Surat ul Feel
Surah: 105
Verse: 4
سورة الفيل
تَرۡمِیۡہِمۡ بِحِجَارَۃٍ مِّنۡ سِجِّیۡلٍ ۪ۙ﴿۴﴾
Striking them with stones of hard clay,
جو انہیں مٹی اور پتھر کی کنکریاں مار رہے تھے ۔
تَرۡمِیۡہِمۡ بِحِجَارَۃٍ مِّنۡ سِجِّیۡلٍ ۪ۙ﴿۴﴾
Striking them with stones of hard clay,
جو انہیں مٹی اور پتھر کی کنکریاں مار رہے تھے ۔
Striking them with stones of Sijjil. It is reported from Ubayd bin Umayr that he said, "When Allah wanted to destroy the People of the Elephant, he sent birds upon them that came from sea swallows. Each of the birds was carrying three small stones -- two stones with its feet and one stone in its beak. They came until they gathered in rows over their heads. Then they gave a loud cry and threw what was in their claws and beaks. Thus, no stone fell upon the head of any man except that it came out of his behind (i.e., it went through him), and it did not fall on any part of his body except that it came out from the opposite side. Then Allah sent a severe wind that struck the stones and increased them in force. Thus, they were all destroyed." Concerning Allah's statement, فَجَعَلَهُمْ كَعَصْفٍ مَّأْكُولٍ
4۔ 1 سجیل مٹی کو آگ میں پکا کر اس سے بنائے ہوئے کنکر۔ ان چھوٹے چھوٹے پتھروں یا کنکروں نے توپ کے گولوں اور بندوق کی گولیوں سے زیادہ مہلک کام کیا۔
[٤] سجیل فارسی کے لفظ سنگ گل (بمعنی مٹی کا پتھر) سے معرب ہے۔ یعنی وہ نوکدار کنکریاں جن میں مٹی کی بھی آمیزش ہوتی ہے اور مٹی سے کنکریاں بن رہی ہوتی ہیں۔ [٥] تَرْمِیْھِمْرمی بمعنی کسی چیز کو نشانہ بناکر دور سے پتھر کنکر وغیرہ پھینکنا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ پرندے ان پر کنکر گراتے تھے۔ بلکہ فرمایا نشانہ بناکر پھینک رہے تھے۔ واضح رہے کہ تیر اندازی کے لیے بھی رمی کا لفظ ہی استعمال ہوتا ہے۔ گویا وہ پرندے یا اللہ کے لشکر باقاعدہ ان پر حملہ آور ہوئے تھے۔
(ترمیھم بحجارۃ من سجیل :” سجیل “ کی تفسیر میں ابن عباس (رض) عنہمانے فرمایا :(ھی سنک وکل) (بخاری، التفسیر، باب سورة :(الم تر) ، قبل ح، ٣٩٦٣)” اس سے مراد سنگ و گل ہے۔ ” یعنی پکی ہوئی مٹی جسے کھنگرکہا جاتا ہے۔ لاوا اگلنے والے پہاڑوں کے اردگرد اس قسم کے جلے ہوئے سخت سنگریزے عام ملتے ہیں۔
Verse [ 105:4] بِحِجَارَةٍ مِّن سِجِّيلٍ (...stones of baked clay.) The word sijjil is a compound Persian word, Arabiciszed, made up of two Persian words: sang [ stone ] and gil [ clay ]. They refer to ordinary or common clay rolled into little balls and then baked to harden. These pebbles are not heavy or hard like rocks chipped off mountains. They in themselves did not have any devastating power, but it was Allah who created in these stones the high capability of explosion and blowing-up even more than the bullets of a revolver.
بحجارة من سجیل سجیل بکسر سین سنگ گل کا معرب کیا ہوا لفظ ہے جس کے معنے ہیں ایسی کنکریں جو تر مٹی کو آگ میں پکانے سے بنتی ہے اس میں اشارہ اس طرف ہے کہ یہ کنکریں بھی خود کوئی طاقت نہ رکھتی تھیں معمولی گارے اور آگ سے بنی ہوئی تھیں مگر بقدرت حق سبحانہ، انہوں نے ریوالور کی گولیوں سے زیادہ کام کیا۔
تَرْمِيْہِمْ بِحِـجَارَۃٍ مِّنْ سِجِّيْلٍ ٤ رمی الرَّمْيُ يقال في الأعيان کالسّهم والحجر، نحو : وَما رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلكِنَّ اللَّهَ رَمى [ الأنفال/ 17] ، ويقال في المقال، كناية عن الشّتم کالقذف، نحو : وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْواجَهُمْ [ النور/ 6] ، يَرْمُونَ الْمُحْصَناتِ [ النور/ 4] ، وأَرْمَى فلان علی مائة، استعارة للزّيادة، وخرج يَتَرَمَّى: إذا رمی في الغرض . ( ر م ی ) الرمی ( ض ) کے معنی پھینکنے کے ہیں یہ اجسام ( مادی چیزیں ) جیسے تیر وغیرہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَما رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلكِنَّ اللَّهَ رَمى [ الأنفال/ 17] اے پیغمبر جب تو نے تیر چلائے تو تم نے تیر نہیں چلائے بلکہ اللہ تعالیٰ نے تیر چلائے ۔ اوراقوال کے متعلق استعمال ہو تو |" قذف |" کی طرح اس کے معنی سب و شتم اور تہمت طرازی کے ہوتے ہیں ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْواجَهُمْ [ النور/ 6] جو لوگ اپنی بیبیوں پر ( زنا کا ) عیب لگائیں ۔ وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَناتِ [ النور/ 4] جو لوگ پاکدامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگائیں ۔ محاورہ ہے ارمیٰ علٰی مائۃ : وہ سو سے زائد ہیں ۔ خرج یترمٰی : وہ نکل کر نشانہ بازی کرنے لگا ۔ حجر الحَجَر : الجوهر الصلب المعروف، وجمعه : أحجار وحِجَارَة، وقوله تعالی: وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجارَةُ [ البقرة/ 24] ( ح ج ر ) الحجر سخت پتھر کو کہتے ہیں اس کی جمع احجار وحجارۃ آتی ہے اور آیت کریمہ : وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجارَةُ [ البقرة/ 24] جس کا اندھن آدمی اور پتھر ہوں گے ۔ سجل والسِّجِّيلُ : حجر وطین مختلط، وأصله فيما قيل : فارسيّ معرّب، والسِّجِلُّ : قيل حجر کان يكتب فيه، ثم سمّي كلّ ما يكتب فيه سجلّا، قال تعالی: كطيّ السّجلّ للکتاب [ الأنبیاء/ 104] «6» ، أي : كطيّه لما کتب فيه حفظا له . ( س ج ل ) السجل ۔ السجیل سنگ گل کو کہتے ہیں اور اصل میں جیسا کہ کہا گیا ہے ۔ یہ لفظ فارسی سے معرب ہے بعض نے کہا ہے کہ السجل کے اصل معنی اس پتھر کے ہیں جس پر لکھا جاتا تھا بعد ہ ہر اس چیز کو جس پر لکھا جائے سجل کہنے لگے ہیں ۔ قرآن میں ہے : كطيّ السّجلّ للکتاب [ الأنبیاء/ 104] جیسے خطول کا مکتوب لپیٹ لیا جاتا ہے ۔ یعنی لکھی ہوئی چیزوں کی حفاظت کے لئے اسے لپیٹ کر رکھ دیتے ہیں ۔
آیت ٤{ تَرْمِیْہِمْ بِحِجَارَۃٍ مِّنْ سِجِّیْلٍ ۔ } ” جو ان پر مارتے تھے کنکر کی پتھریاں۔ “ رَمٰی یَرْمِی رَمْیًاکا معنی ہے پھینکنا ‘ مارنا۔ حج کے دوران شیطان کو کنکریاں مارنے کے عمل کو بھی ” رمی جمرات “ کہا جاتا ہے۔ لفظ سِجِّیْلدراصل فارسی ترکیب ” سنگ ِگل “ سے معرب ہے (فارسی کی ” گ “ عربی میں آکر ” ج “ سے بدل گئی ہے) ۔ فارسی میں سنگ بمعنی پتھر اور گل بمعنی مٹی استعمال ہوتا ہے۔ چناچہ سنگ ِگل کے لغوی معنی ہیں مٹی کا پتھر۔ اس سے مراد وہ کنکریاں ہیں جو ریتلی زمین پر ہلکی بارش برسنے اور بعد میں مسلسل تیز دھوپ چمکنے کی وجہ سے وجود میں آتی ہیں۔ یعنی بارش کے ایک ایک قطرے کے ساتھ جو ریت ملی مٹی گیلی ہوجاتی ہے وہ بعد میں مسلسل تیز دھوپ کی حرارت سے پک کر سخت کنکری بن جاتی ہے۔ ابرہہ کے لشکرجرار کو تباہ کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کو کسی غیر معمولی طاقت کے استعمال کی ضرورت نہ پڑی ‘ بلکہ اس نے چھوٹے چھوٹے پرندوں کے ُ جھنڈ بھیج دیے جو ساحل سمندر کی طرف سے امڈ پڑے اور چند لمحوں کی سنگ باری سے اس لشکر کا بھرکس نکال دیا۔ ان میں سے ہر پرندہ تین چھوٹی چھوٹی کنکریاں اٹھائے ہوئے تھا ‘ ایک اپنی چونچ میں اور دو اپنے پنجوں میں ۔
6 Litrerally, bi hijarat-im-min sijjil means "stones of sijjil type." Ibn `Abbas says that sijjil is the Arabic version of the Persian sang and gil, and it implies the stones made from clay and become hard when baked. The Qur'an also confirms the same. In Surah Hud :82 and Al-Hijr: 74, it has been said that stones of baked clay (sijjin were rained on the people of Lot, and about the same stones in Adh-Dhariyat: 33, it has been said that they were the stones made from clay (hijarat-im min tin) . Maulana Hamid-ad-Din Farahi, who in the present age has done valuable work on the research and determination of the meaning and content of the Qur'an regards the people of Makkah and other Arabians as the subject of tarmihim in this .verse, who are the addressees of alam tara. About the birds he says that they were not casting stones but had come to eat the dead bodies of the people of theelephant. A resume of the arguments he has given for this interpretation is that it is not credible that `Abdul Muttalib should have gone before ,Abrahah and demanded his camels instead of pleading for the Ka`bah, and this also is not credible that the people of Quraish and the other Arabs who had come for Hajj, did not resist the invaders and leaving the Ka`bah at their mercy had gone off to the mountains. Therefore, what actually happened was that the Arabs pelted the army of Abrahah with stones, and Allah by sending a stormy wind charged with stones, destroyed it completely; thee the birds were sent to eat the dead bodies of the soldiers. But, as we have already explained in the Introduction, the tradition does not only say that `Abdul Muttalib had gone to demand his camels but it says that he did not demand the camels at all but tried to dissuade Abrahah from attacking the Ka`bah. We have already explained that according to all reliable traditions, Abrahah's army had come in Muharram when the pilgrims had gone back and also it was beyond the power of Quraish and other Arab tribes living in the surrounding areas to resist and fight an army 60,000 strong. They had hardly been able to muster a force ten to twelve thousand strong on the occasion of the Battle of the Trench (Ahzab) with t he help of the Arab pagans and Jewish tribes then how could they have mustered courage to encounter an army, 60,000 strong? However. even if all these arguments are rejected and the sequence of the verses of Surah Al-Fil only is kept in view, this interpretation is seen to go against it. If it were so that the stones were cast by the Arabs and the people of the elephant were rendered as chaff, and then the birds came to eat their dead bodies, the order would be this: "You were pelting them with stones of baked clay, then Allah rendered them as chaff eaten up, and then Allah sent upon them swarms of birds. " but here we see that first Allah has made mention of sending swarms of birds; this is immediately followed by tarmihim bi-hijarat-im min-sijjil (which were pelting them with stones of baked clay) ; and then at the end it is said that Allah made them as straw eaten up.
سورة الفیل حاشیہ نمبر : 6 اصل الفاظ ہیں بِحِـجَارَةٍ مِّنْ سِجِّيْلٍ ، یعنی سجیل کی قسم کے پتھر ۔ ابن عباس فرماتے ہیں کہ یہ لفظ دراصل فارسی کے الفاظ سنگ اور گل کا معرب ہے اور اس سے مراد وہ پتھر ہے جو مٹی کے گارے سے بنا ہو اور پک کر سخت ہوگیا ہو ۔ قرآن مجید سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے ۔ سورہ ہود آیت 82 اور سورہ حجر آیت 74 میں کہا گیا ہے کہ قوم لوط پر سجیل کی قسم کے پتھر برسائے گئے تھے ، اور انہی پتھروں کے متعلق سورہ ذاریات آیت 33 میں فرمایا گیا ہے کہ وہ حجارۃ من طین ، یعنی مٹی کے گارے سے بنے ہوئے پتھر تھے ۔ مولانا حمید الدین فراھی مرحوم ، جنہوں نے عہد حاضر میں قرآن مجید کے معانی و مطالب کی تحقیق پر بڑا قیمتی کام کیا ہے ، اس آیت میں ترمیہم کا فاعل اہل مکہ اور دوسرے اہل عرب کو قرار دیتے ہیں جو الم تر کے مخاطب ہیں ، اور پرندوں کے متعلق فرماتے ہیں کہ وہ سنگریز نہیں پھینک رہے تھے ، بلکہ اس لیے آئے تھے کہ اصحاب الفیل کی لاشوں کو کھائیں ۔ اس تاویل کے لیے جو دلائل انہوں نے دیے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ عبد المطلب کا ابرھہ کے پاس جاکر کعبہ کے بجائے اپنے اونٹوں کا مطالبہ کرنا کسی طرح باور کرنے کے قابل بات نہیں ہے ، اور یہ بات بھی سمجھ میں آنے والی نہیں ہے کہ قریش کے لوگوں اور دوسرے عربوں نے جو حج کے لیے آئے ہوئے تھے ، حملہ آور فوج کا کوئی مقابلہ نہ کیا ہو اور کعبے کو اس کے رحم و کرم پر چھوڑ کر وہ پہاڑوں میں جا چھپے ہوں ۔ اس لیے صورت واقعہ دراصل یہ ہے کہ عربوں نے ابرھہ کے لشکر کو پتھر مارے ، اور اللہ تعالی نے پتھراؤ کرنے والی طوفانی ہوا بھیج کر اس لشکر کا بھرکس نکال دیا ، پھر پرندے ان لوگوں کی لاشیں کھانے کے لیے بھیجے گئے ۔ لیکن جیسا کہ ہم دیباچے میں بیان کرچکے ہیں ، روایت صرف یہی نہیں ہے کہ عبدالمطلب اپنے اونٹوں کا مطالبہ کرنے گئے تھے ، بلکہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے اونٹوں کا کوئی مطالبہ نہیں کیا تھا اور ابرھہ کو خانہ کعبہ پر حملہ کرنے سے باز رکھنے کی کوشش کی تھی ۔ ہم یہ بھی بتا چکے ہیں کہ تمام معتبر روایات کی رو سے ابرھہ کا لشکر محرم میں آیا تھا جبکہ حجاج واپس جا چکے تھے ۔ اور یہ بھی ہم نے بتا دیا ہے کہ 60 ہزار کے لشکر کا مقابلہ کرنا قریش اور آس پاس کے عرب قبائل کے بس کا کام نہ تھا ، وہ تو غزوہ احزاب کے موقع پر بڑی تیاریوں کے بعد مشرکین عرب اور یہودی قبائل کی جو فوج لائے تھے وہ دس بارہ ہزار سے زیادہ نہ تھی ، پھر بھلا وہ 60 ہزار فوج کا مقابلہ کرنے کی کیسے ہمت کرسکتے تھے ۔ تاہم ان ساری دلیلوں کو نظر انداز بھی کردیا جائے اور صرف سورہ فیل کی ترتیب کلام کو دیکھا جائے تو یہ تاویل اس کے خلاف پڑتی ہے ۔ اگر بات یہی ہوتی کہ پتھر عربوں نے مارے ، اور اصحاب فیل بھس بن کر رہ گئے اور اس کے بعد پرندے ان کی لاشیں کھانے کو آئے ، تو کلام کی ترتیب یوں ہوتی کہ تَرْمِيْهِمْ بِحِـجَارَةٍ مِّنْ سِجِّيْلٍ فَجَــعَلَهُمْ كَعَصْفٍ مَّاْكُوْلٍ وَّاَرْسَلَ عَلَيْهِمْ طَيْرًا اَبَابِيْلَ ( تم ان کو پکی ہوئی مٹی کے پتھر مار رہے تھے ، پھر اللہ نے ان کو کھائے ہوئے بھس جیسا کردیا ، اور اللہ نے ان پر جھنڈ کے جھنڈ پرندے بھیج دیے ) لیکن یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ پہلے اللہ تعالی نے پرندوں کے جھنڈ بھیجنے کا ذکر فرمایا ہے ، پھر اس کے متصلا بعد تَرْمِيْهِمْ بِحِـجَارَةٍ مِّنْ سِجِّيْلٍ ( جو ان کو پکی ہوئی مٹی کے پتھر مار رہے تھے ) فرمایا ہے اور آخر میں کہا کہ پھر اللہ نے ان کو کھائے ہوئے بھس جیسا کردیا ۔
(105:4) ترمیہم بحجارۃ من سجیل۔ یہ جملہ طیرا کی صفت ثانی ہے (اول صفت حسب متذکرہ بالا ابابیل ہے) یعنی وہ پرندے اصحاب فیل پر کنکر والے پتھر مار رہے تھے۔ ترمی : مضارع کا صیغہ واحد مؤنث غائب۔ رمی باب ضرب مصدر سے : جس کے معنی پھینکنے کے ہیں۔ لیکن اس کا استعمال اجسام کے متعلق بھی ہوتا ہے مثلاً پتھر پھینکنا، تیر پھینکنا۔ جیسے کہ اور جگہ قرآن مجید میں آیا ہے :َ وما رمیع اذ رمیت ولکن اللہ رمی (8:17) اور (اے محمد) جس وقت تم نے کنکریاں پھینکی تھیں وہ تم نے نہیں پھینکی تھیں بلکہ اللہ نے پھینکی تھیں۔ اور تہمت لگانے کے معنوں میں بھی اس کا استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً والذین یرمون المحصنت (24:4) اور جو لوگ پاکدامن عورتوں کو بدکاری کا عیب لگائیں۔ حجارۃ پتھر۔ حجر کی جمع۔ سجیل اس میں مفسرین کی مختلف ، متعدد اقوال ہیں :۔ (1) بعض کہتے ہیں یہ سنگ گل کا معرب ہے اور سنگ گل (مٹی کا پتھر) وہ ہے جو بھٹی میں پک کر مٹی پتھر بن جاوے جس کو کھنگر کہتے ہیں (2) بعض کہتے ہیں کہ اصل میں سجین تھا۔ ن لام سے بدل گیا جس میں اشارہ ہے کہ وہ کنکریاں اور پتھر معمولی کنکر نہ تھے بلکہ عالم غیب میں اس طبقہ کے تھے کہ جہاں ارواح کفار کو عذاب دیا جاتا ہے ان کنکریوں کی یہ تاثیر تھی کہ جس پر پڑتی تھیں پار نکل جاتی تھیں۔ (3) بعض کہتے ہیں کہ سجل سے مشتق ہے جس کے معنی لکھنے کے ہیں یا لکھی ہوئی چیز یا دفتر۔ جس میں اشارہ ہے کہ وہ کنکریوں ازل میں ان بدبختوں کے لئے لکھی ہوئی تھیں اور یہ ان کے لئے موت کے پروانے یا وارنٹ تھے ہر کنکری پر بخط غیب جس کو اس جہان کے لوگ پڑھ نہیں سکتے لکھا تھا کہ یہ فلاں بن فلاں کے لئے ہے۔ ترمیہم میں ضمیر فاعل طیرا بابیل کی طرف راجع ہے اور ہم ضمیر جمع مذکر غائب اصحاب فیل کے لئے ہے۔
4:۔ ” ترمیہم “ ہر پرندے کی چونچ اور پنجوں میں سخت مٹی کا ایک ایک سنگریزہ تھا جسے وہ ان پر پھینک رہے تھے۔ سجیل، بعض کے نزدیک سنگ گل کا معرب ہے۔ سنگریزے ایسے زور سے برس رہے تھے کہ سر میں لگتے اور نیچے سے جا نکلتے اور ساتھ ہی ان کے گوشت کے ٹکڑے بھی اڑ جاتے۔ ” فجعلہم کعصف ماکول “ یہاں تک کہ ان کو مویشیوں کھائے ہوئے چارے کی مانند کردیا۔ ان کے بدنوں کے اجزاء واعضاء اس طرح چورہ ہوگئے جس طرح مویشیوں کا بچا ہوا چارہ۔ ای جعل اللہ اصحاب الفیل کو رق الزارع اذا اکلتہ الدواب فرمت بہ من اسفل شبہ تقطع اوصالہم بتفرق اجزائہ (قرطبی ج 10 ص 199)
(4) جو ان اصحاب فیل پر کھنگر کی پتھریاں پھینکتے تھے کھنگر کا ذکر حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم کے بارے میں گزر چکا ہے یہ پتھر عام طور پر بنیادوں میں کام آتا ہے پہلے زمانے میں چنائی کا کام بھی اس سے لیا جاتا تھا وہ مٹی جو پتھر کی شکل اختیار کرلیتی ہے ہوسکتا ہے کہ وہ کنکر مراد ہوں جن سے سڑکیں بنائی جاتی ہیں اور جن کا چونا پھونکا جاتا ہے۔