Surat ul Qariya
Surah: 101
Verse: 8
سورة القارعة
وَ اَمَّا مَنۡ خَفَّتۡ مَوَازِیۡنُہٗ ۙ﴿۸﴾
But as for one whose scales are light,
اور جس کے پلڑے ہلکے ہونگے ۔
وَ اَمَّا مَنۡ خَفَّتۡ مَوَازِیۡنُہٗ ۙ﴿۸﴾
But as for one whose scales are light,
اور جس کے پلڑے ہلکے ہونگے ۔
But as for him whose Balance will be light. meaning, his bad deeds are more than his good deeds. Then Allah says, فَأُمُّهُ هَاوِيَةٌ
8۔ 1 جس کی برائیاں نیکیوں پر غالب ہوں گی اور برائیوں کا پلڑا بھاری اور نیکیوں کا ہلکا ہوگا۔
واما من خفت موازینہ…:” ھاویۃ “ ” ھوی یھوی ھویا “ (ض) گرنا۔ ” ھاویۃ “ کا لفظی معنی گڑھا ہے جس میں گرا جائے، مراد جہنم ہے۔ ” فامہ “” اس کی ماں “ مراد اس کا ٹھکانا ہے، جس طرح ماں اپنے بچے کو گود میں جگہ دیتی ہے۔
وَاَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِيْنُہٗ ٨ ۙ خفی خَفِيَ الشیء خُفْيَةً : استتر، قال تعالی: ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأعراف/ 55] ، ( خ ف ی ) خفی ( س ) خفیتہ ۔ الشیء پوشیدہ ہونا ۔ قرآن میں ہے : ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأعراف/ 55] اپنے پروردگار سے عاجزی سے اور چپکے چپکے دعائیں مانگا کرو ۔ وزن الوَزْنُ : معرفة قدر الشیء . يقال : وَزَنْتُهُ وَزْناً وزِنَةً ، والمتّعارف في الوَزْنِ عند العامّة : ما يقدّر بالقسط والقبّان . وقوله : وَزِنُوا بِالْقِسْطاسِ الْمُسْتَقِيمِ [ الشعراء/ 182] ، وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ [ الرحمن/ 9] إشارة إلى مراعاة المعدلة في جمیع ما يتحرّاه الإنسان من الأفعال والأقوال . وقوله تعالی: فَلا نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ وَزْناً [ الكهف/ 105] وقوله : وَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَوْزُونٍ [ الحجر/ 19] فقد قيل : هو المعادن کالفضّة والذّهب، وقیل : بل ذلک إشارة إلى كلّ ما أوجده اللہ تعالی، وأنه خلقه باعتدال کما قال : إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْناهُ بِقَدَرٍ [ القمر/ 49] ( و زن ) الوزن ) تولنا ) کے معنی کسی چیز کی مقدار معلوم کرنے کے ہیں اور یہ وزنتہ ( ض ) وزنا وزنۃ کا مصدر ہے اور عرف عام میں وزن اس مقدار خاص کو کہتے جو ترا زو یا قبان کے ذریعہ معین کی جاتی ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَزِنُوا بِالْقِسْطاسِ الْمُسْتَقِيمِ [ الشعراء/ 182] ترا زو سیدھی رکھ کر تولا کرو ۔ اور نیز آیت کریمہ : ۔ وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ [ الرحمن/ 9] اور انصاف کے ساتھ ٹھیک تو لو ۔ میں اس بات کا حکم دیا ہے کہ اپنے تمام اقوال وافعال میں عدل و انصاف کو مد نظر رکھو اور آیت : ۔ وَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَوْزُونٍ [ الحجر/ 19] اور اس میں ہر ایک سنجیدہ چیز چیز اگائی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ کہ شی موزون سے سونا چاندی وغیرہ معد نیات مراد ہیں اور بعض نے ہر قسم کی مو جو دات مراد ہیں اور بعض نے ہر قسم کی موجادت مراد لی ہیں اور آیت کے معنی یہ کے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمام چیزوں کو اعتدال اور تناسب کے ساتھ پید ا کیا ہے جس طرح کہ آیت : ۔ إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْناهُ بِقَدَرٍ [ القمر/ 49] ہم نے ہر چیز اندازہ مقرر ہ کے ساتھ پیدا کی ہے ۔ سے مفہوم ہوتا ہے
4 The word mawazin in the original can be plural of mauzun as well as, of mizan. In the first case, mawazin would imply the deeds which might have some weight in the sight of Allah and be, thus, worthy of appreciation; in the second case, mawazin would imply scales of a balance. In the first case, the meaning of the mawazin's being heavier or lighter is that the good deeds will be heavy or light as ,against the evil deeds, for in the sight of Allah only good deeds have any weight and worth. In the second case. the meaning of the mawazin's being heavy is that the scale of the good deeds will be heavier than the scale of evil deeds, in Allah Almighty's Balance of Justice, and their being light means that the scale of good deeds will be lighter than the scale of evil deeds. Besides, in Arabic idiom the word mizan is also used for weight ( wazan) ; accordingly, the weight's being heavy of light implies the good deeds being heavy or light. In any case, whether mawazin is taken in the meaning of mauzun or of mizan, or of wazan, the intention remains the same, which is that the basis of judgement in the Divine Court will be whether the provision of the deeds that a matt has brought is weighty or weightless, or whether his good deeds are heavier than his evil deeds or lighter. This theme has occurred at several places in the Qur'an which explains the meaning fully well. In Surah Al-A'raf it has been said: "On that Day the weight will be identical with the Truth: accordingly, those whose scales, will be heavy will alone come out successful; and those whose scales are light will be the ones who will have incurred loss upon themselves." (w. 8-9) . In Surah Al-Kahf, it was said: 'O Prophet, say to them: Should we tell you who are the most un-successful people and miserable failures in regard to their deeds? They are those whose all endeavours in the worldly life had gone astray from the Right Way, but they were under the delusion that everything they were doing, was rightly directed: these are the people who rejected the Revelations of their Lord and did not believe that they would ever go before Him. Therefore, all their deeds were Lost, for We will assign no weight to them on the Day of Resurrection." (vv. 103-105) . In Surah Al-Anbiya': "On the Day of Resurrection, We will set up just and accurate balances so that no one will be wronged in the least in any way; even if it be an act equal in weight to a grain of mustard seed, We will bring it forth (to be weighed) and We suffice for reckoning". (v.47) . These verses show that kufr and denial of the truth is in itself such a stupendous evil that it will certainly lower the scale of evils, and there will be no good act of the disbelievers, which may have any weight in the scale of good deeds so that its scale of goodness may become heavy. However, in the scales of the believer there will be the weight of Faith as well as the weight of the good deeds which he performed in the world. On the other hand, every evil done by him will be placed in the scale of evil deeds and then it will be seen whether his scale of the good deeds is heavier or his scale of the evil deeds.
سورة القارعہ حاشیہ نمبر : 4 اسل میں لفظ موازین استعمال ہوا ہے جو موزون کی جمع بھی ہوسکتا ہے اور میزان کی جمع بھی ۔ اگر اس کو موزون کی جمع قرار دیا جائے تو موازین سے مراد وہ اعمال ہوں گے جن کا اللہ تعالی کی نگاہ میں کوئی وزن نہ ہو ، جو اس کے ہاں کسی قدر کے مستحق ہوں ۔ اور اگر اسے میزان کی جمع قرار دیا جائے تو موازین سے مراد ترازو کے پلڑے ہوں گے ۔ پہلی صورت میں موازین کے بھاری اور ہلکے ہونے کا مطلب نیک اعمال کا برے اعمال کے مقابلے میں بھاری یا ہلکا ہونا ہے کیونکہ اللہ تعالی کی نگاہ میں صرف نیکیاں ہی وزنی اور قابل قدر ہیں ۔ دوسری صورت میں موازین کے بھاری ہونے کا مطلب اللہ جل شانہ کی میزان عدل میں نیکیوں کے پلڑے کا برائیوں کے پلڑے کی بہ نسبت زیادہ بھاری ہونا ہے ، اور ان کے ہلکا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ بھلائیوں کا پلڑا برائیوں کے پلڑے کی بہ نسبت ہلکا ہو ۔ اس کے علاوہ عربی زبان کے محاورے میں میزان کا لفظ وزن کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ، اور اس معنی کے لحاظ سے وزن کے بھاری اور ہلکا ہونے سے مراد بھلائیوں کا وزن بھاری یا ہلکا ہونا ہے ۔ بہرحال موازین کو خواہ موزون کے معنی میں لیا جائے ، یا میزان کے معنی میں ، یا وزن کے معنی میں ، مدعا ایک ہی رہتا ہے ، اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالی کی عدالت میں فیصلہ اس بنیاد پر ہوگا کہ آدمی اعمال کی جو پونجی لے کر آیا ہے وہ وزنی ہے ، یا بے وزن ، یا اس کی بھلائیوں کا وزن اس کی برائیوں کے وزن سے زیادہ ہے یا کم ۔ یہ مضمون قرآن مجید میں متعدد مقامات پر آیا ہے جن کو نگاہ میں رکھا جائے تو اس کا مطلب پوری طرح واضح ہوجاتا ہے ۔ سورہ اعراف میں ہے اور وزن اس روز حق ہوگا ، پھر جن کے پلڑے بھاری ہوں گے وہی فلاح پائیں گے ، اور جن کے پلڑے ہلکے ہوں گے وہی اپنے آپ کو خسارے میں مبتلا کرنے والے ہوں گے ( آیات ، 8 ۔ 9 ) سورہ کہف میں ارشاد ہوا اے نبی ان لوگوں سے کہو کیا ہم تمہیں بتائیں کہ اپنے اعمال میں سب سے زیادہ ناکام و نامراد لوگ کون ہیں؟ وہ کہ دنیا کی زندگی میں جن کی ساری سعی و جہد راہ راست سے بھٹکی رہی اور وہ سمجھتے رہے کہ وہ سب کچھ ٹھیک کر رہے ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی آیات کو ماننے سے انکار کیا اور اس کے حضور پیشی کا یقین نہ کیا ، اس لیے ان کے سارے اعمال ضائع ہوگئے ، قیامت کے روز ہم انہیں کوئی وزن نہ دیں گے ( آیات 104 ۔ 105 ) سورہ انبیاء میں فرمایا قیامت کے روز ہم ٹھیک ٹھیک تولنے والے ترازو رکھ دیں گے ، پھر کسی شخس پر ذرہ برابر ظلم نہ ہوگا ، جس کا رائی کے دانے برابر بھی کچھ کیا دھرا ہوگا وہ ہم لے آئیں گے اور حساب لگانے کے لیے ہم کافی ہیں ( آیت 47 ) ان آیات سے معلوم ہوا ہے کہ کفر اور حق سے انکار بجائے خود اتنی بڑی برائی ہے کہ وہ برائیوں کے پلڑے کو لازما جھکا دے گی اور کافر کی کوئی نیکی ایسی نہ ہوگی کہ بھلائیوں کے پلڑے میں اس کا کوئی وزن ہو جس سے اس کی نیکی کا پلڑا جھک سکے ۔ البتہ مومن کے پلڑے میں ایمان کا وزن بھی ہوگا اور اس کے ساتھ ان نیکیوں کا وزن بھی جو اس نے دنیا میں کیں ۔ دوسری طرف اس کی جو بدی بھی ہوگی وہ بدی کے پلڑے میں رکھ دی جائے گی ۔ پھر دیکھا جائے گا کہ آیا نیکی کا پلڑا جھکا ہوا ہے یا بدی کا ۔
(101:8) واما من خفت موازینہ۔ اس جملہ کا عطف جملہ سابقہ پر ہے۔ جملہ شرطیہ ہے۔ خفت ماضی کا صیغہ واحد مؤنث غائب۔ خفۃ (باب ضرب) مصدر سے بمعنی ہلکا ہونا۔ اور جس کے اعمال کا تول ہلکا ہوگا۔
6۔ ثقلت موازینہ و خفت موازینہ شروع سورة اعراف میں گزر چکی ہے۔
فامامن ................ موازینہ (8:101) ” جس کے پیمانے ہلکے ہوئے “۔ اللہ کے اعتبار اور معیار کے مطابق۔
﴿وَ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِيْنُهٗۙ٠٠٨ فَاُمُّهٗ هَاوِيَةٌؕ٠٠٩﴾ (اور جن لوگوں کے وزن ہلکے پڑگئے یعنی برائیاں نیکیوں پر بھاری ہوگئیں ان کا ٹھکانہ ہاویہ ہوگا) ۔ ہاویہ کے بارے میں سوال فرمایا اور فرمایا ﴿ وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَاهِيَهْؕ٠٠١٠﴾ (اور اے مخاطب تجھے کیا معلوم ہے ہاویہ کیا ہے ؟ یہ سوال دوزخ کی عظیم مصیبت ظاہر کرنے کے لیے فرمایا، پھر خود ہی جواب میں فرمایا ﴿ نَارٌ حَامِيَةٌ (رح) ٠٠١١﴾ (کہ یہ وہ آگ ہے خوب گرم تیز) وزن اعمال کے بارے میں سورة الاعراف کی آیت ﴿وَ الْوَزْنُ يَوْمَىِٕذِ ا۟لْحَقُّ ١ۚ ﴾ کے ذیل میں ہم پوری تفصیل لکھ چکے ہیں (انوار البیان، ج ١) ۔ مختلف علمائے تفسیر کے اقوال بھی وہاں لکھ دیئے ہیں مطالعہ کرلیا جائے۔ سورة ٴ کہف کی آیت ﴿فَلَا نُقِيْمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَزْنًا ٠٠١٠٥﴾ اور سورة المومنون کی آیت ﴿فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِيْنُهٗ﴾ کی بھی مراجعت کرلی جائے۔ سورة القارعہ میں جو وزن اعمال کا ذکر ہے اگر اس سے ایمان اور کفر کا وزن مراد لیا جائے (جیسا کہ بعض مشائخ نے فرمایا ہے) کہ پہلے ایمان اور کفر کو تو لایا جائے گا۔ پھر جب مومن اور کفار کا امتیاز ہوجائے گا تو خاص مومنین کے اعمال کا وزن ہوگا۔ تو اس صورت میں ﴿ عِيْشَةٍ رَّاضِيَةٍ ﴾ والوں سے اہل ایمان اور ﴿فَاُمُّهٗ هَاوِيَةٌ ﴾ والوں سے اہل کفر مراد ہوں گے۔ بظاہر آیت سے یہی متبادر ہوتا ہے یہ ان حضرات کے قول کے مطابق ہے جنہوں نے ﴿ فَلَا نُقِيْمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَزْنًا ٠٠١٠٥﴾ کا یہ مطلب لیا ہے کہ کفار کے اعمال بالکل تو لے ہی نہ جائیں گے اور اگر اہل ایمان کے اوزان مراد لیے جائیں تو مطلب یہ ہوگا جن مومنین کے اعمال صالحہ بھاری ہوں گے۔ گناہوں کا پلہ ہلکا رہ جائے گا وہ امن اور چین کی زندگی میں ہوں گے اور جن کی نیکیوں کا پلڑا ہلکا ہوجائے گا (اور برائیوں کا پلڑا نیکیوں کے مقابلے میں بھاری ہوجائے گا) وہ دوزخ میں جائیں گے۔ پھر اللہ کی مشیت کے مطابق سزا بھگت کر جنت میں چلے جائیں گے۔ حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ جس کی نیکیاں غالب ہوں گی وہ جنت میں داخل ہوگا اگرچہ برائیوں کے مقابلہ میں ایک ہی نیکی زیادہ ہو اور جس کی برائیاں زیادہ ہوں گی وہ دوزخ میں جائے گا اگرچہ ایک ہی گناہ زیادہ نکلے اس کے بعد انہوں نے سورة الاعراف کی دونوں آیتیں ﴿فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِيْنُهٗ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ٠٠١٠٢﴾ (آخر تک) تلاوت کیں۔ اس کے بعد فرمایا کہ ترازو ایک حبہ کے برابر بوجھ کے ذریعہ بھی بھاری اور ہلکی ہوجائے گی پھر فرمایا جس کی نیکیاں اور برائیں برابر ہوں وہ اصحاب اعراف میں سے ہوگا ان کو اعراف میں روک دیا جائے گا (پھر یہ اعراف والے بھی بعد میں جنت میں چلے جائیں گے) اور جو لوگ گناہوں کی زیادتی کی وجہ سے دوزخ میں چلے جائیں گے وہ بھی شفاعت سے یا سزا بھگت کر یا محض اللہ کے فضل سے جنت میں داخل کردیئے جائیں گے کیونکہ کوئی مومن ہمیشہ نہ دوزخ میں رہے گا نہ اعراف میں۔ كما ھو المقرر عند اھل السنة والجماعة