Surat Younus

Surah: 10

Verse: 62

سورة يونس

اَلَاۤ اِنَّ اَوۡلِیَآءَ اللّٰہِ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ ﴿ۚ ۖ۶۲﴾

Unquestionably, [for] the allies of Allah there will be no fear concerning them, nor will they grieve

یاد رکھو اللہ کے دوستوں پر نہ کوئی اندیشہ ہے اور نہ وہ غمگین ہوتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Identifying the Awliya' of Allah Allah tells; أَلا إِنَّ أَوْلِيَاء اللّهِ ... Behold! The Awliya' of Allah, Allah tells us that His Awliya' (friends and allies) are those who believe and have Taqwa of Allah as He defined them. Every pious, God-fearing person is a friend of Allah, therefore, ... لااَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ ... no fear shall come upon them, from the future horrors they will face in the Hereafter. ... وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ nor shall they grieve. over anything left behind in this world.

اولیاء اللہ کا تعارف اولیا اللہ وہ ہیں جن کے دلوں میں ایمان و یقین ہو ، جن کا ظاہر تقویٰ اور پرہیزگاری میں ڈوبا ہوا ہو ، جتنا تقویٰ ہوگا ، اتنی ہی ولایت ہوگی ۔ ایسے لوگ محض نڈر اور بےخوف ہیں قیامت کے دن کی وحشت ان سے دور ہے ، نہ وہ کبھی غم و رنج سے آشنا ہوں گے ۔ دنیا میں جو چھوٹ جائے اس پر انہیں حسرت و افسوس نہیں ہوتا ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اور بہت سے سلف صالحین فرماتے ہیں کہ اولیاء اللہ وہ ہیں جن کے چہرہ دیکھنے سے اللہ یاد آجائے ۔ بزار کی مرفوع حدیث میں بھی یہ آیا ہے ۔ وہ حدیث مرسلا بھی مروی ہے ۔ ابن جریر میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ کے بعض بندے ایسے بھی ہیں جن پر انبیاء اور شہدا بھی رشک کریں گے لوگوں نے پوچھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم وہ کون ہیں؟ ہمیں بتائیے تاکہ ہم بھی ان سے محبت و الفت رکھیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ لوگ ہیں جو صرف اللہ کی وجہ سے آپس میں محبت رکھتے ہیں ۔ مالی فائدے کی وجہ سے انہیں رشتے داری اور نسب کی بناء پر نہیں ۔ صرف اللہ کے دین کی وجہ سے ان کے چہرے نورانی ہوں گے یہ نور کے منبروں پر ہوں گے ۔ سب کو ڈر خوف ہوگا لیکن یہ بالکل بےخوف اور محض نڈر ہوں گے جب لوگ غمزدہ ہوں گے یہ بےغم ہوں گے ۔ پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی ۔ یہی روایت منقطع سند سے ابو داؤد میں بھی ہے ۔ واللہ اعلم ۔ مسند احمد کی ایک مطول حدیث میں ہے کہ دور دراز کے رہنے والے خاندانوں اور برادریوں سے الگ شدہ لوگ جن میں کوئی رشتہ کنبہ قوم برادری نہیں وہ محض توحید و سنت کی وجہ سے اللہ کی رضامندی کے حاصل کرنے کے لیے آپس میں ایک ہوگئے ہوں گے اور آپس میں میل ملاپ ، محبت ، مودت ، دوستی اور بھائی چارہ رکھتے ہونگے ۔ دین میں سب ایک ہوں گے ۔ ان کے لیے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نورانی منبر بچھا دے گا جن پر وہ عزت سے تشریف رکھیں گے ۔ لوگ پریشان ہوں گے لیکن یہ باطمینان ہوں گے ۔ یہ ہیں وہ اللہ کے اولیا جن پر کوئی خوف غم نہیں ۔ خوابوں کے بارے میں مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بشارتوں کی تفسیر بیان فرماتے ہوئے فرمایا کہ یہ نیک خواب ہیں جنہیں مسلمان دیکھے یا اس کے لیے دکھائے جائیں ۔ حضرت ابو الدرداء سے جب اس کا سوال ہوا تو آپ نے فرمایا تم نے آج مجھ سے وہ باپ پوچھی جو تم سے پہلے کسی نے نہیں پوچھی سوائے اس شخص کے جس نے یہی سوال حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جواب کے دینے سے پہلے نہیں فرمایا تھا کہ تجھ سے پہلے میرے کسی امتی نے مجھ سے یہ سوال نہیں کیا ۔ خود انہی صحابی سے جب سائل نے اس آیت کی تفسیر پوچھی تو آپ نے بھی یہ فرما کر پھر تفسیر مرفوع حدیث سے بیان فرمائی ۔ اور روایت میں ہے حضرت عبادہ نے سوال کیا کہ آخرت کی بشارت تو جنت ہے دنیا کی بشارت کیا ہے ۔ فرمایا نیک خواب جسے بندہ دیکھے یا اس کے لیے اوروں کو دکھائے جائیں ۔ یہ نبوت کا چوالیسواں یا سترواں جز ہے ۔ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے آپ سے پوچھا کہ یارسول اللہ انسان نیکیاں کرتا ہے پھر لوگوں میں اس کی تعریف ہوتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہی دنیوی بشارت ہے ۔ ( مسلم ) فرماتے ہیں کہ دنیا کی بشارت نیک خواب ہیں جن سے مومن کو خوشخبری سنائی جاتی ہے ۔ یہ نبوت کا انچاسواں حصہ ہے اس کے دیکھنے والے کو اسے بیان کرنا چاہیے اور جو اس کے سوا دیکھے وہ شیطانی خواب ہیں تاکہ اسے غم زدہ کر دے ۔ چاہیے کہ ایسے موقعہ پر تین دفعہ بائیں جانب تھتکار دے ۔ اللہ کی بڑائی بیان کرے اور کسی سے اس خواب کو بیان نہ کرے ۔ ( مسند احمد ) اور روایت میں ہے کہ نیک خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے ۔ اور حدیث میں ہے دنیوی بشارت نیک خواب ۔ اور اُخروی بشارت جنت ۔ ابن جریر میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں نبوت جاتی رہی خوشخبریاں رہ گئیں ۔ بشریٰ کی یہی تفسیر ابن مسعود ، ابو ہریرہ ، ابن عباس مجاہد ، عروہ ، ابن زبیر ، یحییٰ بن ابی کثیر ، ابراہیم نخعی ، عطا بن ابی رباح ، وغیرہ سلف صالحین سے مروی ہے ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ مراد اس سے وہ خوشخبری ہے جو مومن کو اس کی موت کے وقت فرشتے دیتے ہیں جس کا ذکر ( آیت ان الذین قالوا ربنا اللہ الخ ) میں ہے کہ سچے پکے مومنوں کے پاس فرشتے آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم خوف نہ کرو ، تم غم نہ کرو ، تمہیں ہم اس جنت کی خوشخبری سناتے ہیں جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا رہا ہے ۔ ہم دنیا و آخرت میں تمہارے کار ساز ولی ہیں ۔ سنو تم جو چاہو گے جنت میں پاؤ گے ، جو مانگو گے ملے گا ۔ تم غفور و رحیم اللہ کے خاص مہمان بنو گے ۔ حضرت براء رضی اللہ عنہ کی مطول حدیث میں ہے مومن کی موت کے وقت نورانی سفید چہرے والے پاک صاف اجلے سفید کپڑوں والے فرشتے اس کے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں اے پاک روح چل کشادگی راحت ترو تازگی اور خوشبو اور بھلائی کی طرف چل ۔ تیرے اس پالنہار کی طرف جو تجھ سے کبھی خفا نہیں ہو نے کا ۔ پس اس کی روح اس بشارت کو سن کر اس کے منہ سے اتنی آسانی اور شوق سے نکلتی ہے جیسے مشک کے منہ سے پانی کا کوئی قطرہ چھو جائے ۔ اور آخرت کی بشارت کا ذکر ( لَا يَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الْاَكْبَرُ وَتَتَلَقّٰىهُمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ ۭ ھٰذَا يَوْمُكُمُ الَّذِيْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ ١٠٣؁ ) 21- الأنبياء:103 ) میں ہے یعنی انہیں اس دن کی زبردست پریشانی بالکل ہی نہ گھبرائے گی ادھر ادھر سے ان کے پاس فرشتے آئے ہوں گے اور کہتے ہوں گے کہ اس دن کا تم سے وعدہ کیا جاتا رہا تھا ۔ ایک آیت میں ہے ( يَوْمَ تَرَى الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ يَسْعٰى نُوْرُهُمْ بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَبِاَيْمَانِهِمْ بُشْرٰىكُمُ الْيَوْمَ جَنّٰتٌ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا ۭذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ 12۝ۚ ) 57- الحديد:12 ) جس دن تو مومن مردوں عورتوں کو دیکھے گا کہ ان کا نور ان کے آگے آگے اور دائیں طرف چل رہا ہوگا ۔ لو تم خوشخبری سن لو کہ آج تمہیں وہ جنتیں ملیں گی ۔ جن کے نیچے نہیرں لہریں لے رہی ہیں ۔ جہاں کی رہائش ہمیشہ کی ہوگی ۔ یہی زبردست کامیابی ہے ۔ اللہ کا وعدہ غلط نہیں ہوتا ۔ وہ وعدہ خلافی نہیں کرتا ، اس نے جو فرما دیا سچ ہے ، ثابت ہے ، اٹل ہے یقینی اور ضروری ہے ۔ یہ ہے پوری مقصد آوری ، یہ ہے زبردست کامیابی ، یہ ہے مراد کا ملنا اور یہ ہے گود کا بھرنا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

62۔ 1 نافرمانوں کے بعد اللہ تعالیٰ اپنے فرماں برداروں کا ذکر فرما رہا ہے اور وہ ہیں اولیاء اللہ۔ اولیاء ولی کی جمع ہے، جس کے معنی لغت میں قریب کے ہیں۔ اس اعتبار سے اولیاء اللہ کے معنی ہوں گے، وہ سچے اور مخلص مومن جنہوں نے اللہ کی اطاعت اور معاصی سے اجتناب کر کے اللہ کا قرب حاصل کرلیا۔ اسی لیے اگلی آیت میں خود اللہ تعالیٰ نے بھی ان کی تعریف ان الفاظ سے بیان فرمائی، جو ایمان لائے اور جنہوں نے تقوی اختیار کیا۔ اور ایمان وتقوی ہی اللہ کے قرب کی بنیاد اور اہم ترین ذریعہ ہے، اس لغت سے ہر متقی مومن اللہ کا ولی ہے۔ لوگ ولایت کے لیے اظہار کرامت کو ضروری سمجھتے ہیں۔ اور پھر وہ اپنے بنائے ہوئے ولیوں کے لیے جھوٹی سچی کرامتیں مشہور کرتے ہیں۔ یہ خیال بالکل غلط ہے۔ کرامت کا ولایت سے چولی دامن کا ساتھ ہے نہ اس کے لیے شرط۔ یہ ایک الگ چیز ہے کہ اگر کسی سے کرامت ظاہر ہوجائے تو اللہ کی مشیت ہے، اس میں اس بزرگ کی مشیت شامل نہیں ہے۔ لیکن کسی متقی مومن اور متبع سنت سے کرامت کا ظہور ہو یا نہ ہو، اس کی ولایت میں کوئی شک نہیں۔ خوف کا تعلق مستقبل سے ہے اور غم (حزن) کا ماضی سے، مطلب یہ ہے کہ چونکہ انہوں نے زندگی خدا خوفی کے ساتھ گزاری ہوتی ہے۔ اس لیے قیامت کی ہولناکیوں کا اتنا خوف ان پر نہیں ہوگا، جس طرح دوسروں کو ہوگا۔ بلکہ وہ اپنے ایمان وتقوی کی وجہ سے اللہ کی رحمت وفضل خاص کے امیدوار اور اس کے ساتھ حسن ظن رکھنے والے ہوں گے۔ اسی طرح دنیا میں وہ جو کچھ چھوڑ گئے ہوں گے یا دنیا کی لذتیں انھیں حاصل نہ ہوسکی ہوں گی، ان پر انھیں کوئی حزن وملال نہیں ہوگا۔ ایک دوسرا مطلب یہ بھی ہے کہ دنیا میں جو مطلوبہ چیزیں انھیں نہ ملیں، اس پر وہ غم وحزن کا مظاہرہ نہیں کرتے، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ سب اللہ کی قضا و تقدیر ہے۔ جس سے ان ان کے دلوں میں کوئی کدورت پیدا نہیں ہوتی، بلکہ ان کے دل قضائے الہی پر مسرور و مطمئن رہتے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٧] اولیاء اللہ کی پہچان :۔ اولیاء اللہ کی تعریف اگلی آیت میں یہ بتلائی گئی ہے کہ جو لوگ ایمان لائیں اور اللہ سے ڈرتے رہیں اور متقین کی صفات جو سورة بقرہ کی ابتداء میں بیان ہوئی ہیں وہ یہ ہیں وہ لوگ غیب پر ایمان لاتے ہیں۔ نماز قائم کرتے ہیں جو رزق ہم نے انھیں دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں اور اس کتاب یعنی قرآن اور سابقہ کتابوں پر ایمان لاتے ہیں اور روز آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ گویا جن ایمان لانے والوں میں مذکورہ صفات پائی جائیں وہ سب اولیاء اللہ ہیں پھر چونکہ ایمان اور اتقاء کے بھی کئی درجے ہیں اس لحاظ سے اولیاء اللہ کے بھی کئی درجے ہوئے اور عرف عام میں اولیاء اللہ ان لوگوں کو کہتے ہیں جو ایمان وتقویٰ کے بلند درجات پر فائز ہوں اس کی مثال یوں سمجھیے کہ پچاس & سو روپیہ بھی مال و دولت ہے لیکن مالدار اسی شخص کو کہتے ہیں جس کے پاس ہزاروں اور لاکھوں روپے اپنی ضروریات زندگی سے زائد موجود ہوں اسی لحاظ سے بعض صحابہ سے ولی کی یہ صفت منقول ہے کہ ولی وہ مسلمان ہے جسے دیکھ کر اللہ یاد آئے اور مخلوق خدا سے انھیں بےلوث محبت ہو۔ موجودہ دور میں اولیاء اللہ کا مفہوم :۔ قرن اول میں بھی کچھ ایسے مسلمان موجود تھے جن کی طبائع زہد وتقویٰ اور عبادت کی طرف زیادہ مائل ہوگئیں پہلی صدی اور دوسری صدی ہجری میں انھیں زہاد اور صالحین کا نام دیا جاتا تھا لیکن تیسری صدی میں جب مسلمانوں پر یونانی اور ہندی فلسفہ کے اثرات پڑنے لگے تو یہ طبقہ ترک دنیا اور رہبانیت کی طرف مائل ہوگیا اور اولیاء اللہ کا مفہوم یکسر بدل گیا اور یہ لفظ صرف ان لوگوں کے لیے مختص ہوگیا جو ریاضتیں اور چلہ کشیاں کریں اور باقاعدہ کسی شیخ یا ولی کی بیعت کے رشتہ میں منسلک ہوں اور ان سے کرامات کا ظہور ہو۔ پھر اس طبقہ میں وحدت الوجود، وحدت الشہود اور حلول جیسے غیر اسلامی عقائد داخل ہوگئے اور ولی کی ولایت کا معیار یہ قرار پایا کہ جس کسی سے کرامات کا ظہور جتنا زیادہ ہو وہ اسی درجہ کا ولی ہے پھر ان لوگوں میں بعض نے یہ دعویٰ بھی کردیا کہ ہمیں براہ راست اللہ سے خبریں ملتی ہیں اور ہمیں رسول کی ضرورت نہیں ہے۔ بعض نے شریعت کو ہڈیاں اور اپنے دین طریقت کو اصل مغز قرار دیا اور ولایت کے ایک باقاعدہ باطنی نظام کی داغ بیل رکھ دی۔ ان میں پیری مریدی لازمی قرار دی گئی اور یہ لوگ اپنے اس مخصوص طبقہ کو ہی برتر اور اولیاء اللہ قرار دینے لگے اور ان اولیاء اللہ کے علم غیب، تصرف اور ہیبت سے لوگوں کو ڈرایا جانے لگا اور ایسے نظریات مسلمانوں میں خوب شائع و ذائع کیے گئے۔ شرعی نقطہ نظر سے ایسے نظریات بالکل بےبنیاد ہیں۔ [٧٨] اولیاء اللہ کے لئے بشارت :۔ خوف کا لفظ کسی پیش آنے والے خطرہ کے لیے اور غم کا لفظ ماضی میں کسی چھن جانے والی نعمت کے لیے استعمال ہوتا ہے اور اس بشارت کا اطلاق دونوں جہانوں میں ہوتا ہے یعنی دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ دنیا میں ان اولیاء اللہ کا اپنے پروردگار پر اس قدر بھروسہ ہوتا ہے کہ انھیں نہ تو کسی چیز کا خوف خوفزدہ کرسکتا ہے اور نہ ہی انھیں ایسا غم ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی سابقہ زندگی اللہ سے غفلت اور بیکار کاموں میں گذاری ہے یہی صورت آخرت میں بھی ہوگی انھیں نہ اس دن کی ہیبت، ہیبت زدہ کرے گی نہ پیاس ستائے گی اور نہ ہی اور کسی قسم کے دکھ یا عذاب کا خطرہ ہوگا اور نہ دنیا میں گزاری ہوئی زندگی کے متعلق کچھ حسرت اور ندامت ہوگی نہ کسی مطلوب چیز کے چھن جانے کا افسوس ہوگا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَلَآ اِنَّ اَوْلِيَاۗءَ اللّٰهِ ۔۔ : ” اَلَا “ حرف تنبیہ کہلاتا ہے، یعنی خوب سن لو، آگاہ ہوجاؤ، بہت اہم بات ہونے والی ہے۔ حافظ ابن حزم اندلسی (رض) نے ایک رسالہ لکھا ہے ” اَلْاَخْلَاقُ وَ السِّیَرُ “ جس میں اپنی زندگی کے تجربات کا نچوڑ بیان فرمایا ہے، اس میں وہ فرماتے ہیں : ” میں نے غور کیا تو اس نتیجے پر پہنچا کہ دنیا میں جو شخص کوئی بھی محنت کرتا ہے اس کے پیش نظر خوشی کا حصول اور خوف (و غم) سے بچنا ہوتا ہے۔ “ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے خوشی کے حصول اور خوف و غم سے بچنے کا طریقہ بیان فرمایا ہے اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کی ولایت اور دوستی کا حصول۔ چناچہ فرمایا : ” سن لو ! بیشک اللہ کے دوست، ان پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ “ یعنی آخرت میں یا دنیا اور آخرت دونوں میں۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ خوف (ڈر) آنے والی چیز کا ہوتا ہے اور غم گزری ہوئی مصیبت کا۔ اللہ تعالیٰ کے اولیاء (دوستوں) کو مستقبل کا کوئی خوف نہیں، کیونکہ آخرت میں وہ ہر خوف سے آزاد ہوں گے۔ وہاں انھیں نہ کسی مصیبت کے آنے یا نعمت کے چھن جانے کا خوف ہوگا، نہ کسی گزشتہ چیز کا غم۔ اس کے برعکس چونکہ اللہ کے دشمنوں کا نہ آخرت پر ایمان ہے نہ اس کی نعمتوں میں ان کا کوئی حصہ، فرمایا : (اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْاٰخِرَةِ اِلَّا النَّارُ ڮ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوْا فِيْهَا وَبٰطِلٌ مَّا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ ) [ ہود : ١٦ ] ” یہی لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں آگ کے سوا کچھ نہیں اور برباد ہوگیا جو کچھ انھوں نے اس دنیا میں کیا اور بےکار ہے جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں۔ “ اس لیے ان کا ایک ایک لمحہ خوف میں گزرتا ہے، جو نعمت انھیں حاصل ہے اس کے چھن جانے کا خوف اور جو حاصل نہیں اس کے حاصل نہ ہوسکنے کا غم، پھر موت کا خوف، پھر بعد میں کیا ہوگا، کچھ خبر ہی نہیں، غرض خوف ہی خوف۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے اموال و اولاد کو بھی حیات دنیا میں انھیں عذاب دینے کا ذریعہ بتایا۔ اللہ کے اولیاء کو آخرت میں کوئی غم نہیں ہوگا، کیونکہ ان پر دنیا میں گزری ہوئی ہر تکلیف جنت کی ایک ڈبکی سے کافور ہوجائے گی، پھر غم کیسا ؟ دنیا میں آنے والی مصیبتیں دنیا میں بھی ان کے لیے کفار کی طرح غم کا باعث نہیں بنتیں، کیونکہ ایک تو انھیں ہر مصیبت پر اجر کی امید ہوتی ہے، دوسرے تقدیر پر ان کا ایمان انھیں کفار جیسے غم سے بچاتا ہے کہ اللہ کی تقدیر میں لکھی ہوئی کوئی مصیبت ہماری کسی تدبیر سے نہ ٹل سکتی تھی، نہ ٹل سکتی ہے، پھر غم سے کیا حاصل، فرمایا : (لِّكَيْلَا تَاْسَوْا عَلٰي مَا فَاتَكُمْ وَلَا تَفْرَحُوْا بِمَآ اٰتٰىكُمْ ) [ الحدید : ٢٣ ] ” تاکہ تم نہ اس پر غم کرو جو تمہارے ہاتھ سے نکل جائے اور نہ اس پر پھول جاؤ جو وہ تمہیں عطا کرے۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary In the verses cited above, particular merits, definition and identity of the Auliya& of Allah have been mentioned. Also given there is good news for them in the present world as well as in the Hereafter. The text says that they will have no apprehensions of facing some unpleasant or unforeseen happening, nor will they grieve over the non-fulfillment of some objective. These Auliya& of Allah (men of Allah) will be people who believed and remained pious, righteous and God fearing. They are most welcome in this world and in the next world both. We have to consider three things at this point: 1. What is the meaning of Auliya& of Allah having no fear and grief? 2. What is the definition of Auliya& of Allah? How does one identify them? 3. What does the good news given to them in Dunya and Akhirah mean? First of all, the Auliya& of Allah have no fear or grief. This could possibly mean when they are admitted to their allocated place in Paradise, after having gone through the accounting of deeds in the Hereafter, they will stand delivered from fear and grief forever. They will have no apprehension of any pain or anxiety nor will they have to grieve for having lost something dear to them. Instead, the blessings of Paradise will be everlasting. Given this sense, there is no difficulty in rationalizing the subject of the verse. But, it does, however, raise a question. If this be the case, it registers no peculiarity of the Auliya& of Allah. In fact, all people of Paradise who stand delivered from Hell will be enjoying that very state of being. Yes, it can, then, be said that those who ultimately reach Paradise will all be known as the Auliya& of Allah invariably. No matter how different their deeds had been in the mortal world but, once they have entered Paradise, all of them will be counted among the Auliya& of Allah. But, many commentators say that freedom from fear and grief with which the Auliya& of Allah are blessed is common to the present world and the Hereafter both. The thing unique about the Auliya& of Allah is that they remain protected from fear and grief even in the present world, and that they will have no fear and grief in the Hereafter is something everyone knows. So, included therein are all people of Para-dise. Apart from that, in terms of relevant prevailing conditions, we have yet another difficulty on our hands. Observations in the world of our experience bear out that - not to mention the Auliya& of Allah - even the Prophets of Allah, may peace be on them, are not secure from fear and grief in this mortal world. In fact, their fear of and humble¬ness before Allah is far more pronounced as compared to others. It was said in the Qur&an: إِنَّمَا يَخْشَى اللَّـهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ (Among Our servants only those who have knowledge (really) fear Allah - 35:28). At another place, the emotional state of the righteous and the men of Allah has been de-scribed in the following words: وَالَّذِينَ هُم مِّنْ عَذَابِ رَ‌بِّهِم مُّشْفِقُونَ ﴿٢٧﴾ إِنَّ عَذَابَ رَ‌بِّهِمْ غَيْرُ‌ مَأْمُونٍ ﴿٢٨﴾ (And those who are fearful of the punishment of their Lord - indeed, the punishment of their Lord is not to be un-fearful of - 70:27) that is, no one can sit home comfortably in the knowledge that it is due to come. This is borne by facts as well as it appears in a Hadith of Shama&il al-Tirmidhi: ` The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) would more than often look concerned and pensive&. And he himself said, ` I fear Allah more than all of you.& There are countless events relating to Sayyidna Abu Bakr, Sayyid¬na ` Umar and the rest of the Sahabah (رض) ، the Tabi` in and the wide spectrum of the men of Allah which tell us how intensely they grieved and how genuinely they feared what would happen to them in the Hereafter. Therefore, ` Allamah &Alusi has said in Ruh al-Ma&ani: That the Au¬liya& Allah are protected against fear and grief in the mortal world has to be seen in terms of what usually happens here. There are things worldly people generally fear or grieve about most of the time. They are chronically addicted to their mundane agenda of life. They have to have convenience, comfort, wealth and recognition. The slightest shortfall in any of these makes them nervous as if they were going to die without that. The fear of a minor discomfort or anxiety drives them crazy and they will go about finding ways and means to get rid of such irritants. The station of the Auliya&, friends or men of Allah is way higher. In their sight, convenience, comfort, wealth and recognition one surrounds himself with in this transitory world are not worth their while that they go about acquiring these. Nor do they care much about the anxieties of the mundane and see no need to beef up their defenses against these. Their life style admits of nothing but the recog¬nition of His greatness and love for Him. So overshadowed they are with the fear of Allah and their humbleness before Him that they just have no use for worldly sorrow and comfort or profit and loss. Now we can go to the matter of the definition of Auliya& Allah and the marks of their identification. The word: اولیاء (Auliya& ) is the plural form of: ولی (waliyy, commonly rendered as the simpler: wall, which bypasses the need to render the doubling of the y ā sound at the end shown by the addition of a or two, as purists would prefer to do). The word: ولی (waliyy) is used in the Arabic language in the dual sense of ` near& as well as ` friend& or someone held ` dear.& The common degree of nearness and love as related to Allah Ta` ala is such as would not leave any living entity, human or non-human, exempt from it. If this element of nearness were not there, nothing would have come into be¬ing in this universe. The real justification for the existence of this entire universe is that particular interrelationship which it has been al-lowed to have by Allah in His absolute majesty. Though, no one has understood the reality of this interrelationship, nor is it possible to do so, but that a non-definable interrelationship does exist is certain. However, this degree is not what is actually meant in the term: Auliya& Allah. In fact, there is yet another degree of friendship, love and near¬ness that is specific to particular servants of Allah Ta` ala. This is known as nearness in love. Those who are blessed with this nearness are called the Auliya& Allah. This has been succinctly articulated in a Qudsi Hadith where Allah Ta` ala says, ` My servant keeps earning My nearness through voluntary acts of worship (nafl ` ibadat) until I too turn to him in love and when I love him, I become his ear - whatever he hears, he hears through Me. I become his eye - whatever he sees, he sees through Me. I become his hands and feet - whatever he does, he does through Me.& In short, it means that virtually nothing issues forth from such a person against the pleasure of his Lord. The degrees of this unique Wilayah (station of nearness or friend-ship) are endless. Its highest degree is for the blessed prophets be-cause every prophet has to be, of necessity, a Waliyy of Allah. In this degree, the highest station belongs to the foremost among prophets, Sayyidna Muhammad al-Mustafa (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . Then, the lowest degree of this Wilayah, in the terminology of the noble Sufis, is known as the degree of Fan-a& (self-elimination: I am nothing - He is everything). It makes the heart of man become so engrossed in the thought of Allah Ta` ala that it would not allow any love rooted in this world to overcome it. When such a person loves, he loves for the sake of Allah. When he hates, he hates for the sake of Allah. His own person plays no part in this love and hate cycle, the inevitable outcome of which is that he keeps busy in his quest for the pleasure of Allah Ta` ala both outwardly and inwardly. This style of living makes him avoid everything which is not liked in the sight of Allah Ta` ala. The sign of this state of existence is abundance of Dhikr and constancy in obedience - in other words, to remember Allah Ta` ala abundantly and profusely, and to obey His in-junctions always, and under all conditions and circumstances. When these two attributes are present in a person, he is called a Waliyy of Allah. Whoever does not have any one of the two is not included in that category. Then, whoever has both, there is no limit to his ranks, lower and higher. It is in terms of these degrees that the ranks of Au¬liya& Allah precede or succeed each other. On the authority of a narration from Sayyidna Abu Hurairah (رض) ، it has been reported in a IIadith that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was asked as to who were the people meant by Auliya& Allah& in this verse? He said, ` those who love each other only for Allah - without having any worldly interest in between.& (Mazhari, quoted from Ibn Mardu¬wayh). It is obvious that this condition can apply only to those who have been mentioned above. At this stage, we have another question before us: What is the method of acquiring this degree of Wilayah (nearness to Allah)? Respected commentator, Qadi Thana&ullah Panipati has said in Tafsir Mazhari: Individuals from the Muslim Ummah could acquire this degree of Wilayah only through the company of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . It is from here that the profound relationship with Allah, which was part of the blessed persona of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is partly passed on to the Auliya& of the Ummah, of course, depend¬ing on their ambition and capacity for whatever portion from it falls to their lot. Then, we know that this benefit of companionship was available to the Sahabah without anyone being in between. Therefore, the degree of their Wilayah was higher than that of all Auliya& and aqtab (plural of qutb, literally axis, meaning a man of Allah who stays at one place, as in Sufi orders). Later people derive this benefit through one or more intermediaries. The more the intermediaries, the more pro-nounced becomes the difference. Only those who are colored with the color of the word, deed and message of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and follow his Sunnah, in all love and obedience, can become such an intermediary. Going to them, frequenting their company with the add¬ed practice of listening to their good counsel, remaining obedient and remembering Allah abundantly - this is the blueprint of attaining the degree of Wilayah. It is made of three parts. One: Being in the compa¬ny of a Waliyy of Allah. Two: Remaining obedient to his good counsel. Three: Remembering Allah abundantly (Dhikrullah) - with the condi¬tion that this abundance (and nature) of Dhikr must be in accordance with the masnun method. The reason is that Dhikr, when frequent and sincere, adds to the luster of the mirror of the heart and it becomes worthy of receiving reflections from the light of Wilayah. It appears in Hadith that everything has a method of furbishing it. Dhikrullah fur¬bishes the heart. The same thing has been reported by al-Baihagi as based on a narration from Sayyidna Ibn ` Umar (رض) . (Mazhari) Sayyidna ` Abdullah ibn Masud (رض) عنہما said that a person asked the Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلم ` what would you say about a person who loves someone spiritually noble but is unable to reach up to his level in terms of his own deeds?& He said: اَلمَرَء مَعَ مَن اَحَبَّ that is, ` everyone shall be with one he loves&. This tells us that the love and company of the Auliya& Allah is a source of acquiring Wilayah (nearness to Allah). Al-Baihaqi (in Shu&ab al-&Iman) has reported that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said to Sayyidna Razin (رض) tell you about a principle of Faith. With it you can attain success in Dunya. and Akhirah: Take to the company of ahl adh-Dhikr (people who remember Allah) as indis¬pensable, and When you are alone, move your tongue with the Dhikr of Allah, as much as you can. Whoever you love, do it for Allah. Whoever you hate, do it for Allah. (Mazhari) But, in order to be beneficial, this ` company& has to be of those who are, in themselves, the Waliyy of Allah and staunch followers of Sunnah. Those who do not observe and follow the Sunnah of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (and do not demonstrate by their word and deed that they are operating under it) are themselves deprived of the essen¬tial degree of Wilayah. It does not matter if many a contrahabitual wonders (kashf and karamat) issue forth from them. They will still be considered deprived. However, if someone is a Waliyy in terms of the stated attributes - even though, nothing of the sort has ever issued forth from him - he is a Waliyy of Allah. (Mazhari) Now we come to the last point. What are the signs of the Auliya& Allah? How can they be identified? A Qudsi Hadith referred to in Tafsir Mazhari points out in this direction. Allah Ta` ala said: ` From among My servants, My Auliya& are those who are remembered when I am remembered and when they are remembered I am remembered.& According to a narration from Sayyidah Asma& bint Yazid reported in Ibn Majah, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) gave the identity of Auliya& Allah by saying: الذین اذا رُؤُا ذُکِرَ اللہُ (those who, when one sees them, remind of Allah). In short, there is someone by sitting in whose company one gets the taufiq of remembering Allah (Dhikr), and relief from worldly con¬cerns, then, this is a sign of his being a Waliyy of Allah. It has been said in Tafsir Mazhari: There is a prevailing assumption among masses that things like getting to know what is hidden (kashf), doing some extraordinary things (karamah) or claiming to be aware of what is al-Ghayb (Unseen) are signs of someone being among the Auliya& of Allah. This is nothing but error and self-deception. There are thousands of Auliya& who are not credited with anything like this, that could be termed as authentically proved while, in sharp contrast, reports of things otherwise hidden and unseen are accredited to those whose very basic &Iman (belief) is not correct!

خلاصہ تفسیر ( یہ تو علم الہٰی کا بیان ہوا آگے مخلصین و مطیعین کی محفوظیت کا بیان ہے کہ) یاد رکھو اللہ کے دوستوں پر نہ کوئی اندیشہ ( ناک واقعہ پڑنے والا) ہے اور نہ وہ ( کسی مطلب کے فوت ہونے پر) مغموم ہوتے ہیں ( یعنی اللہ تعالیٰ ان کو خوف ناک اور غم ناک حوادث سے بچاتا ہے اور) وہ ( اللہ کے دوست) وہ ہیں جو ایمان لائے اور ( معاصی سے) پرہیز رکھتے ہیں ( یعنی ایمان اور تقوی سے اللہ کا قرب نصیب ہوتا ہے اور خوف و حزن سے ان کے محفوظ رہنے کی وجہ یہ ہے کہ) ان کے لئے دنیوی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی ( من جانب اللہ خوف و حزن سے بچنے کی) خوش خبری ہے ( اور) اللہ کی باتوں میں ( یعنی وعدوں میں) کچھ فرق ہوا نہیں کرتا ( پس جب بشارت میں ان سے وعدہ کیا گیا اور وعدہ ہمیشہ صحیح ہوتا ہے اس لئے عدم خوف و عدم حزن لازم ہے اور) یہ ( بشارت جو مذکور ہوئی) بڑی کامیابی ہے۔ معارف و مسائل آیات مذکورہ میں اولیاء اللہ کے مخصوص فضائل اور ان کی تعریف اور پہچان پھر دنیا و آخرت میں ان کے لئے بشارت کا ذکر ہے، فرمایا کہ اولیاء اللہ کو نہ کسی ناگوار چیز کے پیش آنے کا خطرہ ہوگا اور نہ کسی مقصد کے فوت ہوجانے کا غم، اور اولیاء اللہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور جنہوں نے تقوی و پرہیزگاری اختیار کی، ان کے لئے دنیا میں بھی خوش خبری ہے اور آخرت میں بھی۔ اس میں چند باتیں قابل غور ہیں : اول یہ کہ اولیاء اللہ پر خوف و غم نہ ہونے کے کیا معنی ہیں ؟ دوسرے یہ کہ اولیاء اللہ کی تعریف کیا ہے اور ان کی علامات کیا ہیں ؟ تیسرے یہ کہ دنیا و آخرت میں ان کی بشارت سے کیا مراد ہے ؟ پہلی بات کہ اولیاء اللہ پر خوف و غم نہیں ہوتا، اس سے یہ بھی مراد ہوسکتا ہے کہ آخرت میں حساب کتاب کے بعد جب ان کو ان کے مقام جنت میں داخل کردیا جائے گا تو خوف و غم سے ان کو ہمیشہ کے لئے نجات ہوجائے گی، نہ کسی تکلیف و پریشانی کا خطرہ رہے گا نہ کسی محبوب و مطلوب چیز کے ہاتھ سے نکل جانے کا غم ہوگا، بلکہ جنت کی نعمتیں دائمی اور لازوال ہوں گی، اس معنی کے اعتبار سے تو مضمون آیت پر کوئی اشکال نہیں لیکن یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ اس میں اولیاء اللہ کی کوئی خصوصیت نہ رہی بلکہ تمام اہل جنت جن کو جہنم سے نجات مل گئی ہو اسی حال میں ہوں گے، ہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ جو لوگ انجام کار جنت میں پہنچ گئے وہ سب اولیاء اللہ ہی کہلائیں گے، دنیا میں ان کے اعمال کتنے ہی مختلف رہے ہوں مگر دخول جنت کے بعد سب کے سب اولیاء اللہ کی ہی فہرست میں شمار ہوں گے۔ لیکن بہت سے مفسرین نے فرمایا کہ اولیاء اللہ پر خوف و غم نہ ہونا دنیا و آخرت دونوں کے لئے عام ہے اور اولیاء اللہ کی خصوصیت یہی ہے کہ دنیا میں بھی وہ خوف و غم سے محفوظ ہیں اور آخرت میں ان پر خوف و غم نہ ہونا تو سب ہی جانتے ہیں، اور اس میں سب اہل جنت داخل ہیں۔ مگر اس پر حالات و واقعات کے اعتبار سے یہ اشکال ہے کہ دنیا میں تو یہ بات مشاہدہ کے خلاف ہے کیونکہ اولیاء اللہ تو کیا انبیاء (علیہم السلام) بھی اس دنیا میں خوف و غم سے محفوظ نہیں بلکہ ان کا خوف و خشیت اوروں سے زیادہ ہوتا ہے جیسا کہ قرآن کریم کا ارشاد ہے (آیت) ۭ اِنَّمَا يَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰۗؤ ُ ا، یعنی اللہ تعالیٰ سے پوری طرح علماء ہی ڈرتے ہیں، اور دوسری جگہ میں اولیاء اللہ ہی کا یہ حال بیان فرمایا ہے (آیت) وَالَّذِيْنَ هُمْ مِّنْ عَذَابِ رَبِّهِمْ مُّشْفِقُوْنَ ، اِنَّ عَذَابَ رَبِّهِمْ غَيْرُ مَاْمُوْنٍ ، یعنی یہ لوگ اللہ کے عذاب سے ہمیشہ ڈرتے رہتے ہیں کیونکہ ان کے رب کا عذاب ایسی چیز نہیں جس سے کوئی بےفکر ہو کر بیٹھ سکے۔ صحابہ کرام میں سب سے افضل حضرت صدیق و فاروق (رض) اور تمام صحابہ وتابعین اور اولیاء اللہ کی گریہ وزاری اور خوف آخرت کے واقعات بیشمار ہیں۔ اس لئے روح المعانی میں علامہ آلوسی نے یہ فرمایا کہ حضرات اولیاء اللہ کا دنیا میں خوف و غم سے محفوظ ہونا اس اعتبار سے ہے کہ جن چیزوں کے خوف و غم میں عام طور سے اہل دنیا مبتلا رہتے ہیں کہ دنیوی مقاصد آرام و راحت عزت و دولت میں ذرا سی کمی ہوجانے پر مرنے لگتے ہیں اور ذرا ذرا سی تکلیف و پریشانی کے خوف سے ان سے بچنے کی تدبیروں میں رات دن کھوئے رہتے ہیں، اولیاء اللہ کا مقام ان سب سے بالا و بلند ہوتا ہے، ان کی نظر میں نہ دنیا کی فانی عزت و دولت، راحت و آرام کوئی چیز ہے جس کے حاصل کرنے میں سرگرداں ہوں، اور نہ یہاں کی محنت و کلفت اور رنج کچھ قابل التفات ہے جس کی مدافعت میں پریشان ہوں بلکہ ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ : نہ شادی داد سامانے نہ غم آورد نقصانے بہ پیش ہمت ماہرچہ آمد بود مہمانے اللہ جل شانہ کی عظمت و محبت اور خوف و خشیت ان حضرات پر ایسی چھائی ہوتی ہے کہ اس کے مقابلہ میں دنیا کی رنج و راحت، سود و زیاں پرکاہ کی بھی حیثیت نہیں رکھتے بقول بعض : یہ ننگ عاشقی ہیں سود و حاصل دیکھنے والے یہاں گمراہ کہلاتے ہیں منزل دیکھنے والے دوسری بات اولیاء اللہ کی تعریف اور ان کی علامات سے متعلق ہے، اولیاء ولی کی جمع ہے، لفظ ولی عربی زبان میں قریب کے معنی میں بھی آتا ہے اور دوست و محب کے معنی میں بھی، اللہ تعالیٰ کے قرب و محبت کا ایک عام درجہ تو ایسا ہے کہ اس سے دنیا کا کوئی انسان و حیوان بلکہ کوئی چیز بھی مستثنی نہیں، اگر یہ قرب نہ ہو تو سارے عالم میں کوئی چیز وجود ہی میں آسکتی، تمام عالم کے وجود کی اصلی علت وہی خاص رابطہ ہے جو اس کو حق تعالیٰ شانہ سے حاصل ہے گو اس رابطہ کی حقیقت کو نہ کسی نے سمجھا اور نہ سمجھ سکتا ہے مگر ایک بےکیف رابطہ کا ہونا یقینی ہے، مگر لفظ اولیاء اللہ میں یہ درجہ ولایت کا مراد نہیں بلکہ ولایت و محبت اور قرب کا ایک دوسرا درجہ بھی ہے جو اللہ تعالیٰ کے مخصوص بندوں کے ساتھ خاص ہے یہ قرب محبت کہلاتا ہے جن لوگوں کو یہ قرب خاص حاصل ہو وہ اولیاء اللہ کہلاتے ہیں، جیسا کہ ایک حدیث قدسی میں ہے، حق تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میرا بندہ نفلی عبادات کے ذریعہ میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں بھی اس سے محبت کرنے لگتا ہوں اور جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو پھر میں ہی اس کے کان بن جاتا ہوں وہ جو کچھ سنتا ہے میرے ذریعہ سنتا ہے، میں ہی اس کی آنکھ بن جاتا ہوں، وہ جو کچھ دیکھتا ہے مجھ سے دیکھتا ہے میں ہی اس کے ہاتھ پاؤں بن جاتا ہوں وہ جو کچھ کرتا ہے مجھ سے کرتا ہے، مطلب اس کا یہ ہے کہ اس کی کوئی حرکت و سکون اور کوئی کام میری رضاء کے خلاف نہیں ہوتا۔ اور اس ولایت خاصہ کے درجات بیشمار اور غیر متناہی ہیں، اس کا اعلی درجہ انبیاء (علیہم السلام) کا حصہ ہے، کیونکہ ہر نبی کا ولی اللہ ہونا لازمی ہے، اور اس میں سب سے اونچا مقام سید الانبیاء نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہے، اور ادنی درجہ اس ولایت کا وہ ہے جس کو صوفیائے کرام کی اصطلاح میں درجہ فنا کہا جاتا ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ آدمی کا قلب اللہ تعالیٰ کی یاد میں ایسا مستغرق ہو کہ دنیا میں کسی کی محبت اس پر غالب نہ آئے وہ جس سے محبت کرتا ہے تو اللہ کے لئے کرتا ہے، جس سے نفرت کرتا ہے تو اللہ کے لئے کرتا ہے، اس کے حب و بغض اور محبت و عداوت میں اپنی ذات کا کوئی حصہ نہیں ہوتا، جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کا ظاہر و باطن اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی میں مشغول رہتا ہے اور وہ ہر ایسی چیز سے پرہیز کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک ناپسند ہو، اسی حالت کی علامت ہے کثرت ذکر اور دوام طاعت، یعنی اللہ تعالیٰ کو کثرت سے یاد کرنا اور ہمیشہ ہر حال میں اس کے احکام کی اطاعت کرنا، یہ دو وصف جس شخص میں موجود ہوں وہ ولی اللہ کہلاتا ہے جس میں ان دونوں میں سے کوئی ایک نہ ہو وہ اس فہرست میں داخل نہیں، پھر جس میں یہ دونوں موجود ہوں اس کے درجات ادنی و اعلی کی کوئی حد نہیں، انہیں درجات کے اعتبار سے اولیاء اللہ کے درجات متفاضل اور کم و بیش ہوتے ہیں۔ ایک حدیث میں بروایت حضرت ابوہریرہ مذکور ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سوال کیا گیا کہ اس آیت میں اولیاء اللہ سے کون لوگ مراد ہیں ؟ آپ نے فرمایا کہ وہ لوگ جو خالص اللہ کے لئے آپس میں محبت کرتے ہیں، کوئی دنیاوی غرض درمیان میں نہیں ہوتی ( مظہری از ابن مردویہ) اور ظاہر ہے کہ یہ حالت انہیں لوگوں کی ہو سکتی ہے جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے۔ یہاں ایک سوال اور بھی پیدا ہوتا ہے کہ اس درجہ ولایت کے حاصل کرنے کا طریقہ کیا ہے ؟ حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی (رح) نے تفسیر مظہری میں فرمایا کہ امت کے افراد کو یہ درجہ ولایت رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کے فیض صحبت سے حاصل ہوسکتا ہے، اسی سے تعلق مع اللہ کا وہ رنگ جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حاصل تھا اپنے حوصلہ کے مطابق اس کا کوئی حصہ امت کے اولیاء کو ملتا ہے، پھر یہ فیض صحبت صحابہ کرام کو بلا واسطہ حاصل تھا، اسی وجہ سے ان کا درجہ ولایت تمام امت کے اولیاء و اقطاب سے بالاتر تھا بعد کے لوگوں کو یہی فیض ایک واسطہ یا چند واسطوں سے حاصل ہوتا ہے جتنے وسائط بڑھتے جاتے ہیں اتنا ہی اس میں فرق پڑجاتا ہے، یہ واسطہ صرف وہی لوگ بن سکتے ہیں جو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رنگ میں رنگے ہوئے آپ کی سنت کے پیرو ہیں ایسے لوگوں کی کثرت سے مجالست اور صحبت جبکہ اس کے ساتھ ان کے ارشادات کی پیروی اور اطاعت اور ذکر اللہ کی کثرت بھی ہو، یہی نسخہ ہے درجہ ولایت حاصل کرنے کا جو تین جزء سے مرکب ہے۔ کسی ولی اللہ کی صحبت، اس کی اطاعت اور ذکر اللہ کی کثرت، بشرطیکہ یہ کثرت ذکر مسنون طریقہ پر ہو، کیونکہ کثرت ذکر سے آئینہ قلب کو جلا ہوتی ہے تو وہ نور ولایت کے انعکاس کے قابل بن جاتا ہے، حدیث میں ہے کہ ہر چیز کے لئے صیقل اور صفائی کا کوئی طریقہ ہوتا ہے، قلب کی صیقل ذکر اللہ سے ہوتی ہے، اس کو بیہقی نے بروایت ابن عمر نقل فرمایا ہے۔ (مظہری ) ۔ اور حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا کہ ایک شخص نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ آپ اس شخص کے بارے میں کیا فرماتے ہیں جو کسی بزرگ سے محبت کرتا ہے مگر عمل کے اعتبار سے ان کے درجہ تک نہیں پہنچتا ؟ آپ نے فرمایا المرء مع من احب یعنی ہر شخص اسی کے ساتھ ہوگا جس سے اس کو محبت ہے، اس سے معلوم ہوا کہ اولیاء اللہ کی محبت و صحبت انسان کے لئے حصول ولایت کا ذریعہ ہے، اور بہیقی نے شعب الایمان میں حضرت رزین کی روایت سے نقل کیا ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت رزین سے فرمایا کہ میں تمہیں دین کا ایسا اصول بتلاتا ہوں جس سے تم دنیا و آخرت کی فلاح و کامیابی حاصل کرسکتے ہو، وہ یہ ہے کہ اہل ذکر کی مجلس و صحبت کو لازم پکڑو اور جب تنہائی میں جاؤ تو جتنا زیادہ ہوسکے اللہ کے ذکر سے اپنی زبان کو حرکت دو ، جس سے محبت کرو اللہ کے لئے کرو جس سے نفرت کرو اللہ کے لئے کرو۔ ( مظہری ) ۔ مگر یہ صحبت و مجالست انہیں لوگوں کی مفید ہے جو خود ولی اللہ متبع سنت ہوں اور جو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کے تابع نہیں وہ خود درجہ ولایت سے محروم ہیں، چاہے کشف و کرامات ان سے کتنے ہی صادر ہوں۔ اور جو شخص مذکورہ صفات کے اعتبار سے ولی ہو اگرچہ اس سے کبھی کوئی کشف و کرامت ظاہر نہ ہوئی ہو وہ اللہ کا ولی ہے۔ ( مظہری ) اولیاء اللہ کی علامت اور پہچان تفسیر مظہری میں ایک حدیث قدسی کے حوالہ سے یہ نقل کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میرے اولیاء میرے بندوں میں سے وہ لوگ ہیں جو میری یاد کے ساتھ یاد آویں اور جن کی یاد کے ساتھ میں یاد آؤ ں، اور ابن ماجہ میں بروایت حضرت اسماء بنت یزید مذکور ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اولیاء اللہ کی یہ پہچان بتلائی الذین اذا رء وا ذکر اللہ، یعنی جن کو دیکھ کر خدا یاد آئے۔ خلا صہ یہ ہے کہ جن لوگوں کی صحبت میں بیٹھ کر انسان کو اللہ کے ذکر کی توفیق اور دنیاوی فکروں کی کمی محسوس ہو، یہ علامت اس کے ولی اللہ ہونے کی ہے۔ تفسیر مظہری میں فرمایا کہ عوام نے جو اولیاء اللہ کی علامت کشف و کرامت یا غیب کی چیزیں معلوم ہونے کو سجھ رکھا ہے یہ غلط اور دھوکہ ہے، ہزاروں اولیاء اللہ ہیں جن سے اس طرح کی کوئی چیز ثابت نہیں اور اس کے خلاف ایسے لوگوں سے کشف اور غیب کی خبریں منقول ہیں جن کا ایمان بھی درست ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلَآ اِنَّ اَوْلِيَاۗءَ اللہِ لَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ۝ ٦٢ ۚۖ ولي والوَلِيُّ والمَوْلَى يستعملان في ذلك كلُّ واحدٍ منهما يقال في معنی الفاعل . أي : المُوَالِي، وفي معنی المفعول . أي : المُوَالَى، يقال للمؤمن : هو وَلِيُّ اللهِ عزّ وجلّ ولم يرد مَوْلَاهُ ، وقد يقال : اللهُ تعالیٰ وَلِيُّ المؤمنین ومَوْلَاهُمْ ، فمِنَ الأوَّل قال اللہ تعالی: اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة/ 257] ، إِنَّ وَلِيِّيَ اللَّهُ [ الأعراف/ 196] ، وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران/ 68] ، ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا[ محمد/ 11] ، نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ [ الأنفال/ 40] ، وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ هُوَ مَوْلاكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلى[ الحج/ 78] ، قال عزّ وجلّ : قُلْ يا أَيُّهَا الَّذِينَ هادُوا إِنْ زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِياءُ لِلَّهِ مِنْ دُونِ النَّاسِ [ الجمعة/ 6] ، وَإِنْ تَظاهَرا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلاهُ [ التحریم/ 4] ، ثُمَّ رُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِ [ الأنعام/ 62] ( و ل ی ) الولاء والتوالی الولی ولمولی ۔ یہ دونوں کبھی اسم فاعل یعنی موال کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور کبھی اسم مفعول یعنی موالی کے معنی میں آتے ہیں اور مومن کو ولی اللہ تو کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن مولی اللہ کہنا ثابت نہیں ہے ۔ مگر اللہ تعالیٰٰ کے متعلق ولی المومنین ومولاھم دونوں طرح بول سکتے ہیں ۔ چناچہ معنی اول یعنی اسم فاعل کے متعلق فرمایا : ۔ اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة/ 257] جو لوگ ایمان لائے ان کا دوست خدا ہے إِنَّ وَلِيِّيَ اللَّهُ [ الأعراف/ 196] میرا مددگار تو خدا ہی ہے ۔ وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران/ 68] اور خدا مومنوں کا کار ساز ہے ۔ ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا[ محمد/ 11] یہ اسلئے کہ جو مومن ہیں ان کا خدا کار ساز ہے ۔ نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ [ الأنفال/ 40] خوب حمائتی اور خوب مددگار ہے ۔ وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ هُوَ مَوْلاكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلى[ الحج/ 78] اور خدا کے دین کی رسی کو مضبوط پکڑے رہو وہی تمہارا دوست ہے اور خوب دوست ہے ۔ اور ودسرے معنی یعنی اسم مفعول کے متعلق فرمایا : ۔ قُلْ يا أَيُّهَا الَّذِينَ هادُوا إِنْ زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِياءُ لِلَّهِ مِنْ دُونِ النَّاسِ [ الجمعة/ 6] کہدو کہ اے یہود اگر تم کو یہ دعوٰی ہو کہ تم ہی خدا کے دوست ہو اور لوگ نہیں ۔ وَإِنْ تَظاهَرا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلاهُ [ التحریم/ 4] اور پیغمبر ( کی ایزا ) پر باہم اعانت کردگی تو خدا ان کے حامی اور ودست دار ہیں ۔ ثُمَّ رُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِ [ الأنعام/ 62] پھر قیامت کے تمام لوگ اپنے مالک پر حق خدائے تعالیٰ کے پاس واپس بلائے جائیں گے ۔ خوف الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] ( خ و ف ) الخوف ( س ) کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ حزن الحُزْن والحَزَن : خشونة في الأرض وخشونة في النفس لما يحصل فيه من الغمّ ، ويضادّه الفرح، ولاعتبار الخشونة بالغم قيل : خشّنت بصدره : إذا حزنته، يقال : حَزِنَ يَحْزَنُ ، وحَزَنْتُهُ وأَحْزَنْتُهُ قال عزّ وجلّ : لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران/ 153] ( ح ز ن ) الحزن والحزن کے معنی زمین کی سختی کے ہیں ۔ نیز غم کی وجہ سے جو بیقراری سے طبیعت کے اندر پیدا ہوجاتی ہے اسے بھی حزن یا حزن کہا جاتا ہے اس کی ضد فوح ہے اور غم میں چونکہ خشونت کے معنی معتبر ہوتے ہیں اس لئے گم زدہ ہوے کے لئے خشنت بصررہ بھی کہا جاتا ہے حزن ( س ) غمزدہ ہونا غمگین کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران/ 153] تاکہ جو چیز تمہارے ہاتھ سے جاتی رہے ۔۔۔۔۔ اس سے تم اندو ہناک نہ ہو

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٢۔ ٦٣) یہ بات یاد رکھو کہ مومنین کی جماعت کو نہ کسی عذاب کے آنے کا خطرہ ہے اور نہ وہ کسی مطلوب کے فوت ہونے پر غمگین ہوتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٢ (اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآء اللّٰہِ لاَخَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُوْنَ ) یہ اولیاء اللہ کون لوگ ہیں ؟ یہ کوئی علیحدہ نوع (Species) نہیں ہے ‘ اور نہ ہی اس کے لیے کوئی خاص لباس زیب تن کرنے یا کوئی مخصوص حلیہ بنانے کی ضرورت ہے ‘ بلکہ اولیاء اللہ وہ لوگ ہیں جو ایمان حقیقی سے بہرہ مند ہوں ‘ ان کے دلوں میں یقین پیدا ہوچکا ہو اور وہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے درجہ ” احسان “ پر فائز ہوچکے ہوں ‘ جس کا ذکر ” حدیث جبریل “ میں ہوا ہے : (اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ فَاِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہٗ یَرَاکَ ) (١) اللہ تعالیٰ اپنے ان خاص بندوں کی جس طرح پذیرائی فرماتا ہے اس کا ایک انداز سورة البقرۃ ‘ آیت ٢٥٧ میں اس طرح بیان ہوا ہے : (اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُخْرِجُہُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ ط) ” اللہ ولی ہے اہل ایمان کا ‘ انہیں نکالتا ہے اندھیروں سے روشنی کی جانب “۔ آیت زیر نظر میں بھی انہیں خوشخبری سنائی گئی ہے کہ ایسے لوگ خوف اور حزن سے بالکل بےنیاز ہوں گے۔ بہر حال اس سلسلے میں ایک بہت اہم نکتہ لائق توجہ ہے کہ جو اللہ کا دوست ہوگا اس کے اندر اللہ کی غیرت و حمیت بھی ہوگی۔ وہ اللہ کے دین کو پامال ہوتے دیکھ کر تڑپ اٹھے گا۔ وہ اللہ کے شعائر کی بےحرمتی کو کبھی برداشت نہیں کرسکے گا۔ وہ اللہ کے دین کو غالب کرنے کے لیے اپنا تن من دھن قربان کر دے گا۔ گویا دنیوی زندگی میں یہ معیار اور طرز عمل اولیاء اللہ کی پہچان ہے۔ اگلی آیت میں مزید وضاحت فرما دی گئی کہ یہ اولیاء اللہ کون لوگ ہیں :

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

28: اللہ کے دوست کی تشریح اگلی آیت میں کردی گئی ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان اور تقوی کی صفات رکھتے ہوں۔ ان کے بارے میں یہ فرمایا گیا ہے کہ انہیں نہ آئندہ کا کوئی خوف ہوگا، اور نہ ماضی کی کسی بات کا کوئی غم ہوگا۔ کہنے کو یہ مختصر سی بات ہے، لیکن دیکھا جائے تو یہ اتنی بڑی نعمت ہے کہ دنیا میں اس کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ دنیا میں ہر انسان کو، خواہ وہ کتنا خوشحال ہو، ہر وقت مستقل کا کوئی نہ کوئی خوف اور ماضی کا کوئی نہ کوئی رنج پریشان کرتا ہی رہتا ہے۔ یہ نعمت صرف جنت ہی میں حاصل ہوگی کہ انسان ہر طرح کے خوف اور صدمے سے بالکل آزاد ہوجائے گا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٦٢۔ ٦٣۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اولیاء اللہ کا حال بیان فرمایا ہے کہ اور لوگوں کو دنیا کے چھوٹ جانے کا اور دنیا میں بےفائدہ عمر بسر کرنے کا آخرت میں غم اور رنج ہوگا اللہ کے ولی لوگ جو کامل ایمان داری اور تقوی میں اپنی دنیا اس طرح بسر کرتے ہیں کہ ان کا حال دیکھنے سے دیکھنے والوں کو خدا یاد آتا ہے ان کو آخرت میں کچھ غم اور رنج نہیں ہے حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) سے مسند بزار و تفسیر ابن جریر میں ابو مالک اشعری (رض) سے مسند امام احمد بن حنبل میں اور سنن ابوداؤد میں حضرت عمر (رض) سے جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اولیاء اللہ وہ لوگ ہیں جن کے دیکھنے سے خدایاد آتا ہے۔ ١ ؎ صحیح بخاری میں ابوہریرہ (رض) کی روایت سے حدیث قدسی ہے جس میں اولیاء اللہ کی یہ نشانی ہے کہ علاوہ فرضی عبادت کے وہ لوگ اکثر نفلی عبادت میں اور ان کے کان آنکھیں ہاتھ پیر سب اعضاء مرضی الٰہی کے کاموں میں لگے رہتے ہیں۔ ٢ ؎ اس صحیح روایت سے اوپر کی روایتوں کی پوری تائید ہوتی ہے کیوں کہ جو لوگ ہر وقت عبادت الٰہی میں لگے رہیں گے ان کے دیکھنے سے ضرور خدا یاد آوے گا مستدرک حاکم کی ابن عمر (رض) کی صحیح روایت میں یہ بھی ہے کہ بغیر روپے کے لالچ اور بغیر رشتہ داری کے وہ آپس میں اللہ کے واسطے بڑی گہری محبت رکھتے ہیں قیامت کے دن جب اور لوگوں کو خوف ہوگا تو یہ لوگ بےخوف اور خوش حال ہوں گے اللہ تعالیٰ ان کی بڑی عزت فرماوے گا۔ ان کو نور کے ممبر بیٹھنے کو ملیں ٣ ؎ گے اگرچہ عام لوگوں میں یہ بات مشہور ہے کہ جس شخص میں کوئی بات خلاف عادت ہو مثلاً بےموسم کی چیز کا پیدا کردینا یا آئندہ کی کوئی خبر بتلا دینا یا تھوڑی دیر میں دنوں کا راستہ طے کرلینا تو وہ شخص ولی ہے اور وہ خلاف عادت بات کرامت ہے لیکن علماء اہل سنت کا مذہب ایسا نہیں ہے بلکہ ان کا مذہب یہ ہے کہ جس شخص میں خلاف عادت کوئی بات نظر پڑی اگر وہ شخص متقی اور شریعت کا پابند ہے تو وہ خلاف عادت بات کرامت ہے اور وہ شخص ولی ہے ورنہ وہ خلاف عادت بات استدراج ہے اور وہ شخص ولی نہیں ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ولی آیت میں ولی کی نشانی یہ فرمائی ہے۔ { الذین امنوا وکانوا یتقون } پھر غیر پابند شریعت شخص کو پورا ایماندار اور متقی کیوں کر کہہ سکتے ہیں اور بغیر اس ولایت کی نشانی کے جس کو خود خدا نے ولی کی علامت ٹھہرایا ہے کسی کو ولی خلاف مرضی خدا کے زبردستی کیوں کر کہا جاسکتا ہے اسی طرح خدا کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ولی کی علامت یہ بتلائی ہے کہ ولی کے دیکھنے سے خدا یاد آتا ہے کیوں کہ ولی اکثر یاد الٰہی میں لگا رہتا ہے اور یہ ظاہر بات ہے کہ بےشرع آدمی کے دیکھنے سے اور اس کی صحبت سے جو کچھ نشہ پانی یا اور کوئی خلاف شریعت بات مثلاً راگ رنگ جو کچھ وہ بےشریعت کرتا ہے وہ یاد آتا ہے خدا ایسے آدمی کے دیکھنے سے کب یاد آتا ہے حاصل کلام یہ ہے کہ عام لوگوں کے نزدیک کرامت سے ولی پہچانا جاتا ہے اور علماء اسلام کے نزدیک پیروی شریعت سے ولی پہچانا جاتا ہے اور پھر ولی سے کرامت پہچانی جاتی ہے۔ ابن عساکر میں حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دنیا میں اولیاء اللہ کے چند گروہ ہیں تین سو آدمیوں کا ایک گروہ ایسا ہے جن کا ولایت میں وہ مقام ہے جو نبوت میں حضرت آدم (علیہ السلام) کا تھا اور چالیس آدمیوں کا ایک گروہ ایسا ہے جن کا مقام حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا سا ہے اور سات آدمیوں کا ایک گروہ ایسا ہے جن کا مقام حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا سا ہے اور سات آدمیوں کا ایک گروہ ایسا ہے جن کا مقام حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا سا ہے اور پانچ آدمیوں کا ایک گروہ ایسا ہے جن کا مقام ولایت وہ ہے جو ملائکہ میں حضرت جبرئیل (علیہ السلام) کا مقام ہے اور تین آدمیوں کا ایک گروہ ایسا ہے جن کا مقام حضرت میکائیل کا ہے اور فقط ایک شخص ایسا ہے جس کا مقام حضرت اسرافیل کا ہے ان اولیاء اللہ کی دعا کی برکت کے سبب سے طرح طرح کی بلائیں دفع ہوتی رہتی ہیں قحط کے وقت ان کی دعا سے مینہ برستا ہے لڑائی کے وقت ان کی دعا سے دشمن پر فتح ہوتی ہے ان لوگوں سے کبھی دنیا خالی نہیں رہتی نیچے کے گروہ والوں کو خدا ترقی دیتا رہتا ہے مثلاً چالیس آدمیوں کے گروہ میں سے کسی شخص کے فوت ہوجانے سے ایک آدمی کی جگہ خالی ہوجاتی ہے تو تین سو آدمیوں کے گروہ میں سے ایک شخص اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے اور عام مسلمانوں میں سے ایک شخص تین سو کے گروہ میں مامور ہوجاتا ہے۔ اسی طرح ہر گروہ کا حال ہے۔ ٤ ؎ اور مسند امام احمد بن حنبل میں حضرت علی (رض) وہ ذکر سن کر خاموش ہو رہے اور لوگوں نے حضرت علی (رض) سے کہا آپ اپنے دشمن اور دشمن کے لشکر کا ذکر سن کر خاموش رہ جاتے ہیں کچھ ان کو برا نہیں کہتے آپ نے فرمایا اہل شام کو میں کیوں کر برا کہوں میں نے حضرت سے سنا ہے کہ ملک شام میں چالیس آدمیوں ابدال کا گروہ ایسا ہے کہ جن کے سبب سے اہل شام کی ہر طرح کی بلا دفع ہوتی ہے جن کی دعاء سے قحط کے وقت مینہ برستا ہے لڑائی کے وقت دشمن پر فتح ہوتی ہے۔ ٥ ؎ اسی طرح حلیہ ابی نعیم میں روایت ہے کہ اہل صفہ میں مغیرہ بن شعبہ (رض) کا ایک غلام تھا اس کو آحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ سات میں کا ایک ہے ٦ ؎ سوا اس کے جن حدیثوں میں ادا تا واقطاب نقباء نجبا کی گنتی کا ذکر ہے ان حدیثوں کو اہل حدیث نے ضعیف کہا ہے۔ ٧ ؎ ہاں خاص نام لے کر ولایت کی شان سے بعض صحابہ اور تابعین کا ذکر صحیح حدیثوں میں آیا ہے۔ چناچہ صحیحین میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ پہلی امتوں میں ایسے لوگ تھے جن کو خدا کی طرف سے الہام ہوتا تھا اس امت میں اسی طرح کے لوگ ہیں تو وہ عمر فاروق ہیں ٨ ؎ اور صحیح مسلم میں حضرت عمر (رض) سے جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ یمن سے ایک شخص تمہارے پاس آوے گا جس کا نام اویس ہے اس سے دعا کرانا ٩ ؎ اور کرامت کے خیال سے صحابہ اور تابعین کے حال پر حدیث کی کتابوں میں نظر ڈالی جاوے تو ہزار کرامتوں سے کم نہیں نکلتی ہیں مثلاً حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے تین مہمانوں کا قصہ صحیحن میں ہے جس میں کھانا بڑھ گیا تھا ١٠ ؎ اور حضرت عمر (رض) کا مدینہ میں خطبہ کے وقت اپنے لشکر کو پہاڑ پر چڑھ کر لڑنے کی ہدایت کا دینا اور منزلوں کے فاصلہ پر اس کا عمل ہوجانا ١١ ؎ اور حسن بصری (رض) کا حجاج کی نگاہ سے غائب ہوجانا اور سعید بن مسیب (رض) کو یزید (رض) کے جھگڑے کے زمانہ میں اذان کی آواز کا مسجد نبوی میں آنا ١٢ ؎ وغیرہ لیکن شریعت میں کہیں ایسے اولیاء اللہ کا ذکر نہیں ہے جن کو شریعت کا حکم معاف ہو یا ظاہر میں وہ شریعت کے پابند ہوں اور باطنی احکام الہامی میں ان کو شریعت کی پابندی ضرور نہ ہو یا ولایت کو وہ نبوت سے بڑھ کر گنتے ہوں یا کسی کو خاتم الاولیاء کہتے ہوں یا احکام شریعت کے وہ ایسے معنے بتلاتے ہوں جن کی روایت صاحب شریعت سے صحیح مروجہ کتابوں میں کہیں نہیں پائی جاتی اس قسم کی جس قدر باتیں فتوحات و خصوص الحکم وغیرہ میں لکھی ہیں وہ سب شریعت کے مخالف ہیں کیوں کہ یہ تو ظاہر بات ہے کہ وحی شرعی میں جب ان باتوں کا پتہ نہیں ہے تو امت میں سے جس کسی کو یہ باتیں معلوم ہوئی ہوں گی خواہ مخواہ الہام کے ذریعہ سے معلوم ہوئی ہوں گی کس لئے کہ وحی تو خاتم الانبیاء پر ختم ہوچکی اور الہام ایسی ایک چیز ہے کہ بدوں شہادت شریعت کے صرف الہام کے ذریعہ سے کوئی بات ثابت کی جاسکتی ہے نہ خالی الہام حجت ہوسکتا ہے چناچہ مشائخ اسلام مثلاً فضیل بن عیاض (رض) و ابراہیم ادہم و ابو سلیمان و ارانی و معروف کرخی وجنید بغدادی ; وغیرہ نے اس کی صراحت کردی ہے کہ سوائے انبیاء کے اور کسی کا الہام اس وقت تک صحیح نہیں قرار پاسکتا جب تک وہ الہام ظاہر شریعت کے موافق نہ ہو۔ اور یہ ہی مذہب حق ہے ورنہ سلف صالحین کے رحمانی اور القاء شیطانی میں فرق ہے تو اتنا ہی ہے کہ الہام رحمانی کی تائید شریعت سے ہوا کرتی ہے چناچہ چند باتوں میں حضرت عمر (رض) کی خلافت میں اور حارث و مشقی عبد الملک بن مروان کی خلافت میں اسی وجہ سے قتل کئے گئے کہ ان کے القاء شیطانی کی تصدیق شریعت سے نہیں ہوتی تھی۔ ١ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٤٢٢۔ ٤٢٣ ج ٢۔ و تفسیر الدرالمنثور ٣٠٩۔ ٣١٠ ج ٣۔ ٢ ؎ صحیح بخاری ص ٩٦٣ ج ٢ باب التواضع۔ ٣ ؎ تفسیر الدرا لمنثور ص۔ ٣١ ج ٣۔ ٤ ؎ حافظ سیوسی (رض) اللالی المصنوعہ (ص ٥١٢ طبع لکھنو ١) میں بحوالہ طبرانی یہ روایت لاکر کہتے ہیں کہ اس کی سند میں بہت سے مجہول راوی ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ روایت کس یکام نہیں چناچہ حافظ ذہبی نے اس کو موضوع قرار دیا ہے۔ میزان ص ١٨٧ ج ٢ ع۔ ٥ ؎ مشکوۃ باب ذکر الیمن والشام بحوالہ مسند احمد ص ١٧١ ج ٢ طبع احمد شاکر (رض) یہ روایت منقطع ہے لہٰذا ضعیف اور ناقبل حجت (ع، ر) ٦ ؎ صوفیوں کے ان اصطلاحی القاب کی شریعت میں کوئی اصل نہیں ابدال کے متعلق جتنی روایات ہیں ان کو اگرچہ حافظ سیوطی نے ٹھیک بنانے کی کوشش کی ہے لیکن حافظ طخاوی (رض) کے نزدیک ہ سب ضعیف ہیں (المقاصد المسز ص ٨ طبع جدید، اور یہی رائے حافظ شوکانی ی ہے (الفوائد المجموعہ ص ٢٤٦۔ ٢٤٩ طبع مصر۔ ) ۔ ہ، ر۔ ٧ ؎ مشکوۃ ص ٥٥٦ باب مناقب عمر (رض) ۔ ٨ ؎ صحیح مسلم ص ٣١١ ج ٢ باب من فضائل اویس القرنی (رض) ۔ ٩ ؎ مشکوۃ ص ٥٤٤ باب الکرامات۔ ١٠ ؎ مشکوۃ ص ٥٤٦ باب الکرامات۔ ١١ ؎ ایضا ٥٤٥ باب الکرامات۔ ١٢ ؎ صحیح بخاری ص ١٠٣٧ ج ٢ باب رؤیۃ النساء۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 ۔ آخرت میں یا دنیا و آخرت دونوں میں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ یعنی اللہ ان کو خوفناک اور غم ناک حوادث سے بچاتا ہے خوف سے خوف حق اور غم سے غم آخرت مراد نہیں بلکہ دنیوی خوف وغم کی نفی مراد ہے۔ جس کا احتمال مخالفت اعداء سے ہوسکتا ہے وہ مومنین کاملین کو نہیں ہوتا ہر وقت ان کا اللہ پر اعتماد ہوتا ہے ہر واقعہ کی حکمت کا اعتقاد رکھتے ہیں اس میں مصلحت سمجھتے ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلّی دینے اور آپ کے کام کو خراج تحسین سے نوازنے کے بعد توحید سے محبت کرنے والوں، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جانثاروں اور حق پر قربان ہونے والوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنا دوست قرار دیتے ہوئے انہیں تسلی دینے کے ساتھ تابناک مستقبل کی خوشخبری دی ہے۔ ولی کی جمع اولیاء ہے جس کا معنیٰ ہے دوست۔ اولیاء اللہ یعنی اللہ کے دوست جن کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اللہ ایمانداروں کا دوست ہے۔ ان کو کفر و شرک اور بدعت و رسومات سے نکال کر نور کی طرف لاتا ہے اور کفار کے دوست شیطان ہیں وہ انھیں کو نور سے نکال کر کفرو شرک اور بدعت و رسومات کے اندھیروں میں لے جاتے ہیں یہ لوگ جہنم کی آگ میں جھونکے جائیں گے۔ اور اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ (البقرۃ : ٢٥٧) قرآن مجید کے ارشاد سے بالکل واضح ہے کہ اولیاء اللہ کوئی الگ گروہ یا جماعت نہیں ہے بلکہ ان سے مراد وہ لوگ ہیں جو ایمان کے تقاضے پورے کرنے والے ہیں۔ جو صاحب ایمان جس قدر اخلاص اور خدا خوفی کے ساتھ ایمان کے تقاضے پورے کرے گا وہ اسی درجے کا اللہ تعالیٰ کا دوست قرار پائے گا۔ لیکن مفاد پرست گروہ ان لوگوں کو اولیاء اللہ شمار کرتا ہے۔ جن سے کوئی کرامت سرزد ہو یا وہ ایک مخصوص لباس اور انداز میں رہتے ہوئے عام مسلمانوں سے میل جول سے پرہیز کریں۔ اگر کوئی شخص تارک الدنیا ہو کر گوشہ نشین ہوجائے تو ایسے لوگوں کی نظروں میں وہ ولی کامل سے کم درجہ نہیں رکھتا۔ ہندو ازم سے متاثر ہو کر جاہل مسلمان ان لوگوں کو بھی ولی سمجھتے ہیں جو نہ صرف شریعت سے کوسوں دور ہیں بلکہ انسانیت کے مقام سے بھی گر چکے ہیں۔ یہ اس لیے ہوا کہ جہلاء نے اس معیار کو معیار نہ سمجھا جو اللہ تعالیٰ نے اپنے دوستوں کے لیے مقرر فرمایا ہے۔ وہ معیار ہے۔ (اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَکاَنُوْا یَتَّقُوْنَ )[ یونس : ٦٣] ” جو ایمان لائے اور انہوں نے تقویٰ اختیار کیا۔ “ مشہور مفسر امام ابن کثیر (رض) لکھتے ہیں : حضرت ابی بن کعب (رض) نے امیر المومنین حضرت عمر فاروق (رض) کے استفسار کے جواب میں تقویٰ کی تشریح یوں فرمائی کہ کوئی آدمی ایسی پگڈنڈی سے گزرے جس کے ارد گرد خار دار جھاڑیاں ہوں وہ ان سے اپنا دامن بچا کر گزر جائے گویا کہ دنیا کی آلائشوں اور نفسانی شہوات سے بچ کر صراط مستقیم پر چلنے کا نام تقویٰ ہے۔ لیکن افسوس آج بعض مسلمانوں نے ولایت کا معیار تقویٰ رکھنے کی بجائے جہالت اور جسمانی غلاظت قرار دے لیا۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ علماء میں بھی اسی عالم کو زیادہ نیک اور متقی سمجھا جاتا ہے جو صاف ستھرے لباس سے پرہیز اور حق گوئی کے تقاضے پورے کرنے سے احتراز کرتا ہو۔ حالانکہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس مسلمان کو زیادہ نیک قرار دیا ہے جو مشکلات میں عزیمت اختیار کرے اور لوگوں کے دکھ درد میں بھرپور طریقہ سے شرکت کرنے والا ہو۔ ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت کی خوشخبری دیتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے کہ انہیں عظیم کامیابی حاصل ہونے کے ساتھ آخرت میں کوئی خوف و خطر نہیں ہوگا۔ بعض لوگوں نے ولایت کی یہ نشانی بھی ذکر کی ہے کہ ولی کو دنیا میں کوئی خوف اور پریشانی لاحق نہیں ہوتی اگر اس سے مراد حقیقی پریشانی اور خوف لیا جائے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ کے دوست یعنی ولی اللہ کا دل ہر حال میں مطمئن رہتا ہے۔ بحیثیت انسان کسی چیز کے چھن جانے اور ناگہانی افتاد آنے پر خوف و غم لاحق ہونے کے باوجود اس کا دل اپنے رب کی رضا پر راضی اور مطمئن ہوتا ہے جو لوگ (وَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلاَھُمْ یَحْزَنُوْنَ ) کا یہ مفہوم لیتے ہیں کہ ولی کامل کو قطعاً کسی قسم کا خوف و غم نہیں ہوتا یہ انسانی فطرت اور شریعت کے سراسر منافی ہے۔ رسول محترم سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کا کون دوست ہوسکتا ہے آپ اپنے اعزاء و اقربا کی موت پر زارو قطار روئے اور لوگوں کے مظالم کی وجہ سے بارہا دفعہ پریشان ہوئے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کے فرمان کا حقیقی اور صحیح مفہوم یہ ہے کہ موت کے بعد اللہ کے دوستوں کو کوئی خوف و خطر اور پریشانی لاحق نہیں ہوگی۔ یہ اللہ تعالیٰ کا اٹل فیصلہ ہے اور اس کے فیصلے میں کبھی تبدیلی نہیں ہوگی۔ یہی ایماندار اور صاحب تقویٰ کا اعزاز اور اولیاء اللہ کا مقام ہے۔ کہ وہ قیامت کے خوف و خطر سے مامون ہوں گے۔ اولیاء اللہ کا مقام اور ان کی خوبی : (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی قَالَ مَنْ عَادٰی لِیْ وَلِیًّا فَقَدْ اٰذَنْتُہٗ بالْحَرْبِ وَمَا تَقَرَّبَ اِلَیَّ عَبْدِیْ بِشَیْءٍ اَحَبَّ اِلَیَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَیْہِ وَمَا یَزَالُ عَبْدِیْ یَتَقَرَّبُ اِلَیَّ باالنَّوَافِلِ حَتّٰی اَحْبَبْتُہُ فَاِذَا اَحْبَبْتُہُ فَکُنْتُ سَمْعَہٗ الَّذِیْ یَسْمَعُ بِہٖ وَبَصَرَہُ الَّذِیْ یَبْصُرُبِہٖ وَیَدَہُ الَّتِیْ یَبْطِشُ بِھَاوَ رِجْلَہُ الَّتِیْ یَمْشِیْ بِھَا وَاِنْ سَاَلَنِیْ لَاُعْطِیَنَّہٗ وَلَءِنِ اسْتَعَاذَنِیْ لَاُعِیْذَنَّہٗ وَمَا تَرَدَّدْتُ عَنْ شَیْءٍ اَنَا فَاعِلُہٗ تَرَدُّدِیْ عَنْ نَّفْسِ الْمُؤْ مِنِ یَکْرَہُ الْمَوْتَ وَاَنَا اَکْرَہُ مَسَاءَ تَہُ وَلَابُدَّلَہُ مِنْہُ )[ رواہ البخاری : کتاب الرقائق، باب التواضع ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حدیث قدسی بیان کرتے ہیں کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ‘ جس شخص نے میرے دوست کے ساتھ عداوت رکھی اس کا خلاف میرا اعلان جنگ ہے اور میرے کسی بندے کو میرا قرب اور کسی چیز کے ذریعے حاصل نہیں ہوتا جو قرب فرائض کی ادائیگی سے حاصل ہوتا ہے۔ بندہ جوں جوں نفل پڑھتا ہے توں توں اسے میرا قرب حاصل ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔ جب وہ میرا محبوب بن جاتا ہے تو میں اس کے کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے ‘ اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے ‘ اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔ اگر وہ مجھ سے کسی چیز کا طالب ہوتا ہے تو اس کو عطا کرتا ہوں۔ پناہ طلب کرتا ہے تو اس کو میں پناہ دیتا ہوں اور مجھے کسی کام کے کرنے میں اتنا تامل نہیں ہوتا جتنا ایک مومن کی جان قبض کرنے میں ہوتا ہے کیونکہ وہ موت سے کراہت کرتا ہے اور میں اس کو پہنچنے والی تکلیف کو برا سمجھتا ہوں۔ لیکن موت سے ہرگز چھٹکارا نہیں ہے۔ “ ( أَلَآ إِنَّ أَوْلِیَآء اللّٰہِ لَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَ )[ یونس : ٦٢] ” آگاہ رہو اولیاء اللہ پر کسی قسم کا خوف اور غم نہ ہوگا۔ “ مسائل ١۔ اولیاء اللہ قیامت کے دن غمزدہ نہیں ہوں گے۔ ٢۔ اولیاء اللہ صاحب ایمان ہوتے ہیں۔ ٣۔ اولیاء اللہ پرہیز گاری اختیار کرتے ہیں۔ ٤۔ اللہ کے ولی کے لیے دنیا و آخرت میں خوشخبری ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان تبدیل نہیں ہوا کرتے۔ ٦۔ اللہ کا تابع دار ہونے میں بڑی کامیابی ہے۔ تفسیر بالقرآن اولیاء اللہ کا مقام : ١۔ اولیاء اللہ پر نہ خوف ہوگا اور نہ وہ غمزدہ ہوں گے۔ (یونس : ٢ ٦) ٢۔ اولیاء اللہ کے لیے دنیا و آخرت میں خوشخبری ہے۔ (یونس : ٦٤) ٣۔ اللہ مومنوں کا دوست ہے۔ وہ انہیں تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لاتا ہے۔ (البقرۃ : ٢٥٧) ٤۔ اللہ اپنے دوستوں کی مہمان نوازی فرمائے گا۔ ( حٰم السجدۃ : ٣٢)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

الا ان اولیاء اللہ لا خوف علیھم ولا ھم یحزنون۔ خوب سن لو کہ (قیامت کے دن جب سب لوگوں کو مصیبت میں مبتلا ہونے کا خوف ہوگا) اللہ کے دوستوں کو (عذاب کا) کوئی اندیشہ نہ ہوگا اور نہ وہ (اپنی کسی امید کی ناکامی کے) غم میں مبتلا ہوں گے (یعنی ان کی ہر امید پوری کی جائے گی) ۔ دلاء اور تو الی کا لغوی معنی ہے دو یا زیادہ چیزوں کا براہ راست بلاواسطہ تعلق و اتصال۔ مجازاً اس سے مراد ہوتا ہے قرب خواہ مکانی ہو ‘ یا نسبی ‘ یا دینی ‘ یا اعتقادی ‘ یا دوستی اور مدد کے لحاظ سے ہو۔ قاموس میں ہے : وَلْیٌ قرب وَلِیٌّ۔ وَلْیٌسے صفت کا صیغہ ہے ‘ جس کا معنی ہے قرب رکھنے والا ‘ دوست ‘ مددگار۔ تنقیح یوں تو ہر شخص بلکہ ہر چیز کا اللہ سے قرب ہے جس کی کیفیت نہیں جانی جاسکتی۔ اللہ نے فرمایا ہے : نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ رگ جان سے بھی زیادہ ہم بندہ کے قریب ہیں۔ اسی قرب کی وجہ سے یہ کائنات جامۂ ہستی پہنتی اور دائرۂ وجود میں آتی ہے۔ اگر یہ قرب نہ ہوتا تو کوئی وجود کی بو بھی نہیں سونگھ سکتا۔ اصل ذات کے اعتبار سے ہر چیز نیست ہے ‘ سب کی اصل عدم ہے لیکن خاص بندوں کو ایک بےکیف قرب اور بھی حاصل ہے ‘ یہ قرب محبت ہے۔ عالم مثال میں اہل کشف کو یہ بےکیف محبت ‘ قرب جسمانی کی شکل میں نظر آتی ہے۔ لفظ قرب کا قرب خلقی اور قرب محبت دونوں پر اطلاق بطور اشتراک لفظی کے ہوتا ہے۔ حقیقت قرب دونوں جگہ جدا جدا ہے۔ مؤخر الذکر قرب کے ان گنت ‘ غیر محدود درجات ہیں۔ ایک حدیث قدسی ہے (ا اللہ نے فرمایا) میرا بندہ نوافل کے ذریعے سے میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے پیار کرنے لگتا ہوں۔ جب میں اس کو پیار کرتا ہوں تو پھر میں اس کے کان بن جاتا ہوں جن سے وہ سنتا ہے اور میں اس کی آنکھیں بن جاتا ہوں جن سے وہ دیکھتا ہے۔ الی آخر الحدیث (یعنی اس وقت وہ جو کام کرتا ہے ‘ وہ گویا میرا عمل ہوتا ہے) رواہ البخاری عن ابی ہریرۃ۔ اس قرب کا ابتدائی درجہ صرف ایمان سے حاصل ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اور آخری انتہائی درجہ انبیاء کا خصوصی حصہ ہے ‘ جن کے سردار رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) ہیں۔ رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) کے درجات ترقی پذیر ہیں جن کی کوئی انتہاء نہیں۔ صوفیہ کی اصطلاح میں کم سے کم وہ درجہ جس پر لفظ ولی کا اطلاق ہو سکتا ہے ‘ اس شخص کا ہے جس کا دل اللہ کی یاد میں ہر وقت ڈوبا رہتا ہے۔ وہ صبح و شام اللہ کی پاکی بیان کرنے میں مشغول رہتا ہے۔ اللہ کی محبت میں سرشار رہتا ہے۔ کسی اور کی محبت کی اس میں گنجائش نہیں ہوتی خواہ باپ ہو ‘ یا بیٹا ‘ یا بھائی ‘ یا بیوی ‘ یا دوسرے کنبہ والے ‘ کسی سے اس کو محبت نہیں ہوتی۔ اگر کسی سے محبت ہوتی ہے تو محض اللہ کیلئے اور نفرت ہوتی ہے تب بھی خوشنودئ مولیٰ کے حصول کیلئے۔ وہ کسی کو کچھ دیتا ہے تو صرف اللہ کیلئے اور نہیں دیتا ہے تب بھی اللہ کی مرضی کیلئے۔ اس گروہ کی آپس میں محبت لوجہ اللہ ہوتی ہے۔ صوفیہ کی اصطلاح میں اس صفت کو فناء قلب کہا جاتا ہے۔ ولی کا ظاہر و باطن تقویٰ سے آراستہ ہوتا ہے۔ جو اعمال و اخلاق اللہ کو ناپسند ہیں ‘ ان سے وہ پرہیز رکھتا ہے۔ شرک خفی و جلی سے پاک رہتا ہے ‘ بلکہ وہ شرک جو چیونٹی کی رفتار کی آواز سے بھی زیادہ خفی ہوتا ہے ‘ اس سے بھی بچتا ہے۔ غرور ‘ کینہ ‘ حسد ‘ حرص اور ہوس سے منزہ ہوتا ہے اور انہی کے ساتھ عمدہ اخلاق و اعمال سے متصف ہوتا ہے۔ اس مرتبہ کو صوفیہ فناء نفس کا مرتبہ کہتے ہیں۔ صوفیہ کا قول ہے کہ اس درجہ پر جب ولی پہنچ جاتا ہے تو اس کا شیطان اس کے سامنے ہتھیار ڈال دیتا ہے اور فرمانبردار بن جاتا ہے۔ ولایت کے ابتدائی درجہ کی طرف اللہ نے

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اولیاء اللہ نہ خوف زدہ ہوں گے نہ غمگین یہ تین آیات ہیں ان میں اولیاء اللہ کی فضیلت اور ولایت کی حقیقت بتائی اور یہ بتایا کہ اولیاء اللہ کے لئے دنیا میں اور آخرت میں بشارت ہے۔ اولیاء ولی کی جمع ہے ‘ ولی دوست اور قریب کو کہتے ہیں۔ اولیاء کون لوگ ہیں اس کے بارے میں فرمایا کہ جو لوگ ایمان لائے اور تقویٰ اختیار کیا یہ لوگ اولیاء اللہ ہیں۔ ایمان کے بغیر تو اللہ کا کوئی دوست ہو ہی نہیں سکتا۔ خواہ کیسی ہی ریاضت کرے اور عبادت کے نام سے کچھ بھی عمل کرے۔ کافر اور مشرک اللہ کا مقرب اور مقبول بندہ اور اللہ کا ولی نہیں ہوسکتا۔ اہل ایمان کے درجات مختلف ہیں۔ ایمان کی صفات کے کم وبیش ہونے اور ایمانی تقاضوں پر عمل کرنے میں اور عبادت ‘ تلاوت ‘ ذکر کی کیفیات اور کمیات کے اختلاف سے فرق مراتب ہوجاتا ہے اور کون شخص کس درجہ کا ولی ہے بندے اس کے ظاہری حالات سے اندازہ لگا سکتے ہیں ‘ چونکہ ہر ایک کے ظاہر و باطن کا صحیح علم اللہ تعالیٰ ہی کو ہے اس لئے فرق مراتب کا صحیح علم بھی اسی کو ہے۔ فرائض اور واجبات کا اہتمام ابتاع سنت کا دھیان۔ نوافل کی کثرت۔ ذکر اللہ کی مشغولیت اور صفت احسان (اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ فَاِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہٗ یَرَاکَ ) کا حصول۔ خشوع خضوع ‘ اخلاص ‘ مکارم اخلاق ‘ محاسن الافعال ان سب چیزوں کے ذریعہ حسب مراتب درجہ بدرجہ اللہ کا قرب حاصل ہوتا ہے اور اسی کا نام ولایت ہے۔ صحیح مسلم (ص ٤٧ ج ١) میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اَلْاِیْمَانُ بِضْعٌ وَّسَبْعُوْنَ شُعْبَۃً وَأَفْضَلُھَا قَوْلُ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَدْنَاھَا اَمَاطَۃُ الْاِذٰی عَنِ الطَّرِیْقِ وَالْحَیَاءُ شُعْبَۃٌ مِّنَ الْاِیْمَان ستر سے کچھ اوپر ایمان کے شعبے میں سے سب سے افضل لا الہ الا اللہ کہہ لینا ہے ( یعنی سچے اعتقاد کے ساتھ کلمہ طیبہ پر ایمان لانا ہے) اور ان میں سب سے کم درجہ کی بات یہ ہے کہ راستے سے تکلیف دینے والی چیز ہٹا دی جائے ‘ اور حیا ایمان کا ایک شعبہ ہے۔ اس میں ایمان کے ستر سے کچھ اوپر شعبے بتائے ہیں جس میں ادنیٰ شعبہ یہ بتایا ہے کہ راستے سے تکلیف دینے والی چیز ہٹا دی جائے ‘ اور خصوصیت کے ساتھ حیاء کو ایمان کے شعبوں میں شمار فرمایا ہے ہر وہ عمل جو ایمان کے تقاضوں کے موافق ہو اور اللہ کی رضا کے لئے ہو وہ سب قرب خداوندی اور رضائے الٰہی کا ذریعہ ہے۔ اولیاء اللہ کی تعریف میں جو اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فرمایا یہ ایمان کے تمام تقاضوں کو شامل ہے فرائض سے لے کر مستحبات تک جو بھی کرنے کے کام ہیں وہ سب اللہ کا قرب حاصل ہونے کا ذریعہ ہیں۔ یہ تو ایمان کے تقاضوں کا ذکر ہوا جن پر عمل کرنا ہے ان کے علاوہ دوسرے تقاضے بھی ہیں جن کا تعلق ان اعمال سے ہے جن کے ارتکاب کرنے سے منع فرمایا ہے۔ اس کو وَکَانُوْا یَتَّقُوْنَ میں بیان فرما دیا۔ حرام سے لے کر مکروہ تنزیہی تک جو اعمال ترک کرنے کے ہیں ان سے بچنا بھی رضائے الٰہی کا ذریعہ ہے۔ اور یہ بھی عبادت ہے۔ ایک حدیث میں ہے۔ (اِتَّقِ الْمَحَارِمَ تَکُنْ اَعْبُدَ النَّاسِ ) کہ تو اللہ کی حرام کی ہوئی چیزوں سے بچ ‘ ایسا کرنے سے تو دوسروں سے بڑھ کر عبادت گزار ہوگا (مشکوٰۃ المصابیح ص ٤٤٠) جو شخص مامورات پر عمل کرتا رہے اور منھیات سے بچتا رہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنتوں کے اتباع کا اہتمام کرتا رہے جسے (قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ ) میں بیان فرمایا ہے ایسے شخص کو اپنے اپنے عمل کے اعتبار سے قرب الٰہی حاصل ہوگا اور اسی درجہ کی ولایت حاصل ہوگی جس درجہ کے اعمال ہوں گے اور جس قدر دنیاوی اشغال و افکار سے ذہن فارغ ہوگا اور اللہ تعالیٰ سے لو لگی ہوگی اسی قدر قرب الٰہی میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ صحیح بخاری میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ان اللّٰہ تعالیٰ قال من عادی لی ولیًّا فقد آذنتہ بالحرب وما تقرب الی عبدی بشیء احب إلی مما افترضتہ علیہ وما یزال عبدی یتقرب الی بالنوافل حتیٰ احببتہ فاذا احْبَبِتہٗ فکنت سمعہ الذی یسمع بہ وبصرہ الذی یبصرہ بہ ویدہ التی یبطش بھا ورجلہ التی یمشی بھا۔ (بےشک اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے جس نے میرے ولی سے عداوت کی میں نے اس سے اعلان جنگ کیا اور میرے بندے کا میرے فرائض کے ذریعے میرا قرب حاصل کرنا مجھے سب سے زیادہ پسند ہے اور میرا بندہ نوافل کے ذریعے میرے قریب ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرتا ہوں جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے ‘ اور اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا سب سے زیادہ قرب فرائض کی ادائیگی کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے اور نوافل کے ذریعہ بھی تقرب بڑھتا رہتا ہے ان امور کو سامنے رکھ کر سمجھ لیا جائے کہ ولایت ‘ فرائض واجبات اور مستحباب اور مندوبات اور ابتاع سنت کے اہتمام اور ترک منہیات کا نام ہے یہ جو لوگوں میں مشہور ہے کہ ولی وہ ہے جس سے کوئی کرامت صادر ہو یا صوفیہ کے کسی سلسلہ میں داخل ہو یا کسی خانقاہ کا گدی نشین ہو یا نسب کے اعتبار سے سید ہو وہ ولی ہے خواہ کیسے ہی اعمال کرتا ہو اور کیسا ہی دنیا دار ہو اور کیسا ہی تارک فرائض اور مرتکب محرمات ہو۔ یہ جہالت کی بات ہے ‘ جو شخص متبع شریعت نہیں وہ اللہ کا دوست نہیں ہے۔ اب تو گدیاں عموماً جلب زرہی کے لئے رہ گئی ہیں۔ جہاں کہیں تھوڑا بہت ذکر و شغل اور ریاضت ہے وہ بھی منکرات کے ساتھ ہے۔ قلب جاری ہے لیکن اکل حلال کا اہتمام نہیں۔ بینک میں کام کرتے ہیں پھر بھی صوفی ہیں داڑھی کٹی ہوئی ہے پھر بھی بزرگ ہیں۔ نماز نہیں پڑھتے اور مریدوں سے کہہ دیتے ہیں کہ میں مکہ مکرمہ میں پڑھتا ہوں بزرگی کے ڈھنگ رہ گئے ہیں اور ایسے لوگوں کو ولی سمجھا جاتا ہے۔ ولایت اتباع شریعت کا نام ہے اور حضرات صوفیاء کرام اسی کے لئے محنت اور ریاضت کراتے تھے کہ شریعت طبیعت ثانیہ بن جائے اور اللہ تعالیٰ کے احکام پر چلنا آسان ہوجائے۔ اب تو گدی نشینوں کے نزدیک ولایت اور بزرگی کا مفہوم ہی پلٹ گیا۔ یہاں تک تو ولایت کی حقیقت بیان کی گئی جس سے یہ معلوم ہوا کہ اولیاء اللہ کون ہیں ‘ اب یہ سمجھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان اولیاء اللہ کے لئے جس انعام کا وعدہ فرمایا وہ (لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ ) ہے۔ سورة بقرہ میں فرمایا ہے۔ (اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ لَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّھِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَاھُمْ یَحْزَنُوْنَ ) (بلاشبہ جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے اور نماز قائم کی اور زکوٰۃ ادا کی ان کے لئے ان کے رب کے پاس ان کا ثواب ہے اور ان پر کوئی خوف نہیں اور وہ رنجیدہ نہ ہوں گے) اس آیت سے معلوم ہوا کہ (لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَاھُمْ یَحْزَنُوْنَ ) کی خوشخبری مؤمنین صالحین کے لئے ہے اور دونوں آیتوں کے ملانے سے ولایت کا مصداق بھی معلوم ہوگیا (جس کی تشریح ہم اوپر کرچکے ہیں) حضرت عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کے بندوں میں بہت سے ایسے بندے ہوں گے جو نہ نبی ہیں نہ شہید ہیں قیامت کے دن انبیاء اور شہداء بھی ان کے اس مرتبہ کی وجہ سے جو اللہ کے نزدیک ہے ان پر رشک کریں گے۔ صحابہ (رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! یہ کون لوگ ہیں۔ آپ نے فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جو آپس میں ایک دوسرے سے قرآن کی وجہ سے محبت کریں گے ان کی آپس کی یہ محبت نہ آپس کی رشتہ داریوں کی وجہ سے ہوگی اور نہ اموال کے لین دین کی وجہ سے (یہ محبت صرف اللہ تعالیٰ سے تعلق کی بنیاد پر ہوگی) اللہ کی قسم ان کے چہرے نور ہوں گے اور وہ نور پر بیٹھے ہوں گے جس دن لوگ خوف زدہ ہوں گے۔ یہ خوف زدہ نہ ہوں گے اور جس دن لوگ رنجیدہ ہوں گے اس دن یہ لوگ رنجیدہ نہ ہوں گے اس کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہی آیت (لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَاھُمْ یَحْزَنُوْنَ ) تلاوت فرمائی۔ (رواہ ابو داؤد کما فی المشکوٰۃ ص ٤٢٦) اس حدیث سے معلوم ہوگیا کہ اولیاء اللہ کے بارے میں جو یہ فرمایا ہے کہ ان پر نہ خوف ہوگا اور نہ وہ غم زدہ ہوں گے اس سے قیامت کے دن بےخوف اور بہ اطمینان ہونا مراد ہے لہٰذا یہ اشکال دور ہوجاتا ہے کہ بعض مرتبہ حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) کو خوف لاحق ہوا اور بعض احوال میں غمگین ہوئے اسی طرح بہت سے اولیاء اللہ پر بعض حالات میں خوف اور حزن یعنی غم طاری ہوا کیونکہ یہ دنیاوی احوال ہیں آخرت میں یہ حضرات خوف وحزن سے محفوظ ہوں گے۔ یہ جو فرمایا کہ حضرات انبیاء اور شہداء بھی ان کا مرتبہ دیکھ کر ان پر رشک کریں گے اس کا مطلب یہ نہیں کہ حضرات انبیاء اور شہداء خوف زدہ اور غمگین ہوں گے بلکہ مطلب یہ ہے حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) اپنی امتوں کے مسائل حل کرنے اور ان کے بارے میں گواہی دینے اور ان کی سفارشیں کرنے میں مشغول ہوں گے اور حضرات شہدا کرام بھی سفارش میں لگے ہوئے ہوں گے دوسرے اولیاء اللہ بےفکر بےغم ہوں گے۔ اور بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ رشک کرنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ حضرات ان لوگوں کی تعریف کریں گے جنہوں نے اللہ کے لئے آپس میں محبت کی۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا کہ ہر مومن کو کچھ نہ کچھ ولایت کا درجہ حاصل ہے اس درجہ کی وجہ سے جنت کا داخلہ مل جائے گا اور جنہوں نے گناہوں کے ذریعے اس ولایت کو مکدر کردیا ان میں سے جو شخص سزا پانے کے لئے دوزخ میں جائے گا وہ بھی سزا پا کر اسی ولایت کی وجہ سے جو اسے حاصل تھی جنت میں داخل کردیا جائے گا۔ اگر اپنی ولایت کی لاج رکھتا اور گناہوں سے بچتا جس سے اونچے درجہ کی ولایت حاصل ہوتی تو دوزخ میں نہ بھیجا جاتا۔ اولیاء اللہ کے لئے مزید انعام کا تذکرہ فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا (لَھُمُ الْبُشْرٰی فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ ) کہ اولیا کے لئے دنیا والی زندگی میں اور آخرت میں بشارت ہے۔ اس بشارت سے کیا مراد ہے اس بارے میں حضرت عبادہ بن صامت (رض) سے مروی ہے کہ انہوں نے یہ آیت پڑھ کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ اس بشارت سے کیا مراد ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم نے مجھ سے ایسی بات کا سوال کیا ہے جو اس سے پہلے مجھ سے کسی نے بھی دریافت نہیں کی پھر فرمایا کہ اس سے اچھی خوابیں مراد ہیں جنہیں آدمی خوددیکھ لے یا اس کے لیے دیکھ لی جائے (مسند احمد ص ٣١٥ ج ٥) مطلب یہ ہے کہ مومن بندے ایسے خواب دیکھ لیتے ہیں جن میں ان کے لئے خیر و خوبی کی اور حسن خاتمہ کی اور اعمال کے مقبول عند اللہ ہونے کی نیز جنت میں داخل ہونے کی خوشخبری ہوتی ہے اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ دوسرے لوگوں کو ایسی خوابیں دکھائی جاتی ہیں جن میں کسی مومن بندے کے لئے بشارت ہوتی ہے۔ اس حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بشارت کا ایک مصداق بیان فرما دیا ہے اور ایک حدیث میں ہے کہ حضرت ابوذر (رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ارشاد فرمائیے ایک شخص کوئی خیر کا کام کرتا ہے اور لوگ اس پر اس کی تعریف کرتے ہیں (اس کی وجہ سے اس کا ثواب ختم تو نہیں ہوجاتا جبکہ اس نے وہ عمل اللہ کے لئے کیا ہے) آپ نے فرمایا کہ یہ تو مومن کے لئے ایک بشارت ہے جو اس دنیا میں اسے مل گئی۔ (رواہ مسلم ص ٣٣٢ ج ٢) اس سے معلوم ہوا کہ کسی صالح بندہ سے لوگوں کا محبت کرنا ان کی تعریف کرنا اور ان کو اچھا سمجھنا اس میں اس بات کی بشارت ہے کہ وہ انشاء اللہ تعالیٰ اللہ کا مقبول بندہ ہے۔ کیونکہ اہل ایمان کا کسی کو اچھا کہنا یہ اس کے اچھا ہونے کی دلیل ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) نے فرمایا کہ دنیا کی بشارت یہ ہے کہ موت کے وقت فرشتے بشارت لے کر آتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کی خوشخبری دی جاتی ہے۔ حضرت براء بن عازب (رض) سے جو ایک طویل حدیث موت اور مابعد الموت کے احوال کے بارے میں مروی ہے اس میں موت کے وقت اللہ کی رضا مندی کی بشارت کا ذکر ہے۔ نیز قبر میں بشارت دئیے جانے کا ذکر بھی ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص ١٤٢) حضرت حسن (رض) نے فرمایا کہ اس سے وہ بشارت مراد ہے جس کا اللہ نے مومنین سے وعدہ فرمایا ہے کہ انہیں جنت کا داخلہ نصیب ہوگا اور ان کے اعمال کا بہت اچھا ثواب ملے گا۔ جیسا کہ سورة بقرہ (ع ٣) میں فرمایا (وَبَشِّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تِحْتِھَا الْاَنْھٰرُ ) اور سورة بقرہ (ع ١٩) (وَبَشِّرِ الصَّابِرِیْنَ ) اور سورة بقرہ (ع ٢٨) میں (وَبَشِّرِالْمُؤْمِنِیْنَ ) فرمایا ہے۔ بشارتیں اس دنیا میں دے دی گئیں ‘ (لَاتَبْدِیْلَ لِکَلِمٰتِ اللّٰہِ ) اللہ کی باتوں یعنی اللہ کے وعدوں میں کوئی تبدیلی نہیں جو وعدے فرمائے ہیں وہ سب پورے ہوں گے جو بشارتیں دی ہیں وہ سچی ہیں ‘ ان کے مطابق انعام دیا جائے گا۔ (ذٰلِکَ ھُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ ) ۔ (یہ بشارت بڑی کامیابی ہے)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

79: یہ بشارت اخروی ہے۔ “ اَوْلِیَاءَ اللّٰه ” یعنی اللہ کے دوستوں کی آخرت میں یہ شان ہوگی کہ میدان حشر میں اہوال قیامت سے جب اور لوگ گھبرا جائیں گے خوف وہراس سے محفوظ رہیں گے اور جب اور لوگ دنیا میں عملی کوتاہی پر حسرت و افسوس کریں گے اس وقت کوئی غم اور افسوس ان کے دامنگیر نہیں ہوگا۔ کیونکہ انہوں نے اپنی زندگی کو عبث اور لا یعنی امور میں صرف نہیں کیا بلکہ ایام زندگی کو اللہ تعالیٰ کی عبادت وطاعت اور اس کی رضا جوئی میں صرف کیا۔ “ لاخوف علیھم فی الاخرة من عقاب اللہ لان اللہ تعالیٰ رضی عنھم فامنھم من عقابه ولا ھم یحزنون علی ما فاتھم من الدنیا ” (ابن جریر ج 11 ص 131) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

62 یاد رکھو کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے دوست ہیں ان پر نہ کسی قسم کا خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے یعنی نہ کسی حادثہ کا خوف و اندیشہ اور نہ کسی مقصد کے فوت ہوجانے کا غم