75.In view of the apparent similarity between sorcery and miracle the Israelites hastily branded Moses (peace be on him) a sorcerer. In relegating Moses to the role of a sorcerer, however, these simpletons ignored the fact that the character and conduct as well as the motives underlying the activity of sorcerers are entirely different from those of the Prophets. Is it consistent with the known character of a sorcerer that he should fearlessly make his way to the court of a tyrant, reproach him for his error, and summon him to exclusively devote himself to God and to strive for his self-purification? What would rather seem to be consistent with the character of a sorcerer is that if he had gained access to the courtiers he would have gone about flattering them, soliciting their help in securing an opportunity to show his tricks. And if ever he succeeded in Finding his way to the royal court, he would probably have resorted to flattery in an even more abject and dishonourable manner, would have made himself hoarse in publicly praying for the long life and abiding glory of the ruler, and would then have humbly pleaded that he might be allowed to perform his show. And once the show was over, he would have disgracefully stretched forth his hands in the style of a beggar, entreating for an appropriate award.
All this has been condensed into the succinct statement that 'sorcerers never come to a happy end'.
" سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :74
یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام کا پیغام سن کر وہی کچھ کہا جو کفار مکہ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام سن کر کہا تھا کہ ” یہ شخص تو کھلا جادوگر ہے“ ۔ ( ملاحظہ ہو اسی سورہ یونس کی دوسری آیت ) ۔
یہاں سلسلہ کلام کو نگاہ میں رکھنے سے یہ بات صریح طور پر ظاہر ہو جاتی ہے کہ حضرت موسیٰ وہارون علیہما السلام بھی دراصل اسی خدمت پر مامور ہوئے تھے جس پر حضرت نوح علیہ السلام اور ان کے بعد کے تمام انبیاء ، سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک ، مامور ہوتے رہے ہیں ۔ اس سورہ میں ابتدا سے ایک ہی مضمون چلا آرہا ہے اور وہ یہ کہ صرف اللہ رب العالمین کو اپنا رب اور الٰہ مانو اور یہ تسلیم کرو کہ تم کو اس زندگی کے بعد دوسری زندگی میں اللہ کے سامنے حاضر ہونا اور اپنے عمل کا حساب دینا ہے ۔ پھر جو لوگ پیغمبر کی اس دعوت کو ماننے سے انکار کر رہے تھے ان کو سمجھایا جا رہا ہے کہ نہ صرف تمہاری فلاح کا بلکہ ہمیشہ سے تمام انسانوں کی فلاح کا انحصار اسی ایک بات پر رہا ہے کہ اس عقیدہ توحید و آخرت کی دعوت کو ، جسے ہر زمانے میں خدا کے پیغبروں نے پیش کیا ہے ، قبول کیا جائے اور اپنا پورا نظام زندگی اسی بنیاد پر قائم کر لیا جائے ۔ فلاح صرف انہوں نے پائی جنہوں نے یہ کام کیا ، اور جس قوم نے بھی اس سے انکار کیا وہ آخرکار تباہ ہو کر رہی ۔ یہی اس سورہ کا مرکزی مضمون ہے ، اور اس سیاق میں جب تاریخی نظائر کے طور پر دوسرے انبیاء کا ذکر آیا ہے تو لازما اس کے یہی معنی ہیں کہ جو دعوت اس سورہ میں دی گئی ہے وہی ان تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی دعوت تھی ، اور اسی کو لے کر حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام بھی فرعون اور اس کی قوم کے سرداروں کے پاس گئے تھے ۔ اگر واقعہ وہ ہوتا جو بعض لوگوں نے گمان کیا ہے کہ حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام کا مشن ایک خاص قوم کو دوسری قوم کی غلامی سے رہا کرانا تھا ، تو اس سیاق و سباق میں اس واقعہ کو تاریخی نظیر کے طور پر پیش کرنا بالکل بے جوڑ ہوتا ۔ اس میں شک نہیں کہ ان دونوں حضرات کے مشن کا ایک جزء یہ بھی تھا کہ بنی اسرائیل ( ایک مسلمان قوم ) کو ایک کافر قوم کے تسلط سے ( اگر وہ اپنے کفر پر قائم رہے ) نجات دلائیں ۔ لیکن یہ ایک ضمنی مقصد تھا نہ کہ اصل مقصد بعثت ۔ اصل مقصد تو وہی تھا جو قرآن کی رو سے تمام انبیاء علیہم السلام کی بعثت کا مقصد رہا ہے اور سورہ نازعات میں جس کو صاف طور پر بیان بھی کر دیا گیا ہے کہ اِذَھَبْ اِلیٰ فِرْعَوْ نَ اِنَّہ طَغٰی o فَقُلْ ھَلْ لَّکَ اِلیٰٓ اَنْ تَزَکّٰیo وَاَھْدِیَکَ اِلیٰ رَبِّکَ فَتَخْشٰی ۔ ” فرعون کےپاس جا کیونکہ وہ حدّ بندگی سے گزر گیا ہے اور اس سے کہہ کیا تو اس کے لیے تیار ہے کہ سدھر جائے ، اور میں تجھے تیرے رب کی طرف رہنمائی کروں تو تو اس سے ڈرے“ ؟ مگر چونکہ فرعون اور اس کے اعیان سلطنت نے اس دعوت کو قبول نہیں کیا اور آخرکار حضرت موسیٰ علیہما السلام کو یہی کرنا پڑا کہ اپنی مسلمان قوم کو اس کے تسلّط سے نکال لے جائیں ، اس لیے اس کے مشن کا یہی جزء تاریخ میں نمایاں ہو گیا اور قرآن میں بھی اس کو ویسا ہی نمایاں کر کے پیش کیا گیا جیسا کہ وہ تاریخ میں فی الواقع ہے ۔ جو شخص قرآن کی تفصیلات کو اس کے کلیات سے جدا کر کے دیکھنے کی غلطی نہ کرتا ہو ، بلکہ انہیں کلیات کے تابع کر کے ہی دیکھتا اور سمجھتا ہو ، وہ کبھی اس غلط فہمی میں نہیں پڑ سکتا کہ ایک قوم کی رہائی کسی نبی کی بعثت کا اصل مقصد ، اور دین حق کی دعوت محض اس کا ایک ضمنی مقصد ہو سکتی ہے ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو طٰہٰ ، آیات ٤٤ تا ۸۲ ۔ الزخرف ، ٤٦ تا ۵٦ ۔ المزمل ۱۵ – ۱٦ ) ۔
سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :75
مطلب یہ ہے کہ ظاہر نظر میں جادو اور معجزے کے درمیان جو مشابہت ہوتی ہے اس کی بنا پر تم لوگوں نے بے تکلف اسے جادو قرار دے دیا ، مگر نادانو! تم نے یہ نہ دیکھا کہ جادوگر کس سیرت و اخلاق کے لوگ ہوتے ہیں اور کن مقاصد کے لیے جادوگری کیا کرتے ہیں ۔ کیا کسی جادوگر کا یہی کام ہوتا ہے کہ بے غرض اور بےدھڑک ایک جبار فرمانروا کے دربار میں آئے اور اس کی گمراہی پر سرزنش کرے اور خدا پرستی اور طہارت نفس اختیار کرنے کی دعوت دے؟ تمہارے ہاں کوئی جادوگر آیا ہوتا تو پہلے درباریوں کے پاس خوشامدیں کرتا پھرتا کہ ذرا سرکار میں مجھے اپنے کمالات دکھانے کا موقع دلوا دو ، پھر جب اسے دربار میں رسائی نصیب ہوتی تو عام خوشامدیوں سے بھی کچھ بڑھ کر ذلت کے ساتھ سلامیاں بجا لاتا ، چیخ چیخ کر درازی عمر و اقبال کی دعائیں دیتا ، بڑی منت سماجت کے ساتھ درخواست کرتا کہ سرکار کچھ فدوی کی کمالات بھی ملاحظہ فرمائیں ، اور جب تم اس کے تماشے دیکھ لیتے تو ہاتھ پھیلا دیتا کہ حضور کچھ انعام مل جائے ۔
اس پورے مضمون کو صرف ایک فقرے میں سمیٹ دیا ہے کہ جادو گر فلاح یافتہ نہیں ہوا کرتے ۔