Surat Younus

Surah: 10

Verse: 74

سورة يونس

ثُمَّ بَعَثۡنَا مِنۡۢ بَعۡدِہٖ رُسُلًا اِلٰی قَوۡمِہِمۡ فَجَآءُوۡہُمۡ بِالۡبَیِّنٰتِ فَمَا کَانُوۡا لِیُؤۡمِنُوۡا بِمَا کَذَّبُوۡا بِہٖ مِنۡ قَبۡلُ ؕ کَذٰلِکَ نَطۡبَعُ عَلٰی قُلُوۡبِ الۡمُعۡتَدِیۡنَ ﴿۷۴﴾

Then We sent after him messengers to their peoples, and they came to them with clear proofs. But they were not to believe in that which they had denied before. Thus We seal over the hearts of the transgressors

پھر نوح ( علیہ السلام ) کے بعد ہم نے اور رسولوں کو ان کی قوموں کی طرف بھیجا سو وہ ان کے پاس روشن دلیلیں لے کر آئے پس جس چیز کو انہوں نے اول میں جھوٹا کہہ دیا یہ نہ ہوا کہ پھر اس کو مان لیتے اللہ تعالٰی اسی طرح حد سے بڑھنے والوں کے دلوں پر بند لگا دیتا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Meaning; Then after Nuh We sent Messengers to their people. Allah said: ثُمَّ بَعَثْنَا مِن بَعْدِهِ رُسُلً إِلَى قَوْمِهِمْ فَجَأوُوهُم بِالْبَيِّنَاتِ ... Then after him We sent Messengers to their people. They brought them clear proofs, Allah tells that they brought them clear proofs and evidences of the truth that they came with. ... فَمَا كَانُواْ لِيُوْمِنُواْ بِمَا كَذَّبُواْ بِهِ مِن قَبْلُ ... But they would not believe what they had already rejected beforehand, meaning the nations did not believe what their Messengers brought to them because they already rejected it from the beginning. Allah said: وَنُقَلِّبُ أَفْيِدَتَهُمْ وَأَبْصَـرَهُمْ And We shall turn their hearts and their eyes away (from guidance). (6:110) He then said here, ... كَذَلِكَ نَطْبَعُ عَلَى قُلوبِ الْمُعْتَدِينَ Thus We seal the hearts of the transgressors. This means that as Allah has set seals on the hearts of those people, such that they would not believe since they previously rejected faith, He would also set seals on the hearts of the people that are like them, who will come after them. They would not believe until they see the severe torment. This means that Allah destroyed the nations after Nuh. He destroyed the nations that rejected the Messengers and saved those who believed from among them. From the time of Adam to Nuh, people followed Islam. Then they invented the worship of idols. So Allah sent Nuh to them. That is why the believers will say to him on the Day of Resurrection, "You are the first Messenger Allah sent to the people of the earth." Ibn Abbas said: "There were ten generations between Adam and Nuh, and all of them were following Islam." Allah also said: وَكَمْ أَهْلَكْنَا مِنَ الْقُرُونِ مِن بَعْدِ نُوحٍ And how many generations have We destroyed after Nuh! (17:17) This was a serious warning to the Arab pagans, who rejected the leader and last of the Messengers and Prophets. If the people before them who rejected their Messengers had received this much punishment, then what did they think will happen to them since they perpetrated even greater sins than others before them!

سلسلہ رسالت کا تذکرہ حضرت نوح علیہ السلام کے بعد بھی رسولوں کا سلسلہ جاری رہا ہر رسول اپنی قوم کی طرف اللہ کا پیغام اور اپنی سچائی کی دلیلیں لے کر آتا رہا ۔ لیکن عموما ان سب کے ساتھ بھی لوگوں کی وہی پرانی روش رہی ۔ یعنی ان کی سچائی تسلیم کو نہ کیا جیسے ( وَنُقَلِّبُ اَفْــــِٕدَتَهُمْ وَاَبْصَارَهُمْ كَمَا لَمْ يُؤْمِنُوْا بِهٖٓ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّنَذَرُهُمْ فِيْ طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُوْنَ ١١٠ ؀ۧ ) 6- الانعام:110 ) میں ہے ۔ پس ان کے حد سے بڑھ جانے کی وجہ سے جس طرح ان کے دلوں پر مہر لگ گئی ۔ اسی طرح ان جیسے تمام لوگوں کے دل مہر زدہ ہو جاتے ہیں اور عذاب دیکھ لینے سے پہلے انہیں ایمان نصیب نہیں ہوتا یعی نبیوں اور ان کے تابعداروں کو بچا لینا اور مخالفین کو ہلاک کرنا ۔ حضرت نوح نبی علیہ السلام کے بعد سے برابر یہی ہوتا رہا ہے ۔ حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے میں بھی انسان زمین پر آباد تھے ۔ جب ان میں بت پرست شروع ہو گئی تو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر حضرت نوح علیہ السلام کو ان میں بھیجا ۔ یہی وجہ ہے کہ جب قیامت کے دن لوگ حضرت نوح علیہ السلام کے پاس سفارش کی درخواست لے کر جائیں گے تو کہیں گے کہ آپ پہلے رسول ہیں ۔ جنہیں اللہ تعالیٰ نے زمین والوں کی طرف مبعوث فرمایا ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت نوح علیہ السلام کے درمیان دس زمانے گزرے اور وہ سب اسلام میں ہی گزرے ہیں ۔ اسی لیے فرمان اللہ ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کے بعد کے آنے والے ہم نے ان کی بد کرداریوں کے باعث ہلاک کر دیا ۔ مقصود یہ کہ ان باتوں کو سن کر مشرکین عرب ہوشیار ہو جائیں کیونکہ وہ سب سے افضل و اعلیٰ نبی کو جھٹلا رہے ہیں ۔ پس جب کہ ان کے کم مرتبہ نبیوں اور رسولوں کے جھٹلانے پر ایسے دہشت افزاء عذاب سابقہ لوگوں پر نازل ہو چکے ہیں تو اس سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جھٹلانے پر ان سے بھی بدترین عذاب ان پر نازل ہوں گے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

74۔ 1 یعنی ایسے دلائل و معجزات لے کر آئے جو اس بات پر دلالت کرتے تھے کہ واقعی یہ اللہ کے سچے رسول ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے ہدایت و رہنمائی کے لئے مبعوث فرمایا ہے۔ 74۔ 2 لیکن یہ امتیں رسولوں کی دعوت پر ایمان نہیں لائے، محض اس لئے کہ جب اول اول یہ رسول ان کے پاس آئے تو فوراً بغیر غور و فکر کئے، ان کا انکار کردیا۔ اور یہ پہلی مرتبہ کا انکار ان کے لئے مستقل حجاب بن گیا۔ اور وہ یہی سوچتے رہے کہ ہم تو پہلے انکار کرچکے ہیں، اب اس کو کیا ماننا، لہذا ایمان سے محروم۔ 74۔ 3 یعنی جس طرح ان گذشتہ قوموں پر انکے کفر و تکذیب کی وجہ سے مہریں لگتی رہیں ہیں اسی طرح آئندہ بھی جو قوم رسولوں کو جھٹلائے گی اور اللہ کی آیتوں کا انکار کرے گی، ان کے دلوں پر مہر لگتی رہے گی اور ہدایت سے وہ، اسی طرح محروم رہے گی، جس طرح گذشتہ قومیں محروم رہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٨] مہر لگانے کا مفہوم :۔ سیدنا نوح (علیہ السلام) کے بعد ہود، صالح، ابراہیم، لوط اور شعیب کو ہم نے ان کی قوموں کی طرف واضح نشانات دے کر بھیجا تھا۔ ان سب رسولوں سے وہی معاملہ پیش آیا جو سیدنا نوح (علیہ السلام) کو پیش آیا۔ یعنی جب ان لوگوں نے پہلی بار انکار کردیا تو بس پھر اسی پر ڈٹ گئے اور رسولوں کے ہزار بارسمجھانے کے باوجود بھی ان سے یہ نہ ہوسکا کہ اپنی غلطیوں کا اعتراف کرلیں جب لوگ اس حالت کو پہنچ جاتے ہیں تو اللہ ان کے دلوں پر مہر لگا دیتا ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ان کے دل اس قابل ہی نہیں رہے کہ وہ آئندہ ہدایت قبول کرسکیں اور مہر لگنے کی نسبت اللہ کی طرف محض اس حیثیت سے ہوتی ہے کہ اسباب کے مسبب یا نتائج اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔ انسان اسباب کے اختیار کرنے میں پوری طرح مختار ہوتا ہے اور اسی وجہ سے اس کی سزا و جزا اس کے اسباب اختیار کرنے پر ہی مترتب ہوتی ہے گویا مہر لگنا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک سزا ہے جو انھیں انکار و مخالفت کے جرم کی پاداش میں ملتی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْۢ بَعْدِهٖ رُسُلًا اِلٰى قَوْمِهِمْ : یہاں نوح (علیہ السلام) کے بعد جن پیغمبروں کے مبعوث ہونے کی طرف اشارہ فرمایا ہے ان میں ہود، صالح، ابراہیم، لوط اور شعیب (علیہ السلام) خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ جن کا تذکرہ اگلی سورت ہود میں آ رہا ہے اور قرآن کے دوسرے مقامات پر بھی مرقوم ہے اور ” الی قومھم “ کے الفاظ سے اشارہ فرما دیا ہے کہ نوح (علیہ السلام) اور ان کے بعد جتنے پیغمبر ہوئے ہیں ان میں سے کسی کی رسالت بنی نوع انسان کے لیے عام نہیں تھی بلکہ خاص خاص اقوام کی طرف مبعوث ہوتے رہے ہیں۔ البتہ نوح (علیہ السلام) کی بعثت میں اختلاف ہے، صحیح یہ ہے کہ وہ بھی خاص طور پر اپنی قوم ہی کی طرف مبعوث تھے۔ (ہمارے استاذ مولانا محمد عبدہ (رض) کی تحقیق کے مطابق صحیح یہی ہے کہ طوفان سے روئے زمین کے تمام لوگ غرق نہیں ہوئے بلکہ خاص علاقہ تباہ و برباد ہوا ہے) یہ درجہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کو حاصل ہے کہ ان کی رسالت تمام اقوام عالم کے لیے عام ہے اور قیامت تک اسی طرح باقی رہے گی۔ دیکھیے سورة سبا (٢٨) ۔ فَجَاۗءُوْھُمْ بالْبَيِّنٰتِ : یعنی ایسے دلائل و معجزات لے کر آئے جو اس بات پر دلالت کرتے تھے کہ واقعی یہ اللہ کے رسول ہیں۔ ہمارے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معجزہ قرآن سب سے بڑا اور سب سے زیادہ مؤثر تھا، جس کی وجہ سے آپ کی امت بھی سب سے زیادہ ہوئی۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورة عنکبوت (٥٠، ٥١) کے فوائد۔ فَمَا كَانُوْا لِيُؤْمِنُوْا بِمَا كَذَّبُوْا بِهٖ مِنْ قَبْلُ : لیکن یہ امتیں رسولوں کی دعوت پر ایمان نہیں لائیں، اس کا سبب یہ ہوا کہ جب اللہ کے رسول شروع میں ان کے پاس آئے تو انھوں نے اپنی سرکشی اور تکبر کی وجہ سے ایمان لانے سے انکار کردیا اور یہ انکار ان کے لیے مستقل حجاب بن گیا اور وہ یہی سوچتے رہے کہ جسے ہم جھٹلا چکے اب اس پر ایمان کیسے لائیں۔ نتیجتاً وہ ایمان کی نعمت سے محروم رہے۔ امام ابن جریر (رض) نے ” کَذَّبُوْا “ کا فاعل قوم نوح کو بنایا ہے۔ اس صورت میں معنی یہ ہوگا کہ ان رسولوں کی قومیں بھی ایسی نہ تھیں جو اس چیز پر ایمان لاتیں جسے قوم نوح اور پہلے کے لوگ اس سے قبل جھٹلا چکے تھے، بلکہ ان کے دلوں پر قوم نوح کی طرح مہر لگ گئی۔ پہلا معنی زیادہ مناسب ہے، اگرچہ یہ بھی درست ہے۔ كَذٰلِكَ نَطْبَعُ عَلٰي قُلُوْبِ الْمُعْتَدِيْنَ : یعنی ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ آخر کار یہ سزا دیتا ہے کہ انھیں کبھی راہ ہدایت پانے کی توفیق نہیں ہوتی اور یہی مطلب ہے اللہ تعالیٰ کا ان کے دلوں پر مہر لگانے کا۔ آئندہ بھی جو یہ روش اختیار کرے گا اسے یہی سزا ملے گی۔ دیکھیے سورة بقرہ (٧) ، انعام (١٠٩، ١١٠) اور انفال (٢٤) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر پھر نوح ( علیہ السلام) کے بعد ہم نے اور رسولوں کو ان کی قوموں کی طرف بھیجا، سو وہ ان کے پاس معجزات لے کر آئے ( مگر) پھر ( بھی ان کی ضد اور ہٹ کی یہ کیفیت تھی کہ) جس چیز کو انہوں نے اول ( وہلہ) میں ( ایک بار) جھوٹا کہہ دیا یہ نہ ہوا کہ پھر اس کو مان لیتے ( اور جیسے یہ لوگ دل کے سخت تھے) اللہ تعالیٰ اسی طرح کافروں کے دلوں پر بند لگا دیتے ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْۢ بَعْدِہٖ رُسُلًا اِلٰى قَوْمِہِمْ فَجَاۗءُوْھُمْ بِالْبَيِّنٰتِ فَمَا كَانُوْا لِيُؤْمِنُوْا بِمَا كَذَّبُوْا بِہٖ مِنْ قَبْلُ۝ ٠ ۭ كَذٰلِكَ نَطْبَعُ عَلٰي قُلُوْبِ الْمُعْتَدِيْنَ۝ ٧٤ بعث أصل البَعْث : إثارة الشیء وتوجيهه، يقال : بَعَثْتُهُ فَانْبَعَثَ ، ويختلف البعث بحسب اختلاف ما علّق به، فَبَعَثْتُ البعیر : أثرته وسيّرته، وقوله عزّ وجل : وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام/ 36] ، أي : يخرجهم ويسيرهم إلى القیامة، فالبعث ضربان : - بشريّ ، کبعث البعیر، وبعث الإنسان في حاجة . - وإلهي، وذلک ضربان : - أحدهما : إيجاد الأعيان والأجناس والأنواع لا عن ليس وذلک يختص به الباري تعالی، ولم يقدر عليه أحد . والثاني : إحياء الموتی، وقد خص بذلک بعض أولیائه، كعيسى صلّى اللہ عليه وسلم وأمثاله، ومنه قوله عزّ وجل : فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم/ 56] ، يعني : يوم الحشر ( ب ع ث ) البعث ( ف ) اصل میں بعث کے معنی کسی چیز کو ابھارنے اور کسی طرف بیجھنا کے ہیں اور انبعث در اصل مطاوع ہے بعث کا مگر متعلقات کے لحاظ سے اس کے معنی مختلف ہوتے رہتے ہیں مثلا بعثت البعیر کے معنی اونٹ کو اٹھانے اور آزاد چھوڑ دینا کے ہیں اور مردوں کے متعلق استعمال ہو تو قبروں سے زندہ کرکے محشر کی طرف چلانا مراد ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام/ 36] اور مردوں کو تو خدا ( قیامت ہی کو ) اٹھایا جائے گا پس بعث دو قمخ پر ہے بعث بشری یعنی جس کا فاعل انسان ہوتا ہے جیسے بعث البعیر ( یعنی اونٹ کو اٹھاکر چلانا ) کسی کو کسی کام کے لئے بھیجنا ) دوم بعث الہی یعنی جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو پھر اس کی بھی دوقسمیں ہیں اول یہ کہ اعیان ، اجناس اور فواع کو عدم سے وجود میں لانا ۔ یہ قسم اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے اور اس پر کبھی کسی دوسرے کو قدرت نہیں بخشی ۔ دوم مردوں کو زندہ کرنا ۔ اس صفت کے ساتھ کبھی کبھی اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو بھی سرفراز فرمادیتا ہے جیسا کہ حضرت عیسٰی (علیہ السلام) اور ان کے ہم مثل دوسری انبیاء کے متعلق مذکور ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم/ 56] اور یہ قیامت ہی کا دن ہے ۔ بھی اسی قبیل سے ہے یعنی یہ حشر کا دن ہے رسل أصل الرِّسْلِ : الانبعاث علی التّؤدة وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ومن الأنبیاء قوله : وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران/ 144] ( ر س ل ) الرسل الرسل ۔ اصل میں اس کے معنی آہستہ اور نرمی کے ساتھ چل پڑنے کے ہیں۔ اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ اور کبھی اس سے مراد انبیا (علیہ السلام) ہوتے ہیں جیسے فرماٰیا وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران/ 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے بڑھ کر اور کیا کہ ایک رسول ہے اور بس جاء جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] ، ( ج ی ء ) جاء ( ض ) جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔ بينات يقال : بَانَ واسْتَبَانَ وتَبَيَّنَ نحو عجل واستعجل وتعجّل وقد بَيَّنْتُهُ. قال اللہ سبحانه : وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَساكِنِهِمْ [ العنکبوت/ 38] فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ [ آل عمران/ 97] ، وقال : شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ [ البقرة/ 185] . ويقال : آية مُبَيَّنَة اعتبارا بمن بيّنها، وآية مُبَيِّنَة اعتبارا بنفسها، وآیات مبيّنات ومبيّنات . ( ب ی ن ) البین کے معنی ظاہر اور واضح ہوجانے کے ہیں اور بینہ کے معنی کسی چیز کو ظاہر اور واضح کردینے کے قرآن میں ہے ۔ وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنا بِهِمْ [إبراهيم/ 45] اور تم پر ظاہر ہوچکا تھا کہ ہم نے ان لوگوں کے ساتھ کس طرح ( کاملہ ) کیا تھا ۔ وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَساكِنِهِمْ [ العنکبوت/ 38] چناچہ ان کے ( ویران ) گھر تمہاری آنکھوں کے سامنے ہیں ۔ ۔ فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ [ آل عمران/ 97] اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں ۔ شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ [ البقرة/ 185] ( روزوں کا مہنہ ) رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن ( وال وال ) نازل ہوا جو لوگوں کا رہنما ہے ۔ طبع الطَّبْعُ : أن تصوّر الشیء بصورة مّا، كَطَبْعِ السّكّةِ ، وطَبْعِ الدّراهمِ ، وهو أعمّ من الختم وأخصّ من النّقش، والطَّابَعُ والخاتم : ما يُطْبَعُ ويختم . والطَّابِعُ : فاعل ذلك، وقیل للطَّابَعِ طَابِعٌ ، وذلک کتسمية الفعل إلى الآلة، نحو : سيف قاطع . قال تعالی: فَطُبِعَ عَلى قُلُوبِهِمْ [ المنافقون/ 3] ، ( ط ب ع ) الطبع ( ف ) کے اصل معنی کسی چیز کو ( ڈھال کر) کوئی شکل دینا کے ہیں مثلا طبع السکۃ اوطبع الدراھم یعنی سکہ یا دراہم کو ڈھالنا یہ ختم سے زیادہ عام اور نقش سے زیادہ خاص ہے ۔ اور وہ آلہ جس سے مہر لگائی جائے اسے طابع وخاتم کہا جاتا ہے اور مہر لگانے والے کو طابع مگر کبھی یہ طابع کے معنی میں بھی آجاتا ہے اور یہ نسبۃ الفعل الی الآلۃ کے قبیل سے ہے جیسے سیف قاطع قرآن میں ہے : فَطُبِعَ عَلى قُلُوبِهِمْ [ المنافقون/ 3] تو ان کے دلوں پر مہر لگادی ۔ عدا والاعْتِدَاءُ : مجاوزة الحقّ. قال تعالی: وَلا تُمْسِكُوهُنَّ ضِراراً لِتَعْتَدُوا[ البقرة/ 231] ، وقال : وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ [ النساء/ 14] ، ( ع د و ) العدو الاعتداء کے معنی حق سے تجاوز کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَلا تُمْسِكُوهُنَّ ضِراراً لِتَعْتَدُوا[ البقرة/ 231] اور اس نیت سے ان کو نکاح میں نہ رہنے دینا چاہیئے کہ انہیں تکلیف دو اور ان پر زیادتی کرو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٤) پھر حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کی ہلاکت کے بعد اور رسولوں کو ان کی قوموں کی طرف بھیجا، سو وہ ان کے پاس اوامر ونواہی اور معجزات لے کر آئے، پھر بھی جس چیز کے عہد ومیثاق سے پہلے انہوں نے تکذیب کردی تھی یہ نہ ہوا کہ پھر اس کو مان لیں اسی طرح ہم ایسے لوگوں کے دلوں پر جو کہ حلال و حرام سے تجاوز کرتے ہیں مہریں لگادیتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

71. 'Those who transgress' mentioned in the present verse are those who, once they commit a wrong, cling to it out of adamance and obstinacy. These are the ones who, out of sheer arrogance and egotism, would like to stick to the stand they once took even if it was erroneous. Such people remain unmoved

سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :71 حد سے گزر جانے والے لوگ وہ ہیں جو ایک مرتب غلطی کر جانے کے بعد پھر اپنی بات کی پچ اور ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے اپنی اسی غلطی پر اڑے رہتے ہیں ۔ اور جس بات کو ماننے سے ایک دفعہ انکار کر چکے ہیں اسے پھر کسی فہمائش ، کسی تلقین اور کسی معقول سے معقول دلیل سے بھی مان کر نہیں دیتے ۔ ایسے لوگوں پر آخرکار ایسی پِھٹکار پڑتی ہے کہ انہیں پھر کبھی راہ راست پر آنے کی توفیق نہیں ملتی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٧٤۔ حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کے قول کے موافق حضرت نوح (علیہ السلام) حضرت آدم (علیہ السلام) کے دس قرن کے بعد ہوئے ہیں اس دس قرن تک سب کے سب مسلمان تھے پھر آہستہ آہستہ بت پرستی پھیلنے لگی تو اللہ پاک نے نوح (علیہ السلام) کو رسول بنا کر لوگوں کی ہدایت کو بھیجا پھر ان کے بعد لگاتار انبیاء اور رسول آتے گئے پھر حضرت رسول مقبول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نبوت ختم ہوگئی اس لئے اللہ پاک نے پہلے حضرت نوح (علیہ السلام) کے قصہ کو بیان کر کے فرمایا کہ نوح (علیہ السلام) کے بعد اللہ تعالیٰ نے اور رسولوں کو بھیجا اور وہ طرح طرح کے معجزے خدا کی طرف لے لے کر آتے گئے مگر قوم کے لوگ بدستور اپنے خیال پر جمے رہے اور رسولوں کو جھٹلاتے رہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے علم ازلی کے موافق ان کے دلوں پر مہر لگا دی کہ یہ جانیں اور ان کا کام یہ اپنی زیادتی اور گمراہی سے باز نہیں آنے والے اور آخر علم الٰہی کے موافق طرح طرح کے عذاب سے ہلاک ہوجانا ان کی سزا ہے مسند بزار اور مستدرک حاک میں ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد کوئی قوم عام عذاب سے ہلاک نہیں ہوئی حاکم نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے ١ ؎ اس آیت میں ان رسولوں کے نام نہیں بتلائے گئے جو حضرت نوح (علیہ السلام) اور موسیٰ (علیہ السلام) کے مابین کے انبیاء حضرت ہود و صالح و ابراہیم و شعیب ہیں۔ صحیح ابن حبان میں ابو امامہ (رض) سے روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا آدم (علیہ السلام) سے نوح (علیہ السلام) تک دس قرن گزرے ہیں ابن حبان نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے ٢ ؎ حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کا قول دس قرن کا جو اوپر گزرا اس حدیث سے اس کی پوری تائد ہوتی ہے تفسیر ابن جریر میں ان دس قرن کی مدت ایک سو چھبیس برس کی بتلائی گئی ہے قرن کے معنے ایک زمانہ کے جتھے کے ہیں۔ مسند امام احمد کے حوالہ سے ابوذر (رض) کی معتبر حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کل نبی ایک لاکھ چوبیس ہزار اور ان میں صاحب کتاب رسول تین سو پندرہ ہیں ٣ ؎ معتبر سند سے ترمذی میں ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں کچھ فخر کے طور پر نہیں کہتا ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ میں سب اولاد آدم کا سردار ہوں ٤ ؎ اگرچہ اس حدیث سے اور اس قسم کی اور حدیثوں سے سلف کا یہ اعتقاد ہے کہ نبی آخر الزمان محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) افضل الانبیاء ہیں لیکن صحیح بخاری مسلم وغیرہ کی صحیح روایتوں میں آپ نے امت کو اس بحث سے روکا ہے تاکہ رفتہ رفتہ اور انبیاء کی کسر شان ٥ ؎ نہ ہو ترمذی وغیرہ کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی حدیث ایک جگہ گزرچکی ہے کہ کثرت گناہوں سے آدمی کے دل پر زنگ چھا جاتا ہے جس کے سبب سے نیک بات اس کے دل پر اثر نہیں کرتی۔ ٦ ؎ نافرمان لوگوں کے دل پر مہر لگ جانے کا ذکر جو آیت میں ہے یہ حدیث گویا اس کی تفسیر ہے۔ ١ ؎ تفسیر فتح البیان ص ٤٦٠ ج ٣ تفسیر سورو القصص و مجمع الزوائد ص ٨٨ ج ٧۔ ٢ ؎ فتح الباری ص ٢٢٣ ج ٣ کتاب الانبیائ۔ ٣ ؎ مشکوٰۃ ص ٥١١ باب بدء الخلق و ذکر الانبیاء۔ ٤ ؎ مشکوٰۃ ص ٥١٣ باب فضائل سید المرسلین۔ ٥ ؎ مشکوۃ ص ٥٠٧ باب بدء الخلق الخ۔ ٦ ؎ جامع ترمذی ص ١٦٨۔ ١٦٩۔ ج ٢ تفسیر سورة ویل للمطففین۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(10:74) فما کانوا لیؤمنوا بما کذبوا بہ من قبل۔ پس نہ ہوئے وہ کہ ایمان لاویں اس بات پر جس کو وہ جھٹلا چکے تھے (یعنی ان قوموں نے بھی اپنے پیشروں کی طرح بینات (روشن دلائل ) کا انکار ہی کیا) ۔ المعتدین۔ اسم فاعل۔ جمع مذکر منصوب اتعداء (افتعال) سے۔ حق سے ہٹنے والے حد سے تجاوز کرنے والے۔ المعتد۔ اسے کہتے ہیں جو اپنے نفس کی خواہش کی تعمیل میں حق و انصاف کی حدود سے تجاوز کر جائے۔ الاعتداء معناہ تجاوز حدود الحق والعدل اتباعا لہوی النفس وشھوا تھا (المنار) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 ۔ یہاں نوح (علیہ السلام) کے بعد جن پیغمبروں کے مبعوث ہونے کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ ان ہود ( علیہ السلام) ، صالح ( علیہ السلام) ، ابراہیم، ( علیہ السلام) لوط ( علیہ السلام) اور شعیب (علیہم السلام) خاص طور پر قابل ذکر ہیں جن کا تذکرہ قرآن کے دوسرے مقامات پر مرقوم ہے۔ اور الیٰ تومھم کے الفاظ سے اشارہ فرما دیا ہے کہ حضرت نوح ( علیہ السلام) اور ان کے بعد جنتے پیغمبر ہوئے ہیں ان میں سے کسی کی رسالت بنی نوع انسان کے لئے عام نہیں تھی بلکہ خاص خاص اقوام کی طرف مبعوث ہوتے رہے ہیں۔ البتہ حضرت نوح کی بعثت میں اختلاف ہے اور صحیح یہی ہے کہ وہ بھی خاص طور پر اپنی قوم کی طرف ہی مبعوث تھے اور طوفان سے روئے زمین کے لوگ غرق نہیں ہوئے بلکہ خاص علاقہ تباہ و برباد ہوا ہے۔ یہ درجہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حاصل ہے کہ ان کی رسالت عام بھی ہے اور پھر قیامت تک کیلئے باقی بھی رہے گی۔ (کبیر۔ روح) یہاں حد سے بڑھنے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو تعصب، ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے اپنی غلط روش پر اڑتے رہتے ہیں اور چاہے کتنے ہی معجزے دیکھ لیں اور دلیلیں سن لیں مگر جس چیز سے ایک مرتبہ انکار کر بیٹھے اسے کبھی ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ آخر کار یہ سزا دیتا ہے کہ انہیں کبھی راہ ہدایت پانے کی توفیق نہیں ہوتی۔ یہی مطلب ہے اللہ تعالیٰ کا ان کے دلوں پر مہر لگانے کا۔ (دیکھئے سورة بقرہ آیت 7) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 74 بعثنا (ہم نے بھیجا) رسل (رسول) رسول پیغمبر جآء وا (وہ آئے) نطبع (ہم مہر لگا دیتے ہیں) المعتدین (حد سے بڑھنے والے) تشریح : آیت نمبر 74 ارشاد فرمایا گیا ہے کہ حضرت نوح کے بعد مختلف قوموں کی طرف مختلف نبی اور رسو ل بھیجے گئے جنہوں نے کفر و شرک کی دلدل میں پھنسے ہوئے لوگوں کو نصیحت و موعظت فرمائی لیکن انہوں نے بھی وہی طریقہ اختیار کیا جو ان سے پہلی قوموں کا مزاج بن چکا تھا۔ اللہ کے دین اور انبیاء کا مذاق اڑانا۔ طرح طرح کی اذیتیں پہنچانا۔ حق کے راستے میں رکاوٹیں ڈالنا اور ضد اور ہٹ دھرمی کے طریقے اختیار کرنا وغیرہ وغیرہ۔ حضرت نوح کے بعد حضرت صالح، حضرت ابراہیم، حضرت لوط اور حضرت شعیب جیسے عظیم اور برگزیدہ انبیاء اور رسول تشریف لائے انہوں نے اللہ کی واضح اور کھلی ہوئی آیات اور نشانیوں کو پیش کیا لیکن جو لوگ کفر اور جہالت کی تاریکیوں کے عادی ہوچکے تھے انہیں یہ روشنی پسند نہیں آئی اور انہوں نے بھی وہی طریقے اختیار کئے جس پر ان سے پہلی قومیں چل کر تباہ و برباد ہوچکی تھیں انبیاء کرام کی تعلیمات کے مقابلے میں انہوں نے ایمان کے بجائے کفر کا راستہ اختیار کیا اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر مہریں لگا دیں۔ مہر لگانا یہی ہے کہ جب وہ کفر و شرک کے اندھیروں میں ڈوب گئے تھے اور انہوں نے ہر اس بات کو ٹھکرا دیا تھا جو ان کے لئے دین و دنیا میں فلاح و کامیابی کا ذریعہ تھی۔ ضد ، ہٹ دھرمی اور دنیا داری ان پر اس طرح غالب آگئی تھی وہ حق بات سننا ہی نہیں چاہتے تھے تو اللہ نے ان کو کامیایب کی راہ سے محروم کردیا۔ یہی ان کے دلوں پر مہر لگانا ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حضرت نوح (علیہ السلام) کا ذکر، ان کی عدیم المثال اور پر خلوص جدوجہد کا خاکہ پیش فرما کر ان کی قوم کا انجام بیان کرنے کے بعد سلسلہ نبوت کے تسلسل کا اشارہ فرمایا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جن انبیاء کا ذکر کیا ہے وہ نہ صرف اپنی اپنی قوم کے رہبر و رہنما تھے بلکہ یہ عالی مرتبت شخصیات اپنے سے پہلے انبیاء کی اقوام کے بھی رہنما تھے۔ اس لیے قرآن مجید میں رسول محترم کو مخاطب کرکے فرمایا گیا ہے کہ اے رسول ! ہم آپ سے پہلے بہت سے رسول بھیج چکے ہیں جن میں سے بعض کے حالات تو بیان کردیئے گئے ہیں اور کچھ کے نہیں کیے کسی رسول کے پاس یہ طاقت نہ تھی کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر کوئی معجزہ پیش کرتا۔ ( المؤمن : ٧٨) یہاں حضرت نوح (علیہ السلام) کے تذکرہ کے بعد فرمایا ہے کہ ہم نے نوح (علیہ السلام) کے بعد انبیاء کی بعثت کا سلسلہ جاری کیا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کے بعد حضرت ہود (علیہ السلام) قوم عاد میں جلوہ گر کیے گئے جو انہی کی قوم کا ایک نمائندہ اور معتبر قبیلہ تھا یہ لوگ عمان اور حضرموت کے درمیان ریت کے ٹیلوں والے علاقہ میں رہتے تھے جو سمندر کے کنارے واقع تھا۔ حضرت ہود (علیہ السلام) کے قبیلہ کا نام مغیث تھا۔ (قصص الانبیاء) حضرت ہود (علیہ السلام) کے بعد حضرت صالح (علیہ السلام) اپنی قوم ثمود میں مبعوث کیے گئے یہ قوم تبوک اور حجاز کے درمیان حجر کے علاقہ میں رہتی تھی جسے مدائن صالح بھی کہا جاتا ہے۔ یہ علاقہ خلیج عقبہ کے مشرق میں واقع ہے۔ قوم ثمود صنعت و حرفت میں اس قدر ترقی یافتہ تھی کہ انہوں نے پہاڑ تراش، تراش کر بڑے بڑے بنگلے اور مکانات تیار کیے تھے۔ حضرت صالح (علیہ السلام) کے بعد حضرت ابراہیم خلیل اللہ ( علیہ السلام) عراق کی سرزمین میں جلوہ گر کیے گئے۔ جناب ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد سلسلۂ نبوت اس وقت کی دنیا میں پھیلا دیا گیا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے دور میں حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کو حجاز مقدس میں ٹھہرایا۔ حضرت اسحاق (علیہ السلام) کو فلسطین کے علاقہ میں قیام کا حکم دیا۔ یہ علاقہ اس وقت مصر، شام پر مشتمل تھا۔ اپنے بھتیجے حضرت لوط (علیہ السلام) کو اردن کے گردو نواح میں لوگوں کی اصلاح کی ذمہ داری سونپی۔ خود خلیل اللہ ( علیہ السلام) فلسطین میں قیام پذیر ہوئے مگر وقفہ وقفہ سے ان مراکز کا دورہ کرتے رہتے تھے۔ ان کے بعد بیشمار انبیاء ( علیہ السلام) مبعوث کیے گئے جن میں حضرت شعیب، حضرت یعقوب، حضرت یوسف، حضرت ایوب، حضرت ذوالکفل، حضرت یونس، حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) مبعوث فرمائے گئے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد کئی پیغمبر بھیجے گئے، پھر حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) مبعوث فرمائے گئے سب سے آخر میں خاتم النبیین سید المرسلین حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قیامت تک کے لیے رسول بنایا گیا۔ یہ انبیائے کرام (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کی طرف سے ٹھوس، واضح دلائل اور عظیم الشان معجزات کے ساتھ بھیجے گئے۔ مگر لوگوں کی غالب اکثریت نے انبیاء ( علیہ السلام) کا پیغام قبول کرنے سے انکار کردیا۔ جس وجہ سے ان کے دلوں پر گمراہی کی مہر ثبت کردی گئی۔ مسائل ١۔ انبیاء (علیہ السلام) اپنی اقوام کے پاس واضح دلائل لے کر آئے تھے۔ ٢۔ بہت سے لوگ دلائل کی موجودگی میں بھی ایمان نہیں لاتے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کی آیات کی تکذیب کرنے والوں کے دلوں پر مہریں ثبت کردی جاتی ہیں۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ نافرمانوں کے دلوں پر مہر ثبت کردیتا ہے : ١۔ ہم اسی طرح حد سے نکل جانے والوں کے دلوں پر مہر لگا دیا کرتے ہیں۔ (یونس : ٧٤) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے کفر کی وجہ سے ان کے دلوں پر مہر لگا دی۔ (النساء : ١٥٥) ٣۔ اللہ کفار کے دلوں پر مہر ثبت کرتا ہے۔ (الاعراف : ١٠١) ٤۔ جو لوگ ایمان لائے اور اس کے بعد کفر کیا ان کے دلوں پر اللہ نے مہر لگا دی۔ (المنافقون : ٣) ٥۔ اللہ ہر تکبر کرنے والے سرکش کے دل پر مہر لگا دیتا ہے۔ (المومن : ٣٥) ٦۔ اللہ نے ان کے دلوں پر مہر ثبت فرما دی سو وہ نہیں جانتے۔ (التوبۃ : ٩٣)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ثم بعثنا من بعدہ رسلا الی قومھم پھر نوح کے بعد ہم نے (مختلف بکثرت) پیغمبروں کو ان کی قوم کے پاس (ہدایت کیلئے ) بھیجا۔ یعنی ہر رسول کو اس کی قوم کی طرف بھیجا۔ فجاء وھم بالبینت پس پیغمبر قوم والوں کے پاس کھلے ہوئے واضح دلائل (صداقت) لے کر پہنچے۔ فما کانوا لیؤمنوا بما کذبوا بہ من قبل اور بسبب اس کے جس چیز کی تکذیب انہوں نے پہلی بار کی تھی (اس پر اڑے رہے ‘ بعد کو بھی) ایمان نہیں لائے۔ کذلک نطبع علی قلوب المعتدین۔ اسی طرح ہم کافروں کے دلوں پر بند لگا دیتے ہیں۔ یعنی جس طرح ہم نے قوم نوح اور نوح کے بعد آنے والے پیغمبروں کی امتوں کے دلوں پر مہر لگا دی تھی (بےمدد چھوڑ دیا تھا) اسی طرح آپ کی امت میں سے جو لوگ حکم خداوندی سے تجاوز کرنے والے ہیں ‘ ان کے دلوں پر بھی مہر لگا دیتے ہیں۔ اور چونکہ وہ خود گمراہی میں غرق ہیں اور خواہشات نفس کو نہیں چھوڑتے ‘ اسلئے ہم بھی ان کو بےمدد چھوڑ دیتے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

94: یہ تخویف دنیوی کا اجمالی نمونہ ہے، حضرت نوح (علیہ السلام) کے بعد ہم نے اور بہت سے رسول بھیجے جو توحید کے واضح دلائل لے کر اپنی قوموں کے پاس آئے مگر انہوں نے ضد وعناد سے کام لیا اور انکار و جحود پر اڑ گئے۔ “ کَذَّبُوْا بِهٖ ” میں ضمیر مجرور کا مرجع “ مَا ” ہے اور “ مَا ” سے شریعت کے وہ تمام عقائد و اعمال اور اصول و فروع مراد ہیں جو ہر پیغمبر لے کر اپنی امت کے پاس آیا “ و ما موصولة والمراد بھا جمیع الشرائع التی جاء بھا کل رسول اصولھا و فروعھا ” (روح ج 11 ص 162) ۔ یعنی ان کے پاس اللہ کے پیغمبر آئے اور انہوں نے پہلی بار پیغام توحید اور دیگر شرائع کا انکار کردیا تو پھر انکار پر ہی ڈٹے رہے پیغمبروں کے بار بار سمجھانے اور واضح دلائل پیش کرنے کا ان پر کوئی اثر نہ ہوا یا “ کَذَّبُوْا ” کی ضمیر سے قوم نوح مراد ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جس پیغام توحید کو قوم نوح نے ان سے پہلے جھٹلا دیا تھا اب یہ اس کو ماننے کے لیے تیار نہ تھے۔ “ التقدیر بما کذب به قوم نوح من قبل ” (قرطبی ج 8 ص 265) ۔ “ کَذٰلِکَ اي لذٰلِک ” یعنی جو لوگ کفر و انکار اور تکذیب و تردید میں حد سے گذر جائیں اور ضد وعناد پر اتر آئیں ان کے دلوں پر ہم ان کی ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے مہر جباریت لگا دیتے اور ان سے توفیق ایمان سلب کرلیتے ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

74 پھر نوح (علیہ السلام) کے بعد ہم نے اور رسولوں کو ان کی اپنی اپنی قوم کی طرف بھیجا سو وہ رسول ان کے پاس معجزات اور واضح دلائل لے کر آئے مگر باوجود اس کے ان کی کیفیت یہ تھی کہ انہوں نے اس چیز کو جس کی وہ شروع میں تکذیب کرچکے تھے اور پہلے ہی جس کو جھوٹا بتا چکے تھے آخر تک مان کر ہی نہ دیا اور آخر وقت تک اس چیز کو مانا ہی نہیں جس طرح یہ لوگ سنگدل تھے اسی طر ح ہم ان لوگوں کے دلوں پر مہر کردیا کرتے ہیں جو حد سے گزر جانے والے ہیں یعنی بڑے ضدی اور مٹی تھے چونکہ پہلی مرتبہ پیغمبروں کی تعلیم کو جھوٹا کہہ چکے تھے اس لئے آخر وقت تک اسی پر اڑے رہے اور اپنی جگہ سے سرکے نہیں۔