Surat Younus

Surah: 10

Verse: 66

سورة يونس

اَلَاۤ اِنَّ لِلّٰہِ مَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنۡ فِی الۡاَرۡضِ ؕ وَ مَا یَتَّبِعُ الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ شُرَکَآءَ ؕ اِنۡ یَّـتَّبِعُوۡنَ اِلَّا الظَّنَّ وَ اِنۡ ہُمۡ اِلَّا یَخۡرُصُوۡنَ ﴿۶۶﴾

Unquestionably, to Allah belongs whoever is in the heavens and whoever is on the earth. And those who invoke other than Allah do not [actually] follow [His] "partners." They follow not except assumption, and they are not but falsifying

یاد رکھو جتنے کچھ آسمانوں میں ہیں اور جتنے زمین میں ہیں یہ سب اللہ ہی کے ہیں اور جو لوگ اللہ کو چھوڑ کر دوسرے شرکاء کی عبادت کر رہے ہیں کس چیز کی اتباع کر رہے ہیں محض بے سندخیال کی اتباع کررہے ہیں اور محض اٹکلیں لگا رہے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

أَلا إِنَّ لِلّهِ مَن فِي السَّمَاوَات وَمَن فِي الاَرْضِ وَمَا يَتَّبِعُ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللّهِ شُرَكَاء إِن يَتَّبِعُونَ إِلاَّ الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلاَّ يَخْرُصُونَ Behold! Verily, to Allah belongs whosoever is in the heavens and whosoever is in the earth. And those who worship and invoke others besides Allah, in fact they follow not the partners, they follow only a conjecture and they do nothing but lie. Allah stated that to Him is the dominion of the heavens and earth. But the idolators worship idols, that own nothing and can neither harm nor benefit anyone. They have no evidence to base their worship on them. They only follow their own conjecture, lies, and ultimately - falsehood.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

66۔ 1 یعنی اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا، کسی دلیل کی بنیاد پر نہیں، بلکہ محض ظن او تخمین اور رائے و قیاس کی کرشمہ سازی ہے۔ آج اگر انسان اپنے قوائے عقل و فہم کو صحیح طریقے سے استعمال میں لائے تو یقینا اس پر واضح ہوسکتا ہے کہ اللہ کا کوئی شریک نہیں ہے جس طرح وہ آسمان اور زمین کی تخلیق میں واحد ہے، کوئی اس کا شریک نہیں ہے تو پھر عبادت میں دوسرے کیوں کر اس کے شریک ہوسکتے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَلَآ اِنَّ لِلّٰهِ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِي الْاَرْضِ ۭ : ” اَلا “ سے خبردار کیا کہ بات پر غور کرو۔ ” مَن “ کا لفظ عام طور پر ذوی العقول یعنی انسان، جن اور فرشتوں پر بولا جاتا ہے۔ اس جملے سے دو باتیں نہایت واضح ہیں، ایک تو یہ کہ جب آسمان و زمین کا ہر شخص انسان ہو یا جن یا فرشتہ، وہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے، تو یہ کفار و مشرکین بھی، جو آپ کی مخالفت کر رہے ہیں، اسی کی ملکیت ہوئے، وہی ان کے معاملات جس طرح چاہتا ہے چلاتا ہے، لہٰذا آپ کو ان کی ایذا رسانی اور طعن و تشنیع سے رنجیدہ ہونے کی ضرورت نہیں، کیونکہ وہ آپ کو کوئی ایسی تکلیف نہیں پہنچا سکتے جس کی اللہ تعالیٰ نے اجازت نہ دی ہو اور اس میں اللہ تعالیٰ کی کوئی حکمت نہ ہو۔ دوسری یہ کہ جب یہ تینوں افضل مخلوقات اللہ تعالیٰ ہی کی ملکیت ہیں تو باقی چیزیں، پتھر، بت، دریا، درخت، جانور اور قبریں تو بدرجۂ اولیٰ اس کی ملکیت ہیں۔ تو کتنی بےعقلی کی بات ہے کہ مالک کو چھوڑ کر مملوک کی پرستش کی جائے، اس لیے اس کے ساتھ ہی شرک کی تردید فرمائی۔ (شوکانی، ابن کثیر) وَمَا يَتَّبِعُ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ شُرَكَاۗءَ : یعنی حقیقت میں تو کوئی بھی اللہ کا شریک نہیں کہ یہ کہا جائے کہ فلاں اللہ کا شریک ہے۔ مملوک مالک کا شریک کیسے ہوسکتا ہے ؟ رہا یہ سوال کہ پھر اتنے بیشمار لوگوں نے جو شریک بنا رکھے ہیں یہ کیسے بن گئے ؟ فرمایا، اللہ کے سوا جس کسی کی بھی کوئی پوجا کرتا ہے، اسے مشکل کشا یا حاجت روا سمجھتا یا اسے پکارتا ہے، ان میں سے کسی شریک کا بھی حقیقت میں کوئی وجود نہیں، وہ محض ان مشرکوں کے وہم اور خیال کے تراشے ہوئے خاکے ہیں اور حقیقت میں تمام مشرک خواہ بت پرست ہوں، قبر پرست یا کسی بھی چیز کو پوجنے والے، وہ محض اپنے خیال ہی کے پیچھے لگے ہوئے ہیں اور اسی کی پوجا کر رہے ہیں۔ البتہ اپنے وہم و گمان کے تراشے ہوئے خاکے کا انھوں نے کوئی نہ کوئی نام رکھ چھوڑا ہے، کوئی لات، کوئی عزیٰ ، کوئی غوث، کوئی مشکل کشا، کوئی دستگیر، کوئی داتا۔ دیکھیے سورة نجم (٢٣ تا ٢٨) ۔ ” وَمَا يَتَّبِعُ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ “ میں بعض علماء نے ” ما “ کو استفہامیہ بنایا ہے، گویا معنی یہ ہوگا کہ جو لوگ اللہ کے سوا شرکاء کو پکارتے ہیں، آخر وہ کیا چیز ہے جسے وہ پکار رہے ہیں ؟ کیونکہ کسی شریک کا تو وجود ہی نہیں، پھر خود ہی اس سوال کا جواب دیا کہ وہ محض اپنے وہم و گمان کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ ۔۔ : یہ لوگ عقل سے کام نہیں لیتے اور نہ دلیل کو دیکھتے ہیں، اگر عقل سے کام لیتے اور دلیل پر غور کرتے تو انھیں صاف معلوم ہوجاتا کہ اللہ تعالیٰ ہی حق اور اکیلا معبود ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ہوسکتا۔ ان کے پاس وہم و گمان اور اٹکل پچو کے سوا کچھ بھی نہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلَآ اِنَّ لِلہِ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِي الْاَرْضِ۝ ٠ ۭ وَمَا يَتَّبِـــعُ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ شُرَكَاۗءَ۝ ٠ ۭ اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَاِنْ ھُمْ اِلَّا يَخْرُصُوْنَ۝ ٦٦ سما سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] ، ( س م و ) سماء ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ أرض الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . ( ا رض ) الارض ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ تبع يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلک قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے شرك ( شريك) الشِّرْكَةُ والْمُشَارَكَةُ : خلط الملکين، وقیل : هو أن يوجد شيء لاثنین فصاعدا، عينا کان ذلک الشیء، أو معنی، كَمُشَارَكَةِ الإنسان والفرس في الحیوانيّة، ومُشَارَكَةِ فرس وفرس في الکمتة، والدّهمة، يقال : شَرَكْتُهُ ، وشَارَكْتُهُ ، وتَشَارَكُوا، واشْتَرَكُوا، وأَشْرَكْتُهُ في كذا . قال تعالی: وَأَشْرِكْهُ فِي أَمْرِي[ طه/ 32] ، وفي الحدیث : «اللهمّ أَشْرِكْنَا في دعاء الصّالحین» «1» . وروي أنّ اللہ تعالیٰ قال لنبيّه عليه السلام : «إنّي شرّفتک وفضّلتک علی جمیع خلقي وأَشْرَكْتُكَ في أمري» «2» أي : جعلتک بحیث تذکر معي، وأمرت بطاعتک مع طاعتي في نحو : أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ محمد/ 33] ، وقال تعالی: أَنَّكُمْ فِي الْعَذابِ مُشْتَرِكُونَ [ الزخرف/ 39] . وجمع الشَّرِيكِ شُرَكاءُ. قال تعالی: وَلَمْ يَكُنْ لَهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ [ الإسراء/ 111] ، وقال : شُرَكاءُ مُتَشاكِسُونَ [ الزمر/ 29] ، أَمْ لَهُمْ شُرَكاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ [ الشوری/ 21] ، وَيَقُولُ أَيْنَ شُرَكائِيَ [ النحل/ 27] . ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ کے معنی دو ملکیتوں کو باہم ملا دینے کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ ایک چیز میں دو یا دو سے زیادہ آدمیوں کے شریک ہونے کے ہیں ۔ خواہ وہ چیز مادی ہو یا معنوی مثلا انسان اور فرس کا حیوانیت میں شریک ہونا ۔ یا دوگھوڑوں کا سرخ یا سیاہ رنگ کا ہونا اور شرکتہ وشارکتہ وتشارکوا اور اشترکوا کے معنی باہم شریک ہونے کے ہیں اور اشرکتہ فی کذا کے معنی شریک بنا لینا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَأَشْرِكْهُ فِي أَمْرِي[ طه/ 32] اور اسے میرے کام میں شریک کر ۔ اور حدیث میں ہے (191) اللھم اشرکنا فی دعاء الصلحین اے اللہ ہمیں نیک لوگوں کی دعا میں شریک کر ۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پیغمبر (علیہ السلام) کو فرمایا ۔ (192) انی شرفتک وفضلتک علی ٰجمیع خلقی واشرکتک فی امری ۔ کہ میں نے تمہیں تمام مخلوق پر شرف بخشا اور مجھے اپنے کام میں شریک کرلیا ۔ یعنی میرے ذکر کے ساتھ تمہارا ذکر ہوتا رہے گا اور میں نے اپنی طاعت کے ساتھ تمہاری طاعت کا بھی حکم دیا ہے جیسے فرمایا ۔ أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ محمد/ 33] اور خدا کی فرمانبرداری اور رسول خدا کی اطاعت کرتے رہو ۔ قران میں ہے : ۔ أَنَّكُمْ فِي الْعَذابِ مُشْتَرِكُونَ [ الزخرف/ 39]( اس دن ) عذاب میں شریک ہوں گے ۔ شریک ۔ ساجھی ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ [ الإسراء/ 111] اور نہ اس کی بادشاہی میں کوئی شریک ہے ۔ اس کی جمع شرگاء ہے جیسے فرمایا : ۔ : شُرَكاءُ مُتَشاكِسُونَ [ الزمر/ 29] جس میں کئی آدمی شریک ہیں ( مختلف المزاج اور بدخو ۔ أَمْ لَهُمْ شُرَكاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ [ الشوری/ 21] کیا ان کے وہ شریک ہیں جنہوں نے ان کے لئے ایسا دین مقرد کیا ہے ۔ أَيْنَ شُرَكائِيَ [ النحل/ 27] میرے شریک کہاں ہیں ۔ ظن والظَّنُّ في كثير من الأمور مذموم، ولذلک قال تعالی: وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس/ 36] ، وَإِنَّ الظَّنَ [ النجم/ 28] ، وَأَنَّهُمْ ظَنُّوا كَما ظَنَنْتُمْ [ الجن/ 7] ، ( ظ ن ن ) الظن اور ظن چونکہ عام طور پر برا ہوتا ہے اس لئے اس کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا : وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس/ 36] اور ان میں کے اکثر صرف ظن کی پیروی کرتے ہیں ۔ خرص الخَرْص : حرز الثّمرة، والخَرْص : المحروز، کالنّقض للمنقوض، وقیل : الخَرْص الکذب في قوله تعالی: إِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ [ الزخرف/ 20] ، قيل : معناه يکذبون . وقوله تعالی: قُتِلَ الْخَرَّاصُونَ [ الذاریات/ 10] ، قيل : لعن الکذّابون، وحقیقة ذلك : أنّ كلّ قول مقول عن ظنّ وتخمین يقال : خَرْصٌ ، سواء کان مطابقا للشیء أو مخالفا له، من حيث إنّ صاحبه لم يقله عن علم ولا غلبة ظنّ ولا سماع، بل اعتمد فيه علی الظّنّ والتّخمین، کفعل الخارص في خرصه، وكلّ من قال قولا علی هذا النحو قد يسمّى کاذبا۔ وإن کان قوله مطابقا للمقول المخبر عنه۔ كما حكي عن المنافقین في قوله عزّ وجلّ : إِذا جاءَكَ الْمُنافِقُونَ قالُوا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ ، وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُهُ ، وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنافِقِينَ لَكاذِبُونَ [ المنافقون/ 1] . ( خ ر ص ) الخرض پھلوں کا اندازہ کرنا اور اندازہ کئے ہوئے پھلوں کو خرص کہا جاتا ہے یہ بمعنی مخروص ہے ۔ جیسے نقض بمعنی منقوض بعض نے کہا ہے کہ خرص بمعنی کذب آجاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ ؛۔ یہ تو صرف اٹکلیں دوڑار ہے ہیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یعنی وہ جھوٹ بولتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ :۔ قُتِلَ الْخَرَّاصُونَ [ الذاریات/ 10] اٹکل کرنے والے ہلاک ہوں ۔ کے معنی بقول بعض یہ ہیں کہ جھولوں پر خدا کی لعنت ہو ، اصل میں ہر وہ بات جو ظن وتخمین سے کہی جائے اسے خرص کہا جاتا ہے ۔ عام اس سے کہ وہ انداز غلط ہو یا صحیح ۔ کیونکہ تخمینہ کرنے والا نہ تو علم یا غلبہ ظن سے بات کرتا ہے اور نہ سماع کی بنا پر کہتا ہے ۔ بلکہ اس کا اعتماد محض گمان پر ہوتا ہے ۔ جیسا کہ تخمینہ کرنیوالا پھلوں کا تخمینہ کرتا ہے اور اس قسم کی بات کہنے والے کو بھی جھوٹا کہا جاتا ہے ۔ خواہ وہ واقع کے مطابق ہی کیوں نہ بات کرے جیسا کہ منافقین کے بارے میں فرمایا :۔ إِذا جاءَكَ الْمُنافِقُونَ قالُوا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ ، وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُهُ ، وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنافِقِينَ لَكاذِبُونَ [ المنافقون/ 1]( اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب منافق لوگ تمہارے پاس آتے ہیں تو ( ازراہ انفاق ) کہتے ہیں کہ ہم اقرار کرتے ہیں کہ آپ بیشک خدا کے پیغمبر ہیں ۔ اور خدا جانتا ہے کہ درحقیقت تم اس کے پیغمبر ہو لیکن خدا ظاہر کئے دیتا ہے کہ منافق ( دل سے نہ اعتقاد رکھنے کے لحاظ سے ) جھوٹے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٦) یاد رکھو کہ تمام مخلوقات اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے جس طرح وہ چاہے اس کو ان پر تسلط کا حق حاصل ہے اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر دوسرے معبودان باطل بتوں وغیرہ کی پوجا کر رہے ہیں یہ محض بےبنیاد خیال کا بغیر یقین کے اتباع کر رہے ہیں اور یہ راہنما صرف عوام کو دھوکا دینے کے لیے فرضی باتیں اور جھوٹ بول رہے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(10:66) وما یتبع الذین من دون اللہ شرکائ۔ میں ما۔ (1) نافیہ ہے شرکاء مفعول ہے یدعون کا۔ اور یتبع کا مفعول محذوف ہے۔ اس طرح اس کا ترجمہ ہوگا :۔ وہ لوگ جو اللہ کے سوا دوسروں کو اس کے شریک کے طور پر پکارتے ہیں دراصل کسی حقیقت کا اتباع نہیں کررہے۔ (2) دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ ما استفہامیہ ہے۔ اور ترجمہ یوں ہوگا :۔ جو لوگ اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو اللہ کا شریک سمجھ کر پکار رہے ہیں (آخر) وہ کس چیز کا اتباع کر رہے ہیں۔ ان یتبعون۔ میں ان نافیہ ہے اسی طرح ان ہم میں بھی ان نافیہ ہے۔ یخرصون۔ مضارع جمع مذکر غائب۔ خرص یخرص (باب نصر) وہ اٹکل دوڑا رہے ہیں۔ وہ قیاسی باتیں کہہ رہے ہیں۔ اصل میں ہر وہ بات جو ظن وتخمین سے کہی جائے اسے خرص کہا جاتا ہے عام اس سے کہ وہ اندازہ غلط ہو یا صحیح۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 12 ۔ تو یہ کفار و مشرکین بھی جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کر رہے ہیں اسی کی ملکیت ہوئے وہی ان کے معاملے میں جس طرح چاہتا ہے تصرف فرماتا ہے۔ لہٰذا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کی ایذارسانی اور طعن وتشنیع سے رنجیدہ ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ اپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کوئی ایسی تکلیف نہیں پہنچا سکتے جس کی اللہ نے اجازت نہ دی ہو۔ اس آیت میں ان لوگوں کی بھی سخت تردید ہے جو مالک کو چھوڑ کر اس کی مملوکات۔ ملائکہ، انسان، جمادات و نباتات، بتوں، قبروں، اور بزرگوں۔ کی پرستش کرتے ہیں۔ اسی لئے کے بعد شرک کی تردید فرمائی ہے۔ (شوکانی۔ ابن کثیر) ۔ 1 ۔ یعنی حقیقت میں تو کوئی بھی اللہ کا شریک نہیں ہے انہوں نے اپنے خیال و وہم میں ان کو شریک سمجھ کر ان کی پیروی اختیار کر رکھی ہے۔ (کبیر) پس نفی حقیقت اور نفس الامر کے اعتبار سے ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ” ما “ استفہامیہ برائے انکار ہو۔ (روح المعانی) ۔ 2 ۔ علق سے کام نہیں لیتے اور نہ دلیل کو دیکھتے ہیں۔ اگر عقل سے کام لیتے اور دلیل پر غور کرتے تو انہیں صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی حق اور اکیلا معبود ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہوسکتا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 66 تا 70 یتبع (وہ اتباع کرتا ہے، وہ پیچھے چلتا ہے) یخرصون (وہ گمان کرتے ہیں، وہ اٹلک کے تیر چلاتے ہیں) لتسکنوا (تاکہ تم سکون حاصل کرو) مبصر (دیکھنے بھالنے کے لئے الغنی (بےنیاز جو کسی چیز کا محتاج نہ ہو) سلطن (دلیل) لایفلحون (وہ کامیاب نہیں ہوں گے) متاع (زندگی گذارنے کا سامان، مزے) نذیق (ہم چکھائیں گے) تشریح : آیت نمبر 66 تا 70 آسمانوں سے لے کر زمین تک اس پوری کائنات کی ایک ایک چیز زبان حال سے پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ ایک اللہ کی ذات ہے جس نے ہم سب کو پیدا کیا ہے وہی ہم سب کا مالک ہے اور جس نظام زندگی میں ہم لگے بندھے ہیں وہ اسی کے حکم سے ہے۔ لیکن پتھروں کے یہ بےجان بت اور وہ لوگ جو دھوکے اور فریب کے طریقوں سے لوگوں کے معبود بنے ہوئے ہیں نہ خود اپنی ذات پر اختیار رکھتے ہیں اور نہ وہ کسی کے نفع و نقصان کے مالک ہیں۔ اگر کچھ لوگ ان کو قابل پرستش سمجھتے یا مانیت ہیں تو وہ محض اپنے نفس اور خیال کے پجاری ہیں جن کی نہ کوئی اصل ہے اور نہ بنیاد۔ انہوں نے اپنے نفس اور وقتی فائدوں کی خاطر مصنوعی معبود بنا رکھے ہیں جن کی حیثیت و ہم و گمان سے آگے کچھ بھی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مشرکین اور کفار اس بات پر اگر ذرا بھی غور کرلیں تو یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہے کہ اللہ ہی ہے جس نے دن اور رات کو پیدا کیا چاند سورج اور ستارے ایک لگے بندھے نظام میں چل رہے ہیں۔ رات کو آرام کرنے کے لئے اور دن کو روزی پیدا کرنے کیلئے بنایا ہے۔ لوگوں کی بنئای ہوئی گھڑیاں خود سے ترتیب دیئے ہوئے نقشے آگے اور پیچھے ہو سکتے ہیں لیکن اللہ نے جس نظام کو بنایا ہے اس میں کبھی تبدیلی نہیں آتی اور نہ کوئی فرق پیدا ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ کونسی ذات ہے جو اس پورے نظام کو چلا رہی ہے۔ ذرا غور کیا جائے تو ساری حقیقت سامنے آسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں ایک طرف تو کفار و مشرکین سے یہ فرمایا ہے کہ وہ کائنات کی جن چیزوں کو معبود بنائے ہوئے ہیں وہ ایک اللہ کی پیدا کی ہوئی مخلوقات ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے دوسری طرف نصاریٰ کو تنبیہ فرمائی ہے کہ انہوں نے ایک اللہ کو چھوڑ کر تین تین معبود بنا رکھے ہیں اور اللہ کے ایک بندے حضرت عیسیٰ کو اللہ کا بیٹا بنا رکھا ہے وہ بھی بہت بڑی غلطی پر ہیں اگر وہ بھی ذرا غور کریں تو ان کو یہ حقیقت معلوم ہوجائے گی کہ اس پوری کائنات کو چلانے والی صرف ایک ہی ذات ہے جو کسی اولاد، بیٹے، بیوی اور وارث کی محتاج نہیں ہے۔ لفظ ” سبحان “ میں اس نے تین باتیں ارشاد فرمائی ہیں : (1) وہ اپنی ذات میں تنا ہے اس کا کوئی ہم جنس نہیں (2) اللہ ہر تہمت سے پاک ذات ہے۔ (3) وہ لافانی ذات ہے اس کو کسی کی حاجت اور ضرورت نہیں ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مخالفوں کو خبر دار کرتے ہوئے ان کے عقیدہ کی قلعی کھولی جارہی ہے۔ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دشمنوں اور دین کے منکروں کو خبر دار کیا جارہا ہے کہ ہوش کے ناخن لو اور یہ غلط فہمی دماغ سے نکال دو کہ تم اللہ تعالیٰ کی گرفت اور دسترس سے باہر ہو۔ ایسا ہرگز نہیں۔ کیونکہ زمین و آسمانوں میں کوئی چیز نہیں جو اللہ تعالیٰ کی ملک نہ ہو اور اس کے اختیار سے باہر ہو۔ کان کھول کر سن لو کہ یہ سب کچھ اسی کا ہے اگر تمہیں قابو نہیں کیا جارہا تو اس میں اس کا یہ اصول کار فرما ہے کہ وہ ہر شخص کو ایک حد تک مہلت دیتا ہے۔ رہی یہ بات کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو پکارتے اور انہیں اللہ تعالیٰ کا شریک کار سمجھتے ہیں۔ ان کا یہ عقیدہ کسی آسمانی کتاب اور عقل سلیم کی بنیاد پر نہیں بلکہ صرف من گھڑت اور محض گمان کی بنیاد پر ہے۔ عربی زبان میں ظن کا یہ معنی بھی ہے کہ ایسی سوچ اور بات جس کی کوئی ٹھوس بنیاد نہ ہو۔ شرک کی ٹھوس بنیاد نہیں ہوتی جس بنا پر ہر دور کا مشرک اپنے ہاتھوں سے تراشے ہوئے بتوں، مورتیوں کو خدا کے ہاں سفارشی اور خدا کی خدائی میں شریک سمجھتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ آسمانی کتابوں پر ایمان لانے اور انبیاء کو تسلیم کرنے والے اور سرور دو عالم کا کلمہ پڑھنے والے حضرات مدفون بزرگوں کو اللہ کی حاکمیت میں شریک اور انہیں اللہ کے حضور اپنا سفارشی بناتے ہیں، اس خود ساختہ عقیدہ کو یہ کہہ کر سچ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں کہ من دون اللہ سے مراد پتھر کے بت اور مٹی سے بنائی ہوئی مورتیاں ہیں، حالانکہ من

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

الا ان اللہ من فی السموت ومن فی الارض خوب سن لو کہ آسمانوں اور زمین میں جو لوگ (ملائکہ ‘ جن ‘ انس) ہیں ‘ وہ اللہ کے (پیدا کئے ہوئے اور مملوک و مقبوض اور بندے) ہیں اور جب وہ ہستیاں جو تمام مخلوق میں اعلیٰ ہیں ‘ اللہ کی محکوم و پرستار ہیں ‘ ان میں کوئی بھی رب ہونے کے قابل نہیں۔ تو جو مخلوق نادان ‘ بےجان ‘ بےعقل ہے وہ اللہ کی شریک اور مثل کیسے ہو سکتی ہے ‘ اسلئے وما یتبع الذین یدعون من دون اللہ شرکاء جو لوگ اللہ کے سوا دوسروں کو پکارتے ہیں ‘ وہ ایسی مخلوق کا اتباع نہیں کرتے جو اللہ کی شریک ہو۔ ان یتبعون الا الظن صرف اپنے گمان کی پیروی کرتے ہیں۔ اپنے خیال میں جن کو شریک عبادت قرار دے رکھا ہے ‘ بس ان کی عبادت کرتے ہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ما یتبع میں ما استفہامیہ انکار یہ ہو یا موصولہ ہو اور اس کا عطف مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ پر ہو۔ وان ھم الا یخرصون۔ اور محض قیاسی باتیں کر رہے ہیں۔ یعنی ان معبودوں کو اللہ کا شریک قرار دینے میں جھوٹ بولتے ہیں یا یہ ان کی محض من گھڑت ہے۔ غلط طور پر یہ اپنے معبودوں کو شریک الوہیت قرار دے رہے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مشرکین صرف گمان کے پیچھے چلتے ہیں انہوں نے اللہ کیلئے اولاد تجویز کر کے اللہ پر بہتان باندھا ہے ان آیات میں اول تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی ہے اور فرمایا ہے کہ آپ ان کی باتیں سن کر غمگین اور دلگیر نہ ہوں ساری عزت اور ہر طرح کا غلبہ اللہ ہی کے لئے ہے۔ وہ غالب ہے آپ کو غلبہ عطا فرمائے گا۔ جیسا کہ (لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ ) (مجادلہ ع ٣) میں بیان فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ سننے والا ہے جاننے والا ہے۔ وہ ان کے اقوال اور اعمال کی سزا دے گا وہ سب اللہ ہی کی ملکیت ہیں) اس کے قبضہ قدرت سے کوئی چیز باہر نہیں ہے۔ (وَمَا یَتَّبِعُ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ شُرَکَآءَ ) (اور جو لوگ اللہ کو چھوڑ کر دوسرے شرکاء کی عبادت کرتے ہیں وہ کس چیز کا اتباع کر رہے ہیں) (اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَاِنْ ھُمْ اِلَّا یَخْرُصُوْنَ ) جو لوگ صرف گمان کے پیچھے چلتے ہیں۔ اور محض اٹکل پچوباتیں کرتے ہیں۔ ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے گمان ہی گمان ہے۔ حالانکہ معبود بنانا کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کی بنیاد گمان اور اٹکل پر رکھ لی جائے۔ اس کیلئے واضح دلیل کی ضرورت ہے۔ اور دلیل وہی ہے جو خالق مالک جل مجدہ کی طرف سے ملے۔ اول تو اس نے عقل سلیم عطا فرمائی غورو فکر کی صلاحیت دی۔ یہ ایک بہت بڑی دلیل ہے اگر کوئی شخص اس سے کام لے تو وہ سمجھ سکتا ہے اور یقین کے ساتھ جان سکتا ہے کہ پیدا کرنے والے کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہوسکتا۔ پھر اس نے انبیاء کرام کو مبعوث فرمایا انہوں نے صرف خالق جل مجدہ کی عبادت کرنے کو راہ مستقیم بتایا اور اسی کی دعوت دی اور بتایا کہ یہ خالق کائنات ہے صرف وہی معبود وحدہ لاشریک ہے۔ مشرکین نہ دلیل عقلی سے کام لیتے ہیں نہ حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) کے بتانے سے شرک چھوڑتے ہیں۔ صرف گمان کا ابتاع کرتے ہیں اور اٹکل کے پیچھے چلتے ہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

84: یہ توحید پر نویں عقلی دلیل ہے جس سے شرک فی التصرف کی نفی مقصود ہے دلیل ششم میں فرمایا تھا ہر چیز کا مالک اللہ تعالیٰ ہے لہذا تم اپنی طرف سے تحریم و تحلیل نہ کرو یہاں فرمایا زمین و آسمان کی تمام ذوی العقول مخلوق جن و بشر اور فرشتے سب اللہ تعالیٰ کے مملوک و محکوم اور اس کے عاجز بندے ہیں اور ان میں سے کوئی بھی ہر بات کو سننے اور جاننے والا نہیں اس لیے ان میں سے کوئی بھی دعاء اور پکار کے لائق نہیں۔ جو لوگ اللہ کے نیک بندوں کو حاجات و مشکلات میں پکارتے ہیں ان کے بارے میں ان کا اعتقاد یہ ہوتا ہے کہ وہ عالم الغیب ہیں اور ان کی تمام باتوں کو سنتے اور جانتے ہیں اس لیے پہلے اعلان کردیا گیا کہ ہر بات کو سننے والا اور ہر چیز کو جاننے والا صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے اور کوئی نہیں۔ 85: یہ زجر ہے “ اَلَّذِیْنَ ” مع صلہ “ یَتَّبِعُ ” کا فاعل ہے اور “ یَدْعُوْنَ ” کا مفعول محذوف ہے “ اي شرکاء ” اور شرکاء جو مذکور ہے وہ “ یَتَّبِعُ ” کا مفعول ہے یعنی جو لوگ اللہ سے ورے اور شرکاء کو پکارتے ہیں حقیقت میں وہ اللہ کے شرکاء کو نہیں پکارتے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے شریک فی الربوبیت کا تو وجود ہی محال ہے۔ “ وَ مَا یَتَّبِعُوْنَ حقیقة الشرکاء وان کانوا یسمونھا شرکاء لان شکرة اللہ فی الربوبیة محال ” (مدارک ج 2 ص 130) ۔ 86: اصل بات یہ ہے کہ مشرکین اپنے ظن وتخمین سے بندگان خدا کو خدا کے شریک سمجھتے ہیں اور پھر اپنے ظن فاسد اور خیال باطل کی پیروی کرتے ہوئے حاجات میں ان کو پکارتے ہیں حالانکہ فی الواقع اللہ تعالیٰ کا شریک نہ موجود ہے نہ اس کا وجود ممکن ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

66 یاد رکھو جو کوئی آسمانوں میں ہے اور جو کوئی زمین میں ہے وہ سب اللہ کی مملوک ہے اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر دوسرے خود ساختہ اور خانہ ساز شراء کی بندگی کر رہے ہیں آخر یہ کس کی اتباع اور پیروی کر رہے ہیں کچھ نہیں ان کے پاس کوئی دلیل نہیں یہ لوگ محض چند بےبنیاد خیالات کی پیروی اور اتباع کر رہے ہیں اور یہ محض قیاسی اور اٹکل کی باتیں کیا کرتے ہیں یعنی جنات انسان اور فرشتے سب اس کی مملوک ہیں ہوسکتا ہے کہ من بمعنی ما ہو اور تمام مخلوق مراد ہو اور جب سب چیز اللہ کی مملوک ہے پھر مالک کی موجودگی میں مملوک کی بندگی پر کیا دلیل ہوسکتی ہے محض بےاصل اور بےسند باتوں کے اور قیاسی باتوں کی پیروی کے اور ان کے پاس کیا رکھا ہے۔