تعارف : اسلامی تعلیمات کی روشی میں ایمان، عمل صالح، دیانت، امانت اور جائز طریقوں سے اگر مال و دولت کمایا جائے تاکہ وہ مال دولت اس کے اپنے لئے اور ملت کے کام آئے۔ جس کا مقصد خیر و فلاح اور بھلائی کا جذبہ ہو اور مال و دولت کی بنیاد پر کسی کو حیقر اور ذلیل نہ سمجھا جائے تو ایسی دولت کمانا عبادت سے کم نہیں ہے۔ دین اسلام نے جس چیز سے منع کیا ہے وہ زر پرستی کی لعنت ہے یعنی مال و دولت کمانے کے لئے جائز و ناجائز کی پروانہ نہ کرنا۔ رات دن دولت کمانے کی دھن تو ہو مگر حقوق اللہ اور حقوق العباد کو پامال کرتے چلے جانا۔ اپنی ذاتی تسکین کے لئے مال و دولت کے ڈھیر جمر کر ک کے ان پر فخر کرنا اور دوسروں کو حقیر و ذلیل سمجھنا یہی زر پرستی ہے جو اللہ کے نزدیک سخت ناپسندیدہ ہے۔ زر پرست وہ لوگ ہیں جن کے دل پتھر سے زیادہ سخت ہوجاتے ہیں اور ان میں ایک خاص ذھنیت پیدا ہوجاتی ہے بخل، کنجوسی، غرور وتکبر، مال و دولت کی کثرت پر اترانا، ہر جگہ اپنی ذات اور کوششوں کی بڑائی کرنا، حق و صداقت پر چلنے والے غریب اور مفلسوں کو حقیر و ذلیل، ناعاقبت اندیش، احمق اور بیوقوف سمجھنا، سامنے ہوں تو ان کو بات بات پر طعنے دینا، جملے اور پھبتیاں کسنا، پیٹھ پیچھے ان کی غیبت اور چغل خوری کرنا، ان پر ناحق الزامات لگانا، ان کو ذلیل و رسوا کرنے کی کوشش کرنا ایسے زر پرستوں اور ان کی کوششوں کی مذمت کی گئی ہے۔ فرمایا کہ ہر ایسے شخص کے لئے تباہی اور برباد ہے جو منہ پر لوگوں کو طعنے دیتا ہو اور پیٹھ پیچھے ان کی برائیاں کرتا ہو۔ مال جمع کرکے اس کو گنتا رہتا ہو اور یہ سمجھتا ہو کہ یہ مال و دولت اور عیش آرام کے اسباب ہمیشہ اس کے پاس رہیں گے اور کبھی فنا نہ ہوں گے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایسے لوگوں کو نہایت بھیانک انجام ہے ایسے لوگوں کو ” حطمہ “ میں پھینکا جائے گا۔ فرمایا کیا تمہیں معلوم ہے وہ ” حطمہ “ کیا ہے ؟ جواب عنایت فرمایا کہ حطمہ اللہ کی بھڑکائی ہوئی وہ آگ ہے جس کی شدت کا حال یہ ہوگا کہ وہ دلوں تک پہنچ جائے گی یعنی اس کا وہ دل جس میں بدترین خیالات، ناجائز خواہشات، گندی ذہنیت پرورش پا رہی تھی اس کو ہی جلا کر راکھ کا ڈھیر بنا دے گی اور چورہ چورہ کر ڈالے گی۔ ان زرپرستوں کو لمبے لمبے ستونوں سے باندھ کر پھر اس جہنم کو اوپر سے ڈھانپ دیا جائے گا۔ ان آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ زر پرست آدمی یہ سمجھتا ہے کہ اس نے جو بھی مال و دولت کمایا ہے وہ ہمیشہ اس کے ساتھ رہے گا حالانکہ خود آدمی کا کوئی بھروسہ نہیں کہ وہ کب اس دنیا سے چلا جائے گا۔ نہ وہ کود ہمیشہ اس دنیا میں رہے گا نہ اس کا مال و دولت اس کے ساتھ رہے گا بلکہ وہ جس دولت پر اس قدر اتراتا تھا وہ موت کے ایک جھٹکے کے ساتھ ہی اس کا ساتھ چھوڑ دے گی۔ اہل ایمان کے سامنے زر پرستوں کا انجام بتا کر اس بات کی تعلیم دی گئی ہے کہ وہ جائز طریقے سے مال کمائیں۔ اپنے لئے، اپنے بیوں بچوں اور رشتہ داروں کے علاوہ ملت کے دوسرے بہن بھائیوں کے لئے اس کو خرچ کریں تاکہ یہ خیر اور بھلائی اس کے لئے دل کا سکون، قبر کی راحت اور آخرت میں نجات کا ذریعہ بن جائے۔
سورة الہمزہ کا تعارف اس کا نام اس کے تیسرے لفظ میں موجود ہے۔ اس کا ایک رکوع ہے جو نو آیات پر محیط ہے یہ سورت مکہ کے ابتدائی دور میں نازل ہوئی اس میں انسان کو تین بری عادتوں سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے۔ جس میں ایک عادت مال کے بارے میں حد سے زیادہ حریص ہونا ہے۔ حریص انسان سمجھتا ہے کہ اس کا مال ہمیشہ رہے گا حالانکہ نہ اس کا مال ہمیشہ رہے گا نہ وہ خود باقی رہے گا۔ ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ کی بھڑکائی ہوئی آگ میں پھینکا جائے گا جس میں جہنمیوں کو ڈھانپ دیا جائے گا۔
یہ سورت بھی قرآن کے البم کی تصاویر میں سے ایک تصویر ہے ۔ اور یہ تصویر دعوت اسلامی کے ابتدائی ایام کی حقیقی تصویر ہے لیکن یہ ایک ایسی تصاویر ہے کہ ایسی تصاویر ہر سوسائٹی میں ملتی ہیں۔ یہ ایک گھٹیا اور چھوٹے درجے کے انسان کی تصویر ہے ، ایک ایسے شخص کی جسے دولت دی گئی ہے اور دولت کی پرستش اور محبت اس پر چھاجاتی ہے ۔ یہاں تک کہ اس کا چھوٹا ظرف اب طاقت نہیں رکھتا کہ اسے سمیٹ لے یا ہضم کرلے۔ ایسا شخص سوچنے لگتا ہے کہ دنیا میں تو ” مال “ اور ” دولت “ ہی اعلیٰ قدر ہے۔ یہ ایک ایسی قدر و قیمت ہے جس کے مقابلے میں تمام اقدار ہلکی ہیں ، چاہے وہ ایمان کی قدریں ، معانی کی قدریں ہوں ، حقائق و عقائد کی قدریں ہوں اور وہ سوچتا ہے کہ چونکہ اسے مال دے دیا گیا ہے۔ اس لئے اسے تمام اعزازت دے دیئے گئے ہیں اور وہ لوگوں کی عزتوں اور حقوق کا مالک ہے۔ پھر یہ دولت مند یہ خیال کرنے لگتا ہے کہ دولت کا دیوتا علی کل شیء قدیر ہے ، ہ سب کچھ کرسکتا ہے اور کوئی ایسا کام نہیں ہے جو دولت کا دیوتا نہیں کرسکتا۔ یہاں تک کہ وہ سمجھتا ہے کہ دولت کے ذریعہ سے موت کو بھی ٹالا جاسکتا ہے ۔ زندگی کو دائمی بنایا جاسکتا ہے۔ اللہ کے نظام قضا وقدرونظام جزاء وسزا کو بدلا جاسکتا ہے۔ اگر کوئی حشر ونشر ہو اور حساب و کتاب ہو بھی گیا تو وہاں بھی مال لگ سکتا ہے۔ چناچہ ایسا شخص رات دن مال کے حصول کی جدوجہد کرتا ہے۔ دولت کو گنتا رہتا ہے اور گنتے گنتے مزے لیتا ہے۔ پھر اس مال کی وجہ سے اس کی فسق وفجور کی آگ بھڑکتی ہے۔ وہ لوگوں کے حقوق پامال کرتا ہے ، ان کی آزادی سلب کرتا ہے اور ان کی عزت و شرافت کو پامال کرتا ہے۔ وہ لوگوں کو طعنے دیتا ہے اور ان کی برائیاں کرتا ہے۔ اپنی زبان سے ان کی عیب جو ئیاں کرتا ہے اور اپنے رویے اور اپنی حرکات کے ذریعہ ان کے عیب نکالتا ہے۔ کبھی ان کی حرکات کی نقل اتارتا ہے ، کبھی ان کی آواز کی نقل اتارتا ہے۔ کبھی ان کی صفات کو حقارت سے دیکھتا ہے ، منہ زبانی یا اشارات کے ساتھ ، کبھی ایک حقارت آمیز نظر سے اور کبھی گری ہوئی حرکات سے۔ یہ تصویر نفس انسانی کی تصاویر میں سے نہایت ہی حقیر اور گری ہوئی تصویر ہے۔ اس میں ایمان اور مروت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ اسلام ایسی گری ہوئی تصاویر کو سخت ناپسند کرتا ہے ، کیونکہ اسلام ایک بلند اخلاقی معیار رکھتا ہے۔ اسی لئے اسلام نے بار بار مزاح ، طعنہ زنی اور عیب جوئی سے لوگوں کو منع کیا ہے۔ البتہ اس سورت میں ان چیزوں کو نہایت ہی مکروہ شکل میں پیش کیا ہے اور ایسے گرے ہوئے اخلاق کا مظاہرہ کرنے والوں کو سخت دھمکی بھی دی ہے۔ اس سورت میں یہ اشارہ بھی ہے کہ دعوت اسلامی کے ابتدائی دنوں میں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اہل ایمان کی جماعت کو ایسے ہی حالات سے گزرنا پڑا تھا ، چناچہ بعض مالداروں کی ان حرکات کو سختی سے رد کیا گیا اور ان کو برے انجام کی سخت ترین دھمکی دی گئی۔ یہ حرکات کرنے والوں کے نام بھی بعض روایات میں بتائے گئے ہیں لیکن یہ روایات پختہ نہیں ، لہٰذا یہی پس منظر مناسب ہے جو ہم نے بیان کردیا ۔ ایسے شخص کو یہاں جو دھمکی دی گئی ہے وہ قیامت کے مناظر میں سے ایک منظر کی شکل میں ہے ، جس میں عذاب کی ایسی تصویر ہے جو مادی بھی ہے اور معنوی بھی ہے۔ آگ کی مادی اور حسی تصویر بھی کھینچی گئی ہے اور معنوی تصویر بھی۔ یہاں جرم وسزا اور طریقہ سزا اور عذاب کی فضا کے درمیان تقابل کی مناسبت کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ ایک ایسے مزہ ( جو اشاروں سے لوگوں کا مذاق اڑاتا ہے) اور ایسے لمزہ (جودوسروں کی صفات اور عزت پر زبان درازی کرتا ہے) کی تصویر کھینچی گئی ہے۔ جس کا مشغلہ مال جمع کرنا ہے اور جو اس مال کو قاضی الحاجات بھی سمجھتا ہے اور یہ خیال کرتا ہے کہ یہ مال ہی اسے دوام بخشے گا جو مال کی وجہ سے اپنے آپ کو برتر سمجھتا ہے۔ اور جو مال ہی کو تمام قوتوں کا سرچشمہ سمجھتا ہے ، لیکن ایسے شخص کی تصویر کے بالمقابل ایک دوسرے شخص کی تصویر ہے جو پرے پھینکا ہوا ہے ، ناقابل التفات ہے اور الحطمة ” چکنا چور کردینے والی جگہ “ میں پھینک دیا گیا ہے۔ یہ سزا اس کے لئے اس لئے تجویز ہوئی ہے کہ اس کے جسم کے ساتھ ساتھ اس کی کبریائی اور بڑائی کے زعم کو بھی پاس پاس کردے اور یہ الحطمة ہے کیا نار اللہ اموفدة (6:104) ” اللہ کی آگ خوب بھڑکائی ہوئی “۔ اس آگ کو اللہ کی آگ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ نادر اور غیر معمولی آگ ہے ، اس سے سننے والے پر ہوش رہاخوف اور دہشت طاری ہوجاتی ہے۔