Surat Younus

Surah: 10

Verse: 45

سورة يونس

وَ یَوۡمَ یَحۡشُرُہُمۡ کَاَنۡ لَّمۡ یَلۡبَثُوۡۤا اِلَّا سَاعَۃً مِّنَ النَّہَارِ یَتَعَارَفُوۡنَ بَیۡنَہُمۡ ؕ قَدۡ خَسِرَ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِلِقَآءِ اللّٰہِ وَ مَا کَانُوۡا مُہۡتَدِیۡنَ ﴿۴۵﴾

And on the Day when He will gather them, [it will be] as if they had not remained [in the world] but an hour of the day, [and] they will know each other. Those will have lost who denied the meeting with Allah and were not guided

اور ان کو وہ دن یاد دلایئے جس میں اللہ ان کو ( اپنے حضور ) جمع کرے گا ( تو ان کو ایسا محسوس ہوگا ) کہ گویا وہ ( دنیا میں ) سارے دن کی ایک آدھ گھڑی رہے ہونگے اور آپس میں ایک دوسرے کو پہچاننے کو ٹھہرے ہوں ۔ و اقعی خسارے میں پڑے وہ لوگ جنہوں نے اللہ کے پاس جانے کو جھٹلایا اور وہ ہدایت پانے والے نہ تھے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Feeling of Brevity toward the Worldly Life at the Gathering on the Day of Resurrection To remind people of the establishment of the Hour and their resurrection from their graves to the gathering for the Day of Judgment, Allah says: وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ كَأَن لَّمْ يَلْبَثُواْ إِلاَّ سَاعَةً مِّنَ النَّهَارِ ... And on the Day when He shall gather (resurrect) them together, (it will be) as if they had not stayed (in the life of this world and graves) but an hour of a day. Similarly Allah said: كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَ مَا يُوعَدُونَ لَمْ يَلْبَثُواْ إِلاَّ سَاعَةً مِّن نَّهَارٍ On the Day when they will see that (torment) with which they are promised (threatened, it will be) as if they had not stayed more than an hour in a single day. (46:35) Allah also said: كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَهَا لَمْ يَلْبَثُواْ إِلاَّ عَشِيَّةً أَوْ ضُحَـهَا The Day they see it, (it will be) as if they had not tarried (in this world) except an afternoon or a morning. (79:46) يَوْمَ يُنفَخُ فِى الصُّورِ وَنَحْشُرُ الْمُجْرِمِينَ يَوْمِيِذٍ زُرْقاً يَتَخَـفَتُونَ بَيْنَهُمْ إِن لَّبِثْتُمْ إِلاَّ عَشْراً نَّحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَقُولُونَ إِذْ يَقُولُ أَمْثَلُهُمْ طَرِيقَةً إِن لَّبِثْتُمْ إِلاَّ يَوْماً The Day when the Trumpet will be blown (the second blowing): that Day, We shall gather the criminals, blue eyed. They will speak in a very low voice to each other (saying): "You stayed not longer than ten (days)." We know very well what they will say, when the best among them in knowledge and wisdom will say: "You stayed no longer than a day!" (20:102-104) and, وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ يُقْسِمُ الْمُجْرِمُونَ مَا لَبِثُواْ غَيْرَ سَاعَةٍ And on the Day that the Hour will be established, the criminals will swear that they stayed not but an hour. (30:55) These all are evidence of the brevity of the worldly life compared to the Hereafter. Allah said: قَـلَ كَمْ لَبِثْتُمْ فِى الاٌّرْضِ عَدَدَ سِنِينَ قَالُواْ لَبِثْنَا يَوْماً أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ فَاسْأَلِ الْعَأدِّينَ قَالَ إِن لَّبِثْتُمْ إِلاَّ قَلِيلً لَّوْ أَنَّكُمْ كُنتُمْ تَعْلَمُونَ He (Allah) will say: "What number of years did you stay on earth!" They will say: "We stayed a day or part of a day. Ask of those who keep account." He (Allah) will say: "You stayed not but a little, if you had only known!" (23:112-114) Allah then said: ... يَتَعَارَفُونَ بَيْنَهُمْ ... They will recognize each other. The children will know their parents and relatives will recognize one another. They will know them just like they used to know them during the life in this world. However, on that Day everyone will be busy with himself. Allah then said: فَإِذَا نُفِخَ فِى الصُّورِ فَلَ أَنسَـبَ بَيْنَهُمْ Then, when the Trumpet is blown, there will be no kinship among them. (23:101) Allah also said: وَلاَ يَسْـَلُ حَمِيمٌ حَمِيماً And no friend will ask a friend (about his condition). (70:10) Allah then said: ... قَدْ خَسِرَ الَّذِينَ كَذَّبُواْ بِلِقَاء اللّهِ وَمَا كَانُواْ مُهْتَدِينَ Ruined indeed will be those who denied the meeting with Allah and were not guided. This is similar to the Ayah: وَيْلٌ يَوْمَيِذٍ لِّلْمُكَذِّبِينَ Woe that Day to the deniers. (77:15) Woe to them because they will lose themselves and their families on the Day of Resurrection. That is indeed the great loss. There is no loss greater than the loss of one who will be taken away from his dear ones on the Day of Grief and Regret.

جب سب اپنی قبر سے اٹھیں گے بیان ہو رہا ہے کہ وہ وقت بھی آرہا ہے جب قیامت قائم ہوگی اور لوگوں کو اللہ تعالیٰ ان کی قبروں سے اٹھا کر میدان قیامت میں جمع کرے گا ۔ اس وقت انہیں ایسا معلوم ہوگا کہ گویا گھڑی بھر دن ہم رہے تھے ۔ صبح یا شام ہی تک ہمارا رہنا ہوا تھا ۔ کہیں گے کہ دس روز دنیا میں گزارے ہوں گے ۔ تو بڑے بڑے حافظے والے کہیں گے کہاں کے دس دن تم تو ایک ہی دن رہے ۔ قیامت کے دن یہ قسمیں کھا کھا کر کہیں گے کہ ایک ساعت ہی رہے وغیرہ ۔ ایسی آیتیں قرآن کریم میں بہت سی ہیں ۔ مقصود یہ ہے کہ دنیا کی زندگی آج بہت تھوڑی معلوم ہوگی ۔ سوال ہوگا کہ کتنے سال دنیا میں گزارے ، جواب دیں گے کہ ایک دن بلکہ اسے بھی کم شمار والوں سے پوچھ لو ۔ جواب ملے گا کہ واقعہ میں دار دنیا دار آخرت کے مقابلے میں بہت ہی کم ہے اور فی الحقیقت وہاں کی زندگی بہت ہی تھوڑی تھی لیکن تم نے اس کا خیال زندگی بھر نہ کیا ۔ اس وقت بھی ہر ایک دوسرے کو پہچانتا ہوگا جیسے دنیا میں تھے ویسے ہی وہاں بھی ہوں گے رشتے کنبے کو ، باپ بیٹوں الگ الگ پہچان لیں گے ۔ لیکن ہر ایک نفسا نفسی میں مشغول ہوگا ۔ جیسے فرمان الٰہی ہے کہ صور کے پھونکتے ہی حسب و نسب فنا ہو جائیں گے ۔ کوئی دوست اپنے کسی دوست سے کچھ سوال تک نہ کرے گا ۔ جو اس دن کو جھٹلاتے رہے وہ آج گھاٹے میں رہیں گے ان کے لیے ہلاکت ہوگی انہوں نے اپنا ہی برا کیا اور اپنے والوں کو بھی برباد کیا ۔ اس سے بڑھ کر خسارہ اور کیا ہوگا کہ ایک دوسرے سے دور ہے دوستوں کے درمیان تفریق ہے ، حسرت و ندامت کا دن ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

45۔ 1 یعنی محشر کی سختیاں دیکھ کر انہیں دنیا کی ساری لذتیں بھول جائیں گی اور دنیا کی زندگی انہیں ایسے معلوم ہوگی گویا وہ دنیا میں ایک آدھ گھڑی ہی رہے ہیں۔ لم یلبثوا الا عشیۃ او ضحھا۔ 45۔ 2 محشر میں مختلف حالتیں ہونگی، جنہیں قرآن میں مختلف جگہوں پر بیان کیا گیا ہے۔ ایک وقت یہ بھی ہوگا، جب ایک دوسرے کو پہچانیں گے، بعض مواقع ایسے آئیں گے کہ آپس میں ایک دوسرے پر گمراہی کا الزام دھریں گے، اور بعض موقعوں پر ایسی دہشت طاری ہوگی کہ ' آپس میں ایک دوسرے کی رشتہ داریوں کا پتہ ہوگا اور نہ ایک دوسرے کو پوچھیں گے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٠] قیامت کے دن کی مدت پچاس ہزار سال ہے اس کے مقابلہ میں انہیں اپنی دنیا کی زندگی یوں محسوس ہوگی کہ بس چند گھنٹے ہی دنیا میں گزارے تھے اس دن وہ ایک دوسرے کو ایسے ہی پہچانتے ہوں گے جیسے دنیا میں پہچانتے تھے مگر کوئی کسی کے کام نہ آسکے گا ہر ایک کو بس اپنی اپنی ہی پڑی ہوگی بلکہ ایک دوسرے سے اپنے کسی دکھ سکھ اور ہمدردی کی بات چیت کے بھی روادار نہ ہوں گے اور اگر اپنا کوئی رشتہ دار نظر آئے گا تو اس سے راہ فرار اختیار کرنے کی کوششیں کریں گے بعض علماء نے (يَتَعَارَفُوْنَ بَيْنَھُمْ 45؀) 10 ۔ یونس :45) کو دنیوی زندگی سے متعلق کرکے یہ مطلب بیان کیا گیا ہے کہ انہیں ایسا محسوس ہوگا کہ وہ دنیا میں بس چند گھنٹے ایک دوسرے کی جان پہچان کے لیے ٹھہرے تھے اور حقیقی زندگی کا آغاز تو اب ہو رہا ہے۔ [٦١] اس لیے کہ نتیجہ ان کی توقع کے خلاف نکلا اور اس دن کے لیے کچھ تیاری نہ کی تھی اور ساری زندگی دنیا کی دلچسپیوں میں گزار دی تھی ان لوگوں کو اس دن واضح طور پر معلوم ہوجائے گا کہ وہ دنیا میں غلط راستے پر پڑے ہوئے تھے اور یوم آخرت سے انکار کے نتیجہ نے انہیں راہ راست پر آنے ہی نہ دیا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَيَوْمَ يَحْشُرُھُمْ كَاَنْ لَّمْ يَلْبَثُوْٓا ۔۔ : سَاعَۃً ایک گھڑی، عرب نہایت کم مدت کے لیے یہ لفظ بولتے ہیں۔ قیامت بھی چونکہ ایک لمحے میں قائم ہوجائے گی، اس لیے اس پر بھی ” اَلسَّاعَۃُ “ کا لفظ بولا جاتا ہے، یعنی اس دن کو یاد کرو جب اللہ تعالیٰ ان حق سے اندھے اور بہرے لوگوں کو حساب کے لیے اکٹھا کرے گا تو انھیں دنیا میں گزری ہوئی راحت و لذت والی لمبی مدت اور طویل ماہ و سال ایک گھڑی محسوس ہوں گے اور انھیں وہ سب لذتیں بھول جائیں گی، جیسا کہ سورة احقاف (٣٥) اور سورة روم (٥٥) میں ہے کہ مجرم قسم کھا کر کہیں گے کہ ہم ایک ساعت (لمحے) کے سوا دنیا میں نہیں رہے۔ سَاعَةً مِّنَ النَّهَارِ : دن کی گھڑی چونکہ رات کی بہ نسبت زیادہ یاد رہتی ہے، اس لیے ” سَاعَةً مِّنَ النَّهَارِ “ فرمایا۔ يَتَعَارَفُوْنَ بَيْنَھُمْ : اس کی دو تفسیریں ہیں، ایک تو یہ کہ دنیا میں ان کی وہ گھڑی بھی ایک دوسرے کی جان پہچان کرتے گزر گئی اور دوسری یہ کہ قیامت کے دن وہ ایک دوسرے کو پہچانیں گے اور آپس میں ایک دوسرے کو گمراہ کرنے پر ملامت اور گلے شکوے کریں گے۔ قرآن مجید کی بعض آیات میں ہے کہ وہ کہیں گے کہ ہم تو محض ایک دن یا دن کا کچھ حصہ دنیا میں رہے ہیں، جیسا کہ سورة مومنون (١١٢، ١١٣) میں ہے، یا یہ کہ ہم ایک سہ پہر یا دو پہر وہاں رہے ہیں۔ دیکھیے سورة نازعات (٤٦) یا یہ کہ ہم تو صرف دس راتیں وہاں رہے ہیں۔ دیکھیے سورة طٰہٰ (١٠٣) اب ایک گھڑی رہنے اور ان آیات میں کیا تطبیق ہوگی، جواب یہ ہے کہ مجرموں کے درجات اور احوال مختلف ہونے کی وجہ سے ان کے اندازے بھی مختلف ہوں گے۔ اسی طرح قیامت کا دن پچاس ہزار سال کی انتہائی لمبی مدت کا دن ہے (دیکھیے معارج : ٤) جس میں مجرموں پر مختلف احوال گزریں گے، اس میں ہونے والی ان کی باہمی بحثوں کا نتیجہ وہ کبھی کچھ نکالیں گے اور کبھی کچھ نکالیں گے۔ یہ بھی ان کی بدحالی کا ایک اظہار ہے، جیسا کہ فرمایا : (وَلَوْ تَرٰٓى اِذِ الظّٰلِمُوْنَ مَوْقُوْفُوْنَ عِنْدَ رَبِّهِمْ ښ يَرْجِــعُ بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضِۨ الْقَوْلَ ) [ سبا : ٣١] ” اور کاش ! تو دیکھے جب یہ ظالم اپنے رب کے پاس کھڑے کیے ہوئے ہوں گے، ان میں سے ایک دوسرے کی بات رد کر رہا ہوگا۔ “ قَدْ خَسِرَ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا ۔۔ : اللہ کی ملاقات جھٹلانے کا مطلب قیامت اور حساب کتاب کا انکار ہے اور خسارا یہ کہ دنیا میں بھی حیوانوں کی سی بےاصولی زندگی بسر کی اور آخرت میں بھی جہنم کا ایندھن بنے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary In verse 45, it was said: يَتَعَارَ‌فُونَ بَيْنَهُمْ (they will recognize each other), that is, when the dead will be raised from their graves, they will recog¬nize each other as if not much time had passed when they met last. Imam al-Baghawi said: This recognition will be possible during the early stage. Later, when the horrendous happenings of the Qiyamah, the Day of Doom, will unfold, this ability to recognize each other will stand disabled. According to some other narrations, the ability to recognize each other will, though, still remain, but such will be the awe of the situation that they will be unable to say anything. (Mazhari)

خلاصہ تفسیر اور ان کو وہ دن یاد دلایئے جس میں اللہ تعالیٰ ان کو اس کیفیت سے جمع کرے گا کہ ( وہ سمجھیں گے کہ) یا وہ ( دنیا یا برزخ میں) سارے دن کی ایک آدھ گھڑی رہے ہوں گے ( چونکہ وہ دن مدید بھی ہوگا اور شدید بھی ہوگا، اس لئے دنیا اور برزخ کی مدت اور تکلیف سب بھول کر ایسا سمجھیں گے کہ وہ زمانہ بہت جلد گزر گیا) اور آپس میں ایک دوسرے کو پہچانیں گے ( بھی لیکن ایک دوسرے کی مدد نہ کرسکیں گے، اس اور رنج و صدمہ ہوگا، کیونکہ شناسا لوگوں سے توقع نفع کی ہوا کرتی ہے) واقعی ( اس وقت سخت) خسارے میں پڑے وہ لوگ جنہوں نے اللہ کے پاس جانے کو جھٹلایا اور وہ ( دنیا میں بھی) ہدایت پانے والے نہ تھے ( اس لئے آج خسارہ میں پڑے، پس ان کے عذاب کا اصلی وقت تو یہ دن ہے کہ) جس ( عذاب) کا ان سے ہم وعدہ کر رہے ہیں اس میں سے کچھ تھوڑا سا ( عذاب) اگر ہم آپ کو دکھلا دیں (یعنی آپ کی حیات میں ان پر اس کا نزول ہوجاوے) یا ( اس کے نزول کے قبل ہی) ہم آپ کو وفات دے دیں ( پھر خواہ بعد میں نزول ہو یا نہ ہو) سو ( احتمال ہیں کوئی شق ضروری نہیں لیکن ہر حال اور ہر احتمال پر) ہمارے پاس تو ان کو آنا ہی ہے پھر ( سب کو معلوم ہے کہ) اللہ ان کے سب افعال کی اطلاع رکھتا ہی ہے ( پس ان پر سزا دے گا، عرض یہ کہ دنیا میں خواہ سزا ہو یا نہ ہو مگر اصلی موقعہ پر ضرور ہوگی) اور ( یہ سزا جو ان کے لئے تجویز ہوئی ہے، تو اتمام حجت و ازالہ عذر کے بعد ہوئی ہے، اور ان کی کیا تخصیص ہے بلکہ ہمیشہ سے ہماری عادت رہی ہے کہ جن امتوں کو ہم نے مکلف بنانا چاہا ہے ان میں سے) ہر ہر امت کے لئے ایک حکم پہنچانے والا ( ہوا) ہے سو جب ان کا وہ رسول ( ان کے پاس) آچکتا ہے ( اور احکام پہنچا دیتا ہے اس کے بعد) ان کا فیصلہ انصاف کے ساتھ کیا جاتا ہے ( وہ فیصلہ یہی ہے کہ نہ ماننے والوں کو عذاب ابدی میں مبتلا کیا جاتا ہے) اور ان پر ( ذرا) ظلم نہیں کیا جاتا ( کیونکہ اتمام حجت کے بعد سزا دینا خلاف انصاف نہیں ہے) اور یہ لوگ ( عذاب کی وعیدیں سن کر بقصد تکذیب یوں) کہتے ہیں کہ ( اے نبی اور اے مسلمانوں) یہ وعدہ ( عذاب کا) کب ( واقع) ہوگا، اگر تم سچے ہو ( تو واقع کیوں نہیں کرا دیتے) آپ سب کی طرف سے جواب میں) فرما دیجئے کہ میں ( خود) اپنی ذات خاص کے لئے تو کسی نفع ( کے حاصل کرنے) کا اور کسی ضرر ( کے دفع کرنے) کا اختیار رکھتا ہی نہیں مگر جتنا ( اختیار) خدا کو منظور ہو ( اتنا اختیار البتہ حاصل ہے، پس جب خاص اپنے نفع و نقصان کا مالک نہیں تو دوسرے کو نفع و نقصان کا تو کیونکر مالک ہوں گا، پس عذاب واقع کرنا میرے اختیار میں نہیں، رہا یہ کہ کب واقع ہوگا، سو بات یہ ہے کہ) ہر امت کے ( عذاب کے) لئے ( اللہ کے نزدیک) ایک معین وقت ہے ( خواہ دنیا میں یا آخرت میں سو) جب ان کا وہ معین وقت آپہنچتا ہے تو ( اس وقت) ایک ساعت نہ پیچھے ہٹ سکتے ہیں اور نہ آگے سرک سکتے ہیں ( بلکہ فوراً عذاب واقع ہوجاتا ہے اسی طرح تمہارے عذاب کا بھی وقت معین ہے، اس وقت اس کا وقوع ہوجاوے گا اور وہ جو فرمائش کرتے ہیں کہ جو کچھ ہونا ہے جلدی ہوجاوے جیسا کہ آیت (آیت) مَتٰى هٰذَا الْوَعْدُ اور رَبَّنَا عَجِّلْ لَّنَا قِطَّنَا، میں ان کی اس جلد بازی کا ذکر ہے، تو) آپ ( اس کے متعلق ان سے) فرما دیجئے کہ یہ تو بتلاؤ اگر تم پر خدا کا عذاب رات کو آپڑے یا دن کو ( آپڑے) تو ( یہ تو بتلاؤ کہ) عذاب میں کون چیز ایسی ہے کہ مجرم لوگ اس کو جلدی ما نگ رہے ہیں ( یعنی عذاب تو سخت چیز اور پناہ مانگنے کی چیز ہے نہ جلدی مانگنے کی چیز ہے نہ جلدی مانگنے کی اور چونکہ جلد بازی سے مقصود ان کا تکذیب ہے اس لئے فرماتے ہیں کہ) کیا ( اب تو تکذیب کر رہے ہو جو کہ وقت ہے تصدیق کے نافع ہونے کا) پھر جب وہ ( اصلی موعود) آہی پڑے گا ( اس وقت) اس کی تصدیق کرو گے ( جس وقت کہ تصدیق نافع نہ ہوگی اور اس وقت کہا جائے گا کہ) ہاں اب مانا حالانکہ پہلے سے) تو ( ہمیشہ کا عذاب چکھو، تم کو تمہارے ہی کئے کا بدلہ ملا ہے اور وہ ( غایت تعجب و انکار سے) آپ سے دریافت کرتے ہیں کہ کیا عذاب واقعی امر ہے ؟ آپ فرما دیجئے ( کہ ہاں قسم میرے رب کی کہ وہ واقعی امر ہے، اور تم کسی طرح خدا کو عاجز نہیں کرسکتے ( کہ وہ عذاب دینا چاہے اور تم بچ جاؤ اور ( اس عذاب کی یہ شدت ہوگی کہ) اگر ہر ہر مشرک شخص کے پاس اتنا ( مال) ہو کہ ساری زمین میں بھر جاوے تب بھی اس کو دے کر اپنی جان بچانا چاہیں گے ( اگرچہ نہ خزانہ ہوگا اور نہ لیا جاوے گا لیکن شدت اس درجہ کی ہوگی کہ مال ہونے کی تقدیر پر ( اگرچہ نہ خزانہ ہوگا اور نہ لیا جاوے گا لیکن شدت اس درجہ کی ہوگی کہ مال ہونے کی تقدیر پر سب دینے پر راضی ہوجاویں گے) اور جب عذاب دیکھیں گے تو ( مزید فضیحت کے خوف سے پشیمانی کو ( اپنے دل ہی دل میں) پوشیدہ رکھیں گے ( یعنی اس کے آثار قولیہ و فعلیہ کو ظاہر نہ ہونے دیں گے، تاکہ دیکھنے والے زیادہ نہ ہنسیں لیکن آخر میں یہ ضبط و تحمل بھی اس کی شدت کے سامنے نہ چلے گا) اور ان کا فیصلہ انصاف کے ساتھ ہوگا اور ان پر ( ذرا) ظلم نہ ہوگا، یاد رکھو کہ جتنی چیزیں آسمانوں میں اور زمین میں ہیں سب اللہ ہی کی ملک ہیں ( ان میں جس طرح چاہے تصرف کرے اور ان میں یہ مجرم بھی داخل ہیں ان کا فیصلہ بھی بطریق مذکور کرسکتا ہے) یاد رکھو کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے ( پس قیامت ضرور آوے گی) لیکن بہت سے آدمی یقین ہی نہیں کرتے، وہی جانا ڈالتا ہے، وہی جان نکالتا ہے، پس دوبارہ پیدا کرنا اس کو کیا مشکل ہے) اور تم سب اسی کے پاس لائے جاؤ گے ( اور حساب و کتاب اور پھر اس پر ثواب و عذاب ہوگا ) ۔ معارف و مسائل (آیت) يَتَعَارَفُوْنَ بَيْنَھُمْ : یعنی جب قیامت میں مردے قبروں سے اٹھائے جاویں گے تو ایک دوسرے کو پہچانیں گے جیسے کوئی طویل مدت ملے ہوئے نہ گزری ہو۔ امام بغوی نے اس کی تفسیر میں فرمایا کہ یہ پہچان شروع میں ہوگی بعد میں قیامت کے ہولناک واقعات سامنے آجائیں گے تو یہ پہچان منقطع ہوجائے گی اور بعض روایات میں ہے کہ پہچان تو پھر رہے گی مگر ہیبت کے مارے بات نہ کرسکیں گے ( مظہری )

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَيَوْمَ يَحْشُرُھُمْ كَاَنْ لَّمْ يَلْبَثُوْٓا اِلَّا سَاعَۃً مِّنَ النَّہَارِ يَتَعَارَفُوْنَ بَيْنَھُمْ۝ ٠ ۭ قَدْ خَسِرَ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِلِقَاۗءِ اللہِ وَمَا كَانُوْا مُہْتَدِيْنَ۝ ٤٥ حشر الحَشْرُ : إخراج الجماعة عن مقرّهم وإزعاجهم عنه إلى الحرب ونحوها، وروي : «النّساء لا يُحْشَرن» أي : لا يخرجن إلى الغزو، ويقال ذلک في الإنسان وفي غيره، يقال : حَشَرَتِ السنة مال بني فلان، أي : أزالته عنهم، ولا يقال الحشر إلا في الجماعة، قال اللہ تعالی: وَابْعَثْ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء/ 36] وَحَشَرْناهُمْ فَلَمْ نُغادِرْ مِنْهُمْ أَحَداً [ الكهف/ 47] ، وسمي يوم القیامة يوم الحشر کما سمّي يوم البعث والنشر، ورجل حَشْرُ الأذنین، أي : في أذنيه انتشار وحدّة . ( ح ش ر ) الحشر ( ن ) ( ح ش ر ) الحشر ( ن ) کے معنی لوگوں کو ان کے ٹھکانہ سے مجبور کرکے نکال کر لڑائی وغیرہ کی طرف لے جانے کے ہیں ۔ ایک روایت میں ہے (83) النساء لایحضرون کہ عورتوں کو جنگ کے لئے نہ نکلا جائے اور انسان اور غیر انسان سب کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ کہا جاتا ہے ۔ حشرت النسۃ مال بنی فلان یعنی قحط سالی نے مال کو ان سے زائل کردیا اور حشر کا لفظ صرف جماعت کے متعلق بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : وَابْعَثْ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء/ 36] اور شہروں میں ہر کار سے بھیج دیجئے ۔ اور قیامت کے دن کو یوم الحشر بھی کہا جاتا ہے جیسا ک اسے یوم البعث اور یوم النشور کے ناموں سے موسوم کیا گیا ہے لطیف اور باریک کانوں والا ۔ لبث لَبِثَ بالمکان : أقام به ملازما له . قال تعالی: فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ [ العنکبوت/ 14] ، ( ل ب ث ) لبث بالمکان کے معنی کسی مقام پر جم کر ٹھہرنے اور مستقل قیام کرنا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ [ العنکبوت/ 14] تو وہ ان میں ۔ ہزار برس رہے ۔ ساعة السَّاعَةُ : جزء من أجزاء الزّمان، ويعبّر به عن القیامة، قال : اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر/ 1] ، يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف/ 187] ( س و ع ) الساعۃ ( وقت ) اجزاء زمانہ میں سے ایک جزء کا نام ہے اور الساعۃ بول کر قیامت بھی مراد جاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر/ 1] قیامت قریب آکر پہنچی ۔ يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف/ 187] اے پیغمبر لوگ ) تم سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں ۔ نهار والنهارُ : الوقت الذي ينتشر فيه الضّوء، وهو في الشرع : ما بين طلوع الفجر إلى وقت غروب الشمس، وفي الأصل ما بين طلوع الشمس إلى غروبها . قال تعالی: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان/ 62] ( ن ھ ر ) النھر النھار ( ن ) شرعا طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب کے وقت گو نھار کہاجاتا ہے ۔ لیکن لغوی لحاظ سے اس کی حد طلوع شمس سے لیکر غروب آفتاب تک ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان/ 62] اور وہی تو ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے والا بیانا ۔ تعارف المَعْرِفَةُ والعِرْفَانُ : إدراک الشیء بتفکّر وتدبّر لأثره، وهو أخصّ من العلم، ويضادّه الإنكار، قال تعالی: فَلَمَّا جاءَهُمْ ما عَرَفُوا[ البقرة/ 89] ، وتَعَارَفُوا : عَرَفَ بعضهم بعضا . قال : لِتَعارَفُوا[ الحجرات/ 13] ، ( ع رف ) المعرفۃ والعرفان کے معنی ہیں کسی چیز کی علامات وآثار پر غوروفکر کرکے اس کا ادراک کرلینا یہ علم سے اخص یعنی کم درجہ رکھتا ہے اور یہ الانکار کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے ، قرآن میں ہے ؛ فَلَمَّا جاءَهُمْ ما عَرَفُوا[ البقرة/ 89] پھر جس کو وہ خوب پہنچانتے تھے جب ان کے پاس آپہنچی تو اس کافر ہوگئے تعارفوا انہوں نے باہم ایک دوسرے کو پہچان لیا ۔ قرآن میں ہے : لِتَعارَفُوا[ الحجرات/ 13] تا کہ ایک دوسرے کو شناخت کرو ۔ خسر ويستعمل ذلک في المقتنیات الخارجة کالمال والجاه في الدّنيا وهو الأكثر، وفي المقتنیات النّفسيّة کالصّحّة والسّلامة، والعقل والإيمان، والثّواب، وهو الذي جعله اللہ تعالیٰ الخسران المبین، وقال : الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر/ 15] ، ( خ س ر) الخسروالخسران عام طور پر اس کا استعمال خارجی ذخائر میں نقصان اٹھانے پر ہوتا ہے ۔ جیسے مال وجاء وغیرہ لیکن کبھی معنوی ذخائر یعنی صحت وسلامتی عقل و ایمان اور ثواب کھو بیٹھنے پر بولا جاتا ہے بلکہ ان چیزوں میں نقصان اٹھانے کو اللہ تعالیٰ نے خسران مبین قرار دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر/ 15] جنہوں نے اپنے آپ اور اپنے گھر والوں کو نقصان میں ڈٖالا ۔ دیکھو یہی صریح نقصان ہے ۔ لقی اللِّقَاءُ : مقابلة الشیء ومصادفته معا، وقد يعبّر به عن کلّ واحد منهما، يقال : لَقِيَهُ يَلْقَاهُ لِقَاءً ولُقِيّاً ولُقْيَةً ، ويقال ذلک في الإدراک بالحسّ ، وبالبصر، وبالبصیرة . قال : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران/ 143] ، وقال : لَقَدْ لَقِينا مِنْ سَفَرِنا هذا نَصَباً [ الكهف/ 62] . ومُلَاقَاةُ اللہ عز وجل عبارة عن القیامة، وعن المصیر إليه . قال تعالی: وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة/ 223] ( ل ق ی ) لقیہ ( س) یلقاہ لقاء کے معنی کسی کے سامنے آنے اور اسے پالینے کے ہیں اور ان دونوں معنی میں سے ہر ایک الگ الگ بھی بولاجاتا ہے اور کسی چیز کا حس اور بصیرت سے ادراک کرلینے کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران/ 143] اور تم موت ( شہادت ) آنے سے پہلے اس کی تمنا کیا کرتے تھے اور ملاقات الہی سے مراد قیامت کا بپا ہونا اور اللہ تعالیٰ کے پاس چلے جانا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة/ 223] اور جان رکھو کہ ایک دن تمہیں اس کے دوبرو حاضر ہونا ہے ۔ اهْتِدَاءُ يختصّ بما يتحرّاه الإنسان علی طریق الاختیار، إمّا في الأمور الدّنيويّة، أو الأخرويّة قال تعالی: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِها [ الأنعام/ 97] ، وقال : إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ لا يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلا يَهْتَدُونَ سَبِيلًا[ النساء/ 98] ويقال ذلک لطلب الهداية نحو : وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ وَالْفُرْقانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة/ 53] ، الاھتداء ( ہدایت پانا ) کا لفظ خاص کر اس ہدایت پر بولا جاتا ہے جو دینوی یا اخروی کے متعلق انسان اپنے اختیار سے حاصل کرتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِها [ الأنعام/ 97] اور وہی تو ہے جس نے تمہارے لئے ستارے بنائے تاکہ جنگلوں اور در یاؤ کے اندھیروں میں ان سے رستہ معلوم کرو

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٥) اور جس دن اللہ تعالیٰ ان یہود و نصاری اور مشرکین کو اس کیفیت سے جمع کرے گا کہ وہ قبروں میں سارے دن کی ایک آدھ گھڑی رہے ہوں گے اور بعض مقامات میں آپس میں ایک دوسرے کو پہچان بھی رہے ہوں گے، گھاٹے میں وہ لوگ رہے جنہوں نے اللہ کے پاس جانے کو جھٹلایا کہ دنیا و آخرت سب ان کے ہاتھ سے جاتی رہی اور یہ کفر وضلالت سے ہدایت پانے والے نہ تھے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٥ (وَیَوْمَ یَحْشُرُہُمْ کَاَنْ لَّمْ یَلْبَثُوْٓا الاَّ سَاعَۃً مِّنَ النَّہَارِ یَتَعَارَفُوْنَ بَیْنَہُمْ ط) انہیں دنیا اور عالم برزخ میں گزرا ہوا وقت ایسے محسوس ہوگا جیسے کہ وہ ایک دن کا کچھ حصہ تھا۔ (قَدْ خَسِرَ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِلِقَآء اللّٰہِ وَمَا کَانُوْا مُہْتَدِیْنَ ) آگے عذاب کی اس دھمکی کا ذکر آ رہا ہے جس کے بارے میں آیت ٣٩ میں فرمایا گیا تھا : (وَلَمَّا یَاْتِہِمْ تَاْوِیْلُہٗ ط) کہ اس کی تاویل ابھی ان کے پاس نہیں آئی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

53. A time will come when such people will, on the one hand, come face to face with the infinite life of the Hereafter, and on the other, they will took back at their past worldly life and realize how puny it was as compared to the life ahead. It is then that they will comprehend what folly they have committed by ruining their eternal future for the sake of ephemeral pleasures and benefits in this worldly life. 54. This refers to the unbelievers' rejection that a time will come when everyone will have to stand before God for His judgement.

سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :53 یعنی جب ایک طرف آخرت کی بے پایاں زندگی ان کے سامنے ہو گی اور دوسری طرف یہ پلٹ کر اپنی دنیا کی زندگی پر نگاہ ڈالیں گے تو انہیں مستقبل کے مقابلہ میں اپنا یہ ماضی نہایت حقیر محسوس ہوگا ۔ اس وقت ان کو اندازہ ہوگا کہ انہوں نے اپنی سابقہ زندگی میں تھوڑی سی لذتوں اور منفعتوں کی خاطر اپنے اس ابدی مستقبل کو خراب کر کے کتنی بڑی حماقت کا ارتکاب کیا ہے ۔ سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :54 یعنی اس بات کو کہ ایک دن اللہ کے سامنے حاضر ہونا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

24: یعنی دنیوی زندگی انہیں اتنی قریب معلوم ہوگی کہ انہیں ایک دوسرے کو پہچاننے میں وہ دشواری پیش نہیں آئے گی جو کسی کو عرصہ دراز کے بعد دیکھنے کی وجہ سے عموماً پیش آیا کرتی ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٤٥۔ حاصل معنے آیت کے یہ ہیں کہ نافرمان لوگ اب تو دنیا میں اپنا قیام دنیاوی ہمیشہ کا خیال کر کے غفلت میں عمر گزار رہے ہیں اور جانتے ہیں کہ دنیا کے رہنے میں انہوں نے بہت کچھ پھل پایا لیکن قیامت کے دن یہ لوگ جب اپنی کمائی اور اپنا دنیا کا رہنا آخرت کے نفع سے بالکل خالی پاویں گے اور فرمانبرداروں کو دیکھیں گے کہ ان کے دنیا کے نیک کاموں نے ان کو بہت کچھ نفع دیا اور انہوں نے اپنی نافرمانی کی سزا میں بہت کچھ نقصان اٹھایا تو یہ لوگ اپنے دنیا کے رہنے کو بالکل حقیر اور گھڑی دو گھڑی کا ٹکاؤ خیال کریں گے۔ معتبر سند سے طبرانی کبیر میں عبد اللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سورج کی گرمی اور پسینے کے سبب سے بڑے بڑے گناہگاروں کو اس قدر تکلیف ہوگی کہ وہ اس تکلیف سے نجات پاکر دوزخ میں جانا پسند کریں گے۔ ١ ؎ اس مضمون کی روایت جابر (رض) سے مستدرک حاکم میں بھی اور حاکم نے اس کو صحیح کہا ہے۔ ٢ ؎ صحیح مسلم کے حوالہ سے انس بن مالک (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جن گنہگاروں نے دنیا میں بڑی راحت سے عمر بسر کی ہے دوزخ میں جاتے ہی ان کو وہ دنیا کی راحت یاد نہ رہے گی۔ ٣ ؎ صحیح مسلم کے حوالہ سے مستورد بن شداد (رض) کی حدیث بھی ایک جگہ گزر چکی ہے۔ ٤ ؎ جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عقبے کی راحتوں کی مثال ایک دریا کی سی ہے جس کے مقابلہ میں تمام دنیا کی راحتیں ایسی ہیں جیسے پانی کی تھوڑی سی نمی۔ ان حدیثوں کو آیت کے ساتھ ملانے سے آیت کی یہ تفسیر قرار پاتی ہے کہ میدان حشر کی تکلیفوں کے مقابلہ میں تو یہ لوگ دنیا کی راحت کی زندگی کو گھڑی دو گھڑی کی زندگی خیال کریں گے اور پھر دوزخ میں جاتے ہی دنیا کی راحت کو بالکل بھول جاویں گے اور جس طرح پانی کی تھوڑی سی نمی کے لالچ میں کوئی دریا کو ہاتھ سے کھو بیٹھے ان بےراہ قیامت کے جھٹلانے والوں کا ایسا ہی نقصان اس دن ہوگا کہ دنیا کی چند روزہ راحت کی غفلت کے سبب سے عقبیٰ کی بےحساب ہمیشہ کی راحتوں کو یہ لوگ ہاتھ سے کھو بیٹھیں گے۔ جھوٹے معبودوں اور ان کے پوجنے والوں کی آپس کی بیزاری کا ذکر جو اوپر گزرا اس بیزاری کے جھگڑے تک تو ان میں آپس کی جان پہچان رہے گی اور پھر یہ بات جاتی رہے گی اس تھوڑی سی جان پہچان کا ذکر آیت میں ہے۔ ١ ؎ مجمع الزوائد ص ٣٣٦ ج ١٠ باب ماجاء فی حصول المطلع و شتہ یوم القیمۃ۔ ٢ ؎ الترغیب ص ٢٩٥ ج ٢ فصل فی الحشر۔ ٣ ؎ مشکوۃ ص ٥٠٣ باب صفۃ النار واہلہا۔ ٤ ؎ تفسیر ہذا جلد دوم ص ٣٧٠، ٤٣٩۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(10:45) یوم۔ ای اذکر یا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یاد کرو اس دن کو۔ یحشرھم۔ جب وہ ان کو اکٹھا کرے گا۔ کان۔ گویا کہ ۔ کان اصل میں کان ہی تھا۔ اسی کی طرح اس کا معنوی فائدہ بھی ہے لیکن تخفیف نون کے بعد عمل اور لفظی تصرف ساقط ہوجاتا ہے۔ اب نہ اسم کو نصب دے سکتا ہے اور نہ خبر کو رفع جو کان کا خصوصی عمل ہے۔ لم یلبثوا۔ مضارع نفی جحد بلم۔ جمع مذکر غائب۔ وہ نہیں ٹھہرے۔ وہ نہیں رہے۔ لبث (باب سمع) ۔ یتعارفون بینہم۔ آپس میں ایک دوسرے کو پہچانیں گے (بھی) لیکن ایک دوسرے کی مدد نہ کرسکیں گے۔ اس سے اور رنج و صدمہ بڑھے گا۔ کیونکہ شناسا لوگوں سے توقع نفع کی ہوا کرتی ہے۔ اور جس دن ایسا ہوگا کہ اللہ ان سب کو اپنے حضور جمع کریگا۔ اس دن انہیں ایسا معلوم ہوگا گویا (دنیا میں) اس سے زیادہ نہیں ٹھہرے جیسے گھڑی بھر کو لوگ ٹھہر جائیں (ترجمان القرآن) ۔ قد خسر الذین کذبوا بلقاء اللہ وما کانوا مھتدین۔ اس میں ما کانوا مھتدین۔ صفت ہے الذین کذبوا بلقاء اللہ کی۔ اور ترجمہ یوں یوگا :۔ تحقیق گھاٹے میں رہے وہ لوگ جنہوں نے اللہ کی ملاقات کو جھٹلایا ۔ اور وہ ہرگز ہدایت یافتہ نہ تھے۔ (راہ راست پر نہ تھے) (تفہیم القرآن۔ ضیاء القرآن) یا ترجمہ یوں ہوگا :۔ جن لوگوں نے اللہ کی ملاقات کو جھٹلایا۔ اور راہ ہدایت سے انکار کیا۔ وہ سخت گھاٹے میں رہے۔ (عبد اللہ یوسف علی)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 ۔ یعنی قبر میں رہنا اس دن ایک گھڑی بھر معلوم ہوگا۔ (موضح) ۔ یا دنیا میں جیسے ایک گھڑی رہے ہیں اور تعارف کی یہ کیفیت قبروں سے نکلتے وقت یا شروع شروع میں ہوگی۔ پھر جب حشر کی شدت شروع ہوجائے گی تو سب ایک دوسرے کو بھول جائیں گے جیسا کہ قرآن کی دوسری آیات سے معلوم ہوتا ہے۔ (کبیر) ۔ 5 ۔ دنیا میں حیوانوں کی سے بےاصولی زندگی بسر کی اور آخرت میں بھی جہنم کا ایندھن بنے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 45 تا 49 یحشر (وہ جمع کرے گا) لم یلبثوا (وہ نہ ٹھہریں گے) ساعۃ (ایک گھڑی، کچھ مدت) خسر (نقصان اٹھایا) نرین (ہم ضرور دکھائیں گے) نعد (ہم وعدہ کرتے ہیں) نتوفین (ہم وفات دیں گے، موت دیں گے) شھید (گواہ) قضی (فیصلہ کردیا گیا) القسط (انصاف، پورا پورا) لا املک (میں مالک نہیں ہوں) اجل (مدت ، موت) لایستاخرون (وہ دیر نہیں کرتے ہیں) لایستقدمون (وہ آگے نہیں بڑھتے ہیں) ۔ تشریح : آیت نمبر 45 تا 49 وہ دن جب کہ اللہ تعالیٰ اس نظام کائنات کو توڑ کر ایک ایسی نئی زمین تیار فرمائیں گے جس میں ابتدائے کائنات سے قیامت تک پیدا ہونے والے انسانوں کو ایک جگہ جمع فرمائیں گے۔ اسی کو میدان حشر کہا اجتا ہے۔ حشر کے اس دن جہاں ایمان و عمل صالح رکھنے والوں کو ان کی اپنی منزل مل جائے گی اور ان کی کامیابی کا دن ہوگا وہی کفار و مشرکین اور بےدینوں کے لئے بڑا ہیبت ناک اور دل و دماغ کو جھلسانے والا دن ہوگا۔ دنیا کی اس عارضی قیام گاہ میں عیش و عشرت، رنگ رلیوں، راحت و آرام اور سیر و تفریح میں مگن، آخرت کی زندگی سے بےپرواہ لوگ جن کو نہ تو فکر آخرت تھی اور نہ ان کو اس بات کا یقین تھا کہ ایک دن مر کر اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے جب وہ غور کریں گے تو ان کو دنیا کی زندگی اور اس میں گذارے ہوئے لمحے اور دن رات ایسے محسوس ہوں گے جیسے وہ کسی جگہ ایک گھڑی بھر کے لئے رک گئے تھے۔ رشتہ داریاں ، تعلقات اور زندگی کے سامان جن پر وہ جان دیتے تھے آج ان کے کسی کام نہ آسکیں گے۔ رشتہ اور تعلق والے ایک دوسرے کو پہنچانیں گے مگر وہ کسی کی کوئی مدد نہ کرسکیں گے کیونکہ ان کو خود اپنی فکر کھائے جا رہی ہوگی۔ ہر شخص کے سامنے اس ہولناک دن میں ایک طرف تو وہ چند سال ہوں گے جو وہ اپنی زندگی کی صورت میں گذار کر آیا ہے اور دوسری طرف کبھی نہ ختم ہونے والی اس لا محدود زندگی کا تصور ہوگا جسے وہ جنت یا جہنم میں گذارے گا۔ وہ جھوٹے معبود جن کے سامنے وہ جھکا کرتا تھا اور یہ سمجھتا تھا کہ وہ آخرت میں کام آئیں گے وہ بھی ان کے کام نہ آسکیں گے۔ وہ جھوٹے معبود جن کے سامنے وہ جھکا کرتا تھا اور یہ سمجھتا تھا کہ وہ آخرت میں کام آئیں گے وہ بھی ان کے کام نہ آسکیں گے۔ اس دن تو اس کے صرف اپنے اعمال ہی کام آئیں گے۔ جس نے اپنا مضبوط رشتہ اللہ اور اس کے رسول سے جوڑا ہوگا وہی اس کا سہارا ہوں گے لیکن جس نے اللہ و رسول کی اطاعت و فرماں برداری سے منہ پھیرا ہوگا ان کے لئے سوائے حسرت و افسوس کے کچھ بھی نہ ہوگا۔ ان آیات میں اسی طرح متوجہ فرمایا گیا ہے اور اس میں چند باتیں ارشاد فرمائی گئی ہیں۔ 1) دنیا میں گذارے ہوئے لمحے آخرت کے مقابلے میں اس قدر معمولی ہوں گے کہ ہر شخص یہ محسوس کرے گا کہ اس نے دنیا کو جب سب کچھ سمجھ رکھا تھا اس کی حیثیت پل دو پلے کے وقت سے زیادہ نہ تھی کاش کہ وہ ان لمحات کی قدر کر کے اپنے دن رات کو قیمتی بنا لیتا ۔ 2) رشتہ وتعلق والے ایک دوسرے کو اچھی طرح پہچانیں گے مگر کوئی کسی کے اس لئے کام نہ آسکے گا کیونکہ ہر شخص کو اپنی اپنی فکر پڑی ہوئی ہوگی کہ اس کا انجام کیا ہوگا۔ 3) نقصان میں صرف وہی لوگ رہیں گے جنہوں نے آخرت کی فکر کرنے کے بجائے دنیا کی زندگی کو سب کچھ سمجھ کر اس بات کو فراموش کردیا تھا کہ ایک دن ان کو اللہ تعالیٰ کے سامنے جا کر اپنے ایک ایک لمحہ کا حساب دینا ہے۔ 4) اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرما دیا کہ اے ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! یہ تو آخرت کا معاملہ ہے جسے وہ دیکھیں گے لیکن بد اعمال لوگوں کو بہت کچھ سزا تو اس دنیا میں بھی دیدی جاتی ہے۔ یہ کفار و مشرکین جو اپنی سرداریوں، اولاد اور دنیا کی حقیر سی دولت اور چیزوں پر ناز کرتے ہوئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معمولی سمجھ رہے ہیں اور آپ کی اطاعت کا انکار کر رہے ہیں یہ آپ کی دنیاوی زندگی میں یا آپ کے بعد خود اس عذاب کا کچھ مزا چکھ لیں گے جس کا یہ برابر انکار کر رہے ہیں۔ آخرت کا معاملہ اس کے بعد کا ہے۔ 5) ہر امت کے لئے ایک رسول ہے۔ جب وہ رسول آجاتا ہے اور لوگ اس کی نافرمانی کرتے ہیں تو پھر فیصلہ کردیا جاتا ہے لیکن کسی کے ساتھ کسی قسم کی زیادتی نہیں کی جاتی اور پورا پورا انصاف کیا جاتا ہے۔ نبی اور رسول میں فرق یہ ہے کہ رسول اس کو کہتے ہیں جو صاحب کتاب و شریعت ہو اور نبی وہ ہوتا ہے جو صاحب کتاب و شریعت نہیں ہوتا، مگر اللہ کی طرف سے انسانوں کی ہدایت کے لئے مقرر کیا جاتا ہے اور وہ کسی کتاب و شریعت رسول کی تعلیمات کو لوگوں تک پہنچاتا ہے۔ ہر رسول نبی ہوتا ہے لین ہر نبی رسول نہیں ہوتا۔ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ تین سو تیرہ یا تین سو پندرہ رسول انسانوں کی اصلاح کے لئے تشریف لائے اور ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی تشریف لائے۔ آخر میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نیا اور رسول حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھیجا جو اللہ کے آخری نبی اور آخری رسول ہیں جن کے بعد نبوت و رسالت کا سل سلہ قانمت تک کے لئے بند ہوچکا ہے۔ اب آپ کے بعد جو بھی نبوت و رسالت کا دعویٰ کرتا ہے وہ جھوٹا ہے۔ فرمایا یہ جا رہا ہے کہ اللہ کا قانون یہ ہے کہ ہر امت میں ایک رسول بھیجا ہے اور اس نے اپنے آخری نبی و رسول حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بنا کر بھیج دیا ہے جس طرح گزشتہ رسولوں اور نبیوں کی امتوں نے ان کی اطاعت و فرماں برداری کر کے اپنی آخرت کو سنوارا ہے اور ان کی نافرمانی کر کے اپنی دنیا و آخرت کو برباد کر ڈالا ہے اب یہ آخری موقع ہے جب کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے ہیں ان کی اطاعت کر کے اپنی آخرت کو اور دنیا کو سنوارا جاسکتا ہے لیکن اگر یہاں ناکامی ہوگئی تو قیامت تک اصلاح کرنے کیلئے کوئی نیا نبی یا رسول نہیں آئے گا۔ اب آپ کے ماننے والے ہی امتی کہلائیں گے۔ اور ان ہی کی نجات ہوگی۔ 6) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ اس کے انبایء اور رسولوں کا اور ان کی تعلیمات کا مذاق اڑایا گیا ہے اور یہ کہا جاتا رہا ہے کہ یہ اللہ کے نبی جس عذاب کی دھمکی دے رہے ہیں نعوذ باللہ اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے یہ محض ایک دھمکی ہے۔ ان کی جرأت و ہمت یہاں تک بڑھ گئی کہ جس طرح اور انبیاء کرام سے کہا گیا۔ نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مذاق اڑاتے ہوئے کہہ دیا گیا کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! تم جس عذاب کے آنے کی باتیں کرتے ہو اب تم اس دھمکی کو عملی جامہ پہنا دو اور اس عذاب کو لے آئو۔ آخر وہ عذاب کب آئے گا ؟ اللہ تعالیٰ نے ان کی اس گستاخی کا یہ جواب مرحمت فرمایا ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ ان سے اصول کی ایک بات بتا دیجئے کہ کس قوم پر عذاب آئے گا یا نہیں ؟ اس کا تعلق اللہ تعالیٰ کی ذات سے وہ جب چاہے گا عذاب نازل کر دے گا۔ اگر نہیں چاہے گا تو عذاب نہیں آئے گا مجھے اس کا اختیار نہیں دیا گیا۔ میں تو خود اپنی ذات کے لئے کسی نفع اور نقصان کا مالک نہیں ہوں سوائے اس کے جو اللہ تعالیٰ چاہے ۔ جب میں اپنے نفع اور نقصان کا مالک نہیں ہوں بلکہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے تو میں کسی کے نفع اور نقصان کا مالک کیسے ہو سکتا ہوں ۔ میرے اختیار میں یہ بات ہے کہ میں اللہ کا پیغام ساری دنیا تک پہنچا دوں۔ جو مانتا ہے وہ سعادت مند ہے اور جو نہیں مانتا اس کی دنیا اور آخرت دونوں تباہ و برباد ہو کر رہ جائیں گی وہ پیغام میں پہنچا چکا ہوں۔ اب اس کے بعد اللہ کا اپنے بندہ کے ساتھ کیا معاملہ ہے مجھے نہیں معلوم البتہ اللہ کا یہ قانون ہے کہ جب کسی قوم پر عذاب آتا ہے تو اس کے لئے جو وقت مقرر کردیا جاتا ہے اس میں ایک لمحہ کے لئے نہ جلدی ہوتی ہے اور نہ اس میں تاخیر کی جاتی ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ اوپر آیت کذالک کذب الخ۔ میں کفر و تکذیب پر عذاب کی وعید فرمائی ہے اور آگے اس عذاب کے دنیا میں واقع نہ ہو سے جو وہ کفار جو شبہات کرتے تھے ان کا جواب بضمن تحقیق معاد کے بتلاتے ہیں جس کا حاصل یہ ہے کہ احیانا دنیا میں گو واقع ہوجائے لیکن اصلی وقت اس کا یوم حشر ہے اسی لیے دنیا میں اس کے صرف بعض شعبے واقع ہوتے ہیں لقولہ تعالیٰ بعض الذ۔ اور کامل طور پر اسی وقت ہوگا۔ لقولہ تعالیٰ ولوان لکل نفس۔ پس دنیا میں واقع نہ ہونا نہ مضر ہے اور نہ میرے اختیار میں ہے۔ لقولہ تعالیٰ قل لا املک۔ اور نہ تمہارے لیے مصلحت ہے کیونکہ فوری وقوع میں مہلت ایمان کی بھی فوت ہوجائے گی لقولہ تعالیٰ ماذا یستعجل۔ 5۔ چونکہ وہ دن مدید ہوگا اور شدید بھی ہوگا اس لیے دنیا اور برزخ کی مدت اور تکلیف سب بھول کر ایسا سمجھیں گے کہ وہ زمانہ بہت جلد گذر گیا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : ظالموں کا انجام۔ قرآن مجید کا انکار اور سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تکرار کرنے کی بنیادی وجہ آخرت کا انکار تھا۔ جس آدمی کا یہ عقیدہ ہو کہ میں نے مرنے کے بعد اٹھ کر رب ذوالجلال کی عدالت میں پیش ہونا ہے ایسا شخص زیادہ عرصہ تک قرآن مجید کے حقائق اور صاحب قرآن کی نبوت کا انکار نہیں کرسکتا۔ یہ بےباکی اور غفلت اسی شخص میں پیدا ہوا کرتی ہے جو اپنے رب کی ملاقات کا عملاً یا اعتقاداً منکر ہو۔ اس بناء پر منکرین قرآن کو احساس دلایا جارہا ہے کہ اس دن کو یاد کرو۔ جب سب کو اکٹھا کیا جائے گا تم ایک دوسرے کو اچھی طرح پہچانو گے۔ باوجود اس کے کہ تم ایک عرصہ تک دنیا میں رہے مگر قیامت کی ہولناکیوں کو دیکھ کر تمہاری کیفیت یہ ہوگی کہ تم یہ خیال کرو گے کہ ہم دنیا میں چند گھڑیوں کے سوا نہیں ٹھہرے۔ یاد رکھو ! اللہ تعالیٰ کی ملاقات کو جھٹلانے والے نقصان میں رہیں گے اور ایسے لوگ ہدایت سے محروم ہوتے ہیں۔ انہیں عذاب کی دھمکی دی جائے یا برے انجام سے ڈرایا جائے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کا مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ عذاب جلد آنا چاہیے انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے گا تو آپ کی زندگی میں یہ اس سے دوچار ہوں گے۔ نہیں تو آپ کی وفات کے بعد ان کو وہ کچھ دکھلائے گا جس کا ان کے ساتھ قرآن کے الفاظ میں وعدہ کیا جاتا ہے۔ یقیناً یہ کام ہو کر رہے گا۔ انہیں بہرصورت ہمارے پاس آنا ہے اور اللہ تعالیٰ ان کے ہر عمل اور بات پر گواہ ہے۔ درحقیقت ہر امت کے لیے رسول ہوتا ہے۔ جو انہیں کھول کھول کر اللہ تعالیٰ کے احکام سناتا اور اس کی نافرمانی سے ڈراتا ہے۔ جب لوگ رسول کی تکذیب کرتے ہیں تو ان کے درمیان نہایت عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کردیا جاتا ہے۔ اس میں ان پر کوئی زیادتی نہیں کی جاتی۔ لہٰذا آپ انہیں سمجھاتے رہیں باوجود اس کے یہ جلد بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آپ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ عذاب کا وعدہ کب پورا ہوگا۔ کفار کا مطالبہ : (وَاِذْ قَالُوْا اللّٰھُمَّ اِنْ کَانَ ھَٰذَا ھُوَالْحَقَّ مِنْ عِنْدِکَ فَاَمْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَۃً مِّنَ السَّمَآءِ اَوِاءْتِنَا بَعَذَابٍ اَلِیْمٍ وَمَا کَان اللّٰہُ لِیُعَذِّبَھُمْ وَاَنْتَ فِیْھِمْ وَمَا کَان اللّٰہُ مُعَذِّبَھُمْ وَھُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ )[ الانفال : ٣٢۔ ٣٣] ” اور جب انہوں نے کہا اے اللہ ! اگر یہ تیری طرف سے حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا۔ یا ہم پر کوئی دردناک عذاب لے آ اور نہیں اللہ ہے کہ انہیں عذاب دے کہ آپ ان میں ہیں اور اللہ انہیں کبھی عذاب دینے والا نہیں جبکہ وہ بخشش مانگتے ہوں۔ “ مسائل ١۔ دنیا کی زندگی آخرت کے مقابلہ میں ایک پل کی مانند ہے۔ ٢۔ قیامت کے دن لوگ ایک دوسرے کو پہچان لیں گے۔ ٣۔ قیامت کو جھٹلانے والے ناکام ہوں گے۔ ٤۔ آخرت کا انکار کرنے والے ہدایت یافتہ نہیں ہوسکتے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک کے اعمال پر گواہ ہے۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ رسول بھیجنے کے بعد عدل و انصاف کا فیصلہ فرماتا ہے۔ ٧۔ اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ ٨۔ کفار اللہ تعالیٰ کے عذاب کا مطالبہ کیا کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن جہنمی قیامت کے دن ایک دوسرے کو اچھی طرح پہچان لیں گے : ١۔ اس دن اللہ تعالیٰ انہیں جمع کرے گا اور وہ تصور کریں گے گویا کہ وہ دن کی ایک گھڑی ہی ٹھہرے ہیں اور وہ ایک دوسرے کو پہچان لیں گے۔ (یونس : ٤٥) ٢۔ جب سارے جہنم میں جمع ہوجائیں گے تو پچھلے اگلوں کی نسبت کہیں گے انہوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا۔ (الاعراف : ٣٨) ٣۔ تم پر اللہ کی مار تمہاری وجہ سے اس مصیبت کا ہمیں سامنا کرنا پڑا ہے۔ (ص : ٦٠) ٤۔ اے کاش آپ ان ظالموں کو دیکھتے جب وہ اپنے رب کے حضور کھڑے ہوں گے اور ایک دوسرے کی بات کا جواب دیں گے۔ (سبا : ٣١) ٥۔ جب وہ جہنم میں ایک دوسرے سے جھگڑیں گے تو کمزور ان سے کہیں گے جو بڑے بنے ہوئے تھے کہ یقیناً ہم تو تمہارے پیچھے چلنے والے تھے، تو کیا تم ہم سے آگ کا کوئی حصہ ہٹاسکتے ہو۔ “ (المومن : ٤٧) ٦۔ مجرم اپنے چہروں سے پہچانے جائیں گے۔ (الرحمٰن : ٤١) ٧۔ ظالموں اور ان کے ہم جنسوں اور جن کو وہ پوجتے تھے ان کو اکٹھا کیا جائے گا۔ پھر انہیں جہنم کے راستہ پر چلایا جائے گا۔ (الصٰفٰت : ٢٢ تا ٣١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ویوم یحشرھم کان لم یلبثوا الا ساعۃ من النھار اور جس روز ہم ان کو جمع کریں گے تو ایسا معلوم ہوگا کہ (دنیا میں یا قبروں میں) ان کا قیام گویا گھڑی بھر رہا تھا۔ منظر کی ہولناکی کی وجہ سے وہ دنیوی زندگی یا قیام قبر کی میعاد کو گھڑی بھر سمجھیں گے۔ یتعارفون بینھم باہم ایک دوسرے کو پہچان لیں گے ‘ جیسے دنیا میں ان کا باہمی تعارف تھا۔ گویا تھوڑی دیر کو جدا ہوئے تھے ‘ پھر جمع ہوگئے (اور کوئی کسی کو نہیں بھولا) بغوی نے لکھا ہے : یہ باہمی شناخت قبروں سے اٹھنے کے وقت تو ہوگی ‘ پھر قیامت کی ہولناکی کی وجہ سے باہم تعارف جاتا رہے گا۔ بعض آثار میں آیا ہے کہ آدمی اپنے برابر والے کو پہچان تو لے گا مگر ہیبت اور خوف کی وجہ سے اس سے بات نہیں کرے گا۔ قد خسر الذین کذبوا بلقاء اللہ (منکرین حشر باہم تعارف کے دوران کہیں گے کہ آج) گھاٹے میں پڑگئے جنہوں نے قیامت کا (اور اللہ کے سامنے جانے کا) انکار کیا تھا۔ یا یہ اللہ کی طرف سے شہادت ہے (کافروں کا قول نہ ہوگا) ایمان چھوڑ کر کفر کو اختیار کرنا اور جنت کی جگہ جہنم نصیب ہونا بڑا گھاٹا ہے۔ وما کانوا مھتدین۔ اور نہ تھے وہ ہدایت پانے والے کہ حصول معرفت وسعادت کے جو آلات ان کو دئیے گئے تھے ‘ ان کو صحیح طور پر استعمال کرتے۔ اس جملہ میں تعجب کا مضمون ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد قیامت کے دن کا ایک منظر بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا (وَیَوْمَ یَحْشُرُھُمْ کَاَنْ لَّمْ یَلْبَثُوْا اِلَّا سَاعَۃً مِّنَ النَّھَارِ یَتَعَارَفُوْنَ بَیْنَھُمْ ) (اور انہیں وہ دن یاد دلائیے جس میں اللہ ان کو جمع فرمائے گا گویا وہ دن کے ایک حصہ میں سے صرف ایک گھڑی ٹھہرے ہیں آپس میں ایک دوسرے کو پہچانتے ہوں گے) یعنی جب وہاں حاضر ہوں گے تو جو دنیا میں لمبی عمر گزری تھی اور برزخ میں جو عرصہ دراز تک رہے تھے اس سارے وقت کو یوں سمجھیں گے کہ گویا ہم صرف ذراسی ہی دیر دنیا میں اور برزخ میں رہے قیامت کے دن کی سختی کو دیکھ کر دنیا اور برزخ کی مدت دراز کو بھول کر یوں سمجھیں گے کہ گویا دن میں سے صرف ایک گھڑی ہی وہاں گزاری ہے۔ سورۂ روم میں فرمایا (وَیَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَۃُ یُقْسِمُ الْمُجْرِمُوْنَ مَا لَبِثُوْا غَیْرَ سَاعَۃٍ ) (اور جس دن قیامت قائم ہوگی۔ مجرمین قسمیں کھائیں گے کہ ہم ایک گھڑی سے زیادہ نہیں رہے) یہ جو فرمایا کہ آپس میں ایک دوسرے کو پہچانتے ہوں گے۔ یہ صرف پہچاننے ہی کی حد تک ہوگا آپس میں ایک دوسرے کی کوئی مدد نہیں کرسکیں گے۔ مدد تو کجا ایک دوسرے پر لعنت کریں گے اور چھوٹے بڑوں پر اور بڑے چھوٹوں پر پھٹکار ڈالیں گے۔ اور سارے تعلقات وہاں ٹوٹ جائیں گے۔ پھر فرمایا (قَدْ خَسِرَ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِلِقَآء اللّٰہِ وَمَا کَانُوْا مُھْتَدِیْنَ ) جن لوگوں نے اللہ کی ملاقات کو جھٹلایا یعنی قیامت کے دن کا اور حساب اور جزا سزا کا انکار کیا یہ لوگ نقصان میں پڑگئے اور اپنی جانوں کو ہلاک کردیا۔ دنیا میں ہدایت یافتہ نہ ہوئے آخرت میں شدید عذاب میں مبتلا ہوں گے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

62: یہ تخویف اخروی ہے جو لوگ حق بات کو سننے اور سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے انہیں آخرت کے عذاب سے خبر دار رہنا چاہئے۔ “ یَوْمٍ ” کا عامل “ یَتَعَارَفُوْنَ ” ہے۔ “ وَ قوله (یَتَعَارَفُوْنَ ) یجواز ان یکون متعلقا بیوم نحشرھم ” (کبیر ج 17 ص 103 طبع جدید) ۔ “ کَاَنْ لَّمْ یَلْبَثُوْا ” سے پہلے “ يَقُوْلُوْنَ ” محذوف ہے یعنی جب ہم ان کو قبروں سے اٹھائیں گے تو وہ کہیں گے گویا کہ عالم برزخ میں ہم صرف ایک گھڑی ٹھہرے ہیں اور میدان حشر میں وہ ان لوگوں کو پہچانیں گے جنہیں دیا میں پہچانتے تھے۔ کفار و مشرکین جب آخرت کے شدید ترین اور دردناک عذاب کا مشاہدہ کریں گے تو عالم برزخ کا عذاب اس کے مقابلے میں انہیں آرام و راحت معلوم ہوگا اور وہ برزخی قیام کے زمانے کو ساعات راحت کی طرح بہت قلیل سمجھیں گے۔ بعض مفسرین نے دنیا میں قیام کی قلت مراد لی ہے۔ “ قال ابن عباس فی قبورھم وقال الضحاک فی الدنیا یستقصرون مدة لبثھم فی الدنیا والقبور لھول ما یرون الخ ” (مظہری ج 5 ص 31) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

45 اور اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ان کو وہ دن یا د دلائیے جس دن اللہ تعالیٰ ان کو اس کیفیت سے جمع کرے گا کہ وہ یہ سمجھتے ہوں گے کہ وہ دنیا میں برزخ میں گویا پورے دن میں سے ایک گھڑی بھر ٹھہرے ہوں گے اور وہ آپس میں ایک دوسرے کو پہنچانتے بھی ہوں گے بلاشبہ جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی پیشی میں حاضر ہونے کو جھٹلایا وہ اس دن بڑے خسارے اور نقصان میں رہیں گے اور وہ دنیا میں بھی راہ یافتہ نہ تھے قیامت کا دن چونکہ بہت بڑا اور سخت ہولناک ہوگا اس لئے دنیا میں رہنے یا قبر میں رہنے کی مدت کو کم سمھیں گے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی قبر میں رہنا اس دن ایک گھڑی بھر معلوم ہوگا۔