Surat Younus

Surah: 10

Verse: 75

سورة يونس

ثُمَّ بَعَثۡنَا مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ مُّوۡسٰی وَ ہٰرُوۡنَ اِلٰی فِرۡعَوۡنَ وَ مَلَا۠ئِہٖ بِاٰیٰتِنَا فَاسۡتَکۡبَرُوۡا وَ کَانُوۡا قَوۡمًا مُّجۡرِمِیۡنَ ﴿۷۵﴾

Then We sent after them Moses and Aaron to Pharaoh and his establishment with Our signs, but they behaved arrogantly and were a criminal people

پھر ان پیغمبروں کے بعد ہم نے موسیٰ اور ہارون ( علیھما السلام ) کو فرعون اور اس کے سرداروں کے پاس اپنی نشانیاں دے کر بھیجا سو انہوں نے تکبر کیا اور وہ لوگ مجرم قوم تھے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Story of Musa and Fir`awn Allah said: ثُمَّ بَعَثْنَا مِن بَعْدِهِم ... Then after them We sent meaning after these Messengers, ... مُّوسَى وَهَارُونَ إِلَى فِرْعَوْنَ وَمَلَيِهِ ... Musa and Harun to Fir`awn and his chiefs, meaning his people ... بِأيَاتِنَا ... with Our Ayat. meaning; `Our proofs and evidences.' ... فَاسْتَكْبَرُواْ وَكَانُواْ قَوْمًا مُّجْرِمِينَ But they behaved arrogantly, and were a people who were criminals. meaning they were too arrogant to follow the truth and submit to it, and they were criminals.

ان نبیوں کے بعد ہم نے موسیٰ اور ہارون کو فرعون اور اس کی قوم کے پاس بھیجا ۔ اپنی دلیلیں اور حجتیں عطا فرما کر بھیجا ۔ لیکن آل فرعون نے بھی اتباع حق سے تکبر کیا اور تھے بھی پکے مجرم اور قسمیں کھا کر کہا کہ یہ تو صریح جادو ہے ۔ حالانکہ دل قائل تھے کہ یہ حق ہے لیکن صرف اپنی بڑھی چڑھی خود رائی اور ظلم کی عادت سے مجبور تھے ۔ اس پر موسیٰ علیہ السلام نے سمجھایا کہ اللہ کے سچے دین کو جادو کہہ کر کیوں اپنی ہلاکت کو بلا رہے ہو؟ کہیں جادوگر بھی کامیاب ہوتے ہیں؟ ان پر اس نصیحت نے بھی اُلٹا اثر کیا اور دو اعتراض اور جڑ دئیے کہ تم تو ہمیں اپنے باپ دادا کی روش سے ہٹا رہے ہو ۔ اور اس سے نیت تمہاری یہی ہے کہ اس ملک کے مالک بن جاؤ ۔ سو بکتے رہو ہم تو تمہاری ماننے کے نہیں ۔ اس قصے کو قرآن کریم میں بار بار دہرایا گیا ہے ، اس لیے کہ یہ عجیب و غریب قصہ ہے ۔ فرعون موسیٰ علیہ السلام سے بہت ڈرتا بچتا رہا ۔ لیکن قدرت نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اسی کے ہاں پلوایا اور شاہزادوں کی طرح عزت کے گہوارے میں جھلایا ۔ جب جوانی کی عمر کو پہنچے تو ایک ایسا سبب کھڑا کر دیا کہ یہاں سے آپ چلے گئے ۔ پھر جناب باری نے ان سے خود کلام کیا ۔ نبوت و رسالت دی اور اسی کے ہاں پھر بھیجا ۔ فقط ایک ہارون علیہ السلام کو ساتھ دے کر آپ نے یہاں آکے اس عظیم الشان سلطان کے رعب و دبدبے کی کوئی پرواہ نہ کر کے اسے دین حق کی دعوت دی ۔ اس سرکش نے اس پر بہت برا منایا اور کمینہ پن پر اتر آیا ۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے دونوں رسولوں کی خود ہی حفاظت کی وہ وہ معجزات اپنے نبی کے ہاتھوں میں ظاہر کئے کہ ان کے دل ان کی نبوت مان گئے ۔ لیکن تاہم ان کا نفس ایمان پر آمادہ نہ ہوا اور یہ اپنے کفر سے ذرا بھی ادھر ادھر نہ ہوئے ۔ آخر اللہ کا عذاب آہی گیا اور ان کی جڑیں کاٹ دی گئیں ۔ فالحمد اللہ ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

75۔ 1 رسولوں کے عمومی ذکر کے بعد، حضرت موسیٰ و ہارون علیہا اسلام کا ذکر کیا جا رہا ہے، درآنحالیکہ رسول کے تحت میں وہ بھی آجاتے ہیں۔ لیکن چونکہ ان کا شمار جلیل القدر رسولوں میں ہوتا ہے اس لئے خصوصی طور پر ان کا الگ ذکر فرما دیا۔ 75۔ 2 حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات، بالخصوص نو آیات بینات، جن کا ذکر اللہ نے سورت نبی اسرائیل آیت 101 میں کیا ہے۔ مشہور ہیں۔ 75۔ 3 لیکن چونکہ وہ بڑے بڑے جرائم اور گناہوں کے عادی تھے۔ اس لئے انہوں نے اللہ کے بھیجے ہوئے رسول کے ساتھ بھی استکبار کا معاملہ کیا۔ کیونکہ ایک گناہ، دوسرے گناہ کا ذریعہ بنتا اور گناہوں پر اصرار بڑے بڑے گناہوں کے ارتکاب کی جرّات پیدا کرتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٩] سیدنا موسیٰ کے فرعون سے مطالبات اور اس کا جواب :۔ سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کا قصہ پہلے سورة اعراف (آیت نمبر ١٠٣ تا ١٧١) میں پوری تفصیل سے گذر چکا ہے لہذا ان حواشی کو بھی مدنظر رکھا جائے جو پہلے پیش کیے جاچکے ہیں جب یہ دونوں پیغمبر، فرعون اور اس کے درباریوں کے ہاں پہنچے تو انھیں دو باتوں کی دعوت دی۔ ایک یہ کہ صرف ایک ہی سچے معبود پر ایمان لاؤ اور اسی کی عبادت کرو اور دوسرے یہ کہ بنی اسرائیل کو اپنی غلامی سے آزاد کرکے میرے ہمراہ روانہ کردو۔ ظاہر ہے کہ فرعون جیسے جابر اور خود خدائی کا دعویٰ کرنے والے حکمران کو یہ دعوت کسی طرح بھی راس نہ آسکتی تھی لہذا اس نے فوراً یہ مطالبہ پیش کردیا کہ تم فی الواقع اللہ کے پیغمبر ہو تو اپنی نبوت کی تصدیق کے طور پر کوئی نشانی پیش کرو۔ اس پر سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنا عصا زمین پر پھینک دیا جو دیکھتے ہی دیکھتے ایک خوفناک اژدھا کی شکل اختیار کر گیا اور دوڑنے لگا جس سے فرعون اور اس کے سب درباری ڈر کر موسیٰ کی طرف ملتجیانہ نظروں سے دیکھنے لگے۔ آپ نے اس اژدہا کو پکڑ لیا اور وہ پھر سے عصا بن گیا پھر سیدنا موسیٰ نے دوسری نشانی بھی دکھلائی۔ اپنا داہنا ہاتھ اپنی بغل میں رکھا پھر نکالا تو وہ چمک رہا تھا اور اس سے سفید رنگ کی روشنی پھوٹ رہی تھی۔ آپ نے پھر اسے اپنی بغل میں رکھا تو وہ اپنی اصل حالت پر آگیا۔ یہ دونوں نشانیاں اور سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کی بےمثال جرأت دیکھ کر فرعون اور اس کے درباری دل میں ڈر گئے۔ انھیں یہ یقین ہوگیا کہ موسیٰ اور اس کا بھائی دونوں اللہ کے سچے پیامبر ہیں اور وہ ان خطرات کو بھی بھانپ رہے تھے جو ان کو پیش آنے والے تھے لیکن وہ اپنی صورت حال کو رعایا سے چھپانا بھی چاہتے تھے۔ لہذا ان معجزات کو جادو قرار دے دیا اور موسیٰ (علیہ السلام) کو جادوگر۔ اور اس سے ان کا مقصد صرف اپنی رعایا کو الو بنانا تھا اور انھیں یہ تاثر دینا تھا کہ جس طرح دوسرے جادوگر شعبدہ بازیاں دکھلاتے ہیں اسی طرح کے یہ بھی شعبدے ہیں لہذا ان سے ڈرنے یا گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْۢ بَعْدِهِمْ مُّوْسٰى وَھٰرُوْنَ ۔۔ : یہ دوسرا قصہ موسیٰ و ہارون (علیہ السلام) کی قوم کا ہے جو غرق ہونے میں نوح (علیہ السلام) کی قوم کی مثال ہیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی ہے کہ قریش آپ کو جادوگر کہہ رہے ہیں (یہ کوئی نئی بات نہیں، جو شخص یا قوم بھی دلیل سے لاجواب ہوجائے وہ اسے جادو کہہ کر جان چھڑاتے ہیں) مگر ان میں سے بعض تو ان جادوگروں کی طرح ایمان لے آئیں گے اور جو اپنے کفر پر اڑے رہے وہ فرعون اور اس کی قوم کی طرح تباہ و برباد ہوں گے۔ ” آیَاتٌ“ سے مراد وہ نو (٩) معجزے ہیں جو سورة بنی اسرائیل (١٠١) میں ذکر ہوئے ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر پھر ان (مذکور) پیغمبروں کے بعد ہم نے موسیٰ اور ہارون ( علیہما السلام) کو فرعون اور اس کے سرداروں کے پاس اپنے معجزات (عصا اور ید بیضاء) دے کر بھیجا سو انہوں نے ( دعوے کے ساتھ ہی ان کی تصدیق کرنے سے) تکبر کیا ( اور طلب حق کے لئے غور بھی تو نہ کیا) اور وہ لوگ جرائم کے خوگر تھے ( اس لئے اطاعت نہ کی) پھر جب ( بعد دعوی کے) ان کو ہمارے پاس سے ( نبوت موسویہ پر) صحیح دلیل پہنچی ( مراد اس سے معجزہ ہے) تو وہ لوگ کہنے لگے کہ یقینا یہ صریح جادو ہے، مو سیٰ ( علیہ السلام) نے فرمایا کیا یہ جا دو ہے، حالانکہ جادوگر ( جب کہ دعوی نبوت کا کریں تو اظہار معجزہ میں) کامیاب نہیں ہوا کرتے ( اور میں کامیاب ہوا کہ اول دعوی کیا پھر معجزات ظاہر کردیئے) وہ لوگ ( اس تقریر کا کچھ جواب نہ دے سکے، ویسے ہی براہ جہالت) کہنے لگے کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ اس طریقہ سے ہٹا دو جس پر ہم نے اپنے بزرگوں کو دیکھا ہے اور ( اس لئے آئے ہو کہ) تم دونوں کو دنیا میں ریاست ( اور سرداری) مل جاوے اور ( تم خوب سمجھ لو کہ) ہم تو تم دونوں کو کبھی نہ مانیں گے، اور فرعون نے ( اپنے سرداروں سے) کہا کہ میرے پاس تمام ماہر جادوگروں کو ( جو ہمارے قلمرو میں ہیں) حاضر کرو ( چناچہ جمع کئے گئے) سو جب وہ آئے ( اور موسیٰ (علیہ السلام) سے مقابلہ ہوا تو) موسیٰ ( علیہ السلام) نے ان سے فرمایا کہ ڈالو جو کچھ تم کو ( میدان میں) ڈالنا ہے، سو جب انہوں نے ( اپنا جادو کا سامان) ڈالا تو موسیٰ ( علیہ السلام) نے فرمایا کہ جو کچھ تم ( بنا کر) لائے ہو جادو یہ ہے ( نہ وہ جس کو فرعون والے جادو کہتے ہیں) یقینی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ اس ( جادو) کو ابھی درہم برہم کئے دیتا ہے ( کیونکہ اللہ تعالیٰ ایسے فسادیوں کا کام بننے نہیں دیتا ( جو معجزہ کے ساتھ مقابلہ سے پیش آویں) اور اللہ تعالیٰ ( جس طرح اہل باطل کے باطل کو بمقابلہ معجزات حقہ کے باطل کردیتا ہے اسی طرح) دلیل صحیح ( یعنی معجزہ) کو اپنے وعدوں کے موافق ( کہ اثبات نبوت انبیاء کے متعلق ہیں) ثابت کردیتا ہے گو مجرم ( اور کافر) لوگ کیسا ہی ناگوار سمجھیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْۢ بَعْدِہِمْ مُّوْسٰى وَھٰرُوْنَ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَمَلَا۟ىِٕہٖ بِاٰيٰتِنَا فَاسْتَكْبَرُوْا وَكَانُوْا قَوْمًا مُّجْرِمِيْنَ۝ ٧٥ موسی مُوسَى من جعله عربيّا فمنقول عن مُوسَى الحدید، يقال : أَوْسَيْتُ رأسه : حلقته . هرن هَارُونُ اسم أعجميّ ، ولم يرد في شيء من کلام العرب . فِرْعَوْنُ : اسم أعجميّ ، وقد اعتبر عرامته، فقیل : تَفَرْعَنَ فلان : إذا تعاطی فعل فرعون، كما يقال : أبلس وتبلّس، ومنه قيل للطّغاة : الفَرَاعِنَةُ والأبالسة . فرعون یہ علم عجمی ہے اور اس سے سرکش کے معنی لے کر کہا جاتا ہے تفرعن فلان کہ فلاں فرعون بنا ہوا ہے جس طرح کہ ابلیس سے ابلس وتبلس وغیرہ مشتقات استعمال ہوتے ہیں اور ایس سے سرکشوں کو فراعنۃ ( جمع فرعون کی اور ابا لسۃ ( جمع ابلیس کی ) کہا جاتا ہے ۔ ملأ المَلَأُ : جماعة يجتمعون علی رأي، فيملئون العیون رواء ومنظرا، والنّفوس بهاء وجلالا . قال تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِنْ بَنِي إِسْرائِيلَ [ البقرة/ 246] ( م ل ء ) الملاء ( م ل ء ) الملاء ۔ جماعت جو کسی امر پر مجتمع ہوتونظروں کو ظاہری حسن و جمال اور نفوس کو ہیبت و جلال سے بھردے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِنْ بَنِي إِسْرائِيلَ [ البقرة/ 246] نھلا تم نے بنی اسرائیل کی ایک جماعت کو نہیں دیکھا ۔ الاسْتِكْبارُ والْكِبْرُ والتَّكَبُّرُ والِاسْتِكْبَارُ تتقارب، فالکبر الحالة التي يتخصّص بها الإنسان من إعجابه بنفسه، وذلک أن يرى الإنسان نفسه أكبر من غيره . وأعظم التّكبّر التّكبّر علی اللہ بالامتناع من قبول الحقّ والإذعان له بالعبادة . والاسْتِكْبارُ يقال علی وجهين : أحدهما : أن يتحرّى الإنسان ويطلب أن يصير كبيرا، وذلک متی کان علی ما يجب، وفي المکان الذي يجب، وفي الوقت الذي يجب فمحمود . والثاني : أن يتشبّع فيظهر من نفسه ما ليس له، وهذا هو المذموم، وعلی هذا ما ورد في القرآن . وهو ما قال تعالی: أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة/ 34] . ( ک ب ر ) کبیر اور الکبر والتکبیر والا ستکبار کے معنی قریب قریب ایک ہی ہیں پس کہر وہ حالت ہے جس کے سبب سے انسان عجب میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ اور عجب یہ ہے کہ انسان آپنے آپ کو دوسروں سے بڑا خیال کرے اور سب سے بڑا تکبر قبول حق سے انکار اور عبات سے انحراف کرکے اللہ تعالیٰ پر تکبر کرنا ہے ۔ الاستکبار ( اسعاے ل ) اس کا استعمال دوطرح پر ہوتا ہے ۔ ا یک یہ کہ انسان بڑا ببنے کا قصد کرے ۔ اور یہ بات اگر منشائے شریعت کے مطابق اور پر محمل ہو اور پھر ایسے موقع پر ہو ۔ جس پر تکبر کرنا انسان کو سزا وار ہے تو محمود ہے ۔ دوم یہ کہ انسان جھوٹ موٹ بڑائی کا ) اظہار کرے اور ایسے اوصاف کو اپنی طرف منسوب کرے جو اس میں موجود نہ ہوں ۔ یہ مذموم ہے ۔ اور قرآن میں یہی دوسرا معنی مراد ہے ؛فرمایا ؛ أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة/ 34] مگر شیطان نے انکار کیا اور غرور میں آگیا۔ جرم أصل الجَرْم : قطع الثّمرة عن الشجر، ورجل جَارِم، وقوم جِرَام، وثمر جَرِيم . والجُرَامَة : ردیء التمر المَجْرُوم، وجعل بناؤه بناء النّفاية، وأَجْرَمَ : صار ذا جرم، نحو : أثمر وألبن، واستعیر ذلک لکل اکتساب مکروه، ولا يكاد يقال في عامّة کلامهم للكيس المحمود، ومصدره : جَرْم، قوله عزّ وجل : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین/ 29] ومن جَرَم، قال تعالی: لا يَجْرِمَنَّكُمْ شِقاقِي أَنْ يُصِيبَكُمْ [هود/ 89] ، فمن قرأ بالفتح فنحو : بغیته مالا، ومن ضمّ فنحو : أبغیته مالا، أي أغثته . وقوله عزّ وجلّ : وَلا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلَّا تَعْدِلُوا [ المائدة/ 8] ، وقوله عزّ وجل : فَعَلَيَّ إِجْرامِي[هود/ 35] ، فمن کسر فمصدر، ومن فتح فجمع جرم . واستعیر من الجرم۔ أي : القطع۔ جَرَمْتُ صوف الشاة، وتَجَرَّمَ اللیل ( ج ر م ) الجرم ( ض) اس کے اصل معنی درخت سے پھل کاٹنے کے ہیں یہ صیغہ صفت جارم ج جرام ۔ تمر جریم خشک کھجور ۔ جرامۃ روی کھجوریں جو کاٹتے وقت نیچے گر جائیں یہ نفایۃ کے وزن پر ہے ـ( جو کہ ہر چیز کے روی حصہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ) اجرم ( افعال ) جرم دلا ہونا جیسے اثمر واتمر والبن اور استعارہ کے طور پر اس کا استعمال اکتساب مکروہ پر ہوتا ہے ۔ اور پسندیدہ کسب پر بہت کم بولا جاتا ہے ۔ اس کا مصدر جرم ہے چناچہ اجرام کے متعلق فرمایا : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین/ 29] جو گنہگار ( یعنی کفاب میں وہ دنیا میں) مومنوں سے ہنسی کیا کرتے تھے ۔ اور جرم ( ض) کے متعلق فرمایا :۔ لا يَجْرِمَنَّكُمْ شِقاقِي أَنْ يُصِيبَكُمْ [هود/ 89] میری مخالفت تم سے کوئی ایسا کا م نہ کر اور کہ ۔۔ تم پر واقع ہو ۔ یہاں اگر یجرمنکم فتہ یا کے ساتھ پڑھا جائے تو بغیتہ مالا کی طرح ہوگا اور اگر ضمہ یا کے ساتھ پر ھا جائے تو ابغیتہ مالا یعنی میں نے مال سے اس کی مدد کی ) کے مطابق ہوگا ۔ وَلا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلَّا تَعْدِلُوا [ المائدة/ 8] اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ نہ کرے ۔ کہ انصاف چھوڑ دو ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ فَعَلَيَّ إِجْرامِي[هود/ 35] تو میرے گناہ کا وبال مجھ پر ۔ میں ہوسکتا ہے کہ اجرام ( بکسرالہمزہ ) باب افعال سے مصدر ہو اور اگر اجرام ( بفتح الہمزہ ) پڑھا جائے تو جرم کی جمع ہوگی ۔ اور جرم بمعنی قطع سے بطور استعارہ کہا جاتا ہے ۔ حرمت صوف الشاۃ میں نے بھیڑ کی اون کاٹی تجرم اللیل رات ختم ہوگئی ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٥) پھر ہم نے ان رسولوں کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) و حضرت ہارون (علیہ السلام) کو فرعون اور اس کے سرداروں کے پاس اپنی کتاب یا یہ کہ اپنے نو معجزات ید عصا، طوفان، جراد، قمل، ضفادع، دم، سنین، نقص من الثمرات یا یہ کہ مالوں کو برباد کرنے کی دعا کا حق دے کر بھیجا، سو انھوں نے کتاب خداوندی رسول اور معجزات پر ایمان لانے سے انکار کیا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

عام طور پر قرآن حکیم میں انباء الرسل کے ضمن میں چھ رسولوں کا تذکرہ بار بار آیا ہے ‘ لیکن یہاں اختصار کے ساتھ حضرت نوح (علیہ السلام) کا صرف تین آیات میں ذکر کیا گیا ہے۔ پھر اس ایک آیت (٧٤) میں باقی تمام رسولوں کا نام لیے بغیر صرف حوالہ دے دیا گیا ہے اور اس کے بعد حضرت موسیٰ کا ذکر قدرے تفصیل سے ہوا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

72. For a full appreciation of the story of Moses and Pharaoh, see the explanatory notes in Towards Understanding the Qur'an, vol. III, al-A'raf7, n. 83 ff. The points elucidated in these notes will not be repeated here. 73. Intoxicated by their riches, political power and glory they considered themselves to be well above the level of ordinary human beings. Thus, instead of humbly submitting themselves to God, they waxed proud.

سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :72 اس موقع پر ان حواشی کو پیش نظر رکھا جائے جو ہم نے سورہ اعراف ( رکوع ۱۳ تا ۲۱ ) میں قصہ موسیٰ علیہ السلام و فرعون پر لکھے ہیں ۔ جن امور کی تشریح وہاں کی جا چکی ہے ان کا اعادہ یہاں نہ کیا جائے گا ۔ سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :73 یعنی انہوں نے اپنی دولت و حکومت اور شوکت و حشمت کے نشے میں مدہوش ہو کر اپنے آپ کو بندگی کے مقام سے بالاتر سمجھ لیا اور اطاعت میں سر جھکا دینے کے بجائے اکڑ دکھائی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٧٥۔ پھر ان رسولوں کے پیچھے جو حضرت نوح (علیہ السلام) کے بعد حضرت شعیب (علیہ السلام) تک آئے تھے اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھ ہارون (علیہ السلام) کو ان کا وزیر بنا کر بھیجا۔ موسیٰ (علیہ السلام) کا قصہ بہت سی جگہ قرآن پاک میں ذکر کیا گیا ہے یہ بڑا عجیب قصہ ہے اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو فرعون کی گود میں پرورش کیا اور جب جوان ہوگئے تو ایک فرعونی شخص کا خون ان کے ہاتھ سے ہوجانے سے وہ وہاں سے باہر نکلے پھر خدا نے ان سے باتیں کیں اور رسول بناکر فرعون اور اس کے گروہ کی طرف بھیجا اور اس وقت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ سوائے ہارون (علیہ السلام) کے جن کو خدا نے موسیٰ (علیہ السلام) کا وزیر بنا دیا تھا اور کوئی نہ تھا۔ موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس اگرچہ نو معجزے ایسے تھے جن سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ بغیر مدد خدا کے ایسی نشانی کوئی لا نہیں سکتا مگر فرعون اور اس کے ہمراہیوں نے سرکشی کو نہیں چھوڑا یہ قصہ سورة طہ اور سورة قصص میں تفصیل سے آوے گا۔ صحیح بخاری مسلم وغیرہ میں چند صحابہ سے معراج کی جو روایتیں ہیں ان میں یہ ہے کہ پہلے پہل امت محمدیہ پر پچاس نمازیں فرض ہوئی تھیں پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے مشورہ کے موافق آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ سے ان پچاس نمازوں میں تخفیف ہوجانے کی التجا کی اور آخر کو یہ پانچ نمازیں باقی رہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا یہ ایک بڑا احسان امت محمدیہ پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے قصہ میں ہے جس کا ذکر اس صحیح حدیث میں آیا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(10:75) ملاء ہ۔ مضارف مضاف الیہ اس کے سرداروں کی جماعت۔ الملا۔ اسم جمع۔ سرداروں کی اور بڑے لوگوں کو جماعت۔ ملأ سے مشتق ہے۔ ملا یملو (نصر) ملا و ملاء ۃ۔ بھرنا۔ المد۔ وہ مقدار جس سے برتن بھر جائے۔ قرآن میں ہے فلن یقبل من احدہم ملأ الارض ذھبا (3:91) سو ان میں سے کسی کا زمین بھر سونا بھی قبول نہ کیا جائیگا۔ الملأ۔ وہ جماعت جو کسی امر پر مجتمع ہو تو نظروں کو ظاہری حس و جمال سے اور نفوس کو ہیبت و جلال سے بھردے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 ۔ یہ قوم موسیٰ و ہارون کا دوسرا قصہ ہے جو غرق ہونے میں قوم نوح کی مثال ہیں اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی ہے قریش آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی جادوگر بتلا رہے ہیں مگر ان میں سے بعض تو ان جادوگروں کی طرح ایمان لے آئیں گے اور جو فرعون کی طرح اپنے کفر پر اڑے رہے وہ تباہ و برباد ہوں گے (سید احمد حسن) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 75 تا 82 استکبروا (انہوں نے تکبر کیا، بڑائی کی) اجئتنا (کیا تو آیا ہے ہمارے پاس) لتلفتنا (تاکہ تو ہمیں ہٹا دے) الکبریاء (بڑائی، حکمرانی) ائتونی (آجائو، لے آئو، میرے پاس) القوا (تم ڈالو، تم پھینکو) سیطلہ (بہت جلد وہ اس کو برباد کر دے گا یحق (وہ ثابت کر دے گا) کرہ (برا سمجھا) تشریح : آیت نمبر 75 تا 82 مشرکین عرب نے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ وہی معاملہ کیا جو حضرت نوح علیہ اسلام کی قوم نے ان کے ساتھ اور حضرت موسیٰ و حضرت ہارون کے ساتھ فرعون اور اس کی قوم نے کیا تھا۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ان مشرکین عرب کے سامنے ان انبیاء کرام کے واقعات اور جو سلوک ان کی قوم نے کیا تھا سامنے رکھ کر صاف صاف فرما دیا کہ اگر اس وقت کفار اور مشرکین نے خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دامن نہیں تھا ما یعنی وہ ایمان نہیں لائے۔ ان کی اطاعت و فرماں برداری نہ کی تو ان کا انجام بھی گزشتہ قوموں سے مختلف نہ ہوگا۔ ان آیات میں حضرت موسیٰ کا وہ واقعہ بیان کیا گیا ہے جب آپ نے فرعون کے سامنے دین حق کی سچائیوں کو رکھا تو اس نے حضرت موسیٰ کی بات ماننے کے بجائے ان پر طرح طرح کے الزامات لگا دیئے۔ یہاں تک کہ آپ کے معجزات کو اس نے جادو قرار دے کر ساری مملکت کے جادوگروں سے مقابلہ کرا دیا۔ سورة اعراف، سورة شعراء اور سورة قصص میں اس واقعہ کی کافی تفصیل ارشاد فرمائی گئی ہے یہاں ایک مرتبہ پھر اس واقعہ کو مختصر کر کے بیان فرمایا گیا ہے تاکہ ہر شخص کو یہ معلوم ہوجائے کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے جب بھی حق و صداقت نکھر کر سامنے آتا ہے تو باطل اور جھوٹ مٹ جاتا ہے یا بےحقیقت ہو کر رہ جاتا ہے۔ فرعون کا اقتدار جو کئی نسلوں سے چلا آ رہا تھا حضرت موسیٰ کے زمانہ میں فرعون اقتدار کے نشے اور غرور وتکبر میں انتہا کو پہنچا وہا تھا کہ فرعون نے اپنے آپ کو ” رب اعلیٰ “ قرار دے لیا تھا، مفاد پرست درباریوں، امیروں اور وزیروں نے اس کے اس تکبر اور غرور کو اس حد تک بڑھا دیا تھا کہ جب حضرت موسیٰ نے اس کے بھرے دربار میں یہ اعلان کردیا کہ ایک بےبس انسان ” رب اعلیٰ “ نہیں ہو سکتا اور اس کو معبود کا درجہ نہیں دیا جاسکتا۔ حضرت موسیٰ کے اس اعلان نے فرعون اور اس کے درباریوں کو ہلاک کر رکھ دیا اور اس نے وہی الزامات لگانے شروع کردیئے جو انسانوں کی گردن پر مسلط ظالم، جابر اور متکبر حکمراں کیا کرتے ہیں۔ اس نے کہا کہ موسیٰ کا مقصد صرف اس سرزمین پر اپنا اقتدار قائم کرنا ہے۔ معجزات دیکھ کر اس نے کہا کہ یہ جادو ہے اور میں اس جادو کا توڑ جادوگروں سے کرا سکتا ہوں۔ چناچہ اس نے لاتعداد جادوگروں کو بلا لیا اور انعام و اکرام کا لالچ دے کر ان سے یہ کہا کہ آج تم ایسا جادو دکھائو کہ موسیٰ بھرے دربار میں اپنی قیمت کھو بیٹھے۔ جادوگروں نے جمع ہو کر اپنے کمالات دکھانے شروع کردیئے لاٹھیاں، رسیاں اور چھڑیاں پھینکنی شروع کیں پورے دربار میں ہر جگہ محسوس ہوا جیسے سانپ ہی ساپن ہوں۔ اس کو عرف عام میں نظر بندی بھی کہتے ہیں۔ اس کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ بعض لوگ ایک خاص طریقہ پر محنت کر کے اپنی خیالی قوت کو اتنا مضبوط بنا لیتے ہیں کہ لوگوں کا خیال ان کے خیال اور تصور کے تابع ہوجاتا ہے۔ جب ایسا شخص کسی چیز کے خیال کو جما لیتا ہے تو ہر شخص کو وہی نظر آنے لگتا ہے جو وہ شخص چاہتا ہے۔ فرعون کے دربار میں ان جادوگروں نے اس کا مظاہرہ کیا۔ حضرت موسیٰ نے اور سب درباریوں نے اس منظر کو دیکھا تو درباری ان جادوگروں کے کمالات کے قائل ہوگئے لیکن حضرت موسیٰ نے اللہ کے حکم سے اپنے عصا کو زمین پر پھینکا تو وہ سچ مچ کا اژدھا بن گیا اور اس نے ان کے بناوٹی سانپوں کو نگلنا شروع کیا۔ اس وقت جادوگر سمجھ گئے کہ عصا کا اژدھا بن جانا جادو نہیں ہے بلکہ واقعی ایک کھلا ہوا معجزہ ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ سب جادوگر اللہ کے سامنے سجدہ میں گر گئے اور وہ کفر سے توبہ کر کے ایمان کی دولت سے مالا مال ہوگئے۔ یہ واقعہ فرعون کی بہت بڑی ذلت اور توہین تھی اس نے جادوگروں کو جو صاحب ایمان ہوچکے تھے ہر طرح کی سزاؤں اور پھانسی پر لٹکا نے کی دھمکیاں دیں مگر ایمان کی خصوصیت یہ ہے کہ جب ایمان کسی کے دل میں آجاتا ہے تو اس کو سوائے اللہ کے خوف کے اور کوئی خوف نہیں رہتا۔ انسانوں کا خوف اسی وقت تک ہوتا ہے جب تک انسان ایمان کی دولت سے محروم رہتا ہے جب وہ اس نعمت کو حاصل کرلیتا ہے تو اس کی زبان سے وہی کلمات نکلتے ہیں جو اس وقت فرعون کرلیا ہے۔ “ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اعلان نبوت کے بعد کفار عرب نے بھی یہی طریقہ اختیار کیا اور نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کرام پر یہ الزامات لگانے شروع کردیئے لیکن سچائی پھر سچائی ہے اور ایک وقت وہ آیا کہ ان کفار نے نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کو ہر طرح ستایا پریشان کیا لیکن ان کے ایمان کی قوت نے ان کو اتناسربلند کیا کہ فرعون کی طرح غرور وتکبر کے نشے میں مست لوگوں کو حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عظمت کے سامنے جھکنے پر مجبور کردیا۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : عظیم المرتبت اور اولوالعزم انبیاء کی ایک جماعت کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کا آغاز ہوتا ہے۔ ارشاد ہوا کہ ہم نے بہت سے انبیاء کرام (علیہ السلام) کے بعد حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کو بڑے بڑے معجزات اور دلائل دے کر فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف بھیجا مگر انہوں نے ان کے ساتھ تکبر کا رویہ اختیار کیا یہ لوگ بڑے مجرم اور سرکش تھے۔ قرآن مجید میں جابجا حضرت موسیٰ اور فرعون کی کشمکش کا تذکرہ پایا جاتا ہے۔ جس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ اے اہل حجاز ہم نے تمہاری طرف ایسا رسول بھیجا ہے جیسا فرعون کی طرف بھیجا تھا۔ فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کی نافرمانی کی ہم نے پوری سختی کے ساتھ اس کی گرفت کی۔ ( المزمل : ١٥۔ ١٦) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بعثت کا مقصد : (اذْہَبْ أَنْتَ وَأَخُوْکَ بِاٰ یَاتِیْ وَلَا تَنِیَا فِیْ ذِکْرِیْ ۔ اذْہَبَا إِلٰی فِرْعَوْنَ إِنَّہُ طَغَی۔ فَقُوْلَا لَہُ قَوْلًا لَیِّنًا لَعَلَّہُ یَتَذَکَّرُأَوْ یَخْشَی۔ قَالَا رَبَّنَا إِنَّنَا نَخَافُ أَنْ یَفْرُطَ عَلَیْنَا أَوْ أَنْ یَطْغَی۔ قَالَ لَا تَخَافَا إِنَّنِیْ مَعَکُمَا أَسْمَعُ وَأَرَی۔ فَأْتِیَاہُ فَقُوْلَا إِنَّا رَسُوْلَا رَبِّکَ فَأَرْسِلْ مَعَنَا بَنِیْ إِسْرَاءِیْلَ وَلَا تُعَذِّبْہُمْ قَدْ جِءْنَاکَ بِاٰیَۃٍ مِنْ رَبِّکَ وَالسَّلَا مُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْہُدَی۔ )[ طٰہٰ : ٤٢۔ ٤٧] ” اے موسیٰ ! تو اور تیرا بھائی میرے معجزات لے کر جاؤ اور میرے ذکر میں کوتاہی نہ کرنا تو دونوں فرعون کے ہاں جاؤ وہ بڑا سرکش ہوگیا ہے دیکھو اسے نرمی سے بات کہنا شاید وہ نصیحت قبول کرے یا ڈرجائے انھوں نے عرض کی اے پروردگار ہم اس بات سے ڈرتے ہیں کہ وہ ہم پر زیادتی کرے یا مزید سرکشی اختیار کرے اللہ نے فرمایا ڈرنے کی ضرورت نہیں میں تمہارے ساتھ ہوں سب کچھ سن رہا ہوں اور دیکھ رہا ہوں لہٰذا اس کے پاس جاؤ اور اسے کہنا ہم تیرے رب کے رسول ہیں بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ جانے کے لیے آزاد کر دے اور انھیں کسی قسم کی تکلیف نہ دے۔ ہم تیرے پاس تیرے پروردگار کی نشانی لے کر آئے ہیں اس شخص پر سلامتی ہو جو ہدایت کی پیروی اختیار کرتا ہے۔ “ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو عطا ہونے والے معجزات : (وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوسٰی تِسْعَ اٰیَاتٍ بَیِّنَاتٍ فَاسْأَلْ بَنِیْٓ إِسْرٓاءِیْلَ إِذْ جَآءَ ہُمْ فَقَالَ لَہٗ فِرْعَوْنُ إِنِّیْ لَأَظُنُّکَ یَا مُوسٰی مَسْحُوْرًا)[ الاسراء : ١٠١] ” ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو ٩ واضح نشانیاں دی تھیں بنی اسرائیل سے پوچھ لیجیے کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) ان کے پاس آئے تو فرعون نے کہا کہ میں تجھے سحر زدہ سمجھتا ہوں۔ “ (قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ وَمُجَاہِدُ ، وَعِکْرَمَۃُ وَالشَّعْبِیُّ ، وَقَتَادَۃُ ہِیَ یَدُہٗ ، وَعَصَاہٗ ، وَالسَّنِیْنُ ، وَنَقْصُ الثَّمَرَاتِ ، وَالطَّوْفَانُ ، وَالْجَرَادُ ، وَالقُمَّلُ ، وَالضَّفَادِعُ ، وَالدَّمُ )[ ابن کثیر ] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) مجاھد، عکرمہ، شعبی اور قتادہ کے قول کے مطابق حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو عطا کی جانے والی نشانیاں یہ تھیں۔ ١۔ یدِبیضاء، ٢۔ عصا، ٣۔ قحط سالی، ٤۔ پھلوں کی کمی، ٥۔ طوفان، ٦۔ ٹڈی دل، ٧۔ جوئیں کھٹمل، ٨۔ مینڈک اور ٩۔ خون کے عذاب۔ “ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی اپنے بھائی کے لیے دعا : (قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْ ۔ وَیَسِّرْ لِیْ أَمْرِیْ وَاحْلُلْ عُقْدَۃً مِنْ لِسَانِیْ یَفْقَہُوْا قَوْلِیْ ۔ وَاجْعَلْ لِیْ وَزِیْرًا مِنْ أَہْلِیْ ۔ ہَارُوْنَ أَخِیْ ۔ اشْدُدْ بِہٖ أَزْرِیْ ۔ وَأَشْرِکْہُ فِیْ أَمْرِیْ )[ طٰہٰ : ٢٥۔ ٣٢] ” موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کی اے میرے پروردگار میرا سینہ کھول دے، میرے کام آسان کر دے، میری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ وہ میری بات سمجھ سکیں اور میرے لیے میرے خاندان میں سے ایک مددگار مقرر کر دے ہارون کو جو میرا بھائی ہے اس سے میری قوت کو مضبوط کر اور اسے میرے کام میں شریک کار کر۔ “ تکبر کیا ہے : (عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَا یَدْخُلُ الجَنَّۃَ مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہٖ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ مِنْ کِبْرٍ فَقَالَ رَجُلٌ اِنَّ الرَّجُلَ یُحِبُّ اَنْ یَّکُوْنَ ثَوْبُہٗ حَسَنًا وَ نَعْلُہٗ حَسَنًا قَالَ اِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی جَمِیْلٌ یُّحِبُّ الجَمَالَ اَلْکِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَ غَمْطُ النَّاسِ )[ رواہ مسلم : کتاب الیمان، باب تحریم الکبر وبیانہ ] ” حضرت ابن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ جس شخص کے دل میں ذرہ برابر تکبر ہوگا ‘ وہ جنت میں نہیں جائے گا۔ ایک شخص نے کہا کہ بیشک ہر شخص یہ پسند کرتا ہے کہ اس کا لباس اور جوتے اچھے ہوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ نہایت ہی خوب صورت ہے اور خوب صورتی کو پسند کرتا ہے۔ تکبر تو حق بات کا انکار کرنا اور لوگوں کو حقیر جاننا ہے۔ “ قیامت کے دن رب ذوالجلال کا سوال کرنا : (عَنْ عَبْدُ اللَّہِ بْنُ عُمَرَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَطْوِی اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ السَّمَوَاتِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ثُمَّ یَأْخُذُہُنَّ بِیَدِہِ الْیُمْنَی ثُمَّ یَقُولُ أَنَا الْمَلِکُ أَیْنَ الْجَبَّارُوْنَ أَیْنَ الْمُتَکَبِّرُوْنَ ثُمَّ یَطْوِی الأَرَضِینَ بِشِمَالِہِ ثُمَّ یَقُولُ أَنَا الْمَلِکُ أَیْنَ الْجَبَّارُوْنَ أَیْنَ الْمُتَکَبِّرُوْنَ )[ رواہ مسلم : باب صفۃ القیامۃ والجنۃ والنار ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ آسمان کو قیامت کے دن لپیٹ لے گا پھر اس کو دائیں ہاتھ میں پکڑے گا، پھر فرمائے گا میں بادشاہ ہوں۔ کہاں ہیں جابر لوگ ؟ کہاں ہیں تکبر کرنے والے ؟ پھر زمین کو بائیں ہاتھ میں لپیٹ لے گا، پھر اعلان ہوگا میں بادشاہ ہوں کہاں ہیں جابر لوگ ؟ اور کہاں ہیں تکبر کرنے والے ؟ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ اور ہارون (علیہ السلام) کو معجزات دے کر بھیجا۔ ٢۔ اللہ کی آیات کی تکذیب کرنے والے لوگ مجرم ہوتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن فرعون اور اس کے سرداروں نے اللہ تعالیٰ کی آیات کے ساتھ تکبر کیا : ١۔ اللہ نے موسیٰ اور ہارون کو فرعون اور اس کے سرداروں کے پاس نشانیوں کے ساتھ بھیجا مگر انہوں نے تکبر کیا۔ (یونس : ٧٥) ٢۔ اللہ نے حضرت موسیٰ اور ہارون کو فرعون اور اس کے سرداروں کے پاس بھیجا پس انہوں نے تکبر کیا۔ (المومنون : ٤٦) ٣۔ حضرت موسیٰ ، فرعون اور اس کے حواریوں کے پاس معجزات لے کر آئے مگر انہوں نے تکبر کیا۔ (العنکبوت : ٣٩) ٤۔ ہم نے ان پر طوفان، ٹڈیوں، جوؤں، مینڈک اور خون کتنی کھلی ہوئی نشانیاں بھیجیں مگر وہ تکبر ہی کرتے رہے اور وہ مجرم تھے۔ (الاعراف : ١٣٣) ٥۔ ان کے پاس موسیٰ (علیہ السلام) کھلی نشانیاں لے کر آئے تو وہ زمین میں مغرور ہوگئے وہ ہم سے سبقت لے جانے والے نہ تھے۔ (العنکبوت : ٣٩) ٦۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا میں ہر متکبر سے جو آخرت کے دن پر یقین نہیں رکھتا اپنے پروردگار کی پناہ میں ہوں۔ (المومن : ٢٧)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ثم بعثنا من بعدھم موسیٰ وھٰرون الی فرعون وملاۂ بایتنا پھر ان (پیغمبروں) کے بعد ہم نے موسیٰ (بن عمران) اور (ان کے بھائی) ہارون کو فرعون اور اس کی قوم کے سرداروں کے پاس اپنی نشانیاں دے کر بھیجا۔ چونکہ اگلی آیت میں قوم فرعون کی سرکشی کا بیان کیا گیا ہے ‘ اسلئے اس جگہ فرعون کے ساتھ سرداران قوم کا لفظ بھی ذکر کردیا۔ فاستکبروا وکانوا قوما مجرمین۔ پس انہوں نے اپنے کو بڑا سمجھا اور وہ تھے مجرم لوگ۔ یعنی حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون کی بات ماننے کو حقیر سمجھا اور مغرور ہوگئے (اسلئے اتباع نہیں کیا) اور وہ جرم کے خوگر تھے ‘ عادی تھے ‘ اسلئے انہوں نے رسالت کے پیام کو حقیر سمجھا اور تردید رسالت کی جرأت کی۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا فرعون کی طرف مبعوث ہونا اور ان کے مقابلہ میں جادوگروں کا شکست کھانا ان آیات میں اول تو اجمالی طور پر ان پیغمبروں کی آمد اور تبلیغ اور قوموں کی تکذیب کا حال بیان فرمایا جو حضرت نوح اور حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے درمیان تھے۔ جب لوگوں کے پاس حق آیا تو پہلے سے جس کفر پر جمے ہوئے تھے اسی پر جمے رہے اور حق کو قبول نہ کیا ان لوگوں کے عناد کی وجہ سے ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی۔ لہٰذا حق کو قبول کرنے کی صلاحیت ہی نہ رہی۔ اس کے بعد حضرت موسیٰ اور ہارون ( علیہ السلام) کی بعثت کا تذکرہ فرمایا کہ ان دونوں کو ہم نے فرعون اور اس کی قوم کے سرداروں کی طرف بھیجا جو ہماری آیات و معجزات لے کر پہنچے جب فرعون اور اس کی قوم کے سرداروں کے پاس ان دونوں حضرات نے حق پیش کیا اور توحید کی دعوت دی اور غیر اللہ کی عبادت چھوڑنے کا حکم فرمایا تو ان لوگوں نے تکبر کیا اور حق قبول کرنے کو اپنی شان کے خلاف سمجھا ‘ جیسا کہ سورة مومنون میں ان کا قول نقل فرمایا ہے (اَنُؤْمِنُ لِبَشَرَیْنِ مِثْلِنَا وَقَوْمُھُمَا لَنَا عٰبِدُوْنَ ) (کیا ہم اپنے جیسے دو آدمیوں پر ایمان لائیں حالانکہ ان کی قوم ہمارے زیر حکم ہے) یہ لوگ پہلے سے مجرم تھے کافر تھے اور کفر پر ہی پر جمے رہے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے حجت بازی کی ان سے کہا کہ اپنے رسول ہونے کی نشانی پیش کرو انہوں نے اپنے گریبان میں ہاتھ ڈال کر نکالا تو بہت زیادہ سفید تھا اور اپنی لاٹھی زمین پر ڈال دی تو وہ اژدھا بن گئی ‘ اس پر وہ لوگ کہنے لگے کہ یہ تو کھلا ہوا جادو ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ تم حق کو جادو کہتے ہو۔ ہوش کی دوا کرو۔ کیا یہ جادو ہے ؟ اور یہ بھی سمجھ لو کہ جادو گر کامیاب نہیں ہوتے۔ وہ تو دنیا میں ذلیل رہتے ہیں اور آخرت میں بھی ان کے لئے تباہی ہے اور خاص کر جو شخص جادو کے ذریعہ نبوت کا دعویٰ کرے ‘ وہ تو اپنے دعویٰ میں کامیاب ہو ہی نہیں سکتا۔ اس میں یہ بات بیان فرمائی کہ دیکھو میں تو کامیاب ہوں اور کامیاب رہوں گا اور جو شخص میرے مقابلہ میں آئے گا وہ ناکام ہوگا۔ فرعون اور اس کے درباری کہنے لگے جی ہاں ہم نے سمجھ لیاتمہارا یہ مطلب ہے کہ ہم نے اپنے باپ دادوں کو جس دین پر پایا ہے اس سے تم ہمیں ہٹا دو اور جب ہم تم پر ایمان لے آئیں تو پھر زمین میں تمہارا ہی حکم چلے اور تمہیں ہی سرداری مل جائے اور تم ہی صاحب اقتدار ہوجاؤ۔ فکر ہر کس بقدر ہمت اوست۔ اہل دنیا ‘ دنیا ہی کو سب کچھ سمجھتے ہیں اور جس طرح خود دنیا کے طالب ہوتے ہیں اسی طرح دوسروں کے بارے میں ایسا ہی خیال کرتے ہیں کہ یہ بھی طالب دنیا ہے۔ اور اس کی ساری محنت کوشش اس لئے ہے کہ اسے ملک مل جائے۔ آخرت کی بڑائی اور بلندی ان کے سامنے ہوتی ہی نہیں۔ فرعون نے اور اس کی جماعت نے حضرت موسیٰ و ہارون ( علیہ السلام) سے یہی کہا کہ تم دنیا کے طالب ہو سر زمین مصر کی حکومت چاہتے ہو (والعیاذ باللہ) چونکہ ان کی لاٹھی والا معجزہ دیکھ کر فرعون اور اس کے درباریوں نے یوں کہا کہ یہ کھلا ہوا جادو ہے اس لئے جادو کا مقابلہ کرانے کے لئے جادو گروں کو طلب کرنے کی سوجھی۔ فرعون نے کہا میری قلم رو میں جتنے بھی ماہر جادوگر ہیں سب کو بلالو۔ چناچہ جادو گر بلائے گئے اور مقابلے کی بات چلی جب وہ لوگ سامنے آئے تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہنے لگے کہ بولئے آپ اپنی لاٹھی ڈالیں گے یا ہم پہلے ڈالیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا پہلے تم ڈالو ‘ انہوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں ڈالیں جو ان کے جادو کی وجہ سے دوڑتے ہوئے سانپ معلوم ہو رہی تھیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی لاٹھی ڈالی تو وہ اژدھا بن گئی۔ اور ان کی ڈالی ہوئی چیزوں کو اس نے چٹ کرنا شروع کردیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے پہلے ہی فرما دیا تھا کہ دیکھو تم جو کچھ لے کر آئے ہو جادو ہے اور میں جو کچھ لے کر آیا ہوں وہ جادو نہیں ہے۔ فرعون اسے جادو کہہ رہا ہے۔ بلاشبہ ابھی ابھی اللہ تمہارے جادو کو باطل قرار دے گا۔ چناچہ سب نے دیکھ لیا کہ جادوگر اپنی جادو گری میں ناکام ہوئے پھر وہ موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لائے اور اس بات کا اقرار کیا کہ جو کچھ موسیٰ کے پاس ہے وہ جادو نہیں ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ بھی فرمایا (اِنَّ اللّٰہَ لَا یُصْلِحُ عَمَلَ الْمُفْسِدِیْنَ ) (بلاشبہ اللہ فساد کرنے والوں کا کام نہیں بننے دیتا) اللہ کے نبی کے مقابلہ میں جو شخص آئے گا وہ فسادی ہوگا وہ مقابلہ میں ٹک نہیں سکتا۔ (وَیُحِقُّ اللّٰہُ الْحَقَّ بِکَلِمٰتِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْمُجِرْمُوْنَ ) (اور اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کے موافق حق کو ثابت فرماتا ہے اگرچہ مجرمین کو یہ ناگوار ہو) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے جو اللہ کا وعدہ تھا اِنَّکَ اَنْتَ الْاَعْلٰی وہ پورا ہوا۔ فرعون اور فرعونیوں کو اور جادوگروں کو شکست فاش ہوئی۔ فالحمد للّٰہ علی ماقضٰی۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

95: یہ تخویف دنیوی کا دوسرا تفصیلی نمونہ ہے، حضرت موسیٰ و ہارون (علیہما السلام) کو فرعون اور اس کی قوم کے پاس آیت بینات اور دلائل و معجزات دے کر بھیجا گیا مگر فرعون اور اس کی قوم جو حکومت و دولت کے نشہ میں بد مست تھے پیغام حق اور دعوت توحید کو ٹھکرا دیا اور اللہ کے پیغمبر کے ساتھ مجادلہ و مکابرہ پر اتر آئے آخر جب اللہ نے ان کے مطالبہ کے مطابق ان پر اپنی حجت قائم کردی تو بھی وہ ایمان نہ لائے اور تکذیب و انکار پر مصر رہے جس کا انجام انہوں نے اپنی عبرتناک تباہی کی صورت میں اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

75 پھر ان رسولوں کے بعد ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کو اپنے معجزات اور دلائل دیکر فرعون اور اس کے روساء کی طرف بھیجا پس فرعون اور اس کے روساء نے تصدیق کرنے سے تکبر کیا اور وہ لوگ ارتکاب جرائم کے خوگر ہوچکے تھے اور عادی بن گئے تھے یعنی نوح (علیہ السلام) کے بعد بہت سے پیغمبرآتے رہے اور ان پیغمبروں کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کو بھیجا گیا لیکن فرعونیوں نے بجائے قبول کرنے کے تکبر کا اظہار کیا اور دونوں بھائیوں کو اپنی رعایا سمجھ کر ان پر ایمان لانے سے انکار کردیا اور ان کے معجزات کو جادو بتایا۔