Surat Younus

Surah: 10

Verse: 55

سورة يونس

اَلَاۤ اِنَّ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ اَلَاۤ اِنَّ وَعۡدَ اللّٰہِ حَقٌّ وَّ لٰکِنَّ اَکۡثَرَہُمۡ لَا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿۵۵﴾

Unquestionably, to Allah belongs whatever is in the heavens and the earth. Unquestionably, the promise of Allah is truth, but most of them do not know

یاد رکھو کہ جتنی چیزیں آسمانوں میں اور زمین میں ہیں سب اللہ ہی کی ملک ہیں ۔ یاد رکھو کہ اللہ تعالٰی کا وعدہ سچا ہے ۔ لیکن بہت سے آدمی علم ہی نہیں رکھتے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah says;

خالق کل عالم کل ہے مالک آسمان و زمین مختار کل کائنات اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ اللہ کے وعدے سچے ہیں وہ پورے ہو کر ہی رہیں گے ۔ یہ اور بات ہے کہ اکثر لوگ علم نہیں رکھتے ۔ جلانے مارنے والا وہی ہے ، سب باتوں پر وہ قادر ہے ۔ جسم سے علیحدہ ہو نے والی چیز کو ، اس کے بکھر کر بگڑ کر ٹکڑے ہو نے کو وہ جانتا ہے اس کے حصے کن جنگلوں میں کن دریاؤں میں کہاں ہیں وہ خوب جانتا ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَلَآ اِنَّ لِلّٰهِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۔۔ : ” اَلَا “ حرف تنبیہ ہے، یعنی آگاہ ہوجاؤ ! خبردار ہوجاؤ ! سن لو ! پچھلی آیت میں ذکر تھا کہ ہر شخص جس نے ظلم کیا ہے، اگر آسمان و زمین میں موجود سب کچھ اس کی ملکیت ہو تو اس دن جان چھڑانے کے لیے ضرور ہی بطور فدیہ دے دے گا۔ ” لَوْ “ (اگر) ناممکن چیز کے لیے ہوتا ہے، اس لیے یہاں فرمایا کہ کان کھول کر سن لو کہ آسمان و زمین کی ہر چیز کا مالک تو اللہ تعالیٰ ہے، وہ ظالم فدیہ لائے گا کہاں سے۔ دوبارہ ” اَلا “ (سن لو) کہہ کر فرمایا کہ یقیناً قیامت قائم ہونے کا اللہ تعالیٰ کا وعدہ بالکل برحق ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ ” اَکْثَرُھُم “ کے ساتھ اہل ایمان کو منکرین قیامت سے مستثنیٰ فرمایا، اس اشارے کے ساتھ کہ وہ تعداد میں دوسروں سے کم ہیں۔ زمین و آسمان کی ملکیت میں کسی دوسرے کا حصہ کتنا ہے، دیکھیے سورة سبا (٢٢) اور فاطر (١٣) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلَآ اِنَّ لِلہِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝ ٠ ۭ اَلَآ اِنَّ وَعْدَ اللہِ حَقٌّ وَّلٰكِنَّ اَكْثَرَھُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ۝ ٥٥ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ سما سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] ، ( س م و ) سماء ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ أرض الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . ( ا رض ) الارض ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ وعد الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] ، ( وع د ) الوعد ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خرٰا و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔ كثر الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة/ 64] ( ک ث ر ) کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة/ 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٥) یاد رکھو کہ تمام مخلوقات اور عجائبات خداوندی سب اللہ ہی کی ملک ہیں اور اللہ تعالیٰ کا وعدہ یاد رکھو کہ مرنے کے بعد پھر دو بارہ زندہ ہونا ہے۔ سچا ہے اور یقینی ہونے والا ہے لیکن بہت سے آدمی تصدیق ہی نہیں کرتے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٥٥۔ ٥٦۔ اوپر کی آیت میں تاوان کا ذکر فرما کر اس آیت میں فرمایا یاد رکھو کہ آسمان اور زمین اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان میں مغرب سے مشرق تک جنوب سے شمال تک دریا پہاڑ خزانے کان کل چھوٹی بڑی چیزیں ہیں اس دن وہ سب اللہ کے قبضہ میں ہوں گی اس دن تمہارا عارضی قبضہ باقی نہ رہے گا جو تم تاوان دے کر اپنا پیچھا چھڑاؤ گے اور عذاب سے بچو گے خوب یاد رکھو کہ خدا کا وعدہ سچا ہے ابھی تو تمہاری سمجھ میں نہیں آتا لیکن جب وعدہ کا وقت مقررہ آوے گا تو سمجھ لو گے کیوں کہ خدا کے نزدیک کوئی بڑی بات نہیں ہے کہ تم کو مردے سے زندہ کر دے پیدا بھی وہی کرتا ہے مردہ بھی وہی کرتا ہے مردے سے دوبارہ زندہ وہی کر دے گا۔ صحیح بخاری، مسلم، نسائی، ابن ماجہ وغیرہ میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دوسرے صور سے پہلے اللہ تعالیٰ آسمان و زمین اور سب چیزیں اپنے ہاتھ میں لے کر فرما دے گا آج عارضی طور پر بادشاہت اور مال و متاع کا دعویٰ کرنے والے کہاں ہیں۔ ١ ؎ صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ دوسرے صور سے پہلے ایک مینہ برسے گا جس کے اثر سے سب جسم بن کر تیار ہوجاویں گے اور پھر ان جسموں میں روحید پھونک دی جاویں گی۔ ٢ ؎ آیت میں قیامت کے دن آسمان و زمین کی سب چیزوں کے اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہونے کا اور حشر کے وعدہ کے ظہور کا جو ذکر ہے یہ حدیثیں گویا اس کی تفسیر ہیں۔ ١ ؎ مشکوۃ ص ١٨١ باب النفخ فے الصور۔ ٢ ؎ مشکوۃ ص ٤٨١ باب النفخ فی الصور۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(10:55) الا۔ تنبیہ کے لئے ہے۔ سن لو۔ جان لو۔ خبردار ہوجاؤ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 ۔ اور جہالت سے اپنے آپ کو تباہ کرتے ہیں اور شرک و کفر میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ لوگوسنو ! دنیا میں بھی زمین و آسمانوں اور جو کچھ ان میں ہے اس کا مالک اللہ تعالیٰ ہے اور قیامت کے دن بھی وہی مالک و مختار ہوگا۔ کان کھول کر سن لو ! قیامت کا برپا ہونا یقینی اور حق ہے۔ یہ اللہ کا سچا اور پکا وعدہ ہے جو ٹل نہیں سکتا۔ لیکن اکثر لوگ اس کا ادراک نہیں کرتے وہی موت وحیات کا مالک ہے اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے۔ پہلے بھی عرض کیا گیا ہے کہ قرآن مجید کے مرکزی مضامین تین ہیں۔ ١۔ ایمان باللہ۔ ٢۔ ایمان با لرسا لۃ۔ ٣۔ ایمان بالآخرۃ۔ ایمان کے تینوں عناصر اس طرح لازم ملزوم اور باہم مربوط ہیں کہ ان میں کسی ایک کا انکار کرنا گویا کہ تینوں کا انکار کرنا ہے۔ حقیقت یہ ہے جس طرح ایمان باللہ اور ایمان بالرسالت کا صحیح اور پورا پورا صلہ قیامت کے بغیر مل نہیں سکتا۔ اسی طرح ایمان باللہ اور ایمان بالرسا لۃ کا منکر قیامت کے برپا ہوئے بغیر ٹھیک ٹھیک سزا نہیں پاسکتا۔ اس لیے ایمان بالآخرۃ لازم ہی نہیں بلکہ عین عدل و انصاف کا تقاضا ہے۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے کہ اے لوگو ! قیامت برپا کرنا۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے۔ جو ہر حال میں پورا ہو کر رہے گا اور اللہ ہی موت وحیات کا مالک ہے۔ بڑا ہی خوش نصیب ہے وہ شخص جو آخرت پر ایمان لائے اور اس کے لیے تیاری کرے۔ (عَنْ أَبِیْ سَعِیدٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنَّ رَجُلاً کَانَ قَبْلَکُمْ رَغَسَہُ اللَّہُ مَالاً فَقَالَ لِبَنِیْہِ لَمَّا حُضِرَ أَیَّ أَبٍ کُنْتُ لَکُمْ قَالُوا خَیْرَ أَبٍ قَالَ فَإِنِّی لَمْ أَعْمَلْ خَیْرًا قَطُّ ، فَإِذَا مُتُّ فَأَحْرِقُونِی ثُمَّ اسْحَقُونِی ثُمَّ ذَرُّونِی فِی یَوْمٍ عَاصِفٍ فَفَعَلُوا، فَجَمَعَہُ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ ، فَقَالَ مَا حَمَلَکَ قَالَ مَخَافَتُکَ فَتَلَقَّاہُ بِرَحْمَتِہِ )[ رواہ البخاری : باب حدثنا ابو الیمان ] ” حضرت ابو سعید نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ تم سے پہلے ایک آدمی گزرا ہے جسے اللہ نے مال کی فراوانی عطا کی تھی اس نے موت کے وقت اپنے بیٹوں کو کہا میں نے کبھی نیک عمل نہیں کیا جب میں مرجاؤں مجھے جلا کر میری راکھ بنا دینا، پھر اسے ہواؤں میں اڑا دینا، انہوں نے ایسا ہی کیا اللہ عزوجل نے اسے زندہ ف کیا، فرمایا تجھے اس کام پر کس چیز نے ابھارا ؟ کہنے لگا آپ کے ڈر نے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی رحمت کی لپیٹ میں لے لیا۔ “ (عن سَہْلِ بن سَعْدٍ (رض) قَالَ سَمِعْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُوْلُ یُحْشَرُ النَّاسُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عَلَی أَرْضٍ بَیْضَاءَ عَفْرَاءَ کَقُرْصَۃِ نَقِیٍّ ) [ رواہ البخاری : کتاب الرقاق، باب یقبض اللہ الأرض ] ” حضرت سہل بن سعد (رض) کہتے ہیں میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرما رہے تھے، قیامت کے دن لوگوں کو سفید چٹیل میدان میں جمع کیا جائے گا زمین صاف ٹکیہ کی مانند ہوگی۔ “ منکرین قیامت کو چیلنج : (قُلْ کُوْنُوْا حِجَارَۃً أَوْ حَدِیْدًا۔ أَوْ خَلْقًا مِمَّا یَکْبُرُ فِی صُدُوْرِکُمْ فَسَیَقُوْلُوْنَ مَنْ یُعِیْدُنَا قُلِ الَّذِیْ فَطَرَکُمْ أَوَّلَ مَرَّۃٍ فَسَیُنْغِضُوْنَ إِلَیْکَ رُءُ وْ سَہُمْ وَیَقُوْلُْوْنَ مَتَی ہُوَ قُلْ عَسٰی أَنْ یَّکُوْنَ قَرِیبًا۔ )[ بنی اسرائیل : ٥٠، ٥١] ” کہہ دیجیے کہ تم پتھر، لوہا یا کوئی اور چیز ہوجاؤ جو تمہارے نزدیک بڑی ہو تو وہ کہتے ہیں کہ ہمیں دوبارہ کون اٹھائے گا کہہ دیجیے جس نے تم کو پہلی بار پیدا کیا تو تمہارے سر ہلائیں گے اور پوچھیں گے کہ ایسا کب ہوگا ؟ کہہ دیجیے امید ہے کہ وہ جلد ہوگا۔ “ مسائل ١۔ زمین و آسمان اور جو کچھ ان میں ہے اللہ کی ملکیت ہے۔ ٢۔ اللہ کا وعدہ سچا ہے لوگوں کی اکثریت علم نہیں رکھتی۔ ٣۔ اللہ ہی زندہ کرتا اور مارتا ہے۔ ٤۔ اللہ ہی کی طرف سب نے لوٹنا ہے۔ تفسیر بالقرآن قیامت برپا ہو کر رہے گی : ١۔ سب نے اللہ کے ہاں لوٹنا ہے۔ (یونس : ٥٦) ٢۔ قیامت کے دن ہر کسی کو پورا پورا صلہ دیا جائے گا۔ (آل عمران : ١٨٥) ٣۔ اس دن سے ڈر جاؤ جس دن تم اللہ کے ہاں لوٹائے جاؤ گے۔ (البقرہ : ٢٨١) ٤۔ قیامت آنکھ جھپکنے کی طرح آجائے گی۔ (النحل : ٧٧)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

الا ان اللہ ما فی السموت والارض خوب سن لو کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے ‘ اللہ ہی کا ہے۔ اسلئے وہ ثواب و عذاب دینے کی قدرت رکھتا ہے (کائنات ارضی و سماوی میں سے کوئی چیز اس کی قدرت سے باہر نہیں) ۔ الا ان وعد اللہ حق خوب سمجھ لو کہ (ثواب و عذاب کا) اللہ کی طرف سے کیا ہوا وعدہ برحق ہے۔ اس کی خلاف ورزی نہیں ہو سکتی ‘ عذاب وثواب ضرور ہوگا۔ ولکن اکثرھم لا یعلمون لیکن (دانش و فہم کی کوتاہی کی وجہ سے) اکثر لوگ اس کو نہیں جانتے۔ صرف ظاہری دنیا کو جانتے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(اَلَا اِنَّ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ) (خبردار اللہ ہی کے لئے ہے جو کچھ آسمانوں میں اور زمین میں ہے) سب کچھ اس کی ملکیت ہے ‘ یہ مجرمین بھی اس کی مخلوق اور مملوک ہیں۔ اسے ہر طرح تصرف کرنے کا حق ہے۔ مجرمین کو عذاب دینا اس کے لئے آسان ہے۔ اس کی قدرت اور تصرف سے کوئی باہر نہیں۔ (اَلَا اِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ حَقٌّ) (خبردار اللہ کا وعدہ سچا ہے) قیامت ضرور آنی ہے۔ انکار کرنے سے اور شک کرنے سے وہ رک نہ جائے گی۔ (وَّلٰکِنَّ اَکْثَرَھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ ) لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے جو قیامت کے آنے میں شک کرتے ہیں

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

73: یہ توحید پر چھٹی عقلی دلیل ہے اور یہ نفی شرک فعلی کے لیے تمہید ہے جو اگلی دلیل میں مذکور ہے زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ کی ہے، ہر چیز اس کے تصرف و ملک اور اس کی قدرت کے تحت ہے۔ “ ھُوَ یُحْیی وَ یُمِیْتُ الخ ” وہ ایسا قادر و متصرف ہے کہ موت وحیات بھی اسی کے ہاتھ میں ہے۔ جب وہی مالک و مختار اور متصرف ہے تو پھر اس کی پیدا کی ہوئی اور اس کی مملوکہ اشیاء میں سے غیروں کے حصے کیوں مقرر کرتے ہو ؟ اور غیروں کے لیے تحریمات کیوں کرتے ہو ؟ لہذا تمہاری خود ساختہ تحلیل و تحریم بےجا ہے۔ “ اَلَا اِنَّ وَعْدَ اللّٰه حَقٌّ الخ ” جب وہی مالک و مختار ہے تو وہ اپنا وعدہ پورا کرنے پر بھی قادر ہے اس لیے جو وعدہ بھی اس نے کیا ہے خواہ منکرین کے لیے عذاب کا یا مؤمنین کیلئے ثواب کا وہ لا محالہ پورا ہو کر رہے گا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

55 یاد رکھو کہ جتنی چیزیں آسمانوں میں اور زمین میں ہیں وہ سب اللہ تعالیٰ ہی کی ملک ہیں اور سن رکھو کہ ہر چیز کا وہی مالک اور اسی کا وعدہ برحق ہے اسی میں وعدئہ عذاب بھی ہے۔