہ نعوذ باللہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن حکیم کو اپنی طرف سے گھڑ لیا ہے، آپ ان سے کہہ دیجیے تو پھر تم بھی قرآن کریم جیسی ایک سورت تو بنا لاؤ اور اپنے معبود ان باطل میں سے جن جن کو اپنی مدد کے لیے بلانا چاہو، ان کو بلالو اگر تم اپنے اس دعوے میں سچے ہو کہ (نعوذ باللہ) رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن حکیم اپنی طرف سے از خود بنالیا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٨ (اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰٹہُ ) یہ لوگ اس قرآن کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ محمد کی اپنی تصنیف ہے۔ انہوں نے خود یہ کلام موزوں کرلیا ہے۔ (قُلْ فَاْتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّثْلِہٖ وَادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ ) یہ چیلنج سورة البقرۃ میں بھی ہے جو کہ مدنی ہے ‘ جبکہ مکی سورتوں میں تو اسے متعدد بار دہرایا گیا ہے۔ سورة ہود میں اس جیسی دس سورتیں بنا کرلے آنے کا چیلنج دیا گیا ہے اور یہاں اس سورت میں یہ چیلنج گویا برسبیل تنزل آخری درجہ میں پیش کیا گیا ہے کہ چلو اس جیسی ایک سورت ہی بنا کر دکھادو۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

46.It is generally believed that the challenge embodied in this verse has a reference merely to the eloquence, rhetoric and other literary qualities of the Qur'an. Were one to read the writings of Muslim scholars in connection with the explanation of this verse, it is not surprising that people should entertain such a misunderstanding. However, the Qur'an is far above claiming its uniqueness and inimitability merely on the grounds of its literary merits. Although there can be no doubt about the literary excellence of the Qur'an, the main ground on which it is claimed that no human being could produce a book like it has to do with its contents and teaching. The Qur'an alludes, in many places, to those characteristics of its inimitability which could not have been conferred upon it by man, thus hinting that those characteristics could have no other source but God Himself. We have explained, in the course of this work, all such allusions in the Qur'an. In order to avoid repetition, we would like at this stage to avoid engaging in any discussion on that subject. (For further explanation see al-Tur 52, nn. 26-7.)

سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :46 عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ چیلنج محض قرآن کی فصاحت و بلاغت اور اس کی ادبی خوبیوں کے لحاظ سے تھا ۔ اعجاز قرآن پر جس انداز سے بحثیں کی گئی ہیں اس سے یہ غلط فہمی پیدا ہونی کچھ بعید بھی نہیں ہے ۔ لیکن قرآن کا مقام اس سے بلند تر ہے کہ وہ اپنی یکتائی و بے نظیری کے دعوے کی بنیاد محض اپنے لفظی محاسن پر رکھے ۔ بلاشبہ قرآن اپنی زبان کے لحاظ سے بھی لاجواب ہے ، مگر وہ اصل چیز جس کی بنا پر یہ کہا گیا ہے کہ انسانی دماغ ایسی کتاب تصنیف نہیں کر سکتا ، اس کے مضامین اور اس کی تعلیمات ہیں ۔ اس میں اعجاز کے جو جو پہلو ہیں اور جن وجوہ سے ان کا من جانب اللہ ہونا یقینی اور انسان کی ایسی تصنیف پر قادر ہونا غیر ممکن ہے ان کو خود قرآن میں مختلف مواقع پر بیان کر دیا گیا ہے اور ہم ایسے تمام مقامات کی تشریح پہلے بھی کرتے رہے ہیں اور آئندہ بھی کریں گے ۔ اس لیے یہاں بخوف طوالت اس بحث سے اجتناب کیا جاتا ہے ۔ ( تشریح کے لیے ملاحظہ ہو الطور ، حاشیہ نمبر ۲٦ ، ۲۷ )

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(10:38) ام ۔ کیا۔ استفہام انکاری ہے۔ قل فاتوا۔ ای قل ان کان الامر کما تقولون فاتوا ۔۔ الخ یعنی اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے کہو کہ اگر حقیقت الامر وہی ہے جو تو لے آؤ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 ۔ یعنی اگر اس کے باوجود تمہارا یہ خیال ہے کہ … اور پیغمبر نے جھوٹ بول کر کہہ دیا ہے کہ یہ اللہ کا کلام ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ یعنی اگر نعوذ باللہ میں نے تصنیف کرلیا ہے تو تم بھی تصنیف کرلاو۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ام یقولون افتراہ قل فاتوا بسورۃ مثلہ کیا یہ لوگ یوں کہتے ہیں کہ آپ نے ازخود بنا کر اللہ کی طرف منسوب کردیا ہے ؟ آپ کہہ دیجئے کہ پھر تم بھی اس کی طرح ایک سورت ہی بنا لاؤ۔ یعنی اگر میں نے اس کو ازخود بنا لیا ہے تو تم بھی کوئی ایک سورت ہی ایسی بنا لاؤ جو بلاغت ‘ اسلوب عبات اور قوت معنی میں قرآن کی طرح ہو۔ آخر تم بھی میری طرح عرب اور قادر الکلام اور عبارت و اسلوب کے ماہر ہو۔ وادعوا من استطعتم من دون اللہ ان کنتم صدقین۔ اور اللہ کے علاوہ (اپنے مددگاروں میں سے) جس کو تم (اپنی مدد کیلئے) بلا سکتے ہو بلا لو ‘ اگر تم سچے ہو کہ محمد ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) نے اس کو خود بنا لیا ہے۔ اس آیت میں قرآن کی عبارت اور معانی پر غور کرنے اور مناظرہ کیلئے مددگاروں کو بلانے کی دعوت دی گئی ہے ‘ اسلئے آگے فرمایا :

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

53: یہ شکویٰ ہے مشرکین نے کہا تھا کہ یہ قرآن محمد خود بناتا اور خدا کے ذمہ لگا دیتا ہے۔ “ یَقُوْل ھؤلاء المشرکون افتري محمد ھذا القران واختلقہ من قبل نفسه ” (خازن ج 3 ص 190) ۔ 54: یہ جواب شکویٰ ہے۔ اگر یہ قرآن محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کلام ہے تو تم بھی اہل لسان ہو اپنے سب ہم مسلک فصحاء و بلغا کو اکٹھا کرلو اور اپنے مزعومہ معبودوں سے بھی امداد حاصل کرلو اور قرآن جیسی فصیح وبلیغ صرف ایک ہی سورت بنا کرلے آؤ۔ اکثر مفسرین نے آیت کی تفسیر میں یہی تقریر کی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ تم ایسی فصاحت وبلاغت پر مشتمل کلام بنا کرلے آؤ۔ اکثر مفسرین نے آیت کی تفسیر میں یہی تقریر کی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ تم ایسی فصاحت و بلاغت پر مشتمل کلام بنا کرلے آؤ۔ اس طرح ایسا بلیغ کلام لانے سے ان کے عجز کا اظہار مقصود ہے لیکن اس پر شبہ ہوتا ہے کہ مقابلہ ہمیشہ فصحاء اور بلغاء سے نہیں ہوتا اس لیے مناسب یہ ہے کہ آیت کا مطلب یہ ہو کہ تم ایسی ایک سورت بنا کرلے آؤ جو قرآن کی طرح عقلی، نقلی اور وحی کے دلائل پر مشتمل ہو۔ اس لیے اعجاز قرآن کو صرف ایک پہلو میں منحصر نہ کرنا چاہئے بلکہ قرآن مجید ہر پہلو سے معجز ہے جیسا کہ علامہ تفتا زانی نے تلویح شرح توضیح میں مختلف اقوال نقل فرمائے ہیں “ اختلفوا فی جهة اعجاز القراٰن مع الاتفاق علی کو نه معجزا فقیل انه ببلاغته و قیل باخباره عن المغیبات و قیل باسلوبه وقیل بصرف اللہ تعالیٰ العقول عن المعارضة الخ ” (تلویح ص 18) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

38 کیا باجود اس کے بھی یہ لوگ یوں کہتے ہیں کہ اس پیغمبر نے اس قرآن کو بنا لیا اور گھڑ لیا آپ کہہ دیجئے اگر یہ بات ہے کہ میں نے اس کو بنا لیا ہے تو تم بھی اس قرآن کریم کی مثل ایک چھوٹی سی سورت ہی بنا لائو آخر تم بھی عربی زبان کے ماہر اور بڑے فصیح وبلیغ ہو اور تم اللہ تعالیٰ کے سوا جس جس کو بلا سکتے ہو اس کو بلا بھی لو اگر تم اپنے دعویٰ میں سچے ہو۔