Surat Younus

Surah: 10

Verse: 6

سورة يونس

اِنَّ فِی اخۡتِلَافِ الَّیۡلِ وَ النَّہَارِ وَ مَا خَلَقَ اللّٰہُ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ یَّتَّقُوۡنَ ﴿۶﴾

Indeed, in the alternation of the night and the day and [in] what Allah has created in the heavens and the earth are signs for a people who fear Allah

بلا شبہ رات اور دن کے یکے بعد دیگرے آنے میں اور اللہ تعالٰی نے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں پیدا کیا ہے ان سب میں ان لوگوں کے واسطے دلائل ہیں جو اللہ کا ڈر رکھتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

إِنَّ فِي اخْتِلَفِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ ... Verily, in the alternation of the night and the day, The day and the night alternate, when one arrives, the other goes, and so on, with no errors. This is similar to the meaning indicated in the following Ayat: يُغْشِى الَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهُ حَثِيثًا He brings the night as a cover over the day, seeking it rapidly.... لااَ الشَّمْسُ يَنبَغِى لَهَأ أَن تدْرِكَ القَمَرَ It is not for the sun to overtake the moon. (36:40) and, فَالِقُ الاِصْبَاحِ وَجَعَلَ الَّيْلَ سَكَناً (He is the) Cleaver of the daybreak. He has appointed the night for resting. (6:96) Allah continued: ... وَمَا خَلَقَ اللّهُ فِي السَّمَاوَاتِ وَالاَرْضِ ... and in all that Allah has created in the heavens and the earth, meaning the signs that indicate His greatness. This is similar to Allah's statements: وَكَأَيِّن مِّن ءَايَةٍ فِى السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضِ And how many a sign in the heavens and the earth... (12:105) قُلِ انظُرُواْ مَاذَا فِى السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضِ وَمَا تُغْنِى الايَـتُ وَالنُّذُرُ عَن قَوْمٍ لاَّ يُوْمِنُونَ "Say: "Behold all that is in the heavens and the earth," but neither Ayat nor warners benefit those who believe not. (10:101) أَفَلَمْ يَرَوْاْ إِلَى مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ مِّنَ السَّمَأءِ وَالاٌّرْضِ See they not what is before them and what is behind them, of the heaven and the earth. (34:9) إِنَّ فِى خَلْقِ السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضِ وَاخْتِلَـفِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ لاّيَـتٍ لاٌّوْلِى الاٌّلْبَـبِ Verily, in the creation of the heavens and the earth, and in the alternation of night and day, there are indeed signs for men of understanding. (3:190) means intelligent men. Allah said here, ... لاايَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَّقُونَ Ayat for those who have Taqwa. meaning fear Allah's punishment, wrath and torment.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١] چاند اور سورج کی گردش کے صرف وہی فوائد نہیں جو اوپر مذکور ہوئے بلکہ انہی کی گردش سے دن رات پیدا ہوتے ہیں اور انہی سے ہمیں دن اور رات کو روشنی حاصل ہوتی ہے انہی سے موسم بنتے ہیں فصلیں پکتی ہیں۔ چاند جن دنوں میں زائد النور ہوتا ہے، پھلوں میں رس تیزی سے بڑھتا ہے اور جب ناقص النور ہوتا ہے تو یہ رفتار سست پڑجاتی ہے وغیرہ وغیرہ، ان سب امور میں اللہ تعالیٰ کی معرفت کی بیشمار نشانیاں ہیں اور جو لوگ ان میں غور و فکر کرتے ہیں ان پر اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلالت پوری طرح واضح ہوجاتی ہے۔ لہذا وہ اللہ کی نافرمانی سے خوف کھانے لگتے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنَّ فِي اخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ ۔۔ : سورج روزانہ نئی جگہ سے طلوع اور نئی جگہ غروب ہوتا ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ کی ایک صفت رب المشارق (بہت سے مشرقوں کا رب) ہے۔ اسی سے دن رات کا چھوٹا بڑا ہونا، موسموں کا بدلنا، ٹھیک وقت پر شمسی سال کے لحاظ سے سال کے بعد وہی موسم دوبارہ آجانا اور زمین و آسمان میں موجود اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ بیشمار چیزوں میں یقیناً اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور اس کی توحید کی بیشمار نشانیاں ہیں، مگر ان کے لیے جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے اور برے انجام سے بچتے ہیں۔ ان نشانیوں کی تفصیل چاہو تو ہر قدم پر اور ہر لمحہ تمہارے سامنے ہیں، مگر جو منہ ہی موڑ لے اس کا کیا علاج ؟ دیکھیے سورة یوسف (١٠٥) موٹی موٹی نشانیوں کے لیے دیکھیے سورة بقرہ (١٦٤) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Similarly, it was said in the second verse (6) that there are signs in the coming of the night after the day and the day after the night, and in everything Allah has created in the heavens and the earth. These are open proofs (of the Oneness of Allah and the inevitability of the Hereafter) for those who fear Allah. That they are proofs of the Oneness of Allah (Tauhid) is not diffi¬cult to see. He has the power to make things happen. He makes things as no one can. He creates everything without the help of materials, personnel and prototype, and has the mastery to operate them under a system that never breaks or must be replaced. And they are proofs of the &Akhirah (Hereafter) because Allah is a great creator. He created, in His infinite wisdom, objects of such pro-portion and efficiency for the benefit of human beings. Then, He made them follow a remarkably stable system. Now, it is not possible that He would have created human beings, who are the served ones in this universe, just for nothing, or just to eat and drink, or in some other nonchalant manner without assigning any duties to them. When it stands settled that some restrictions must apply to the served one of this universe, it also becomes necessary that those who observe or do not observe these restrictions should face an accounting of what they have done, sometime, somewhere. Naturally, those who do observe these shall be rewarded and those who do not shall be punished. Then, it is also obvious that things do not work like this in the present world of our experience. Here, reward and punishment do not follow that pattern. It is quite likely that a criminal here may be living better as compared to someone God-fearing, righteous and innocent. Therefore, it is necessary to have a day for the accounting of deeds, rewards and punishments. This is what Qiyamah (The Last Day) and &Akhirah (Hereafter) are.

اسی طرح دوسری آیت میں ارشاد فرمایا کہ رات دن کے یکے بعد دیگرے آنے میں اور جو کچھ اللہ نے آسمانوں اور زمین میں پیدا کیا ہے ان سب میں ان لوگوں کے واسطے ( توحید و آخرت کے) دلائل ہیں جو خدا تعالیٰ کا ڈر مانتے ہیں۔ توحید کے دلائل تو قدرت و صنعت کی یکتائی اور بغیر کسی امداد کے ان تمام چیزوں کو پیدا کرنا اور ایسے نظام کے ساتھ چلانا ہے جو نہ کبھی ٹوٹتا ہے نہ بدلتا ہے۔ اور آخرت کے دلائل اس لئے ہیں کہ جس ذات حکیم نے ان تمام چیزوں کو انسانوں کے فائدہ کے لئے بنایا اور ایک محکم نظام کا پابند کیا، اس سے یہ ممکن نہیں کہ اس مخدوم کائنات کو اس نے بےفائدہ محض کھانے پینے کے لئے پیدا کیا ہو، اس کے ذمہ کچھ فرائض نہ لگائے ہوں، اور جب یہ لازم ہوا کہ اس مخدوم کائنات پر بھی کچھ پابندیاں ہونا ضروری ہے تو یہ بھی لازم ہوا کہ ان پابندیوں کو پورا کرنے والوں اور نہ کرنے والوں کا کبھی کہیں حساب ہو، کرنے والوں کو اچھا بدلہ ملے اور نہ کرنے والوں کو سزا، اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اس دنیا میں تو جزا و سزا کا یہ دستور نہیں، یہاں تو مجرم بسا اوقات متقی پارسا سے زیادہ اچھی زندگی گزارتا ہے، اس لئے ضرورت ہے کہ حساب اور جزاء و سزا کا کوئی دن مقرر ہو، اسی کا نام قیامت اور آخرت ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّ فِي اخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّہَارِ وَمَا خَلَقَ اللہُ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّتَّقُوْنَ۝ ٦ الاختلافُ والمخالفة والاختلافُ والمخالفة : أن يأخذ کلّ واحد طریقا غير طریق الآخر في حاله أو قوله، والخِلَاف أعمّ من الضّدّ ، لأنّ كلّ ضدّين مختلفان، ولیس کلّ مختلفین ضدّين، ولمّا کان الاختلاف بين النّاس في القول قد يقتضي التّنازع استعیر ذلک للمنازعة والمجادلة، قال : فَاخْتَلَفَ الْأَحْزابُ [ مریم/ 37] ( خ ل ف ) الاختلاف والمخالفۃ الاختلاف والمخالفۃ کے معنی کسی حالت یا قول میں ایک دوسرے کے خلاف کا لفظ ان دونوں سے اعم ہے کیونکہ ضدین کا مختلف ہونا تو ضروری ہوتا ہے مگر مختلفین کا ضدین ہونا ضروری نہیں ہوتا ۔ پھر لوگوں کا باہم کسی بات میں اختلاف کرنا عموما نزاع کا سبب بنتا ہے ۔ اس لئے استعارۃ اختلاف کا لفظ نزاع اور جدال کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَاخْتَلَفَ الْأَحْزابُ [ مریم/ 37] پھر کتنے فرقے پھٹ گئے ۔ ليل يقال : لَيْلٌ ولَيْلَةٌ ، وجمعها : لَيَالٍ ولَيَائِلُ ولَيْلَاتٌ ، وقیل : لَيْلٌ أَلْيَلُ ، ولیلة لَيْلَاءُ. وقیل : أصل ليلة لَيْلَاةٌ بدلیل تصغیرها علی لُيَيْلَةٍ ، وجمعها علی ليال . قال اللہ تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم/ 33] ( ل ی ل ) لیل ولیلۃ کے معنی رات کے ہیں اس کی جمع لیال ولیا ئل ولیلات آتی ہے اور نہایت تاریک رات کو لیل الیل ولیلہ لیلاء کہا جاتا ہے بعض نے کہا ہے کہ لیلۃ اصل میں لیلاۃ ہے کیونکہ اس کی تصغیر لیلۃ اور جمع لیال آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر/ 1] ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل ( کرنا شروع ) وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم/ 33] اور رات اور دن کو تمہاری خاطر کام میں لگا دیا ۔ نهار والنهارُ : الوقت الذي ينتشر فيه الضّوء، وهو في الشرع : ما بين طلوع الفجر إلى وقت غروب الشمس، وفي الأصل ما بين طلوع الشمس إلى غروبها . قال تعالی: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان/ 62] ( ن ھ ر ) النھر النھار ( ن ) شرعا طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب کے وقت گو نھار کہاجاتا ہے ۔ لیکن لغوی لحاظ سے اس کی حد طلوع شمس سے لیکر غروب آفتاب تک ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان/ 62] اور وہی تو ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے والا بیانا ۔ سما سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] ، ( س م و ) سماء ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ أرض الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . ( ا رض ) الارض ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ تقوي والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦) بلاشبہ دن اور رات کی تبدیلی اور ان کی کمی بیشی اور ان کے آنے جانے میں اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں میں چاند سورج اور ستارے وغیرہ اور جو کچھ زمین میں درخت، جانور، پہاڑ اور دریا پیدا کیے ان سب میں وحدانیت خداوندی کے دلائل ہیں ان لوگوں کے واسطے جو اللہ کی اطاعت کرتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦ (اِنَّ فِی اخْتِلاَفِ الَّیْلِ وَالنَّہَارِ وَمَا خَلَقَ اللّٰہُ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَّقُوْنَ ) ان نشانیوں سے وہی لوگ سبق حاصل کرکے مستفیض ہوسکتے ہیں جن کے اندر خوف خدا ہے اور ان کی اخلاقی حس بیدار ہوتی ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

11. This provides yet another argument in support of the doctrine of the Hereafter. The argument is derived from the orderly nature of the universe. This vast universe - the handiwork of God - is spread out before our eyes. It is full of signs of God's power and wisdom such as those which underlie the sun and the moon and the alternation of night and day. Even a superficial glance at the universe is enough to convince one that the Creator of this enormous universe is not at all like a child who creates something to play with and after enjoying it for a while whimsically destroys it. For it is quite evident that every act of the Creator is characterized by order and wisdom, and that a strong purposiveness underlies everything, even a speck of dust. Now, since the Creator is All-Wise - as is evident from His creation - it is absurd to assume that He Who has also invested man with reason, moral consciousness and free-will, will not call man to account for his conduct; that He will altogether disregard the need for retribution arising from man's responsibility which in turn stems from his inherent rational and moral endowments. Apart from expounding the doctrine of the Hereafter, the above verses also adduce the following three arguments in support of that doctrine: First, a persuasive case is made out in support of the possibility of a second life. The basis of the argument is that the creation of man in the first instance is indicative of God's creative power. (There is no reason to believe that God has become bereft of that power of creation, and hence would be unable to create man afresh - Ed.) Second, the Next Life is needed in order that man might be rewarded or punished in consideration of his performance, whether good or bad. Both justice and reason seem to call for a new life wherein everyone would be able to see, in a fair manner, the consequence of his deeds. Third, that the Next Life, which is a requirement of justice and reason, will certainly come to pass. This is because the Creator, Who created man and the universe, is All-Wise, and it is inconceivable that such a Being will not respond to an unmistakable requirement of justice and reason. After careful consideration it appears that the above are the only possible arguments that might be adduced and they suffice to establish that there is life after death. The only possible question that remains, after having established that the Next Life is demanded by both reason and justice, and also that it is a requisite of God's wisdom, is whether it is possible to visually observe the Next Life in the manner in which people observe other objects. Now it should he clearly understood that this inability will remain during the present phase of existence. The reason for it is that God asks man to believe in cerium truths and such a demand in respect of objects which can be observed with human eyes would be utterly meaningless. The test to which man has been put consists precisely of this; whether man can affirm certain truths which belong to the suprasensory realm by the use of his rational faculties. Another point which has been stated in this context also deserves serious consideration. This is embodied in the following Qur'anic statement: 'He expounds His signs for the people who know' (Yunus 10: 5);'. . . and in all that Allah has created in the heavens and the earth there are signs for the people who seek to avoid (error of outlook and conduct)' (Yunus 10: 6). This means that God in His infinite wisdom has seen to it that in the multifarious phenomena of existence there should be plenty of signs which betoken the hidden realities underlying that phenomena. However, not all men will be able to benefit from those signs. Those who will be able to benefit are those (i) who liberate themselves from prejudices and seek knowledge with the help of the natural endowments bestowed upon them by God. and (ii) those who are Keen not to fall into error and who earnestly seek to adhere to the right way.

سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :11 یہ عقیدہ آخرت کی تیسری دلیل ہے ۔ کائنات میں اللہ تعالیٰ کے جو کام ہر طر ف نظر آرہے ہیں ، جن کے بڑے بڑے نشانات سورج اور چاند ، اور لیل و نہار کی گردش کی صورت میں ہر شخص کے سامنے موجود ہیں ، ان سے اس بات کا نہایت واضح ثبوت ملتا ہے کہ اس عظیم الشان کار گاہ ہستی کا خالق کوئی بچہ نہیں ہے جس نے محض کھیلنے کے لیے یہ سب کچھ بنایا ہو اور پھر دل بھر لینے کے بعد یونہی اس گھروندے کو توڑ پھوڑ ڈالے ۔ صریح طور پر نظر آرہا ہے کہ اس کے ہر کام میں نظم ہے ، حکمت ہے ، مصلحتیں ہیں ، اور ذرے ذرے کی پیدائش میں ایک گہری مقصدیت پائی جاتی ہے ۔ پس جب وہ حکیم ہے اور اس کی حکمت کے آثار و علائم تمہارے سامنے علانیہ موجود ہیں ، تو اس سے تم کیسے یہ توقع رکھ سکتے ہو کہ وہ انسان کو عقل اور اخلاقی ذمہ داری کی بنا پر جزا و سزا کا جو استحقاق لازما پیدا ہوتا ہے اسے یونہی مہمل چھوڑ دے گا ۔ اس طرح ان آیات میں عقیدہ آخرت پیش کرنے کے ساتھ اس کی تین دلیلیں ٹھیک ٹھیک منطقی ترتیب کے ساتھ دی گئی ہیں: اول یہ کہ دوسری زندگی ممکن ہے کیونکہ پہلی زندگی کا امکان واقعہ کی صورت میں موجود ہے ۔ دوم یہ کہ دوسری زندگی کی ضرورت ہے کیونکہ موجودہ زندگی میں انسان اپنی اخلاقی ذمہ داری کو صحیح یا غلط طور پر جس طرح ادا کرتا ہے اور اس سے سزا اور جزا کا جو استحقاق پیدا ہوتا ہے اس کی بنا پر عقل اور انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ ایک اور زندگی ہو جس میں ہر شخص اپنے اخلاقی رویہ کا وہ نتیجہ دیکھے جس کا وہ مستحق ہے ۔ سوم یہ ہے جب عقل و انصاف کی رو سے دوسری زندگی کی ضرورت ہے تو یہ ضرورت یقینا پوری کی جائےگی ، کیونکہ انسان اور کائنات کا خالق حکیم ہے اور حکیم سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ حکمت و انصاف جس چیز کے متقاضی ہوں اسے وہ وجود میں لانے سے باز رہ جائے ۔ غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ زندگی بعد موت کو استدلال سے ثابت کر نے کے لیے یہی تین دلیلیں ممکن ہیں اور یہی کافی بھی ہیں ۔ ان دلیلوں کے بعد اگر کسی چیز کی کسر باقی رہ جاتی ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ انسان کو آنکھوں سے دکھا دیا جائے کہ جو چیز ممکن ہے جس کے وجود میں آنے کی ضرورت بھی ہے ، اور جس کو وجود میں لانا خدا کی حکمت کا تقاضا بھی ہے ، وہ دیکھ یہ تیرے سامنے موجود ہے ۔ لیکن یہ کسر بہرحال موجودہ دنیوی زندگی میں پوری نہیں کی جائے گی ، کیونکہ دیکھ کر ایمان لانا کوئی معنی نہیں رکھتا ۔ اللہ تعالیٰ انسان کا جو امتحان لینا چاہتا ہے وہ تو ہے ہی یہ کہ وہ حس اور مشاہدے سے بالاتر حقیقتوں کو خالص نظر و فکر اور استدلال صحیح کے ذریعہ سے مانتا ہے یا نہیں ۔ اس سلسلہ میں ایک اور اہم مضمون بھی بیان فرما دیا گیا ہے جو گہری توجہ کا مستحق ہے ۔ فرمایا کہ ” اللہ کی نشانیوں کو کھول کھول کر پیش کر رہا ہے ان لوگوں کے لیے جو علم رکھتے ہیں“ اور” اللہ کی پیدا کی ہوئی ہر چیز میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غلط بینی و غلط روی سے بچنا چاہتے ہیں“ ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نہایت حکیمانہ طریقے سے زندگی کے مظاہر میں ہر طرف وہ آثار پھیلا رکھے ہیں جو ان مظاہر کے پیچھے چھپی ہوئی حقیقتوں کی صاف صاف نشان دہی کر رہے ہیں ۔ لیکن ان نشانات سے حقیقت تک صرف وہ لوگ رسائی حاصل کر سکتے ہیں جن کے اندر یہ دو صفات موجود ہیں: ایک یہ کہ وہ جاہلانہ تعصبات سے پاک ہو کر علم حاصل کر نے کے ان ذرائع سے کام لیں جو اللہ نے انسان کو دیے ہیں ۔ دوسرے یہ کہ ان کے اندر خود یہ خواہش موجود ہو کہ غلطی سے بچیں اور صحیح راستہ اختیار کریں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ان فی اختلاف الیل والنھار بیشک رات دن کے اختلاف میں۔ اختلاف سے مراد ہے ایک کا دوسرے کے پیچھے آنا جانا یا رنگوں کا اختلاف مراد ہے ‘ روشن اور تاریک وما خلق اللہ فی السموت والارض اور جو کائنات آسمانوں میں اور زمین اللہ نے بنائی ہے ‘ اس میں۔ لایٰت بلاشبہ نشانیاں ہیں۔ صانع کے وجود کی ‘ اس کی توحید کی ‘ اس کے کمال علم وقدرت کی اور تمام عیوب و نقائص سے اس کے پاک ہونے کی۔ لقوم یتقون۔ ان لوگوں کیلئے جو (برے انجام سے) ڈرتے ہیں کیونکہ یہ ساری کائنات اہل اتقاء کو غور و فکر کی دعوت دے رہی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

15: یہ دلیل ثانی کا تتمہ ہے یعنی رات دن کی آمد و رفت اور زمین و آسمان کی ساری مخلوقات میں اللہ تعالیٰ کی توحید پر بہت بڑی دلیل ہے مگر ان لوگوں کے لیے جو بنظر انصاف ان میں سوچ بچار کریں، ان کے دلوں میں انابت و اطاعت کا جذبہ ہو اور ضد وعناد سے دور ہوں “ (لَاٰیٰت) لعلا مات لوحدانیة الرب (لِقَوْمٍ یَّتَّقُوْنَ ) یطیعون ” (ابن عباس ص 131) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

6 بلاشبہ رات دن کے آگے پیچھے آنے میں اور ان چیزوں میں جو اللہ تعالیٰ نے آسمانوں میں اور زمین میں پیدا کی ہیں۔ ان لوگوں کے بڑے دلائل ہیں جو خدا سے ڈرتے اور اس کا ڈر مانتے ہیں۔ یہ رات دن کا اختلاف اور یکے بعد دیگرے آنا اور آسمان و زمین کی تمام مخلوق میں توحید الٰہی کے ہزاروں دلائل مضمر ہیں لیکن ان دلائل سے وہی لوگ فائدہ اٹھاسکتے ہیں جو خدا سے ڈرتے اور اس کی جستجو رکھتے ہیں۔