Surat Younus

Surah: 10

Verse: 60

سورة يونس

وَ مَا ظَنُّ الَّذِیۡنَ یَفۡتَرُوۡنَ عَلَی اللّٰہِ الۡکَذِبَ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَذُوۡ فَضۡلٍ عَلَی النَّاسِ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَہُمۡ لَا یَشۡکُرُوۡنَ ﴿٪۶۰﴾  11

And what will be the supposition of those who invent falsehood about Allah on the Day of Resurrection? Indeed, Allah is full of bounty to the people, but most of them are not grateful."

اور جو لوگ اللہ پر جھوٹ افترا باندھتے ہیں ان کا قیامت کی نسبت کیا گمان ہے ؟ واقعی لوگوں پر اللہ تعالٰی کا بڑا ہی فضل ہے لیکن اکثر آدمی شکر نہیں کرتے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَمَا ظَنُّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللّهِ الْكَذِبَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ... And what think those who invent a lie against Allah, on the Day of Resurrection! What do they think will happen to them when they return to Us on the Day of Resurrection! ... إِنَّ اللّهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ ... Truly, Allah is full of bounty to mankind, Ibn Jarir said that Allah's statement: indicated that the bounty is in postponing their punishment in this world. I (Ibn Kathir) say, the meaning could be that the Grace for people is in the good benefits that He made permissible for them in this world or in their religion. He also has not prohibited them except what is harmful to them in their world and the Hereafter. ... وَلَـكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لاَ يَشْكُرُونَ but most of them are ungrateful. So they prohibited what Allah has bestowed upon them and made it hard and narrow upon themselves. They made some things lawful and others unlawful. The idolators committed these actions when they set laws for themselves. And so did the People of the Book when they invented innovations in their religion.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

60۔ 1 یعنی قیامت والے دن اللہ تعالیٰ ان سے کیا معاملہ فرمائے گا۔ 60۔ 2 کہ وہ انسانوں کا دنیا میں فوراً مواخذا نہیں کرتا، بلکہ اس کے لئے ایک دن مقرر کر رکھا ہے۔ یا مطلب یہ ہے کہ وہ دنیا کی نعمتیں بلا تفریق مومن و کافر، سب کو دیتا ہے۔ یا یہ چیزیں انسانوں کے لئے مفید اور ضروری ہیں، انھیں حلال اور جائز قرار دیا ہے، انھیں حرام نہیں کیا۔ 60۔ 3 یعنی اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتے، یا اس کی حلال کردہ چیزوں کو حرام کرلیتے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٥] یعنی قیامت کے دن ان حلال اور حرام بنانے والوں سے کیسا سلوک کیا جائے گا ؟ اس دن انھیں جو مار پڑے گی اور دکھ کا عذاب سہنا پڑے گا اس کے متعلق بھی ان افتراء پردازوں نے کبھی غور کیا ہے ؟ اللہ تو لوگوں پر بڑا مہربان ہے جس نے ہر وقت انھیں ہر اچھے اور برے کام کے انجام سے مطلع کردیا ہے لیکن بجائے اس کے کہ لوگ اللہ کی اس مہربانی پر اس کے شکر گزار ہوتے الٹا اس کی حدود کی خلاف ورزی بھی کرتے ہیں پھر اسی کے نام سے منسوب بھی کردیتے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَمَا ظَنُّ الَّذِيْنَ يَفْتَرُوْنَ عَلَي اللّٰهِ الْكَذِبَ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : یعنی ان سے کیا سلوک کیا جائے گا ؟ (فتح الرحمن) کیا ان کا گمان یہ ہے کہ ان کے بلا دلیل اپنے پاس سے حلال کو حرام اور حرام کو حلال قرار دے کر اللہ پر بہتان باندھنے پر ان کی کوئی پکڑ نہ ہوگی اور انھیں یوں ہی چھوڑ دیا جائے گا ؟ اِنَّ اللّٰهَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَي النَّاسِ ۔۔ : ” فَضٌلً “ کی تنوین تعظیم کے لیے ہے، یعنی اللہ تعالیٰ تو لوگوں پر بہت بڑے فضل والا ہے کہ پیدا کرکے عقل اور ہر نعمت بخشی، پھر انھیں مہلت دی، نافرمانیوں کے باوجود ان کے رزق میں کمی نہ کی، مگر وہ اس کی نرمی اور استدراج (مہلت دینے) کو دیکھ کر گناہوں پر اور دلیر ہوجاتے ہیں اور اس کے دیے ہوئے رزق میں سے جسے چاہتے ہیں حلال اور جسے چاہتے ہیں حرام قرار دے لیتے ہیں۔ اس قسم کی ناشکر گزاری میں مشرکین بھی مبتلا تھے اور اہل کتاب بھی کہ انھوں نے اپنی طرف سے بہت سی چیزوں کو دین بنا رکھا تھا۔ (ابن کثیر)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَا ظَنُّ الَّذِيْنَ يَفْتَرُوْنَ عَلَي اللہِ الْكَذِبَ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ۝ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَي النَّاسِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَھُمْ لَا يَشْكُرُوْنَ۝ ٦٠ ۧ ظن والظَّنُّ في كثير من الأمور مذموم، ولذلک قال تعالی: وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس/ 36] ، وَإِنَّ الظَّنَ [ النجم/ 28] ، وَأَنَّهُمْ ظَنُّوا كَما ظَنَنْتُمْ [ الجن/ 7] ، ( ظ ن ن ) الظن اور ظن چونکہ عام طور پر برا ہوتا ہے اس لئے اس کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا : وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس/ 36] اور ان میں کے اکثر صرف ظن کی پیروی کرتے ہیں ۔ فری الفَرْيُ : قطع الجلد للخرز والإصلاح، والْإِفْرَاءُ للإفساد، والِافْتِرَاءُ فيهما، وفي الإفساد أكثر، وکذلک استعمل في القرآن في الکذب والشّرک والظّلم . نحو : وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء/ 48] ، ( ف ری ) الفری ( ن ) کے معنی چمڑے کو سینے اور درست کرنے کے لئے اسے کاٹنے کے ہیں اور افراء افعال ) کے معنی اسے خراب کرنے کے لئے کاٹنے کے ۔ افتراء ( افتعال کا لفظ صلاح اور فساد دونوں کے لئے آتا ہے اس کا زیادہ تر استعمال افسادی ہی کے معنوں میں ہوتا ہے اسی لئے قرآن پاک میں جھوٹ شرک اور ظلم کے موقعوں پر استعمال کیا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء/ 48] جس نے خدا کا شریک مقرر کیا اس نے بڑا بہتان باندھا ۔ قِيامَةُ : عبارة عن قيام الساعة المذکور في قوله : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم/ 12] ، يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین/ 6] ، وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف/ 36] ، والْقِيَامَةُ أصلها ما يكون من الإنسان من القیام دُفْعَةً واحدة، أدخل فيها الهاء تنبيها علی وقوعها دُفْعَة، القیامت سے مراد وہ ساعت ( گھڑی ) ہے جس کا ذکر کہ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم/ 12] اور جس روز قیامت برپا ہوگی ۔ يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین/ 6] جس دن لوگ رب العلمین کے سامنے کھڑے ہوں گے ۔ وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف/ 36] اور نہ خیال کرتا ہوں کہ قیامت برپا ہو۔ وغیرہ آیات میں پایاجاتا ہے ۔ اصل میں قیامتہ کے معنی انسان یکبارگی قیام یعنی کھڑا ہونے کے ہیں اور قیامت کے یکبارگی وقوع پذیر ہونے پر تنبیہ کرنے کے لئے لفظ قیام کے آخر میں ھاء ( ۃ ) کا اضافہ کیا گیا ہے ذو ذو علی وجهين : أحدهما : يتوصّل به إلى الوصف بأسماء الأجناس والأنواع، ويضاف إلى الظاهر دون المضمر، ويثنّى ويجمع، ويقال في المؤنّث : ذات، وفي التثنية : ذواتا، وفي الجمع : ذوات، ولا يستعمل شيء منها إلّا مضافا، قال : وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة/ 251] ، وقال : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم/ 6] ، وَذِي الْقُرْبى [ البقرة/ 83] ، وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود/ 3] ، ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة/ 177] ، إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ [ الأنفال/ 43] ، وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف/ 18] ، وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال/ 7] ، وقال : ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن/ 48] ، وقد استعار أصحاب المعاني الذّات، فجعلوها عبارة عن عين الشیء، جو هرا کان أو عرضا، واستعملوها مفردة ومضافة إلى المضمر بالألف واللام، وأجروها مجری النّفس والخاصّة، فقالوا : ذاته، ونفسه وخاصّته، ولیس ذلک من کلام العرب . والثاني في لفظ ذو : لغة لطيّئ، يستعملونه استعمال الذي، ويجعل في الرفع، والنصب والجرّ ، والجمع، والتأنيث علی لفظ واحد نحو : وبئري ذو حفرت وذو طویت ( ذ و ) ذو ( والا ۔ صاحب ) یہ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ( 1) اول یہ کہ اسماء اجناس وانوع کے ساتھ توصیف کے لئے اسے ذریعہ بنایا جاتا ہے ۔ اس صورت میں اسم ضمیر کیطرف مضاف نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ اسم ظاہر کی طرف مضاف ہوتا ہے اور اس کا تنثیہ جمع بھی آتا ہے ۔ اور مونث کے لئے ذات کا صیغہ استعمال ہوتا ہے اس کا تثنیہ ذواتا اور جمع ذوات آتی ہے ۔ اور یہ تمام الفاظ مضاف ہوکر استعمال ہوتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة/ 251] لیکن خدا اہل عالم پر بڑا مہرابان ہے ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم/ 6] ( یعنی جبرئیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے ۔ وَذِي الْقُرْبى [ البقرة/ 83] اور رشتہ داروں ۔ وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود/ 3] اور ہر ساحب فضل کو اسکی بزرگی ( کی داو ) دیگا ۔ ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة/ 177] رشتہ داروں اور یتیموں ۔ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ [ الأنفال/ 43] تو دلوں تک کی باتوں سے آگاہ ہے ۔ وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف/ 18] اور ہم ان کو دائیں اور بائیں کروٹ بدلاتے ہیں ۔ وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال/ 7] اور تم چاہتے تھے کہ جو قافلہ بےشان و شوکت ( یعنی بےہتھیار ) ہے وہ تمہارے ہاتھ آجائے ۔ ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن/ 48] ان دونوں میں بہت سے شاخیں یعنی قسم قسم کے میووں کے درخت ہیں ۔ علمائے معانی ( منطق وفلسفہ ) ذات کے لفظ کو بطور استعارہ عین شے کے معنی میں استعمال کرتے ہیں اور یہ جو ہر اور عرض دونوں پر بولاجاتا ہے اور پھر کبھی یہ مفرد یعنی بدون اضافت کت استعمال ہوتا ہے ۔ اور کبھی اسم ضمیر کی طرف مضاف ہو کر اور کبھی معرف بلالم ہوکر ۔ اور یہ لفظ بمنزلہ نفس اور خاصہ کے بولا جاتا ہے ۔ اور نفسہ وخاصتہ کی طرح ذاتہ بھی کہاجاتا ہے ۔ مگر یہ عربی زبان کے محاورات سے نہیں ہے ( 2 ) دوم بنی طیی ذوبمعنی الذی استعمال کرتے ہیں اور یہ رفعی نصبی جری جمع اور تانیث کی صورت میں ایک ہی حالت پر رہتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع ( الوافر ) یعنی کنواں جسے میں نے کھودا اور صاف کیا ہے ۔ شكر الشُّكْرُ : تصوّر النّعمة وإظهارها، قيل : وهو مقلوب عن الکشر، أي : الکشف، ويضادّه الکفر، وهو : نسیان النّعمة وسترها۔ والشُّكْرُ ثلاثة أضرب : شُكْرُ القلب، وهو تصوّر النّعمة . وشُكْرُ اللّسان، وهو الثّناء علی المنعم . وشُكْرُ سائر الجوارح، وهو مکافأة النّعمة بقدر استحقاقه . وقوله تعالی: اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ/ 13] ، ( ش ک ر ) الشکر کے معنی کسی نعمت کا تصور اور اس کے اظہار کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ کشر سے مقلوب ہے جس کے معنی کشف یعنی کھولنا کے ہیں ۔ شکر کی ضد کفر ہے ۔ جس کے معنی نعمت کو بھلا دینے اور اسے چھپا رکھنے کے ہیں شکر تین قسم پر ہے شکر قلبی یعنی نعمت کا تصور کرنا شکر لسانی یعنی زبان سے منعم کی تعریف کرنا شکر بالجوارح یعنی بقدر استحقاق نعمت کی مکافات کرنا ۔ اور آیت کریمہ : اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ/ 13] اسے داود کی آل میرا شکر کرو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٠) اور جو اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں انکا قیامت کے متعلق کیا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ کیا معاملہ کرے گا، واقعی لوگوں پر اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل ہے کہ اس نے ان سے عذاب کو ٹال رکھا ہے لیکن اکثر اس احسان کی بےقدری کرتے ہیں اور اس پر ایمان نہیں لاتے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٠ (وَمَا ظَنُّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ ) وہ کیا خیال رکھتے ہیں کہ اس دن اس جرم کے بدلے میں ان کے ساتھ کیسا سلوک ہوگا

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

60. The word rizq is often used in daily parlance to denote 'eatables'. Hence, many people think that the reproach embodied in the present verse is directed merely against the wrong customs that have come into vogue in that narrow realm of behaviour which is confined to the dining room. It is not only those who are ignorant but also those who are learned about Islam that are victims of this misconception. However, use of the word rizq in Arabic is not confined to eatables. It is used in a broad sense, and covers all the things that are granted to man by God for his use. Whatever God has conferred on man thus constitutes his rizq, including his offspring. In the works of the branch of knowledge called Asma al-Rijal (which is part of the Hadith Sciences), we find, among the transmitters of traditions, several names such as Rizq, Ruzayq, and Rizq Allah which signify the recipients of God's bounty. In the famous invocative prayer . 'O God: Show us the truth and grant us the strength (urzuqna) to follow it', the rizq that a person seeks from God is the strength to follow the truth after God has enabled him to perceive it. Here rizq has been used to mean the conferment of the bounty of knowledge on someone. In a tradition we have been told that Allah sends an angel to the womb of every expectant mother and that he writes down what the rizq, the life-span, and deeds of the to-be-born child are to be (see al-Bukhari, Kitab Bad' al-Khalq, Bad Dhikr al-Mala' ikah -Ed.). It is quite obvious that the word rizq here does not signify merely the eatables that child will receive during its life-lime; it rather signifies the totality of the things that it will receive. We also find the expression j in the Qur'an. (See al-Baqarah 2: 3; al-Anfal 8: 3 - Ed.) It is, therefore, a serious mistake to consider rizq as being confined to the realm of the kitchen and the dining table. Likewise, it is a mistake, and quite a serious one to think that God disapproves only if those rules in the domain of food are broken and does not mind if people do so in other domains of life. The error that people so commit has very grave consequences. As a result of this misconception, an important principle of Islam has been lost sight of. For it is owing to this misconception that while lawfulness or otherwise in regard to eating and drinking is considered a seriously religious issue, even highly religious people, let alone ordinary Muslims, feel no serious repugnance about the notion that in the collective sphere of life man has the right to lay down the rules of his behaviour. Even the most learned and pious religious scholars feel no revulsion against legislating without reference to God and His Book. Nor do they feel that such legislation is as sharply in conflict with Islam as one's laying down what is lawful and what is unlawful in matters of food and drink. 61. The purpose of the verse is to make people realize what an enormous act of rebellion people are committing by laying down, of their own accord, the limits that are lawful and those that are unlawful. Are they not conscious of the fact that human beings and all that they possess belong to Allah? If they are conscious of it, how can it be considered justifiable for men to lay down as to how they should use the possessions bestowed upon them by Allah? What would their own opinion be about the servant who claims that he has the full right to lay down the rules for the disposal of his master's property, and who believes that his master has no right to determine anything? Were a person's own servant to make such a claim about his master, how would the latter react to it? As for the servant who goes so far as even to deny that he is a servant or denies that he is answerable to a master, or who denies that the property under his care belongs to his master, he is guilty of an even greater monstrosity, and is beyond the scope of our discussion here. What is being discussed is the case of one who, on the one hand, acknowledges that he is the servant of a master and that the property in his possession has been entrusted to him by the master, and rightfully belongs to the master. Notwithstanding this acknowledgement, the servant claims that he has the right to lay down, independently of the master, the rules for using that properly. 62. If the master had authorized the servant to use his property as the latter wished and to lay down the rules for so doing as he pleased, the servant, would have been justified in doing so. But do these people really have any evidence to prove that they had been granted any such authorization by their master? Or is it that such a claim was backed by no such authorization? If they do nut have any evidence to produce such an authorization, they are guilty not only of rebellious behaviour, but also of lies and fabrications. 63. It is indeed an act of utmost favour on the part of the master that he informs his servant of the attitude he should adopt to the master's house and to other belongings and even with regard to his own self as he is able to obtain God's good pleasure and how he would be able to escape his wrath and punishment, But many servants are not sufficiently grateful to their master for this favour. It seems that the right thing would have been for the master to have left his properties at the servant's disposal without informing him of what would lead to reward and what would lead to punishment. He should then have kept a secret watch over his servants and punished those who work contrary to his desire - a desire which had not even been made known to them. The fact is that if the master had put his servants to such a severe test none would have escaped his punishment.

سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :63 ” یعنی یہ تو آقا کی کمال درجہ مہربانی ہے کہ وہ نوکر کو خود بتاتا ہے کہ میرے گھر میں اور میرے مال میں اور خود اپنے نفس میں تو کونسا طرز عمل اختیار کرے گا تو میری خوشنودی اور انعام اور ترقی سے سرفراز ہو گا ، اور کس طریق کار سے میرے غضب اور سزا اور تنزل کا مستوجب ہوگا ۔ مگر بہت سے بے وقوف نوکر ایسے ہیں جو اس عنایت کا شکریہ ادا نہیں کرتے ۔ گویا ان کے نزدیک ہونا یہ چاہیے تھا کہ آقا ان کو بس اپنے گھر میں لا کر چھوڑ دیتا اور سب مال ان کے اختیار میں دے دینے کے بعد چھپ کر دیکھتا رہتا کہ کون سا نوکر کیا کرتا ہے ، پھر جو بھی اس کی مرضی کے خلاف ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جس کا کسی نوکر کو علم نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کوئی کام کرتا تو اسے وہ سزا دے ڈالتا ۔ حالانکہ اگر آقا نے اپنے نوکروں کو اتنے سخت امتحان میں ڈالا ہوتا تو ان میں سے کسی کا بھی سزا سے بچ جانا ممکن نہ تھا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(10:60) ما ظن الذین یفترون علی اللہ الکذب۔ میں ما استفہامیہ توبیخ اور وعید کے لئے آیا ہے۔ مبتداء ظن مضاف۔ الذین اسم موصول۔ یفترون علی اللہ الکذب جملہ فعلیہ ہوکر صلہ۔ صلہ اور موصول مل کر مضاف الیہ۔ مضاف اور مجاف الیہ مل کر مبتداء کی خبر۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے خلاف افتراء کا ارتکاب کرتے ہیں کیا خیال ہے ان کا یوم القیامۃ کے متعلق۔ ای ای شیء ظنھم فی ذلک الیوم انی فاعل بھم۔ کیا خیال ہے ان کا کہ اس دن میں ان کے ساتھ کیا سلوک کرنے والا ہوں (یعنی وہ اپنے کئے کی سزا بھگت کر ہی رہیں گے) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 ۔ یعنی ان سے کیا برتائو کیا جائے گا۔ (فتح الرحمن) ۔ کیا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے گناہوں پر ان کی کوئی پکڑ نہ ہوگی اور انہیں یونہی چھوڑ دیا جائے گا۔ 3 ۔ اس کی نرمی اور استدارج (مہلت) کو دیکھ کر گناہوں پر اور دلیر ہوجاتے اور اس کے دئیے ہوئے رزق میں سے جسے چاہتے ہیں حلال اور جسے چاہتے ہیں حرام قرار دے لیتے ہیں۔ اس قسم کی ناشکرگزاری میں مشرکین بھی مبتلا تھے اور اہل کتاب بھی کہ انہوں نے اپنی طرف سے بہت سی چیزوں کو مشروع قرار دے رکھا تھا۔ (ابن کثیر) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ یعنی جو بالکل ڈرتے نہیں کیا یہ سمجھتے ہیں کہ قیامت نہیں آئے گی مگر ہم سے باز پرس نہیں ہوگی۔ 2۔ کہ ساتھ کے ساتھ سزا نہیں دیتا بلکہ توبہ کرنے کے لیے مہلت دے رکھی ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وما ظن الذین یفترون علی اللہ الکذب یوم القیمۃ اور جو لوگ اللہ پر دروغ بندی کر رہے ہیں ‘ ان کا خیال قیامت کے دن (کے سلسلہ) میں کیا ہے ‘ کیا ان کا یہ خیال ہے کہ قیامت کے دن ان کو اس دروغ بندی کی سزا نہیں دی جائے گی ؟ نہیں ! ایسا ضرور ہوگا۔ لفظ ما میں وعید کا ابہام بتا رہا ہے کہ اللہ کی طرف سے کافروں کو یہ تہدید عذاب سخت طور پر دی گئی ہے۔ ان اللہ لذو فضل علی الناس اس میں شک نہیں کہ اللہ لوگوں پر بڑا مہربان ہے۔ اس نے عقل کی نعمت عطا کی اور ہدایت کیلئے کتابیں اتاریں اور پیغمبر بھیجے۔ ولکن اکثرھم لا یشکرون۔ لیکن اکثر لوگ اس نعمت کا شکر ادا نہیں کرتے۔ اگر شکر ادا کرنا ہوتا تو عقل و نقل کے حکم پر چلتے اور اللہ پر دروغ بندی نہ کرتے۔ آیت کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ بندوں پر بڑا مہربان ہے۔ بندے نافرمانی کرتے ہیں مگر اللہ دنیا میں فوراً ہی عذاب میں مبتلا نہیں کرتا (ڈھیل دیتا رہتا ہے) ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

آخر میں فرمایا (اِنَّ اللّٰہَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَی النَّاسِ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَھُمْ لاَ یَشْکُرُوْنَ ) (بلاشبہ اللہ تعالیٰ لوگوں پر فضل فرماتا ہے رزق حلال عطا فرماتا ہے لیکن اکثر لوگ ناشکری کرتے ہیں) حلال کو حرام قرار دے دیتے ہیں۔ اللہ کا یہ فضل بھی ہے کہ اس نے لوگوں کو دولت عقل سے نوازا پیغمبر بھیجے کتابیں نازل فرمائیں جنہوں نے حق اور ناحق واضح کر کے بتایا جس میں حرام و حلال کی تفصیلات بھی ہیں لیکن اکثر لوگوں کا یہ حال ہے کہ اللہ کے فضل کی قدر دانی نہیں کرتے اور شکر کے بجائے کفر ان نعمت کی راہ اختیار کرتے ہیں اس کفران نعمت میں معصیت اور کفرو شرک کا اختیار کرنا سب داخل ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

77: یہ تخویف و تہدید ہے “ یَوْمَ الْقِیٰمَة، ” مفعول فیہ ہے۔ “ ظَنٌّ ” کا یعنی یوم قیامت کے بارے میں ان افتراء کرنے والے مشرکین کا کیا گمان ہے کہ میں ان کے ساتھ کیا کرنے والا ہوں۔ کیا میں ان کو چھوڑ دوں گا اور ان سے مؤاخذہ نہیں کروں گا ؟ “ اَیَحْسَبُوْنَ انه لا یؤاخذھم ولا یجازیھم علی اعمالھم فھو استفھام بمعنی التوبیخ والتقریع والوعیذ العظیم لمن یفتري علی اللہ الکذب ” (خازن ج 3 ص 195) استفہام برائے توبیخ و تہدید ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

60 اور جو لوگ اللہ تعالیٰ پر جھوٹا افترا باندھتے ہیں وہ قیامت کے دن کی نسبت کیا گمان رکھتے ہیں بلاشبہ اللہ تعالیٰ کا لوگوں پر بڑا ہی فضل و انعام ہے لیکن اکثر لوگ فضل خداوندی کے ناسپاس ہیں وہ یوم قیامت کو کیا سمجھ رہے ہیں یعنی یہ دن واقع نہیں ہوگا یا واقع ہوگا تو ہم سے اس دن کچھ پوچھ گچھ نہیں ہوگی اللہ تعالیٰ کا فضل یعنی اس کے اپنی مخلوق پر بیشمار احسان ہیں گنہگار کو فوری نہیں پکڑتا عام طور سے توبہ کا موقعہ دیتا ہے۔