Surat Younus

Surah: 10

Verse: 92

سورة يونس

فَالۡیَوۡمَ نُنَجِّیۡکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُوۡنَ لِمَنۡ خَلۡفَکَ اٰیَۃً ؕ وَ اِنَّ کَثِیۡرًا مِّنَ النَّاسِ عَنۡ اٰیٰتِنَا لَغٰفِلُوۡنَ ﴿۹۲﴾٪  14

So today We will save you in body that you may be to those who succeed you a sign. And indeed, many among the people, of Our signs, are heedless

سو آج ہم صرف تیری لاش کو نجات دیں گے تاکہ تو ان کے لئے نشان عبرت ہو جو تیرے بعد ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ بہت سے آدمی ہماری نشانیوں سے غافل ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَالْيَوْمَ نُنَجِّيكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُونَ لِمَنْ خَلْفَكَ ايَةً ... So this day We shall deliver your (dead) body (out from the sea) that you may be a sign to those who come after you! Ibn Abbas and others from among the Salaf have said: "Some of the Children of Israel doubted the death of Fir`awn so Allah commanded the sea to throw his body -- whole, without a soul -- with his known armor plate. The body was thrown to a high place on the land so that the Children of Israel could confirm his death and destruction." That is why Allah said, فَالْيَوْمَ نُنَجِّيك ("So this day We shall deliver your..") meaning that We will put your body on a high place on the earth. Mujahid said, بِبَدَنِكَ (your (dead) body), means, `your physical body." لِتَكُونَ لِمَنْ خَلْفَكَ ايَةً (that you may be a sign to those who come after you!), meaning, so that might be a proof of your death and destruction for the Children of Israel. That also stood as a proof that Allah is All-Powerful, in Whose control are all the creatures. Nothing can bear His anger. ... وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ ايَاتِنَا لَغَافِلُونَ And verily, many among mankind are heedless of Our Ayat. Fir`awn and his people were destroyed on the day of Ashura, as recorded by Al-Bukhari, Ibn Abbas said, "When the Prophet arrived at Al-Madinah, the Jews fasted the day of Ashura. So he asked, مَا هَذَا الْيَومُ الَّذِي تَصُومُونَهُ What is this day that you are fasting? They responded `This is the day in which Musa was victorious over Fir`awn.' So the Prophet said, أَنْتُمْ أَحَقُّ بِمُوسَى مِنْهُمْ فَصُومُوه You have more right to Musa than they, so fast it.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

92۔ 1 جب فرعون غرق ہوگیا تو اس کی موت کا بہت سے لوگوں کو یقین نہ آتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے سمندر کو حکم دیا، کہ اس نے اس کی لاش کو باہر خشکی پر پھینک دیا، جس کا مشاہدہ پھر سب نے کیا۔ مشہور ہے کہ آج بھی یہ لاش مصر کے عجائب خانے میں محفوظ ہے۔ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بالصَّوَابِ ۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠٢] فرعون کی لاش کی حفاظت کا مطلب :۔ یعنی تیری لاش نہ تو سمندر میں ڈوب کر معدوم ہوجائے گی اور نہ مچھلیوں کی خوراک بنے گی، چونکہ فرعون کے ڈوب کر مرجانے کے بعد ایک لہر اٹھی جس نے اس کی لاش کو سمندر کے کنارے ایک اونچے ٹیلے پر پھینک دیا تاکہ باقی لوگ فرعون کا لاشہ دیکھ کر عبرت حاصل کریں کہ جو بادشاہ اتنا طاقتور اور زور آور تھا اور خود خدائی کا دعویدار تھا بالآخر اس کا انجام کیا ہوا ؟ مگر انسانوں کی اکثریت ایسی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ایسی نشانیاں دیکھنے اور ان کا اعتراف کرنے کے باوجود عبرت حاصل نہیں کرتے اور نہ ہی اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ یہ لاش مدتوں اسی حالت میں پڑی رہی اور گلنے سڑنے سے بچی رہی اور بعد میں آنے والی نسلوں کے لیے نشان عبرت بنی رہی۔ جدید تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ یہ لاش آج تک محفوظ ہے جس پر سمندر کے پانی کے نمک کی تہہ جمی ہوئی ہے۔ جو اسے بوسیدہ ہونے اور گلنے سڑنے سے بچانے کا ایک سبب بن گئی ہے اور یہ لاش قاہرہ کے عجائب خانہ میں آج تک محفوظ ہے۔ واللہ اعلم۔ تاہم الفاظ قرآنی کی صحت اس کے ثبوت پر موقوف نہیں کہ اس کی لاش تاقیامت محفوظ ہی رہے۔ عاشورہ کا روزہ :۔ فرعون کی غرقابی کا واقعہ ١٠ محرم کو پیش آیا تھا اسی لیے یہود فرعون سے نجات کی خوشی کے طور پر روزہ رکھتے تھے چناچہ آپ نے بھی مسلمانوں کو اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا اور یہود کی مخالفت کے لیے ساتھ ٩ محرم یا ١١ محرم کا روزہ رکھنے کا حکم دیا پھر جب ماہ رمضان کے روزے فرض ہوئے تو اس دن کے روزہ کی حیثیت نفلی روزہ کی سی رہ گئی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَالْيَوْمَ نُنَجِّيْكَ بِبَدَنِكَ ۔۔ : ” نُنَجِّیْ “ ” نَجَا یَنْجُوْ “ سے باب تفعیل ہے۔ ” نَجَّاہ اللّٰہُ “ اللہ تعالیٰ نے اسے بچا لیا۔ ” اَلنَّجْوَۃُ “ یا ” اَلنَّجَا “ اونچی جگہ یا ٹیلے کو بھی کہتے ہیں۔ ” نَجَّاہُ “ کا معنی اس صورت میں یہ ہوگا کہ اس نے اسے اونچی جگہ پھینک دیا، یعنی آج ہم تمہارے بےجان لاشے کو سمندر سے بچا لیں گے، یا اونچی جگہ پھینک دیں گے، تاکہ تو اپنے بعد والوں کے لیے ایک عظیم نشانی بنے۔ ” اٰیۃً “ میں تنوین تعظیم کے لیے ہے، یعنی فرعون اور اس کی ساری فوج کے غرق ہوجانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرعون کی لاش سمندر کے کنارے پر باہر نکال پھینکی، تاکہ وہ بعد والوں کے لیے عظیم نشانی بنے اور بنی اسرائیل کے کمزور عقیدے والوں کو بھی خدائی کے دعوے دار کی حقیقت اور انجام آنکھوں سے دیکھنے کا موقع مل جائے اور فرعون اور اس کا سمندر میں غرق ہونے کا واقعہ بعد میں ہر اس شخص کے لیے قدرت کی عظیم نشانی بن جائے جو اس کو سنے یا پڑھے۔ عام طور پر مشہور ہے کہ فرعون کی لاش مصر کے عجائب گھر میں اب تک محفوظ ہے مگر اس کی کوئی دلیل نہیں کہ یہ اسی فرعون کی لاش ہے۔ علاوہ ازیں اگر اس کی لاش محفوظ نہ بھی رہے تو تاریخ اور قرآن میں اس واقعہ کا ذکر ہی بعد والوں کے لیے بطور عبرت اور نشانی کافی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اصحاب سبت کو بندر بنانے کے متعلق فرمایا : (فَجَــعَلْنٰھَا نَكَالًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهَا وَمَا خَلْفَهَا وَمَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِيْنَ ) [ البقرۃ : ٦٦ ] ” تو ہم نے اسے (یعنی اس واقعہ کو) ان لوگوں کے لیے جو اس کے سامنے تھے اور جو اس کے پیچھے تھے ایک عبرت اور ایک نصیحت بنادیا۔ “ حالانکہ ان میں سے کسی مسخ شدہ بندر کی کوئی ممی کہیں موجود نہیں۔ الغرض ! یہ اس فرعون کی لاش نہ ہو تب بھی بعد والوں کے لیے اس واقعہ کے نشان عظیم ہونے میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ 3 ہمارے شیخ محمد عبدہ (رض) لکھتے ہیں : ” آج تک جزیرہ نمائے سینا کے مغربی ساحل پر اس مقام کی نشان دہی کی جاتی ہے، جہاں فرعون کی لاش سمندر میں تیرتی ہوئی پائی گئی۔ اس زمانے میں اس مقام کو جبل فرعون یا حمامہ فرعون کہا جاتا ہے۔ اس کی جائے وقوع ابوزنیمہ (جہاں تانبے وغیرہ کی کانیں ہیں) سے چند میل اوپر شمال کی جانب ہے، آج قاہرہ کے عجائب گھر میں جن فرعونوں کی لاشیں موجود ہیں ان میں سے ایک فرعون کی لاش کو اسی فرعون کی لاش بتایا جاتا ہے۔ ١٩٠٧ ء میں جب فرعونوں کی لاشیں دریافت ہوئی تھیں تو اس فرعون کی لاش پر نمک کی ایک تہ جمی ہوئی پائی گئی تھی جو سمندر کے کھاری پانی میں اس کی غرقابی کی کھلی علامت تھی۔ “ شاہ عبد القادر (رض) فرماتے ہیں : ” جیسا وہ بیوقوف ایمان لایا بےفائدہ ویسا ہی اللہ نے مرنے کے بعد اس کا بدن دریا سے نکال کر ٹیلے پر ڈال دیا، تاکہ بنی اسرائیل دیکھ کر شکر کریں اور عبرت پکڑیں۔ اس کو بدن بچنے سے کیا فائدہ ؟ “ (موضح) وَاِنَّ كَثِيْرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ اٰيٰتِنَا لَغٰفِلُوْنَ : یعنی ان پر غور نہیں کرتے اور ان سے سبق حاصل نہیں کرتے، اگر غور کریں تو معلوم ہوجائے گا کہ انسان کی بساط کیا ہے ؟

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Addressing Pharaoh in the first verse (92), it was said that Allah will take his body out of the waters after he is drowned so that his body becomes a sign of Divine power, and a lesson for people after him. It happened when, after having crossed the sea, Sayyidna Musa (علیہ السلام) told Bani Isra&il about the drowning of the Pharaoh, they were so overawed and subdued by him that they refused to believe the news and said that the Pharaoh was not drowned. To guide them right and to teach others a lesson, Allah Ta&ala had the dead body of Pharaoh thrown ashore by a wave of the sea. Everyone saw it and believed that he had died and then, this corpse became a sort of moral deterrent for everyone. After that, it is not known as to what happened to this corpse ultimately. The place where the dead body of the Pharaoh was found is still known as the mount of Pharaoh. Some time back, newspaper reports indicated that the dead body of Pharaoh was found intact and was seen by the public at large and that it was deposited safely in the Cairo Museum. But, it cannot be said with certainty that this is the same Pharaoh who confronted Sayyidna Musa (علیہ السلام) or is some other Pharaoh because names of Pharaohs differ. Every ruler of Egypt in that period of history had the title of Pharaoh. But, no wonder, the Divine power had thrown a drowned dead body ashore. Very similarly, it may have kept it even preserved against spoilage so that it could become a lesson for future genera¬tions. And it may still be there! (However it remains essential to learn a lesson from it as compared to becoming excited about its discovery as an archeological triumph). At the end of the verse, it was said that many people pay no heed to the verses and signs of Allah. They do not ponder over them and fail to learn their essential lesson in living a better life. Otherwise, signs abound. They are everywhere, in every particle of this universe. A look at them would help one recognize Allah and His perfect power.

خلاصہ تفسیر سو ( بجائے نجات مطلوبہ کے) آج ہم تیری لاش کو ( پانی میں تہ نشین ہونے سے) نجات دیں گے تاکہ تو ان کے لئے موجب عبرت ہو جو تیرے بعد ( موجود) ہیں ( کہ تیری بدحالی اور تباہی دیکھ کر مخالفت احکام الہٰیہ سے بچیں) اور حقیقت یہ ہے کہ ( پھر بھی) بہت سے آدمی ہماری ( ایسی ایسی) عبرتوں سے غافل ہیں ( اور مخالفت احکام سے نہیں ڈرتے) اور ہم نے ( غرق فرعون کے بعد) بنی اسرائیل کو بہت اچھا ٹھکانا رہنے کو دیا ( کہ اس وقت تو مصر کے مالک ہوگئے اور ان کی اول ہی نسل کو بیت المقدس اور ملک شام عمالقہ پر فتح دے کر عطا فرمایا) اور ہم نے ان کو نفیس چیزیں کھانے کو دیں ( مصر میں بھی جنت و عیون تھے اور شام کی نسبت بٰرَکنَا فیھَا آیا ہے) سو ( چاہئے تھا کہ ہماری اطاعت میں زیادہ سرگرم رہتے لیکن انہوں نے الٹا دین میں اختلاف کرنا شروع کیا اور غضب یہ کہ) انہوں نے ( جہل کی وجہ آگے اس سے اختلاف نہیں کیا یہاں تک کہ ان کے پاس ( احکام کا) علم پہنچ گیا ( تھا اور پھر اختلاف کیا آگے اس اختلاف پر وعید ہے کہ) یقینی بات ہے کہ آپ کا رب ان ( اختلاف کرنے والوں) کے درمیان قیامت کے دن ان امور میں فیصلہ (عملی) کرے گا جن میں وہ اختلاف کیا کرتے تھے، پھر ( اثبات حقیقت دین محمدی کے واسطے ہم ایک ایسا کافی طریقہ بتلاتے ہیں کہ غیر صاحب وحی کے لئے تو کیسے کافی نہ ہوگا وہ ایسا ہے کہ آپ صاحب وحی ہیں مگر آپ سے بھی اگر اس کا خطاب بطور قضیہ شرطیہ کے کیا جاوے تو ممکن ہے اس طرح سے کہ) اگر ( بالفرض) آپ اس ( کتاب) کی طرف سے شک ( و شبہ) میں ہوں جس کو ہم نے آپ کے پاس بھیجا ہے تو ( اس شک کے دفع کا ایک سہل طریقہ یہ بھی ہے کہ) آپ ان لوگوں سے پوچھ دیکھتے جو آپ سے پہلے کی کتابوں کو پڑھتے ہیں ( مراد توریت و انجیل ہیں وہ من حیث القراءة اس کی پیشین گوئیوں کی بناء پر اس قرآن کے صدق کو بتلا دیں گے) بیشک آپ کے پاس آپ کے رب کی طرف سے سچی کتاب آئی ہے آپ ہرگز شک کرنے والوں میں سے نہ ہوں اور نہ ( شک کرنے والوں سے بڑھ کر) ان لوگوں میں ہوں جنہوں نے اللہ کی آیتوں کو جھٹلایا، کہیں آپ ( نعوذ باللہ) تباہ نہ ہوجاویں یقینا جن لوگوں کے حق میں آپ کے رب کی ( یہ ازلی) بات ( کہ یہ ایمان نہ لاویں گے) ثابت ہوچکی ہے وہ ( کبھی) ایمان نہ لاویں گے گو ان کے پاس تمام دلائل ثبوت حق کے) پہنچ جاویں، جب تک کہ عذاب دردناک کو نہ دیکھ لیں ( مگر اس وقت ایمان نافع نہیں ہوتا) چناچہ (جن بستیوں پر عذاب آچکا ہے ان میں سے) کوئی بستی ایمان نہ لائی کہ ایمان لانا اس کو نافع ہوتا ( کیونکہ ان کے ایمان کے ساتھ مشیت متعلق ہوئی تھی) ہاں مگر یونس ( علیہ السلام) کی قوم ( کہ ان کے ایمان کے ساتھ مشیت متعلق ہوئی تھی، اس لئے وہ عذاب موعود کے آثار ابتدائیہ کو دیکھ کر ایمان لے آئے اور) جب وہ ایمان لے آئے تو ہم نے رسوائی کے عذاب کو دنیوی زندگی میں ان پر سے ٹال دیا اور ان کو ایک وقت خاص ( یعنی وقت موت) تک ( خیر خوبی کے ساتھ) عیش دیا ( پس اور قریوں کا ایمان نہ لانا اور قوم یونس (علیہ السلام) کا ایمان لانا دونوں مشیت سے ہوئے۔ معارف و مسائل پہلی آیت میں فرعون کو خطاب کرکے ارشاد فرمایا کہ غرقابی کے بعد ہم تیرے بدن کو پانی سے نکال دیں گے، تاکہ تیرا یہ بدن پچھلے لوگوں کے لئے قدرت خداوندی کی نشانی اور عبرت بن جائے۔ اس کا واقعہ یہ ہے کہ دریا سے عبور کرنے کے بعد جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کو فرعون کے ہلاک ہونے کی خبر دی تو وہ لوگ فرعون سے کچھ اس قدر مرعوب و مغلوب تھے کہ اس کا انکار کرنے لگے اور کہنے لگے کہ فرعون ہلاک نہیں ہوا، اللہ تعالیٰ نے ان کی رہنمائی اور دوسروں کی عبرت کے لئے دریا کی ایک موج کے ذریعہ فرعون کی مردہ لاش کو ساحل پر ڈال دیا جس کو سب نے دیکھا اور اس کے ہلاک ہونے کا یقین آیا، اور اس کی یہ لاش سب کے لئے نمونہ عبرت بن گئی، پھر معلوم نہیں کہ اس لاش کا کیا انجام ہوا، جس جگہ فرعون کی لاش پائی گئی تھی آج تک وہ جگہ جبل فرعون کے نام سے معروف ہے۔ کچھ عرصہ ہوا اخباروں میں یہ خبر چھپی تھی کہ فرعون کی لاش صحیح سالم برآمد ہوئی اور عام لوگوں نے اس کا مشاہدہ کیا، اور وہ آج تک قاہرہ کے عجائب گھر میں محفوظ ہے، مگر یہ یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ یہ وہی فرعون ہے جس کا مقابلہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے ہوا تھا یا کوئی دوسرا فرعون ہے کیونکہ لفظ فرعون کسی ایک شخص کا نام نہیں، اس زمانے میں مصر کے ہر بادشاہ کو فرعون کا لقب دیا جاتا تھا۔ مگر آیت میں ارشاد فرمایا کہ بہت سے لوگ ہماری آیتوں اور نشانیوں سے غافل ہیں ان میں غور و فکر نہیں کرتے اور عبرت حاصل نہیں کرتے ورنہ عالم کے ہر ذرہ ذرہ میں ایسی نشانیاں موجود ہیں جن کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کو اور اس کی قدرت کاملہ کو پہچانا جاسکتا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَالْيَوْمَ نُنَجِّيْكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُوْنَ لِمَنْ خَلْفَكَ اٰيَۃً۝ ٠ ۭ وَاِنَّ كَثِيْرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ اٰيٰتِنَا لَغٰفِلُوْنَ۝ ٩٢ ۧ نجو أصل النَّجَاء : الانفصالُ من الشیء، ومنه : نَجَا فلان من فلان وأَنْجَيْتُهُ ونَجَّيْتُهُ. قال تعالی: وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل/ 53] ( ن ج و ) اصل میں نجاء کے معنی کسی چیز سے الگ ہونے کے ہیں ۔ اسی سے نجا فلان من فلان کا محاورہ ہے جس کے معنی نجات پانے کے ہیں اور انجیتہ ونجیتہ کے معنی نجات دینے کے چناچہ فرمایا : ۔ وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل/ 53] اور جو لوگ ایمان لائے ان کو ہم نے نجات دی ۔ بدن البَدَنُ : الجسدلکن البدن يقال اعتبارا بعظم الجثة، والجسد يقال اعتبارا باللون، وقوله تعالی: فَالْيَوْمَ نُنَجِّيكَ بِبَدَنِكَ [يونس/ 92] أي : بجسدک۔ ( ب دن ) البدن یہ جسد کے ہم معنی ہے لیکن بدن باعتبار عظمت جثہ کے بولا جاتا ہے اور جسد باعتبار رنگ کے ، اور آیت کریمہ ۔ فَالْيَوْمَ نُنَجِّيكَ بِبَدَنِكَ [يونس/ 92] تو آج ہم تیرے بدن کو ( دریا سے ) نکلال لیں گے ۔ میں بدن بمعنی جسد ہے خلف ( پیچھے ) خَلْفُ : ضدّ القُدَّام، قال تعالی: يَعْلَمُ ما بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَما خَلْفَهُمْ [ البقرة/ 255] ، وقال تعالی: لَهُ مُعَقِّباتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ [ الرعد/ 11] ( خ ل ف ) خلف ( پیچھے ) یہ قدام کی ضد ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ يَعْلَمُ ما بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَما خَلْفَهُمْ [ البقرة/ 255] جو کچھ ان کے روبرو ہو راہا ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہوچکا ہے اسے سب معلوم ہے ۔ لَهُ مُعَقِّباتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ [ الرعد/ 11] اس کے آگے پیچھے خدا کے جو کیدار ہیں ۔ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ غفل الغَفْلَةُ : سهو يعتري الإنسان من قلّة التّحفّظ والتّيقّظ، قال تعالی: لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هذا[ ق/ 22] ( غ ف ل ) الغفلتہ ۔ اس سہو کو کہتے ہیں جو قلت تحفظ اور احتیاط کی بنا پر انسان کو عارض ہوجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هذا[ ق/ 22] بیشک تو اس سے غافل ہو رہا تھا

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٩٢) سو آج ہم تیری لاش کو تیری مرصع زر کے ساتھ زمین پر پھینک کر نجات دین گے تاکہ بعد میں آنے والے کفار کے لیے نشان عبرت ہو کہ پھر وہ تیری باتوں پر عمل نہ کریں اور قطعی طور پر یہ جان لیں کہ تو خدا نہیں ہے اور بہت سے کفار ہماری کتاب اور ہمارے رسول کے منکر ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩٢ (فَالْیَوْمَ نُنَجِّیْکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُوْنَ لِمَنْ خَلْفَکَ اٰیَۃً ) یعنی تمہارے جسم کو محفوظ رکھا جائے گا ‘ اس کو گلنے سڑنے نہیں دیا جائے گا تاکہ بعد میں آنے والے اسے دیکھ کر عبرت حاصل کرسکیں۔ چناچہ غرق ہونے کے کچھ عرصہ بعد فرعون کی لاش کنارے پر پائی گئی تھی ‘ صرف اس کے ناک کو کسی مچھلی وغیرہ نے کاٹا تھا ‘ باقی لاش صحیح سلامت تھی اور آج تک قاہرہ کے عجائب گھر میں موجود ہے

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

92. Even to this day the exact place where Pharaoh's dead body was found afloat on the surface of the sea is known. Lying on the western coast of the Sinaitic peninsula, it is presently known as the Mount of Pharaoh (Jabal Fir'awn). A warm spring, situated in its vicinity, is also still called the Bath of Pharaoh (Hammam Fir'awn) after Pharaoh. Located a few miles away, Abu Zanimah is identified as the precise spot at which Pharaoh's dead body was found. If the name of the Pharaoh who died by drowning was Minpetah, as has been established by current research, his embalmed body still lies in the museum of Cairo. In 1907 when Sir Grafton Elliot Smith removed bandages from the mummified body of this Pharaoh, it was found to be coated with a layer of salt. This is clear proof of his death by drowning at sea.

سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :92 آج تک وہ مقام جزیرہ نمائے سینا کے مغربی ساحل پر موجود ہے جہاں فرعون کی لاش سمندر میں تیری ہوئی پائی گئی تھی ۔ اس کو موجودہ زمانے میں جبل فرعون کہتے ہیں اور اسی کے قریب ایک گرم چشمہ ہے جس کو مقامی آبادی نے حمام فرعون کے نام سے موسوم کر رکھا ہے ۔ اس کی جائے وقوع ابو زنیمہ سے چند میل اوپر شمال کی جانب ہے ، اور علاقے کے باشندے اسی جگہ کی نشان دہی کرتے ہیں کہ فرعون کی لاش یہاں پڑی ہوئی ملی تھی ۔ اگر یہ ڈوبنے والا وہی فرعون منفتہ ہے جس کو زمانہ حال کی تحقیق نے فرعون موسی قرار دیا ہے تو اس کی لاش آج تک قاہرہ کے عجائب خانے میں موجود ہے ۔ سن ۱۹۰۷ میں سر گرافٹن الیٹ سمتھ نے اس کی ممی پر سے جب پٹیاں کھولی تھیں تو اس کی لاش پر نمک کی ایک تہ جمی ہوئی پائی گئی تھی جو کھاری پانی میں اس کی غرقابی کی ایک کھلی علامت تھی ۔ سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :93 یعنی ہم تو سبق آموز اور عبرت انگیز نشانات دکھائے ہی جائیں گے اگرچہ اکثر انسانوں کا حال یہ ہے کہ کسی بڑی سے بڑی عبرتناک نشانی کو دیکھ کر بھی ان کی آنکھیں نہیں کھلتی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

36: قانونِ قدرت یہ ہے کہ جب اﷲ تعالیٰ کا عذاب سر پر آکر آنکھوں سے نظر آنے لگے، یا جب کسی پر نزع کی حا لت طاری ہوجائے، تو توبہ کادروازہ بند ہوجاتا ہے، اور اُس وقت کا ایمان معتبر نہیں ہوتا۔ اس لئے اب فرعون کے عذاب سے نجات پانے کی تو کوئی صورت نہیں تھی، لیکن اﷲ تعالیٰ نے فرعون کی لاش کو محفوظ رکھا۔ وہ لاش سمندر کی تہہ میں جانے کے بجائے پانی کی سطح پر تیرتی رہی، تاکہ سب دیکھنے والے اُسے دیکھ سکیں۔ اتنی بات تو اس آیت سے واضح ہے۔ اب آخری زمانے کے مورخین نے یہ تحقیق کی ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں جو فرعون تھا، اُس کا نام منفتاح تھا اور اُس کی لاش صحیح سلامت دریافت ہوگئی ہے۔ اب تک یہ لاش قاہرہ کے عجائب گھر میں محفوظ ہے، اور سامان عبرت بنی ہوئی ہے۔ اگر یہ تحقیق درست ہے تو یہ آیتِ کریمہ قرآنِ کریم کی حقانیت کا منہ بولتا ثبوت ہے، کیونکہ آیت اُس وقت نازل ہوئی تھی جب لوگوں کو یہ معلوم بھی نہیں تھا کہ فرعون کی لاش اب بھی محفوظ ہے۔ سائنسی طور پر انکشاف بہت بعد میں ہوا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(10:92) ننجیک ببدنک۔ ہم تیرے بدن کی بچالیں گے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے میں جو فرعون مصر میں حکمران تھا وہ رعمیسس ثانی (Rameses II) تھا جس کی لاش حنوط کی شکل میں مصر کی حنوط شدہ لاشوں میں دریافت ہوئی ہے (انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا۔ زیر عنوان ممی)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 ۔ یعنی عذاب نازل ہوجانے کے بعد توبہ کرنے اور ایمان لانے سے کیا فائدہ ؟۔ (دیکھئے آیت 15) ۔ حضرت عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ اس وقت تک قبول فرماتا ہے جب تک اس پر جانگنی (غرغرہ) کی حالت طاری نہیں ہوجاتی۔ (ترمذی) ۔ 9 ۔ آج تک جزیرہ نمائے سینا کے مغربی ساحل پر اس مقام کی نشاندہی کی جات ہے جہاں فرعون کی لاش سمندر میں تریتی ہوئی پائی گئی تھی۔ اس زمانے میں اس مقام کو جبل فرعون یا حمام فرعون کہا جاتا ہے اس کی جائے وقوع ابو زنیمہ (جہاں تانبے وغیرہ کی کانیں ہیں) سے چند میل اوپر شمال کی جانب ہے آج قاہرہ کے عجائب گھر میں جن فراعنہ کی لاشیں موجود ہیں۔ ان میں ایک لاش کو اسی فرعون کی لاش بتایا جاتا ہے۔ 7091 ء میں جب فراعنہ کی یہ لاشیں دریافت ہوئی تھیں تو اس فرعون کی لاش پر نمک کی ایک نہ جمی ہوئی پائی گئی تھی جو سمندر کے کھارے پانی میں اس کی غرقابی کی کھلی علامت تھی۔ شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں جیسا وہ بےوقت ایمان لایا بےفائدہ ویسا ہی اللہ نے مرگئے پیچھے اس کا بدن دریا سے نکال کر ٹیلے میں ڈال دیا تاکہ بنی اسرائیل دیکھ کر شکر کریں اور عبرت پکڑیں۔ اس کو بدن کے بچنے سے کیا فائدہ ؟۔ (موضح) ۔ تنبیہ۔ فتوحات مکیہ میں فرعون کا ایمان معتبر ہونا مندرج ہے۔ صاحب ” بواقیت “ نے اس کی تردید کی ہے اور لکھا ہے کہ فتوحات کے معتبر نسخوں میں یہ عبارت نہیں ہے۔ 10 ۔ یعنی ان پر غور نہیں کرتے اور ان سے سبق حاصل نہیں کرتے۔ اگر غور کریں تو معلوم ہوجائے گا کہ انسان کی بساط کیا ہے۔ یہ واقعہ محرم عاشورا کے دن پیش آیا۔ (ابن کثیر) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ اس کی لاش کے بچالینے کو اور پانی پر تیر آنے کو نجات فرمانا بطور تحکم کے اور اس کے مایوس کردینے کے ہے ایسی نجات ہوگی جو تیرے لیے زیادہ موجب رسوائی ہو۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فالیوم ننجیک ببدنک لتکون لمن خلفک ایۃ پس آج کسی اونچے ٹیلہ پر ہم تیرے بدن کو ڈال دیں گے (کہ جسم کو مچھلیاں نہ کھا سکیں اور بدن اپنی شکل کے ساتھ قائم رہے ) تاکہ تو اپنے پیچھے آنے والوں کیلئے عبرت بن جائے۔ نُنَجِّیْ نجوۃ سے مشتق ہے۔ نجوۃ کا معنی ہے اونچی جگہ۔ یا یہ مطلب ہے کہ پانی کے جس قعر میں تیری قوم غرق ہوگئی (اور ان کے بدن بھی تہہ نشین ہوگئے) ہم ان کی طرح تیرے جسم کو پانی کے اندر نہیں داخل کریں گے بلکہ پانی کے اوپر ترائیں گے۔ ببدنک یعنی بےجان لاشہ ‘ یا مکمل جسم ‘ یا برہنہ جسم۔ یا ببدنک سے مراد یہ ہے کہ تجھے تیرے کرتہ سمیت ہم اوپر لا پھینکیں گے۔ فرعون کا ایک کرتہ سنہری تاروں کے جواہر سے مرصع مشہور تھا۔ بغوی نے لکھا ہے : جب حضرت موسیٰ نے اپنی قوم کو فرعون کے ہلاک ہوجانے کی اطلاع دی تو ان کو یقین نہیں آیا۔ کہنے لگے : فرعون نہیں مرا ہے۔ ان کا شبہ دور کرنے کیلئے اللہ نے فرعون کی لاش کو ساحل پر لا پھینکا۔ لاش سرخ اور چھوٹی تھی ‘ بیل معلوم ہوتی تھی (یعنی پھول گئی تھی) بنی اسرائیل نے دیکھ کر اس کو پہچان لیا اور حضرت موسیٰ کی اطلاع کی تصدیق کی۔ اٰیَۃً سے مراد ہے عبرت ‘ نصیحت یا ایسی نشانی جس سے اللہ کی توحید (قدرت) اور بندہ کا عجز ثابت ہو رہا ہو ‘ خواہ بندہ بادشاہ ہی ہو۔ بات یہ تھی کہ بنی اسرائیل کے دماغوں میں یہ بات جم چکی تھی کہ فرعون کبھی نہیں مرے گا ‘ اسی وجہ سے حضرت موسیٰ کی اطلاع کے بعد بھی ان کو فرعون کے مرنے میں شک رہا۔ آخر ساحل پر پڑی ہوئی لاش کو دیکھ کر ان کو یقین ہوا۔ یا مَنْ خَلْفِکَسے مراد ہیں آئندہ زمانہ میں آنے والے لوگ کہ ان کو اس واقعہ کو سن کر عبرت ہوگی اور وہ سرکشی سے باز رہیں گے۔ وان کثیرًا من الناس عن ایتنا لغفلون۔ اور بہت لوگ (یعنی کفار) ہماری نشانیوں کی طرف سے غافل ہیں ‘ غور نہیں کرتے اور عبرت اندوز نہیں ہوتے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(وَاِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ اٰیٰتِنَا لَغٰفِلُوْنَ ) (اور بلاشبہ بہت سے لوگ ہماری آیات سے غافل ہیں) جو فکر نہیں کرتے اور عبرت حاصل نہیں کرتے۔ اس آیت سے اتنا تو معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے فرعون کو غرق کردیا اور اس کی نعش کو پانی میں بہنے سے اور دریائی جانوروں کے کھانے سے محفوظ فرما دیا۔ اس نعش کو لوگوں نے دیکھا اور اس سے لوگوں کو بھی عبرت ہوئی کہ جو شخص اپنے آپ کو سب سے بڑا رب کہتا تھا اور جسے معبود سمجھا جاتا تھا اس کا یہ انجام ہوا۔ سارا اقتدار تخت وتاج محلات سب دھرے رہ گئے اور سمندر میں ڈوب کر نہ صرف وہ تنہا بلکہ اس کے لشکری بھی ہلاک ہوگئے۔ بنی اسرائیل کو بھی یقین آگیا کہ ہمارا جو دشمن تھا وہ غرق ہوگیا اور جس کے ڈر سے بھاگے تھے اس کی ڈوبی ہوئی نعش کو نظروں کے سامنے دیکھ لیا اور حضرت موسیٰ اور ہارون ( علیہ السلام) نے جو دعا کی تھی اس کی قبولیت واضح طور پر نظروں کے سامنے آگئی۔ لفظ خَلْفَکَ جو فرمایا (جس کا معنی یہ ہے کہ جو لوگ تیرے پیچھے ہیں تو ان کیلئے عبرت بن جائے) اس کا عموم اس وقت کے موجودہ لوگوں کو بھی شامل ہے اور بعد میں آنے والوں کو بھی۔ لیکن قرآن مجید میں ایسا کوئی لفظ نہیں جس سے یہ معلوم ہو کہ کتنے عرصہ تک اس کی نعش کو محفوظ رکھا گیا۔ اس زمانہ کے لوگوں کو عبرت حاصل ہونے کے بعد اس کی نعش محفوظ نہ رہی ہو تو اس میں اشکال کی کوئی بات نہیں اور اگر زمانہ دراز تک باقی رہی ہو تو یہ بھی ممکن ہے۔ اہل مصر کو نعشوں پر مصالحہ لگا کر باقی رکھنے کا شوق تھا اور اس کو مصالحہ لگا کر باقی رکھتے تھے اس مصالحہ کو ممی کہا جاتا تھا۔ تقریباً تین سو سال سے ممی لگائی ہوئی بہت سی نعشیں مصر میں نکل چکی ہیں اور ان میں فرعون کی نعش بھی بتائی جاتی ہے جو قاہرہ کے عجائب گھر میں موجود ہے۔ یقینی طور پر ایسا فیصلہ نہیں کیا جاسکتا کہ ان میں فرعون کی نعش بھی ہے جو حضرت موسیٰ کا تعاقب کرتے ہوئے غرق ہوا تھا۔ کیونکہ شرعی سند سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے بعض ریسرچ کرنے والوں کا بیان ہے کہ مذکورہ عجائب گھر میں جو نعشیں محفوظ ہیں ان میں ایک نعش اس فرعون کی بھی ہے جو موسیٰ (علیہ السلام) کا ہم عصر تھا۔ واللہ اعلم بالصواب۔ فائدہ : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون اور آل فرعون کے لئے جو بد دعا کی ‘ کہ یہ لوگ اس وقت تک ایمان نہ لائیں جب تک درد ناک عذاب کو نہ دیکھیں۔ اس کے بارے میں یہ اشکال کیا جاسکتا ہے کہ وہ تو ہدایت کے لئے مبعوث ہوئے تھے۔ اپنے مخاطبین کے لئے گمراہی پر مرنے کی بد دعا کیسے فرمائی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ فرعون اور آل فرعون پر تبلیغ کی محنت کرنے اور ان سے ناامید ہوجانے کے بعد کی بات ہے اور یہ بد دعا ایسی ہے جیسا کہ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کی ہلاکت کیلئے بد دعا کی تھی۔ (رَبِّ لَا تَذَرْ عَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ دَیَّارًا) (اے رب زمین پر ایک بھی کافر باشندہ مت چھوڑ) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

92 لہٰذا آج ہم تیری لاش کو بچا لیں گے تاکہ اپنوں سے پچھوں کے لئے ایک عبر ت آموز نشانی ہو اور بلاشبہ اکثر لوگ ہماری عبرت انگیز نشانیوں سے غافل ہیں لوگوں کی عبرت کیلئے لاش کو بچا لیا گیا تاکہ پیچھے رہنے والوں کے لئے ایک نشانی ہو۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں وہ جیسا بےوقت ایمان لایا بےفائدہ ایسا ہی اللہ نے مرگئے پیچھے اس کا بدن دریا میں سے نکال کر ٹیلے پر ڈال دیا کہ بنی اسرائیل دیکھ کر شکر کریں اور عبرت پکڑیں اس کو بدن بچنے سے کیا فائدہ 12 خلاصہ ! یہ کہ پانی میں گلنے سڑنے اور مچھلیوں کا کھا جابننے سے بچالیا لیکن جسم کے بچانے سے اس کو کوئی فائدہ نہیں کہتے ہیں کہ فرعون کی لاش اب تک مصر کے عجائب خانہ میں محفوظ ہے۔