Commentary Addressing Pharaoh in the first verse (92), it was said that Allah will take his body out of the waters after he is drowned so that his body becomes a sign of Divine power, and a lesson for people after him. It happened when, after having crossed the sea, Sayyidna Musa (علیہ السلام) told Bani Isra&il about the drowning of the Pharaoh, they were so overawed and subdued by him that they refused to believe the news and said that the Pharaoh was not drowned. To guide them right and to teach others a lesson, Allah Ta&ala had the dead body of Pharaoh thrown ashore by a wave of the sea. Everyone saw it and believed that he had died and then, this corpse became a sort of moral deterrent for everyone. After that, it is not known as to what happened to this corpse ultimately. The place where the dead body of the Pharaoh was found is still known as the mount of Pharaoh. Some time back, newspaper reports indicated that the dead body of Pharaoh was found intact and was seen by the public at large and that it was deposited safely in the Cairo Museum. But, it cannot be said with certainty that this is the same Pharaoh who confronted Sayyidna Musa (علیہ السلام) or is some other Pharaoh because names of Pharaohs differ. Every ruler of Egypt in that period of history had the title of Pharaoh. But, no wonder, the Divine power had thrown a drowned dead body ashore. Very similarly, it may have kept it even preserved against spoilage so that it could become a lesson for future genera¬tions. And it may still be there! (However it remains essential to learn a lesson from it as compared to becoming excited about its discovery as an archeological triumph). At the end of the verse, it was said that many people pay no heed to the verses and signs of Allah. They do not ponder over them and fail to learn their essential lesson in living a better life. Otherwise, signs abound. They are everywhere, in every particle of this universe. A look at them would help one recognize Allah and His perfect power.
خلاصہ تفسیر سو ( بجائے نجات مطلوبہ کے) آج ہم تیری لاش کو ( پانی میں تہ نشین ہونے سے) نجات دیں گے تاکہ تو ان کے لئے موجب عبرت ہو جو تیرے بعد ( موجود) ہیں ( کہ تیری بدحالی اور تباہی دیکھ کر مخالفت احکام الہٰیہ سے بچیں) اور حقیقت یہ ہے کہ ( پھر بھی) بہت سے آدمی ہماری ( ایسی ایسی) عبرتوں سے غافل ہیں ( اور مخالفت احکام سے نہیں ڈرتے) اور ہم نے ( غرق فرعون کے بعد) بنی اسرائیل کو بہت اچھا ٹھکانا رہنے کو دیا ( کہ اس وقت تو مصر کے مالک ہوگئے اور ان کی اول ہی نسل کو بیت المقدس اور ملک شام عمالقہ پر فتح دے کر عطا فرمایا) اور ہم نے ان کو نفیس چیزیں کھانے کو دیں ( مصر میں بھی جنت و عیون تھے اور شام کی نسبت بٰرَکنَا فیھَا آیا ہے) سو ( چاہئے تھا کہ ہماری اطاعت میں زیادہ سرگرم رہتے لیکن انہوں نے الٹا دین میں اختلاف کرنا شروع کیا اور غضب یہ کہ) انہوں نے ( جہل کی وجہ آگے اس سے اختلاف نہیں کیا یہاں تک کہ ان کے پاس ( احکام کا) علم پہنچ گیا ( تھا اور پھر اختلاف کیا آگے اس اختلاف پر وعید ہے کہ) یقینی بات ہے کہ آپ کا رب ان ( اختلاف کرنے والوں) کے درمیان قیامت کے دن ان امور میں فیصلہ (عملی) کرے گا جن میں وہ اختلاف کیا کرتے تھے، پھر ( اثبات حقیقت دین محمدی کے واسطے ہم ایک ایسا کافی طریقہ بتلاتے ہیں کہ غیر صاحب وحی کے لئے تو کیسے کافی نہ ہوگا وہ ایسا ہے کہ آپ صاحب وحی ہیں مگر آپ سے بھی اگر اس کا خطاب بطور قضیہ شرطیہ کے کیا جاوے تو ممکن ہے اس طرح سے کہ) اگر ( بالفرض) آپ اس ( کتاب) کی طرف سے شک ( و شبہ) میں ہوں جس کو ہم نے آپ کے پاس بھیجا ہے تو ( اس شک کے دفع کا ایک سہل طریقہ یہ بھی ہے کہ) آپ ان لوگوں سے پوچھ دیکھتے جو آپ سے پہلے کی کتابوں کو پڑھتے ہیں ( مراد توریت و انجیل ہیں وہ من حیث القراءة اس کی پیشین گوئیوں کی بناء پر اس قرآن کے صدق کو بتلا دیں گے) بیشک آپ کے پاس آپ کے رب کی طرف سے سچی کتاب آئی ہے آپ ہرگز شک کرنے والوں میں سے نہ ہوں اور نہ ( شک کرنے والوں سے بڑھ کر) ان لوگوں میں ہوں جنہوں نے اللہ کی آیتوں کو جھٹلایا، کہیں آپ ( نعوذ باللہ) تباہ نہ ہوجاویں یقینا جن لوگوں کے حق میں آپ کے رب کی ( یہ ازلی) بات ( کہ یہ ایمان نہ لاویں گے) ثابت ہوچکی ہے وہ ( کبھی) ایمان نہ لاویں گے گو ان کے پاس تمام دلائل ثبوت حق کے) پہنچ جاویں، جب تک کہ عذاب دردناک کو نہ دیکھ لیں ( مگر اس وقت ایمان نافع نہیں ہوتا) چناچہ (جن بستیوں پر عذاب آچکا ہے ان میں سے) کوئی بستی ایمان نہ لائی کہ ایمان لانا اس کو نافع ہوتا ( کیونکہ ان کے ایمان کے ساتھ مشیت متعلق ہوئی تھی) ہاں مگر یونس ( علیہ السلام) کی قوم ( کہ ان کے ایمان کے ساتھ مشیت متعلق ہوئی تھی، اس لئے وہ عذاب موعود کے آثار ابتدائیہ کو دیکھ کر ایمان لے آئے اور) جب وہ ایمان لے آئے تو ہم نے رسوائی کے عذاب کو دنیوی زندگی میں ان پر سے ٹال دیا اور ان کو ایک وقت خاص ( یعنی وقت موت) تک ( خیر خوبی کے ساتھ) عیش دیا ( پس اور قریوں کا ایمان نہ لانا اور قوم یونس (علیہ السلام) کا ایمان لانا دونوں مشیت سے ہوئے۔ معارف و مسائل پہلی آیت میں فرعون کو خطاب کرکے ارشاد فرمایا کہ غرقابی کے بعد ہم تیرے بدن کو پانی سے نکال دیں گے، تاکہ تیرا یہ بدن پچھلے لوگوں کے لئے قدرت خداوندی کی نشانی اور عبرت بن جائے۔ اس کا واقعہ یہ ہے کہ دریا سے عبور کرنے کے بعد جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کو فرعون کے ہلاک ہونے کی خبر دی تو وہ لوگ فرعون سے کچھ اس قدر مرعوب و مغلوب تھے کہ اس کا انکار کرنے لگے اور کہنے لگے کہ فرعون ہلاک نہیں ہوا، اللہ تعالیٰ نے ان کی رہنمائی اور دوسروں کی عبرت کے لئے دریا کی ایک موج کے ذریعہ فرعون کی مردہ لاش کو ساحل پر ڈال دیا جس کو سب نے دیکھا اور اس کے ہلاک ہونے کا یقین آیا، اور اس کی یہ لاش سب کے لئے نمونہ عبرت بن گئی، پھر معلوم نہیں کہ اس لاش کا کیا انجام ہوا، جس جگہ فرعون کی لاش پائی گئی تھی آج تک وہ جگہ جبل فرعون کے نام سے معروف ہے۔ کچھ عرصہ ہوا اخباروں میں یہ خبر چھپی تھی کہ فرعون کی لاش صحیح سالم برآمد ہوئی اور عام لوگوں نے اس کا مشاہدہ کیا، اور وہ آج تک قاہرہ کے عجائب گھر میں محفوظ ہے، مگر یہ یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ یہ وہی فرعون ہے جس کا مقابلہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے ہوا تھا یا کوئی دوسرا فرعون ہے کیونکہ لفظ فرعون کسی ایک شخص کا نام نہیں، اس زمانے میں مصر کے ہر بادشاہ کو فرعون کا لقب دیا جاتا تھا۔ مگر آیت میں ارشاد فرمایا کہ بہت سے لوگ ہماری آیتوں اور نشانیوں سے غافل ہیں ان میں غور و فکر نہیں کرتے اور عبرت حاصل نہیں کرتے ورنہ عالم کے ہر ذرہ ذرہ میں ایسی نشانیاں موجود ہیں جن کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کو اور اس کی قدرت کاملہ کو پہچانا جاسکتا ہے۔