Surat Younus

Surah: 10

Verse: 99

سورة يونس

وَ لَوۡ شَآءَ رَبُّکَ لَاٰمَنَ مَنۡ فِی الۡاَرۡضِ کُلُّہُمۡ جَمِیۡعًا ؕ اَفَاَنۡتَ تُکۡرِہُ النَّاسَ حَتّٰی یَکُوۡنُوۡا مُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۹۹﴾

And had your Lord willed, those on earth would have believed - all of them entirely. Then, [O Muhammad], would you compel the people in order that they become believers?

اور اگر آپ کا رب چاہتا تو تمام روئے زمین کے لوگ سب کے سب ایمان لے آتے تو کیا آپ لوگوں پر زبردستی کر سکتے ہیں یہاں تک کہ وہ مومن ہی ہوجائیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

It is not Part of Allah's Decree to compel Belief Allah said: وَلَوْ شَاء رَبُّكَ ... And had your Lord willed, meaning `O Muhammad, if it had been the will of your Lord, He would make all the people of the earth believe in what you have brought to them. But Allah has wisdom in what He does.' ... لاامَنَ مَن فِي الااَرْضِ كُلُّهُمْ جَمِيعًا ... those on earth would have believed, all of them together. Similarly, Allah said: وَلَوْ شَأءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلاَ يَزَالُونَ مُخْتَلِفِينَ إِلاَّ مَن رَّحِمَ رَبُّكَ وَلِذلِكَ خَلَقَهُمْ وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لاّمْلّنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ And if your Lord had so willed, He could surely have made mankind one Ummah, but they will not cease to disagree. Except him on whom your Lord has bestowed His mercy and for that did He create them. And the Word of your Lord has been fulfilled (His saying): "Surely, I shall fill Hell with Jinn and men all together." (11:118-119) He also said, أَفَلَمْ يَاْيْـَسِ الَّذِينَ ءَامَنُواْ أَن لَّوْ يَشَأءُ اللَّهُ لَهَدَى النَّاسَ جَمِيعًا Have not then those who believed yet known that had Allah willed, He could have guided all mankind. (13:31) Therefore, Allah said: أَفَأَنتَ تُكْرِهُ النَّاسَ So, will you then compel mankind, and force them to believe. حَتَّى يَكُونُواْ مُوْمِنِينَ until they become believers. meaning, it is not for you to do that. You are not commanded to do that either. It is Allah Who يُضِلُّ مَن يَشَأءُ وَيَهْدِى مَن يَشَأءُ sends astray whom He wills, and guides whom He wills. (35:8) فَلَ تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَيْهِمْ حَسَرَتٍ So do not destroy yourself in sorrow for them. (35:8) لَّيْسَ عَلَيْكَ هُدَاهُمْ وَلَـكِنَّ اللَّهَ يَهْدِى مَن يَشَأءُ It is not up to you to guide them, but Allah guides whom He wills. (2:272) لَعَلَّكَ بَـخِعٌ نَّفْسَكَ أَلاَّ يَكُونُواْ مُوْمِنِينَ It may be that you would kill yourself with grief because they are not believers. (26:3) إِنَّكَ لاَ تَهْدِى مَنْ أَحْبَبْتَ you guide not who you like.. (28:56) فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلَـغُ وَعَلَيْنَا الْحِسَابُ Your duty is only to convey, and it is up to Us to reckon. (13:40) فَذَكِّرْ إِنَّمَأ أَنتَ مُذَكِّرٌ لَّسْتَ عَلَيْهِم بِمُسَيْطِرٍ So remind, you are only one who reminds. You are not a dictator over them. (88:21-22) There are other Ayat besides these which prove that Allah is the doer of what He wants, guiding whom He wills, leading whom He wills to stray, all out of His knowledge, wisdom, and justice. Similarly, He said,

اللہ کی حکمت سے کوئی آگاہ نہیں اللہ کی حکمت ہے کہ کوئی ایمان لائے اور کسی کو ایمان نصیب ہی نہ ہو ۔ ورنہ اگر اللہ کی مشیت ہوتی تو تمام انسان ایمان دار ہوجاتے ۔ اگر وہ چاہتا تو سب کو اسی دین پر کار بند کر دیتا ۔ لوگوں میں اختلاف تو باقی ہی نہ رہے ۔ سوائے ان کے جن پر رب کا رحم ہو ، انہیں اسی لیے پیدا کیا ہے ، تیرے رب کا فرمان حق ہے کہ جہنم انسانوں اور جنوں سے پر ہوگی ۔ کیا ایماندار ناامید نہیں ہوگئے؟ یہ کہ اللہ اگر چاہتا تو تمام لوگوں کو ہدایت کرسکتا تھا ۔ یہ تو ناممکن ہے کہ تو ایمان ان کے دلوں کے ساتھ چپکا دے ، یہ تیرے اختیار سے باہر ہے ۔ ہدایت و ضلالت اللہ کے ہاتھ ہے ۔ تو ان پر افسوس اور رنج و غم نہ کر اگر یہ ایمان نہ لائیں تو تو اپنے آپ کو ان کے پیچھے ہلاک کردے گا ؟ تو جسے چاہے راہ راست پر لا نہیں سکتا ۔ یہ تو اللہ کے قبضے میں ہے ، تجھ پر تو صرف پہنچا دینا ہے حساب ہم خود لے لیں گے ، تو تو نصیحت کر دینے والا ہے ۔ ان پر داروغہ نہیں ۔ جسے چاہے راہ راست دکھائے جسے چاہے گمراہ کر دے ۔ اس کا علم اس کی حکمت اس کا عدل اسی کے ساتھ ہے ۔ اس کی مشیت کے بغیر کوئی بھی مومن نہیں ہو سکتا ۔ وہ ان کو ایمان سے خالی ، ان کے دلوں کو نجس اور گندہ کر دیتا ہے جو اللہ کی قدرت ، اللہ کی برھان ، اللہ کے احکام کی آیتوں میں غور فکر نہیں کرتے ۔ عقل و سمجھ سے کام نہیں لیتے ، وہ عادل ہے ، حکیم ہے ، اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

99۔ 1 لیکن اللہ نے ایسا نہیں چاہا، کیونکہ یہ اس کی اس حکمت و مصلحت کے خلاف ہے، جسے مکمل طور پر وہی جانتا ہے۔ یہ اس لئے فرمایا کہ نبی کی شدید خواہش ہوتی تھی کہ سب مسلمان ہوجائیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ نہیں ہوسکتا کیونکہ مشیت الٰہی جو حکمت بالغہ اور مصلحت راجحہ پر مبنی ہے، اس کا تقاضہ نہیں۔ اس لئے آگے فرمایا کہ آپ لوگوں کو زبردستی ایمان لانے پر کیسے مجبور کرسکتے ہیں ؟ جب کہ آپ کے اندر اس کی طاقت ہے نہ اس کے آپ مکلف ہی ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠٧] یعنی رسول اللہ کی یہ تو انتہائی خواہش تھی کہ سب کے سب لوگ ہی ایمان لے آئیں اور اگر اللہ چاہتا تو وہ ایسا کر بھی سکتا تھا مگر یہ بات اللہ کی مشیئت کے خلاف ہے۔ اللہ کی مشیئت یہ ہے کہ جو لوگ ایمان لائیں علی وجہ البصیرت اور اپنے اختیار و ارادہ کو پوری آزادی کے ساتھ استعمال کرکے لائیں لہذا آپ کی یہ ذمہ داری نہیں کہ کسی کو ایمان لانے پر مجبور کریں اور نہ ہی آپ کو ان کے ایمان نہ لانے کی وجہ سے کچھ رنج کرنے یا پریشان ہونے کی ضرورت ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَوْ شَاۗءَ رَبُّكَ لَاٰمَنَ ۔۔ : یعنی اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو فرشتوں کی طرح جنوں اور انسانوں کی فطرت بھی ایسی بنا دیتا کہ وہ کفر و نافرمانی کر ہی نہ سکتے، یا ان سب کے دل ایمان و طاعت کی طرف پھیر دیتا، لیکن اس طرح چونکہ جنوں اور انسانوں کو علیحدہ قسم کی حیثیت سے پیدا کرنے کا مقصد ہی فوت ہوجاتا۔ (دیکھیے ہود : ١١٨، ١١٩۔ فاطر : ٨) اس لیے اس نے اپنی مرضی سے ان کی فطرت میں یہ چیز رکھی ہے کہ وہ عقل سے کام لے کر چاہیں تو ایمان و طاعت کا راستہ اختیار کریں یا چاہیں تو کفر و نافرمانی کا۔ اَفَاَنْتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتّٰى يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَ : یعنی ایمان دل کا معاملہ ہے، اس پر کسی کو مجبور کیا جاسکتا ہی نہیں اور مجبور کرنا جائز بھی نہیں، فرمایا : (لَآ اِكْرَاهَ فِي الدِّين) [ البقرۃ : ٢٥٦ ] ” دین میں کوئی زبردستی نہیں۔ “ اگر آپ کسی کو زبردستی مسلمان بنا بھی لیں تو دل کی کیا ضمانت ہے کہ اس میں بھی ایمان آچکا ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازراہ شفقت یہ زبردست خواہش تھی کہ اللہ کے سب بندے ایمان لے آئیں، اس لیے اس آیت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ کہہ کر تسلی دی گئی کہ یہ چونکہ ہونے والی بات نہیں، اس لیے آپ کیوں اپنے آپ کو رنج و کرب میں مبتلا کرتے ہیں ؟

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر اور ( ان اقوام و قرٰی کی کیا تخصیص ہے) اگر آپ کا رب چاہتا تو تمام روئے زمین کے لوگ سب کے سب ایمان لے آتے ( مگر بعض حکمتوں کی وجہ سے یہ نہ چاہا اس لئے سب ایمان نہیں لائے) سو ( جب یہ بات ہے تو) کیا آپ لوگوں پر زبردستی کرسکتے ہیں جس میں وہ ایمان ہی لے آئیں حالانکہ کسی شخص کا ایمان لانا بدون خدا کے حکم ( یعنی مشیت) کے ممکن نہیں اور اللہ تعالیٰ بےعقل لوگوں پر (کفر کی) گندگی واقع کردیتا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَوْ شَاۗءَ رَبُّكَ لَاٰمَنَ مَنْ فِي الْاَرْضِ كُلُّھُمْ جَمِيْعًا۝ ٠ ۭ اَفَاَنْتَ تُكْرِہُ النَّاسَ حَتّٰى يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَ۝ ٩٩ شاء والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادةالإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] ( ش ی ء ) الشیئ المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق ہے ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔ أرض الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . ( ا رض ) الارض ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ كره قيل : الْكَرْهُ والْكُرْهُ واحد، نحو : الضّعف والضّعف، وقیل : الكَرْهُ : المشقّة التي تنال الإنسان من خارج فيما يحمل عليه بِإِكْرَاهٍ ، والکُرْهُ : ما يناله من ذاته وهو يعافه، وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ [ التوبة/ 33] ( ک ر ہ ) الکرہ ( سخت ناپسند یدگی ) ہم معنی ہیں جیسے ضعف وضعف بعض نے کہا ہے جیسے ضعف وضعف بعض نے کہا ہے کہ کرۃ ( بفتح الکاف ) اس مشقت کو کہتے ہیں جو انسان کو خارج سے پہنچے اور اس پر زبر دستی ڈالی جائے ۔ اور کرہ ( بضم الکاف ) اس مشقت کو کہتے ہیں جو اسے نا خواستہ طور پر خود اپنے آپ سے پہنچتی ہے۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ [ التوبة/ 33] اور اگر چہ کافر ناخوش ہی ہوں ۔ نوس النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] ( ن و س ) الناس ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٩٩) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر آپ کے پروردگار کی مرضی ہوتی تو تمام کفار ایمان لے آتے لہذا جب یہ بات ہے تو کیا آپ لوگوں کو مجبور کرسکتے ہیں کہ وہ ایمان لائیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩٩ (وَلَوْ شَآءَ رَبُّکَ لَاٰمَنَ مَنْ فِی الْاَرْضِ کُلُّہُمْ جَمِیْعًا) یہ مضمون سورة الانعام میں بڑے شد ومد کے ساتھ آچکا ہے۔ حضور کی شدید خواہش تھی کہ یہ سب لوگ ایمان لے آئیں مگر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس سلسلے میں ہمارا اپنا قانون ہے اور وہ یہ کہ جو حق کا طالب ہوگا اسے حق مل جائے گا اور جو تعصب ضد اور ہٹ دھرمی پر اتر آئے گا اسے ہدایت نصیب نہیں ہوگی۔ اگر لوگوں کو مسلمان بنانا ہی مقصود ہوتا تو اللہ کے لیے یہ کون سا مشکل کام تھا۔ وہ سب کو پیدا ہی ایسے کرتا کہ سب مؤمن متقی اور پرہیزگار ہوتے۔ آخر اس نے فرشتے بھی تو پیدا کیے ہیں جو کبھی غلطی کرتے ہیں نہ اس کی معصیت۔ جیسا کہ سورة التحریم میں فرمایا : (لَا یَعْصُوْنَ اللّٰہَ مَآ اَمَرَہُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ ) وہ اللہ کے احکام کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کرتے ہیں جو انہیں حکم دیا جاتا ہے۔ لیکن انسانوں کو اس نے پیدا ہی امتحان کے لیے کیا ہے۔ سورة الملک کے آغاز میں زندگی اور موت کی تخلیق کا یہی مقصد بتایا گیا ہے : (خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا) (آیت ٢) ” اس نے زندگی اور موت کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون حسن عمل کا رویہ اختیار کرتا ہے “۔ لہٰذا اے نبی آپ اس معاملے میں اپنا فرض ادا کرتے جائیں ‘ کوئی ایمان لائے یا نہ لائے اس کی پروا نہ کریں ‘ کسی کو ہدایت دینے یا نہ دینے کا معاملہ ہم سے متعلق ہے۔ (اَفَاَنْتَ تُکْرِہُ النَّاسَ حَتّٰی یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ ) اصل میں یہ ساری باتیں حضور کے دل مبارک کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے کی جا رہی ہیں کہ آپ ہر وقت دعوت و تبلیغ کی جدوجہدّ میں مصروف ہیں ‘ پھر آپ کو یہ اندیشہ بھی رہتا ہے کہ کہیں اس ضمن میں میری طرف سے کوئی کوتاہی تو نہیں ہو رہی۔ جیسے سورة الاعراف (آیت ٢ میں) فرمایا : (فَلاَ یَکُنْ فِیْ صَدْرِکَ حَرَجٌ مِّنْہُ ) کہ آپ کے دل میں فرائض رسالت کے سلسلے میں کسی قسم کی تنگی نہیں ہونی چاہیے۔ اور ان لوگوں کے پیچھے آپ اپنے آپ کو ہلکان نہ کریں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

101. Had it been God's will that only those who are true believers and obey God should inhabit the earth and that there should remain no trace of unbelief and disobedience, God would have caused only the faithful and obedient ones to be born. Nor would-it have been difficult for Him to providentially direct everyone to faith and obedience in such a manner that it would have been impossible for people to do otherwise. However, there is a profound wisdom underlying man's creation which would have been totally defeated by such a compulsion. For it was God's will to grant man the free-will to make his choice between faith and unbelief, between obedience and disobedience. 102. What has been said here does not mean that the Prophet (peace be on him) sought to compel people into believing whereas God had dissuaded him from doing so. The technique employed in the above verse is the same as employed at many places in the Qur'an, viz. that although at times certain things are addressed apparently to the Prophet (peace be on him), they are meant, in fact, for the instruction of others. What is being said here is that the Prophet (peace be on him) had been assigned the task of making the right way abundantly clear to people with the help of convincing arguments. Thus the Prophet (peace be on him) had fulfilled the task assigned to him. Now, if they have no intent to follow the right way, and they feel sure that unless they are overpoweringly compelled to they should know well that it is no part of a Prophet's task. Had God desired that people be made to have faith compulsively, He could have done so without raising any Prophet.

سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :101 یہ لوگ ایسے تھے جن کا معاملہ مشکوک تھا ۔ نہ ان کے منافق ہونے کا فیصلہ کیا جا سکتا تھا نہ گناہگار مومن ہونے کا ان دونوں چیزوں کی علامات ابھی پوری طرح نہ ابھری تھیں ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے معاملہ کو ملتوی رکھا ۔ نہ اس معنی میں کہ فی الواقع خدا کے سامنے معاملہ مشکوک تھا ، بلکہ اس معنی میں کہ مسلمانوں کو کسی شخص یا گروہ کے معاملہ میں اپنا طرزِ عمل اس وقت تک متعین نہ کرنا چاہیے کہ جب تک اس کی پوزیشن ایسی علامات سے واضح نہ ہو جائے جو علم غیب سے نہیں بلکہ حس اور عقل سے جانچی جا سکتی ہوں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

40: یعنی اللہ تعالیٰ زبردستی سب کو مومن بنا سکتا تھا۔ لیکن چونکہ دنیا کے دار الامتحان میں ہر شخص سے مطالبہ یہ ہے کہ وہ اپنی آزاد مرضی اور اختیار سے ایمان لائے، اس لیے کسی کو زبردستی مسلمان کرنا نہ اللہ تعالیٰ کا طریقہ ہے، نہ کسی اور کے لیے جائز ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٩٩۔ ١٠٠۔ حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس بات کی حرص تھی کہ سارے لوگ مسلمان ہوجاویں اس پر اللہ جل شانہ نے فرمایا کہ کیا تم زبردستی لوگوں کو مومن بنانا چاہتے ہو تمہیں یہ نہیں معلوم کہ بغیر حکم خدا کے کوئی ایمان نہیں لاسکتا یہ بات غیر ممکن ہے کہ سب کے سب مومن ہوجائیں یہ خدا کی مشیت کے خلاف ہے اگر خدا چاہتا تو سارے جہاں کو مومن بنا دیتا مگر اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہے جن لوگوں میں عقبیٰ کی بہبودی کے سمجھنے کا مادہ نہیں ہے خدا کی دلیلوں میں حجت نکالتے ہیں وہ کیوں کر ایمان لاسکتے ہیں۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے عبد اللہ بن عمرو بن العاص (رض) کی یہ حدیث اوپر گزر چکی ہے کہ دنیا کے پیدا ہونے سے پچاس ہزار برس پہلے جو کچھ دنیا میں ہو رہا ہے اللہ تعالیٰ نے وہ سب لوح محفوظ میں لکھ لیا ہے۔ یہ حدیث ان دونوں آیتوں کی گویا تفسیر ہے کیوں کہ آیتوں اور حدیث کو ملا کر یہ مطلب قرار پاتا ہے کہ اللہ اگر چاہتا تو مکہ کے یہ سارے مشرک بت پرست راہ راست پر آجاتے لیکن اللہ تعالیٰ کو یہ اس لئے منظور نہیں ہے کہ دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے علم الٰہی کے موافق جہاں اور سب کچھ لوح محفوظ میں لکھا گیا ہے وہاں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ دنیا میں پیدا ہونے کے بعد ان مشرکوں میں سے کچھ لوگ قرآن کی نصیحت پر نہ دھیان کریں گے نہ راہ راست پر آویں گے بلکہ شرک کی حالت میں دنیا سے اٹھ جاویں گے اور ان کا ٹھکانا دوزخ ٹھہرے گا اس واسطے کسی کو مجبور کر کے راہ راست پر لانے کا اللہ کا حکم نہیں ہے اور بغیر اللہ کے حکم کے نہ کوئی مجبور ہوسکتا ہے نہ راہ راست پر آسکتا ہے جس کے معنے اکثر مفسروں نے عذاب کے لئے ہیں اور بعضوں نے شرک کی گندگی کے ترجمہ میں پچھلا قول لیا گیا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(10:99) افانت تکرہ۔ ا استفہامیہ ۔ ف مقدر عبارت پر دلالت کرتی ہے۔ (یعنی اللہ تعالیٰ چاہتے تو روئے زمین پر سب کے سب ایمان لے آتے لیکن مشیت ایزدی یہ نہیں ہے تو کیا آپ ۔۔ ) تکرہ مضارع واحد مذکر حاضر۔ (باب افعال) اکراۃ سے۔ تو ان کو مجبور کریگا یا تو ان سے زبردستی کرے گا (جب تک وہ مومن بن جاویں) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 ۔ یعنی اگر اللہ چاہتا تو فرشتوں کی طرح جنوں اور انسانوں کی فطرت بھی ایسی بنا دیتا کہ کہ وہ کفرو نافرمانی کر ہی نہ سکتے یا ان سب کے دل ایمان و اطاعت کی طرف پھیر دیتا لیکن اس طرح چونکہ جنوں یا انسانوں کی و علیحدہ نوع کی حیثیت سے پیدا کرنے کا مقصد ہی فوت ہوجاتا۔ اس لئے اس نے اپنی مرضی سے ان کی فطرت میں یہ چیز رکھی ہے کہ وہ عقل سے کام لے کر چاہے ایمان وطاعت کا راستہ اختیار کریں یا کفرو نافرمانی کی۔ 8 ۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازراہِ شفقت یہ زبردست خواہش تھی کہ اللہ کے سب بندے ایمان لے آئیں، اس لئے اس آیت میں آپ کو یہ کہہ کر تسلی دی گئی کہ یہ چونکہ ہونے والے بات نہیں اس لئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیوں اپنے آپ کو رنج و کرب میں مبتلا کرتے ہیں۔ (کذافی الوحیدی) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ خلاصہ قصہ قوم یونس (علیہ السلام) کا یہ ہے کہ ان کے ایمان نہ لانے پر حسب وحی الٰہی یونس نے ان کو عذاب کی خبر دی اور خود چلے گئے جب وقت موعود پر عذاب کے آثار شروع ہوئے تو تم قوم نے اللہ کے روبرو گریہ درازی شروع کردی اور ایمان لے آئے وہ عذاب ٹل گیا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : کیونکہ حضرت یونس (علیہ السلام) کی قوم عذاب دیکھ کر سچا ایمان لائی اور توبہ کی اس لیے مناسب سمجھا گیا کہ وضاحت کردی جائے کہ اللہ تعالیٰ جبراً کسی کو ایمان لانے پر مجبور نہیں کرتا۔ جس طرح کہ پہلی آیات کی تفسیر میں عرض کیا گیا ہے۔ کہ حضرت یونس (علیہ السلام) کی قوم پر عذاب بھیجنے کے باوجود اس لیے انہیں معاف کردیا گیا کہ ابھی پوری طرح ان پر اتمام حجت نہیں ہوئی تھی۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے اللہ کے حضور عجزو عاجزی کی ایک نئی مثال قائم کی تھی جس بنا پر ان پر آیا ہوا عذاب ٹال دیا گیا۔ قرآن مجید کی تلاوت کرنے والے کو یہ خیال آسکتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ ہر دور کے مجرموں کو راہ راست پر لانے کے لیے تھوڑا سا جبر اختیار فرما لے تو لوگ ہدایت پر آسکتے ہیں۔ اس خیال کی نفی کی خاطریہاں یہ اصول بیان کردیا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا ضابطہ نہیں کہ لوگوں کو جبر کے ذریعے اپنی ذات منوائے اور دین پر گامزن کرے۔ اگر اللہ تعالیٰ یہ انداز اختیار فرمائے تو زمین پر بسنے والے ہر دور کے انسان ایمان قبول کرلیتے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل و شعور کی صلاحیت سے سرفراز کیا ہے۔ جسے بروئے کار لانا ہر انسان کی ذمہ داری ہے۔ اگر لوگ عقل وخرد رکھتے ہوئے بھی نفع اور نقصان، برائی اور اچھائی، نیکی اور بدی میں فرق نہیں کرتے تو اس کا انجام انہیں بھگتنا پڑے گا۔ البتہ یہ بات ضرور ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایمان کی توفیق اسے ضرور مل جاتی ہے جو خلوص نیت کے ساتھ ایمان کی جستجو کرتا ہے۔ جو کسی قسم کا تعصب اور دنیوی مفاد پیش نظر رکھے گا اس پر عقیدے کی گندگی اور بدعملی کی نحوست مسلط کردی جاتی ہے۔ اس فرمان میں یہی اصول سمجھانے کے لیے یہ انداز اختیار کیا گیا ہے کہ ہدایت اللہ تعالیٰ کے اذن کا نتیجہ ہوتی ہے اور برائی بھی اسی کی جانب سے ہوتی ہے۔ جس کا سادہ مفہوم یہ ہے کہ کوئی ہدایت کا طالب ہو تو اللہ تعالیٰ اسے ہدایت دیتا ہے جو برائی کا طلبگار ہوتا ہے اس کے لیے برائی کا راستہ کھول دیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے یوں بھی بیان کرتے ہیں : (إِنَّا ہَدَیْنَاہ السَّبِیْلَ إِمَّا شَاکِرًا وَإِمَّا کَفُوْرًا )[ الدھر : ٣] ” ہم نے انسان کو راستے کی راہنمائی کی۔ چاہے تو وہ ہدایت کا راستہ اختیار کرے۔ چاہیے تو گمراہی کا راستہ اختیار کرلے۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ جبر کرتے تو سارے لوگ ایمان لے آتے۔ ٢۔ آدمی ہدایت کے راستے کو چھوڑ دے تو اس پر گمراہی مسلط کردی جاتی ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کسی کو جبراً ہدایت نہیں دیتا : ١۔ اگر تیرا رب چاہتا تو زمین کے تمام لوگ ایمان لے آتے۔ (یونس : ٩٩) ٢۔ کیا آپ لوگوں پر ایمان کے معاملہ میں جبر کرسکتے ہیں ؟ (یونس : ٩٩) ٣۔ دین میں جبر نہیں ہے۔ (البقرۃ : ٢٥٦) ٤۔ ہم نے قوم ثمود کو ہدایت دی انہوں نے ہدایت کے بدلے جہالت کو پسند کیا۔ (حم السجدۃ : ١٧) ٥۔ اللہ ایسی قوم کو کیسے ہدایت دے جو ایمان لانے کے بعد کفر اختیار کرتی ہے۔ (آل عمران : ٨٦) ٦۔ اللہ تعالیٰ اس کو ہدایت دیتا ہے جو اس کی طرف رجوع کرتا ہے۔ (الشورٰی : ١٣) ٧۔ اگر اللہ چاہتا تو سبھی کو ہدایت دے دیتا اور کافر تو اسی حال میں ہی رہیں گے۔ (الرعد : ٣١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ولو شاء ربک لامن من فی الارض کلھم جمیعا اور (اے محمد ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) ! ) اگر اپ کے رب کو منظور ہوتا تو زمین پر رہنے والے سب کے سب ایمان لے آتے ‘ کوئی بغیر ایمان لائے نہ بچتا اور کوئی ایمان سے اختلاف نہ کرتا۔ سب ایمان پر متفق ہوجاتے۔ فرقۂ قدریہ قائل ہے کہ اللہ تو سب لوگوں کا مؤمن ہوجانا چاہتا ہے لیکن لوگ خود اپنے اختیار سے ایمان لانا نہیں چاہتے (اس فرقہ کے نزدیک مشیت اور رضا میں فرق نہیں ہے۔ چاہنے کا معنی ہے پسند کرنا۔ اُشَاعِرَہ کہتے ہیں کہ اللہ کو ایمان تو سب کا پسند ہے مگر مشیت نہیں کہ سب مؤمن ہوجائیں۔ رضائے الٰہی سے تخلف تو ہو سکتا ہے مگر مشیت سے تخلف نہیں ہو سکتا۔ قدریہ کے نزدیک جو رضا ہے وہی مشیت رضا عام ہے ‘ مشیت بھی عام ہے ‘ رضا کے خلاف ہونا ممکن ہے اور ہوتا ہے۔ مشیت کے خلاف بھی ہو سکتا ہے اور ہوتا ہے) آیت بتا رہی ہے کہ اللہ نے سب لوگوں کو مؤمن بنانا چاہا ہی نہیں ‘ اگر اس کی مشیت ہوتی تو سب مؤمن ہوجاتے (ہاں سب کا مؤمن ہوجانا اس کو پسند ہے) قدریہ نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ آیت میں مشیت سے مراد ہے مجبور کن مشیت اور مجبور کن مشیت الٰہی کے خلاف ہونا ممکن نہیں (پس اللہ کی مجبور کن مشیت نہیں ہوتی کہ سب مؤمن ہوجائیں ‘ مگر یہ زائد شرط خلاف ظاہر ہے۔ افانت تکرہ الناس حتی یکونوا مؤمنین۔ (اے محمد ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) ! ) کیا آپ لوگوں کو اللہ کی مشیت نہ ہونے کے باوجود مجبور کردیں گے کہ وہ مؤمن ہوجائیں __ استفہام انکاری ہے اور اَنْتَ ضمیر کا تُکْرِہُفعل سے پہلے لانا دلالت کر رہا ہے کہ اس امر پر کہ اللہ نے نہ چاہے تو کسی چیز کا وجود ناممکن ہے۔ جبر کر کے بھی اس کو حاصل نہیں کیا جاسکتا ‘ ترغیب دے کر حاصل کرنے کا تو ذکر ہی کیا ہے۔ بات یہ ہے کہ رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) بہت زیادہ خواہشمند تھے کہ سب لوگ مؤمن ہوجائیں ... (حالانکہ) آپ کا کام صرف ترغیب دینا تھا ‘ جبر کرنے کا تو اختیار ہی نہ تھا اور جو کام جبر سے بھی پورا نہ ہو سکے وہ محض ترغیب سے کیسے پورا ہو سکتا ہے) پس اللہ نے بتا دیا کہ جس کے نصیب میں سعادت ہوگی ‘ وہی ایمان لائے گا اور جو اللہ کے علم میں شقی ہے ‘ وہ ایمان نہیں لا سکتا ‘ آپ اس کی کچھ پرواہ نہ کیجئے۔ گویا اس آیت میں رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) کیلئے تسکین ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اگر اللہ چاہتاتو سب ایمان قبول کرلیتے ! ان آیات میں اول تو یہ بتایا کہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں مومن بھی رہیں گے۔ کافر بھی رہیں گے۔ اللہ کی حکمت کا یہی تقاضا ہے۔ اگر وہ چاہتا تو زمین کے بسنے والے سب لوگ ایمان لے آتے۔ جب اللہ کی حکمت اسی میں ہے کہ زمین پر کافر بھی بسیں اور مومن بھی رہیں تو آپ کو اس پر اصرار نہ ہونا چاہئے کہ سب لوگ مومن ہوجائیں۔ کیا آپ زبردستی کر کے لوگوں کو مومن بنائیں گے ؟ ایسا نہیں ہوسکتا کہ آپ زبردستی کر کے لوگوں کو مومن بنالیں۔ جو شخص مومن ہوتا ہے اللہ کے اذن یعنی اس کی مشیت سے مومن ہوتا ہے۔ ہاں یہ بات بھی ہے کہ جو لوگ عقل کو کام میں نہیں لاتے ایمان کی خوبی اور برتری انہیں ناپسند ہے اللہ تعالیٰ ان پر کفر کی گندگی واقع کردیتا ہے۔ اس کے بعد فرمایا کہ تم غور کرلو اور دیکھ لو کہ آسمانوں اور زمین میں کیا کیا چیزیں ہیں ؟ یہ چیزیں اللہ تعالیٰ کی توحید پر کھلی ہوئی دلیلیں ہیں۔ دلیلیں بھی ہیں اور ڈرانے والی وعیدیں بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے رسولوں اور کتابوں کے ذریعہ پہنچی ہیں لیکن جو لوگ ضد اور عناد کی وجہ سے ایمان نہیں لاتے ان کو یہ چیزیں فائدہ نہیں دیتیں۔ اب جبکہ دلائل سامنے آکر بھی ایمان نہیں لاتے تو انہیں کس چیز کا انتظار ہے ؟ کیا وہ اس انتظار میں ہیں کہ ایسے واقعات ان کے سامنے آجائیں جو ان سے پہلی امتوں کے واقعات گذر چکے ہیں۔ انہوں نے تکذیب کی اور کفر کو اختیار کیا۔ پھر عذاب میں مبتلا ہو کر ہلاک ہوئے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اللہ تعالیٰ نے خطاب کر کے فرمایا (قُلْ فَانْتَظِرُوْا اِنِّیْ مَعَکُمْ مِّنَ الْمُنْتَظِرِیْنَ ) (آپ فرما دیجئے کہ تم انتظار کرتے رہو۔ میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں) تکذیب کرنے والوں کا جو برا حال ہوگا وہ سامنے آجائے گا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

108: یہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیلئے تسلی ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خواہش تھی کہ سب لوگ ایمان لے آئیں اور مشرکین کے مسلسل انکار پر آپ آزردہ خاطر ہوتے اللہ نے فرمایا آپ کی خوشی کیلئے اگر میں تمام لوگوں کو ایمان لانے پر مجبور کرتا تو کرسکتا تھا مگر یہ میری حکمت بالغہ کیخلاف ہے اس طرح ابتلاء وامتحان کی حکتم فوت ہوجاتی۔ یہاں “ جَمِیْعًا ” کے بعد “ وَ لٰکِنْ لِیَبْلُوَکُمْ ” مقدر ہے بقرینہ “ وَ لَوْ شَاءَ اللّٰهُ لَجَعَلَکُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّ لٰکِنْ لِّیَبْلُوَکُمْ فِیْمَا اٰتٰکُمْ ” (مائدہ رکوع 7) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

99 اور اگر آپ کا رب چاہتا اور اس کو منظور ہوتا تو جتنے لوگ زمین میں ہیں سب کے سب ایمان لے آتے تو کیا آپ لوگوں پر زبردستی کرکے ان کو مجبور کریں گے کہ وہ ایمان ہی لے آئیں اور وہ مسلمان ہوجائیں یعنی یہ بات مشیت کے تعلق سے ہوتی ہے اس میں زور زبردستی کا کام نہیں۔