Surat Younus

Surah: 10

Verse: 50

سورة يونس

قُلۡ اَرَءَیۡتُمۡ اِنۡ اَتٰىکُمۡ عَذَابُہٗ بَیَاتًا اَوۡ نَہَارًا مَّاذَا یَسۡتَعۡجِلُ مِنۡہُ الۡمُجۡرِمُوۡنَ ﴿۵۰﴾

Say, "Have you considered: if His punishment should come to you by night or by day - for which [aspect] of it would the criminals be impatient?"

آپ فرما دیجئے کہ یہ تو بتلاؤ کہ اگر تم پر اللہ کا عذاب رات کو آپڑے یا دن کو تو عذاب میں کونسی چیز ایسی ہے کہ مجرم لوگ اس کو جلدی مانگ رہے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

50۔ 1 یعنی عذاب تو ایک نہایت ہی ناپسندیدہ چیز ہے جس سے دل نفرت کرتے ہیں اور طبیعتیں انکار کرتی ہیں، پھر یہ اس میں کیا خوبی دیکھتے ہیں اور اس کو جلدی طلب کرتے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٦] یعنی عذاب کے آنے میں ایسی کون سی مزے اور خوشی کی بات ہے جس کی وجہ سے مجرم اسے جلد طلب کر رہے ہیں یا یہ مطلب ہے کہ تعجب کا مقام ہے کہ مجرم کیسی خوفناک چیز کے لیے جلدی مچا رہے ہیں حالانکہ ایک مجرم کے لائق تو یہ تھا کہ وہ ملنے والی سزا کے تصور سے کانپ اٹھتا اور ڈر کے مارے ہلاک ہوجاتا۔ اور ایک مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جب اللہ کا عذاب آجائے گا تو اس وقت یہ لوگ جلد جلد اپنا کیا بچاؤ کرسکیں گے ؟ یہ عذاب طلب کرنے والوں کے لیے تیسرا جواب ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قُلْ اَرَءَيْتُمْ اِنْ اَتٰىكُمْ عَذَابُهٗ ۔۔ :” اَرَئَیْتُم “ کا لفظی معنی تو یہی ہے کہ ” کیا تم نے دیکھا “ مگر اہل عرب اس سے مراد ” اَخْبِرُوْنِیْ “ لیتے ہیں، یعنی اگر تم نے دیکھا ہے تو بتاؤ۔ ” بَیَاتاً “ یعنی رات کو، گھر کو ” بَیْتٌ“ اسی لیے کہتے ہیں کہ آدمی وہاں رات گزارتا ہے۔ یہ ان کے سوال ” مَتٰی ھٰذَ الْوَعْدُ “ کا دوسرا جواب ہے، یعنی اگر بالفرض عذاب رات سوتے ہوئے یا دن کی مصروفیت میں یک لخت آگیا تو وہ کون سی میٹھی اور خوش گوار چیز ہے کہ مجرم جلد از جلد اس کا مطالبہ کر رہے ہیں، وہ تو نہایت تلخ اور ناقابل برداشت چیز ہے، اس کے آنے کے بعد ایمان لانا فائدہ مند نہیں ہو سکے گا اور آخرت میں دائمی عذاب سامنے ہے، پس جب حالت یہ ہے تو اس کے آنے کی کیوں جلدی مچا رہے ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلْ اَرَءَيْتُمْ اِنْ اَتٰىكُمْ عَذَابُہٗ بَيَاتًا اَوْ نَہَارًا مَّاذَا يَسْتَعْجِلُ مِنْہُ الْمُجْرِمُوْنَ۝ ٥٠ رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام/ 40] ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی |" آنا |" ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : {إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ } [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو۔ عذب والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر، ( ع ذ ب ) العذاب سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا بياتا والبَيَاتُ والتَّبْيِيتُ : قصد العدوّ ليلا . قال تعالی: أَفَأَمِنَ أَهْلُ الْقُرى أَنْ يَأْتِيَهُمْ بَأْسُنا بَياتاً وَهُمْ نائِمُونَ [ الأعراف/ 97] ، بَياتاً أَوْ هُمْ قائِلُونَ [ الأعراف/ 4] . ( ب ی ت ) البیات البیات والتبیت کے معنی رات میں دشمن پر حملہ کرنے یعنی شبخون مارنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ أَفَأَمِنَ أَهْلُ الْقُرى أَنْ يَأْتِيَهُمْ بَأْسُنا بَياتاً وَهُمْ نائِمُونَ [ الأعراف/ 97] کیا بستیوں کے رہنے والے اس سے بےخوف ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب رات کو واقع ہو اور وہ ( بیخبر ) سو رہے ہوں ۔ بَياتاً أَوْ هُمْ قائِلُونَ [ الأعراف/ 4] رات کو آتا تھا جب کے وہ سوتے تھے یا ( دن کو ) جب وہ قیلو لہ ( یعنی دن کو آرام ) کرتے تھے ۔ ( ماذا) يستعمل علی وجهين : أحدهما . أن يكون ( ما) مع ( ذا) بمنزلة اسم واحد، والآخر : أن يكون ( ذا) بمنزلة ( الذي) ، فالأوّل نحو قولهم : عمّا ذا تسأل ؟ فلم تحذف الألف منه لمّا لم يكن ما بنفسه للاستفهام، بل کان مع ذا اسما واحدا، وعلی هذا قول الشاعر : دعي ماذا علمت سأتّقيه أي : دعي شيئا علمته . وقوله تعالی: وَيَسْئَلُونَكَ ماذا يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 219] ، فإنّ من قرأ : قُلِ الْعَفْوَ بالنّصب فإنّه جعل الاسمین بمنزلة اسم واحد، كأنّه قال : أيّ شيء ينفقون ؟ ومن قرأ : قُلِ الْعَفْوَ بالرّفع، فإنّ ( ذا) بمنزلة الذي، وما للاستفهام أي : ما الذي ينفقون ؟ وعلی هذا قوله تعالی: ماذا أَنْزَلَ رَبُّكُمْ ؟ قالُوا : أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ النحل/ 24] ، و (أساطیر) بالرّفع والنصب ( ماذا ) اور ماذا ، ، بھی دو طرح استعمال ہوتا ہے ۔ اول یہ کہ ، ، مازا کے ساتھ مل کر بمنزلہ ایک اسم کے ہو ۔ دوم یہ کہ ذا لذی کے ہو ( ما بمعنی اول یہ کہ ماذا ، ، کے ساتھ مل کر بمنزلہ ایک اسم کے ہو ۔ دوم یہ کہ ذا بمنزلہ الذی کے ہو ( ما بمعنی ای شئی کے ہو پہلی قسم کی مثال جیسے : عما ذا تسال کہ کسی چیز کے بارے میں سوال کرتے ہو اس صورت میں چونکہ ، ، ماذا اکیلا ، ، استفہام کے لئے نہیں ہے بلکہ ، ، ذا کے ساتھ مل کر ایک اسم بنتا ہے اس لئے ، ، ما ، ، کے الف کو حزف نہیں کیا گیا ۔ اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے یعنی جو چیز تجھے معلوم ہے اسے چھوڑ دے میں اس سے بچنے کی کوشش کرونگا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَيَسْئَلُونَكَ ماذا يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 219] اور یہ بھی تم سے پوچھتے ہیں کہ کہ ( خدا کی راہ میں ) کونسا مال خرچ مال کریں ۔ میں جو لوگ کو منصوب پڑھتے ہیں ۔ وہ ماذا کو بمنزلہ ایک اسم کے مانتے ہیں کونسی چیز صرف کریں مگر جن کے نزدیک ہے اور ما استفہا میہ ہے یعنی وہ کونسی چیز ہے جسے خرچ کریں ۔ اس بنا پر آیت کریمہ : ۔ ماذا أَنْزَلَ رَبُّكُمْ ؟ قالُوا : أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ النحل/ 24] کہ تمہارے پروردگار نے کیا اتارا ہی تو کہتے ہیں کہ ( وہ تو ) پہلے لوگوں کی حکایتیں ہیں ۔ میں اساطیر رفع اور نصب دونوں جائز ہیں ۔ عجل العَجَلَةُ : طلب الشیء وتحرّيه قبل أوانه، وهو من مقتضی الشّهوة، فلذلک صارت مذمومة في عامّة القرآن حتی قيل : «العَجَلَةُ من الشّيطان» «2 قال تعالی: سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء/ 37] ، ( ع ج ل ) العجلۃ کسی چیز کو اس کے وقت سے پہلے ہی حاصل کرنے کی کوشش کرنا اس کا تعلق چونکہ خواہش نفسانی سے ہوتا ہے اس لئے عام طور پر قرآن میں اس کی مذمت کی گئی ہے حتی کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا العجلۃ من الشیطان ( کہ جلد بازی شیطان سے ہے قرآن میں ہے : سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء/ 37] میں تم لوگوں کو عنقریب اپنی نشانیاں دکھاؤ نگا لہذا اس کے لئے جلدی نہ کرو ۔ جرم أصل الجَرْم : قطع الثّمرة عن الشجر، ورجل جَارِم، وقوم جِرَام، وثمر جَرِيم . والجُرَامَة : ردیء التمر المَجْرُوم، وجعل بناؤه بناء النّفاية، وأَجْرَمَ : صار ذا جرم، نحو : أثمر وألبن، واستعیر ذلک لکل اکتساب مکروه، ولا يكاد يقال في عامّة کلامهم للكيس المحمود، ومصدره : جَرْم، قوله عزّ وجل : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین/ 29] ومن جَرَم، قال تعالی: لا يَجْرِمَنَّكُمْ شِقاقِي أَنْ يُصِيبَكُمْ [هود/ 89] ، فمن قرأ بالفتح فنحو : بغیته مالا، ومن ضمّ فنحو : أبغیته مالا، أي أغثته . وقوله عزّ وجلّ : وَلا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلَّا تَعْدِلُوا [ المائدة/ 8] ، وقوله عزّ وجل : فَعَلَيَّ إِجْرامِي[هود/ 35] ، فمن کسر فمصدر، ومن فتح فجمع جرم . واستعیر من الجرم۔ أي : القطع۔ جَرَمْتُ صوف الشاة، وتَجَرَّمَ اللیل ( ج ر م ) الجرم ( ض) اس کے اصل معنی درخت سے پھل کاٹنے کے ہیں یہ صیغہ صفت جارم ج جرام ۔ تمر جریم خشک کھجور ۔ جرامۃ روی کھجوریں جو کاٹتے وقت نیچے گر جائیں یہ نفایۃ کے وزن پر ہے ـ( جو کہ ہر چیز کے روی حصہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ) اجرم ( افعال ) جرم دلا ہونا جیسے اثمر واتمر والبن اور استعارہ کے طور پر اس کا استعمال اکتساب مکروہ پر ہوتا ہے ۔ اور پسندیدہ کسب پر بہت کم بولا جاتا ہے ۔ اس کا مصدر جرم ہے چناچہ اجرام کے متعلق فرمایا : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین/ 29] جو گنہگار ( یعنی کفاب میں وہ دنیا میں) مومنوں سے ہنسی کیا کرتے تھے ۔ اور جرم ( ض) کے متعلق فرمایا :۔ لا يَجْرِمَنَّكُمْ شِقاقِي أَنْ يُصِيبَكُمْ [هود/ 89] میری مخالفت تم سے کوئی ایسا کا م نہ کر اور کہ ۔۔ تم پر واقع ہو ۔ یہاں اگر یجرمنکم فتہ یا کے ساتھ پڑھا جائے تو بغیتہ مالا کی طرح ہوگا اور اگر ضمہ یا کے ساتھ پر ھا جائے تو ابغیتہ مالا یعنی میں نے مال سے اس کی مدد کی ) کے مطابق ہوگا ۔ وَلا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلَّا تَعْدِلُوا [ المائدة/ 8] اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ نہ کرے ۔ کہ انصاف چھوڑ دو ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ فَعَلَيَّ إِجْرامِي[هود/ 35] تو میرے گناہ کا وبال مجھ پر ۔ میں ہوسکتا ہے کہ اجرام ( بکسرالہمزہ ) باب افعال سے مصدر ہو اور اگر اجرام ( بفتح الہمزہ ) پڑھا جائے تو جرم کی جمع ہوگی ۔ اور جرم بمعنی قطع سے بطور استعارہ کہا جاتا ہے ۔ حرمت صوف الشاۃ میں نے بھیڑ کی اون کاٹی تجرم اللیل رات ختم ہوگئی ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٠) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کفار مکہ سے آپ فرما دیجیے یہ تو بتلاؤ کہ اگر تم پر اللہ تعالیٰ کا عذاب رات کو آپڑے یا دن کو واقع ہوجائے تو پھر تم کیا کرو گے اور پھر عذاب الہی میں کون چیز ایسی ہے، جسے یہ مشرک لوگ جلدی مانگ رہے ہیں، اس پر اگر وہ کہیں کہ ہم ایمان لے آئیں گے تو آپ ان سے فرما دیجیے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٠ (قُلْ اَرَءَ یْتُمْ اِنْ اَتٰٹکُمْ عَذَابُہٗ بَیَاتًا اَوْ نَہَارًا مَّاذَا یَسْتَعْجِلُ مِنْہُ الْمُجْرِمُوْنَ ) یعنی یہ جو تم سینہ تان کر کہتے ہو کہ لے آؤ عذاب ! اور پھر کہتے ہو کہ آ کیوں نہیں جاتا ہم پر عذاب ! اور پھر استہزائیہ انداز میں استفسار کرتے ہو کہ یہ عذاب کا وعدہ کب پورا ہونے جا رہا ہے ؟ تو کبھی تم لوگوں نے اس پہلو پر بھی غور کیا ہے کہ اگر وہ عذاب کسی وقت اچانک تم پر آہی گیا ‘ رات کی کسی گھڑی میں یا دن کے کسی لمحے میں ‘ تو اس سے حفاظت کے لیے تم نے کیا بندوبست کر رکھا ہے ؟ آخر تم لوگ کس بل بوتے پر عذاب کو للکار رہے ہو ؟ کس چیز کے بھروسے پر تم اس طرح جسارتیں کر رہے ہو ؟

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٥٠۔ ٥٢۔ جس طرح یہ مشرک قیامت کے دن کے عذاب کی جلدی مسخرا پن کے طور پر کرتے تھے اسی طرح دنیا کے عذاب کی بھی جلدی کرتے تھے اور حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہتے تھے کہ تم عذاب عذاب کہا کرتے ہو تو لو اپنے خدا سے کہہ کر ہم پر عذاب بھیج دو اس لئے فرمایا اے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان لوگوں سے کہہ دیا جاوے کہ تم اب تو عذاب کی جلدی کر رہے ہو اور جب عذاب راتوں رات جس وقت تم غافل پڑے سوتے ہو یا دن کو جب تم اپنے کام دھندے میں لگے ہو گے اچانک آجاوے گا تو پھر کس بات کی جلدی کرو گے۔ عذاب تو ایک ایسی بری چیز ہے جس کے نام سے لوگ ڈرتے ہیں تو کیا عذاب آجانے سے تم ایمان لاؤ گے تو بتلاؤ ایسے وقت میں کہ تم عذاب میں گرفتار ہو گے اگر ایمان بھی لائے اس ایمان سے کیا فائدہ ہوسکتا ہے۔ پھر فرمایا کہ قیامت کے دن جب یہ مجرم دوزخ میں ڈالے جائیں گے اور طرح طرح کے عذاب کو برداشت نہ کرسکیں گے اور فریاد مچانے لگیں گے اس وقت ان سے یہ بات کہی جاوے گی کہ تم دنیا میں عذاب کے آنے کی جلدی کرتے تھے اب کیا ہوا جو منہ مانگی چیز سے پناہ مانگتے ہو جو کچھ تم نے وہاں کیا ہے اس کا مزہ چکھو اور ہمیشہ چکھو۔ سورة النساء میں گزر چکا ہے کہ توبہ کے قبول ہونے کے لئے آئندہ گناہوں سے باز رہنے اور نیک کام کرنے کا ارادہ ضرور ہے عذاب کے سر پر آجانے اور ہلاکت کا یقین ہوجانے کے بعد انسان کی یہ حالت باقی نہیں رہتی بلکہ ایک بےبسی کی حالت ہوجاتی ہے اسی بےبسی کی حالت کا اسلام اور ایسی حالت کی توبہ کچھ مقبول نہیں ہے چناچہ اس باب میں عبد اللہ بن عمر (رض) کی حدیث بھی ترمذی کے حوالہ سے حضرت عمر (رض) اور عبد اللہ بن عمر اور معاذ بن جبل (رض) کی روایتیں بھی بھی سورة النساء میں گزر چکی ہیں ١ ؎ کہ عذاب کی تکلیف ہمیشہ قائم رہنے کے لئے دوزخیوں کی جلی ہوئی کھال گھڑی گھڑی بدلی جاوے گی۔ حاصل کلام یہ ہے کہ سورة النساء میں جو روایتیں گزر چکی ہیں وہی روایتیں ان آیتوں کی گویا تفسیر ہیں جس سے بےوقت کے اسلام کے مقبول ہونے اور دوزخ کے عذاب کی ہمیشگی کی تفصیل معلوم ہوتی ہے جلی ہوئی کھال کے بدلے جانے کی معاذ بن جبل (رض) کی روایت طبرانی میں بھی ہے اور اس کی سند معتبر ہے۔ ٢ ؎ جس سے حضرت عمر اور عبد اللہ بن عمر (رض) کی روایتوں کو بھی تقویت ہولی جاتی ہے۔ ١ ؎ جامع ترمذی ص ١٩٢ ج ٢ ابواب الدعوات۔ ٢ ؎ تفسیر ہذا جلد اول ص ٣٣٢۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(10:50) ارأیتم۔ اس میں بلفظ استفہام تنبیہ کے معنی میں ہے۔ ماضی جمع مذکر حاضر۔ کیا تم نے دیکھا۔ کیا تم نے سوچا۔ کیا تم نے غور کیا۔ بمعنی اخبرونی ہے (بھلا) مجھے بتاؤ تو سہی ۔ بیاتا۔ رات میں آپڑنا۔ رات میں سوتے دشمن پر حملہ کرنا۔ شبخون مارنا۔ رات کو آنا۔ جیسے فجاء ھا بأسنا بیاتا او ہم قائلون (7:4) پس آیا ان پر ہمارا عذاب رات کے وقت (جب کہ وہ سوتے تھے) یا (دن کو) جب وہ قیلولہ (دن کا آرام ) کرتے تھے۔ بیت۔ انسان کا رات کا ٹھکانہ۔ بعد میں مطلق مسکن کے لئے اور مکان کے لئے اسے بیت (گھر) کہا جانے لگا۔ ماذا۔ کیا چیز ہے۔ کیا ہے یہ۔ اس میں ما استفہام کے لئے اور ذا موصولہ ہے گویا یہ ما اور ذا سے مرکب ہے۔ بعض اس کو بسیط کہتے ہیں۔ انکے نزدیک ما ذاپورا اسم جنس ہے یا موصول ہے بمعنی الذییا پورا استفہام ہے۔ بمعنی کیا، کیسے، جیسے ماذا تفعلتو کیا کرتا ہے یستعجل۔ مضارع واحد مذکر غائب باب استفعال۔ وہ جلدی مانگتا ہے۔ اس میں جلدی چاہتا ہے یہاں جمع کا صیغہ میں استعمال ہوا ہے۔ وہ جلدی مانگ رہے ہیں۔ منہ۔ میں ہ ضمیریا عذاب کے لئے ہے۔ ای من العذاب۔ اس صورت میں من تبعیضیہ ہے۔ یعنی عذاب میں سے کچھ۔ یا ضمیر کا مرجع اللہ ہے۔ ای من اللہ۔ اللہ سے جلدی عذاب کی طلب کر رہے ہیں۔ آیۃ ہذا میں ان اتکم عذابہ بیاتا اونھارا شرط ہے اور جواب شرط محذوف ہے۔ یعنی اگر اللہ کا عذاب تم پر رات کو یا دن کے وقت آپڑے (تو تم کیا کرسکتے ہو) ۔ جب حالت یہ ہے کہ کچھ نہیں کرسکیں گے تو ماذا یستعجل منہ المجرمون تو کس لئے اللہ سے جلدی کا مطالبہ کر رہے ہیں یہ مجرم لوگ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 12 ۔ یہ ان کے سوال متی ھذا الوعدہ کا دوسرا جواب ہے یعنی اگر بالفرض عذاب آگیا تو اس کے وقو ع کے بعد ایمان لانا فائدہ مند نہیں ہوسکے گا اور آخرت میں دائمی عذاب سامنے ہے پس جب حالت یہ ہے تو اس کے آنے کی کیوں جلدی مچا رہے ہیں (کبیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 50 تا 53 ارء یتم (کیا تم دیکھتے ہو، کیا تمہیں خبر ہے، بھلا بتائو تو) بیات (رات کو، رات گزارنا) یستفعجل (وہ جلدی مچاتا ہے) آلئن (اب، اسی وقت) ذوقوا (چکھو) الخلد (ہمیشہ) تجزون (تم بدلہ دیئے جائو گے) یستنبونک (وہ آپ سے خبر پوچھتے ہیں، معلوم کرنا چاہتے ہیں ) ای و ربی (ہاں ہاں میرے رب کی قسم) تشریح :- آیت نمبر 50 تا 53 اللہ تعالیٰ کا دستور اور قانون یہ ہے کہ وہ انسانوں کی توبہ کو اس وقت تک قبول فرماتا ہے جب تک موت کے فرشتے سامنے نہ آجائیں یعنی اس پر جاں کنی شروع نہ ہوجائے۔ لیکن جب موت کے فرشتے سامنے آجاتے ہیں تو پھر کسی طرح اس کی توبہ قبول نہیں کی جاتی۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ہے : اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی توبہ کو قبول کرتا ہی رہتا ہے لیکن جب اس پر موت طاری کردی جاتی ہے یعنی اس کی جاں کنی کا وقت ہوتا ہے تو اس کے لئے توبہ کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں۔ قرآن کریم میں فرعون کا واقعہ بیان کرتے ہوئے اس کی تفصیل ارشاد فرمائی گی ہے کہ جب حضرت موسیٰ بنی اسرائیل کو سمندر کے اندر راستوں سے نکال کر دوسرے کنارے پر لے آئے۔ بعد میں فرعون اپنے لشکر کے ساتھ جب ان راستوں کے اندر پہنچ گیا جو اللہ نے حضرت موسیٰ اور بنی اسرائیل کے لئے سمندر میں راستے بنا دیئے تھے تو سمندر کا پانی آپس میں پھر مل گیا اور فرعون اور اس کے لشکری ڈوبنے لگے اس وقت فرعون کو عقل آئی اور اس نے کہا : امنت انہ لا الہ الا الذی امنت بہ بنوآاسرائیل و آنا من السلمین ترجمہ :- میں اس اللہ پر ایمان لاتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں اور جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اس رب پر میں ایمان لاتا ہوں اور میں اللہ کے فرماں برداروں میں سے ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے دستور کے مطابق فرعون کی توبہ کو قبول نہیں کیا کیونکہ جب ایمان لانے کا وقت تھا اس وقت تو وہ خود ہی معبود بنا ہوا تھا غرور تکبر اور کفر میں سب سے آگے تھا لیکن جب اس کو موت نظر آئی تو اس کو بنی اسرائیل کا پروردگار یاد آنے لگا۔ اللہ نے اس کی اس توبہ کو نامنظور فرما دیا۔ اس کے برخلاف حضرت یونس کی قوم کو جب اس بات کا اچھی طرح اندازہ ہوگیا کہ حضرت یونس اپنے اہل خانہ کے ساتھ یہ کہہ کر چلے گئے ہیں کہ اب تم اللہ کے عذاب کا انتظار کرو اور انہیں یقین ہوگیا کہ اگر ہم نے توبہ نہ کی تو واقعی اللہ کا عذاب ہمیں آ گھیرے گا۔ اس وقت پوری قوم نے اپنے کفر و شرک سے توبہ کی چونکہ عذاب آنے سے پہلے ہی انہوں نے توبہ کرلی تھی تو ان کی توبہ قبول ہوگئی ۔ اگر وہ عذاب آنے کے بعد توبہ کرتے تو ان کی توبہ قبول نہ کی جاتی۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے اسی دستور اور قانون کو بیان فرمایا ہے کہ آج یہ کفار مکہ جس عذاب الٰہی کو نظر انداز کر رہے ہیں اور اپنے کفر و شرک سے توبہ نہیں کرتے۔ اگر وہ عذاب آگیا تو پھر توبہ کے دروازے بند کردیئے جائیں گے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کفار مکہ کے سامنے یہ ارشاد فرماتے کہ قیامت آنے والی ہے۔ اس دن تمام انسانوں کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا اور ان کو جزا اور سزا دی جائے گی۔ آپ فرماتے کہ اچھے اعمال پر اجر وثواب عطا کیا جائے گا لیکن برے اعمال پر اللہ کا عذاب نازل ہوگا۔ آپ کے ارشادات کے جواب میں وہ آپ کی باتوں کا مذاق اڑاتے اور یہ کہتے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم جس عذاب کی باتیں کرتے ہو وہ آخر کب آئے گا ؟ تم اس کو فوراً ہی ہمارے اوپر مسلط کیوں نہیں کرا دیتے ؟ اس طنز و استھزاء کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ ان سے واضح الفاظ میں کہہ دیجیے کہ صبح و شام کسی بھی وقت جب اللہ کا عذاب آئے گا نہ تو تم اس سے بچ سکو گے اور نہ اللہ کو عاجز و بےبس کرسکو گے۔ پھر تو اللہ کی طرف سے ایک ہی اعلان ہوگا کہ تم اب تک جو کچھ کرتے رہے ہو اس کا عذاب چکھو۔ فرمایا گیا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! جب وہ آپ سے یہ پوچھتے ہیں کہ کیا واقعی ایسا ہو سکتا ہے تو آپ کہہ دیجیے کہ اللہ کی قسم یہ سب کچھ برحق اور سچ ہے اللہ کو اس کے کرنے پر پوری قدرت و طاقت حاصل ہے۔ اللہ کا ہاتھ کوئی نہیں پکڑ سکتا۔ جب وہ کسی قوم کو ان کے برے اعمال کی سزا دیتا ہے تو اس کو کوئی روک نہیں سکتا اور اچھے اعمال پر بہترین بدلہ عطا فرماتا ہے تو اس کو کوئی منع کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ یعنی عذاب تو سخت ہولناک اور پناہ مانگنے کی چیز ہے نہ جلدی مانگنے کی چیز۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ان سے استفسار فرمائیں کہ اگر ان پر اللہ کا عذاب دن کے وقت آئے یا رات کی کسی گھڑی میں آئے تو اسے کون ٹال سکتا ہے ؟ ان سے یہ بھی سوال کیجیے کہ مجرمو ! تم کس بات کی جلدی مچاتے ہو۔ مجرمانہ ذہن کی یہ علامت ہوتی ہے کہ وہ نہ صرف اچھی بات قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے بلکہ اکثر دفعہ اچھائی کی بجائے بری بات اور اس کے انجام کے لیے عجلت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو انتباہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ کیا انہیں معلوم نہیں کہ جب اللہ کا عذاب نازل ہوتا ہے تو پھر بڑے بڑے مجرم ایمان لانے کا اظہار کرتے ہیں۔ مگر اس وقت اللہ تعالیٰ کے ملائکہ جواب دیتے ہیں۔ اب تمہارے ایمان لانے کا کیا فائدہ ؟ جب کہ تم اس سے پہلے حقیقت قبول کرنے کی بجائے عذاب کا مطالبہ کرتے تھے۔ اس وقت ان کو یہ بھی کہا جاتا ہے اب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے کیے کی سزا پاؤ کیونکہ تم واقعی اس عذاب کے مستحق ہو۔ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! یہ آپ سے پوچھتے ہیں کیا واقعی ہم عذاب میں گرفتار ہوں گے ؟ ان سے فرمائیے کہ مجھے اپنے رب کی قسم ہے کہ اللہ تعالیٰ کا عذاب برحق ہے۔ جب تم پر مسلط ہوگا تو تم کسی طرح بھی اسے ٹال نہیں سکو گے۔ کیا تم نے مجرم اقوام کی تاریخ پر غور نہیں کیا کہ جب ان پر اللہ تعالیٰ کا عذاب صبح یا رات کے وقت آیا تو وہ کس طرح چیخ و پکار کرتے ہوئے معافی مانگ رہے تھے۔ ذرا فرعون اور آل فرعون کے واقعہ پر ہی غور کرو کہ جب اللہ تعالیٰ نے انہیں دریا میں ڈبکیاں دیں تو فرعون نے کس طرح دہائی دیتے ہوئے کہا تھا : ( قَالَ آَمَنْتُ أَنَّہُ لَا إِلَہَ إِلَّا الَّذِی اٰمَنَتْ بِہِ بَنُوْ إِسْرَاءِیلَ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ )[ یونس : ٩٠] میں موسیٰ اور ہارون کے رب پر ایمان لاتا ہوں۔ لیکن اس کے ایمان کو مسترد کردیا گیا یہی حالت مجرم قوم کی ہوا کرتی ہے اور اسی کرب میں مجرم موت کے وقت مبتلا ہوتا ہے اس وقت مجرم دل ہی دل میں ایمان کا اظہار کرتا ہے مگر موت کے فرشتے اسے جھڑکیاں دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اب تمہیں ہمیشہ عذاب میں رہنا ہے۔ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ اللّٰہَ یَقْبَلُ تَوْبَۃَ الْعَبْدِ مَا لَمْ یُغَرْغِرْ ) [ رواہ الترمذی : کتاب الدعوات، باب قبول توبۃ العبد مالم یغرغر ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ بندے کی سانس اٹکنے سے پہلے پہلے توبہ قبول فرماتا ہے۔ “ موت کے وقت مجرموں کے ساتھ ملائکہ کا سلوک : (وَلَوْتَرَی إِذِ الظَّالِمُوْنَ فِی غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلَاءِکَۃُ بَاسِطُو أَیْدِیْہِمْ أَخْرِجُوْا أَنْفُسَکُمُ الْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْہُوْنِ بِمَا کُنْتُمْ تَقُولُوْنَ عَلَی اللَّہِ غَیْرَ الْحَقِّ وَکُنْتُمْ عَنْ اٰ یَا تِہِ تَسْتَکْبِرُوْنَ )[ الانعام : ٩٣] ” موت کے وقت ملائکہ کی جھڑکیاں جب مجرم موت کی بیہوشیوں میں ہوتے ہیں اور فرشتے ہاتھ پھیلاتے ہوئے کہتے ہیں اپنی جانیں نکالو آج تمہیں رسوا کن عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔ کیونکہ تم اللہ پر ناحق باتیں بناتے ہو اور اس کی آیات سے تکبر کرتے ہو۔ “ (وَلَوْتَرٰٓی إِذْ یَتَوَفَّی الَّذِیْنَ کَفَرُوْا الْمَلَاءِکَۃُ یَضْرِبُوْنَ وُجُوہَہُمْ وَأَدْبَارَہُمْ وَذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ )[ الانفال : ٥٠] ” اور کاش آپ اس حالت کو دیکھتے جب فرشتے کافروں کی روحیں قبض کر رہے ہوتے ہیں تو ان کے چہروں اور ان کی پشتوں پر ضربیں لگاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اب جلانے والے عذاب کا مزا چکھو۔ “ مسائل ١۔ کچھ لوگ اللہ کے عذاب کے لیے جلدی مچاتے ہیں۔ ٢۔ مجرموں کو اللہ کے عذاب کا مزا چکھنا پڑے گا۔ ٣۔ انسان کو اسی کا بدلہ ملے گا جو وہ کرے گا۔ ٤۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کفار عذاب کے برحق ہونے کے متعلق پوچھتے تھے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ کے عذاب کو کوئی بھی ٹال نہیں سکتا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کی پکڑ آجائے تو مجرموں کو کوئی نہیں بچا سکتا : ١۔ اللہ کا عذاب برحق ہے اور تم اللہ تعالیٰ کو عاجز نہیں کرسکتے۔ (یونس : ٥٣) ٢۔ کفار کے چہروں پر ذلت چھا جائے گی انہیں اللہ کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہ ہوگا۔ (یونس : ٢٧) ٣۔ آج کے دن اللہ کے عذاب سے کوئی نہیں بچ سکتا مگر جس پر اللہ تعالیٰ رحم فرمائے۔ (ہود : ٤٣) ٤۔ اس دن وہ پیٹھیں پھیر کر بھاگیں گے اللہ کی پکڑ سے انہیں کوئی بچانے والا نہ ہوگا۔ (المومن : ٣٣) ٥۔ اگر اللہ کسی کو تکلیف دے تو کون ہے جو اسے اس سے بچا سکے۔ (الاحزاب : ١٧) ٦۔ حضرت نوح نے اپنے بیٹے کو فرمایا آج کے دن اللہ کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہیں۔ (ہود : ٤٣) ٧۔ جسے اللہ رسوا کرے اسے کوئی عزت نہیں دے سکتا۔ (الحج : ١٨)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قل ارء یتم ان اتکم عذابہ بیاتًا او نھارًا ما ذا یستعجل منہ المجرمون۔ آپ پوچھئے : یہ تو بتاؤ ‘ اگر تم پر اللہ کا عذاب رات میں آپڑے (جبکہ تم نیند میں مشغول ہو) یا دن کو (جب تم کاروبار میں مصروف ہوتے ہو) تو عذاب میں کونسی چیز ایسی ہے کہ مجرم لوگ اس کو جلدی مانگ رہے ہیں۔ مَا ذَا میں استفہام تعجبی ہے ‘ یعنی تعجب ہے کہ عذاب جیسی ناگوار چیز کو جلد طلب کر رہے ہیں۔ ناگوار چیز کی عاجلانہ طلب تو نامناسب ہے۔ اِنْ اَتٰکُمْ کی جزاء محذوف ہے ‘ یعنی اگر رات کو یا دن کو عذاب آجائے گا تو اس وقت تم کو عجلت طلبی پر ندامت ہوگی اور اپنی غلطی جان لوگے۔ بغوی نے لکھا ہے : کفار عذاب جلد آجانے کے طلبگار تھے۔ ایک شخص نے کہا تھا : اے اللہ ! اگر یہ حق ہے ‘ تیری طرف سے ہے تو ہمارے اوپر آسمان سے پتھر برسا یا کوئی اور دردناک عذاب ہم پر لے آ۔ اللہ اس کے جواب میں فرما رہا ہے : یہ کون سے عذاب کے آنے کی جلدی مچا رہے ہیں ‘ عذاب تو ہر ایک کیلئے ناگواری کی چیز ہے۔ میں کہتا ہوں : مَا ذَا یَسْتَعْجِلُالخ شرط کی جزاء ہو سکتی ہے۔ مطلب یہ ہوگا کہ اگر اللہ کا عذاب تم پر آگیا تو اس وقت کس چیز کی طلب میں عجلت کرو گے ‘ کیا اسی قسم کا دوسرے عذاب مانگو گے اور عذاب میں رہنا پسند کرو گے یا رہائی کے طلبگار ہو گے ؟ ظاہر ہے کہ عذاب کے خواستگار نہ ہو گے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (قُلْ اَرَءَیْتُمْ اِنْ اَتٰکُمْ عَذَابُہٗ ) (الآیۃ) آپ ان سے فرما دیجئے یعنی سوال کیجئے کہ اگر تم پر اللہ کا عذاب رات کو آپڑے یا دن کو آجائے تو عذاب میں ایسی کون سی چیز ہے جس کی وجہ سے مجرمین عذاب کے جلدی لانے کا تقاضا کر رہے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ عذاب تو رات یا دن میں کسی وقت بھی نازل ہوسکتا ہے یہ جانتے ہوئے کہ عذاب سخت چیز ہے اس کے آنے کی جلدی کیوں مچاتے ہیں ‘ عذاب میں ایسی کون سی چیز مرغوب ہے جسے جلد بلانا چاہتے ہیں۔ جب حقیقۃً عذاب مطلوب نہیں ہے تو معلوم ہوا کہ عذاب لانے کی جلدی مچانے سے وعدہ عذاب کی تکذیب مقصود ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

68: زجر مع تخویف دنیوی “ بَیَاتًا اَوْ نَھَارًا ” منصوب علی الظرفیة ہیں “ مَا ذَا یَسْتَعْجِلُ مِنْهُ الْمُجْرِمُوْنَ ”“ مَا ذَا ” بمعنی “ اَيُّ شَیءٍ ” ہے مشرکین بہت عجلت کرتے اور عذاب کے جلدی آنے کا مطالبہ کرتے ہیں اگر راتوں رات یا دن میں جبکہ وہ اپنے کاروبار میں مصروف ہوں اچانک ہی اللہ کا عذاب آجائے تو یہ مجرم اور بدکردار لوگ جلدی کر کے اس سے بچاؤ کے لیے کیا حیلہ یا تدبیر عمل میں لائیں گے ؟ استفہام انکاری ہے یعنی اس سے بچنے کا کوئی حیلہ نہیں کرسکیں گے تو پھر اس کا وقت پوچھنے سے کیا فائدہ یا مطلب یہ ہے کہ عذاب کونسی خوشی کی چیز ہے جس کے جلدی آنے کا مجرمین مطالبہ کرتے ہیں اس صورت میں استفہام تعجب کے لیے ہوگا کہ ان مجرمین پر تعجب ہے کہ وہ کیسی خوفناک اور ہلاکت خیز چیز کو جلدی طلب کر رہے ہیں (روح و موضح قرآن) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

50 آپ ان سے کہیے بھلا یہ تو بتلائو کہ اگر خدا کا عذاب تم پر رات میں یا دن میں کسی وقت آواقع ہو تو وہ عذاب آخر کیا چیز ہے جس کی یہ گنہگار جلدی مچا رہے ہیں یعنی عذاب تو آخر عذاب ہے وہ کوئی جلدی طلب کرنے کی چیز تو نہیں ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی بچائو نہ کرسکو گے پھر پوچھنے کا کیا فائدہ 12