Surat ul Qariya

Surah: 101

Verse: 6

سورة القارعة

فَاَمَّا مَنۡ ثَقُلَتۡ مَوَازِیۡنُہٗ ۙ﴿۶﴾

Then as for one whose scales are heavy [with good deeds],

پھر جس کے پلڑے بھاری ہونگے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Then as for him whose Balance will be heavy. meaning, his good deeds are more than his bad deeds. فَهُوَ فِي عِيشَةٍ رَّاضِيَةٍ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

6۔ 1 موازین، میزان کی جمع ہے۔ ترازو، جس میں صحائف اعمال تولے جائیں گے۔ جیسا کہ اس کا ذکر (وَالْوَزْنُ يَوْمَىِٕذِۨ الْحَقُّ ۚ فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِيْنُهٗ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ۝) 7 ۔ الاعراف :8) (اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِ رَبِّهِمْ وَلِقَاۗىِٕهٖ فَحَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فَلَا نُقِيْمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَزْنًا 105۔ ) 18 ۔ الکہف :105) اور (وَنَضَعُ الْمَوَازِيْنَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَـيْــــــًٔا ۭ وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَيْنَا بِهَا ۭ وَكَفٰى بِنَا حٰسِـبِيْنَ 47؀) 21 ۔ الانبیاء :47) میں بھی گزرا ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ یہاں یہ میزان نہیں، موزون کی جمع ہے یعنی ایسے اعمال جن کی اللہ کے ہاں کوئی اہمیت اور خاص وزن ہوگا (فتح القدیر) لیکن پہلا مفہوم ہی راجح اور صحیح ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جن کی نیکیاں زیادہ ہوں گی تو وزن اعمال کے وقت ان کی نیکیوں والا پلڑا بھاری ہوجائے گا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥] موازین کے مختلف معنی اور میزان الاعمال کی صورتیں : اس آیت میں نفخہ ئصور ثانی کے بعد میدان محشر کا ایک منظر پیش کیا جارہا ہے۔ جبکہ لوگوں کے اعمال کا وزن کیا جارہا ہوگا۔ مَوَازِیْنُ کا واحد موزون بھی ہے اور میزان بھی۔ اور ان دونوں کی جمع موازین آتی ہے۔ اس لحاظ سے اس آیت کے دو مطلب ہوئے۔ ایک یہ کہ صرف موزون یا کچھ وزن رکھنے والی باتوں کو ہی تولا جائے گا۔ اور اللہ کے نزدیک وزن دار یا قابل قدر باتیں صرف نیک اعمال ہیں اور ان کے ساتھ ایمان ہونا بھی شرط اول ہے۔ کیونکہ کافروں کے نیک اعمال کا بھی وزن نہیں کیا جائے گا۔ جیسا کہ سورة کہف کی آیت نمبر ١٠٥ میں فرمایا کہ (فَلَا نُقِيْمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَزْنًا ١٠٥۔ ) 18 ۔ الكهف :105) یعنی ہم ان کے اعمال کو سرے سے تولیں گے ہی نہیں۔ دوسرا یہ کہ میزان کے معنی ترازو بھی ہے۔ اور وہ بوجھ یا وزن بھی جو ترازو کے کسی پلڑے میں تلنے کے لیے رکھا جائے اور ترازو کے دونوں پلڑوں میں سے ہر ایک پلڑا بھی۔ اس لحاظ سے یہ مطلب ہوگا کہ جس شخص کی نیکیوں کا پلڑا وزن دار یا بھاری ہوگیا تو ایسے لوگ ہی کامیاب سمجھے جائیں گے اور وہ اس روز خاطر خواہ عیش و آرام میں رہیں گے۔ واضح رہے کہ اعمال کے اوزان پر دو باتیں نہایت گہرا اثر ڈالتی ہیں۔ ایک یہ کہ کسی شخص نے یہ عمل کس نیت سے کیا تھا ؟ اور دوسرے یہ کہ اس میں خلوص اور محض رضائے الٰہی کا حصہ کتنا ہے۔ مثلاً نماز ہی کو لیجیے۔ نماز منافق بھی ادا کرتا ہے اور مومن بھی۔ لیکن ان کے ایک ہی جیسے عمل کے وزن میں زمین و آسمان جتنا بھی فرق ہوسکتا ہے۔ یا مثلاً ایک شخص محض رضائے الٰہی کی خاطر خلوص نیت کے ساتھ ایک مسکین کو کھانا کھلاتا ہے۔ دوسرا بھی یہی کام کرتا ہے لیکن مسکین سے کوئی بیگار لینا چاہتا ہے یا اس لیے کرتا ہے کہ لوگوں میں اس کی مسکین پروری کا چرچا ہو تو ان دونوں کے اس ایک جیسے عمل کے وزن میں بہت فرق ہوگا۔ اللہ چونکہ لوگوں کی نیتوں اور دل کی سب باتوں سے واقف ہے۔ لہذا اعمال کا وزن نہایت انصاف پر مبنی ہوگا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فاما من ثقلت موازینہ :” موازین “ ” میزان “ کی جمع ہے ، ترازو۔ مراد ترازو کے پلڑے ہیں۔ تفصیل کے لئے دیکھیے سورة اعراف (٨، ٩) کی تفسیر۔ اس کے بعد اعمال کا وزن ہوگا۔” من ثقلت موازینہ “ (جس کے پلڑے بھاری ہوگئے) سے مراد نیکیوں کے پلڑے ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاَمَّا مَنْ ثَــقُلَتْ مَوَازِيْنُہٗ۝ ٦ ۙ «أمَّا» و «أمَّا» حرف يقتضي معنی أحد الشيئين، ويكرّر نحو : أَمَّا أَحَدُكُما فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْراً وَأَمَّا الْآخَرُ فَيُصْلَبُ [يوسف/ 41] ، ويبتدأ بها الکلام نحو : أمّا بعد فإنه كذا . ( ا ما حرف ) اما ۔ یہ کبھی حرف تفصیل ہوتا ہے ) اور احد اشیئین کے معنی دیتا ہے اور کلام میں مکرر استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ { أَمَّا أَحَدُكُمَا فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْرًا وَأَمَّا الْآخَرُ فَيُصْلَبُ } ( سورة يوسف 41) تم میں سے ایک ( جو پہلا خواب بیان کرنے ولا ہے وہ ) تو اپنے آقا کو شراب پلایا کریگا اور جو دوسرا ہے وہ سونی دیا جائے گا ۔ اور کبھی ابتداء کلام کے لئے آتا ہے جیسے امابعد فانہ کذا ۔ ثقل الثِّقْل والخفّة متقابلان، فکل ما يترجح علی ما يوزن به أو يقدّر به يقال : هو ثَقِيل، وأصله في الأجسام ثم يقال في المعاني، نحو : أَثْقَلَه الغرم والوزر . قال اللہ تعالی: أَمْ تَسْئَلُهُمْ أَجْراً فَهُمْ مِنْ مَغْرَمٍ مُثْقَلُونَ [ الطور/ 40] ، والثقیل في الإنسان يستعمل تارة في الذم، وهو أكثر في التعارف، وتارة في المدح ( ث ق ل ) الثقل یہ خفۃ کی ضد ہے اور اس کے معنی بھاری اور انبار ہونا کے ہیں اور ہر وہ چیز جو وزن یا اندازہ میں دوسری پر بھاری ہو اسے ثقیل کہا جاتا ہے اصل ( وضع ) کے اعتبار سے تو یہ اجسام کے بھاری ہونے پر بولا جاتا ہے لیکن ( مجاز ) معانی کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے چناچہ کہا جاتا ہے : ۔ اسے تادان یا گناہ کے بوجھ نے دبالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَمْ تَسْئَلُهُمْ أَجْراً فَهُمْ مِنْ مَغْرَمٍ مُثْقَلُونَ [ الطور/ 40] اے پیغمبر ) کیا تم ان سے صلہ مانگتے ہو کہ ان پر تادان کا بوجھ پڑرہا ہے ، اور عرف میں انسان کے متعلق ثقیل کا لفظ عام طور تو بطور مذمت کے استعمال ہوتا ہے اور کبھی بطور مدح بھی آجاتا ہے وزن الوَزْنُ : معرفة قدر الشیء . يقال : وَزَنْتُهُ وَزْناً وزِنَةً ، والمتّعارف في الوَزْنِ عند العامّة : ما يقدّر بالقسط والقبّان . وقوله : وَزِنُوا بِالْقِسْطاسِ الْمُسْتَقِيمِ [ الشعراء/ 182] ، وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ [ الرحمن/ 9] إشارة إلى مراعاة المعدلة في جمیع ما يتحرّاه الإنسان من الأفعال والأقوال . وقوله تعالی: فَلا نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ وَزْناً [ الكهف/ 105] وقوله : وَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَوْزُونٍ [ الحجر/ 19] فقد قيل : هو المعادن کالفضّة والذّهب، وقیل : بل ذلک إشارة إلى كلّ ما أوجده اللہ تعالی، وأنه خلقه باعتدال کما قال : إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْناهُ بِقَدَرٍ [ القمر/ 49] ( و زن ) الوزن ) تولنا ) کے معنی کسی چیز کی مقدار معلوم کرنے کے ہیں اور یہ وزنتہ ( ض ) وزنا وزنۃ کا مصدر ہے اور عرف عام میں وزن اس مقدار خاص کو کہتے جو ترا زو یا قبان کے ذریعہ معین کی جاتی ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَزِنُوا بِالْقِسْطاسِ الْمُسْتَقِيمِ [ الشعراء/ 182] ترا زو سیدھی رکھ کر تولا کرو ۔ اور نیز آیت کریمہ : ۔ وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ [ الرحمن/ 9] اور انصاف کے ساتھ ٹھیک تو لو ۔ میں اس بات کا حکم دیا ہے کہ اپنے تمام اقوال وافعال میں عدل و انصاف کو مد نظر رکھو اور آیت : ۔ وَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَوْزُونٍ [ الحجر/ 19] اور اس میں ہر ایک سنجیدہ چیز چیز اگائی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ کہ شی موزون سے سونا چاندی وغیرہ معد نیات مراد ہیں اور بعض نے ہر قسم کی مو جو دات مراد ہیں اور بعض نے ہر قسم کی موجادت مراد لی ہیں اور آیت کے معنی یہ کے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمام چیزوں کو اعتدال اور تناسب کے ساتھ پید ا کیا ہے جس طرح کہ آیت : ۔ إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْناهُ بِقَدَرٍ [ القمر/ 49] ہم نے ہر چیز اندازہ مقرر ہ کے ساتھ پیدا کی ہے ۔ سے مفہوم ہوتا ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(6 ۔ 11) ۔ سو جس کی نیکیوں کا پلڑا بھاری ہوگا یعنی مون تو وہ دلپسند جنت میں ہوگا اور کافر کا ٹھکانا ایک دہکتی ہوئی آگ ہوگی جس میں وہ گرے گا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦{ فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُہٗ ۔ } ” تو جن لوگوں کے (نیکیوں کے) پلڑے بھاری ہوں گے۔ “ یہاں یہ نکتہ خصوصی طور پر لائق توجہ ہے کہ ان آیات میں ایک ہی قسم کے وزن یا میزان کے ایک ہی پلڑے کا ذکر آیا ہے۔ اس بارے میں عام رائے یہ ہے کہ ” مَوَازین “ سے مراد یہاں نیکیوں کا وزن ہے۔ یعنی حساب کے وقت ہر شخص کی نیکیوں کا وزن کر کے دیکھا جائے گا کہ یہ وزن ” مطلوبہ معیار “ کے مطابق ہے یا نہیں۔ اور یہ ” مطلوبہ معیار “ بھی ہر شخص کا الگ الگ اس کے ” شاکلہ “ کے مطابق ہوگا۔ ظاہر ہے ہر شخص کی استطاعت (پیدائشی صلاحیتوں اور ماحول کے منفی و مثبت اثرات کے مطابق) دوسرے شخص کی استطاعت سے مختلف ہوگی اور ہر شخص اپنی استطاعت کی حد تک ہی اللہ تعالیٰ کے ہاں مکلف ہوگا : { لاَ یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلاَّ وُسْعَہَاط } (البقرۃ : ٢٨٦) ” اللہ تعالیٰ نہیں ذمہ دار ٹھہرائے گا کسی جان کو مگر اس کی وسعت کے مطابق “۔ چناچہ ہر شخص کے شاکلہ یعنی اس کے جینز (genes) کی طرف سے اسے حاصل ہونے والی صلاحیتوں اور ماحول کے اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کے لیے نیکیوں کے وزن کا ایک خاص معیار مقرر کیا جائے گا۔ اگر تو اس کی نیکیوں کے وزن (مَوَازِیْنُـہٗ ) کو اس معیار کے مطابق پایا گیا تو اسے کامیابی کا پروانہ مل جائے گا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

3 From here begins description of the second stage of Resurrection when after having been resurrected men will appear in the Court of God.

سورة القارعہ حاشیہ نمبر : 3 یہاں سے قیامت کے دوسرے مرحلے کا ذکر شروع ہوتا ہے جب دوبارہ زندہ ہوکر لوگ اللہ تعالی کی عدالت میں پیش ہوں گے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(101:6) فاما من ثقلت موازنہ : (یعم یکون الناس میں انسانوں کی حالت مجمل بیان کی گئی تھی یہاں سے تفصیل شروع ہے) یہ جملہ شرطیہ ہے۔ ف بمعنی پھر۔ اما حرف شرط ہے اکثر تفصیل کے لئے آتا ہے۔ بمعنی سو ہے۔ من شرطیہ استعمال ہوا ہے۔ بمعنی جس کا۔ ثقلت ماضی کا صیغہ واحد مؤنث غائب ثقل (باب کرم) مصدر سے ہے جس کا معنی گراں بار ہونے کے ہیں۔ موازینہ جمع ہے موزون کی یا میزان کی جو وزن سے اسم مفعول کا صیغہ واحد مذکر ہے۔ وزن کیا ہوا۔ موازین وہ اعمال جو ترازو میں تولے گئے ہوں جو وزن کئے گئے ہوں۔ مضاف ہ ضمیر واحد مذکر غائب جس کا مرجع من ہے۔ ترجمہ ہوگا :۔ پھر تو جس کے اعمال تول میں بھاری ہوں گے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ترازو کے پلڑوں کے بھاری ہونے اور خفیف ہونے سے مراد یہ ہے کہ وہ پیمانے جن کا اللہ کے ہاں اعتبار ہے اور وہ پیمانے جن کا اللہ کے ہاں کوئی وزن نہیں ہے ، یہی بات قرآن کریم کے مجموعی انداز بیان سے معلوم ہوتی ہے۔ واللہ اعلم ! رہے وہ عقلی اور لفظی مباحث جو ان امور کے بارے میں مفسرین ومتکلمین کرتے ہی۔ یہ قرآن کریم کے ساتھ ناانصافی ہے۔ یہ مباحث وہی لوگ کرتے ہیں جو قرآن کریم کی حقیقی ترجیحات اور اہتمامات سے واقف نہیں ہوتے۔ فاما من ................ موازینہ (6:101) ” پھر جس کی قدریں اہم ہوں گی “ اور اللہ کے ہاں وہ درست ہوں گی۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

ارشاد فرمایا :﴿فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِيْنُهٗۙ٠٠٦ فَهُوَ فِيْ عِيْشَةٍ رَّاضِيَةٍؕ٠٠٧﴾ (پھر جس شخص کا پلہ بھاری ہوگا وہ خاطر خواہ آرام میں ہوگا یعنی جنت میں جائے گا) ایسے حضرات کو ایسی زندگی ملے گی جس سے راضی اور خوش ہوں گے۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ راضیۃ بمعنی مرضیۃ ہے جیسا کہ ورضواعنہ کی تفسیر میں بیان کیا گیا کہ اہل جنت اپنی نعمتوں سے پوری طرح دل و جان سے راضی ہوں گے اور وہ اپنی زندگی کو بہت ہی عمدہ طیبہ جانتے اور مانتے ہوں گے کسی قسم کی کوئی بھی تکلیف اور ناگواری انہیں محسوس نہ ہوگی اپنے احوال اور نعمتوں میں خوش اور مگن ہوں گے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

4:۔ ” فاما من ثقلت۔ بشارت اخرویہ۔ قیامت کے دن جن کے اعمال صالحہ کا پلڑا بھاری ہوگا وہ نہایت خوش و خرم ہوں گے اور اپنی پسندیدہ عیش و عشرت سے لطف اندوز ہوں گے۔ ” راضیۃ “ بمعنی مرضیۃ (قرطبی) ۔ ” واما من خفت “ یہ تخویف اخروی ہے۔ ” امہ “ ای مستقرہ (قرطبی عن الاخفش) ۔ اور جن لوگوں کی نیکیوں کا پلڑا ہلکا ہوگا ان کا ٹھکانہ ہاویہ میں ہوگا۔ ہایہ دوزخ کے ناموں میں سے ہے۔ ” وما ادراک ماھیہ “ تمہیں کیا معلوم ہاویہ کیا چیز ہے وہ نہایت ہی سخت اور تند و تیز آگ ہے۔ ھیہ میں ہاء برائے سکتہ ہے۔ مثنوی میں ہاویہ کا جو معنی ذکر کیا گیا ہے وہ ظاہر قرآن کے خلاف ہے پس شد جائے دلش در ھاویہ ہیچ میدانی چہ باشد مایہ آتش سو زندہ نقش غیر را کہ بسوزد پر طیر ومیر را

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(6) پھر جس شخص کا پلہ بھاری ہوگا۔