Surat ul Humaza

Surah: 104

Verse: 3

سورة الهمزة

یَحۡسَبُ اَنَّ مَالَہٗۤ اَخۡلَدَہٗ ۚ﴿۳﴾

He thinks that his wealth will make him immortal.

وہ سمجھتا ہے کہ اس کا مال اس کے پاس سدا رہے گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

He thinks that his wealth will make him last forever! meaning, he thinks that gathering wealth will make him last forever in this abode (the worldly life).

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

3۔ 1 اخلدہ کا زیادہ صحیح ترجمہ یہ ہے کہ " اسے ہمیشہ زندہ رکھے گا " یعنی یہ مال، جسے وہ جمع کر کے رکھتا ہے، اس کی عمر میں اضافہ کر دے گا اور اسے مرنے نہیں دے گا

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣] اس آیت کے دو مطلب ہیں اور دونوں ہی درست ہیں۔ ایک یہ کہ وہ مال کے جمع کرنے میں اس قدر منہمک ہے جیسے اسے کبھی موت آئے گی ہی نہیں۔ اور اس کا مال علاج وغیرہ کے ذریعہ اس کو موت کے منہ سے بچانے کا سبب بن جائے گا اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ وہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ اس کا یہ مال و دولت ہمیشہ اس کے پاس ہی رہے گا۔ حالانکہ دولت ایک ڈھلتی چھاؤں اور آنی جانی چیز ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(یحسب ان مالہ اخلدہ):” خلد یخلد خلوا “ (ن) ہمیشہ رہنا اور ” اخلد یخلد اخلادا “ (افعال) ہمیشہ رہنے والا بنادینا۔” اخلدہ “ ماضی کا صیغہ ہے، اسلئے آیت کا ترجمہ کیا گیا ہے :” وہ گمان کرتا ہے کہ اس کے مال نے اسے ہمیشہ رہنے والا بنادیا۔ “ اس کا طرز عمل بتاتا ہے کہ وہ مال کو موت سے بچانے والا سمجھتا ہے، کیونکہ اتنی عمر ہونے کے باوجود وہ مال جمع ہی کرتا جاتا ہے، نہ اللہ کا حق ادا کرتا ہے نہ بندوں کا ، تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ یہ جمع کیا ہوا مال اسے مرنے نہیں دے گا بلکہ ہمیشہ زندہ رکھے گا۔ ورنہ ساٹھ ستر برس کی عمر میں اپنے لئے کروڑوں اربوں روپے جمع کرنے اور سینکڑوں برس باقی رہنے والی پختہ اور مضبوط عمارتیں بنانے کا اس کے سوا کیا مطلب ہے کہ یہ مال اور عمارتیں اسے ہمیشہ زندہ رکھیں گی۔ ہود (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا تھا :(اتبنون بکل ریح ایۃ تعبثون، وتتخذون مصانع لعلکم تخلدون ) (الشعرائ : ١٢٨، ١٢٩)” کیا تم ہر اونچی جگہ پر ایک یادگار بناتے ہو ؟ اس حال میں کہ لا حاصل کام کرتے ہو۔ اور بڑی بڑی عمارتیں بناتے ہو، شاید کہ تم ہمیشہ رہو گے۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يَحْسَبُ اَنَّ مَالَہٗٓ اَخْلَدَہٗ۝ ٣ ۚ حسب ( گمان) والحِسبةُ : فعل ما يحتسب به عند اللہ تعالی. الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت/ 1- 2] ، أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئاتِ [ العنکبوت/ 4] ، وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم/ 42] ، فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم/ 47] ، أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة/ 214] ( ح س ب ) الحساب اور الحسبة جس کا معنی ہے گمان یا خیال کرنا اور آیات : ۔ الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت/ 1- 2] کیا لوگ یہ خیال کئے ہوئے ہیں ۔ کیا وہ لوگ جو بڑے کام کرتے ہیں یہ سمجھے ہوئے ہیں : وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم/ 42] اور ( مومنو ) مت خیال کرنا کہ یہ ظالم جو عمل کررہے ہیں خدا ان سے بیخبر ہے ۔ فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم/ 47] تو ایسا خیال نہ کرنا کہ خدا نے جو اپنے پیغمبروں سے وعدہ کیا ہے اس کے خلاف کرے گا : أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة/ 214] کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ( یوں ہی ) جنت میں داخل ہوجاؤ گے ۔ خلد الخُلُود : هو تبرّي الشیء من اعتراض الفساد، وبقاؤه علی الحالة التي هو عليها، والخُلُودُ في الجنّة : بقاء الأشياء علی الحالة التي عليها من غير اعتراض الفساد عليها، قال تعالی: أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة/ 82] ، ( خ ل د ) الخلودُ ( ن ) کے معنی کسی چیز کے فساد کے عارضہ سے پاک ہونے اور اپنی اصلی حالت پر قائم رہنے کے ہیں ۔ اور جب کسی چیز میں دراز تک تغیر و فساد پیدا نہ ہو۔ قرآن میں ہے : ۔ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُونَ [ الشعراء/ 129] شاید تم ہمیشہ رہو گے ۔ جنت میں خلود کے معنی یہ ہیں کہ اس میں تمام چیزیں اپنی اپنی اصلی حالت پر قائم رہیں گی اور ان میں تغیر پیدا نہیں ہوگا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة/ 82] یہی صاحب جنت میں ہمشہ اسمیں رہیں گے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

وہ کافر خیال کر رہا ہے کہ اس کا مال دنیا میں اس کے پاس ہمیشہ رہے گا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣{ یَحْسَبُ اَنَّ مَالَہٗٓ اَخْلَدَہٗ ۔ } ” وہ سمجھتا ہے کہ اس کا مال اسے ہمیشہ باقی رکھے گا۔ “ گویا اس کے مال نے اسے زندئہ جاوید کردیا ہے۔ ایک دولت مند آدمی اپنی دولت کے ذریعے دنیا میں ایسے آثار و نقوش چھوڑ کر جانا چاہتا ہے جن کی وجہ سے اس کا نام دنیا میں ہمیشہ رہے۔ انسان کی اسی خواہش نے اسے اہرام مصر جیسے عجائبات کی تخلیق پر مجبور کیا۔ مشہور انگریزی نظم The Pyramids کے ان الفاظ میں انسان کی اسی نفسیات کی عکاسی کی گئی ہے : Calm and self possessed , Still and resolute , ؔPyramids echo into eternity , They defined cry of man&s will To strive & conquer the storms of time.

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

3 Another meaning also can be: "He thinks that his wealth will make him immortal. " That is, he is so engrossed in amassing wealth and counting it over and over again that he has forgotten death and he never bothers to consider that a time will come when he will have to depart from the world empty-handed, leaving everything behind.

سورة الھمزۃ حاشیہ نمبر : 3 دوسرے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ وہ سمجھتا ہے اس کا مال اسے حیات جاوداں بخش دے گا ، یعنی دولت جمع کرنے اور اسے گن گن کر رکھنے میں وہ ایسا منہمک ہے کہ اسے اپنی موت یاد نہیں رہی ہے اور اسے کبھی یہ خیال بھی نہیں آتا کہ ایک وقت اس کو یہ سب کچھ چھوڑ کر خالی ہاتھ دنیا سے رخصت ہوجانا پڑے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

2: جائز طریقے سے مال حاصل کرنا کوئی گناہ نہیں ہے، لیکن اُس کی ایسی محبت کہ ہر وقت اِنسان اُسی کی گنتی میں لگا رہے، اُسے گناہ پر آمادہ کردیتی ہے، اور جب کسی شخص پر مال کی محبت اس طرح سوار ہوجائے تو وہ یہ سمجھتا ہے کہ میری ہر مشکل اسی مال کے ذریعہ آسان ہوگی، اور موت سے غافل ہو کر دُنیا داری کے منصوبے اس طرح بناتا رہتا ہے جیسے یہ مال اسے ہمیشہ زندہ رکھے گا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(104:3) یحسب ان مالہ اخلدہ۔ یہ جملہ محل نصب میں ہے اور جمع کے فاعل سے حال ہے۔ ان حرف تحقیق اور حروف مشبہ بالفعل میں سے ہے مالہ اسم ان اخلدہ اس کی خبر۔ اخلد ماضی کا صیغہ بمعنی مضارع ہے) اخلد وہ سدا رہا۔ اخلاد (افعال) مصدر سے جس کا معنی ہمیشہ رہنے کا ہے۔ ترجمہ ہوگا :۔ وہ خیال کر رہا ہے کہ اس کا مال اس کے پاس سدا رہے گا۔ (تفسیر ماجدی) وہ یہ خیال کرتا ہے کہ اس کا مال اس کے پاس ہمیشہ رہیگا۔ کبھی فناء نہ ہوگا کبھی ختم نہ ہوگا۔ (تفسیر ضیاء القرآن) سورة الکہف میں صاحب الجنۃ کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے۔ قال ما اظن ان تبید ھذہ ابدا (18:35) کہنے لگا میں خیال نہیں کرتا کہ یہ باغ تباہ ہو۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ یعنی اس میں اس قدر انہماک و اشتغال و استغراق رکھتا ہے جیسے معتقد خلود رکھتا ہو اور یہ ظاہر ہے اور ان صفات و اعمال پر یہ خاص وعید اس صورت میں ہے جبکہ منشاء ان کا کفر ہو گو مطلق وعید صفات و افعال مذکورہ پر بھی دوسرے نصوص میں ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(3) وہ یہ سمجھتا ہے کہ اس کا مال اس کے پاس ہمیشہ رہے گا یعنی غایت حرص اور غایت طمع اور بار بار گننا اور سنبھال سنبھال کر رکھنا اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ یہ سمجھ بیٹھا ہے کہ اس کا مال ہمیشہ اس کیساتھ دے گا۔