Surat ul Quraish

Surah: 106

Verse: 3

سورة قريش

فَلۡیَعۡبُدُوۡا رَبَّ ہٰذَا الۡبَیۡتِ ۙ﴿۳﴾

Let them worship the Lord of this House,

پس انہیں چاہیے کہ اسی گھر کے رب کی عبادت کرتے رہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

So, let them worship the Lord of this House. meaning, then let them single Him out for worship, just as He has given them a safe sanctuary and a Sacred House. This is as Allah says, إِنَّمَأ أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ رَبِّ هَذِهِ الْبَلْدَةِ الَّذِى حَرَّمَهَا وَلَهُ كُلُّ شَىءٍ وَأُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ I have been commanded only to worship the Lord of this c... ity, Who has sanctified it and to Whom belongs everything. And I am commanded to be from among the Muslims. (27:91) Then Allah says,   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢] لاِ یْلاَفِ میں ابتدائی لام تعلیل کے لیے آیا ہے یعنی چونکہ اللہ نے قریش کے منتشر افراد کو مکہ میں ایک مقام پر اکٹھا کردیا تھا ان میں الفت پیدا کردی تھی اور وہ ایک دوسرے سے مانوس تھے۔ پھر کعبہ کی تولیت بھی ان کے سپرد کردی تھی۔ مزید برآں انہیں گرمی اور سردی کے تجارتی سفروں سے مانوس کردیا تھا لہذا...  انہیں چاہیے کہ وہ اس گھر یعنی کعبہ کے مالک ہی کی عبادت کریں۔ کیونکہ قریش معاشرتی، سیاسی، تمدنی اور تجارتی جو فوائد بھی حاصل کر رہے تھے وہ اس کعبہ کی بدولت ہی حاصل کر رہے تھے۔ لہذا انہیں صرف ایک ہی رب کی عبادت کرنی چاہیے جو اس گھر کا مالک ہے۔ دوسرے معبودوں یا ان تین سو ساٹھ بتوں کی نہیں کرنی چاہیے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Verse [ 106:3] فَلْيَعْبُدُوا رَ‌بَّ هَـٰذَا الْبَيْتِ (they must worship the Lord of this House.) Having mentioned the Divine favors, the Quraish are especially enjoined to express their gratitude to &the Lord of this House&. Here, out of many attributes of Allah, &the Lord of this House& is singled out, because it was this House that became the source and fountain of all blessi... ngs for them.  Show more

فلیعبدوا رب ھذا البیت، انعامات کا ذکر کرنے کے بعد ان کا شکر ادا کرنے کے لئے قریش کو خصوصی خطاب کے ساتھ یہ ہدایت فرمائی کہ اس کے گھر کے مالک کی عبادت کیا کرو۔ اس جگہ اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے رب البیت ہونے کی صفت کو خصوصیت سے اس لئے ذکر فرمایا کہ یہی بیت کعبہ ان کے تمام فضائل اور برکات کا سرچشمہ تھ... ا۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَلْيَعْبُدُوْا رَبَّ ہٰذَا الْبَيْتِ۝ ٣ ۙ عبادت العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] . والعِبَادَةُ ضربان : عِبَادَةٌ بالتّسخیر، وهو كما ذکرنا... ه في السّجود . وعِبَادَةٌ بالاختیار، وهي لذوي النّطق، وهي المأمور بها في نحو قوله : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة/ 21] ، وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء/ 36] . ( ع ب د ) العبودیۃ کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ عبادۃ دو قسم پر ہے (1) عبادت بالتسخیر جسے ہم سجود کی بحث میں ذکر کرچکے ہیں (2) عبادت بالاختیار اس کا تعلق صرف ذوی العقول کے ساتھ ہے یعنی ذوی العقول کے علاوہ دوسری مخلوق اس کی مکلف نہیں آیت کریمہ : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة/ 21] اپنے پروردگار کی عبادت کرو ۔ وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء/ 36] اور خدا ہی کی عبادت کرو۔ میں اسی دوسری قسم کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ هذا ( ذَاكَ ذلك) وأما ( ذا) في (هذا) فإشارة إلى شيء محسوس، أو معقول، ويقال في المؤنّث : ذه وذي وتا، فيقال : هذه وهذي، وهاتا، ولا تثنّى منهنّ إلّا هاتا، فيقال : هاتان . قال تعالی: أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] ، هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] ، هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] ، إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] ، إلى غير ذلك هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] ، هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] ، ويقال بإزاء هذا في المستبعد بالشخص أو بالمنزلة : ( ذَاكَ ) و ( ذلك) قال تعالی: الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] ، ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] ، ذلِكَ أَنْ لَمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى [ الأنعام/ 131] ، إلى غير ذلك . ( ذ ا ) ہاں ھذا میں ذا کا لفظ اسم اشارہ ہے جو محسوس اور معقول چیز کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ ھذہ وھذی وھاتا ۔ ان میں سے سرف ھاتا کا تژنیہ ھاتان آتا ہے ۔ ھذہٰ اور ھٰذی کا تثنیہ استعمال نہیں ہوتا قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تونے مجھ پر فضیلت دی ہے ۔ هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] یہ وہی ہے جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] کہ یہ دونوں جادوگر ہیں ۔ هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] یہی وہ جہنم ہے جس کو تم جھوٹ سمجھتے تھے ۔ هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] یہی وہ جہنم ہے جسے گنہگار لوگ جھٹلاتے تھے ۔ ھذا کے بالمقابل جو چیز اپنی ذات کے اعتبار سے دور ہو یا باعتبار مرتبہ بلند ہو ۔ اس کے لئے ذاک اور ذالک استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] یہ کتاب یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہے ۔ ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] یہ اس لئے کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلاک کردے ۔ بيت أصل البیت : مأوى الإنسان باللیل، قال عزّ وجلّ : فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل/ 52] ، ( ب ی ت ) البیت اصل میں بیت کے معنی انسان کے رات کے ٹھکانہ کے ہیں ۔ کیونکہ بات کا لفظ رات کو کسی جگہ اقامت کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل/ 52] یہ ان کے گھر ان کے ظلم کے سبب خالی پڑے ہیں ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(3 ۔ 4) ان کو چاہیے کہ اس خانہ کعبہ کے رب کو توحید اختیار کریں جس نے سات سالہ قحط کے بعد ان کا پیٹ بھرایا یہ کہ جس نے ان سے بھوک مشقت اور سردی و گرمی کے سفر کی تکلیف کو دور کیا قریش سال میں دو مرتبہ سفر تجارت کیا کرتے تھے سردیوں میں یمن کی طرف اور گرمیوں میں ملک شام کی جانب اور دشمن کے خوف سے ان کو ... امن دیا، یا یہ کہ حبشہ کے بادشاہ کے خف سے ان کو امن دیا۔ شان نزول : لایلف قریش الخ امام حاکم نے حضرت ام ہانی سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے قریش کو سات باتوں میں فضیلت عطا فرمائی چناچہ اسی میں بیان کیا کہ ان کے بارے میں مستقل طور پر سورة قریش نازل ہوئی کہ اس میں ان کے علاوہ اور کسی کا ذکر نہیں۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣{ فَلْیَعْبُدُوْا رَبَّ ہٰذَا الْبَیْتِ ۔ } ” پس انہیں بندگی کرنی چاہیے اس گھر کے رب کی۔ “ ظاہر ہے ان کے جدا مجد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ کا یہ گھر (ع ” دنیا کے بت کدوں میں پہلا وہ گھر خدا کا “ ) توحید کے مرکز کی حیثیت سے تعمیر کیا تھا ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی اولاد کو ا... س گھر کے پہلو میں بساتے وقت توحید کے اعتبار سے ان کی ذمہ داری کا ذکر ان الفاظ میں کیا تھا : لِیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ تاکہ وہ اللہ کی بندگی کے طور پر نماز قائم کریں۔ چناچہ چاہیے تو یہ تھا کہ جس کعبہ کی تولیت کی وجہ سے انہیں خوشحالی اور عزت ملی تھی وہ اس گھر کے مالک کو پہچانتے اور اس کا حق ادا کرتے ۔ لیکن اس کے برعکس انہوں نے اللہ کے اس گھر میں ٣٦٠ بت نصب کرکے اسے دنیا کے سب سے بڑے بت کدے میں تبدیل کردیا اور اس کے اصل مالک کو بالکل ہی فراموش کردیا۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

3 "This House": the Holy Ka'bah. The sentence means that the Quraish have attained to this blessing only by virtue of the House of Allah. They themselves acknowledge that the 360 idols, which they worship, are not its lord, but Allah alone is its Lord. He alone saved them from the invasion of the army of elephants. Him alone they had invoked for help against Abrahah's army. 'It was His House the k... eeping of which enhanced their rank and position in Arabia, for before that they were dispersed and commanded no position whatever. Like the common Arab tribes they too were scattered factions of a race. But when they rallied round this House in Makkah and began to serve it, they became, honourable throughout Arabia, and their trade caravans began to visit every part of the country fearlessly. Therefore, whatever they have achieved, it has been possible only by the help of the Lord of this House; therefore, they should worship Him alone.  Show more

سورة القریش حاشیہ نمبر : 3 اس گھر سے مراد خانہ کعبہ ہے اور اللہ تعالی کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ قریش کو یہ نعمت اسی گھر کی بدولت حاصل ہوئی ہے ، اور وہ خود مانتے ہیں کہ وہ 360 بت اس کے رب نہیں ہیں جن کی یہ پوجا کر رہے ہیں ، بلکہ صرف اللہ ہی اس کا رب ہے ۔ اسی نے ان کو اصحاب فیل کے حملے سے بچایا ۔ ...  اسی سے انہوں نے ابرھہ کی فوج کے مقابلے میں مدد کی دعا کی تھی ۔ اس کے گھر کی پناہ میں آنے سے پہلے جب وہ عرب میں منتشر تھے تو ان کی کوئی حیثیت نہ تھی ۔ عرب کے عام قبائل کی طرح وہ بھی ایک نسل کے بکھرے ہوئے گروہ تھے ۔ مگر جب وہ مکہ میں اس گھر کے گرد جمع ہوئے اور اس کی خدمت انجام دینے لگے تو سارے عرب میں محترم ہوگئے ۔ اور ہر طرف ان کے تجارتی قافلے بے خوف و خطر آنے جانے لگے ۔ پس انہیں جو کچھ بھی نصیب ہوا ہے اس گھر کے رب کی بدولت نصیب ہوا ہے ، اس لیے اسی کی ان کو عبادت کرنی چاہیے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(106:3) فلیعبدوا۔ فعل امر کا صیغہ جمع مذکر غائب۔ عبادۃ (باب نصر) مصدر سے چاہیے کہ وہ عبادت کریں۔ رب ھذا البیت : ھذا اسم اشارہ۔ البیت مشار الیہ۔ دونوں مل کر مضاف الیہ۔ رب مضاف۔ (مفعول فعل لیعبدوا کا) اس گھر کے رب کی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

3:۔ ” فلیعبدوا “ بیت اللہ کی بدولت ان کو یہ تمام عزت و شرف حاصل ہے۔ اس لیے اس گھر کے مالک کو ان کی عبادت کرنی چاہیے اور اس کی عبادت میں کسی کو شریک نہیں کرنا چاہیے۔ ” الذی اطعمہم “ صرف اس خدا کی عبادت کریں جس نے ان کے لیے رزق کے اسباب مہیا کیے موسم سرما میں ایک طرف سے کماتے ہیں اور موسم گرما میں دوس... ری طرف سے اور اس نے ان کو بہت خطرے سے محفوظ رکھا یعنی اصحاب الفیل کے حملے سے یا مطلق خوف دشمن مراد ہے۔ بیت اللہ کے ادب و احترام کی وجہ سے حدود حرم میں کوئی ان پر حملہ آور نہیں ہوتا۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(3) ان کو چاہیے کہ اس خانہ کعبہ کے مالک کی عبادت کریں۔ یعنی اسی نعمت کے شکریہ میں ان کو ان کا سفر سے مانوس کیا بلکہ سفر کرنے اور روزی کمانے کا طریقہ تعلیم کیا ۔ اس کے شکریہ میں اس گھر یعنی کعبے کے مالک کی عبادت اور اس کی بندگی بجا لائیں۔ رب ھذا البیت کی مزید تشریح ہے۔