Surat Younus

Surah: 10

Verse: 76

سورة يونس

فَلَمَّا جَآءَہُمُ الۡحَقُّ مِنۡ عِنۡدِنَا قَالُوۡۤا اِنَّ ہٰذَا لَسِحۡرٌ مُّبِیۡنٌ ﴿۷۶﴾

So when there came to them the truth from Us, they said, "Indeed, this is obvious magic."

پھر جب ان کو ہمارے پاس سے صحیح دلیل پہنچی تو وہ لوگ کہنے لگے کہ یقیناً یہ صریح جادو ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَلَمَّا جَاءهُمُ الْحَقُّ مِنْ عِندِنَا قَالُواْ إِنَّ هَـذَا لَسِحْرٌ مُّبِينٌ So, when came to them the truth from us, they said: "This is indeed clear magic." They were as if they gave an oath that what they had said was the truth. But they knew that what they were saying was a mere lie. As Allah said: وَجَحَدُواْ بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَأ أَنفُسُهُمْ ظُلْماً وَعُلُوّاً And they belied them wrongfully and arrogantly, though they themselves were convinced thereof. (27:14) Musa criticized them saying: قَالَ مُوسَى أَتقُولُونَ لِلْحَقِّ لَمَّا جَاءكُمْ أَسِحْرٌ هَـذَا وَلاَ يُفْلِحُ السَّاحِرُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

76۔ 1 جب انکار کے لئے کوئی معقول دلیل نہیں ہوتی تو اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے کہہ دیتے ہیں کہ یہ تو جادو ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَلَمَّا جَاۗءَھُمُ الْحَقُّ ۔۔ : ” ہماری طرف سے حق “ اس حق کی عظمت کے بیان کے لیے ہے جو موسیٰ (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کی طرف سے لے کر آئے۔ اس واضح حق کی تردید جب وہ کسی طرح نہ کرسکے تو اسے جادو کہہ دیا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَلَمَّا جَاۗءَھُمُ الْحَقُّ مِنْ عِنْدِنَا قَالُوْٓا اِنَّ ہٰذَا لَسِحْرٌ مُّبِيْنٌ۝ ٧٦ لَمَّا يستعمل علی وجهين : أحدهما : لنفي الماضي وتقریب الفعل . نحو : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران/ 142] . والثاني : عَلَماً للظّرف نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف/ 96] أي : في وقت مجيئه، وأمثلتها تکثر . ( لما ( حرف ) یہ دوطرح پر استعمال ہوتا ہے زمانہ ماضی میں کسی فعل کی نفی اور اس کے قریب الوقوع ہونے کے لئے جیسے فرمایا : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران/ 142] حالانکہ ابھی خدا نے تم میں سے جہاد کرنے والوں کو اچھی طرح معلوم کیا ہی نہیں ۔ اور کبھی یہ اسم ظرف ک طورپر استعمال ہوتا ہے ۔ اور یہ قرآن میں بکژت آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف/ 96] جب خوشخبری دینے والا آپہنچا۔ حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ سحر والسِّحْرُ يقال علی معان : الأوّل : الخداع وتخييلات لا حقیقة لها، نحو ما يفعله المشعبذ بصرف الأبصار عمّا يفعله لخفّة يد، وما يفعله النمّام بقول مزخرف عائق للأسماع، وعلی ذلک قوله تعالی: سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف/ 116] والثاني : استجلاب معاونة الشّيطان بضرب من التّقرّب إليه، کقوله تعالی: هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّياطِينُ تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الشعراء/ 221- 222] ، والثالث : ما يذهب إليه الأغتام «1» ، وهو اسم لفعل يزعمون أنه من قوّته يغيّر الصّور والطّبائع، فيجعل الإنسان حمارا، ولا حقیقة لذلک عند المحصّلين . وقد تصوّر من السّحر تارة حسنه، فقیل : «إنّ من البیان لسحرا» «2» ، وتارة دقّة فعله حتی قالت الأطباء : الطّبيعية ساحرة، وسمّوا الغذاء سِحْراً من حيث إنه يدقّ ويلطف تأثيره، قال تعالی: بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ [ الحجر/ 15] ، ( س ح ر) السحر اور سحر کا لفظ مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے اول دھوکا اور بےحقیقت تخیلات پر بولاجاتا ہے جیسا کہ شعبدہ باز اپنے ہاتھ کی صفائی سے نظرون کو حقیقت سے پھیر دیتا ہے یانمام ملمع سازی کی باتین کرکے کانو کو صحیح بات سننے سے روک دیتا ہے چناچہ آیات :۔ سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف/ 116] تو انہوں نے جادو کے زور سے لوگوں کی نظر بندی کردی اور ان سب کو دہشت میں ڈال دیا ۔ دوم شیطان سے کسی طرح کا تقرب حاصل کرکے اس سے مدد چاہنا جیسا کہ قرآن میں ہے : هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّياطِينُ تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الشعراء/ 221- 222] ( کہ ) کیا تمہیں بتاؤں گس پر شیطان اترا کرتے ہیں ( ہاں تو وہ اترا کرتے ہیں ہر جھوٹے بدکردار پر ۔ اور اس کے تیسرے معنی وہ ہیں جو عوام مراد لیتے ہیں یعنی سحر وہ علم ہے جس کی قوت سے صور اور طبائع کو بدلا جاسکتا ہے ( مثلا ) انسان کو گدھا بنا دیا جاتا ہے ۔ لیکن حقیقت شناس علماء کے نزدیک ایسے علم کی کچھ حقیقت نہیں ہے ۔ پھر کسی چیز کو سحر کہنے سے کبھی اس شے کی تعریف مقصود ہوتی ہے جیسے کہا گیا ہے (174) ان من البیان لسحرا ( کہ بعض بیان جادو اثر ہوتا ہے ) اور کبھی اس کے عمل کی لطافت مراد ہوتی ہے چناچہ اطباء طبیعت کو ، ، ساحرۃ کہتے ہیں اور غذا کو سحر سے موسوم کرتے ہیں کیونکہ اس کی تاثیر نہایت ہی لطیف ادرباریک ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ [ الحجر/ 15]( یا ) یہ تو نہیں کہ ہم پر کسی نے جادو کردیا ہے ۔ یعنی سحر کے ذریعہ ہمیں اس کی معرفت سے پھیر دیا گیا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٦) اور وہ لوگ مشرک تھے، جب ان کے پاس کتاب رسول اور معجزات آئے تو وہ لوگ کہنے لگے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جس چیز کو لے کر آئے ہیں (نعوذ باللہ) وہ صریح جھوٹ جادو ہے اور اگر ساحر پڑھا جائے تو پھر مقصود یہ کہ نعوذ باللہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) صریح جھوٹے جادوگر ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

74. The response of the Pharaonites to the Prophet Moses (peace be on him) was exactly the same as the response of (he Makkan unbelievers to the Prophet (peace be on him). This response bar, been mentioned earlier (see verse 2 above) in these words: 'This man is indeed an evident sorcerer.' The context makes it clear that the Prophets Moses and Aaron (peace be on them) were entrusted with the same mission which had formerly been entrusted to Prophet Noah (peace be on him), then to the Prophets who followed him and finally to the Prophet Muhammad (peace be on him) who was the last in the chain of such Prophets. From the outset, the thrust of the surah has been the same - that man should take God, the Lord of the universe, and Him alone, as his Lord and as the sole object of his worship, service and obedience, and that he has to render to Him an account of all his deeds. Now, those who had rejected the message of the Prophet (peace be on him) are being told that their well-being as well as that of all human beings rests on affirming their belief in the One True God and in the Hereafter, a belief which has been invariably expounded by the Prophets down the ages. Man's well-being depends on affirming this belief, and on fashioning his entire behaviour on the basis of that. This constitutes the pivotal point of the whole surah. The reference to other Prophets (peace be on them) in this surah by way of historical illustration indicates that the message of all the Prophets was the same as the one embodied in this surah. The Prophets Moses and Aaron (peace be on (hem) had conveyed the same message to Pharaoh and his chiefs. Had the mission of these two Prophets been merely to liberate a specific nation, as some people are inclined to believe, reference to this event for the purpose of historical illustration would have been quite discordant with the context in which it occurs. There can be no doubt that the mission of Moses and Aaron partially aimed at bringing about the liberation of the Israelites (then, a Muslim people) from the domination of an unbelieving nation. This was, however, a secondary rather than the central purpose of raising those Prophets. According to the Qur'an the main objective of the mission of these two Prophets was the same as that of all other Prophets. An objective which has been clearly set forth in the following verses of: 'Go to Pharaoh for he has certainly transgressed all bounds (of servitude to Allah). And say to him: "Would you rather be purified; and that I guide you to your Lord that you may fear Him" ' (al-Nazi'at 79: 17-19). Now, since Pharaoh and his nobles did not respond positively to this call, the Prophet Moses (peace be on him) was ultimately left with no other choice but to secure the liberation of his people, who were Muslims, and to take them away from the area dominated by Pharaoh. This was of course a fairly important event, and the Qur'anic narration of it also treats it as such. However, all those who are not inclined to view the detailed teachings of the Qur'an in isolation from its general principles, can never commit the mistake of considering the liberation of a people to be the basic purpose of raising a Prophet whereas inviting people to the true faith is of secondary significance, (For further details see Ta Ha 20: 44-52; al-Zukhruf 43: 46-56; and al-Muzzammil 73: 15-16.)

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٧٦۔ ٨٢۔ جس طرح اکثر منکر لوگوں نے پیغمبروں کے معجزوں کو جادو اور پیغمبروں کو جادوگر بتلایا ہے فرعون اور اس کے ساتھیوں نے بھی حضرت موسیٰ کے عصا اور ید بیضا کو دیکھ کر جادو کہا فرعون کے زمانہ میں جادو کا بڑا چرچہ اور زور تھا فرعون کی طرف سے بہت سے جادوگر جاگیریں پاتے تھے اور مصر کے اطراف میں اپنی جاگیرات میں رہتے تھے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کو اس لئے یہی جواب دیا کہ تائید آسمانی اور معجزہ نبوی کو اگر تو سمجھتا ہے تو اپنے بڑے بڑے جادوگروں کو بلا کر مجھ سے مقابلہ کرالے اور دیکھ لے کہ تائید آسمانی کے مقابلہ میں جادو کبھی سر سبز نہ ہوگا آخر فرعون نے اپنے جادوگر بلوائے اور فرعون کی سالگرہ کا دن جو بڑے اس کے دربار کا دن تھا مقابلہ کا دن قرار پایا اور جنگل میں ہزارہا آدمی جمع ہوئے اور فرعون کے جادوگر آخر مقابلہ کی تاب نہ لاسکے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت پر ایمان لے آئے فرعون کے ایمان لانے کے لئے اگرچہ یہ معجزہ کافی تھا مگر اس کے سر پر ازلی کمبختی سوار تھی آخر ایمان نہ لایا اور پھر بھی معجزہ کو جادو بتلاتا رہا اور خواری اور ذلت سے ہلاک ہوا یہ قصہ تفصیل سے سورة اعراف میں گزر چکا ہے اور سورة طہ اور سورة شعراء اور سورة قصص میں پھر آوے گا اس قصہ میں بھی آنحضرت کی یہ تسکین اللہ تعالیٰ نے فرمائی ہے اگرچہ قریش معجزہ اور قرآن کو جادو اور اے نبی تم کو جادوگر بتلا رہے ہیں لیکن بالآخر فرعون کے جادوگروں کی طرح اکثر ان کے قائل ہو کر اسلام لاویں گے اور فرعون کی طرح جو سرکشی پر اڑے رہیں گے ہلاک کر دئیے جاویں گے اللہ کا وعدہ سچا ہے تیرہ برس کی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کوشش میں جس مکہ میں سو کے اندر مسلمانوں کی تعداد تھی دس برس کے بعد جب اللہ تعالیٰ کا مقررہ وقت آگیا تو سارا مکہ مسلمانوں سے بھر گیا اور آج تک یہ ہدایت کا اثر باقی ہے کہ سوا مسلمان کلمہ گو کے اور کوئی مکہ میں نظر نہیں آتا اور مشرکین مکہ میں سے جو لوگ مرتے دم تک راہ راست پر نہیں آئے ان کا انجام بدر کی لڑائی میں جو ہوا وہ کچھ تو بدر کی لڑائی کے قصہ میں گزر چکا اور کچھ آگے آتا ہے غرض ہر کام کا اللہ کی طرف سے وقت مقرر ہے وقت کا منتظر رہنا چاہیے گھبرانا نہیں چاہیے۔ تفسیر ابو الشیخ اور تفسیر ابن ابی حاتم میں لیث بن ابی سلیم سے روایت ہے کہ آیت { ان اللّٰہ سیبطلہ } اور آیت { فوقع الحق } اور آیت { ولا یفلح الساحر حیث اتی } (٢٠: ٦٩) پانی پر چڑھ کر وہ پانی جادو کے اثر والے شخص کے سر پر ڈالا جاوے تو فوراً فائدہ ہوتا ہے۔ ١ ؎ صحیح بخاری میں ابو طلحہ کے واسطے سے اور صحیح مسلم میں بغیر واسطہ کے انس بن مالک (رض) کی روایتیں ایک جگہ گزر چکی ہیں جس میں یہ ہے کہ بدر کی لڑائی میں مشرکین مکہ کے بڑے بڑے سردار جو مارے گئے تھے ان کی لاشوں پر کھڑے ہو کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فرمایا کہ اب تو تم لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے وعدہ کو سچا پالیا۔ ٢ ؎ مطلب یہ ہے کہ قرآن شریف میں جس عذاب آخرت کا وعدہ تھا اور اس کو تم لوگ جادوگروں کی باتوں کی طرح جانتے تھے اب تو تم لوگوں نے اس وعدہ کا ظہور آنکھوں سے دیکھ لیا یا اب بھی تمہاری آنکھوں پر وہی پردہ پڑا ہے جو دنیا میں تھا۔ سورة والطور کی آیت { افسحر ھذا ام انتم لا تبصرون (٥٢: ١٥)} کا مطلب بھی یہی ہے جو انس بن مالک (رض) کی حدیث کا ہے فرق اتنا ہے کہ حدیث میں قرآن کو جادو کہنے والے مشرکین مکہ کو اللہ کے رسول نے عذاب قبر جتلایا اور قائل کیا ہے سورة والطور کی آیت میں اللہ کے فرشتے آسمانی کتابوں کو جادو بتلانے والے مشرکوں کو دوزخ کا عذاب گھڑی گھڑی جتلادیں گے اور قائل کریں گے حاصل کلام یہ ہے کہ والطور کی آیت اور انس بن مالک (رض) کی حدیث کو ان آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس سے آسمانی کتابوں معجزوں کو جادو اور اللہ کے رسولوں کو جادوگر کہنے والوں کا انجام اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے معجزہ اور جادو میں یہ فرق ہے کہ معجزہ سے جو چیز ظہور میں آتی ہے وہ اصلی ہوتی ہے اور جادو سے جو چیز ظہور میں آتی ہے وہ اصلی نہیں ہوتی اسی واسطے جادو کے اثر کے ہزارہا سانپ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ایک معجزہ کے سانپ کا مقابلہ نہ کرسکے جن لیث بن ابی سلیم تابعی کا ذکر اوپر گزرا یہ ابن جریح کے مرتبہ کے صدوق تابعی ہیں اگرچہ آخر عمر میں ان کا حافظہ بگڑ گیا تھا لیکن ابن معین نے ان کو قابل اعتبار ٹھہرایا ہے۔ ٣ ؎ ١ ؎ تفسیر ابن کثیر ٤٢٧ ج ٢۔ ٢ ؎ صحیح بخاری ص ٥٦٦ ج ٢ باب قتل ابی جہل۔ ٣ ؎ تہذیب ص ٤٦٧ ج ٨۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ مراد اس سے معجزہ ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ سورۃ طہٰ میں تفصیل ہے کہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) مدین سے واپسی پر شجر مبارکہ کے پاس روشنی کے قریب پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے آواز دی کہ اے موسیٰ میں تیرا رب ہوں اور تو مقدس وادی میں داخل ہوچکا ہے۔ اس لیے اپنے جوتے اتار دے۔ میں نے تجھے نبوت کے لیے منتخب کرلیا ہے۔ لہٰذا جو تیری طرف وحی کی جاتی ہے اسے توجہ کے ساتھ سن، یقین کر ! میں اللہ ہوں میرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ بس میری عبادت کر اور میری یاد کے لیے نماز قائم کر۔ بیشک قیامت آنے والی ہے جس کے برپا ہونے کو میں نے چھپا رکھا ہے۔ جب وہ برپا ہوگی تو ہر شخص کو اس کے کیے کا بدلا دیا جائے گا۔ جو شخص قیامت پر یقین نہیں رکھتا تجھے اس کے پیچھے نہیں لگنا چاہیے۔ جو اپنی خواہش کے پیچھے چلے گا وہ برباد ہوگا پھر استفسار فرمایا کہ تیرے ہاتھ میں کیا ہے موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کی میرے ہاتھ میں لاٹھی ہے۔ جس پر میں ٹیک لگا لیتا ہوں اور اپنی بکریوں کے لیے درختوں کے پتے جھاڑتا ہوں اور اس سے دوسرے کام بھی لیتا ہوں۔ ارشاد ہوا : اسے زمین پر پھینکیے موسیٰ (علیہ السلام) نے اسے زمین پر پھینکا تو وہ بہت بڑا سانپ بن کر دوڑنے لگا۔ ارشاد ہوا۔ ڈرنے کی بجائے اسے پکڑ لو۔ یہ پھر لاٹھی بن جائے گا۔ اب اپنے ہاتھ کو اپنی بغل میں دبا کر باہر نکالو۔ جو صحیح سالم چمکتا ہوا دکھائی دے گا۔ یہ دوسری نشانی ہے۔ ان کے ساتھ فرعون کی طرف جاؤ بلاشبہ وہ بڑا باغی انسان ہے۔ سورة طٰہٰ میں میں بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا اے موسیٰ تو اور تیرا بھائی ان معجزات کے ساتھ فرعون کے پاس جاؤ اور میرے ذکر میں غفلت نہ کرنا بیشک فرعون بڑا سرکش اور باغی ہے۔ لیکن بات نہایت نرمی کے ساتھ کہنا ہوسکتا ہے وہ نصیحت قبول کرے اور ڈر جائے۔ دونوں بھائیوں نے اپنے رب سے عرض کی کہ ہمیں ڈر لگتا ہے کہ ہم پر وہ زیادتی کرے گا۔ ارشاد ہوا ہرگز نہیں ڈرنا کیونکہ میری رفاقت تمہارے ساتھ ہوگی اور میں تمہیں دیکھتے ہوئے تمہارے ساتھ ہوں گا۔ جب حضرت موسیٰ اور جناب ہارون (علیہ السلام) فرعون کے پاس پہنچے تو انہوں نے اسے فرمایا کہ بنی اسرائیل کو آزاد کردو اور اللہ تعالیٰ پر ایمان لاؤ۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق چلے گا وہ سلامت رہے گا یقیناً ہمیں اللہ تعالیٰ نے تیرے پاس بھیجا ہے اور ہم پر وحی کی گئی ہے کہ جس نے اللہ تعالیٰ کی ہدایت کو جھٹلایا اور ٹھکرایا اسے شدید ترین عذاب ہوگا۔ ( طٰہٰ : ٤٧۔ ٤٨) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کے مابین مکالمہ : (قَالَ فَمَنْ رَّبُّکُمَا یَا مُوسٰی)[ طٰہٰ : ٤٩] فرعون : ” حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہ تمہارا رب کون ہے ؟ “ (قَالَ رَبُّنَا الَّآِیْ أَعْطٰی کُلَّ شَیْءٍ خَلْقَہٗ ثُمَّ ہَدٰی)[ طٰہٰ : ٥٠] حضرت موسیٰ (علیہ السلام) : ” ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو پیدا کیا اور اس کی رہنمائی فرمائی۔ “ (قَالَ فَمَا بَالُ الْقُرُوْنِ الْأُوْلَی)[ طٰہٰ : ٥١] فرعون : ” اے موسیٰ جو پہلے لوگ گزر چکے ان کا کیا حال ہوگا۔ “ (قَالَ عِلْمُہَا عِنْدَ رَبِّی فِیْ کِتَابٍ لَا یَضِلُّ رَبِّیْ وَلَا یَنْسٰی)[ طٰہٰ : ٥٢] حضرت موسیٰ (علیہ السلام) : ” ان کا علم میرے رب کے پاس ہے جو لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے میرا رب نہ چوکتا ہے نہ بھولتا۔ “ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کا تفصیلی تعارف کرایا اور اس کی توحید بیان فرمائی اور قیامت کے دلائل دیئے لیکن اس نے نہ صرف دلائل کو ٹھکرایا بلکہ معجزات دیکھنے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی توحید اور موسیٰ (علیہ السلام) کی رسالت کا انکار کرتے ہوئے اپنے حواریوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ دونوں بھائی جادو کے ذریعے تمہارے ملک سے تمہیں نکالنا چاہتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی یہ چیلنج دیا کہ ہم تمہارے مقابلے میں اس سے بڑا جادو پیش کریں گے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اسے بہت سمجھایا کہ جادوگر کبھی کامیاب نہیں ہوتے کیونکہ ان کے کام میں سچائی نہیں ہوتی۔ یہاں اس کا اختصار ہے کہ جب فرعون اور اس کے ساتھیوں کے پاس حق پہنچ چکا تو انہوں نے کہا یہ تو جادو ہے۔ جس کا جواب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ دیا کہ حق بات کو جادو کہتے ہو، جادوگر تو کبھی اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوتا۔ گویا کہ دوسرے الفاظ میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے انہیں سمجھایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حق ہے جو غالب آکر رہے گا۔ جادو کفر ہے : (وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُو الشَّیَاطِینُ عَلَی مُلْکِ سُلَیْمَانَ وَمَا کَفَرَ سُلَیْمَانُ وَلَکِنَّ الشَّیَاطِینَ کَفَرُوا یُعَلِّمُون النَّاس السِّحْرَ وَمَا أُنْزِلَ عَلَی الْمَلَکَیْنِ بِبَابِلَ ہَارُوتَ وَمَارُوتَ وَمَا یُعَلِّمَانِ مِنْ أَحَدٍ حَتَّی یَقُولَا إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَۃٌ فَلَا تَکْفُرْ )[ البقرۃ : ١٠٢] ” اور وہ اس چیز کے پیچھے لگ گئے جسے شیاطین حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کی مملکت میں پڑھتے تھے۔ سلیمان ( علیہ السلام) نے تو کفر نہیں کیا تھا۔ یہ کفر تو شیطان کرتے تھے جو لوگوں کو جادو سکھایا کرتے تھے جو بابل میں ہاروت وماروت دو فرشتوں پر اتارا گیا۔ وہ دونوں بھی کسی شخص کو اس وقت تک نہیں سکھاتے تھے جب تک یہ نہ کہہ دیں کہ ہم تو ایک آزمائش میں ہیں تو کفر نہ کر۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے : ( لَیْسَ مِنَّا مَنْ تَطَیَّرَ اَوْتُطُیِّرَلَہٗ اَوْتَکَھَّنَ اَوْتُکُھِّنَ لَہُ اَوْ سَحَرَ اَوْ سُحِرَ لَہُ وَمَنْ اَتیٰ کَا ھِنًا فَصَدَّقَہُ بِمَا یَقُوْلُ فَقَدْ کَفَرَ بِمَااُنْزِلَ عَلٰی مُحَمَّدٍ ) [ الترغیب و الترہیب ] ” جو شخص فال نکالے یا اس کے لیے فال نکالی جائے ‘ کوئی غیب کی خبریں دے یا اس کے لیے کوئی دوسرا ایسی خبر دے ایسے ہی کوئی خود جادوگر ہو یا دوسرا شخص اس کے لیے جادو کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ جو کوئی ایسے شخص کے پاس جائے اور اسکی باتوں کی تصدیق کرے اس نے ہر اس بات کا انکار کیا جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوئی ہے۔ “ مسائل ١۔ کفار حق کو جادو قرار دیتے ہیں۔ ٢۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو نصیحت کی۔ ٣۔ جادوگر کا میاب نہیں ہوتے۔ تفسیر بالقرآن فلاح نہ پانے والے لوگ : ١۔ جادو گرفلاح نہیں پاتے۔ (یونس : ٧٧) ٢۔ اس سے بڑا ظالم کون ہے جو اللہ کی آیات کی تکذیب کرتا ہے۔ بیشک ظالم فلاح نہیں پاتے۔ (الانعام : ٢١) ٣۔ یوسف (علیہ السلام) نے کہا اللہ کی پناہ مجھے میرے آقا نے بہتر ٹھکانہ دیا ہے یقیناً ظالم فلاح نہیں پاتے۔ (یوسف : ٢٣) ٤۔ اگر اللہ کا ہم پہ احسان نہ ہوتا تو ہم زمین میں دھنسا دیے جاتے کافر فلاح نہیں پاتے۔ ( القصص : ٨٢) ٥۔ بیشک وہ لوگ جو اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں فلاح نہیں پائیں گے۔ (یونس : ٦٩۔ النحل : ١١٦) ٦۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا میرا رب خوب جانتا ہے اس کی جناب سے کون ہدایت لے کر آیا ہے اور کس کے لیے آخرت کا گھر ہے یقیناً ظالم فلاح نہیں پائیں گے۔ (القصص : ٣٧) ٧۔ انہوں نے جادو کا کھیل کھیلا ہے اور جادوگر فلاح نہیں پاتے۔ (طٰہٰ : ٦٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فلماء جاء ھم الحق الخ : پھر جب ان کے پاس ہماری طرف سے حق پہنچ گیا تو کہنے لگے : بلاشبہ یہ (یعنی موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات) کھلا ہوا جادو ہے۔ یعنی جب فرعون اور اس کے سرداروں کے پاس دین حق پہنچا اور واضح ‘ ناقابل شک معجزات سے اس کی حقانیت و صداقت کو وہ سمجھ بھی گئے تب بھی ضد اور سرکشی کی وجہ سے انہوں نے نہ مانا اور موسیٰ کے پیش کردہ معجزات کو کھلاہوا جادو قرار دیا اور موسیٰ کو ماہر جادوگر کہا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

96: جب قوم فرعون کے پاس ہمارے پیغمبر معجزات لے کر پہنچے تو انہوں نے معجزات کو جادو قرار دیا اور ان کے من جانب اللہ ہونے سے انکار کیا۔ “ وَقَالَ مُوْسیٰ الخ ” ان کے اس قول باطل کے جواب میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا تم اللہ کے دئیے ہوئے معجزات کو جو سراپا حق ہیں جادو کہہ رہے ہو کیا یہ معجزے جادو ہیں جو پوری تحدی اور چیلنج کے ساتھ تمہارے سامنے پیش کیے جا رہے ہیں حالانکہ جادو گروں میں ایسی جرات و جسارت کہاں کہ وہ اس طرح تحدی کریں اور پھر کامیاب بھی ہوجائیں کیونکہ جادو ایک فریب ہے جو چل نہیں سکتا “ یعنی حاصل السحر تمویه و تخییل و صاحب ذلک لا یفلح ” (خازن ج 3 ص 202) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

76 پھر جب ان کے پاس ہماری طرف سے صحیح دلیل اور سچی پہونچی تو وہ کہنے لگے یہ تو یقینا صریح اور کھلا ہوا جادو ہے یعنی عصا اور ید بیضا کا معجزہ دیکھ کر جادو بتانے لگے۔