Surat Younus

Surah: 10

Verse: 77

سورة يونس

قَالَ مُوۡسٰۤی اَتَقُوۡلُوۡنَ لِلۡحَقِّ لَمَّا جَآءَکُمۡ ؕ اَسِحۡرٌ ہٰذَا ؕ وَ لَا یُفۡلِحُ السّٰحِرُوۡنَ ﴿۷۷﴾

Moses said, "Do you say [thus] about the truth when it has come to you? Is this magic? But magicians will not succeed."

موسٰی ( علیہ السلام ) نے فرمایا کہ کیا تم اس صحیح دلیل کی نسبت جب وہ کہ تمہارے پاس پہنچی ایسی بات کہتے ہو کیا یہ جادو ہے ، حالانکہ جادوگر کامیاب نہیں ہوا کرتے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

77۔ 1 حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہ ذرا سوچو تو سہی، حق کی دعوت اور صحیح بات کو تم جادو کہتے ہو، بھلا یہ جادو ہے جادوگر تو کامیاب ہی نہیں ہوتے۔ یعنی مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے اور ناپسندیدہ انجام سے بچنے میں وہ ناکام ہی رہتے ہیں اور میں تو اللہ کا رسول ہوں، مجھے اللہ کی مدد حاصل ہے اور اس کی طرف سے مجھے معجزات اور آیات بینات عطا کی گئی ہیں مجھے سحر و ساحری کی ضرورت ہی کیا ہے ؟ اور اللہ کے عطا کردہ معجزات کے مقابلے میں اس کی حیثیت ہی کیا ہے ؟

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٠] سیدنا موسیٰ کا جواب & جادوگر اور نبی کا فرق :۔ فرعون اور اس کے درباریوں کے اس جواب پر سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے پوچھا کہ جس انداز میں میں تمہیں اللہ کا پیغام پہنچا رہا ہوں کیا جادوگروں کے بھی ایسے رنگ ڈھنگ ہوتے ہیں ؟ جو اگر تمہارے پاس آنا چاہیں تو پہلے واسطہ تلاش کرتے اور داخلے کی اجازت چاہتے ہیں پھر اگر وہ اس مرحلہ میں کامیاب ہو کر تم لوگوں تک پہنچ جائیں تو نہایت ذلت سے سر عجزو نیاز جھکائے تمہیں دعائیں دیتے اور آداب بجا لاتے ہیں۔ پھر شعبدہ دکھلانے کی اجازت چاہتے ہیں۔ پھر اس دھندہ سے فارغ ہوں تو پھر سلام کرتے اور انعام و اکرام کا مطالبہ کرتے ہیں اگر تم چاہو تو انھیں کچھ دو یا جھڑک کر کسی بھی مرحلہ پر نکال دو یا اندر آنے کی اجازت ہی نہ دو اور ان کی ساری زندگی اسی ذلت اور اسی دھندے میں گذر جاتی ہے اور ان کی ہوس ختم نہیں ہوتی تو کیا تمہیں ایک جادوگر میں اور مجھ میں کچھ بھی فرق نظر نہیں آتا ؟ (مزید وضاحت کے لیے دیکھیے جادو اور معجزہ کا فرق سورة اعراف، آیت نمبر ١٢٠) نیز ایک رسول اور جادوگر میں فرق کے لیے دیکھیے اسی سورة یونس کی آیت نمبر ٢)

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالَ مُوْسٰٓى اَتَقُوْلُوْنَ ۔۔ : مفسرین نے فرمایا کفار کے جواب میں درحقیقت یہ تین جملے ہیں، پہلا ” اَتَقُوْلُوْنَ لِلْحَقِّ “ یعنی یہ بات کہ ” یہ جادو ہے “ کیا تم حق کے بارے میں کہہ رہے ہو، جب کہ حق تمہارے سامنے ہے ؟ دوسرا ” اَسِحْرٌ ھٰذٰا “ کیا یہ جادو ہے ؟ یہ سوال انکار کے لیے ہے، جیسے کوئی پھول کو پتھر کہے تو اسے کہا جائے، کیا یہ پتھر ہے ؟ تیسرا یہ کہ جادوگر تو کامیاب نہیں ہوتے، جبکہ تم دیکھ رہے ہو کہ میں دلیل وبرہان کی رو سے کامیاب ہوں، تو پھر یہ جادو کیسے ہوسکتا ہے۔ اس میں آئندہ جادوگروں کے ساتھ مقابلہ میں اپنی کامیابی اور جادوگروں کی ناکامی کی طرف بھی اشارہ فرما دیا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَ مُوْسٰٓى اَتَقُوْلُوْنَ لِلْحَقِّ لَمَّا جَاۗءَكُمْ۝ ٠ ۭ اَسِحْرٌ ہٰذَا۝ ٠ ۭ وَلَا يُفْلِحُ السّٰحِرُوْنَ۝ ٧٧ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] والقَوْلُ يستعمل علی أوجه : أظهرها أن يكون للمرکّب من الحروف المبرز بالنّطق، مفردا کان أو جملة، فالمفرد کقولک : زيد، وخرج . والمرکّب، زيد منطلق، وهل خرج عمرو، ونحو ذلك، وقد يستعمل الجزء الواحد من الأنواع الثلاثة أعني : الاسم والفعل والأداة قَوْلًا، كما قد تسمّى القصیدة والخطبة ونحوهما قَوْلًا . الثاني : يقال للمتصوّر في النّفس قبل الإبراز باللفظ : قَوْلٌ ، فيقال : في نفسي قول لم أظهره . قال تعالی: وَيَقُولُونَ فِي أَنْفُسِهِمْ لَوْلا يُعَذِّبُنَا اللَّهُ [ المجادلة/ 8] . فجعل ما في اعتقادهم قولا . الثالث : للاعتقاد نحو فلان يقول بقول أبي حنیفة . الرابع : في الإلهام نحو : قُلْنا يا ذَا الْقَرْنَيْنِ إِمَّا أَنْ تُعَذِّبَ [ الكهف/ 86] فإنّ ذلک لم يكن بخطاب ورد عليه فيما روي وذكر، بل کان ذلک إلهاما فسماه قولا . ( ق و ل ) القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ قول کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ ( 1) عام طور پر حروف کے اس مجموعہ پر قول کا لفظ بولاجاتا ہے جو بذریعہ نطق کت زبان سے ظاہر ہوتے ہیں خواہ وہ الفاظ مفرد ہوں جملہ کی صورت میں منفرد جیسے زید خرج اور مرکب جیسے زید منطق وھل خرج عمر و نحو ذالک کبھی انواع ثلاثہ یعنی اسم فعل اور حرف میں ہر ایک کو قول کہا جاتا ہے جس طرح کہ تصیدہ اور خطبہ وغیرہ ہما کو قول کہہ دیتے ہیں ۔ ( 2 ) جو بات ابھی ذہن میں ہو اور زبان تک نہ لائی گئی ہو اسے بھی قول کہتے ہیں اس بناء پر قرآن میں آیت کریمہ : ۔ وَيَقُولُونَ فِي أَنْفُسِهِمْ لَوْلا يُعَذِّبُنَا اللَّهُ [ المجادلة/ 8] اور اپنے دل میں اگتے ہیں ( اگر یہ واقعی پیغمبر ہیں تو ) جو کچھ ہم کہتے ہیں خدا ہمیں اس کی سزا کیوں نہیں دیتا ۔ یعنی دل میں خیال کرنے کو قول سے تعبیر کیا ہے ۔ ( 3 ) رائے خیال اور عقیدہ پر بھی قول کا لفظ بولاجاتا ہے ۔ جیسے فلان یقول بقول ابی حنیفه ( فلان ابوحنیفہ کی رائے کا قائل ہے ) ( 4 ) الہام کرنا یعنی کسی کے دل میں کوئی بات ڈال دینا جیسے فرمایا ؛ قُلْنا يا ذَا الْقَرْنَيْنِ إِمَّا أَنْ تُعَذِّبَ [ الكهف/ 86] ہم نے کہا ذولقرنین تم ان کو تکلیف دو ۔ یہاں قول بمعنی الہام اور القا کے ہے ۔ فلح والفَلَاحُ : الظَّفَرُ وإدراک بغية، وذلک ضربان : دنیويّ وأخرويّ ، فالدّنيويّ : الظّفر بالسّعادات التي تطیب بها حياة الدّنيا، وهو البقاء والغنی والعزّ ، وإيّاه قصد الشاعر بقوله : أَفْلِحْ بما شئت فقد يدرک بال ... ضعف وقد يخدّع الأريب وفَلَاحٌ أخرويّ ، وذلک أربعة أشياء : بقاء بلا فناء، وغنی بلا فقر، وعزّ بلا ذلّ ، وعلم بلا جهل . ولذلک قيل : «لا عيش إلّا عيش الآخرة» وقال تعالی: وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت/ 64] ( ف ل ح ) الفلاح فلاح کے معنی کامیابی اور مطلب وری کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے دینوی اور اخروی ۔ فلاح دنیوی ان سعادتوں کو حاصل کرلینے کا نام ہے جن سے دنیوی زندگی خوشگوار بنتی ہو یعنی بقاء لمال اور عزت و دولت ۔ چناچہ شاعر نے اسی معنی کے مدنظر کہا ہے ( نحلع البسیط) (344) افلح بماشئت فقد یدرک بالضد عف وقد یخدع الاریب جس طریقہ سے چاہو خوش عیشی کرو کبھی کمزور کامیاب ہوجاتا ہے اور چالاک دہو کا کھانا جاتا ہے ۔ اور فلاح اخروی چار چیزوں کے حاصل ہوجانے کا نام ہے بقابلا فناء غنا بلا فقر، عزت بلا ذلت ، علم بلا جہلاسی لئے کہا گیا ہے (75) لاعیش الاعیش الاخرۃ کہ آخرت کی زندگی ہی حقیقی زندگی ہے اور اسی فلاح کے متعلق فرمایا : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت/ 64] اور زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٧) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ تم کتاب اور رسول اور ان معجزات کے بارے میں جب کہ وہ تمہارے پاس پہنچے ایسی بات کہتے ہو حالانکہ جادوگر عذاب الہی سے محفوظ نہیں رہا کرتے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

75.In view of the apparent similarity between sorcery and miracle the Israelites hastily branded Moses (peace be on him) a sorcerer. In relegating Moses to the role of a sorcerer, however, these simpletons ignored the fact that the character and conduct as well as the motives underlying the activity of sorcerers are entirely different from those of the Prophets. Is it consistent with the known character of a sorcerer that he should fearlessly make his way to the court of a tyrant, reproach him for his error, and summon him to exclusively devote himself to God and to strive for his self-purification? What would rather seem to be consistent with the character of a sorcerer is that if he had gained access to the courtiers he would have gone about flattering them, soliciting their help in securing an opportunity to show his tricks. And if ever he succeeded in Finding his way to the royal court, he would probably have resorted to flattery in an even more abject and dishonourable manner, would have made himself hoarse in publicly praying for the long life and abiding glory of the ruler, and would then have humbly pleaded that he might be allowed to perform his show. And once the show was over, he would have disgracefully stretched forth his hands in the style of a beggar, entreating for an appropriate award. All this has been condensed into the succinct statement that 'sorcerers never come to a happy end'.

" سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :74 یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام کا پیغام سن کر وہی کچھ کہا جو کفار مکہ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام سن کر کہا تھا کہ ” یہ شخص تو کھلا جادوگر ہے“ ۔ ( ملاحظہ ہو اسی سورہ یونس کی دوسری آیت ) ۔ یہاں سلسلہ کلام کو نگاہ میں رکھنے سے یہ بات صریح طور پر ظاہر ہو جاتی ہے کہ حضرت موسیٰ وہارون علیہما السلام بھی دراصل اسی خدمت پر مامور ہوئے تھے جس پر حضرت نوح علیہ السلام اور ان کے بعد کے تمام انبیاء ، سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک ، مامور ہوتے رہے ہیں ۔ اس سورہ میں ابتدا سے ایک ہی مضمون چلا آرہا ہے اور وہ یہ کہ صرف اللہ رب العالمین کو اپنا رب اور الٰہ مانو اور یہ تسلیم کرو کہ تم کو اس زندگی کے بعد دوسری زندگی میں اللہ کے سامنے حاضر ہونا اور اپنے عمل کا حساب دینا ہے ۔ پھر جو لوگ پیغمبر کی اس دعوت کو ماننے سے انکار کر رہے تھے ان کو سمجھایا جا رہا ہے کہ نہ صرف تمہاری فلاح کا بلکہ ہمیشہ سے تمام انسانوں کی فلاح کا انحصار اسی ایک بات پر رہا ہے کہ اس عقیدہ توحید و آخرت کی دعوت کو ، جسے ہر زمانے میں خدا کے پیغبروں نے پیش کیا ہے ، قبول کیا جائے اور اپنا پورا نظام زندگی اسی بنیاد پر قائم کر لیا جائے ۔ فلاح صرف انہوں نے پائی جنہوں نے یہ کام کیا ، اور جس قوم نے بھی اس سے انکار کیا وہ آخرکار تباہ ہو کر رہی ۔ یہی اس سورہ کا مرکزی مضمون ہے ، اور اس سیاق میں جب تاریخی نظائر کے طور پر دوسرے انبیاء کا ذکر آیا ہے تو لازما اس کے یہی معنی ہیں کہ جو دعوت اس سورہ میں دی گئی ہے وہی ان تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی دعوت تھی ، اور اسی کو لے کر حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام بھی فرعون اور اس کی قوم کے سرداروں کے پاس گئے تھے ۔ اگر واقعہ وہ ہوتا جو بعض لوگوں نے گمان کیا ہے کہ حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام کا مشن ایک خاص قوم کو دوسری قوم کی غلامی سے رہا کرانا تھا ، تو اس سیاق و سباق میں اس واقعہ کو تاریخی نظیر کے طور پر پیش کرنا بالکل بے جوڑ ہوتا ۔ اس میں شک نہیں کہ ان دونوں حضرات کے مشن کا ایک جزء یہ بھی تھا کہ بنی اسرائیل ( ایک مسلمان قوم ) کو ایک کافر قوم کے تسلط سے ( اگر وہ اپنے کفر پر قائم رہے ) نجات دلائیں ۔ لیکن یہ ایک ضمنی مقصد تھا نہ کہ اصل مقصد بعثت ۔ اصل مقصد تو وہی تھا جو قرآن کی رو سے تمام انبیاء علیہم السلام کی بعثت کا مقصد رہا ہے اور سورہ نازعات میں جس کو صاف طور پر بیان بھی کر دیا گیا ہے کہ اِذَھَبْ اِلیٰ فِرْعَوْ نَ اِنَّہ طَغٰی o فَقُلْ ھَلْ لَّکَ اِلیٰٓ اَنْ تَزَکّٰیo وَاَھْدِیَکَ اِلیٰ رَبِّکَ فَتَخْشٰی ۔ ” فرعون کےپاس جا کیونکہ وہ حدّ بندگی سے گزر گیا ہے اور اس سے کہہ کیا تو اس کے لیے تیار ہے کہ سدھر جائے ، اور میں تجھے تیرے رب کی طرف رہنمائی کروں تو تو اس سے ڈرے“ ؟ مگر چونکہ فرعون اور اس کے اعیان سلطنت نے اس دعوت کو قبول نہیں کیا اور آخرکار حضرت موسیٰ علیہما السلام کو یہی کرنا پڑا کہ اپنی مسلمان قوم کو اس کے تسلّط سے نکال لے جائیں ، اس لیے اس کے مشن کا یہی جزء تاریخ میں نمایاں ہو گیا اور قرآن میں بھی اس کو ویسا ہی نمایاں کر کے پیش کیا گیا جیسا کہ وہ تاریخ میں فی الواقع ہے ۔ جو شخص قرآن کی تفصیلات کو اس کے کلیات سے جدا کر کے دیکھنے کی غلطی نہ کرتا ہو ، بلکہ انہیں کلیات کے تابع کر کے ہی دیکھتا اور سمجھتا ہو ، وہ کبھی اس غلط فہمی میں نہیں پڑ سکتا کہ ایک قوم کی رہائی کسی نبی کی بعثت کا اصل مقصد ، اور دین حق کی دعوت محض اس کا ایک ضمنی مقصد ہو سکتی ہے ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو طٰہٰ ، آیات ٤٤ تا ۸۲ ۔ الزخرف ، ٤٦ تا ۵٦ ۔ المزمل ۱۵ – ۱٦ ) ۔ سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :75 مطلب یہ ہے کہ ظاہر نظر میں جادو اور معجزے کے درمیان جو مشابہت ہوتی ہے اس کی بنا پر تم لوگوں نے بے تکلف اسے جادو قرار دے دیا ، مگر نادانو! تم نے یہ نہ دیکھا کہ جادوگر کس سیرت و اخلاق کے لوگ ہوتے ہیں اور کن مقاصد کے لیے جادوگری کیا کرتے ہیں ۔ کیا کسی جادوگر کا یہی کام ہوتا ہے کہ بے غرض اور بےدھڑک ایک جبار فرمانروا کے دربار میں آئے اور اس کی گمراہی پر سرزنش کرے اور خدا پرستی اور طہارت نفس اختیار کرنے کی دعوت دے؟ تمہارے ہاں کوئی جادوگر آیا ہوتا تو پہلے درباریوں کے پاس خوشامدیں کرتا پھرتا کہ ذرا سرکار میں مجھے اپنے کمالات دکھانے کا موقع دلوا دو ، پھر جب اسے دربار میں رسائی نصیب ہوتی تو عام خوشامدیوں سے بھی کچھ بڑھ کر ذلت کے ساتھ سلامیاں بجا لاتا ، چیخ چیخ کر درازی عمر و اقبال کی دعائیں دیتا ، بڑی منت سماجت کے ساتھ درخواست کرتا کہ سرکار کچھ فدوی کی کمالات بھی ملاحظہ فرمائیں ، اور جب تم اس کے تماشے دیکھ لیتے تو ہاتھ پھیلا دیتا کہ حضور کچھ انعام مل جائے ۔ اس پورے مضمون کو صرف ایک فقرے میں سمیٹ دیا ہے کہ جادو گر فلاح یافتہ نہیں ہوا کرتے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(10:77) لتلفتنا۔ کہ تم ہم کو پھیردے۔ لفت یلفت (ضرب) لفت سے واحد مذکر حاضر۔ نا ضمیر مفعول جمع متکلم۔ عما۔ عن ما۔ تکون۔ ای لتکون۔ یعنی اس لئے کہ اس سرزمین مصر میں تم دونوں کی سرداری ہوجائے ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 ۔ حالانکہ تم دیکھ رہے ہو کہ میں دلیل وبرہان کی رو سے کامیاب ہوں تو پھر یہ جادو کیسے ہوسکتا ہے۔ اس میں آئندہ جادوگروں کے ساتھ مقابلہ میں کامیابی اور ان کی ناکامی کی طرف بھی اشارہ فرما دیا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ یعنی جادوگر جبکہ دعوی نبوت کا کریں تو اظہار خارق میں کامیاب نہیں ہوا کرتے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قال موسیٰ اتقولون للحق لما جاء کم اسحر ھذا موسیٰ نے کہا : کیا حق جب تمہارے پاس آگیا تو تم اس کو سحر کہتے ہو۔ کیا یہ جادو ہے ؟ یعنی حضررت موسیٰ نے بطور عجب و انکار کہا کہ جس امر کی صداقت و حقانیت اللہ کی طرف سے ہے ‘ تم اس کو سحر کہتے ہو ؟ سحر کی تو کوئی حقیقت نہیں ہوتی ‘ وہ تو صرف فریب کاری ہوتا ہے۔ یَقُوْلُوْنَ کا مفعول محذوف ہے۔ اَسِحْرٌ مفعول نہیں ہے ‘ یہ الگ جملہ ہے۔ ولا یفلح الساحرون۔ اور جادوگر کامیاب نہیں ہوتے۔ یہ جملہ حضرت موسیٰ کے کلام کا تتمہ ہے ‘ یعنی یہ جادو نہیں ہے۔ اگر جادو ہوتا تو نابود ہوجاتا اور جادوگروں کے جادو کو تباہ نہ کرسکتا۔ یا یہ فقرہ فرعونیوں کے قول (سحر ھذا) کا تکملہ اور جزء ہے۔ گویا فرعونیوں نے کہا تھا کہ موسیٰ ! کیا تم جادو کا مظاہر کر کے کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہو ‘ جادوگر کبھی کامیاب نہیں ہوتے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

77 موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کیا تم اس صحیح دلیل اور سچی بات کے متعلق جب وہ تمہارے پاس آئی ایسی بات کہتے ہو کیا یہ جادو ہے حالانکہ جادوگر کبھی کامیاب نہیں ہوتے یعنی جادوگر اگر نبوت کا دعویٰ کرے تو خوارقات نہیں دکھا سکتا یہ پیغمبر ہی کا کام ہے کہ دعویٰ نبوت کے ساتھ اس کے ہاتھ خوارقات کا بھی صدور ہوتا ہے۔